Surat Faatir

Surah: 35

Verse: 43

سورة فاطر

اسۡتِکۡـبَارًا فِی الۡاَرۡضِ وَ مَکۡرَ السَّیِّیئِ ؕ وَ لَا یَحِیۡقُ الۡمَکۡرُ السَّیِّیئُ اِلَّا بِاَہۡلِہٖ ؕ فَہَلۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّا سُنَّتَ الۡاَوَّلِیۡنَ ۚ فَلَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا ۬ ۚ وَ لَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحۡوِیۡلًا ﴿۴۳﴾

[Due to] arrogance in the land and plotting of evil; but the evil plot does not encompass except its own people. Then do they await except the way of the former peoples? But you will never find in the way of Allah any change, and you will never find in the way of Allah any alteration.

دنیا میں اپنے کو بڑا سمجھنے کی وجہ سے ، اور ان کی بری تدبیروں کی وجہ سے اور بری تدبیروں کا وبال ان تدبیر والوں ہی پر پڑتا ہے سو کیا یہ اسی دستور کے منتظر ہیں جو اگلے لوگوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے ۔ سو آپ اللہ کے دستور کو کبھی بدلتا ہوا نہ پائیں گے اور آپ اللہ کے دستور کو کبھی منتقل ہوتا ہوا نہ پائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

اسْتِكْبَارًا فِي الاَْرْضِ ... (They took to flight because of their) arrogance in the land, means, they were too arrogant to follow the signs of Allah. ... وَمَكْرَ السَّيِّيِ ... and their plotting of evil. means, they plotted to prevent people from following the path of Allah. ... وَلاَ يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّيُ إِلاَّ بِأَهْلِهِ ... But the evil plot encompasses only him who makes it. means, the evil consequences of that will come back upon them and not on others. ... فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلاَّ سُنَّتَ الاَْوَّلِينَ ... Then, can they expect anything (else) but the Sunnah (way of dealing) of the peoples of old, meaning, the punishment of Allah for disbelieving in His Messengers and going against His command. ... فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِيلً ... and no turning off will you find in Allah's Sunnah. means, it does not change or alter, and this is what happens to every disbeliever. ... وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلً and no turning off will you find in Allah's Sunnah. means, وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَ مَرَدَّ لَهُ But when Allah wills a people's punishment, there can be no turning back of it. (13:11) This means, no one can remove that from them or ward it off from them. And Allah knows best.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

