Surat Yaseen

Surah: 36

Verse: 19

سورة يس

قَالُوۡا طَآئِرُکُمۡ مَّعَکُمۡ ؕ اَئِنۡ ذُکِّرۡتُمۡ ؕ بَلۡ اَنۡتُمۡ قَوۡمٌ مُّسۡرِفُوۡنَ ﴿۱۹﴾

They said, "Your omen is with yourselves. Is it because you were reminded? Rather, you are a transgressing people."

ان رسولوں نے کہا کہ تمہاری نحوست تمہارے ساتھ ہی لگی ہوئی ہے کیا اس کو نحوست سمجھتے ہو کہ تم کو نصیحت کی جائے بلکہ تم حد سے نکل جانے والے لوگ ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالُوا ... Their Messengers said to them: ... طَايِرُكُمْ مَعَكُمْ ... Your evil omens be with you! meaning, `they are thrown back at you.' This is like the Ayah where Allah describes the people of Fir`awn: فَإِذَا جَأءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُواْ لَنَا هَـذِهِ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّيَةٌ يَطَّيَّرُواْ بِمُوسَى وَمَن مَّعَهُ أَلاَ إِنَّمَا طَايِرُهُمْ عِندَ اللَّهِ But whenever good came to them, they said: "Ours is this." And if evil afflicted them, they ascribed it to evil omens connected with Musa and those with him. Be informed! Verily, their evil omens are with Allah. (7:131) And the people of Salih said: اطَّيَّرْنَا بِكَ وَبِمَن مَّعَكَ قَالَ طَايِرُكُمْ عِندَ اللَّهِ "We augur ill omen from you and those with you." He said: "Your ill omen is with Allah." (27:47) And Allah said: وَإِن تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُواْ هَـذِهِ مِنْ عِندِ اللَّهِ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّيَةٌ يَقُولُواْ هَـذِهِ مِنْ عِندِكَ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِندِ اللَّهِ فَمَا لِهَـوُلاءِ الْقَوْمِ لاَ يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً And if some good reaches them, they say, "This is from Allah," but if some evil befalls them, they say, "This is from you." Say: "All things are from Allah," so what is wrong with these people that they fail to understand any word. (4:78) ... أَيِن ذُكِّرْتُم بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُونَ (Do you call it "evil omen") because you are admonished! Nay, but you are a people mischievous. means, `because of us, because we admonished you and told you to worship Allah Alone and with all sincerity, and in return you said what you said and threatened us. Nay, but you are a mischievous people.' Qatadah said, "This means, `Because we reminded you about Allah, you saw an evil omen in us. Nay, but you are a mischievous people'. "

