Surat Faatir

Surah: 35

Verse: 42

سورة فاطر

وَ اَقۡسَمُوۡا بِاللّٰہِ جَہۡدَ اَیۡمَانِہِمۡ لَئِنۡ جَآءَہُمۡ نَذِیۡرٌ لَّیَکُوۡنُنَّ اَہۡدٰی مِنۡ اِحۡدَی الۡاُمَمِ ۚ فَلَمَّا جَآءَہُمۡ نَذِیۡرٌ مَّا زَادَہُمۡ اِلَّا نُفُوۡرَۨا ﴿ۙ۴۲﴾

And they swore by Allah their strongest oaths that if a warner came to them, they would be more guided than [any] one of the [previous] nations. But when a warner came to them, it did not increase them except in aversion.

اور ان کفار نے بڑی زور دار قسم کھائی تھی کہ اگر ان کے پاس کوئی ڈرانے والا آئے تو وہ ہر ایک امت سے زیادہ ہدایت قبول کرنے والے ہوں ۔ پھر جب ان کے پاس ایک پیغمبر آپہنچے تو بس ان کی نفرت ہی میں اضافہ ہوا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

They longed for a Warner to come, but when He came, They disbelieved in Him Allah tells; وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ ... And they swore by Allah their most binding oath Allah tells us how Quraysh and the Arabs swore by Allah their most binding oath before the Messenger came to them, ... لَيِن جَاءهُمْ نَذِيرٌ لَّيَكُونُنَّ أَهْدَى مِنْ إِحْدَى الاُْمَمِ ... that if a warner came to them, they would be more guided than any of the nations; i.e., than any of the nations to whom Messengers had been sent. This was the view of Ad-Dahhak and others. This is like the Ayat: أَن تَقُولُواْ إِنَّمَأ أُنزِلَ الْكِتَـبُ عَلَى طَأيِفَتَيْنِ مِن قَبْلِنَا وَإِن كُنَّا عَن دِرَاسَتِهِمْ لَغَـفِلِينَ أَوْ تَقُولُواْ لَوْ أَنَّأ أُنزِلَ عَلَيْنَا الْكِتَـبُ لَكُنَّأ أَهْدَى مِنْهُمْ فَقَدْ جَأءَكُمْ بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَذَّبَ بِأيَـتِ اللَّهِ وَصَدَفَ عَنْهَا Lest you (pagan Arabs) should say: "The Book was sent down only to two sects before us, and for our part, we were in fact unaware of what they studied." Or lest you should say: "If only the Book had been sent down to us, we would surely have been better guided than they." So, now has come unto you a clear proof from your Lord, and a guidance and a mercy. Who then does more wrong than one who rejects the Ayat of Allah and turns away therefrom! (6:156-157) وَإِن كَانُواْ لَيَقُولُونَ لَوْ أَنَّ عِندَنَا ذِكْراً مِّنَ الاٌّوَّلِينَ لَكُنَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ فَكَفَرُواْ بِهِ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ And indeed they (Arab pagans) used to say: "If we had a reminder as had the men of old, We would have indeed been the chosen servants of Allah!" But they disbelieve therein, so they will come to know! (37:167-170) Allah says: ... فَلَمَّا جَاءهُمْ نَذِيرٌ ... yet when a warner came to them, -- meaning, Muhammad with the Book revealed to him, i.e., the Clear Qur'an, ... مَّا زَادَهُمْ إِلاَّا نُفُورًا it increased in them nothing but flight (from the truth). means, they only increased in their disbelief. Then Allah explains this further:

قسمیں کھا کر مکرنے والے ظالم ۔ قریش نے اور عرب نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے بڑی سخت قسمیں کھا رکھی تھیں کہ اگر اللہ کا کوئی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں آئے تو ہم تمام دنیا سے زیادہ اس کی تابعداری کریں گے ۔ جیسے اور جگہ فرمان ہے ( اَنْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اُنْزِلَ الْكِتٰبُ عَلٰي طَاۗىِٕفَتَيْنِ مِنْ قَبْلِنَا ۠ وَاِنْ كُنَّا عَنْ دِرَاسَتِهِمْ لَغٰفِلِيْنَ ١٥٦؀ۙ ) 6- الانعام:156 ) ، یعنی اس لئے کہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہم سے پہلے کی جماعتوں پر تو البتہ کتابیں اتریں ۔ لیکن ہم تو ان سے بےخبر ہی رہے ۔ اگر ہم پر کتاب اترتی تو ہم ان سے بہت زیادہ راہ یافتہ ہو جاتے ۔ تو لو اب تو خود تمہارے پاس تمہارے رب کی بھیجی ہوئی دلیل آ پہنچی ہدایت و رحمت خود تمہارے ہاتھوں میں دی جا چکی اب بتاؤ کہ رب کی آیتوں کی تکذیب کرنے والوں اور ان سے منہ موڑنے والوں سے زیادہ ظالم کون ہے ؟ اور آیتوں میں ہے کہ یہ کہا کرتے تھے کہ اگر ہمارے اپنے پاس اگلے لوگوں کے عبرتناک واقعات ہوتے تو ہم تو اللہ کے مخلص بندے بن جاتے ۔ لیکن پھر بھی انہوں نے اس کے ان کے پاس آچکنے کے بعد کفر کیا اب انہیں عنقریب اس کا انجام معلوم ہو جائے گا ۔ ان کے پاس اللہ کے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور رب کی آخری اور افضل تر کتاب آ چکی لیکن یہ کفر میں اور بڑھ گئے ، انہوں نے اللہ کی باتیں ماننے سے تکبر کیا خود نہ مان کر پھر اپنی مکاریوں سے اللہ کے دوسرے بندوں کو بھی اللہ کی راہ سے روکا ۔ لیکن انہیں باور کر لینا چاہئے کہ اس کا وبال خود ان پر پڑے گا ۔ یہ اللہ کا نہیں البتہ اپنا بگاڑ رہے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مکاریوں سے پرہیز کرو مکر کا بوجھ مکار پر ہی پڑتا ہے اور اس کی جواب دہی اللہ کے ہاں ہو گی ۔ حضرت محمد بن کعب قرظی فرماتے ہیں کہ تین کاموں کا کرنے والا نجات نہیں پا سکتا ، ان کاموں کا وبال ان پر یقینا آئے گا ، مکر ، بغاوت اور وعدوں کو توڑ دینا پھر آپ نے یہی آیت پڑھی ، انہیں صرف اسی کا انتظار ہے جو ان جیسے ان پہلے گزرنے والوں کا حال ہوا کہ اللہ کے رسولوں کی تکذیب اور فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی وجہ سے اللہ کے دائمی عذب ان پر آ گئے ۔ پس یہ تو اللہ تعالیٰ کی عادت ہی ہے اور تو غور کر ۔ رب کی عادت بدلتی نہیں نہ پلٹتی ہے ۔ جس قوم پر عذاب کا ارادہ ہو چکا پھر اس ارادے کے بدلنے پر کوئی قدرت نہیں رکھتا کہ ان پر سے عذاب ہٹیں نہ وہ ان سے بچیں ۔ نہ کوئی انہیں گھما سکے ۔ واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

