Surat Yaseen

Surah: 36

Verse: 20

سورة يس

وَ جَآءَ مِنۡ اَقۡصَا الۡمَدِیۡنَۃِ رَجُلٌ یَّسۡعٰی قَالَ یٰقَوۡمِ اتَّبِعُوا الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿ۙ۲۰﴾

And there came from the farthest end of the city a man, running. He said, "O my people, follow the messengers.

اور ایک شخص ( اس ) شہر کے آخری حصے سے دوڑتا ہوا آیا کہنے لگا کہ اے میری قوم! ان رسولوں کی راہ پر چلو

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah tells, وَجَاء مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعَى ... And there came a man running from the farthest part of the town. Quoting what reached him from Ibn Abbas, Ka`b Al-Ahbar and Wahb bin Munabbih -- Ibn Ishaq reported that, "The people of the city resolved to kill their Messengers, then a man came running to them from the farthest part of the town, i.e., to help them aga... inst his people. They said, his name was Habib, and he used to work with ropes. He was a sickly man who suffered from leprosy, and he was very charitable, giving half of his earnings in charity, and his Fitrah (natural inclination) was sound." Shabib bin Bishr said, narrating from Ikrimah, from Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, that, the name of the man mentioned in Ya Sin was Habib An-Najjar, and he was killed by his people. ... قَالَ يَا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ He said: "O my people! Obey the Messengers." -- he urged his people to follow the Messengers who had come to them.   Show more

مبلغ حق شہید کر دیا ۔ مروی ہے کہ اس بستی کے لوگ یہاں تک سرکش ہوگئے کہ انہں نے پوشیدہ طور پر نبیوں کے قتل کا ارادہ کر لیا ۔ ایک مسلمان شخص جو اس بستی کے آخری حصے میں رہتا تھا جس کا نام حبیب تھا اور رسے کا کام کرتا تھا ، تھا بھی بیمار ، جذام کی بیماری تھی ، بہت سخی آدمی تھا ۔ جو کماتا تھا اس ک... ا آدھا حصہ اللہ کی راہ میں خیرات کر دیا کرتا تھا ۔ دل کا نرم اور فطرت کا اچھا تھا ۔ لوگوں سے الگ تھلگ ایک غار میں بٹھ کر اللہ عزوجل کی عبادت کیا کرتا تھا ۔ اس نے جب اپنی قوم کے اس بد ارادے کو کسی طرح معلوم کیا تو اس سے صبر نہ ہو سکا دوڑتا بھاگتا آیا ۔ بعض کہتے ہیں یہ بڑھئی تھے ۔ ایک قول ہے کہ یہ دھوبی تھے ۔ عمر بن حکم فرماتے ہیں جوتی گانٹھنے والے تھے ۔ اللہ ان پر رحم کرے ۔ انہوں نے آ کر اپنی قوم کو سمجھانا شروع کیا کہ تم ان رسولوں کی تابعداری کرو ۔ ان کا کہا مانو ۔ ان کی راہ چلو ، دیکھو تو یہ اپنا کوئی فائدہ نہیں کر رہے یہ تم سے تبلیغ رسالت پر کوئی بدلہ نہیں مانگتے ۔ اپنی خیر خواہی کی کوئی اجرت تم سے طلب نہیں کر رہے ۔ درد دل سے تمہیں اللہ کی توحید کی دعوت دے رہے ہیں اور سیدھے اور سچے راستے کی رہنمائی کر رہے ہیں ۔ خود بھی اسی راہ پر چل رہے ہیں ۔ تمہیں ضرور ان کی دعوت پر لبیک کہنا چاہئے اور ان کی اطاعت کرنی چاہئے ۔ لیکن قوم نے ان کی ایک نہ سنی بلکہ انہیں شہید کر دیا ۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

20۔ 1 یہ شخص مسلمان تھا، جب اسے پتہ چلا کہ قوم پیغمبروں کی دعوت کو نہیں اپنا رہی، تو اس نے آکر رسولوں کی حمایت اور ان کے اتباع کی ترغیب دی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٢٢] اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان رسولوں اور ان کی قوم میں جو مکالمہ اوپر مذکور ہوا ہے وہ کوئی چند دنوں پر مشتمل نہیں بلکہ کئی سالوں کی مدت پر محیط تھا اور رسولوں کی دعوت اور ان کے انکار اور دھمکیوں کا چرچا اس شہر کے علاوہ ارد گرد کے مضافات میں بھی پھیل چکا تھا۔ چناچہ انہیں مضافات میں سے ایک صالح مرد...  جس کا نام حبیب بتایا جاتا ہے نے جب یہ سنا کہ شہر والے اپنے رسولوں کو قتل کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور مبادا وہ کوئی ایسی حرکت کر نہ بیٹھیں، تو اس سے برداشت نہ ہوسکا۔ وہ خود ایک عبادت گزار انسان تھا۔ اور اپنے ہاتھوں کی حلال کمائی کھاتا تھا۔ اور اچھی شہرت رکھتا تھا، یہ باتیں سنتے ہی دوڑتا ہوا اس کی طرف آیا تاکہ وہ اپنی قوم کے لوگوں کو سمجھائے کہ وہ ان رسولوں کی مخالفت سے باز آجائیں۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَجَاۗءَ مِنْ اَقْصَا الْمَدِيْنَةِ رَجُلٌ يَّسْعٰى : آیات سے ظاہر ہے کہ پیغمبروں کی دعوت اور قوم کا مباحثہ مدت تک جاری رہا، حتیٰ کہ ان کی دعوت ساری بستی میں پھیل گئی اور جب انھوں نے قتل کی دھمکی دی تو یہ خبر بھی ہر طرف پھیل گئی کہ بستی کے لوگ پیغمبروں کو قتل کرنا چاہتے ہیں۔ بستی خاصی بڑی تھی، جسے پ... ہلے اللہ تعالیٰ نے ” الْقَرْيَةِ “ فرمایا ہے، اس کے بعد اسے ” الْمَدِيْنَةِ “ یعنی شہر کہا ہے۔ اس شہر کے سب سے دور کنارے میں ایک صالح آدمی رہتا تھا، اسے جب پیغمبروں کی دعوت اور قوم کے انکار کی اور پیغمبروں کو قتل کرنے کی دھمکیوں کی خبر پہنچی تو وہ شہر کے سب سے دور کنارے سے دوڑتا ہوا آیا کہ کہیں وہ جلدی میں پیغمبروں کو قتل ہی نہ کردیں، اور وہ اپنی قوم کو سمجھانے لگا۔ اس مرد صالح کا یہ عمل ہمارے لیے نمونہ ہے کہ جب اسے معلوم ہوگیا کہ پیغمبر حق پر ہیں تو اس نے اس بات پر اکتفا نہیں کیا کہ اپنی جگہ بیٹھ کر اللہ اللہ کرتا رہتا، بلکہ حق کی شہادت دینے کے لیے جتنی جلدی ہوسکتا تھا دوڑتا ہوا پہنچا اور اس نے اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے قوم کو سمجھانے کی پوری کوشش کی اور کہا، اے میری قوم ! اللہ کے ان رسولوں کی پیروی اختیار کرو۔ اس مرد صالح کا نام تفاسیر میں حبیب نجار لکھا ہے جو اسرائیلیات سے ماخوذ ہے۔ (واللہ اعلم) یہاں ایک سوال ہے کہ سورة قصص میں موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کے قتل کے مشورے کی خبر دینے والے صاحب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : (وَجَاۗءَ رَجُلٌ مِّنْ اَقْصَا الْمَدِيْنَةِ يَسْعٰى) [ القصص : ٢٠ ] جب کہ یہاں فرمایا : (وَجَاۗءَ مِنْ اَقْصَا الْمَدِيْنَةِ رَجُلٌ ) اس میں کیا حکمت ہے ؟ اہل علم نے فرمایا کہ ہمیشہ پہلے اس بات کا ذکر کیا جاتا ہے جو موقع کے لحاظ سے زیادہ اہم ہو۔ سورة قصص میں موسیٰ (علیہ السلام) کو اطلاع دینے والے شخص کی مردانگی کا اظہار زیادہ اہم تھا، اس لیے ” رَجُلٌ“ کا ذکر پہلے فرمایا، جب کہ یہاں اس مرد ناصح کا دور سے آ کر سمجھانے کا ذکر زیادہ اہم تھا، اس لیے ” مِنْ اَقْصَا الْمَدِيْنَةِ “ کو پہلے ذکر فرمایا۔ (واللہ اعلم)  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 20, it was said: وَجَاءَ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ رَ‌جُلٌ يَسْعَىٰ (And there came a man rushing from the farthest part of the city.) In the first verse (13), the place where this incident transpired was expressed as: اَلقَریَۃ (al-qaryah: town) which, according to the Arabic lexical usage, does not signify a small village, instead, it means a habitation in the absolute sense. It may be ... a small habitation or a big city. Now, in this verse, this place has been identified as: اَمَدِینۃ (al-madinah), a name used only for a big city. From here, we learn that the habitation where this event took place was some big city. Hence, this too supports the saying where it has been identified as Antakiyah. The expression: أَقْصَى الْمَدِينَةِ (aqsal-madinah: farthest part of the city) means outskirts of the city. The word: يَسْعَىٰ as a rushing) in the phrase: رَ‌جُلٌ يَسْعَىٰ has been derived from: سَعٰی يَسْعَىٰ (run) which means to walk in a running gait. Therefore, the expression would mean that a man came running from the farthest part of the city. Then, there are occasions when this word is also used in the sense of walking with concern, poise and sense of purpose to be accomplished - which may not include running- as in Surah Al-Jumu` ah: فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ‌ اللَّـهِ (fas` aw ila dhikril-lah: hasten for the remembrance of Allah (Khutbah and Salah of Jumu&ah) - 62:9). Here, this very sense is intended. The event relating to the person coming from the farthest part of the city The noble Qur&an has left this too as ambiguous. It does not mention his name, nor does it say who he was. As part of historical narrations, Ibn Ishaq has reported from Sayyidna Ibn ` Abbas, Ka` b al-Ahbar And Wahb Ibn Munabbih that the name of this person was Habib. There are different sayings about his profession. The most famous is the one that says that he was a carpenter. (Ibn Kathir). Other historical narrations reported by commentators at this stage tell us that this person too was initially an idolater. He happened to meet the two messengers who came to this town the first time. It was either as a result of their teachings or, as it appears in some narrations, by seeing extraordinary working of wonders at their hands, his heart was lit with faith. He repented from past idolatry, embraced Islam and retired to a cave devoting to worship. When he got the news that the people of the city have rejected the teachings of these messengers, have become hostile to them and were threatening to kill them, he came to his people prompted by the mixed objectives of his concern for their good as well as the safety of the messengers. He advised them to follow these messengers and declared that he himself had become a believer: (I have believed in your Lord; so listen to me.- 25)   Show more

(آیت) وجاء من اقصی المدینہ رجل یسعیٰ ، پہلی آیت میں اس مقام کو جس میں یہ قصہ پیش آیا لفظ قریہ سے تعبیر کیا گیا جو عربی زبان کے اعتبار سے صرف چھوٹے گاؤں کو نہیں بلکہ مطلق بستی کو کہتے ہیں، چھوٹی بستی ہو یا بڑا شہر۔ اور اس آیت میں اس مقام کو لفظ مدینہ سے تعبیر کیا جو صرف بڑے شہر ہی کے لئے استعمال ہوت... ا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس بستی میں یہ واقعہ ہوا ہے وہ کوئی بڑا شہر تھا، اس سے بھی اس قول کی تائید ہوتی ہے جس میں اس کو انطاکیہ قرار دیا ہے۔ اقصی المدینہ سے مراد شہر کے کسی گوشہ سے آنا ہے۔ رجل یسعیٰ ، لفظ یسعیٰ سعی سے ماخوذ ہے جس کے لغوی معنی دوڑ کر چلنے کے ہیں۔ اس لئے معنی یہ ہوئے کہ شہر کے کسی دوسرے گوشہ سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا، اور کبھی لفظ سعی اہتمام کے ساتھ چلنے کے معنے میں بھی آتا ہے چاہے دوڑ کر نہ چلے، جیسے سورة جمعہ میں (آیت) فاسعوا الیٰ ذکر اللہ میں یہی معنی مراد ہیں۔ گوشہ شہر سے آنے والے شخص کا واقعہ : قرآن کریم نے اس کو بھی مبہم رکھا ہے، اس شخص کا نام اور حال ذکر نہیں فرمایا۔ تاریخی روایات میں ابن اسحاق نے حضرت ابن عباس اور کعب احبار اور وہب بن منبہ کے حوالے سے یہ نقل کیا ہے کہ اس شخص کا نام حبیب تھا، اس کے پیشہ کے متعلق مختلف اقوال ہں، ان میں مشہور یہ ہے کہ نجار تھا لکڑی کا کام کرتا تھا۔ (ابن کثیر) اور تاریخی روایات جو مفسرین نے اس جگہ نقل کی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص بھی شروع میں بت پرست تھا، دو رسول جو پہلے اس شہر میں آئے اس کی ملاقات ان سے ہوگئی ان کی تعلیم سے اور بعض روایات کے اعتبار سے ان کا معجزہ یا کرامت دیکھ کر اس کے دل میں ایمان پیدا ہوا۔ بت پرستی سے تائب ہو کر مسلمان ہوگیا اور کسی غار وغیرہ میں جا کر عبادت میں مشغول ہوگیا جب اس کو یہ خبر ملی کہ شہر کے لوگ ان رسولوں کی تعلیم و ہدایت کو جھٹلا کر ان کے درپے آزار ہوگئے اور قتل کی دھمکیاں دے رہے ہیں، تو یہ اپنی قوم کی خیر خواہی اور ان رسولوں کی ہمدردی کے ملے جلے جذبے سے جلدی کر کے اپنی قوم میں آیا اور ان کو رسولوں کا اتباع کرنے کی نصیحت کی۔ اور پھر اپنے مومن ہونے کا اعلان کردیا۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَجَاۗءَ مِنْ اَقْصَا الْمَدِيْنَۃِ رَجُلٌ يَّسْعٰى قَالَ يٰقَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِيْنَ۝ ٢ ٠ۙ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان وال... معاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ قصی القَصَى: البعد، والْقَصِيُّ : البعید . يقال : قَصَوْتُ عنه، وأَقْصَيْتُ : أبعدت، والمکان الأَقْصَى، والناحية الْقَصْوَى، ومنه قوله : وَجاءَ رَجُلٌ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ يَسْعى [ القصص/ 20] ، وقوله : إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى [ الإسراء/ 1] يعني : بيت المقدس، فسمّاه الْأَقْصَى اعتبارا بمکان المخاطبین به من النبيّ وأصحابه، وقال : إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوى[ الأنفال/ 42] . وقَصَوْتُ البعیر : قطعت أذنه، وناقة قَصْوَاءُ ، وحکوا أنه يقال : بعیر أَقْصَى، والْقَصِيَّةُ من الإبلِ : البعیدةُ عن الاستعمال . ( ق ص و ) القصی کے معنی بعد یعنی دوری کے ہیں اور قصی بعید کو کہا جاتا ہے محاورہ ہے : ۔ قصؤت عنہ میں اس سے دور ہوا اقصیہ میں نے اسے دور کردیا ۔ المکان الاقصی دور دراز جگہ الناحیۃ القصویٰ دور یا کنارہ اسی سے قرآن پاک میں ہے : ۔ وَجاءَ رَجُلٌ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ يَسْعى [ القصص/اور ایک شخص شہر کی پر لی طرف سے دوڑتا ہوا آیا ۔ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى [ الإسراء/ 1] مسجد اقصی ٰ یعنی بیت المقدس تک ۔ میں المسجد الاقصیٰ سے مراد بیت المقدس ہے اور اسے الاقصیٰ مخاطبین یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کے مقام سکونت کے اعتبار سے کہا ہے ۔ کیونکہ وہ مدینہ سے دور تھی ۔ إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوى[ الأنفال/ 42] جس وقت تم ( مدینے سے ) قریب ناکے پر تھے اور کافر بعید کے نا کے پر ۔ قصؤت البعیر کے معنی اونٹ کا کان قطع کرنے کے ہیں اور کان کٹی اونٹنی کو ناقۃ قصراء کہا جاتا ہے اور اس معنی میں بعیر اقصیٰ کا محاورہ بھی منقول ہے قصیۃ اس اونٹنی کو کہا جاتا ہے جو کام کاج سے دور رکھی گئی ہو ( اصیل اونٹنی ) مدن المَدينة فَعِيلَةٌ عند قوم، وجمعها مُدُن، وقد مَدَنْتُ مَدِينةً ، ون اس يجعلون المیم زائدة، قال تعالی: وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة/ 101] قال : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلى حِينِ غَفْلَةٍ مِنْ أَهْلِها [ القصص/ 15] . ( م دن ) المدینۃ ۔ بعض کے نزدیک یہ فعیلۃ کے وزن پر ہے اس کی جمع مدن آتی ہے ۔ اور مدنت مدینۃ کے معنی شہر آیا ہونے کے ہیں ۔ اور بعض کے نزدیک اس میں میم زیادہ ہے ( یعنی دین سے مشتق ہے ) قرآن پاک میں ہے : وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة/ 101] اور بعض مدینے والے بھی نفاق پر اڑے ہوئے ہیں ۔ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک آدمی آیا ۔ وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلى حِينِ غَفْلَةٍ مِنْ أَهْلِها [ القصص/ 15] اور وہ شہر میں داخل ہوئے ۔ رجل الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا [ الأنعام/ 9] ( ر ج ل ) الرجل کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام/ 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ سعی السَّعْيُ : المشي السّريع، وهو دون العدو، ويستعمل للجدّ في الأمر، خيرا کان أو شرّا، قال تعالی: وَسَعى فِي خَرابِها[ البقرة/ 114] ، وقال : نُورُهُمْ يَسْعى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ [ التحریم/ 8] ، وقال : وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَساداً [ المائدة/ 64] ، وَإِذا تَوَلَّى سَعى فِي الْأَرْضِ [ البقرة/ 205] ، وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرى [ النجم/ 39- 40] ، إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّى [ اللیل/ 4] ، وقال تعالی: وَسَعى لَها سَعْيَها [ الإسراء/ 19] ، كانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُوراً [ الإسراء/ 19] ، وقال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] . وأكثر