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

19۔ 1 یعنی وہ تمہارے اپنے اعمال بد کا نتیجہ ہے جو تمہارے ساتھ ہی ہے نہ کہ ہمارے ساتھ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٢٠] یعنی تمہاری نحوست کی اصل وجہ وہ نہیں جو تم سمجھے بیٹھے ہو۔ بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ پہلے تمہارے پاس کوئی تنبیہ کرنے والا نہیں آیا تھا۔ لہذا تم اللہ کی طرف سے معذور تھے۔ اب ہم نے اگر تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا تو تم نے اس سے سرتابی کی اور اکڑ بیٹھے۔ اس کی پاداش میں تمہیں اللہ کی طرف سے یہ سزا مل رہی ہے اور یہ تمہارے اپنے ہی اعمال کی نحوست ہے کہیں باہر سے نہیں آئی۔ [ ٢١] یعنی تمہارا انداز فکر اس قدر بگڑ چکا ہے کہ جو لوگ تمہارے خیر خواہ ہیں اور سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کرتے ہیں ان کو تم جان سے مار ڈالنے یا تکلیفیں پہنچانے کی دھمکیاں دیتے ہو۔ اور اللہ کی نافرمانی پر اگر تمہیں کوئی دکھ پہنچے تو اس کا ذمہ دار بھی ہمیں ٹھہراتے ہو۔ کچھ انصاف کی بات کرو۔ تم تو عقل اور آدمیت کی سب حدیں پھاند گئے ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْا طَاۗىِٕرُكُمْ مَّعَكُمْ : پیغمبروں نے کہا، تم پر آنے والی نحوست کا باعث ہم نہیں بلکہ خود تمہارے افعال ہیں کہ تم نے اللہ کے ساتھ شرک اور اس کی صریح نافرمانی اور سرکشی اختیار کر رکھی ہے۔ اگر تم پر قحط پڑا ہے، یا وبا آئی ہے، یا کوئی اور آفت تو اس کا باعث تم خود ہو، ہم نہیں، کیونکہ ہم تو اللہ کی توحید اور اس کی اطاعت ہی کی دعوت دیتے ہیں۔ اَىِٕنْ ذُكِّرْتُمْ : اس شرط کا جواب محذوف ہے، یعنی کیا اگر تمہیں نصیحت کی جائے اور تمہاری خیر خواہی کی جائے تو شکر گزار ہونے کے بجائے ہمیں منحوس قرار دیتے ہو اور دھمکیاں دیتے ہو ؟ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ : بلکہ اصل یہ ہے کہ تم حد سے بڑھنے والے لوگ ہو۔ اپنی خواہشوں کے خلاف اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی، یا عقل و دانش کی رو سے عائد ہونے والی کوئی پابندی تمہیں قبول نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The sense of the statement: قَالُوا طَائِرُ‌كُم مَّعَكُمْ (They said, |"Your bad omen deeds.& The word: طَایٔر (ta&ir) essentially denotes bad omen or misfortune and, on occasions, it is also used to refer to the effects of misfortune, that is, wretchedness. Here, this is what it means. (Ibn Kathir, Qurtubi)