43۔ 1 یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر ایمان لانے کی بجائے، انکار و مخالفت کا راستہ محض استکبار اور سرکشی کی وجہ سے اختیار کیا۔ 43۔ 2 اور بری تدبیر یعنی حیلہ، دھوکا اور عمل قبیح کی وجہ سے کیا۔ 43۔ 3 یعنی لوگ مکر و حیلہ کرتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ بری تدبیر کا انجام برا ہی ہوتا ہے اور اس کا وبال بالآخر مکر و حیلہ کرنے والوں پر ہی پڑتا ہے۔ 43۔ 4 یعنی کیا یہ اپنے کفر و شرک، رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت اور مومنوں کو ایذائیں پہنچانے پر مصر رہ کر اس بات کے منتظر ہیں کہ انہیں بھی اس طرح ہلاک کیا جائے جس طرح پچھلی قومیں ہلاکت سے دو چار ہوئیں۔ 43۔ 5 بلکہ یہ اسی طرح جاری ہے اور ہر مکذب (جھٹلانے والے) کا مقدر ہلاکت ہے یا بدلنے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ کے عذاب کو رحمت کے سائے سے بدلنے پر قادر نہیں ہے۔ 43۔ 6 یعنی کوئی اللہ کے عذاب کو دور کرنے والا یا اس کا رخ پھیرنے والا نہیں ہے یعنی جس قوم کو اللہ عذاب سے دوچار کرنا چاہے کوئی اس کا رخ کسی اور قوم کی طرف پھیر دے، کسی میں یہ طاقت نہیں ہے۔ کوئی بھی اس قانون الہی کو بدلنے پر قادر ہے اور نہ عذاب الہی کو پھیرنے پر۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٤٩] یعنی ان چودھریوں اور سرداروں کا اپنے نبی کی مخالفت کرنا کوئی نئی بات نہیں تھی۔ پہلے بھی سرکش اور نافرمان قومیں یہی کچھ کرتی رہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ بھی ہمیشہ یہی رہی کہ وہ ایسے باغیوں کو سر کچلتا رہا۔ اور اپنے انبیاء کی اور اس پر ایمان لانے والوں کی سرپرستی کرتا اور ان کی مدد کرکے ان ظالموں سے نجات دلاتا رہا ہے۔ اور اللہ کا یہ ایسا طریقہ ہے جس میں تخلف یا تغیر و تبدل نہیں ہوسکتا۔ گویا اس آیت میں معاندین حق کے لئے یہ دھمکی اور پیشین گوئی تھی کہ اگر تم نے اپنا یہ معاندانہ رویہ نہ بدلا تو تمہیں بھی ایسے برے انجام سے دوچار ہونا پڑے گا۔ جس سے سابقہ اقوام دوچار ہوچکی ہیں۔ [ ٥٠] اللہ کا دستور یہ ہے کہ وہ اپنے انبیاء کے مخالفوں کی کمر توڑ دے۔ اس دستور میں ایسا تغیر کبھی نہیں آسکتا کہ اللہ تعالیٰ ایسے مجرموں کو سزا دینے کی بجائے ان پر انعام و اکرام کرنے لگے یا ان مجرموں کی سزا دوسرے لوگوں کو دینے لگے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اسْـتِكْبَارًا فِي الْاَرْضِ وَمَكْرَ السَّــﮧ ۭ وَلَا يَحِيْقُ الْمَكْرُ السَّيِّ : یعنی ان کی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلانے اور ہدایت سے بدکنے اور دور بھاگنے کی وجہ یہ نہ تھی کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھوٹا سمجھتے تھے، بلکہ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ زمین پر رہ کر، جو اللہ تعالیٰ کی کائنات میں پستی کی انتہا ہے، اونچے اور بڑے بن کر رہنا چاہتے تھے، جو پیغمبر کی اطاعت قبول کرنے کی صورت میں ممکن نہ تھا، کیونکہ اس وقت انھیں اپنی مرضی چھوڑ کر اللہ کے حکم کے تابع ہونا پڑتا تھا، جو انھیں منظور نہ تھا۔ وَمَكْرَ السَّــی : اور حق سے زیادہ دور ہونے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صدق و امانت کو جاننے کے باوجود آپ پر ایمان لانے کے بجائے حق کا راستہ روکنے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نقصان پہنچانے کے لیے بہت بری تدبیریں اور خوف ناک سازشیں اختیار کیں، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حق قبول کرنے کے بجائے ضد میں آ کر وہ اس سے بہت دور ہوگئے، جیسا کہ سورة انفال (٣٠) میں کفار مکہ کی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف قید، جلاوطنی یا قتل کی تدبیروں کا ذکر ہے۔ وَلَا يَحِيْقُ الْمَكْرُ ” حَاقَ یَحِیْقُ “ اور ” أَحَاطَ یُحِیْطُ “ دونوں کا معنی گھیرنا ہے، یعنی بری تدبیر جس کے متعلق کی جائے ہوسکتا ہے اسے تھوڑا بہت نقصان پہنچ جائے، مگر وہ پوری طرح گھیرا اور احاطہ بری تدیبر کرنے والے ہی کا کرتی ہے، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف سازشوں سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کچھ نہیں بگڑا، بلکہ ان سازشوں نے غزوۂ بدر، احد، خندق اور فتح مکہ میں کفار ہی کو گھیرے میں لے کر انھیں ناکام و نامراد کردیا۔ فَهَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّا سُنَّتَ الْاَوَّلِيْنَ یعنی اگر یہ اپنی روش نہ بد لیں گے اور اپنی سرکشی میں بڑھتے جائیں گے تو پہلے کافروں کی طرح ان پر عذاب نازل ہو کر رہے گا۔ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰهِ تَبْدِيْلًا : یعنی اللہ تعالیٰ کا دستور جو پہلے سے چلا آ رہا ہے کہ وہ مجرموں کو مہلت دیتا ہے، پھر پکڑ لیتا ہے، تم اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں پاؤ گے کہ ان مجرموں کی رسی ہمیشہ دراز رہے، یا انھیں عذاب کے بجائے انعام سے نوازا جائے۔ اس میں کفار کے لیے وعید ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل ایمان کے لیے تسلی اور بشارت ہے۔ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰهِ تَحْوِيْلًا : نہ ہی یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کوئی کام ہونے کا حکم دے یا کسی قوم پر عذاب نازل کرنے کا ارادہ کرے اور عذاب نازل نہ ہو، یا کسی قوم پر عذاب کا ارادہ کرے اور وہ اس سے پھیر کر کسی اور قوم پر نازل کردیا جائے، جیسا کہ فرمایا : ( وَاِذَآ اَرَاد اللّٰهُ بِقَوْمٍ سُوْۗءًا فَلَا مَرَدَّ لَهٗ ۚ ) [ الرعد : ١١ ] ” اور جب اللہ کسی قوم کے ساتھ برائی کا ارادہ کرلے تو اسے ہٹانے کی کوئی صورت نہیں۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The word: لَا يَحِيقُ (la yahiq) in verse 43: وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ‌ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ (And the evil plot envelops none but its own people ( who make it) carries the sense of: لَا یُحِیطُ (la yuhit: does not surround) or: لَا یُصیبُ (la usib: does not afflict). Thus, it comes to mean that the curse of making an evil plan falls on none but the one who makes it. In other words, a person who wishes evil for others, he himself falls a victim to it. A doubt may arise at this point. It is commonly seen in this worldly life that someone with an evil plan gets away with it and the loss intended for anyone stands inflicted on him. The answer to this has been given by Maulana Ashraf Ali Thanavi (رح) by saying that the pain or loss inflicted on such a person was a loss limited to this mortal world, while the loss to be the fate of the maker of such evil plan in the Hereafter was not only heavier, but was more lasting too. So, if compared, his worldly loss amounts to nothing. There is another answer given by some elders who say that there are occasions when the curse of contriving against someone innocent or inflicting injustice on him, more than often, falls on the person causing it, right here in this world as well. Muhammad Ibn Ka` b al-Qurazi said: There are three things the doer of which does not remain safe against its curse and punishment even in this world. These are: (1) Causing harm or pain to some innocent person by engineering evil against him. (2) Inflicting any injustice. (3) Breaking of pledge. (Ibn Kathir) Particularly so, when things like that are done against a person who is helpless or does not have the power to avenge or elects to endure despite having that power. Experience bears out that no one who does things like that has ever remained unaffected by the curse of injustice thus inflicted even in this world. Hence, the outcome will be that the element of restriction (Hasr) visible here appears in terms of a majority rule and not in any absolute sense. Allah knows best. Alhamdulillah The Commentary on Surah Fatir Ends here