ما يستعمل السَّعْيُ في الأفعال المحمودة، قال الشاعر : 234- إن أجز علقمة بن سعد سعيه ... لا أجزه ببلاء يوم واحد «3» وقال تعالی: فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ [ الصافات/ 102] ، أي : أدرک ما سعی في طلبه، وخصّ المشي فيما بين الصّفا والمروة بالسعي، وخصّت السّعاية بالنمیمة، وبأخذ الصّدقة، وبکسب المکاتب لعتق رقبته، والمساعاة بالفجور، والمسعاة بطلب المکرمة، قال تعالی: وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ سبأ/ 5] ، أي : اجتهدوا في أن يظهروا لنا عجزا فيما أنزلناه من الآیات . ( س ع ی ) السعی تیز چلنے کو کہتے ہیں اور یہ عدو ( سرپٹ دوڑ ) سے کم درجہ ( کی رفتار ) ہے ( مجازا ) کسی اچھے یا برے کام کے لئے کوشش کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَسَعى فِي خَرابِها[ البقرة/ 114] اور ان کی ویرانی میں ساعی ہو ۔ نُورُهُمْ يَسْعى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ [ التحریم/ 8]( بلکہ ) ان کا نور ( ایمان ) ان کے آگے ۔۔۔۔۔۔ چل رہا ہوگا ۔ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَساداً [ المائدة/ 64] اور ملک میں فساد کرنے کو ڈوڑتے بھریں ۔ وَإِذا تَوَلَّى سَعى فِي الْأَرْضِ [ البقرة/ 205] اور جب پیٹھ پھیر کر چلا جاتا ہے تو زمین میں ( فتنہ انگریزی کرنے کے لئے ) دوڑتا پھرتا ہے ۔ وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرى [ النجم/ 39- 40] اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے اور یہ کہ اس کی کوشش دیکھی جائے گی ۔ إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّى [ اللیل/ 4] تم لوگوں کی کوشش طرح طرح کی ہے ۔ وَسَعى لَها سَعْيَها [ الإسراء/ 19] اور اس میں اتنی کوشش کرے جتنی اسے لائق ہے اور وہ مومن بھی ہو تو ایسے ہی لوگوں کی کوشش ٹھکانے لگتی ہے ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] تو اس کی کوشش رائگاں نی جائے گی لیکن اکثر طور پر سعی کا لفظ افعال محمود میں استعمال ہوتا ہے کسی شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) 228 ) ان جز علقمہ بن سیف سعیہ لا اجزہ ببلاء یوم واحد اگر میں علقمہ بن سیف کو اس کی مساعی کا بدلہ دوں تو ایک دن کے حسن کردار کا بدلہ نہیں دے سکتا اور قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ [ الصافات/ 102] جب ان کے ساتھ دوڑ نے کی عمر کو پہنچا ۔ یعنی اس عمر کو پہنچ گیا کہ کام کاج میں باپ کا ہاتھ بٹا سکے اور مناسب حج میں سعی کا لفظ صفا اور مردہ کے درمیان چلنے کے لئے مخصوص ہوچکا ہے اور سعاد یۃ کے معنی خاص کر چغلی کھانے اور صد قہ وصول کرنے کے آتے ہیں اور مکاتب غلام کے اپنے آپ کو آزاد کردانے کے لئے مال کمائے پر بھی سعایۃ کا لفظ بولا جاتا ہے مسا عا ۃ کا لفظ فسق و محور اور مسعادۃ کا لفظ اچھے کاموں کے لئے کوشش کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ سبأ/ 5] اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں میں اپنے زعم باطل میں ہمیں عاجز کرنے کے لئے سعی کی میں سعی کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے ہماری نازل کر آیات میں ہمارے عجز کو ظاہر کرنے کے لئے پوری طاقت صرف کر دالی ۔ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ، قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] ، فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] ، اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] ، وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] ، ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] ، وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] کہنے لگا کہ اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو ایسے کے جو تم سے صلہ نہیں مانگتے اور وہ سیدھے رستے پر ہیں ۔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا ۔ اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] جو ( کتاب ) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو ۔ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] اور تمہارے پیرو تو ذلیل لوگ کرتے ہیں ۔ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] اور اپنے باپ دادا ۔۔۔ کے مذہب پر چلتا ہوں ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر ( قائم ) کردیا ہے تو اسیی ( راستے ) پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] اور ان ( ہزلیات ) کے پیچھے لگ گئے جو ۔۔۔ شیاطین پڑھا کرتے تھے ۔ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٠۔ ٢١) اور انبیاء کرام کی خبر سن کر اس شہر کے کسی دور مقام سے حبیب نجار مسلمان دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لاکر ان رسولوں کی پیروی کرو۔ جو تم سے اس چیز پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتے اور وہ خود بھی موحد اور سیدھے راستے پر ہیں اس پر قوم نے ان سے کہا کہ تو نے ہم سے اور ہمارے دین ... سے بےزاری ظاہر کی اور ہمارے دشمن کے دین کو اختیار کرلیا ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠ { وَجَآئَ مِنْ اَقْصَا الْمَدِیْنَۃِ رَجُلٌ یَّسْعٰی } ” اور شہر کے َپرلے سرے سے آیا ایک شخص بھاگتا ہوا “ { قَالَ یٰقَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِیْنَ } ” اس نے کہا : اے میری قوم کے لوگو ! تم ان رسولوں ( علیہ السلام) کی پیروی کرو ! “ تم لوگ ان پر ایمان لائو ‘ ان کی تصدیق کرو اور ان کی اطاعت...  کرو۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