قالوا طائرکم معکم، یعنی تمہاری نحوست تمہارے ہی ساتھ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارے ہی اعمال کا نتیجہ ہے۔ طائر کا لفظ اصل میں بدفالی کے لئے بولا جاتا ہے، اور کبھی بدفالی کے اثر یعنی نحوست کے معنی میں بھی آتا ہے یہاں یہی مراد ہے (ابن کثیر، قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا طَاۗىِٕرُكُمْ مَّعَكُمْ۝ ٠ ۭ اَىِٕنْ ذُكِّرْتُمْ۝ ٠ ۭ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ۝ ١٩ طير ( فال) ، وتَطيَّرَ فلانٌ ، واطَّيَّرَ أصله التّفاؤل بالطَّيْرِ ثمّ يستعمل في كلّ ما يتفاء ل به ويتشاءم، قالُوا : إِنَّا تَطَيَّرْنا بِكُمْ [يس/ 18] ، ولذلک قيل : «لا طَيْرَ إلا طَيْرُكَ «1» » ، وقال تعالی: إِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَطَّيَّرُوا[ الأعراف/ 131] ، أي : يتشاء موا به، أَلا إِنَّما طائِرُهُمْ عِنْدَ اللَّهِ [ الأعراف/ 131] ، أي : شؤمهم : ما قد أعدّ اللہ لهم بسوء أعمالهم . وعلی ذلک قوله : قالُوا اطَّيَّرْنا بِكَ وَبِمَنْ مَعَكَ قالَ طائِرُكُمْ عِنْدَ اللَّهِ [ النمل/ 47] ، قالُوا طائِرُكُمْ مَعَكُمْ [يس/ 19] ، وَكُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ [ الإسراء/ 13] ، أي : عمله الذي طَارَ عنه من خيرٍ وشرٍّ ، ويقال : تَطَايَرُوا : إذا أسرعوا، ويقال :إذا تفرّقوا «2» ، قال الشاعر : 303 ۔ طَارُوا إليه زَرَافَاتٍ ووُحْدَاناً وفجرٌ مُسْتَطِيرٌ ، أي : فاشٍ. قال تعالی: وَيَخافُونَ يَوْماً كانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيراً [ الإنسان/ 7] ، وغبارٌ مُسْتَطَارٌ ، خولف بين بنائهما فتصوّر الفجر بصورة الفاعل، فقیل : مُسْتَطِيرٌ ، والغبارُ بصورة المفعول، فقیل : مُسْتَطَارٌ وفرسٌ مُطَارٌ للسّريع، ولحدید الفؤاد، وخذ ما طَارَ من شَعْر رأسك، أي : ما انتشر حتی كأنه طَارَ. تطیر فلان واطیر اس کے اصل معنی تو کسی پرندہ سے شگون لینے کے ہیں پھر یہ ہر اس چیز کے متعلق استعمال ہونے لگا ہے ۔ جس سے برا شگون لیا جائے اور اسے منحوس سمجھا جائے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا تَطَيَّرْنا بِكُمْ [يس/ 18] ہم تم کو منحوس سمجھتے ہیں ۔ اسی لئے کہا گیا ہے لا طیر الا طیرک کہ نہیں ہے نحوست مگر تیری طرف سے ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَطَّيَّرُوا[ الأعراف/ 131] اگر سختی پہنچتی ہے تو بد شگونی لیتے ہیں ۔ یعنی موسٰی (علیہ السلام) کو باعث نحوست سمجھتے ہیں چناچہ ان کے جواب میں فرمایا أَلا إِنَّما طائِرُهُمْ عِنْدَ اللَّهِ [ الأعراف/ 131] یعنی یہ ان کی بد اعمالیوں کی سزا ہے جو اللہ کے ہاں سے مل رہی ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : ۔ قالُوا اطَّيَّرْنا بِكَ وَبِمَنْ مَعَكَ قالَ طائِرُكُمْ عِنْدَ اللَّهِ [ النمل/ 47] وہ کہنے لگے کہ تم اور تمہارے ساتھیوں کو ہم بد شگون خیال کرتے ہیں ( صالح (علیہ السلام) نے ) کہا کہ تمہاری بد شگوفی خدا کی طرف سے ہے ۔ قالُوا طائِرُكُمْ مَعَكُمْ [يس/ 19] انہوں نے کہا ہے کہ تمہاری نحوست تمہارے ساتھ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَكُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ [ الإسراء/ 13] اور ہم نے ہر انسان کے اعمال کو اس کے گلے میں لٹکا دیا ہے ۔ میں انسان اعمال کو طائر کہا گیا ہے ( کیونکہ عمل کے سر زد ہوجانے کے بعد انسان کو یہ اختیار نہیں رہتا کہ اسے واپس لے گویا وہ ( اس کے ہاتھوں سے اڑجا تا ہے تطائر وا وہ نہایت تیزی سی گئے منتشر ہوگئے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے طاردو الیہ ذرافات ووحدانا تو جماعتیں بن کر اور اکیلے اکیلے اس کی طرف اڑتے چلے جاتے ہیں ۔ فجر مستطیر منتشر ہونے والی صبح قرآن میں ہے : ۔ وَيَخافُونَ يَوْماً كانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيراً [ الإنسان/ 7] اور اس دن سے جس کی سختی پھیل رہی ہوگی خوف رکھتے ہیں ۔ غبار مستطار بلند اور منتشر ہونے والا غبار فجر کو فاعل تصور کر کے اس کے متعلق مستطیر اسم فاعل کا صیغہ استعمال کرتے ہیں اور غبار کو مفعول تصور کر کے مستطار کہتے ہیں ۔ فرس مطار ہوشیار اور تیزرو گھوڑا ۔ خذ ماطا ر من شعر راسک یعنی اپنے سر کے پرا گندہ اور لمبے بال کاٹ ڈالو ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] سرف السَّرَفُ : تجاوز الحدّ في كلّ فعل يفعله الإنسان، وإن کان ذلک في الإنفاق أشهر . قال تعالی: وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا[ الفرقان/ 67] ، وَلا تَأْكُلُوها إِسْرافاً وَبِداراً [ النساء/ 6] ، ويقال تارة اعتبارا بالقدر، وتارة بالکيفيّة، ولهذا قال سفیان : ( ما أنفقت في غير طاعة اللہ فهو سَرَفٌ ، وإن کان قلیلا) قال اللہ تعالی: وَلا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ [ الأنعام/ 141] ، وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحابُ النَّارِ [ غافر/ 43] ، أي : المتجاوزین الحدّ في أمورهم، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ [ غافر/ 28] ، وسمّي قوم لوط مسرفین من حيث إنهم تعدّوا في وضع البذر في الحرث المخصوص له المعنيّ بقوله : نِساؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ [ البقرة/ 223] ، وقوله : يا عِبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ [ الزمر/ 53] ، فتناول الإسراف في المال، وفي غيره . وقوله في القصاص : فَلا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ [ الإسراء/ 33] ، فسرفه أن يقتل غير قاتله، إمّا بالعدول عنه إلى من هو أشرف منه، أو بتجاوز قتل القاتل إلى غيره حسبما کانت الجاهلية تفعله، وقولهم : مررت بکم فَسَرِفْتُكُمْ أي : جهلتكم، من هذا، وذاک أنه تجاوز ما لم يكن حقّه أن يتجاوز فجهل، فلذلک فسّر به، والسُّرْفَةُ : دویبّة تأكل الورق، وسمّي بذلک لتصوّر معنی الإسراف منه، يقال : سُرِفَتِ الشجرةُ فهي مسروفة . ( س ر ف ) السرف کے معنی انسان کے کسی کام میں حد اعتدال سے تجاوز کر جانے کے ہیں مگر عام طور پر استعمال اتفاق یعنی خرچ کرنے میں حد سے تجاوز کرجانے پر ہوتا پے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا[ الفرقان/ 67] اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بیچا اڑاتے ہیں اور نہ تنگی کو کام میں لاتے ہیں ۔ وَلا تَأْكُلُوها إِسْرافاً وَبِداراً [ النساء/ 6] اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہوجائیں گے ( یعنی بڑی ہو کہ تم سے اپنا کا مال واپس لے لیں گے ) اسے فضول خرچی اور جلدی میں نہ اڑا دینا ۔ اور یہ یعنی بےجا سرف کرنا مقدار اور کیفیت دونوں کے لحاظ سے بولاجاتا ہے چناچہ حضرت سفیان ( ثوری ) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی میں ایک حبہ بھی صرف کیا جائے تو وہ اسراف میں داخل ہے ۔ قرآن میں ہے : وَلا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ [ الأنعام/ 141] اور بےجانہ اڑان کہ خدا بےجا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔ وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحابُ النَّارِ [ غافر/ 43] اور حد سے نکل جانے والے دوزخی ہیں ۔ یعنی جو اپنے امور میں احد اعتدال سے تجاوز کرتے ہیں إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ [ غافر/ 28] بیشک خدا اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جا حد سے نکل جانے والا ( اور ) جھوٹا ہے ۔ اور قوم لوط (علیہ السلام) کو بھی مسرفین ( حد سے تجاوز کرنے والے ) کیا گیا ۔ کیونکہ وہ بھی خلاف فطرف فعل کا ارتکاب کرکے جائز حدود سے تجاوز کرتے تھے اور عورت جسے آیت : نِساؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ [ البقرة/ 223] تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں ۔ میں حرث قرار دیا گیا ہے ۔ میں بیچ بونے کی بجائے اسے بےمحل ضائع کر ہے تھے اور آیت : يا عِبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ [ الزمر/ 53] ( اے پیغمبر میری طرف سے لوگوں کو کہدد کہ ) اے میرے بندو جہنوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی میں اسرفوا کا لفظ مال وغیرہ ہر قسم کے اسراف کو شامل ہے اور قصاص کے متعلق آیت : فَلا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ [ الإسراء/ 33] تو اس کا چاہئے کہ قتل ( کے قصاص ) میں زیادتی نہ کرے ۔ میں اسراف فی القتل یہ ہے کہ غیر قاتل کو قتل کرے اس کی دو صورتیں ہی ۔ مقتول سے بڑھ کر باشرف آدمی کو قتل کرنے کی کوشش کرے ۔ یا قاتل کے علاوہ دوسروں کو بھی قتل کرے جیسا کہ جاہلیت میں رواج تھا ۔ عام محاورہ ہے ۔ کہ تمہارے پاس سے بیخبر ی میں گزر گیا ۔ تو یہاں سرفت بمعنی جھلت کے ہے یعنی اس نے بیخبر ی میں اس حد سے تجاوز کیا جس سے اسے تجاوز نہیں کرنا چاہئے تھا اور یہی معنی جہالت کے ہیں ۔ السرفتہ ایک چھوٹا سا کیڑا جو درخت کے پتے کھا جاتا ہے ۔ اس میں اسراف کو تصور کر کے اسے سرفتہ کہا جاتا ہے پھر اس سے اشتقاق کر کے کہا جاتا ہے ۔ سرفت الشجرۃ درخت کرم خور دہ ہوگیا ۔ اور ایسے درخت کو سرقتہ ( کرم خوردہ ) کہا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