معارف ومسائل (آیت) ولا یحیق المکر السیی الا باھلہ، لا یحیق کے معنی لا یحیط یا لا یصیب کے ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ بری تدبیر کا وبال اور کسی پر نہیں پڑتا، بلکہ خود ایسی تدبیر کرنے والے پر ہی پڑتا ہے۔ یعنی جو شخص دوسروں کا برا چاہتا ہے وہ خود برائی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس پر جو یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ دنیا میں تو بہت مرتبہ یہ بھی مشاہدہ ہوتا ہے کہ بری تدبیر کرنے والے کی تدبیر چل جاتی ہے اور جس کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے اس کو نقصان پہنچ جاتا ہے اس کا ایک جواب تو خلاصہ تفسیر میں آ گیا ہے کہ اس کو جو تکلیف یا نقصان پہنچا وہ تو دنیا کا نقصان ہے، اور ایسی بری تدبیر کرنے والے کا نقصان آخرت کا عذاب ہے، جو اشد بھی ہے اور دائمی بھی، اس کے مقابلہ میں اس کا دنیوی نقصان کالعدم ہے۔ دوسرا جواب بعض حضرات نے یہ بھی دیا ہے کہ کسی بےگناہ کے خلاف تدبیر کرنے اور اس پر ظلم کرنے کا وبال ظالم پر اکثر دنیا میں بھی پڑجاتا ہے۔ محمد بن کعب قرظی نے فرمایا کہ تین کام ایسے ہیں جن کا کرنے والا دنیا میں بھی وبال عذاب سے نہیں بچتا، ایک کسی بےگناہ کے حق میں بری تدبیر کر کے اس کو ایذا پہنچانا، دوسرے عام ظلم، تیسرے عہد شکنی (ابن کثیر) خصوصاً جو کسی ایسے شخص پر کیا جائے جو بےکس بےبس ہو، انتقام پر قدرت نہ رکھتا ہو یا باوجود قدرت انتقام کے صبر کرے، اس پر ظلم کے وبال سے دنیا میں بھی کسی کو بچتے نہیں دیکھا۔ بس تجربہ کردیم دریں دیر مکافات بادر دکشاں ہر کہ در افتاد برافتاد اس کا حاصل یہ ہوگا کہ آیت میں جو حصر یہاں کیا گیا ہے وہ اکثری قاعدہ کے اعتبار سے ہے کلی نہیں۔ واللہ اعلم

