Surat Yaseen

Surah: 36

Verse: 26

سورة يس

قِیۡلَ ادۡخُلِ الۡجَنَّۃَ ؕ قَالَ یٰلَیۡتَ قَوۡمِیۡ یَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۲۶﴾

It was said, "Enter Paradise." He said, "I wish my people could know

۔ ( اس سے ) کہا گیا کہ جنت میں چلا جا کہنے لگا کاش! میری قوم کو بھی علم ہو جاتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah tells: قِيلَ ... It was said: Muhammad bin Ishaq reported from some of his companions from Ibn Mas`ud, may Allah be pleased with him, that they stamped on him until his intestines came out of his back passage. Allah said to him: ... ادْخُلِ الْجَنَّةَ ... "Enter Paradise." so he entered it with all its bountiful provision, when Allah had taken away from him all the sickness, grief and exhaustion of this world. Mujahid said, "It was said to Habib An-Najjar, `Enter Paradise.' This was his right, for he had been killed. When he saw the reward, ... قَالَ يَا لَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ He said: "Would that my people knew..."." Qatadah said, "You will never find a believer but he is sincere and is never insincere. When he saw with his own eyes how Allah had honored him, he said: ... قَالَ يَا لَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ بِمَا غَفَرَ لِي رَبِّي وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ

ظالموں کیلئے عذاب الٰہی ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان کفار نے اس مومن کامل کو بری طرح مارا پیٹا اسے گرا کر اس کے پیٹ پر چڑھ بیٹھے اور پیروں سے اسے روندنے لگے یہاں تک کہ اس کی آنتیں اس کے پیچھے کے راستے سے باہر نکل آئیں ، اسی وقت اللہ کی طرف سے اسے جنت کی خوشخبری سنائی گئی ، اسے اللہ تعالیٰ نے دنیا کے رنج و غم سے آزاد کردیا اور امن چین کے ساتھ جنت میں پہنچا دیا ان کی شہادت سے اللہ خوش ہوا جنت ان کیلئے کھول دی گئی اور داخلہ کی اجازت مل گئی ، اپنے ثواب و اجر کو ، عزت و اکرام کو دیکھ کر پھر اس کی زبان سے نکل گیا کاش کہ میری قوم یہ جان لیتی کہ مجھے میرے رب نے بخش دیا اور میرا بڑا ہی اکرام کیا ۔ فی الواقع مومن سب کے خیر خواہ ہوتے ہیں وہ دھوکے باز اور بدخواہ نہیں ہوتے ۔ دیکھئے اس اللہ والے شخص نے زندگی میں بھی قوم کی خیر خواہی کی اور بعد مرگ بھی ان کا خیرخواہ رہا ۔ یہ بھی مطلب ہے کہ وہ کہتا ہے کاش کہ میری قوم یہ جان لیتی کہ مجھے کس سبب سے میرے رب نے بخشا اور کیوں میری عزت کی تو لامحالہ وہ بھی اس چیز کو حاصل کرنے کی کوشش کرتی ، اللہ پر ایمان لاتی اور رسولوں کی پیروی کرتی ، اللہ ان پر رحمت کرے اور ان سے خوش رہے ۔ دیکھو تو قوم کی ہدایت کے کس قدر خواہش مند تھے ۔ حضرت عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور اگر اجازت دیں تو میں اپنی قوم میں تبلیغ دین کیلئے جاؤں اور انہیں دعوت اسلام دوں؟ آپ نے فرمایا ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں قتل کردیں؟ جواب دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کا تو خیال تک نہیں ۔ انہیں مجھ سے اس قدر الفت و عقیدت ہے کہ میں سویا ہوا ہوں تو وہ مجھے جگائیں گے بھی نہیں ، آپ نے فرمایا اچھا پھر جایئے ، یہ چلے ، جب لات و عزیٰ کے بتوں کے پاس سے ان کا گزر ہوا تو کہنے لگے اب تمہاری شامت آگئی قبیلہ ثقیف بگڑ بیٹھا انہوں نے کہنا شروع کیا کہ اے میری قوم کے لوگو! تم ان بتوں کو ترک کرو یہ لات و عزیٰ دراصل کوئی چیز نہیں ، اسلام قبول کرو تو سلامتی حاصل ہوگی ۔ اے میرے بھائی بندو! یقین مانو کہ یہ بت کچھ حقیت نہیں رکھتے ، ساری بھلائی اسلام میں ہے وغیرہ ۔ ابھی تو تین ہی مرتبہ صرف اس کلمہ کو دوہرایا تھا جب ایک بدنصیب تن جلے نے دور سے ایک ہی تیر چلایا جو رگ اکحل پر لگا اور اسی وقت شہید ہوگئے ۔ حضور علیہ السلام کے پاس جب یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا یہ ایسا ہی تھا جیسے سورۃ یس والا جس نے کہا تھا کاش کہ میری قوم میری مغفرت و عزت کو جان لیتی ۔ حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ کے پاس جب حبیب بن زید بن عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر آیا جو قبیلہ بنو مازن بن نجار سے تھے جنہیں یمامہ میں مسیلمہ کذاب ملعون نے شہید کردیا تھا تو آپ نے فرمایا اللہ کی قسم یہ حبیب بھی اسی حبیب کی طرح تھے جن کا ذکر سورۃ یاسین میں ہے ، ان سے اس کذاب نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا بیشک وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اس نے کہا میری نسبت بھی تو گواہی دیتا ہے کہ میں رسول اللہ ہوں؟ تو حضرت حبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں نہیں سنتا ۔ اس نے کہا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی نسبت تو کیا کہتا ہے؟ جواب دیا کہ میں ان کی سچی رسالت کو مانتا ہوں ، اس نے پھر پوچھا میری رسالت کی نسبت کیا کہتا ہے؟ جواب دیا کہ میں نہیں سنتا اس ملعون نے کہا ان کی نسبت تو سن لیتا ہے اور میری نسبت بہرا بن جاتا ہے ۔ ایک مرتبہ پوچھتا اور ان کے اس جواب پر ایک عضو بدن کٹوا دیتا پھر پوچھتا پھر یہی جواب پاتا پھر ایک عضو بدن کٹواتا اسی طرح جسم کا ایک ایک جوڑ کٹوا دیا اور وہ اپنے سچے اسلام پر آخری دم تک قائم رہے اور جو جواب پہلے تھا وہی آخر تک رہا یہاں تک کہ شہید ہوگئے ۔ رضی اللہ عنہ و ارضاہ ۔ اس کے بعد ان لوگوں پر جو اللہ کا غضب نازل ہوا اور جس عذاب سے وہ غارت کردیئے گئے اس کا ذکر ہو رہا ہے ، چونکہ انہوں نے اللہ کے رسولوں کو جھٹلایا اللہ کے ولی کو قتل کیا اس لئے ان پر عذاب اترا اور ہلاک کردیئے گئے ، لیکن انہیں برباد کرنے کیلئے اللہ نے تو کوئی لشکر آسمان سے بھیجا نہ کوئی خاص اہتمام کرنا پڑا نہ کسی بڑے سے بڑے کام کیلئے اس کی ضرورت ، اس کا تو صرف حکم کر دینا کافی ہے ، نہ انہیں اس کے بعد کوئی تنبیہہ کی گئی نہ ان پر فرشتے اتارے گئے ، بلکہ بلا مہلت عذاب میں پکڑلئے گئے اور بغیر اس کے کہ کوئی نام لینے والا پانی دینے والا ہو اول سے آخر تک ایک ایک کرکے سب کے سب فنا کے گھاٹ اتار دیئے گئے ۔ جبرائیل علیہ السلام آئے اور ان کے شہر انطاکیہ کے دروازے کی چوکھٹ تھام کر اس زور سے ایک آواز لگائی کہ کلیجے پاش پاش ہوگئے ، دل اڑگئے اور روحیں پرواز کر گئیں ۔ حضرت قتادہ سے مروی ہے کہ ان لوگوں کے پاس جو تینوں رسول آئے تھے یہ حضرت عیسیٰ کے بھیجے ہوئے قاصد تھے ، لیکن اس میں قدرے کلام ہے ، اولاً تو یہ کہ قصے کے ظاہر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ مستقل رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے ۔ فرمان ہے ( اِذْ اَرْسَلْنَآ اِلَيْهِمُ اثْــنَيْنِ فَكَذَّبُوْهُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُـوْٓا اِنَّآ اِلَيْكُمْ مُّرْسَلُوْنَ 14؀ ) 36-يس:14 ) ، جبکہ ہم نے ان کی طرف دو رسول بھیجے جب انہوں نے ان دونوں کو جھٹلایا تو ہم نے ان کی مدد کیلئے تیسرا رسول بھیجا ۔ پھر اللہ کے یہ رسول اہل انطاکیہ سے کہتے ہیں ( اِنَّآ اِلَيْكُمْ مُّرْسَلُوْنَ 14؀ ) 36-يس:14 ) ، یعنی ہم تمہاری طرف رسول ہیں ۔ پس اگر یہ تینوں حضرت عیسیٰ کے حواریوں میں سے حضرت عیسیٰ کے بھیجے ہوئے ہوتے تو انہیں یہ کہنا مناسب نہ تھا بلکہ وہ کوئی ایساجملہ کہتے جس سے معلوم ہو جاتا کہ یہ حضرت عیسی کے قاصد ہیں واللہ اعلم ۔ پھر یہ بھی ایک قرینہ ہے کہ کفار انطاکیہ ان کے جواب میں کہتے ہیں ( اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا ۭ تُرِيْدُوْنَ اَنْ تَصُدُّوْنَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ اٰبَاۗؤُنَا فَاْتُوْنَا بِسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ 10؀ ) 14- ابراھیم:10 ) تم تو ہم ہی جیسے انسان ہو ، دیکھ لو یہ کلمہ کفار ہمیشہ رسولوں کو ہی کہتے رہے ۔ اگر وہ حواریوں میں سے ہوتے تو ان کا مستقل دعویٰ رسالت کا تھا ہی نہیں پھر انہیں یہ لوگ یہ الزام ہی کیوں دیتے؟ ثانیا اہل انطاکیہ کی طرف حضرت مسیح کے قاصد گئے تھے اور اس وقت اس بستی کے لوگ ان پر ایمان لائے تھے بلکہ یہی وہ بستی ہے جو ساری کی ساری جناب مسیح پر ایمان لائی اسی لئے نصرانیوں کے وہ چار شہر جو مقدس سمجھے جاتے ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے ۔ بیت المقدس کی بزرگی کے وہ قائل اس لئے کہ وہ حضرت مسیح کا شہر ہے اور انطاکیہ کو حرمت والا شہر اس لئے کہتے ہیں کہ سب سے پہلے یہیں کے لوگ حضرت مسیح پر ایمان لائے ۔ اور اسکندریہ کی عظمت کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے مذہبی عہدیداروں کے تقرر پر اجماع کیا ۔ اور رومیہ کی حرمت کے قائل اس وجہ سے ہیں کہ شاہ قسطنطین کا شہر یہی ہے اور اسی بادشاہ نے ان کے دین کی امداد کی تھی اور یہیں ان کے تبرکات کو رومیہ سے یہاں لا رکھا ۔ سعد بن بطریق وغیرہ نصرانی مورخین کی کتابوں میں یہ سب واقعات مذکور ہیں ۔ مسلمان مورخین نے بھی یہی لکھا ہے پس معلوم ہوا کہ انطاکیہ والوں نے حضرت عیسیٰ کے قاصدوں کی تو مان لی تھی اور یہاں بیان ہے کہ انہوں نے نہ مانی اور ان پر عذاب الٰہی آیا اور تہس نہس کردیئے گئے تو ثابت ہوا کہ یہ واقعہ اور ہے یہ رسول مستقل رسالت پر مامور تھے انہوں نے نہ مانا جس پر انہیں سزا ہوئی اور وہ بےنشان کردیئے گئے اور چراغ سحری کی طرح بجھا دیئے گئے واللہ اعلم ۔ ثانیاً انطاکیہ والوں کا قصہ جو حضرت عیسیٰ کے حواریوں کے ساتھ وقوع میں آیا وہ قطعاً تورات کے اترنے کے بعد کا ہے اور حضرت ابو سعید خدری اور سلف کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ توراۃ کے نازل ہوچکنے کے بعد کسی بستی کو اللہ تعالیٰ نے اپنے آسمانی عذاب سے بالکل برباد نہیں کیا بلکہ مومنوں کو کافروں سے جہاد کرنے کا حکم دے کر کفار کو نیچا دکھایا ہے ۔ جیسا کہ آیت ( وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَآ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَاۗىِٕرَ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَّرَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ 43؀ ) 28- القصص:43 ) ، کی تفسیر میں ہے اور اس بستی کی آسمانی ہلاکت پر آیات قرآنی شاہد عدل موجود ہیں اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ واقعہ انطاکیہ کا نہیں جیسے کہ بعض سلف کے اقوال بھی اسے مستثنیٰ کرکے بتاتے ہیں کہ اس سے مراد مشہور شہر انطاکیہ نہیں ، ہاں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انطاکیہ نامی کوئی شہر اور بھی ہو اور یہ واقعہ وہاں کا ہو ۔ اس لئے کہ جو انطاکیہ مشہور ہے اس کا عذاب الٰہی سے نیست و نابود ہونا مشہور نہیں ہوا نہ تو نصرانیت کے زمانہ میں اور نہ اس سے پہلے ۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم ، یہ بھی یاد رہے کہ طبرانی کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ دنیا میں تین ہی شخص سبقت کرنے میں سب سے آگے نکل گئے ہیں ، حضرت موسیٰ کی طرف سبقت کرنے والے تو حضرت یوشع بن نون تھے اور حضرت عیسیٰ کی طرف سبقت کرنے والے وہ شخص تھے جن کا ذکر سورۃ یٰسین میں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آگے بڑھنے والے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھے ، یہ حدیث بالکل منکر ہے ۔ صرف حسین اشعر اسے روایت کرتا ہے اور وہ شیعہ ہے اور متروک ہے ۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم بالصواب ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٢٨] مرد حق گو کی شہادت :۔ رسولوں کی دعوت پر تو یہ لوگ محض دھمکیاں ہی دے رہے تھے اور شاید ڈرتے بھی ہوں کہ اگر فی الواقع رسول ہوں تو ہم پر کوئی آفت نہ آئے۔ مگر جب اس مرد حق گو نے ناصحانہ انداز میں ان کے معبودوں کی سب خامیاں ان پر واضح کردیں تو اسے انہوں نے اپنی اور اپنے معبودوں کی توہین اور ان کی شان میں گستاخی سمجھ کر اسے فوراً قتل کردیا اور اس کے قتل ہونے کے ساتھ اسے فرشتوں نے یہ خوشخبری دے دی کہ جنت تمہاری منتظر ہے۔ اس میں داخل ہوجاؤ۔ کیونکہ وہ صحیح معنوں میں شہید تھا اور اس نے اللہ کے دین کی خاطر اپنی جان دی تھی۔ اور شہداء کے متعلق قرآن اور صحیح احادیث میں صراحت کے ساتھ مذکور ہے کہ شہید براہ راست جنت میں چلے جاتے ہیں اور وہاں انہیں رزق دیا جاتا ہے۔ ان کی روحیں سبز پرندوں کی شکل میں جنت کے باغوں میں چہچہاتی پھرتی ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قِيْلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ : یہاں درمیان کی بات محذوف ہے جو خود بخود سمجھ میں آرہی ہے کہ اس کی اس بات پر قوم کے لوگ اس پر پل پڑے اور اسے شہید کردیا، تو اللہ تعالیٰ نے اس کی شہادت کو قبول فرمایا اور شہادت کی دیر تھی کہ اسے جنت میں داخلے کی بشارت مل گئی۔ شہداء کے جنت میں داخلے کی کیفیت کے متعلق دیکھیے سورة بقرہ (١٥٤) اور آل عمران (١٦٩ تا ١٧١) ۔ قَالَ يٰلَيْتَ قَوْمِيْ يَعْلَمُوْنَ : اس سے ظاہر ہے کہ وہ بندہ اپنی قوم کا کس قدر خیر خواہ تھا کہ زندگی میں بھی اس نے جان کی پروا نہ کرتے ہوئے قوم کو نصیحت کی اور مرنے کے بعد بھی ان کے لیے اس کی خیر خواہی جاری رہی، پھر اپنے قاتلوں کے متعلق اس کی تمنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جو اعزازو اکرام بخشا کسی طرح ان کو بھی معلوم ہوجائے اور اسے جان کر وہ بھی ایمان لے آئیں اور اس اکرام کے حق دار بن جائیں۔ فی الحقیقت مومن ایسا ہی خیر خواہ ہوتا ہے، احد کے شہداء نے شہادت کے بعد اسی تمنا کا اظہار کیا تھا۔ ہمارے لیے اس میں سبق ہے کہ دعوت دیتے ہوئے کبھی غیظ و غضب اور انتقامی جذبے سے مغلوب نہ ہوں، بلکہ نہایت صبرو ہمت کے ساتھ دعوت جاری رکھیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Verse 26 states: قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ ۖ قَالَ يَا لَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ ﴿٢٦﴾ بِمَا غَفَرَ‌ لِي رَ‌بِّي وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَ‌مِينَ ﴿٢٧﴾(it was said to him, |" Enter the paradise|". He said,|"Would that my people knew how my Lord has forgiven me and placed me among the honored ones!|" - 26, 27), that is, it was said to the person who had come from the farthest part of the city to prompt people to believe in the messengers, |"Enter Paradise.|" It is obvious that this address was communicated through some angel who told him to go into the Paradise. In fact, the essential sense of asking him to enter Paradise is to give him the good news that his place in Paradise is a settled matter which would translate into reality at its appointed time after going through the process of Resurrection. (Qurtubi) And the possibility that he was shown his place in Paradise at that very point of time is not so remote. In addition to that, there is the post-death and pre-resurrection state known as barzakh. In this state of Barzakh too, people bound to go to Paradise are treated well with provision of comfort from Paradise. Therefore, the arrival of such people in the state of Barzakh is, in a way, virtual entry into Paradise. By the words, |"Enter Paradise|" a hint is released to suggest that this person was martyred - because, entering Paradise or being enabled to perceive the traces of Paradise can come about only after death. In historical narratives, it has been reported from Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) and early Tafsir authorities, Muqatil and Mujahid that this person was Habib Ibn Isma&il an-Najjar and he is among people who had believed in our noble Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) six hundred years before he actually appeared - as it has been reported about the great tubba& (line of kings in Yemen) that he had come to believe in him much before he was born by reading the prophesies of his coming given in past scriptures. The third respected elder who believed in him before he was ordained and gave his call as prophet is Waraqah Ibn Nawfal who has been mentioned in the Hadith of the Sahih al-Bukhari as part of the events that relate to the initial descent of Wahy (revelation). This too is a singularity of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that these three persons had believed in him before his birth and ordainment. This did not come to pass in the case of any other messenger or prophet. According to the report of Wahb Ibn Munabbih, this person was a leper. He lived in a house at the farthest gate of the city. For seventy years, he kept praying to his assumed gods that he be delivered from his ailment. By chance, these messengers entered the city of Antakiyah from that very gate. When he met them the first time, they advised him to shun idolatry and invited him to turn to the worship of Allah Ta’ ala for all his needs. He asked them if they had any proof for the correctness of their assertion. When they answered in affirmative, he told them about the disease of leprosy he suffered from and asked them if they could remove it from him. They said, We shall pray to our Lord. He will make you healthy.& He said, &How strange of you to say that. Here I am, praying to my gods for the past seventy years, yet nothing has happened. How can your Lord change my condition in a single day?& They said, &Our Lord is powerful over everything, while those you have taken as gods have no reality. They can neither bring benefit to anyone nor can they cause loss.& After hearing what they said, this person believed and those blessed souls prayed for him. Allah Ta’ ala blessed him with perfect health, leaving no traces of the disease he suffered from. Now, his faith became firm, and he promised to himself that he would spend the half of what he will earn in a day in the way of Allah. When he heard that people of the city were mobbing the messengers, he came running, tried to explain that the messengers were true, and that he himself was a believer. The result was that his people charged at them in fury. It appears in the narration of Sayyidna ` Abdullah Ibn Masud (رض) that with their kicks and blows they martyred them. According to some other narrations, they threw rocks at them. As for him, even at a time such as this, when he was being beaten mercilessly, he kept saying: رَبِّ اھدِ قَومِی (My Lord, show my people the right way). It is mentioned in some narrations that these people martyred the three messengers as well. But, no authentic narration mentions specifically as to what happened to them. Probably, they were not killed. (Qurtubi)