42۔ 1 اس میں اللہ تعالیٰ بیان فرما رہا ہے کہ بعث محمدی سے قبل یہ مشرکین عرب قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ اگر ہماری طرف کوئی رسول آیا، تو ہم اس کا خیر مقدم کریں گے اور اس پر ایمان لانے میں ایک مثالی کردار ادا کریں گے۔ یہ مضمون دیگر مقامات پر بھی بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً (اَنْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اُنْزِلَ الْكِتٰبُ عَلٰي طَاۗىِٕفَتَيْنِ مِنْ قَبْلِنَا ۠ وَاِنْ كُنَّا عَنْ دِرَاسَتِهِمْ لَغٰفِلِيْنَ 156؀ۙ اَوْ تَقُوْلُوْا لَوْ اَنَّآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا الْكِتٰبُ لَكُنَّآ اَهْدٰي مِنْهُمْ ۚ فَقَدْ جَاۗءَكُمْ بَيِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَّرَحْمَةٌ ۚ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَّبَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَصَدَفَ عَنْهَا ۭ سَنَجْزِي الَّذِيْنَ يَصْدِفُوْنَ عَنْ اٰيٰتِنَا سُوْۗءَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوْا يَصْدِفُوْنَ 157؁) 6 ۔ الانعام :157-156) (ثُمَّ اِنَّ مَرْجِعَهُمْ لَا۟اِلَى الْجَحِيْمِ ) 37 ۔ الصافات :68) ۔ (فَكَفَرُوْا بِهٖ فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ ) 37 ۔ الصافات :170) 42۔ 2 یعنی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پاس نبی بن کر آگئے جن کے لئے وہ تمنا کرتے تھے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٤٨] مشرکین مکہ کا یہ قول کہ اگر نبی ہم میں آتا تو ہم تم سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوتے :۔ آپ کی بعثت سے پہلے کفار مکہ جب یہود و نصاریٰ کی بگڑی ہوئی اخلاقی حالت کو دیکھتے تھے تو ان سے بڑھ چڑھ کر باتیں بناتے اور قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ اگر ہمارے پاس بھی کوئی پیغمبر آیا ہوتا جو ہماری رہنمائی کرتا تو ہم یقینا ً ہر لحاظ سے تم سے بہتر ہوتے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے ان میں اپنا نبی مبعوث فرما دیا اور انہیں یہ معلوم ہوا کہ اب انہیں اپنی اپنی سرداریوں اور چودھراہٹوں سے دستبردار ہو کر اس نبی کا مطیع فرمان بن کر رہنا پڑے گا تو اکڑ بیٹھے۔ انہیں یہود و نصاریٰ کے سامنے کئے ہوئے قول وقرار بھول بھلا گئے۔ اور اپنی سرداریوں اور چودھراہٹوں کو تحفظ دینے کی خاطر الٹا نبی کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے اور برابر ایسی کوششوں میں لگ گئے کہ اس ڈرانے والے نبی اور اس کے متبعین پر عرصہ حیات تنگ کردیا۔ پھر اس سلسلہ میں انہوں نے ظاہری مخالفت کے علاوہ خفیہ سازشوں کے بھی کئی جال پھیلائے۔ مگر اللہ تعالیٰ اپنے نبی اور اپنے ایمانداروں کی مدد پر تھا۔ لہذا جو چال بھی وہ چلتے انہی پر الٹی پڑتی تھی۔ جس کے نتیجہ میں وہ خود ہی ذلیل و رسوا ہوتے رہے اور ان کی ہزار مخالفتوں کے باوجود اسلام کو غلبہ اور سربلندی حاصل ہوتی گئی۔ اور جوں جوں اسلام کو سربلندی ہوتی تو وہ اپنے بغض، نفرت اور عناد کی وجہ سے اور زیادہ چڑ جاتے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاَقْسَمُوْا باللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ ۔۔ : مشرکین کے کفر اور ناشکری کا اظہار شرک کی صورت میں بھی ہوتا تھا اور پیغمبر کو جھٹلانے کی صورت میں بھی، چناچہ شرک کی تردید کے بعد پیغمبر کو جھٹلانے کی صورت میں ان کی ناشکری کا ذکر فرمایا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری سے پہلے مشرکین مکہ کی سفر کے دوران میں عرب کے دوسرے شہروں مثلاً یثرب اور خیبر وغیرہ میں یا دوسرے ملکوں مثلاً شام وغیرہ میں اہل کتاب سے ملاقات ہوتی تو وہ ان کی بت پرستی اور دوسری جہالتوں پر طعن کرتے، تو یہ اس کے جواب میں کہتے کہ تم لوگوں کے پاس تو اللہ کے رسول اور اس کی کتابیں آئیں، اگر ہمارے پاس کوئی پیغمبر آیا تو ہم کسی بھی امت سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوں گے، اور اپنی اس بات پر پکی سے پکی جو قسم وہ کھا سکتے تھے کھاتے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا : (اَنْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اُنْزِلَ الْكِتٰبُ عَلٰي طَاۗىِٕفَتَيْنِ مِنْ قَبْلِنَا ۠ وَاِنْ كُنَّا عَنْ دِرَاسَتِهِمْ لَغٰفِلِيْنَ اَوْ تَقُوْلُوْا لَوْ اَنَّآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا الْكِتٰبُ لَكُنَّآ اَهْدٰي مِنْهُمْ ۚ فَقَدْ جَاۗءَكُمْ بَيِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَّرَحْمَةٌ ۚ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَّبَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَصَدَفَ عَنْهَا ۭ سَنَجْزِي الَّذِيْنَ يَصْدِفُوْنَ عَنْ اٰيٰتِنَا سُوْۗءَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوْا يَصْدِفُوْنَ ) [ الأنعام : ١٥٦، ١٥٧ ] ” ایسا نہ ہو کہ تم کہو کہ کتاب تو صرف ان دو گروہوں پر اتاری گئی جو ہم سے پہلے تھے اور بیشک ہم ان کے پڑھنے پڑھانے سے یقیناً بیخبر تھے۔ یا یہ کہو کہ اگر ہم پر کتاب اتاری جاتی تو ہم ان سے زیادہ ہدایت والے ہوتے۔ پس بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل اور ہدایت اور رحمت آچکی، پھر اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ کی آیات کو جھٹلائے اور ان سے کنارا کرے۔ “ اور جیسا کہ فرمایا : (وَاِنْ كَانُوْا لَيَقُوْلُوْنَ لَوْ اَنَّ عِنْدَنَا ذِكْرًا مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ لَكُنَّا عِبَاد اللّٰهِ الْمُخْلَصِيْنَ فَكَفَرُوْا بِهٖ فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ ) [ الصافات : ١٦٧ تا ١٧٠ ] ” اور بیشک وہ (کافر) تو کہا کرتے تھے۔ اگر ہمارے پاس پہلے لوگوں کی کوئی نصیحت ہوتی۔ تو ہم ضرور اللہ کے چنے ہوئے بندے ہوتے۔ تو انھوں نے اس کا انکار کردیا، سو جلد ہی جان لیں گے۔ “ ۚ فَلَمَّا جَاۗءَهُمْ نَذِيْرٌ مَّا زَادَهُمْ اِلَّا نُفُوْرَۨا : تو جب ان کے پاس ڈرانے والا آیا تو بجائے اس کے کہ وہ کسی بھی امت سے زیادہ ہدایت قبول کرتے، وہ اپنے کفر و شرک پر اڑے رہے، بلکہ رسول کی آمد نے ان کے بدکنے اور دور بھاگنے میں اضافہ ہی کیا اور وہ پہلے سے بھی زیادہ ہدایت سے دور ہوگئے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر اور ان کفار (قریش) نے (قبل بعثت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، بڑی زور دار قسم کھائی تھی کہ اگر ان کے (یعنی ہمارے) پاس کوئی ڈرانے والا (یعنی پیغمبر) آئے تو وہ (یعنی ہم) ہر ہر امت سے زیادہ ہدایت قبول کرنے والے ہوں (یعنی یہود و نصاریٰ وغیرہ کی طرح ہم تکذیب نہ کریں گے سو پہلے سے تو یہ قسمیں کھایا کرتے تھے) پھر جب ان کے پاس ایک پیغمبر (یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپہنچے تو اب ان کی نفرت ہی کو ترقی ہوئی دنیا میں اپنے کو بڑا سمجھنے کی وجہ سے اور (صرف نصرت ہی پر اکتفا نہیں ہوا بلکہ) ان کی بری تدبیروں کو (بھی ترقی ہوئی، یعنی تکبر کی وجہ سے آپ کے اتباع سے عار تو ہوئی ہی تھی، مگر یہ بھی نہ کیا کہ نہ اتباع ہوتا اور نہ درپے آزار ہوتے، بلکہ آپ کی ایذاء رسانی کی فکر میں لگ گئے۔ چناچہ ہر وقت ان کا اسی میں لگا رہنا معلوم و مشہور ہے) اور (یہ جو کچھ ہمارے رسول کے لئے بری بری تدبیریں کر رہے ہیں خود اپنا ہی ضرر کر رہے ہیں، کیونکہ) بری تدبیروں کا وبال (حقیقی) ان تدبیر والوں پر ہی پڑتا ہے (گو ظاہر میں کبھی اس شخص کو بھی ضرر پہنچ جائے جس کو ضرر پہنچانا چاہا ہے، لیکن وہ ضرر دنیوی ہے بخلاف ظالم ضرر رساں کے اس پر اخروی ضرر و وبال پڑے گا اور دنیوی ضرر اخروی ضرر کے سامنے لا شے ہے۔ پس اس ضرر حقیقی کے اعتبار سے حصر بالکل واقعی ہے) سو (یہ جو آپ کی عداوت اور ضرر رسانی پر مصر ہیں تو) کیا یہ (اپنے ساتھ بھی حق تعالیٰ کے) اسی دستور کے منتظر ہیں جو اگلے (کافر) لوگوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے (یعنی عذاب و ہلاکت) سو (واقعی ان کے لئے بھی یہی ہونا ہے کیونکہ) آپ خدا کے (اس) دستور کو کبھی بدلتا ہوا نہ پائیں گے (کہ ان پر بجائے عذاب کے عنایت ہونے لگے) اور (اسی طرح) آپ خدا کے (اس) دستور کو بھی منتقل ہوتا ہوا نہ پاویں گے (کہ ان کی جگہ دوسروں کو جو ایسے نہ ہوں عذاب ہونے لگے مطلب یہ کہ حق تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ کافروں کو عذاب ہوگا، خواہ دنیا میں بھی خواہ صرف آخرت میں، اور حق تعالیٰ کا وعدہ ہمیشہ سچا ہوتا ہے۔ پس نہ یہ احتمال ہے کہ ان کو عذاب نہ ہو اور نہ یہ احتمال کہ دوسرے بےگناہوں کو عذاب ہونے لگے۔ مقصود اس تکریر سے تاکید ہے وقوع عذاب کی) اور (یہ جو سمجھتے ہیں کہ کفر موجب تعذیب نہیں ہے تو ان کی بڑی غلطی ہے) کیا یہ لوگ زمین میں (مثلاً شام اور یمن کے سفروں میں عاد وثمود قوم لوط (علیہ السلام) کی بستیوں میں) چلے پھرے نہیں جس میں دیکھتے بھالتے کہ جو (منکر) لوگ ان سے پہلے ہو گزرے ہیں ان کا (آخری) انجام (اسی تکذیب کے سبب) کیا ہوا (کہ معذب ہوئے) حالانکہ وہ قوت میں ان سے بڑھے ہوئے تھے اور (کسی میں خواہ کیسی ہی قوت ہو لیکن) خدا ایسا نہیں ہے کہ کوئی چیز (قوت والی) اس کو ہرا دے نہ آسمان میں اور نہ زمین میں (کیونکہ) وہ بڑے علم والا (اور) بڑی قدرت والا ہے (پس علم سے اپنے ہر ارادہ کے نافذ کرنے کا طریقہ جانتا ہے، اور اپنی قدرت سے اس کو نافذ کرسکتا ہے، اور دوسرا کوئی ایسا ہے نہیں۔ پھر اس کو کون چیز ہرا سکتی ہے) اور (اگر یہ اس دھوکہ میں ہوں کہ اگر ہم کو عذاب ہونا ہوتا تو ہو چکتا، اور اس سے اپنے شرک و کفر کے اچھے ہونے پر استدلال کریں تو یہ بھی ان کی غلطی ہے، کیونکہ بمقتضائے حکمت ان کے لئے فوری عذاب تجویز نہیں کیا گیا ورنہ) اگر اللہ تعالیٰ (ان) لوگوں پر ان کے اعمال (کفریہ) کے سبب (فوراً ) داردگیر فرمانے لگتا تو روئے زمین پر ایک متنفس کو نہ چھوڑتا، (کیونکہ کفار تو کفر سے ہلاک ہوجاتے اور اہل ایمان بوجہ قلت کے دنیا میں نہ رکھے جاتے۔ کیونکہ نظام عالم بمقتضائے حکمت مجموعہ کے ساتھ وابستہ ہے اور یہ ضروری نہیں کہ وہ اسی عذاب سے ہلاک ہوتے۔ اور دوسری مخلوقات اس لئے کہ مقصود ان کی تخلیق کا انتفاع بنی آدم ہے، جب یہ نہ ہوتے تو وہ بھی نہ رہتے) لیکن اللہ تعالیٰ ان کو ایک میعاد معین (یعنی قیامت) تک مہلت دے رہا ہے، سو جب ان کی وہ میعاد آپہنچے گی (اس وقت) اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آپ دیکھ لے گا (یعنی ان میں جو کفار ہوں گے ان کو سزا دے لے گا) ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَقْسَمُوْا بِاللہِ جَہْدَ اَيْمَانِہِمْ لَىِٕنْ جَاۗءَہُمْ نَذِيْرٌ لَّيَكُوْنُنَّ اَہْدٰى مِنْ اِحْدَى الْاُمَمِ۝ ٠ ۚ فَلَمَّا جَاۗءَہُمْ نَذِيْرٌ مَّا زَادَہُمْ اِلَّا نُفُوْرَۨا۝ ٤٢ۙ قْسَمَ ( حلف) حلف، وأصله من الْقَسَامَةُ ، وهي أيمان تُقْسَمُ علی أولیاء المقتول، ثم صار اسما لكلّ حلف . قال : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام/ 109] ، أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف/ 49] ، وقال : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة/ 1- 2] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] ، إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم/ 17] ، فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة/ 106] اقسم ( افعال کے معنی حلف اٹھانے کے ہیں یہ دروصل قسامۃ سے مشتق ہے اور قسیا مۃ ان قسموں کو کہا جاتا ہے جو او لیائے مقتول پر تقسیم کی جاتی ہیں پھر مطلق کے معنی استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام/ 109] اور یہ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں ۔ أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف/ 49] کیا یہ وہی لوگ ہیں جن کے مارے میں تم قسمیں کھایا کرتی تھے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة/ 1- 2] ہم کو روز قیامت کی قسم اور نفس لوامہ کی ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] ہمیں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم ۔ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم/ 17] جب انہوں نے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ ہم صبح ہوتے اس کا میوہ توڑلیں گے ۔ فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة/ 106] اور دونوں خدا کی قسمیں کھائیں ۔ ماسمعتہ وتقاسما باہم قسمیں اٹھانا ۔ قرآن میں ہے : وَقاسَمَهُما إِنِّي لَكُما لَمِنَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف/ 21] اور ان کی قسم کھاکر کہا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں ۔ جهد الجَهْدُ والجُهْد : الطاقة والمشقة، وقیل : الجَهْد بالفتح : المشقة، والجُهْد : الوسع . وقیل : الجهد للإنسان، وقال تعالی: وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة/ 79] ، وقال تعالی: وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] ، أي : حلفوا واجتهدوا في الحلف أن يأتوا به علی أبلغ ما في وسعهم . والاجتهاد : أخذ النفس ببذل الطاقة وتحمّل المشقة، يقال : جَهَدْتُ رأيي وأَجْهَدْتُهُ : أتعبته بالفکر، والجِهادُ والمجاهدة : استفراغ الوسع في مدافعة العدو، والجِهَاد ثلاثة أضرب : - مجاهدة العدو الظاهر . - ومجاهدة الشیطان . - ومجاهدة النفس . وتدخل ثلاثتها في قوله تعالی: وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج/ 78] ، وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 41] ، إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال/ 72] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «جاهدوا أهواء کم کما تجاهدون أعداء کم» «1» . والمجاهدة تکون بالید واللسان، قال صلّى اللہ عليه وسلم «جاهدوا الکفار بأيديكم وألسنتکم» «2» . ( ج ھ د ) الجھد والجھد کے معنی وسعت و طاقت اور تکلف ومشقت کے ہیں ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ الجھد ( فتح جیم کے معنی مشقت کے ہیں اور الجھد ( ( بضم جیم ) طاقت اور وسعت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ الجھد کا لفظ صرف انسان کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة/ 79] اور جنہیں اپنی محنت ومشقت ( کی کمائی ) کے سوا کچھ میسر نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] کے معنی یہ ہیں کہ وہ بڑی زور زور سے قسمیں کھاکر کہتے ہیں کے وہ اس میں اپنی انتہائی کوشش صرف کریں گے الاجتھاد ( افتعال ) کے معنی کسی کام پر پوری طاقت صرف کرنے اور اس میں انتہائی مشقت اٹھانے پر طبیعت کو مجبور کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے میں نے غور ومحکر سے اپنی رائے کو مشقت اور تعب میں ڈالا ۔ الجھاد والمجاھدۃ دشمن کے مقابلہ اور مدافعت میں اپنی انتہائی طاقت اور وسعت خرچ کرنا اور جہا دتین قسم پر ہے ( 1 ) ظاہری دشمن یعنی کفار سے جہاد کرنا ( 2 ) شیطان اور ( 3 ) نفس سے مجاہدہ کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج/ 78] کہ اللہ کی راہ میں پوری طرح جہاد کرو ۔۔۔۔۔ تینوں قسم جہاد پر مشتمل ہے ۔ نیز فرمایا :۔ وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 41] کہ خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرو ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال/ 72] جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑ گئے اور خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرتے رہے ۔ اور حدیث میں ہے (66) کہ جس طرح اپنے دشمن سے جہاد کرتے ہو اسی طرح اسی خواہشات سے بھی جہاد کیا کرو ۔ اور مجاہدہ ہاتھ اور زبان دونوں کے ساتھ ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا (67) کہ کفار سے ہاتھ اور زبان دونوں کے ذریعہ جہاد کرو ۔ يَمِينُ ) قسم) في الحلف مستعار من الید اعتبارا بما يفعله المعاهد والمحالف وغیره . قال تعالی: أَمْ لَكُمْ أَيْمانٌ عَلَيْنا بالِغَةٌ إِلى يَوْمِ الْقِيامَةِ [ القلم/ 39] ، وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] ، لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة/ 225] ، وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ [ التوبة/ 12] ، إِنَّهُمْ لا أَيْمانَ لَهُمْ [ التوبة/ 12] وقولهم : يَمِينُ اللهِ ، فإضافته إليه عزّ وجلّ هو إذا کان الحلف به . ومولی اليَمِينِ : هو من بينک وبینه معاهدة، وقولهم : ملك يَمِينِي أنفذ وأبلغ من قولهم : في يدي، ولهذا قال تعالی: مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور/ 33] وقوله صلّى اللہ عليه وسلم آله : «الحجر الأسود يَمِينُ اللهِ» «1» أي : به يتوصّل إلى السّعادة المقرّبة إليه . ومن اليَمِينِ : تُنُووِلَ اليُمْنُ ، يقال : هو مَيْمُونُ النّقيبة . أي : مبارک، والمَيْمَنَةُ : ناحيةُ اليَمِينِ. الیمین بمعنی دایاں ہاتھ سے استعارہ کے طور پر لفظ یمین قسم کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اس لئے کہ عرب قسم کھاتے یا عہد کرتے وقت اپنا دایاں ہاتھ دوسرے کے دائیں ہاتھ پر مارتے تھے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَمْ لَكُمْ أَيْمانٌ عَلَيْنا بالِغَةٌ إِلى يَوْمِ الْقِيامَةِ [ القلم/ 39] یا تم نے ہم سے قسمیں لے رکھی ہیں جو قیامت کے دن چلی جائیں گی ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] اور یہ لوگ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں ۔ لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة/ 225] خدا تمہاری لغو قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا ۔ وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ [ التوبة/ 12] اگر عہد کرن کے بعد اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں ۔ ان کی قسموں کا کچھ اعتبار نہیں ۔ اور عربی محاورہ ویمین اللہ ( اللہ کی قسم ) میں) یمین کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف اس لئے کی جاتی ہے ۔ کہ قسم کھانے والا اللہ کے نام کی قسم کھاتا ہے ۔ اور جب ایک شخص دوسرے سے عہدو پیمان باندھتا ہے تو وہ اس کا موالی الیمین کہلاتا ہے اور کسی چیز پر ملک اور قبضہ ظاہر کرنے کے لئے فی یدی کی نسبت ملک یمینی کا محاورہ زیادہ بلیغ ہے ۔ اسی بنا پر غلام اور لونڈیوں کے بارے میں قرآن نے اس محاورہ کی اختیار کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور/ 33] جو تمہارے قبضے میں آگئی ہوں ۔ اور حدیث میں حجر اسود کی یمین اللہ کہا گیا ہے (132) کیونکہ اس کے ذریعہ قرب الہی کی سعادت حاصل کی جاتی ہے ۔ یمین سے یمن کا لفظ ماخوذ ہے جو خیروبرکت کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ محاورہ ہے ۔ ھومیمون ۔ النقیبۃ وہ سعادت مند ہے اور میمنۃ کے معنی دائیں جانب بھی آتے ہیں ۔ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ النذیر والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذیر النذیر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ الأُمّة : كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام/ 38] الامۃ ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ { وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ } ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں زاد الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] ( زی د ) الزیادۃ اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ نفر النَّفْرُ : الانْزِعَاجُ عن الشیءِ وإلى الشیء، کالفَزَعِ إلى الشیء وعن الشیء . يقال : نَفَرَ عن الشیء نُفُوراً. قال تعالی: ما زادَهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ فاطر/ 42] ، وَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ الإسراء/ 41] ونَفَرَ إلى الحربِ يَنْفُرُ ويَنْفِرُ نَفْراً ، ومنه : يَوْمُ النَّفْرِ. قال تعالی: انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا [ التوبة/ 41] ، إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِيماً [ التوبة/ 39] ، ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 38] ، وَما کانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ [ التوبة/ 122] . ( ن ف ر ) النفر ( عن کے معنی کسی چیز سے رو گردانی کرنے اور ( الی کے ساتھ ) کسی کی طرف دوڑنے کے ہیں جیسا کہ نزع کا لفظ الیٰ اور عن دونوں کے ساتھ استعمال ہوتا ہے محاورہ ہے نفر عن الشئی نفورا کسی چیز سے دور بھاگنا ۔ قرآن میں ہے ما زادَهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ فاطر/ 42] تو اس سے ان کی نفرت ہی بڑھی ۔ وَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ الإسراء/ 41] مگر وہ اس سے اور بدک جاتے ہیں ۔ نفر الی الحرب ( ض ن ) نفر لڑائی کیلئے نکلنا اور اسی سی ذی الحجہ کی بار ھویں تاریخ کو یوم النفر کہا جاتا ہے کیوں کہ اس روز حجاج منیٰ سے مکہ معظمہ کو واپس ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا[ التوبة/ 41] تم سبکسار ہو یا گراں بار ( یعنی مال واسباب تھوڑا رکھتے ہو یا بہت گھروں سے نکل آؤ ۔ إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِيماً [ التوبة/ 39] اگر نہ نکلو گے تو خدا تم کو بڑی تکلیف کا عذاب دے گا ۔ ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 38] تمہیں کیا ہوا کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں جہاد کے لئے نکلو وما کان الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ [ التوبة/ 122] اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب سب نکل آئیں تو یوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور ان کفار مکہ نے رسول اکرم کی بعثت سے پہلے بڑی زور دار قسم کھائی تھی کہ اگر ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا پیغمبر آیا تو ہم یہود و نصاری سے زائد ہدایت قبول کرنے والے اور دین کی طرف سبقت کرنے والے ہوں گے۔ چناچہ جب ان کے پاس رسول اکرم قرآن حکیم لے کر آئے تو یہ رسول اکرم اور قرآن حکیم پر ایمان لانے سے منہ پھیر کر دور ہی بھاگتے رہے۔ شان نزول : وَاَقْسَمُوْا باللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ (الخ) اور ابن ابی حاتم نے ابن ابی ہلال سے روایت کیا ہے کہ قریش کہا کرتے تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ ہم میں نبی بھیج دے تو کوئی قوم ہم سے زیادہ اپنے خالق کی پیروی کرنے والی اور ہم سے زیادہ اپنے نبی کی بات پر لبیک کہنے والی اور ہم سے زائد اس کی کتاب پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہونے والی نہ ہوگی۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان ہی باتوں کے بیان میں یہ آیات نازل فرمائی ہیں کہ : وان کانوا لیقولون لو ان عندنا ذکرا من الاولین اور ولو انا انزل علینا الکتاب لکنا اھدی منھم اور وَاَقْسَمُوْا باللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ لَىِٕنْ جَاۗءَهُمْ نَذِيْرٌ (الخ) اور یہود و نصاری پر اس چیز کے ذریعے سے غلبہ حاصل کرتے تھے کہ ہم ایک نبی کی پیشین گوئی پاتے ہیں جو ضرور مبعوث ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٢{ وَاَقْسَمُوْا بِاللّٰہِ جَہْدَ اَیْمَانِہِمْ لَئِنْ جَآئَ ہُمْ نَذِیْـرٌ لَّـیَکُوْنُنَّ اَہْدٰی مِنْ اِحْدَی الْاُمَمِ } ” اور انہوں نے اللہ کی پختہ قسمیں کھائی تھیں کہ اگر ان کے پاس کوئی خبردار کرنے والاآیا تو وہ لازماً ہدایت یافتہ ہوجائیں گے کسی بھی امت سے بڑھ کر۔ “ { فَلَمَّا جَآئَ ہُمْ نَذِیْرٌ مَّا زَادَہُمْ اِلَّا نُفُوْرَا } ” پھر جب آگئے ان کے پاس خبردار کرنے والے (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تو اس چیز نے ان کے اندر (حق سے) فرار کے سوا کوئی اضافہ نہیں کیا۔ “ جب محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کے رسول کی حیثیت سے انہیں دعوت دینا شروع کی تو وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت سے بدکنے اور دور بھاگنے لگے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

71 Before the advent of the Holy Prophet, the same thing used to be said by the Arabs, in general, and by the Quraish, in particular, when they witnessed the moral degeneration of the Jews and the Christians. Mention of this saying of theirs has also been made in Surah Al-An'am :156-157 above, and in Surah AsSaffat: 167-169 below.

سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :71 یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے عرب کے لوگ عموماً اور قریش کے لوگ خصوصاً یہود و نصاریٰ کی بگڑی ہوئی اخلاقی حالت کو دیکھ کر کہا کرتے تھے ۔ ان کے اس قول کا ذکر اس سے پہلے سورہ انعام ( آیت 156 ۔ 157 ) میں بھی گزر چکا ہے اور آگے سورہ صافّات ( 167 تا 169 ) میں بھی آ رہا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

12: حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری سے پہلے کفار قریش نے غالباً یہودیوں اور عیسائیوں سے بحث کرتے ہوئے بڑی جوشیلی قسمیں کھائی تھیں کہ اگر ہمارے پاس کوئی پیغمبر آیا تو ہم اور ساری امتوں سے زیادہ اس کی ہدایت پر عمل کریں گے، لیکن جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو وہ آپ کی بات ماننے سے مکر گئے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٢۔ ٤٣۔ تفسیر ابن ابی حاتم میں قتادہ کا قول ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قریش آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نبی ہونے کے پہلے سے یہود ونصاریٰ کو اہل کتاب دیکھ کر حرص کرتے تھے اور قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ اگر ہماری قوم میں اللہ تعالیٰ کسی شخص کو نبی کر کے بھیجے تو ہم خوب راہ راست پر آئیں اور اللہ کے رسول کی پوری فرما نبرداری کریں جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبی ہوئے اور قریش نے آپ سے طرح طرح کی مخالفت کرنی شروع کی تو اللہ تعالیٰ نے قریش کے قائل کرنے کو اس مضمون کی چند آیتیں نازل فرمائیں اور فرمایا کہ پہلے تو یہ لوگ قوم عرب میں اللہ کے رسول کے آنے کی آرزو کرتے تھے اور اللہ سے وعدہ کرتے تھے کہ اللہ کا رسول ان کی قوم میں اگر پیدا ہوگا تو یہ لوگ اللہ کی مرضی کے موافق کام کریں گے جب اللہ تعالیٰ نے ان کی آرزو پوری کی تو اللہ کے رسول سے انہوں نے مخالفت نکالی کیا ان کو معلوم نہیں کہ اللہ کے رسولوں کی مخالفت کے سبب سے کتنی قومیں ان سے پہلے ہلاک ہوچکی ہیں اگر یہ لوگ اللہ کے رسولوں کی نافرمانی سے باز نہ آویں گے تو ایک دن ویہ انجام ان کا ہو نیوالا ہے ہے کیونکہ یہ عادت الٰہی ہمیشہ سے جاری ہے کہ حضرت نوح سے لے کر اب تک جن پچھلی امتوں نے اللہ کے رسولوں کی نافرماین کی ہے ایک دم میں اللہ تعالیٰ نے ان کو نیست ونا بود کردیا ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے انس بن مالک (رض) کی روایت ١ ؎ اوپر گزر چکی ہے (١ ؎ ابھی قریب ہی حوالہ گزرا۔ ) کہ بدر کی لڑائی کے وقت اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بڑے بڑے مخالفت دنیا میں بڑی ذلت سے مارے گئے اور مرتے ہی عذاب آخرت میں گرفتار ہوگئے جس عذاب کے جتلانے کے لیے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی لاشوں پر کھڑے ہو کر یہ فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے وعدہ کو سچاپا لیا اس حدیث کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیوں کہ اس حدیث سے اس وعدہ الٰہی کا پورا ظہور سمجھ میں آسکتا ہے جو وعدہ ان آیتوں میں فرمایا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا دستور بدلنے اور ٹلنے والا نہیں اگر قریش میں کے سرکشی لوگ اپنی سرکشی اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کے داؤپیچ سے باز نہ آویں گے تو ان کے سب داؤں پیچ ایک دن انہی پر الٹ پڑیں گے اور دستور الٰہی کے موافق پہلے کے نافرمان لوگوں کی طرح ان کی ساری سرکشی خاک میں مل جاوے گی قتادہ کی روایت سے آیت کی جو شان نزول اوپر بیان کی گئی تفسیر ابن ابی ٢ ؎ حاتم میں یہ روایت ابوہلال سے بھی ہے (٢ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٢٥٥ ج ٥۔ ) ان ابوہلال کا نام محمد بن سلیم ہے تابعیوں میں ان کا رتبہ اگرچہ قتادہ سے کم ہے لیکن ان کی روایتیں میں قتادہ سے ہوا کرتی ہیں اس لیے شان نزول کے ان کی روایت بھی صحیح ہے۔ تفسیر صحابہ مرفوع حدیث کے حکم میں ہے :۔ شان نزول کے باب میں صحابہ کا قول جو حدیث نبوی کے برابر گناہ جاتا ہے اس کا سبب یہی ہے کہ قرآن شریف کے نازل ہونے کے وقت صحابہ موجود تھے اس لیے شان نزول کے قصوں سے وہ واقف تھے شان نزول کے قصوں میں عقل کو دخل نہیں ہے اس واسطے اس باب میں وہ جو کچھ کہتے ہیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کا حال دیکھ کر کہتے ہیں حاصل کلام یہ ہے کہ شان نزول اور نقیے ابواب تفسیر میں صحابہ (رض) کے قول کو حدیث نبوی کے برابر شمار کرنے کا مسئلہ ایسا ہے کہ جس پر سلف کا اتفاق ہے اسی سبب سے حسن بصری قتادہ اور ان کے زمانہ تک کی اور تفسیریں بہت معتبر کہلاتی ہیں کیوں کہ یہ لوگ تابعی ہیں اور ان کی تفسیروں کا دارومدار صحابہ کے قول پر ہے ‘ یہ زمانہ سنہ ڈیڑھ سو ہجری تک کا ہے اس کے بعد سفیان بن عیینہ شعبہ کے زمانہ کی تفسیریں ہیں جن میں تابعیوں کے قول بھی ہیں یہ زمانہ دو سو ہجری کے قریب تک کا ہے پھر اس کے بعد ابن ماجہ ‘ حاکم ‘ ابن جریر کے زمانہ کی تفسیریں ہیں جن میں تابعی تبع تابعیوں تک کے قول ہیں لیکن اس زمانہ تک حدیث کی کتابوں کی طرح تفسیر کی کتابوں میں راویوں کے نام کے حوالہ سے پوری سند تفسیروں میں لکھی جاتی تھی جس کے سبب سے سلسلہ روایت کا حال معلوم ہوسکتا تھا اس نظر سے اس زمانہ تک کی تفسیریں بھی معتبر کہلاتی ہیں یہ زمانہ تین سو ہجری کے قریب تک کا ہے ‘ اس کے بعد بغیر سلسلہ سند کے تفسیروں کی تالیف کا طریقہ شروع ہوا جس سے صحیح ضعیف قول کا پتہ لگنا دشوار ہوگیا ‘ یہ تفسیر اگرچہ اردو کی ایک مختصر تفسیر ہے لیکن اس میں معتبر زمانہ کے قولوں کے لینے کی پوری پابندی کی گئی ہے ‘ اس قسم کے اصول کی تفسیر کی ضروری باتیں اس تفسیر کے مقدمہ میں بیان کردی گئی ہیں۔ لیکونن اھدے من احدنے الامم اس کا مطلب یہ ہے کہ راہ راست پر آنے کے حساب سے سب امتوں میں جو امت یکتائے زمانہ ہوتی وہ ہمارا ہی گروہ ہوتا یہ بات قریش اس لیے کہتے تھے کہ وہ اور قوموں سے اپنے آپ کو زیادہ عقلمند گنتے تھے اس واسطے وہ یہ کہتے تھے کہ اگر ہم میں کوئی نبی آیا تو ہم اپنی عقلمندی کو کام میں لاکر اور قوموں سے زیادہ راہ راست پر آویں گے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 جس کی طرف اللہ نے کبھی اپنا کوئی پیغمبر بھیجا ہو۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : ” عرب کے لوگ جو سنتے یہود کی بےحکیماں اپنے نبی سے تو کہتے۔ ہم میں اگر نبی آوے تو ہم ان سے بہتر رفاقت کریں۔ سو منکروں نے اور عداوت کی “۔ اکثر مفسرین (رح) نے آیت کی یہ تفسیر بیان کی ہے۔ اور ( سورة صفافات : 137، 169) سے بھی اس کی تائید وضاحت ہوئی ہے۔ فرمایا (وان کانو لیقولون لو ان عندنا ذکرا من الاولین لکنا عباد اللہ الخلصین) اور یہ قرآن اترنے سے پہلے کہا کرتے تھے کہ اگر پچھلوں کی کوئی کتاب ہمارے پاس ہوتی تو ہم اللہ کے برگزیدہ بندے ہوجاتے۔ مگر امام رازی (رح) کہتے ہیں کہ مشرکین مکہ تو رسالت اور حشر کے قائل ہی نہیں تھے۔ پھر ان کے اس قول کی یہ تفسیر کیسے کی جاسکتی ہے۔ دراصل اس قول سے ان کا مقصد مبالغہ کے ساتھ رسالت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کرنا ہے۔ یعنی اگر اللہ کی طرف سے واقعۃً کوئی پیغمبر آتاتو ہم اس پر ایمان لے آتے مگر یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو پیغمبر نہیں ہیں بلکہ نعوذ باللہ کا ذب اور مفتری ہیں ( کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 42 تا 45 :۔ اقسموا ( انہوں نے قسم کھائی) جھد (آگے بڑھ گیا) ایمان ( یمن) (قسمیں) اھدی (زیادہ ہدایت والا) السیی ( برائی ، گناہ) لا یحیق ( نہیں گھبرا تا ہے) عاقبۃ ( انجام) یو اخذ ( وہ پکڑتا ہے) اجل ( مدت) بصیر (بہت دیکھنے والا) تشریح : آیت نمبر 42 تا 45 :۔ یہود و نصاریٰ جو اہل کتاب کہلاتے ہیں اپنی عملی برتری کا اظہار کرنے کے لئے کفار عرب کو طعنے دیتے تھے کہ تم گمراہ ہو اور تمہاری گمراہی کا سبب یہ ہے کہ تمہارے اندر تمہاری ہدایت و رہنمائی کے لئے کوئی نبی اور رسول نہیں آیا اور نہ تمہیں کوئی کتاب ہدایت دی گئی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ ہمارے پیچھے چلو تمہاری نجات اسی میں ہے کیونکہ ہم صاحب کتاب ہیں ۔ کفار مکہ یہود و نصاریٰ کے طعنے سن سن کر جب عاجز آگئے تو بڑی بڑی قسمیں کھا کر کہنے لگے کہ اگر ہمارے اندر کوئی نبی اور رسول آیا تو ہم ان کا کہا مان کر حسن عمل کا ایسا پیکر بن کر دکھائیں گے کہ دنیا بھر کی امتیں حیران رہ جائیں گی اور تہذیب و شائستگی میں ساری دنیا سے آگے نکل جائیں گے۔ یہ تو ان کے زبانی دعوے تھے لیکن جب اللہ نے کئی ہزار سال کے بعد ایک ایسے عظیم نبی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی ہدایت کے لئے بھیجا جن کی عظمت و شان سے بڑھ کر کوئی نہ تھا تو انہوں نے کہا ماننے کے بجائے نہ صرف ان کی اطاعت و فرماں برداری سے انکار کردیا بلکہ اپنے آپ کو اعلیٰ و برتر اور بڑا سمجھنے والی متکبرین نے اپنی سازشوں کا جال اس طرح پھیلا دیا کہ جو بھی دین اسلام اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف قدم بڑھاتا تو اس کو شدید ترین مکرو فریب کا مقابلہ کرنا پڑتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے اپنے آخری نبی اور رسول اور آخری کتاب (قرآن مجید) دے کر حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا ہے تا کہ قیامت تک آنے والے انسانوں کی ہدایت کا سامان ہوجائے ۔ اب اگر کفار مکہ نے ان کی اطاعت و فرماں برداری اختیار نہ کی تو پھر اللہ کا وہ دستور سامنے آجائے گا جو نہ تو تبدیل ہوتا ہے اور نہ ٹلتا ہے۔ فرمایا کہ ان نافرمانوں کو ان قوموں کے انجام سے عبرت حاصل کرنا چاہیے جو ان سے پہلے گزری ہیں جن کے کھنڈرات سے یہ لوگ گزرتے ہیں اور ان گمراہوں کی تاریخ اور انجام سے اچھی طرح واقف ہیں ۔ ان کو معلوم ہوجائے گا کہ ساری دنیا کی طاقتیں اور قوتیں مل کر بھی اللہ کو بےبس اور مجبور نہیں کرسکتیں وہ جب چاہتا ہے اپنے حکم سے بڑی سے بڑی طاقت و قوت کو کچل کر رکھ دیتا ہے۔ یہ تو اللہ کا حلم و برداشت ہے کہ وہ انسانوں کے گناہوں پر فوراً ہی گرفت نہیں کرتا بلکہ ان کو سنبھلنے اور سمجھنے کا موقع دیتا ہے اور برداشت سے کام لیتا ہے البتہ اس نے انجام کے لئے ایک مدت مقرر کی ہوئی ہے لیکن جب وہ فیصلے کی گھڑی آجائے گی تو پھر اس کے فیصلے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈال سکتا اور لوگ اپنے انجام کی پہنچ جائیں گے۔ اللہ نے ہر ایک کو اپنی نظروں میں رکھا ہوا ہے وہ اپنے بندوں کے تمام حالات سے اچھی طرح واقف ہے۔ الحمد للہ ان آیات کے ساتھ سورة فاطر کا ترجمہ و تشریح تکمیل تک پہنچی واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آج جو لوگ آپ کی دعوت اور ذات کی مخالفت کرتے ہیں ان کی حالت یہ تھی کہ آپ کی بعثت کے انتظار میں ایک دوسرے کے سامنے قسمیں اٹھایا کرتے اور کہتے تھے کہ ہم مبعوث ہونے والے نبی پر ضرور ایمان لائیں گے۔ مکہ اور سرزمین حجاز میں مدت مدید تک کوئی پیغمبر نہیں آیا تھا۔ یہاں کے باسیوں کو اہل کتاب جہالت اور گمراہی کے طعنہ دیتے تھے جس کے جواب میں اہل مکہ قسمیں اٹھا اٹھا کر کہتے کہ جب ہم میں کوئی نبی مبعوث ہوگا تو ہم اس کی دعوت ضرور قبول کریں گے اور تم سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوں گے۔ لیکن جوں ہی اللہ تعالیٰ نے مکہ والوں میں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول منتخب فرمایا اور آپ نے اپنی دعوت کا آغاز اللہ کی توحید سے کیا تو اہل مکہ نے شرک و کفر چھوڑنے کی بجائے آپ کے خلاف ایک سے ایک بڑھ کر گھناؤنی سازش کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو نہ صرف ان کی مخالفت میں ناکام اور نامراد کیا بلکہ ان کی مخالفت کا نتیجہ انہیں کے خلاف نکلا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بسا اوقات سازش کرنے والوں کی سازشیں کامیاب بھی ہوجاتی ہیں۔ جس طرح پہلے انبیائے کرام (علیہ السلام) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کچھ واقعات پائے جاتے تھے۔ جس میں بظاہر کفار کامیاب ہوئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طائف گئے تو وقتی طور پر آپ کو سخت تکلیف کا سامنا کرنا پڑا لیکن آخر کار اہل طائف آپ پر ایمان لائے اہل مکہ نے بھی متحد ہو کر آپ کو قتل کرنے کے لیے آپ کے گھر کا محاصرہ کیا جس میں آپ کا بچ نکلنا محال تھا۔ لیکن اہل مکہ کو اپنے منصوبہ میں بد ترین ذلت اٹھانا پڑی۔ اس کے بعد بار بار مدینہ پر یلغار کرتے رہے لیکن بالآخر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے معافی کے خواستگار ہوئے۔ ” علی ھٰذا لدّلائل “ کفار کے مکر و فریب ان کے خلاف ثابت ہوئے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا اصول ہے کہ مکروفریب کرنے والا بالآخر خود ہی اس کا خمیازہ بھگتا کرتا ہے۔ دنیا میں اکثر اور آخرت میں ہر صورت ایسا ہی ہوگا۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جہاں تک آپ کے مخالفوں کا معاملہ ہے یہ بھی عملاً اسی انتظار میں ہیں کہ ان کے ساتھ پہلے لوگوں جیسا سلوک کیا جائے۔ یقین رکھیں کہ ان کے ساتھ ایسا ہو کر رہے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اصول کبھی تبدیل نہیں ہوتے۔ چناچہ مکہ کے اکثر سردار بدر میں قتل ہوئے اور باقی مسلمان ہوگئے۔ مسائل ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے آپ کا انتظار ہورہا تھا۔ ٣۔ مکرو فریب کا انجام خود مکار کے خلاف ہوا کرتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے اصول بدلا نہیں کرتے۔ تفسیر بالقرآن انبیاء کے خلاف سازشیں اور انکا انجام : ١۔ کفار نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو قتل کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام ہوئے۔ ( الشعراء : ١١٩) ٢۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم نے ان کو جلانے کی کوشش کی مگر ناکام ہوئے۔ ( الانبیاء : ٦٨) ٣۔ فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کی دھمکی دی مگر ناکام ہوا۔ ( الشعراء : ٦٥) ٤۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو پھانسی دینے کی کوشش کی گئی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو آسمان پر اٹھا لیا۔ (النساء : ١٥٨) ٥۔ منافقین نے سازشیں کرنے کے لیے مسجد ضراربنائی جسے مسمار کردیا گیا۔ (التوبۃ : ١٠٧) ٦۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے کی سازش کی گئی مگر مکہ والے ناکام اور ذلیل ہوئے۔ (الانفال : ٣٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