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اسْـتِكْبَارًا فِي الْاَرْضِ وَمَكْرَ السَّيِّئِ ۝ ٠ ۭ وَلَا يَحِيْقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ اِلَّا بِاَہْلِہٖ۝ ٠ ۭ فَہَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّا سُنَّتَ الْاَوَّلِيْنَ۝ ٠ ۚ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللہِ تَبْدِيْلًا۝ ٠ۥۚ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللہِ تَحْوِيْلًا۝ ٤٣ الاسْتِكْبارُ والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة . والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين : أحدهما : أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود . والثاني : أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] . ( ک ب ر ) کبیر اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔ الاستکبار ( استتعال ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔ ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مدموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔ مكر المَكْرُ : صرف الغیر عمّا يقصده بحیلة، وذلک ضربان : مکر محمود، وذلک أن يتحرّى بذلک فعل جمیل، وعلی ذلک قال : وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران/ 54] . و مذموم، وهو أن يتحرّى به فعل قبیح، قال تعالی: وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر/ 43] ( م ک ر ) المکر ک ے معنی کسی شخص کو حیلہ کے ساتھ اس کے مقصد سے پھیر دینے کے ہیں یہ دو قسم پر ہے ( 1) اگر اس سے کوئی اچھا فعل مقصود ہو تو محمود ہوتا ہے ورنہ مذموم چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران/ 54] اور خدا خوب چال چلنے والا ہے ۔ پہلے معنی پر محمول ہے ۔ اور دوسرے معنی کے متعلق فرمایا : ۔ وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر/ 43] اور بری چال کا وبال اس کے چلنے والے پر ہی پڑتا ہے : سَّيِّئَةُ : الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] سَّيِّئَةُ : اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :، ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] جو برے کام کرے نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب/ 53] أي : منتظرین، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں سنن وتنحّ عن سَنَنِ الطّريق، وسُنَنِهِ وسِنَنِهِ ، فالسُّنَنُ : جمع سُنَّةٍ ، وسُنَّةُ الوجه : طریقته، وسُنَّةُ النّبيّ : طریقته التي کان يتحرّاها، وسُنَّةُ اللہ تعالی: قد تقال لطریقة حکمته، وطریقة طاعته، نحو : سُنَّةَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا [ الفتح/ 23] ، وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا [ فاطر/ 43] ، فتنبيه أنّ فروع الشّرائع۔ وإن اختلفت صورها۔ فالغرض المقصود منها لا يختلف ولا يتبدّل، وهو تطهير النّفس، وترشیحها للوصول إلى ثواب اللہ تعالیٰ وجواره، وقوله : مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ [ الحجر/ 26] ، قيل : متغيّر، وقوله : لَمْ يَتَسَنَّهْ [ البقرة/ 259] ، معناه : لم يتغيّر، والهاء للاستراحة «1» . سنن تنح عن سنن الطریق ( بسین مثلثہ ) راستہ کے کھلے حصہ سے مٹ ج اور ۔ پس سنن کا لفظ سنۃ کی جمع ہے اور سنۃ الوجہ کے معنی دائرہ رد کے ہیں اور سنۃ النبی سے مراد آنحضرت کا وہ طریقہ ہے جسے آپ اختیار فرماتے تھے ۔ اور سنۃ اللہ سے مراد حق تعالیٰ کی حکمت اور اطاعت کا طریقہ مراد ہوتا ہے جیسے فرمایا : سُنَّةَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا [ الفتح/ 23]( یہی) خدا کی عادت ہے جو پہلے سے چلی آتی ہے اور تم خدا کی عادت کبھی بدلتی نہ دیکھو گے ۔ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا [ فاطر/ 43] اور خدا کے طریقے میں کبھی تغیر نہ دیکھو گے ۔ تو آیت میں اس بات پر تنبیہ پائی جاتی ہے ۔ کہ شرائع کے فروغی احکام کی گو مختلف صورتیں چلی آئی ہیں ۔ لیکن ان سب سے مقصد ایک ہی ہے ۔ یعنی نفس کو پاکر کرنا اور اسے اللہ تعالیٰ کے ہاں ثواب اور اس کا جوار حاصل کرنے کے لئے تیار کرنا اور یہ مقصد ایسا ہے کہ اس میں اختلاف یا تبدیلی نہیں ہوسکتی ۔ اور آیت : مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ [ الحجر/ 26] سڑے ہوئے گارے سے ۔ وجد الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] . ( و ج د ) الو جود ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔ بدل الإبدال والتَّبدیل والتَّبَدُّل والاستبدال : جعل شيء مکان آخر، وهو أعمّ من العوض، فإنّ العوض هو أن يصير لک الثاني بإعطاء الأول، والتبدیل قد يقال للتغيير مطلقا وإن لم يأت ببدله، قال تعالی: فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة/ 59] ، وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور/ 55] وقال تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان/ 70] قيل : أن يعملوا أعمالا صالحة تبطل ما قدّموه من الإساءة، وقیل : هو أن يعفو تعالیٰ عن سيئاتهم ويحتسب بحسناتهم «5» . وقال تعالی: فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة/ 181] ، وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل/ 101] ، وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ/ 16] ، ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف/ 95] ، يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم/ 48] أي : تغيّر عن حالها، أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر/ 26] ، وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة/ 108] ، وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد/ 38] ، وقوله : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق/ 29] أي : لا يغيّر ما سبق في اللوح المحفوظ، تنبيها علی أنّ ما علمه أن سيكون يكون علی ما قد علمه لا يتغيّرعن حاله . وقیل : لا يقع في قوله خلف . وعلی الوجهين قوله تعالی: تَبْدِيلَ لِكَلِماتِ اللَّهِ [يونس/ 64] ، لا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ [ الروم/ 30] قيل : معناه أمر وهو نهي عن الخصاء . والأَبْدَال : قوم صالحون يجعلهم اللہ مکان آخرین مثلهم ماضین «1» . وحقیقته : هم الذین بدلوا أحوالهم الذمیمة بأحوالهم الحمیدة، وهم المشار إليهم بقوله تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان/ 70] والبَأْدَلَة : ما بين العنق إلى الترقوة، والجمع : البَئَادِل «2» ، قال الشاعر : 41- ولا رهل لبّاته وبآدله ( ب د ل ) الا بدال والتبدیل والتبدل الاستبدال کے معنی ایک چیز کو دوسری کی جگہ رکھنا کے ہیں ۔ یہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض میں پہلی چیز کے بدلہ میں دوسری چیز لینا شرط ہوتا ہے لیکن تبدیل مطلق تغیر کو کہتے ہیں ۔ خواہ اس کی جگہ پر دوسری چیز نہ لائے قرآن میں ہے فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة/ 59] تو جو ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا بدل کو اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع گیا ۔ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور/ 55] اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا ۔ اور آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان/ 70] کے معنی بعض نے یہ کئے ہیں کہ وہ ایسے نیک کام کریں جو ان کی سابقہ برائیوں کو مٹادیں اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف فرمادیگا اور ان کے نیک عملوں کا انہیں ثواب عطا کریئگا فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة/ 181] تو جو شخص وصیت کو سننے کے بعد بدل ڈالے ۔ وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل/ 101] جب ہم گوئی آیت کسی آیت کی جگہ بدل دیتے ہیں ۔ وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ/ 16] ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف/ 95] پھر ہم نے تکلیف کو آسودگی سے بدل دیا ۔ اور آیت کریمہ : يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم/ 48] کے معنی یہ ہیں کہ زمین کی موجودہ حالت تبدیل کردی جائے گی ۔ أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر/ 26] کہ وہ ( کہیں گی ) تہمارے دین کو ( نہ ) بدل دے ۔ وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة/ 108] اور جس شخص نے ایمان ( چھوڑ کر اس کے بدلے کفر اختیار کیا وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد/ 38] 47 ۔ 38 ) اور اگر تم منہ پھروگے تو وہ تہماری جگہ اور لوگوں کو لے آئیگا ۔ اور آیت کریمہ : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق/ 29] ہمارے ہاں بات بدلا نہیں کرتی ۔ کا مفہوم یہ ہے کہ لوح محفوظ میں جو کچھ لکھا جا چکا ہے وہ تبدیل نہیں ہوتا پس اس میں تنبیہ ہے کہ جس چیز کے متعلق اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ وقوع پذیر ہوگی وہ اس کے علم کے مطابق ہی وقوع پذیر ہوگی اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آسکتی ۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ اس کے وعدہ میں خلف نہیں ہوتا ۔ اور فرمان بار ی تعالیٰ : { وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِ اللهِ } ( سورة الأَنعام 34) قوانین خدا وندی کو تبدیل کرنے والا نہیں ۔{ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللهِ } ( سورة الروم 30) نیز : لا تبدیل لخلق اللہ فطرت الہیٰ میں تبدیل نہیں ہوسکتی ( 30 ۔ 30 ) بھی ہر دو معافی پر محمول ہوسکتے ہیں مگر بعض نے کہاں ہے کہ اس آخری آیت میں خبر بمعنی امر ہے اس میں اختصاء کی ممانعت ہے الا ابدال وہ پاکیزہ لوگ کہ جب کوئی شخص ان میں سے مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ دوسرے کو اس کا قائم مقام فرمادیتے ہیں ؟ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں ۔ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں جہنوں نے صفات ذمیمہ کی بجائے صفات حسنہ کو اختیار کرلیا ہو ۔ اور یہ وہی لوگ ہیں جنکی طرف آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان/ 70] میں ارشاد فرمایا ہے ۔ البادلۃ گردن اور ہنسلی کے درمیان کا حصہ اس کی جمع بادل ہے ع ( طویل ) ولارھل لباتہ وبآدلہ اس کے سینہ اور بغلوں کا گوشت ڈھیلا نہیں تھا ۔ حول أصل الحَوْل تغيّر الشیء وانفصاله عن غيره، وباعتبار التّغيّر قيل : حَالَ الشیء يَحُولُ حُؤُولًا، واستحال : تهيّأ لأن يحول، وباعتبار الانفصال قيل : حَالَ بيني وبینک کذا، وقوله تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال/ 24] ( ح ول ) & الحوال ( ن ) دراصل اس کے معنی کسی چیز کے متغیر ہونے اور دوسری چیزوں سے الگ ہونا کے ہیں ۔ معنی تغییر کے اعتبار سے حال الشئی یحول حوولا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کی شے کے متغیر ہونیکے ہیں ۔ اور استحال کے معنی تغیر پذیر ہونے کے لئے مستعد ہونے کے اور معنی انفصال کے اعتبار سے حال بینی وبینک کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی میرے اور اس کے درمیان فلاں چیز حائل ہوگئی ۔ اور آیت کریمہ :۔ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال/ 24] اور جان رکھو کہ خدا آدمی اسکے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