8: روایتوں میں ان کا نام حبیب نجار بتایا گیا ہے۔ یہ پیشے کے لحاظ سے بڑھئی تھے، اور ان رسولوں کی دعوت پہلے ہی قبول کر کے ایمان لا چکے تھے، اور شہر کے سرے پر کہیں تنہا رہ کر عبادت میں لگے رہتے تھے۔ جب انہیں پتہ چلا کہ ان کی قوم کے لوگ ان رسولوں کو تکلیف پہنچانے کے درپے ہیں تو یہ جلدی سے وہاں پہنچے، او... ر بڑے مؤثر انداز میں اپنی قوم کے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٠ تا ٢٥۔ جس بستی کا اوپر ذکر تھا اسی بستی کے پرے سرے سے یہ نیک شخص دوڑتا ہوا آیا شاہ (عبدالقادر) صاحب اپنے فائدہ ٢ ؎ جس طرح لکھا ہے (٢ ؎ یہ شہر تھا انطاکیہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے دو یار وہاں پہنچے ‘ شہروالوں نے ٹال دیا ‘ پھر تیسرے یار بھی پہنچے یہ تیسرے بڑے یار تھے (موضح القرآن) اسی طرح ابن ا... سحاق کی روایت میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے اور کعب احبار اور وہب بن منبہ اور عکرمہ وقتاوہ اور زہری وغیرہ نے بھی اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ ان آیتوں میں جس شہر کا ذکر ہے وہ شہر انطاکیہ تھا اور جن رسولوں کا ذکر ہے وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے تین حواری تھے مگر حافظ عماد الدین ابن کثیر ٣ ؎ نے اس تفسیر پر یہ اعتراض کیا ہے (٣ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥٦٩ ج ٣) امام بخاری (رح) کا انداز یہی بتاتا ہے ‘ یہ قصہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) سے تو بہرحال پہلے کا ہے (فتح الباری کتاب الانبیا ( علیہ السلام) ئ) (ع ‘ ح) کہ وہ شہر انطاکیہ اس سبب سے نہیں ہوسکتا کہ اکثر اہل اسلام اور اہل کتاب کی تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ انطاکیہ اور اسکندریہ ان شہروں میں سے ہیں جن کے لوگ سب سے پہلے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے ہیں پھر انطاکیہ ان شہروں میں کیوں کر ہوسکتا ہے جس کے رہنے والوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو جھٹلایا اور وہ رسول حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواری اس سبب سے نہیں ہوسکتے کہ یہ شہر قرآن کے مضمون کے موافق ایسا شہر ہے جس کے رہنے والے رسولوں کے جھٹلانے اور حبیب نجار کے شہید کر ڈالنے کے سبب سے حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کی چنگھاڑ سے ہلاک ہوئے ہیں حالانکہ مستدرک حاکم مسند بزار تفسر ابن ابی حاتم اور تفسیر ابن مرودیہ میں حضرت ابوسعید خدری (رض) کی روایت سے مرفوع اور موقوف روایتیں ١ ؎ ہیں (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٣٩ ج ٣ و تفسیر الدر المنثور ص ١٢٩ ج ٥) جن میں سے مرفوع روایت کو حکم نے صحیح قرار دیا ہے ان روایتوں کا حاصل یہ ہے کہ سوا اس بنی اسرائیل کے فرقے کے جو مچھلیوں کے شکار میں نافرمانی کرنے سے بندر ہوگئے تو ریت کے نازل ہونے کے بعد عام عذاب اور کسی قوم پر آسمان سے نہیں آیا پھر یہ حضرت جبرئیل کے چنگھاڑ کے عذاب کا قصہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں تو ریت کے نازل ہونے کے بعد کیوں کر صحیح ہوسکتا ہے ‘ سورة قصص کی آیت ولقدآتینا موسیٰ الکتاب من بعد ما اھلکنا القرون الاولیٰ سے ابو سعید خدری (رض) کی اوپر کی حدیث کی تائید ہوتی ہے کیوں کہ آیت اور حدیث کا مطلب قریب قریب ہے غرض اس اعتراض کے بعد حافظ ابن کثیر نے صحیح تفسیر یہی قراردی ہے کیونکہ تو ریت کے نازل ہونے سے پہلے تین نبیوں کا کسی شہر کا یہ قصہ ہے جن نبیوں اور شہر کے نام کی صراحت نہ آیت میں ہے نہ کسی صحیح حدیث میں ہے طبرانی میں اگرچہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت سے ایک حدیث ہے جس سے یہ بات نکلتی ہے کہ یہ سورة یسین کا قصہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ کا ہے کیوں کہ اس حدیث کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت میں جو رتبہ حضرت علی (رض) کا ہے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی امت میں وہی رتبہ اس شخص کا ہے جس کا ذکر سورة یسین میں ہے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا امت میں وہی رتبہ یوشع بن نون کا ہے لیکن اس حدیث کی سند میں ایک راوی حسین بن حسن الاشقر کوفی ایسا ہے جس کو امام بخاری نسائی اور دار قطنی نے ضعیف ٹھہرایا ہے اور جوز جانی نے کہا ہے کہ یہ حسین بن حسن اس طرح کا غالی شیعہ تھا کہ اچھے لوگوں کو گالیاں دیا کرتا تھا یہ جوز جانی ابواسحاق ابراہیم بن یعقوب ومشقی علماء میں سے ہیں ان کی تالیفات میں کتاب الضعفاء مشہور ہے نسائی اور دارقطنی نے ان جوز جانی کو ثقہ کہا ہے ‘ اگر تنہا ابن حبان نے حسین بن حسن کو ثقہ لوگوں میں شمار کیا ہے لیکن اور علماء نے ابن حبان کی بات کو تسلیم نہیں کیا اس واسطے یہ روایت اس روایت مستدرک حاکم کے مقابلہ میں مقبول نہیں ہوسکتی جس کی صحت حاکم کے حوالہ سے اوپر گزر چکی بعضے مفسروں نے جو لکھا ہے کہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کی چنگھاڑ سے شائد اسی قدر لوگ انطاکیہ کے ہلاک ہوئے ہوں جنہوں نے حبیب نجار کو شہید کیا تھا اس صورت میں انطاکیہ کا عذاب جب کہ عام نہیں تھا تو اس شہر کے انطاکیہ ہونے پر کچھ اعتراض نہیں ہوسکتا یہ قول قرآن شریف کے مطلب کے مخالف ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس عذاب کے ذکر کے بعد کم اھلکنا من القرون فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اور