وہ رسول بولے کہ تمہاری سختی اور تمہارا منحوس سمجھنا یہ تو تمہارے افعال کے ساتھ ہی اللہ کی طرف وابستہ ہے کیا اس کو نحوست سمجھتے ہو کہ تمہیں نصیحت کریں اور اللہ تعالیٰ سے ڈرائیں بلکہ تم تو پورے مشرک ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩ { قَالُوْا طَآئِرُکُمْ مَّعَکُمْ ” انہوں نے کہا کہ تمہاری نحوست تو تمہارے اپنے ساتھ ہے۔ “ { اَئِنْ ذُکِّرْتُمْ } ” کیا اس لیے کہ تمہیں نصیحت کی گئی ہے ؟ “ کیا تم یہ باتیں اس لیے بنا رہے ہو کہ تمہیں نصیحت اور یاد دہانی کرائی گئی ہے ؟ جبکہ یہ نصیحت بھی کوئی نئی اور انوکھی بات سے متعلق نہیں ہے۔ اللہ کی معرفت تو پہلے سے تمہارے دلوں کے اندر موجود ہے۔ ہم تو تم لوگوں کو صرف اس کی یاد دہانی کرانے کے لیے آئے ہیں۔ اسی حقیقت کو سورة الذاریات میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے : { وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ } ” اور تمہارے اپنے اندر بھی (اللہ کی نشانیاں) ہیں ‘ کیا تم دیکھتے نہیں ہو ؟ “ { بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ } ” بلکہ تم حد سے بڑھ جانے والے لوگ ہو۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