بلکہ رسول اکرم کو نقصان پہنچانے کے لیے ان کی بری تدبیروں کو ترقی ہوتی رہی کیونکہ میری تدبیروں اور برے کاموں کا اصلی وبال ان تدبیروں والوں ہی پر پڑتا ہے سو اگر آپ کی قوم آپ کو جھٹلائے تو یہ اسی عذاب کے منتظر ہیں جو رسولوں کی تکذیب کرنے پر اگلے لوگوں پر نازل ہوتا رہا اور آپ عذاب الہی کو کبھی بدلتا ہوا نہ پائیں گے اور اسی طرح آپ عذاب الہی کو کبھی دوسروں کی طرف منتقل ہوتا ہوا نہ پائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٣{ نِ اسْتِکْبَارًا فِی الْاَرْضِ وَمَکْرَ السَّیِّیِٔ } ” زمین میں تکبر کرتے ہوئے اور ُ بری چالیں چلتے ہوئے۔ “ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف متکبرانہ رویہ بھی اختیار کیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کا راستہ روکنے کے لیے طرح طرح کی سازشیں بھی کیں ۔ { وَلَا یَحِیْقُ الْمَکْرُ السَّیِّئُ اِلَّا بِاَہْلِہٖ } ” اور ُ بری چال کا وبال نہیں پڑتا مگر اس کے چلنے والے پر ہی۔ “ { فَہَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا سُنَّتَ الْاَوَّلِیْنَ } ” تو وہ کس چیز کے انتظار میں ہیں سوائے پہلے والوں کے انجام کے ! “ ” سُنّتُ الاَوّلیْن “ سے مراد وہ طریقہ ہے جس کے مطابق پچھلی نافرمان قومیں ہلاک ہوئیں۔ گویا اب یہ لوگ انتظار کر رہے ہیں کہ قانونِ خداوندی کا انطباق جس طرح پچھلی اقوام پر ہوا تھا اسی طرح اب ان پر بھی ہو اور جس طرح ماضی میں نافرمان اقوام کو ہلاک کیا جاتا رہا اسی طرح انہیں بھی ہلاک کردیا جائے۔ { فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًاج وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحْوِیْلًا } ” تو تم ہرگز نہیں پائو گے اللہ کے قانون میں کوئی تبدیلی ‘ اور تم ہرگز نہیں پائو گے اللہ کے قانون کو رخ پھیرتے ہوئے۔ “ تبدیل اور تحویل دو الگ الگ لیکن قریب المعانی الفاظ ہیں۔ تبدیل یا تبدیلی کا مفہوم تو عام فہم ہے ‘ جبکہ تحویل کے معنی رخ پھیرنے یا سمت بدلنے کے ہیں۔ آیت زیر مطالعہ میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کا قانون کسی کے لیے اپنا رخ نہیں بدلتا اور اگر کوئی شخص یا کوئی قوم اللہ کے قانون کی زد میں آنے والی ہو تو اس قانون کے رخ کو کسی طور سے پھیرا نہیں جاسکتا۔ چناچہ اگر یہ لوگ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں تو اللہ کا قانون بھی بدلنے والا نہیں۔ ان سے پہلے کی قومیں اگر ایسی روش کو اپنا کر نشان عبرت بنتی رہی ہیں تو یہ لوگ بھی سزا سے بچ نہیں سکیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