چوتھا سفر اہل مکہ اور اس کے اردگرد کے مشرکین کے احوال کا ہے۔ ان لوگوں کی دعا ہمیشہ یہ ہوتی تھی کہ اگر اللہ ان میں رسول بھیج دے اور اسے کتاب دے دے تو وہ ایمان لائیں گے۔ پھر انہوں نے نقص عہد کیا اور فساد فی الارض کا ارتکاب کیا۔ ان کو ڈرایا جاتا ہے کہ اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی اور اللہ کی سنت میں تبدیلی نہیں ہوا کرتی۔ واقسموا باللہ۔۔۔۔ لسنت اللہ تحویلا (42 – 43) ” “۔ اہل عرب دیکھتے تھے کہ یہودی جزیرۃ العرب میں ان کے ساتھ رہتے ہیں اور ان کو ایک کتاب دیدی گئی ہے اور وہ دیکھتے تھے کہ یہ یہودی اپنے دین سے منحرف ہوگئے ہیں اور بےعمل ہیں۔ عرب ان کی تاریخ بھی پڑھتے تھے کہ انہوں نے اپنے بیشمار رسولوں کو قتل بھی کیا اور جب بھی ان کے پاس سچائی آئی انہوں نے اس سے منہ پھیرا۔ اس وقت یہ یہودیوں کے مقابلے میں اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہوئے قسمیں کھایا کرتے تھے کہ اگر اللہ نے ہمیں کوئی پیغمبر دیا ، اور وہ عربوں میں مبعوث ہوا تو وہ دنیا کی تمام امتوں سے بڑھ کر نیک ہوں گے۔ مراد ان کی یہ تھی کہ یہودیوں سے وہ زیادہ ہدایت پر رہیں گے۔ یہ لوگ اشارہ یہودیوں کی طرف کرتے تھے۔ لئن جآءھم۔۔۔۔ احدی الامم (35: 42) ” اگر کوئی خبردار کرنے والا ان کے ہاں آگیا ہو تو تو وہ دنیا کی ہر قوم سے زیادہ راست رو ہوتے “۔ یہ تھا ان کا حال قبل بعثت اور یہ تھا ان کا عقیدہ۔ یہ عقیدہ قرآن مجید ان پر اس طرح پیش کرتا ہے کہ ذرا تم اس صورت حالات کو یاد کرو تم کیا کہا کرتے تھے۔ اس کے بعد ان کے سامنے وہ حالات پیش کیے جاتے ہیں جو عملاً رسول کے آنے کے بعد پیش آئے۔ فلما جآءھم نذیر ۔۔۔۔۔ مکر السیئ (35: 42 – 43) ” مگر جب خبردار کرنے والا ان کے ہاں آگیا تو اس کی آمد نے ان کے اندر حق سے فرار کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہ کیا۔ زمین میں اور زیادہ سرکشی کرنے کی خاطر اور بری چالیں چلنے کی وجہ سے “۔ یہ کس قدر بری بات ہے کہ ایک شخص قسمیں کھائے کہ اس کا رویہ یہ ہوگا اور پھر وہ اس کے الٹ رویہ اختیار کرے مگر تکبرو غرور کی وجہ سے اور اپنی بری سازشوں کی وجہ سے۔ قرآن مجید ان کے انکار کا اصلی سبب ریکارڈ کرتا ہے اور اس کے بعد قرآن مجید پھر ان کی ان مکاریوں کے بارے میں یہ فیصلہ اور جواب یوں دیتا ہے کہ جو شخص اس قدر قبیح حرکت کرتا ہے اس کا ایمان کیا ہوگا۔ اور انجام کیا ہوگا۔ ولا یحیق المکر السیئ الا باھلہ (35: 43) ” حالانکہ بری چالیں اپنے چلنے والوں ہی کو لے بیٹھتی ہیں “۔ یعنی ان کی بری چالیں ان ہی کے خلاف پڑیں گی اور یہ بری چالیں ان کو مخبوط الحواس کردیں گے اور ان کے اعمال ضائع ہوجائیں جو ان سے پہلی اقوام پر آئے سابقہ اقوام کے قصے تو انہیں معلوم ہیں۔ وہ بس اسی کا انتظار کر رہے ہیں کہ اللہ کی مستحکم سنت انہیں پکڑلے فلن تجد لسنت۔۔۔۔ تحویلا (35: 43) ” یہی بات ہے تو تم اللہ کی سنت میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔ اور تم کبھی نہ دیکھو گے کہ اللہ کی سنت کو اس کے مقررہ راستے کوئی طاقت پھیر سکتی ہے۔ لوگوں کے معاملات اتفاقاً نہیں چل رہے اور اس زمین پر یہ زندگی اور مخلوقات عبث طور پر نہیں پیدا کیے گئے۔ اس دنیا کے کچھ قوانین ہیں جو ہرگز تبدیل نہیں ہوتے۔ قرآن کریم اس حقیقت کی تصدیق کرتا ہے اور لوگوں کو اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ وہ اس دنیا کے واقعات کو ایک انفرادی واقعہ ہی نہ سمجھیں اور اپنی زندگی ان سنن الہیہ سے غافل ہو کر نہ گزاریں بلکہ اپنی زندگی کو زمان و مکان کے مختصر ترین لمحات و مقامات تک بھی محدود نہ کردیں۔ قرآن ان کے قصور کو ذرا بلند کرکے ان کی زندگی کے طریقوں کو اس کائنات کے طریقوں کے ساتھ مربوط کرنا چاہتا ہے۔ چناچہ قرآن مجید بار بار اس طرف توجہ کرتا ہے کہ اس کائنات میں اللہ نے کچھ اٹل اصول جاری کر رکھے ہیں۔ وہ ان کو ان واقعات کی طرف متوجہ کرتا رہتا ہے جو اس دنیا میں ان سنن الہیہ کے مطابق ظاہر ہوئے اور یہ ثابت کرتا ہے کہ انسان کا ماضی بتاتا ہے کہ یہ سنن اس کائنات میں جاری ہیں۔ یہ پانچواں سفر اسی کی ایک مثال ہے۔ یہاں بھی یہ کہنے کے بعد کہ اللہ کے سنن نہیں بدلتے ، اس طرف متوجہ کیا جاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

41:۔ واقسموا الخ : یہ زجر ہے مع تخویف دنیوی۔ آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے قریش کو معلوم ہوا کہ یہود اور نصاری میں پیغمبر آئے تو انہوں نے ان کو جھٹلا دیا اور ان کا اتباع نہ کیا اس پر قریش یہود و نصاری کو ملامت کرتے تھے کہ خدا ان پر لعنت کرے انہوں نے اپنے پیغمبروں کو جھٹلا دیا۔ خدا کی قسم اگر ہم میں اللہ کا رسول مبعوث ہو تو ہم ان جھٹلانے والی تمام امتوں سے زیادہ ہدایت کو قبول کرنے والے اور اپنے پیغمبر کی اطاعت کرنے والے ہوں گے۔ قریش کی آرزو تھی کہ ان میں اللہ کا رسول مبعوث ہو اور وہ نہایت ہی پختہ قسمیں کھاتے کہ وہ رسول کی پیروی کریں گے۔ احدی الامم میں اضافت استغراقی ہے یعنی ہر امت سے اہدی ہوتے ہیں قالہ الشیخ (رح)۔ یا الف لام عہد کے لیے ہے اور مراد جھٹلانے والی امتیں ہیں (روح) ۔ 42:۔ فلما جاءھم الخ : جب ان کی آرزو اور تمنا کے مطابق انہی میں سے ایک عظیم الشان اور اشرف الرسل حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رسول اور داعی حق ہو کر آگئے تو وہ ان کے پاس سے بھاگ نکلے ایمان لانے سے غرور و استکبار نے ان کو روک دیا اور پیغمبر (علیہ السلام) کی حمایت کے بجائے وہ آپ کے خلاف نہایت ہی برے اور خطرناک منصوبے سوچنے لگے اور خود ایمان لانے کے بجائے دوسروں کو بھی ایمان لانے سے روکنے لگے۔ لیکن ایسے مکر و فریب کا وبال انہی لوگوں پر پڑتا ہے جو اس کے لائق اور اہل ہوں لہذا اس کا وبال خود انہی پر پڑے گا کیونکہ وہی اس کے اہل ہیں نہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ اور مومنوں پر کیونکہ وہ اس کے اہل نہیں۔ چناچہ جنگ بدر میں یہ لوگ خود ہی اپنے مکرو فریب کا شکار ہوئے۔ وقد حاق مکر ھؤلاء بھم یوم بدر (روح ج 22 ص 206) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(42) اور یہ کفار قریش نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے قبل نہایت تاکید کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی سخت ترین قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے کہ اگر ان کے پاس کوئی ڈرانے والا آئے گا تو وہ ہر ایک امت سے زیادہ راہ پانے والے اور راہ یافتہ ہوں گے۔ پھر جب ان کے پاس ڈرانے والا آیا تو اس کے آنے سے بس ان میں نفرت کے جذبات کو ہی ترقی ہوئی۔