15 That is, "No one is an evil omen for another. Everyman's augury is hanging around his own neck.If a person sees an evil, it is because of his own self; and if he sees a good, it is also because of his own self. 'We have fastened the augury of every man to his own neck'." (Bani Isra'il: 13). 16 That is, "You in fact want to avoid the good and you like the deviation instead of the guidance. Therefore, instead of determining the truth and falsehood by means of an argument, you arc making these false pretences on account of your superstitious whims."

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :15 یعنی کوئی کسی کے لیے منحوس نہیں ہے ۔ ہر شخص کا نوشتہ تقدیر اس کی اپنی ہی گردن میں لٹکا ہوا ہے ۔ برائی دیکھتا ہے تو اپنے نصیب کی دیکھتا ہے اور بھلائی دیکھتا ہے تو وہ بھی اس کے اپنے ہی نصیب کی ہوتی ہے ۔ وَکُلُّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰہُ طٰٓئِرَہٗ فِیْ عُنُقِہٖ ، ہر شخص کا پروانۂ خیر و شر ہم نے اس کی گردن میں لٹکا دیا ہے ( بنی اسرائیل : 13 ) سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :16 یعنی دراصل تم بھلائی سے بھاگنا چاہتے ہو اور ہدایت کے بجائے گمراہی تمہیں پسند ہے ، اس لیے حق اور باطل کا فیصلہ دلیل سے کرنے کے بجائے اوہام و خرافات کے سہارے یہ بہانہ بازیاں کر رہے ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