(آیت) قیل ادخل الجنة قال یلیت قومی یعلمون الآیة، یعنی اس شخص کو جو گوشہ شہر سے رسولوں پر ایمان لانے کی تلقین کے لئے آیا تھا اس کو کہا گیا کہ جنت میں داخل ہوجاؤ۔ ظاہر یہ ہے کہ یہ خطاب کسی فرشتے کے ذریعے ہوا ہے، کہ جنت میں چلے جاؤ۔ اور مراد جنت میں داخل ہونے سے یہ خوش خبری دینا ہے کہ جنت تمہارا مقام متعین ہوچکا ہے، جو اپنے وقت پر حشر ونشر کے بعد حاصل ہوگا۔ (قرطبی) اور یہ بھی بعید نہیں کہ ان کو ان کا مقام جنت اس وقت دکھلا دیا گیا ہو، اس کے علاوہ برزخ میں بھی اہل جنت کو جنت کے پھل پھول اور راحت کی چیزیں ملتی ہیں۔ اس لئے ان کا عالم برزخ میں پہنچنا ایک حیثیت سے جنت ہی میں داخل ہونا ہے۔ قرآن کریم کے اس لفظ سے کہ اس کو کہا گیا کہ جنت میں داخل ہوجا اس کی طرف اشارہ ہے کہ اس شخص کو شہید کردیا گیا تھا، کیونکہ دخول جنت یا آثار جنت کا مشاہدہ بعد موت ہی ہوسکتا ہے۔ تاریخی روایات میں حضرت ابن عباس، مقاتل، مجاہد ائمہ تفسیر سے منقول ہے کہ یہ شخص حبیب ابن اسماعیل نجار تھا، اور یہ ان لوگوں میں ہے جو ہمارے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر آپ کی بعثت سے چھ سو سال پہلے ایمان لایا ہے۔ جیسا کہ تبع اکبر کے متعلق منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشارت کتب سابقہ میں پڑھ کر آپ کی ولادت سے بہت پہلے آپ پر ایمان لایا تھا۔ تیسرے بزرگ آدمی جو آپ پر آپ کی بعثت اور دعوے سے پہلے ایمان لائے ورقہ بن نوفل ہیں جن کا ذکر صحیح بخاری کی حدیث ابتداء وحی کے واقعات میں آیا ہے۔ یہ بھی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصیت ہے کہ آپ کی ولادت وبعثت سے پہلے آپ پر یہ تین آدمی ایمان لے آئے تھے یہ معاملہ کسی اور رسول و نبی کے ساتھ نہیں ہوا۔ وہب بن منبہ کی روایت میں ہے کہ یہ شخص جذامی تھا، اور ان کا مکان شہر کے سب سے آخری دروازہ پر تھا۔ اپنے مفروضہ معبودوں سے دعا کرتا تھا کہ مجھے تندرست کردیں جس پر ستر سال گزر چکے تھے۔ یہ رسول شہر انطاکیہ میں اتفاقاً اسی دروازے سے داخل ہوئے تو اس شخص سے پہلے پہل ملاقات ہوئی تو انہوں نے اس کو بت پرستی سے باز آنے اور ایک خدا تعالیٰ کی عبادت کی طرف دعوت دی۔ اس نے کہا کہ آپ کے پاس آپ کے دعویٰ کی کوئی دلیل و علامت صحت بھی ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں ہے۔ اس نے اپنی جذام کی بیماری بتلا کر پوچھا کہ آپ یہ بیماری دور کرسکتے ہیں ؟ انہوں نے کہا ہاں ہم اپنے رب سے دعا کریں گے وہ تمہیں تندرست کر دے گا۔ اس نے کہا کہ کیا عجیب بات کہتے ہو، میں ستر سال سے اپنے معبودوں سے دعا مانگتا ہوں کچھ فائدہ نہیں ہوا، تمہارا رب کیسے ایک دن میں میری حالت بدل دے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہاں ہمارا رب ہر چیز پر قادر ہے، اور جن کو تم نے خدا بنا رکھا ہے ان کی کوئی حقیقت نہیں، یہ کسی کو نفع نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ یہ سن کر یہ شخص ایمان لے آیا اور ان بزرگوں نے اس کے لئے دعا کی، اللہ تعالیٰ نے اس کو ایسا تندرست کردیا کہ بیماری کا کوئی اثر باقی نہ رہا۔ اب تو اس کا ایمان پختہ ہوگیا، اور اس نے عہد کیا کہ دن بھر میں جو کچھ کمائے گا اس کا آدھا اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا۔ جب ان رسولوں پر شہر کے لوگوں کی یلغار کی خبر پائی تو یہ دوڑ کر آیا، اور اپنی قوم کو سمجھایا اور اپنے ایمان کا اعلان کردیا۔ پوری قوم اس کی دشمن ہوگئی، اور سب مل کر اس پر ٹوٹ پڑے۔ حضرت ابن مسعود کی روایت میں ہے کہ لاتوں اور ٹھوکروں سے سب نے مل کر اس کو شہید کردیا۔ بعض روایات میں ہے کہ اس پر پتھر برسائے، اور اس وقت بھی ان سب کی بےتحاشا مار پڑنے کے وقت وہ کہتا جاتا تھا رب اھد قومی، ” اے میرے پروردگار ! میری قوم کو ہدایت کر دے “ بعض روایتوں میں ہے کہ ان لوگوں نے تینوں رسولوں کو شہید کردیا مگر کسی صحیح روایت میں اس کا ذکر نہیں ہے کہ ان کا کیا حال رہا بظاہر وہ مقتول نہیں ہوئے۔ (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قِيْلَ ادْخُلِ الْجَنَّۃَ۝ ٠ ۭ قَالَ يٰلَيْتَ قَوْمِيْ يَعْلَمُوْنَ۝ ٢٦ۙ دخل الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] ( دخ ل ) الدخول ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔ جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ ليت يقال : لَاتَهُ عن کذا يَلِيتُهُ : صرفه عنه، ونقصه حقّا له، لَيْتاً. قال تعالی: لا يَلِتْكُمْ مِنْ أَعْمالِكُمْ شَيْئاً [ الحجرات/ 14] أي : لا ينقصکم من أعمالکم، لات وأَلَاتَ بمعنی نقص، وأصله : ردّ اللَّيْتِ ، أي : صفحة العنق . ولَيْتَ : طمع وتمنٍّ. قال تعالی: لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلاناً خَلِيلًا [ الفرقان/ 28] ، يَقُولُ الْكافِرُ يا لَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ/ 40] ، يا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا [ الفرقان/ 27] ، وقول الشاعر : ولیلة ذات دجی سریت ... ولم يلتني عن سراها ليت «1» معناه : لم يصرفني عنه قولي : ليته کان کذا . وأعرب «ليت» هاهنا فجعله اسما، کقول الآخر :إنّ ليتا وإنّ لوّا عناء«2» وقیل : معناه : لم يلتني عن هواها لَائِتٌ. أي : صارف، فوضع المصدر موضع اسم الفاعل . ( ل ی ت ) لا تہ ( ض ) عن کذا لیتا ۔ کے معنی اسے کسی چیز سے پھیر دینا اور ہٹا دینا ہیں نیز لا تہ والا تہ کسی کا حق کم کرنا پوا را نہ دینا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لا يَلِتْكُمْ مِنْ أَعْمالِكُمْ شَيْئاً [ الحجرات/ 14] تو خدا تمہارے اعمال میں سے کچھ کم نہیں کرے گا ۔ اور اس کے اصلی معنی رد اللیت ۔ یعنی گر دن کے پہلو کو پھیر نے کے ہیں ۔ لیت یہ حرف طمع وتمنی ہے یعنی گذشتہ کوتاہی پر اظہار تاسف کے لئے آتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلاناً خَلِيلًا [ الفرقان/ 28] کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا يَقُولُ الْكافِرُ يا لَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ/ 40] اور کافر کہے کا اے کاش میں مٹی ہوتا يا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا [ الفرقان/ 27] کہے گا اے کاش میں نے پیغمبر کے ساتھ رستہ اختیار کیا ہوتا ۔ شاعر نے کہا ہے ( 406 ) ولیلۃ ذات وجی سریت ولم یلتنی عن ھوا ھا لیت بہت سی تاریک راتوں میں میں نے سفر کئے لیکن مجھے کوئی پر خطر مر حلہ بھی محبوب کی محبت سے دل بر داشت نہ کرسکا ( کہ میں کہتا کاش میں نے محبت نہ کی ہوتی ۔ یہاں لیت اسم معرب اور لم یلت کا فاعل ہے اور یہ قول لیتہ کان کذا کی تاویل میں سے جیسا کہ دوسرے شاعر نے کہا ہے ( 403 ) ان لینا وان لوا عناء ۔ کہ لیت یا لو کہنا سرا سرباعث تکلف ہے بعض نے کہا ہے کہ پہلے شعر میں لیت صدر بمعنی لائت یعنی اس فاعلی ہے اور معنی یہ ہیں کہ مجھے اس کی محبت سے کوئی چیز نہ پھیر سکی ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ كرم الكَرَمُ إذا وصف اللہ تعالیٰ به فهو اسم لإحسانه وإنعامه المتظاهر، نحو قوله : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] ، وإذا وصف به الإنسان فهو اسم للأخلاق والأفعال المحمودة التي تظهر منه، ولا يقال : هو كريم حتی يظهر ذلک منه . قال بعض العلماء : الكَرَمُ کالحرّيّة إلّا أنّ الحرّيّة قد تقال في المحاسن الصّغيرة والکبيرة، والکرم لا يقال إلا في المحاسن الکبيرة، كمن ينفق مالا في تجهيز جيش في سبیل الله، وتحمّل حمالة ترقئ دماء قوم، وقوله تعالی: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] فإنما کان کذلک لأنّ الْكَرَمَ الأفعال المحمودة، وأكرمها وأشرفها ما يقصد به وجه اللہ تعالی، فمن قصد ذلک بمحاسن فعله فهو التّقيّ ، فإذا أكرم الناس أتقاهم، وكلّ شيء شرف في بابه فإنه يوصف بالکرم . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] ، إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ، وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] . والإِكْرَامُ والتَّكْرِيمُ : أن يوصل إلى الإنسان إکرام، أي : نفع لا يلحقه فيه غضاضة، أو أن يجعل ما يوصل إليه شيئا كَرِيماً ، أي : شریفا، قال : هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] . وقوله : بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] أي : جعلهم کراما، قال : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] ، وقال : بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ، وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] ، وقوله : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] منطو علی المعنيين . ( ک ر م ) الکرم ۔ جب اللہ کی صفت ہو تو اس سے احسان وانعام مراد ہوتا ہے جو ذات باری تعالیٰ سے صادر ہوتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] تو میر اپروردگار بےپرواہ اور کرم کرنے والا ہے ۔ اور جب انسان کی صفت ہو تو پسندیدہ اخلاق اور افعال مراد ہوتے ہیں جو کسی انسان سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور کسی شخص کو اس وقت تک کریمہ نہیں کہاجاسکتا جب تک کہ اس سے کرم کا ظہور نہ ہوچکا ہو ۔ بعض نے علماء کہا ہے کہ حریت اور کرم ہم معنی ہیں لیکن حریت کا لفظ جھوٹی بڑی ہر قسم کی خوبیوں پر بولا جا تا ہے اور کرم صرف بڑے بڑے محاسن کو کہتے ہیں مثلا جہاد میں فوج کے لئے سازو سامان مہیا کرنا یا کیس ایسے بھاری تا وان کو اٹھا لینا جس سے قوم کے خون اور جان کی حفاظت ہوتی ہو ۔ اور آیت : ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔ میں القی یعنی سب سے زیادہ پرہیز گا ۔ کو اکرم یعنی سب سے زیادہ عزت و تکریم کا مستحق ٹہھر انے کی وجہ یہ ہے کہ کرم بہترین صفات کو کہتے ہیں اور سب سے بہتر اور پسند یدہ کام وہی ہوسکتے ہیں جن سے رضا الہیٰ کے حصول کا قصد کیا جائے لہذا جو جس قدر زیادہ پرہیز گار ہوگا اسی قدر زیادہ واجب التکریم ہوگا ۔ نیز الکریم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ہم نوع چیزوں میں سب سے زیادہ باشرف ہو چناچہ فرمایا : ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] پھر ( اس سے ) اس میں ہر قسم کی نفیس چیزیں اگائیں ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا ۔ الا کرام والتکریم کے معنی ہیں کسی کو اس طرح نفع پہچانا کہ اس میں اس کی کسی طرح کی سبکی اور خفت نہ ہو یا جو نفع پہچا یا جائے وہ نہایت باشرف اور اعلٰی ہو اور المکرم کے معنی معزز اور با شرف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؛ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کے معزز بندے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] اور مجھے عزت والوں میں کیا ۔ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] عالی قدر تمہاری باتوں کے لکھنے والے ۔ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ( ایسے ) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سر دار اور نیوک کار ہیں ۔ اور آیت : ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] اور جو صاحب جلال اور عظمت ہے ۔ میں اکرام کا لفظ ہر دو معنی پر مشتمل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عزت و تکریم بھی عطا کرتا ہے اور باشرف چیزیں بھی بخشتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اس پر ان کی مشرک قوم نے ان کو پکڑ لیا اور قتل کر کے سولی پر چڑھایا اور پیروں سے اس قدر روندا کہ آنتیں تک نکل پڑیں۔ چناچہ ان کے لیے جنت ثابت ہوگئی اور ان کی روح سے کہا گیا کہ جنت میں داخل ہوجا چناچہ ان کی روح جنت میں داخل ہونے کے بعد بھی کہنے لگی کاش میری قوم سمجھتی اور اس بات کی تصدیق کرتی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦ { قِیْلَ ادْخُلِ الْجَنَّۃَ } ” کہہ دیا گیا کہ تم داخل ہو جائو جنت میں ! “ وہ شخص چونکہ اللہ کی راہ کا مقتول تھا ‘ اس لیے جنت تو گویا اس کے انتظار میں تھی۔ شہادت کے رتبے پر فائز ہوجانے والے خوش قسمت لوگوں کو جنت میں داخلے کے لیے روز حشر کا انتظار نہیں کرنا پڑتا ‘ بلکہ جس لمحے ایسے کسی مومن کی شہادت ہوتی ہے اسی لمحے اس کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ { قَالَ یٰـلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَ } ” اس نے کہا : کاش میری قوم کو معلوم ہوجاتا۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