72 That is, this Law of Allah that the nation which repudiates its Prophet, is destroyed should be applied in their case as well.

سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :72 یعنی اللہ کا یہ قانون ان پر بھی جاری ہو جائے کہ جو قوم اپنے نبی کو جھٹلاتی ہے وہ تباہ کر کے رکھ دی جاتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

13: بد نیتی سے کسی کے خلاف جو ناحق تدبیریں کی جاتی ہیں، اکثر تو دنیا ہی میں وہ الٹی پڑجاتی ہیں، اور ان کا نقصان خود تدبیر کرنے والے کو اٹھانا پڑتا ہے، چنانچہ کافروں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف جو چالیں چلی تھیں، وہ آخر کار انہی کے خلاف پڑیں، اور اگر کبھی دنیا میں نقصان اٹھانا نہ پڑے تو ان بری تدبیروں کا عذاب آخرت میں تو ہوتا ہی ہے جو دنیا کے عذاب سے زیادہ سخت ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(35: 43) استکبارا۔ اس کی مندرجہ ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں :۔ (1) یہ مفعول لہ ہے ای لا جل الاستکبار اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کی وجہ سے۔ (2) یہ حال ہے ای مستکبرین۔ اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہوئے ۔ درآں حالیکہ وہ اپنے آپ کو بڑا سمجھتے تھے (3) یہ نفورا کا بدل ہے (4) یہ نفورا پر عطف ہے یعنی فلما جاء ہم نذیر ما زادہم الا نفورا وما زادہم الا استکبارا فی الارض وما زادوا الا مکر السیء یعنی جب وہ نذیر تشریف لایا تو اس کی اطاعت و فرمانبرداری کی بجائے وہ اس سے نفرت کرنے لگے اس کی آمد کے بعد ان کے غرور اور سرکشی میں اضافہ ہوتا گیا اور انہوں نے اس کے خلاف بڑھ چڑھ کر گھنائونی سازشیں شروع کردیں۔ (ضیاء القرآن) ۔ ومکر السیئ۔ اس کا عطف استکبارا پر ہے اس کی بھی وہی صورتیں ہیں جو اوپر استکبارا کی بیان ہوئیں۔ اس کی اصل ترکیب یہ تھی وان مکروا السیئ۔ کیونکہ السیء موصوف مقدر کی صفت ہے پھر مصدر کو ان اور فعل کے قائم مقام لایا گیا اور اس کی صفت کی طرف اضافت کی گئی ۔ مکر۔ بوجوہ بالا منصوب ہے۔ مکر السیء ۔ قبیح چالیں۔ بری تدبیریں۔ لا یحیق۔ مضارع منفی واحد مذکر غائب۔ حیوق۔ حیقان مصادر (باب ضرب ) نہیں گھیرتا ہے۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے وحاق بہم ما کانوا بہ یستھزء ون۔ (46:26) اور جس چیز سے وہ استہزا کیا کرتے تھے اس نے ان کو آگھیرا۔ ولا یحیق المکر السیء الا باھلہ اور گھنائونی سازش بجز سازشیوں کے اور کسی کو نہیں گھیرتی۔ یعنی بری چال کا وبال اس کے چلنے والے پر ہی پڑتا ہے۔ ھل ینظرون۔ ھل نفی کے معنی میں ہے جیسا کہ آیت ھل جزاء الاحسان الا الاحسان (55:60) میں ہے ینظرون بمعنی ینتظرون۔ یتوقعون۔ یہ انتظار نہیں کر رہے یا توقع نہیں رکھتے ۔ مگر سنۃ الاولین۔ پہلے والوں کے دستور کا۔ یعنی ان کے ساتھ بھی وہی سلوک ہو جو ان سے قبل ان لوگوں کے ساتھ ہوا تھا جو ان کے جیسے افعال کے مرتکب ہوئے تھے۔ عذاب الٰہی نے ان کو ہلاک و برباد کردیا تھا۔ سنۃ۔ طریقہ جاریہ۔ دستور ۔ رسم۔ اس کی جمع سنن ہے۔ لن تجد۔ مضارع نفی تاکید بلن واحد مذکر حاضر۔ تو نہیں پائے گا۔ تحویلا۔ تبدیلی۔ تغیر۔ تفاوت، بروزن تفعیل مصدر ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی یہ اگر اپنی روش نہ بدلیں گے اور اپنی سرکشی میں بڑھتے جائیں گے تو پچھلے کافروں کی طرح ان پر عذاب نازل ہو کر رہے گا۔ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی سنت تبدیل نہیں ہوسکتی کہ یہ اس کی پکڑ سے محفوظ رہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