7: یعنی نحوست کا اصل سبب تو تمہارا کفر اور شرک ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(36:19) قالوا۔ رسولوں نے کہا۔ طائرکم معکم تمہاری نحوست تو تمہارے ساتھ ہی لگی ہوئی ہے۔ ائن ذکرتم۔ ہمزہ استفہامیہ ہے ان حرف شرط ہے ، جو اب شرط محذوف ہے ای ان ذکرتم تطیرتم بناو تواعد تمونا جب تم کو نصیحت کی جاتی ہے تو تم ہم کو منحوس قرار دیتے ہو اور تکلیف دہی کا ڈراوا دیتے ہو۔ (حرف استفہام بمعنی یہ کیا بات ہوئی ۔ کہ) بل۔ بلکہ (حرف اضراب ہے ) بلکہ حقیقت یہ ہے کہ :۔ (36:19) مسرفون۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ مسرف واحد۔ حد سے بڑھنے والے۔ اسران (افعال) مصدر۔ حد اعتدال یا حد مقررہ سے آگے بڑھنے والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 اس لئے اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ برے کام خود کرتے ہو اور منحوس ان لوگوں کو بتاتے ہو جو تمہیں برائی سے منع کرتے ہیں۔ یا ” تم لوگ ( کفر و سرکشی میں) حد سے بڑھ گئے ہو “۔ اس لئے ہماری دعوت کو قبول کرنے کی بجائے اسے اوہام و خرافات سے رد کرنا چاہتے ہو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ پس مخالفت شرع سے تم پر یہ نحوست آئی اور مخالفت عقل سے تم نے اس کا سبب غلط سمجھا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قالوا طآئرکم معکم (36: 19) ” ۔ اس لیے کہ نیک فالی یا بدفالی دونوں جاہلیت کے خرافات میں ہیں۔ اور رسولوں کے مشن میں یہ بھی داخل ہے کہ اس وہم کو بھی دور کیا جائے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ کسی انسان کو شیر و شر باہر سے نہیں ملتا بلکہ خیر اور شر دراصل خود اس کے نفس کے اندر سے پیدا ہوتا ہے۔ خیر اور شر تو تمہارے ساتھ لگا ہوا ہے۔ تمہاری نیتوں اور تمہارے اعمال سے آنے والے خیر و شر کا گہرا ربط ہے اور خیر و شر کا مدار تمہارے اعمال پر ہے۔ یہ تمہارے اختیار میں ہے کہ تم آنے والے واقعات کو اپنے لیے بہتر بناؤ اور نیک انجام پاؤ یا اسے خود اپنے لیے شربنا دو کیونکہ اللہ لوگوں کے بارے میں وہی فیصلے کرتا ہے جن کے لیے ان کے نفوس میں میلان ہو اور اپنے عمل کی وجہ سے اس طرف انسانوں کا رجحان ہو۔ لہٰذا تمہارا شگون اور بدشگونی تمہارے ساتھ اور تمہارے نفوس کے اندر ہے۔ یہ ہے ایک قائم اور دائم حقیقت۔ رہی یہ بات کہ کسی کا منہ دیکھ کر فال بدلینا ، یا کسی جگہ سے بدشگونی یا الفاظ سے بدشگونی لینا یہ خرافات جاہلیت میں سے ایک موہوم بات ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں۔ اس لیے رسولوں نے کہا ائن ذکرتم (36: 19) ” یعنی تم ہمیں رجم کرنے کی دھمکی اسلئے دیتے ہو یا نہیں سخت سزا اسلئے دیتے ہو کہ ہم تمہیں نصیحت کر رہے ہیں اور راہ بد سے بجا رہے ہیں۔ بل انتم قوم مسرفون (36: 19) “۔ یعنی اپنی سوچ اور واقعات کو وزن کرنے میں تم حدود سے نکل چکے ہو۔ ، تم نصیحت کا بدلہ دھمکی سے دیتے ہو ، اور تشدد پر اتر آئے ہو۔ اور دعوت اسلامی کے جواب میں تشدد اور قتل کی بات کرتے ہو۔ جن لوگوں کے دلوں پر پردے پڑگئے تھے۔ ان کی جانب سے رسولوں کی دعوت کا جواب یہ دیا گیا اور یہ ہے مثال اس سرکش لوگوں کی جو ہمیشہ دعوت اسلامی کی راہ روک کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور تشدد پر اتر آتے ہیں۔ جب بھی دعوت اسلامی کا آغاز ہوگا اس قسم کے لوگ متحرک ہوجائیں گے ۔ یہ ہے راہ و رسم دعوت اللہ کے کام کی۔ اس کے بالمقابل انسانوں میں سے ایک دوسرا نمونہ بھی ہوتا ہے جو نصیحت قبول کرکے اس کی اطاعت کرتا ہے۔ رحمن سے بن دیکھے ڈرتا ہے۔ اس لیے اس دوسرے نمونے کا رویہ بالکل پہلے رویے سے مختلف ہوتا ہے۔ اور اس کا ردعمل پہلے والے لوگوں کے ردعمل سے بالکل جدا ہوتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