بستیوں کی طرح اس شہر کا عذاب بھی عام تھا تفسیرابن جریر اور ابن ابی حاتم میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ان نیک شخص کا نام حبیب نجار تھا حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ جب بستی کے لوگوں نے اللہ کے رسولوں کے شہید کر ڈالنے کا ارادہ کیا اور حبیب نجار نے یہ خبر سنی تو وہ گھبرا کرو دوڑتے ہوئے وہاں آئے جہاں اللہ کے رسول تھے اور اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ اے قوم کے لوگو جب یہ اللہ کے رسول اپنی نصیحت کا کچھ معاوضہ تم لوگوں سے نہیں چاہتے اور پکی پکی باتیں نصیحت کی کہتے ہیں تو و ضرور راہ راست پر معلوم ہوتے ہیں اس لیے تم لوگوں کو ان کا کہنا ماننا چاہئے قوم کے لوگوں نے حبیب نجار کی یہ نصیحت سن کر کہا کہ کیا تم نے اپنا قدیمی دین چھوڑ دیا جو تم ایسی باتیں کرتے ہو حبیب نجارنے قوم کے لوگوں کو جواب دیا کہ کیا مجھ کو اتنی بات سمجھ لینی کچھ مشکل ہے کہ جس نے مجھ کو پیدا کیا ہے اور مجھے اور تمہیں سب کو ایک دن اسے منہ دکھانا ہے تو میں اس کی عبادت نہ کروں اور ایسے بتوں کی پوجا میں لگا رہوں کہ جو نہ خود اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی کسی مصیبت کو ٹال سکتے ہیں نہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں میری کچھ سفارش کرسکتے ہیں تم بھی سمجھ لو کہ اگر میں ایسی بےاختیار چیز کو پوچھا میں لگا رہوں تو یہ کیسی موٹی عقل ہے پھر رسولوں کی طرف متوجہ ہو کر حبیب نجار نے یہ کہا تم گواہ رہو کہ میں تو تمہارے پروردگار کو اپنا معبود مان چکا آگے حضرت عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن مسعود کی روایتیں آتی ہیں کہ اس کے بعد قوم کے لوگوں نے حبیب نجار کو شہید کر ڈالا اور اللہ تعالیٰ نے حبیب کو جنت میں داخل ہونے کا حکم دیا ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی کی روایت کئی جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا کرنے سے پہلے اپنے علم غیب کے موافق اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کون شخص جنت میں داخل ہونے کا حکم دیا ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی کی روایت کئی جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا کرنے سے پہلے اپنے علم غیب کے موافق اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کون شخص جنت میں داخل ہونے کے قابل کام کرے گا اور کون دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل ‘ صحیح بخاری وغیرہ کے حوالہ ٢ ؎ سے عبداللہ بن مسعود (رض) کی حدیث بھی گزر چکی ہے (٢ ؎ صحیح بخاری ص ٧١٤ ج ٢ تفسیر سورة الدخان) کہ قریش نے جب بہت سرکشی شروع کی تو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بد دعاء سے مکہ میں سخت قحط پڑا اور آخر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعاء سے مینہ برسا جس سے وہ قحط رفع ہوا ان حدیثوں کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مکہ کے قحط کے وقت مشرکین مکہ کو اور اس بستی کے قحط کے وقت یہاں کے لوگوں کو اگرچہ بتوں کی بےاختیاری کا حال اچھی طرح سیکھ گیا تھا لیکن ان میں کے جو لوگ علم الٰہی کے موافق دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل قرار پائے تھے وہ مرتے دم تک ان بےمصرف مورتوں کی پوجا میں لگے رہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(36:20) اقصا۔ افعل التفضیل کا صیغہ قصاء سے جس کے معنی دور ہونے کے ہیں زیادہ دور۔ بہت بعید۔ اقصا المدینۃ۔ مضاف مضاف الیہ۔ شہر کا پر لا۔ (دور والا سرا۔ یا شہر کا کوئی ودر والا مقام) ۔ یسعی۔ مضارع واحد مذکر غائب سعی مصدر۔ (باب فتح) دوڑتا ہوا۔ یہ رجل کا حال ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : تین انبیائے کرام (علیہ السلام) کے ساتھ قوم کی کشمکش کی انتہا اور ایک خیرخواہ کا قوم کو آخری بار سمجھانا۔ قوم نے شرافت کی دیواریں پھلانگتے ہوئے جب یہ فیصلہ کرلیا کہ تینوں انبیاء کو بیک وقت قتل کردیا جائے۔ اس صورت حال کا جونہی شہر کے مضافات میں رہنے والے ایک شخص کو علم ہوا تو وہ...  بےقرار ہو کر دوڑتا ہوا اپنی قوم کے سر کردہ لوگوں کے پاس آیا اور انہیں سمجھاتے ہوئے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو ! تمہیں انبیائے کرام (علیہ السلام) کے خلاف سازشیں کرنے کی بجائے ان کی اتباع کرنی چاہیے۔ ناصرف یہ ہستیاں افکار اور کردار کے لحاظ سے ہم سب سے اعلیٰ اور ممتاز ہیں بلکہ اس بات پر بھی غور کرو کہ ان کی دعوت کے پیچھے ان کا کوئی ذاتی مفاد نہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ تم سے کسی معاوضہ کے طلب گار نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے فرستادہ اور اس کی طرف سے ہدایت یافتہ اور تمہیں ہدایت کی دعوت دینے والے انبیاء کرام ہیں۔ مضافات شہر سے آنے والی شخصیت کا نام ” حبیب “ بتلایا گیا ہے اس نے حالات کی نزاکت اور موقع کی مناسبت کی بنیاد پر رسولوں کے دو اوصاف کا ذکر کیا ہے۔ 1 یہ رسول اپنے رب کی طرف سے ہدایت یافتہ اور تمہارے لیے ہدایت کے امام ہیں۔ 2 اس دعوت کے نتیجہ میں جو مصائب اور مشکلات برداشت کررہے ہیں اس کے پیچھے ان کا کوئی مفاد وابستہ نہیں۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) کے اوصاف حمیدہ میں یہ اوصاف ہمیشہ نمایاں اور ممتاز رہے ہیں کہ ناصرف وہ اللہ تعالیٰ کے فرستادہ ہوا کرتے تھے بلکہ ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اپنے رب کی ہدایت کے مطابق بسر ہوتا تھا۔ وہ اپنے رب کی طرف سے لوگوں کے لیے ہدایت کے پیشوا ہوتے تھے۔ انہوں نے اپنی دعوت کے سلسلہ میں جتنی مشقتیں اٹھائیں اور جس قدر محنت کی اس کے پیچھے ان کا ذاتی مفاد نہیں ہوا کرتا تھا۔ اہل مکہ اور نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان کشمکش اپنی انتہا کو پہنچی تو اہل مکہ نے اپنے ایک سردار ولید بن عتبہ کو آپ کی خدمت میں بھیجا۔ اس نے آپ کے سامنے تین پیشکشیں کیں۔ 1 اگر کسی حسین لڑکی کے ساتھ شادی کے خواہش مند ہو تو جہاں چاہتے ہو ہم شادی کروا دیتے ہیں۔ 2 اگر دولت چاہتے ہو تو ہم آپ کی خواہش کے مطابق دولت پیش کردیتے ہیں۔ 3 مکہ کا سب سے بڑا سردار بننا پسند کرتے ہو ہم آپ کی سرداری قبول کرتے ہیں۔ آپ نے تینوں باتوں کو مسترد کرتے ہوئے سورة حٰم سجدہ کی ابتدائی آیات تلاوت کیں۔ جن میں مرکزی بات یہ ہے کہ میں تو بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا گیا ہوں اور تمہارے جیسا انسان ہوں مگر میری طرف میرے رب کی وحی آتی ہے جس میں پہلی دعوت یہ ہے لوگو ! تمہارا معبود صرف ایک ہے اس کے تابعدار ہوجاؤ۔ (وَعَنْ اَنَسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اُنْصُرْ أَخَاکَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا فَقَالَ رَجُلٌ یَّا رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنْصُرُہٗ مَظْلُومًا فَکَیْفَ أَنْصُرُہٗ ظَالِمًا قَالَ تَمْنَعُہٗ مِنَ الظُّلْمِ فَذٰلِکَ نَصْرُکَ اِیَّاُہ )[ رواہ البخاری : باب اعن اخاک ظالمًا او مظلوماً ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ اپنے بھائی کی مدد کرو ‘ خواہ ظالم ہو یا مظلوم۔ ایک شخص نے عرض کیا مظلوم کی مدد کروں ‘ مگر ظالم کی کیسے کروں ؟ آپ نے فرمایا ‘ تمہارا اس کو ظلم سے روکنا ہی اس کی مدد کرنا ہے۔ “ مسائل ١۔ مظلوم کی مدد کرنے میں آدمی کو پوری مستعدی سے کام لینا چاہیے۔ ٢۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) ہدایت کے پیکر اور مبلغ ہوا کرتے تھے۔ ٣۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) اپنی قوم سے کسی قسم کے مفاد اور معاوضہ کے طلب گ انکار نہیں ہوتے تھے۔ تفسیر بالقرآن تمام انبیائے کرام (علیہ السلام) بلا معاوضہ دین اور قوم کی خدمت سرانجام دیتے تھے : ١۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا میں تم سے اس تبلیغ پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا۔ (ہود : ٢٩) ٢۔ حضرت ہود (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں تم سے تبلیغ کا کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا۔ (الشعرا : ١٢٧) ٣۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میرا اجر اللہ رب العالمین پر ہے اور میں تم سے کچھ نہیں مانگتا۔ (الشعرا : ١٤١، ١٤٥) ٤۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرا اجر اللہ پر ہے اور وہی ہر چیز پر گواہ ہے۔ (سبا : ٤٧) ٥۔ میرا اجر اللہ پر ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔ (ہود : ٥١) ٦۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تجھ سے نہ اجر چاہتا ہوں اور نہ کسی قسم کا تکلف کرتا ہوں۔ (ص : ٨٦)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وجآء من اقصا المدینۃ۔۔۔۔۔ اجرا وھم مھتدون (20 – 21) ” “۔ یہ ہے نمونہ فطرت سلیمہ کا۔ جب فطرت سلیمہ ایک سیدھے سادے حق کو سنتی ہے تو وہ فوراً تصدیق کرتی ہے۔ نہایت سادگی اور نہایت ہی گرم جوشی کے ساتھ اور فطرت سلیمہ کی فکر مستقیم ہوئی ہے۔ اور وہ پرشوکت سچائی کے مقابلے میں جوش و خروش سے لبیک کہتی ہے۔ یہ...  شخص بھی اسی معاشرے اور گاؤں کا فرد ہے ، دعوت اسلامی کو سنتے ہی وہ لبیک کہتا ہے۔ وہ سچائی کے دلائل و نشانات کو اچھی طرح پاتا ہے۔ رسولوں اور ان کی قوم کے درمیان جو مکالمہ ہوا ہے اس کے اندر پائے جانے والی گہری منطق کو وہ پالیتا ہے۔ جب یہ سچائی اس کے دل و دماغ میں جاگزیں ہوگئی تو وہ فوراً حرکت میں آجاتا ہے۔ اب وہ خاموش نہیں رہ سکتا۔ یہ اپنا دروازہ بند کرکے اپنے گھر میں بیٹھا بھی نہیں رہتا جبکہ اس کے اردگرد گمراہی کا دور دورہ ہو ، فسق و فجور عام ہو اور لوگ کفر کر رہے ہوں ، اس کے ضمیر کے اندر جو سچائی اتر چکی ہے اور جس کو اس کا شعور حق تسلیم کرچکا ہے وہ اسے لے کر دوڑتا ہوا آتا ہے ، وہ اپنی قوم کے پاس آتا ہے ، یہ قوم جو انکار کر رہی ہے ، دھمکیاں دے رہی ہے ، تشدد پر اتر آئی ہے۔ یہ شخص شہر کے مضافاتی علاقے میں رہتا ہے۔ یہ اپنا فریضہ ادا کرنے کیلئے بھاگ نکلا ہے۔ اور اپنی اس منکر حق قوم کو دعوت حق دیتا ہے ان کو بغاوت ، سرکشی اور تشدد سے باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے جس کا وہ اپنے رسولوں کے بارے میں ارادہ کرچکے ہیں۔ معلوم یوں ہوتا ہے کہ یہ شخص اس سوسائٹی کا کوئی با اثر فرد نہ تھا۔ نہ اس کے پاس کوئی خاندانی وجاہت اور قوت تھی کہ اس کو ان سرکشوں کے تشدد سے بچائے۔ ہاں اس کے قلب میں ایک زندہ اور پر جوش ایمان تھا۔ یہ ولولہ انگیز ایمان تھا جو اسے بستی کے مضافات سے اٹھا لایا۔ وجاء من اقصا ۔۔۔۔۔ اجرا وھم مھتدون (36: 20 – 21) ” اتنے میں شہر کے دور دراز گوشے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور بولا ” اے میری قوم کے لوگو ، رسولوں کی پیروی اختیار کرلو۔ پیروی کرو ان لوگوں کی جو تم سے کوئی اجر نہیں چاہتے اور ٹھیک راستے پر ہیں “۔ جو شخص اس قسم کی تحریک اٹھاتا ہے اور اس پر کوئی اجر طلب نہیں کرتا ، نہ کوئی مفاد اس کا اس تحریک سے وابستہ ہوتا ہے۔ بیشک وہ سچا ہے۔ اگر یہ فریضہ اس کی جانب سے عائد نہیں ہے اور اللہ کے لیے نہیں ہے تو پھر وہ کیوں یہ سب کچھ برداشت کرتا ہے۔ لہٰذا لازمی نتیجہ ہے کہ یہ سچا ہے۔ اگر سچا نہیں تو پھر وہ کیوں خواہ مخواہ یہ مشکلات برداشت کرتا ہے۔ لوگوں کو ایسے خیالات و نظریات دیتا ہے جن کے وہ عادی نہیں ہیں ، لوگ اسے اذیت دیتے ہیں ، اس کے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں ، اس کے ساتھ مذاق کرتے ہیں ، اس سے انتقام لیتے ہیں ، وہ یہ سب کچھ برداشت کرتا ہے۔ حالانکہ اس کا کوئی مفاد اس کے ساتھ وابستہ نہیں ہے ۔ نہ وہ کوئی اجرت طلب کرتا ہے۔ لہٰذا معقول راہ یہی ہے کہ اتبعوا من لا۔۔۔۔ مھتدون (36: 21) ” پیروی اختیار کرو ان لوگوں کی جو تم سے کوئی اجر نہیں چاہتے اور ٹھیک راستے پر ہیں “۔ ان کی ہدایت تو ان کی دعوت اور ان کے کردار سے واضح ہے۔ وہ فقط ایک الٰہ کی دعوت دیتے ہیں اور یہ نہایت ہی معقول بات ہے۔ وہ ایک واضح منہاج زندگی کی طرف دعوت دیتے ہیں جو واضح طور پر معقول ہے۔ وہ ایسے عقائد و نظریات کی طرف دعوت دیتے ہیں جن میں کوئی پیچیدگی نہیں ہے اور نہ کوئی وہم و گمان ہے۔ یہ لوگ دراصل ایک نہایت ہی درست اور سیدھے راستے کی طرف راہ پاچکے ہیں اور ہدایت یافتہ ہیں۔ اس پورے معاشرے اور بستی سے پھر یہ اکیلا شخص کیوں ایمان لایا۔ اس کے بارے میں وہ کہتا ہے کہ دیکھو میرے ایمان کے اسباب یہ ہیں۔ میری فطرت جاگ اٹھی ہے۔ اور اپنی فطری سلامتی کی وجہ سے بات میری سمجھ میں آگئی ہے اور کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ اس دعوت سے کوئی سلیم الفطرت شخص منہ موڑے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مذکورہ بستی کے باشندوں میں سے ایک شخص کا پیامبروں کی تصدیق کرنا اور بستی والوں کو توحید کی تلقین کرنا تینوں حضرات بستی والوں کو ہدایات دے رہے تھے اور وہ لوگ ان حضرات سے الجھ رہے تھے اور یوں کہہ رہے تھے کہ تمہارا آنا ہمارے لیے نحوست کا سبب ہے، یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ ایک شخص اس بستی کی ایک جانب س... ے جو بہت دور تھی دوڑتا ہوا وہاں پہنچ گیا اس نے تینوں حضرات کی تائید کی اور بستی والوں سے کہا کہ اے میری قوم یہ حضرات ٹھیک فرما رہے ہیں، یہ واقعی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں تم ان کی بات مان لو اور ان کا اتباع کرو، یہ حضرات ایک تو اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے ہیں دوسرے تم سے کسی معاوضہ کا سوال نہیں کرتے تیسرے یہ خود ہدایت پر ہیں، ان کا عمل ان کے قول کے مطابق ہے۔ (لہٰذا ان کا اتباع تم پر لازم ہے۔ ) یہ باتیں کہہ کر اس شخص نے ان لوگوں کو عبادت خداوندی کی دعوت دی اور اپنے اوپر بات رکھ کر کہا کہ کیا وجہ ہے کہ میں اس ذات پاک کی عبادت نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا۔ اس میں یہ بتادیا کہ جس نے پیدا کیا وہی عبادت کا مستحق ہے، جب پیدا فرمانا استحقاق عبدودیت کی دلیل ہوا تو ضروری ہے کہ تم بھی اللہ ہی کی عبادت کرو میں بھی اسی کی عبادت کروں، اسی لیے آخر میں (وَالیہ ارجع) (اور میں اسی کی طرف لوٹایا جاؤں گا) نہیں کہا بلکہ (وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ ) (اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے) کہا۔ جب اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے جس نے پیدا کیا تو اس کی عبادت چھوڑنا یا دوسروں کو اس کی عبادت میں شریک کرنا یہ تو بالکل ہی حماقت اور بیوقوفی کی بات ہے۔ چونکہ اس بستی کے لوگ مشرک تھے اس لیے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے اس شخص نے مزید کہا (ءَ اَتَّخِذُ مِنْ دُوْنِہٖٓ اٰلِھَۃً ) (الآیتین) (کیا میں اپنے پیدا کرنے والے کے علاوہ دوسرے معبود تجویز کرلوں) یہ جو تم نے اس کے سوا معبود بنا رکھے ہیں وہ تو بالکل ہی بےحقیقت ہیں اگر رحمن تبارک و تعالیٰ مجھے کوئی ضرر پہنچانا چاہے تو یہ اس کی بارگاہ میں سفارش کرکے میری کوئی مدد نہیں کرسکتے اور نہ خود مجھے اس ضرر سے چھڑا سکتے ہیں، یعنی نہ تو یہ شفاعت کے اہل ہیں اور نہ خود ان میں کوئی قوت اور طاقت ہے، اگر رحمان جل مجدہٗ کو چھوڑ کر دوسرے معبود بنالوں تو میں کھلی گمراہی میں پڑجاؤں گا۔ (یہ سب باتیں اس دور سے آنے والے آدمی نے اپنے اوپر رکھ کر کہیں اور انہیں بتادیا کہ تم لوگ مشرک ہو، کھلی گمراہی میں ہو اور خالق جل مجدہٗ کے علاوہ جن کی تم عبادت کرتے ہو وہ تمہیں کچھ بھی نفع نہیں پہنچاسکتے۔ )  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

14:۔ وجاء رجل الخ، رجل سے حبیب بن مری نجار مراد ہے جو اسی بستی کے ایک کنارے رہتا تھا یہ نہایت نیک، فیاض اور سلیم الفطرت انسان تھا۔ اور انبیاء (علیہم السلام) کی دعوت کو قبول کرچکا تھا۔ (قرطبی) ، جب قوم کا انکار وعناد انتہا کو پہنچ گیا اور انہوں نے پیغمبروں کو شہید کردینے کا ارادہ کرلیا تو یہ شخص اپنے...  گھر سے دوڑتا ہوا آیا اور اپنی قوم کو نہایت ہی ناصحانہ انداز میں تبلیغ کرنے لگا۔ میری قوم ! ان رسولوں کی بات مان لو جو اللہ کی طرف سے آئے ہیں۔ اور محض تمہاری بھلائی کے لیے تمہیں سیدھی راہ دکھاتے ہیں اور تبلیغ حق پر تم سے کچھ اجرت بھی نہیں مانگتے وہ ہیں بھی راہ راست پر۔ اللہ کی توحید اور شرک کے بارے میں ان کا موقف بالکل درست ہے وھم مھتدون فیما یدعونکم الیہ من عبادۃ اللہ وحدہ لا شریک لہ (ابن کثیر ج 3 ص 568) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(20) اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا آ کے کہنے لگا اے میری قوم ان رسولوں کی راہ پر چلو۔