8۔ یعنی تکبر کی وجہ سے آپ کے اتباع سے عار تو ہوئی ہی تھی مگر یہ بھی نہ کیا کہ نہ اتباع ہوتا اور نہ درپے ایذاء ہوتے، بلکہ آپ کی ایذاء رسانی کی فکر میں لگ گئے۔ چناچہ ہر وقت ان کا اسی میں لگا رہنا معلوم و مشہور ہے۔ 9۔ یعنی سزا و اہلاک۔ 01۔ مطلب یہ کہ حق تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ کافروں کو عذاب ہوگا خواہ دنیا میں بھی خواہ صرف آخرت میں بھی، اور حق تعالیٰ کا وعدہ ہمیشہ سچا ہوتا ہے، پس نہ یہ احتمال ہے کہ ان کو عذاب نہ ہو، نہ یہ احتمال ہے کہ دوسروں کو ہونے لگے، مقصود اس تکریر سے تاکید ہے وقوع عذاب کی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قریش مکہ نے قسم کھا کر کہا کہ ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا آگیا تو ہم دوسروں سے بڑھ کر ہدایت والے ہوں گے، پھر جب ڈرانے والا آگیا تو متکبر بن گئے اور حق سے منحرف ہوگئے قریش مکہ مشرک تھے، تجارت کے لیے شام جایا کرتے تھے وہاں نصاریٰ کی حکومت تھی اور یہودیوں کا بھی انہیں کچھ علم تھا جب انہیں یہ پتہ چلا کہ ان دونوں قوموں نے اللہ کے پیغمبروں کی تکذیب کی ہے تو کہنے لگے کہ یہود و نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو ان کے پاس اللہ کے رسول آئے تو انہیں جھٹلا دیا ہم اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ اگر ہمارے پاس کوئی رسول آگیا تو ان لوگوں سے بڑھ کر ہدایت پر ہوں گے، یہ بات انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے کہی تھی، پھر جب آپ کی بعثت ہوئی تو نہ صرف یہ کہ آپ کی تکذیب کی بلکہ آپ کی تکذیب کی اور تنفر ہی کو اختیار کرلیا، اور نفرت اختیار کرنے کا باعث یہ تھا کہ ایمان قبول کرنے کو اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے جو سراسر تکبر تھا، یہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف بری بری تدبیریں کرتے تھے، پھر جو تدبیریں کیں وہ خود الٹی انہیں کے گلے پڑیں، جن حضرات کو اسلام سے روکتے تھے ان کے روکنے میں کامیاب نہ ہوئے اور یہ روکنے والے غزوہ بدر میں مقتول ہوئے اور سارا تکبر دھرا رہ گیا۔ اللہ تعالیٰ نے بطور قاعدہ کلیہ اس کو یوں بیان فرمایا : (وَلَا یَحِیْقُ الْمَکْرُالسَّیِّئُ اِلَّا بِاَھْلِہٖ ) (اور بری تدبیروں کا وبال ان تدبیر والوں ہی پر پڑتا ہے) یہ تکوینی قانون ہے کہ جو شخص کسی کو دکھ دینے کی تدبیریں کرے گا وہ خود اسی پر پڑے گی، عموماً ایسا دیکھا جاتا رہا ہے اور اس کے بارے میں یہ جملہ مشہور ہوگیا ہے : (من حفر بئر لاخیہ فقد وقع فیہ) (جو شخص اپنے بھائی کے لیے کنواں کھودے گا وہ خود اسی میں گرے گا۔ ) (فَھَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا سُنَّتَ الْاَوَّلِیْنَ ) (سو کیا وہ پرانے لوگوں کے دستور کا انتظام کر رہے ہیں) (فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا) (سو آپ ہرگز اللہ کے دستور میں تبدیلی نہ پائیں گے) (وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحْوِیْلًا) (اور آپ ہرگز اللہ کے دستور میں منتقل ہونا نہ پائیں گے) یعنی اللہ کا یہ دستور ہے کہ کافروں پر عذاب ہوگا خواہ دنیا و آخرت دونوں میں ہو، خواہ صرف آخرت میں ہو، اور یہ بھی دستور ہے کہ جو عذاب کا مستحق ہو اسی کو عذاب ہوتا ہے، ایسا نہیں کہ انہیں چھوڑ کر کسی دوسری قوم کو عذاب ہوجائے جو مستحق عذاب نہ ہو، ان کا ڈھنگ اور طریقہ کار ایسا ہے جیسے عذاب کے منتظر ہوں اور وجہ اس کی عناد اور باطل پر اصرار ہے، چونکہ عذاب میں مبتلا ہونے کا یقین نہیں اس لیے عذاب کے انتظار میں بیٹھے ہیں، انتظار کرنے سے عذاب سے حفاظت نہ ہوجائے گی آنے والا عذاب آکر رہے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