13:۔ قالوا طائرکم الخ، پیغمبروں نے جواب دیا شؤم و نحوست خود تمہارے اندر موجود ہے بارش کے بند ہونے کی وجہ تمہارا کفر و شرک اور طغیان و عصیان ہے۔ ائن ذکرتم۔ جزا محذوف ہے ای تطیرتم و جواب الشرط مضمر تقدیرہ لظیرتم (مدارک) کیا ہم نے تمہیں نصیحت کی ہے، اللہ کی توحید کی طرف بلایا ہے اور شرک سے روکا ہے اس لیے تم نے اس قسم کی لایعنی باتوں سے ہمارا مقابلہ شروع کردیا ہے اور ہمیں دھمکیاں دینے لگے ہو اور اپنے اعمال بد کی شامت کو ہماری طرف منسوب کرنے لگے ہو۔ نہایت بےانصاف اور حد سے تجاوز کرنے والے لوگ ہو۔ ای من اجل انا ذکرنا کم و امرناکم بتوحید اللہ واخلاص العبادۃ لو قابلتمونا بہذا الکلام و توعدتمونا وتھدوتمونا (ابن کثیر ج 3 ص 567) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(19) انبیاء نے جواب دیا تمہاری نحوست تمہارے ساتھ ہے کیا اتنی بات پر کہ تم کو نصیحت کی گئی تم یہ سلوک کرنے پر آمادہ ہو نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ تم حد سے نکل جانے والے لوگ ہو۔ مطلب یہ ہے کہ تمہاری نحوست کا سبب تو تمہارے ساتھ لگا ہوا ہے یعنی وہ کفر اور ناسپاسی ہے اگر اس کو چھوڑ دیتے تو نہ کوئی اختلاف ہوتا نہ قحط کا اندیشہ ہوتا۔ صرف اتنی بات پر کہ تم کو نصیحت اور تمہاری خیرخواہی کی گئی تم الزام تراشی اور دھمکیوں پر آمادہ ہوگئے۔ بات یہ ہے کہ تم لوگ حد شرع اور معقولیت سے نکل جانے والے لوگ ہو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں شاید کفر کی شامت سے قحط ہوا ہوگا اس کو نامبارکی سمجھے یا آپس میں اختلاف ہو کسی نے مانا کسی نے نہ مانا اس کو کہا ہر طرح شامت ان ہی کی ہے۔