43:۔ فھل ینظرون الخ : کیا یہ ہمارے عذاب کا انتظار کر رہے ہیں جو پہلے زمانے کے کافروں پر نازل ہوا تو اگر یہ تکذیب و انکار پر قائم رہے تو ہمارا عذاب ان پر ضرور آئے گا۔ کیونکہ ہماری سنت جاریہ بدل نہیں سکتی۔ بین ان سنتہ التیھی الانقام من مکذبی الرسل سنۃ لا یبدلہا فی ذا تھا ولا یحولہا عن اوقاتہا وان ذلک مفعول لا محالۃ (مدارک ) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(43) وہ یہ کہ ملک میں مزید غرور اور سرکشی اور بری بری تدبیریں کرنے لگے حالانکہ بری تدبیر اور بری چال پلٹ کر اس چال چلنے والی کو گھیر لیا کرتی ہے۔ سو کیا یہ کافر اسی طریقے اور دستور کے منتظر ہیں اور اسی آئین عقوبت کی راہ دیکھ رہے ہیں جو اگلے لوگوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔ وہی برتائو ان کفار قریش کے ساتھ بھی ہوگا کیونکہ آپ اللہ تعالیٰ کے اس دستور کو کبھی بدلتا نہیں پائیں گے اور آپ اس کے آئین میں کسی قسم کا ردوبدل نہیں پائیں گے اور آپ ہرگز اللہ تعالیٰ کے دستور کو پھرتا اور منتقل ہوتا ہوا نہ پائیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے یہ کفار جب اہل کتاب کی بےراہ روی دیکھتے اور ان کے مظالم اور بیجا ہٹ دھرمیوں کے قصے سنا کرتے تو اس بات کی خواہش کیا کرتے کہ ہمارے پاس کوئی نبی آئے تو ہم اس کی خوب اطاعت و فرماں برداری کر کے دکھائیں اور تمام امتوں سے ہم زیادہ راہ یافتہ اور سب سے زیادہ ہدایت قبول کرنے والے ہوں گے پھر اس دعویٰ پر بڑی پختہ اور سخت مضبوط قسمیں بھی اللہ تعالیٰ کے نام کی کھایا کرتے تھے کہ ہم ضرور اس کی پوری پوری اتباع کریں گے اور ہر ایک امت سے زیادہ راہ پانے والے ہوں گے۔ لیکن جب ان کے پاس پیغمبر اور ڈرانے والا آپہنچا اور اس نے ان کو دعوت دی تو ان میں سوائے نفرت کے اور کچھ نہ بڑھا یعنی اس نذیر کی تعلیم سے ان میں نفرت ہی بڑھی دنیا میں اپنے کو بڑا سمجھنے کی وجہ سے غرور کی راہ اختیار کی اور پیغمبر کے خلاف بری بری تدبیریں کرنے لگے اور سوئے تدبیر سے کام لینے لگے حالانکہ اس قسم کے مکروفریب اور بری حیلہ سازی خود ایسا کرنے والوں پر ہی پلٹ جاتی ہے اور اس قسم کی تدبیریں خود برائی کرنے والوں کو گھیر لیا کرتی ہیں۔ ان لوگوں کی یہ حرکات اس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ یہ اس آئین عقوبت کا انتظار کر رہے ہیں جو پہلوں کے ساتھ ہوچکا ہے جس طرح ان سے پہلے لوگ نافرمانی کے باعث تباہ اور ہلاک ہوئے وہی ان کے ساتھ برتائو کیا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے طریقہ میں نہ تبدیلی پائی جاتی ہے نہ تحویل۔ چناچہ یہی برتائو ان کے ساتھ بھی ہوگا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں عرب کے لوگ جو سنتے یہود کی بےحکمیاں اپنے نبی سے تو کہتے کبھی ہم میں ایک نبی آوے تو ہم اس سے بہتر رفاقت کریں۔ سو منکروں نے اور عداوت کی۔