22 That is, Inunediately following his martyrdom, the man was given the good news of Paradise. As soon as he entered the Next World through the gate of death, there were the angels to receive him, and they gave him the good news that Paradise was awaiting him." The commentators have disputed the meaning of this sentence. Qatadah says, "AIlah admitted him into Paradise straightway and he is living in it and receiving his sustenance." And Mujahid says, "This was told him by the angels as a good news; he will enter Paradise on the day of Resurrection along with the other believers. "

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :22 یعنی شہادت نصیب ہوتے ہی اس شخص کو جنت کی بشارت دے دی گئی ۔ جونہی کہ وہ موت کے دروازے سے گزر کر دوسرے علم میں پہنچا ، فرشتے اس کے استقبال کو موجود تھے اور انہوں نے اسے خوش خبری دے دی کہ فردوس بریں اس کی منتظر ہے ۔ اس فقرے کی تاویل میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔ قَتَادہ کہتے ہیں کہ اللہ نے اسی وقت اسے جنت میں داخل کر دیا اور وہ وہاں زندہ ہے ۔ یہ بات ملائکہ نے اس سے بشارت کے طور پر کہی اور اس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے بعد جب تمام اہل ایمان جنت میں داخل ہوں گے تو وہ بھی ان کے ساتھ داخل ہو گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

9: بعض روایتوں میں ہے کہ سنگدل قوم نے ان کی خیر خواہانہ تقریر کے جواب میں انہیں لاتیں، گھونسے اور پتھر مار مار کر شہید کردیا۔ 10: جنت میں اصل داخلہ تو حشر و نشر کے بعد ہوگا، البتہ نیک لوگوں کو اللہ تعالیٰ عالم برزخ میں بھی جنت کی بعض نعمتیں عطا فرما دیتے ہیں۔ یہاں ان کو ایک طرف خوشخبری دی گئی کہ ان کا مقام جنت ہے، اور دوسری طرف جنت کی کچھ نعمتیں عالم برزخ ہی میں عطا فرما دی گئیں جنہیں دیکھ کر انہوں نے پھر اپنی قوم ہی کی خیر خواہی کی بات فرمائی کہ کاش انہیں یہ پتہ چل جائے کہ مجھے کن نعمتوں سے سرفراز فرمایا گیا ہے تو شاید ان کے بھی آنکھیں کھل جائیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٦ تا ٣٢۔ جس طرح کی تفسیر ابن جریر اور ابن ابی حاتم کے حوالہ سے روایتیں اوپر گزریں اسی طرح حبیب بن شبیب نے اپنی تفسیر میں عکرمہ کی سند سے روایت ٢ ؎ کی ہے (٢ ؎ صحیح بخاری ص ٧١٤ ج ٢ تفسیر سورة الدخان ‘) کہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرمایا کرتے تھے یہ حبیب نجار، ساتھ یہ حبیب بن بشر ترمذی اور ابن ماجہ کے راوی ہیں اور ابن معین نے ان کو ثقہ تابعیوں میں شمار کیا ہے سیرت ابن اسحاق میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ اسی بستی کے لوگوں نے اللہ کے ان تینوں رسولوں سے جھگڑا کیا اور ان رسولوں کے شہید کرنے کا قصد کیا تو حبیب نجار دوڑ کر آئے تاکہ جہاں تک ہو سکے اللہ کے رسولوں کی مدد کریں یہ حبیب نجار بڑے نیک شخص تھے جو کچھ کماتے تھے آدھا خیرات کرتے تھے اور آدھا اپنے خرچ میں لاتے تھے قتادہ نے اپنی تفسیر میں لکھا ١ ؎ ہے (١ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٢٦١ ج ٥) کہ یہ حبیب پہاڑ کے ایک غار میں ہمیشہ اللہ کی عبادت کیا کرتے تھے اور جذام کے مرض میں مبتلا تھے سیرۃ ابن اسحاق کی حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت میں یہ بھی ہے کہ حبیب نجار نے اپنی قوم کے لوگوں کو نصیحت کرنی شروع کی تو قوم کے لوگوں نے حبیب پر حملہ کیا اور ان کو شہید کر ڈالا حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت جو سیرۃ ابن اسحاق میں ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ قوم کے لوگوں نے حبیب نجار کو پیروں سے یہاں تک کچلا کہ حبیب نجار کی انتڑیاں پیٹ کے باہر نکل آئیں امام احمد اور ترمذی نے ان محمد بن اسحاق کی روایتوں کو معتبر قرار دیا ہے حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت جو سیرۃ ابن اسحاق میں ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ قوم کے لوگوں نے حبیب نجار کو پیروں سے یہاں تک کچلا کہ حبیب نجار کی انتڑیاں پیٹ کے باہر نکل آئیں امام احمد اور ترمذی نے ان محمد بن اسحاق کی روایتوں کو معتبر قرار دیا ہے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ حبیب نجار اپنی قوم کے خیر خواہ تھے جیتے جی قوم کے لوگوں کو نصیحت کرتے رہے اور باوجود اس کے کہ قوم کے لوگوں نے ان کو اس سختی اور بےرحمی سے شہید کیا اس پر جب اللہ تعالیٰ نے ان کو جنت نصیحت کی تو وہ وہاں بھی کے کہ قوم کے لوگوں نے ان کو اس سختی اور بےرحمی سے شہید کیا اس پر جب اللہ تعالیٰ نے ان کو جنت نصیب کی تو وہ وہاں بھی قوم کے لوگوں کو یاد کر کے یہی آرزو کرتے رہے کہ قوم کے لوگ بھی نیک راہ پر آویں اور جنت میں ان کے شریک حال ہوں اکثر سلف کا قول ہے کہ جب حبیب نجار کی قوم نے حبیب نجار کو شہید کر ڈالا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کو اس قوم کے ہلاک کرنے کا حکم دیا حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے اس بستی کے دروازہ پر آن کر ایک چنگھاڑ ماری جس سے سب بستی کے آدمی کلیجے پھٹ کر فورا مرگئے اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ان کے ہلاک کرنے کے لیے آسمان سے کسی فوج کے اتار نے کی ضرورت نہ تھی بلکہ ایک چنگھاڑ ان کے ہلاک کے لیے کافی تھی اس میں قریش کو تنبیہ فرمائی کہ قریش لوگ اللہ کے رسول کو جھٹلا کر عذاب الٰہی کی کیا جلدی کرتے ہیں عذاب الٰہی کے لیے کسی فوج اور لشکر کی ضرورت نہیں اس کا ایک ادنیٰ عذاب بڑے بڑے سرکشوں کے کافی ہے اب آگے اللہ تعالیٰ نے اللہ کے رسولوں کی نافرمانی والے لوگوں کے حال پر افسوس ظاہر فرمایا ہے کہ کیوں یہ لوگ اللہ کے رسولوں کی نافرمانی کر کے دین و دنیا کے عذاب میں گرفتار ہوتے ہیں اگرچہ مفسرین نے یاحسرہ علی العباد کے اور معنے بھی بیان کئے ہیں لیکن یہ معنے جو اوپر بیان کئے گئے یہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے اس قول کے موافق ہیں جو علی ابن ابی طلحہ کی روایت سے ہے اور اس تفسیر میں یہ بات کئی جگہ بیان کردی گئی ہے کہ اس کی سند کی روایت بہت صحیح ہوتی ہے اسی واسطے تینوں ٢ ؎ ترجموں میں اس قول کو لیا ہے ‘ اسی قول کے موافق یہ آیت متشابہت ٣ ؎ میں سے ہے کیونکہ مثلا اللہ کے غصے اور خوشی کے تفصیلی ٤ ؎ معنے جس طرح ہم کو معلوم نہیں وہی حال اللہ تعالیٰ کے افسوس کا ہے ‘ (٢ ؎ اے وائے بہ بندگاں (فتح الرحمان) اے ارمان اوپر بندوں کے “ ( شاہ رفیع الدین) ” کیا افسوس ہے بندوں پر موضح القران (ع ‘ ح) (٣ ؎ یعنی کیفیت کے اعتبار سے ورنہ لغوی معنی تو معلوم ہے (ع۔ ح ‘) (٤ ؎ یعنی اللہ تعالیٰ کے عضے ‘ خوشی اور افسوس کی کیفیت اس کی وہ ہے جو اس کی ذلت کے مناسب ہے البتہ لغت عربی کے لحاظ سے معنی معلوم ہیں۔ یہی سلف کا مذہب ہے (ع۔ ح۔ ) صحیح بخاری ومسلم میں حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) سے روایت ١ ؎ ہے (١ ؎ مشکوۃ ٥ باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ) جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ کے رسول کی نصیحت کی مثال مینہ کی سی ہے اور لوگوں کی مثال زمین کی سی ہے اب زمین میں دو قسمیں ہیں ایک کھیت اور باغ کی زمین ہے کہ مینہ سے فیض اٹھا کر پھلتی پھولتی ہے دوسری شور زمین ہے کہ مینہ سے اس کو کچھ فیض نہیں اسی طرح بعضے لوگ اللہ کے رسول کی نصیحت سے فیض پاتے ہیں اور بعضے محروم ہیں یہ حدیث گویا اس آیت کی تفسیر ہے کیوں کہ جن لوگوں کی حالت پر اللہ تعالیٰ نے افسوس ظاہر کیا ہے ان لوگوں کا حال حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ وہ ہیں کہ باوجود اس کے کہ مینہ کی طرح اللہ کے رسول کی نصیحت کا فیض عام ہے لیکن وہ لوگ اس فیض عام سے سے محروم ہیں یہاں ایک یہ خیال گزرتا ہے کہ سب کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے پھر جس کو اس نے جیسا پیدا کیا ہے ویسا وہ ہے اللہ اور اللہ کے رسول کے افسوس کا کیا مطلب ہے اس کا جواب اوپر گزر چکا ہے کہ پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے نیک وبدسب کی خصلت جان لی ہے پیدا ہونے سے پہلے جن لوگوں میں بری خصلت نظر آئی اسی خصلت پر وہ افسوس ہے اور مجبوری کا ایمان اللہ کی درگاہ میں مقبول نہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو اس کی خصلت پر چھوڑ دیا ہے ‘ اب آگے قریش کو تنبیہ فرمائی کہ رسولوں کی نافرمانی کے سبب سے کچھ یہ ایک ہی بستی نہیں اجڑی بلکہ ملک شام کے سفر میں ان کو اس طرح اجڑی ہوئی اور بستیاں دیکھنی چاہیں جو ایک دم میں طرح طرح کے عذابوں سے ایسے اجڑیں کہ ان میں سے کوئی بھی اپنے اجڑے ہوئے گھر بار مال متاع کی خبر گیری کو پھر دنیا میں نہ آیا پھر فرمایا ایسے لوگوں کی فقط یہی سزا نہیں ہے کہ ان پر دنیا کے طرح طرح کے عذاب آئے بلکہ عذاب آخرت کے فیصلہ کے لیے ان سب کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے روبرو حاضر ہونا پڑے گا ترمذی مسند بزار اور طبرانی کے حوالہ ٢ ؎ سے ابوبرزہ (رض) اور معاذ بن جبل (رض) کی صحیح روایتیں اوپر گزر چکی ہیں (٢ ؎ الترغیب والترہیب ص ٣٩٥‘ ٣٩٦ ج ٤ فصل فی ذکر الحساب وغیرہ۔ ) کہ چار باتوں کی جواب دہی کے لیے ہر شخص کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے روبرو ضرور کھڑے رہنا پڑے گا۔ (١) تمام عمر کس کام میں گزاری (٢) جوانی میں کیا کیا (٣) روپیہ پسیہ کیوں کر کمایا اور کہا خرچ کیا (٤) دین کی کوئی بات سنی تو اس پر کیا عمل کیا ‘ یہ روایتیں وان کل لماجیع لدینا محضرون کی گویا تفسیر ہیں کیوں کہ آیت کے اس ٹکڑے میں قیامت کے دن سب مخلوق کے اللہ تعالیٰ کے روبرو حاضر ہونے کا جو ذکر ہے ان روایتوں سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کے وہ حاضر ہونا کون سی جواب دہی کے لیے ہوگا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(36: 26) قیل ادخل الجنۃ (کہا گیا جنت میں داخل ہوجا) ادخل فعل امر واحد مذکر حاضر۔ دخول مصدر (باب نصر) تو داخل ہوجا۔ یہ فقرہ کب کہا گیا اس کے متعلق مختلف روایات ہیں۔ (1) جب اس مرد مومن نے قوم سے خطاب کیا تو انہوں نے اس کو قتل کردیا ۔ موت کے بعد جب خدا کے حضور اس کی پیشی ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے اس سے کیا فرمایا۔ اس امکانی سوال کا یہ جواب ہے (یہ جملہ مستانفہ ہے جو بطور جواب استعمال کی گیا ہے) ۔ بعض کے نزدیک وہ قتل نہیں ہوا تھا بلکہ طبعی موت مرا تھا۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ جب اس کی قوم نے اس کے قتل کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے آسمان پر اٹھا لیا جیسا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان پر اٹھا لیا گیا تھا۔ اور ووہ وہاں جنت میں ہے ۔ (3) بعض علما کا خیال ہے کہ یہ بشارت اس کو مرنے سے پہلے ہی دے دی گئی تھی۔ لیکن جمہور کا قول یہی ہے کہ اسے قتل کیا گیا تھا۔ قال یلیت قومی یعلمون بما غفرلی ربی وجعلنی من المکرمین۔ (اس نے کہا : اے کاش : میری قوم کو یہ معلوم ہوجاتا کہ میرے پروردگار نے مجھے بخش دیا اور مجھے معززین میں شامل کردیا) ۔ لیت حرف مشبہ بفعل ہے اسم کو نصب اور خبر کو رفع دیتا ہے تمنا کے لئے مستعمل ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی شہادت واقع ہوتے ہی اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت میں داخل ہونے کی اجازت دے دی گئی جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے کہ شہدا کی روحیں سبز پرندوں کی شکل میں جنت کے اندر جہاں اور جیسے چاہتی ہیں اڑتی پھرتی ہیں۔ ( دیکھئے بقرہ ( آیت 154)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : شہید مبلّغ کا بہترین انجام اور صلہ۔ قرآن مجید نے لفظاً یہ بات واضح نہیں فرمائی کہ اس عظیم مبلّغ کا اپنی قوم کے ہاتھوں کیا انجام ہوا۔ البتہ سیاق وسباق سے یہ بات اخذ کی جاسکتی ہے کہ قوم نے اس عظیم مبلّغ کو شہیدکر ڈالا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے جنت میں داخل فرمایا جونہی اس کی روح جنت میں داخل ہوئی تو پکار اٹھی کہ کاش ! میری قوم کو میرے بہترین انجام کی خبر ہوجائے۔ میرے رب نے میری خطاؤں کو معاف فرما کر مجھے اپنے مقرب بندوں میں شامل کرلیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی رہتی دنیا تک اسے یہ اعزاز بخشا گیا کہ اس کے خیالات کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے الفاظ میں ہمیشہ ہمیش کے لیے محفوظ فرمایا اور آنے والے انسانوں کو اس کے پیغام اور بہترین انجام سے آگاہ فرمایا تاکہ توحید کی دعوت دینے والے حضرات جان جائیں کہ بیشک یہ راستہ پر کٹھن ہے لیکن بالآخر اس کی منزل جنت الفردوس اور اپنے رب کا تقرب پانا ہے۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِجَابِرٍ یَاجَابِرُ أَلَاأُبَشِّرُکَ قَالَ بَلٰی بَشِّرْنِيْ بَشَّرَکَ اللّٰہُ بالْخَیْرِ قَالَ أَشَعَرْتَ أَنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ أَحْیَاأَبَاکَ فَأَقْعَدَہٗ بَیْنَ یَدَیْہِ فَقَالَ تَمَنَّ عَلَيَّ عَبْدِيْ مَاشِءْتَ أُعْطِکَہٗ فَقَالَ یَارَبِّ مَاعَبَدْتُّکَ حَقَّ عِبَادَتِکَ أَتَمَنّٰيْ عَلَیْکَ أَنْ تَرُدَّنِيْ إِلَی الدُّنْیَا فَأُقَاتِلُ مَعَ النَّبِيِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَرَّۃً أُخْرٰی فَقَالَ سَبَقَ مِنِّيْ إِنَّکَ إِلَیْھَا لَاتَرْجِعُ ) [ المستدرک علی الصحیحین : باب مناقب عبداللہ بن عمروحرام ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جابر (رض) سے فرمایا جابر ! کیا میں تجھے بشارت نہ دوں ؟ انہوں نے عرض کی کیوں نہیں ! اللہ آپ کو بہتری اور خیر کی بشارتعطا فرمائے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تجھے معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے والد کو زندہ کرکے اپنے سامنے بٹھاکر فرمایا کہ میرے بندے مجھ سے مانگ ! میں تجھے عطا کروں۔ انہوں نے عرض کی : اے میرے پروردگار ! میں نے تیری عبادت کا حق ادا نہیں کیا میری عرض ہے کہ آپ مجھے دنیا میں بھیج دیں تاکہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مل کر قتال کروں اور پھر تیری راہ میں شہید ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میرا فیصلہ ہوچکا ہے کہ تو دنیا میں دوبارہ نہیں جائے گا۔ “ ” عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا جب تمہارے بھائی احد کے دن شہید کیے گئے تو اللہ نے ان کی روحوں کو سبز چڑیوں کے پوٹوں میں رکھ دیا وہ جنت کی نہروں پر پھرتی ہیں اور اس کے میوے کھاتی ہیں اور عرش کے سایہ میں سونے کی قندیلوں میں بسیرا اور ٹھکانہ کرتی ہیں جب ان کی روحوں کو کھانے، پینے اور سونے کی خوشی حاصل ہوئی، تو کہا کون ہے جو ہماری طرف سے ہمارے بھائیوں کو یہ خبر پہنچا دے کہ ہم جنت میں زندہ ہیں اور کھاتے پیتے ہیں تاکہ وہ بھی جنت کے حصول میں بےرغبتی نہ کریں اور قتال کے وقت سستی نہ دکھائیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں تمہاری خبر پہنچاؤں گا اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ان کو مردہ مت سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس کھلائے، پلائے جاتے ہیں) ۔ “ [ رواہ ابوداؤد : کتاب الجہاد، باب فی فضل الشہادۃ ] شہید کے گناہ معاف : (أَوَّلُ مَا یُہْرَاقُ مِنْ دَمٍ اَلشَّہِیْدُ یُغْفَرُ لَہٗ ذَنْبُہٗ کُلُّہٗ إِلَّا الدّیْنَ ) [ صحیح الجامع : باب اول مایقضیٰ بین الناس یوم القیامۃ فی الدماء ] ” شہید کے خون کے پہلے قطرہ سے قرض کے سوا سب گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ “ مسائل ١۔ صالح لوگوں کی ارواح کو جنت میں داخل کردیا جاتا ہے۔ ٢۔ شہادت کے وقت شہید کے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ شہید اور صالح لوگوں کو اپنے نیک بندوں میں شامل فرماتا ہے۔ تفسیر بالقرآن صالح لوگوں کا صلہ : ١۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں اور مومنات سے ہمیشہ کی جنت اور اپنی رضا مندی کا وعدہ فرمایا ہے یہ بڑی کامیابی ہے۔ (التوبۃ : ٧٢، ٨٩، ١٠٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے مومنین سے جنت کے بدلے ان کے مال و جان خرید لیے ہیں یہ بڑی کامیابی ہے۔ (التوبۃ : ١١١) ٣۔ اے اللہ نیک لوگوں کو برائی سے بچا جو برائی سے بچ گیا اس پر تیرا رحم ہوا یہ بڑی کامیابی ہے۔ (المومن : ٩) ٤۔ ان کا جہنم کے عذاب سے بچنا اللہ کے فضل سے ہوگا اور یہی کامیابی ہے۔ (الدّخان : ٥٧) ٥۔ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کو اپنی رحمت میں داخل کرے گا یہ واضح کامیابی ہے۔ (الجاثیۃ : ٣٠) ٦۔ مومنوں کے لیے ہمیشہ کی جنت ہے جس میں پاک صاف مکان ہیں یہ بڑی کامیابی ہے۔ (الصف : ١٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قیل ادخل الجنۃ۔۔۔۔۔ من المکرمین (26 – 27) ” “۔ یہاں دنیا کی زندگی کے ڈانڈے آخرت سے مل جاتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ موت اور شہادت نے اسے عالم فنا سے عالم بقا کی طرف منتقل کردیا ہے۔ یہ ایک جست ہوتی ہے جس کے ذریعے ایک مومن دنیا کی تنگیوں سے نکل کر جنت کی وسعتوں میں داخل ہوجاتا ہے۔ باطل کی زیادتیوں سے رہائی پاکر سچائی کی مطمئن دنیا میں داخل ہوجاتا ہے اور تشدد کی دھمکیوں سے نکل کر ، امن و سلامتی کی نعمتوں میں پہنچ جاتا ہے اور جاہلیت کے اندھیروں سے یقین کی روشنی میں آجاتا ہے۔ اب ہم اس رجل مومن کو دیکھتے ہیں ۔ یہ ان انعامات و اکرامات کی اطلاع چشم زدن میں پاچکا ہے۔ لیکن وہاں سے بھی قوم کے نام اس کی ایک پکار آتی ہے ، اس کی اس پکار میں کوئی تلخی نہیں ہے اس کا نفس راضی ہے ، وہاں بھی وہ یہی تمنا کرتا ہے کہ اے کاش میری قوم جانتی کہ میں کہاں پہنچ چکا ہوں ، اللہ کے اکرام اور انعام کی کیا شان ہے تاکہ وہ بھی حق کو قبول کرلیں اور ان کو بھی یقین کی دلالت مل جائے۔ یہ تو ہے جزائے ایمان ، رہے نبیوں کے مقابلے میں ڈٹ جانے والے ۔۔۔ تو ان کی حیثیت ہی کیا ان کو تو اللہ اپنے ملائکہ کے ذریعے ہلاک کرسکتا ہے۔ وہ تو بہت ہی ضعیف و حقیر ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(قِیْلَ ادْخُلِ الْجَنَّۃَ ) اللہ تعالیٰ نے اس کو ایمان اور دعوت توحید اور شہادت کا انعام دیا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہوا کہ جنت میں داخل ہوجا۔ (قَالَ ٰیلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَ بِمَا غَفَرَلِیْ رَبِّیْ وَجَعَلَنِیْ مِنَ الْمُکَرَّمِیْنَ ) جنت میں داخل ہو کر اس شخص نے کہا کیا اچھا ہوتا کہ میری قوم کو اس کا پتہ چل جاتا جو میرے رب نے میری مغفرت فرمائی اور جو مجھے معزز بندوں میں شامل فرمایا (یہ بات اس نے آرزو کے طور پر کہی کہ میری قوم کو اللہ کے انعام کا پتہ چل جاتا تو وہ بھی مسلمان ہوجاتے۔ ) معالم التنزیل میں یہ بھی لکھا ہے کہ جب بستی والوں نے اس آدمی کو قتل کردیا جو بستی کے آخر والے حصہ سے آیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب بھیج دیا۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو ان کے ہلاک کرنے کا حکم دیا انہوں نے وہاں زور سے ایک چیخ ماری جس کی وجہ سے وہ سب لقمہ اجل بن گئے، ان لوگوں کی ہلاکت کے بارے میں فرمایا (وَمَا اَنْزَلْنَا عَلٰی قَوْمِہٖ مِنْ بَعْدِہٖ مِنْ جُنْدٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَمَا کُنَّا مُنزِْلِیْنَ* اِِنْ کَانَتْ اِِلَّا صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً فَاِِذَا ھُمْ خَامِدُوْنَ ) (اور ہم نے اس شخص کی قوم پر اس کے بعد آسمان سے کوئی لشکر نازل نہیں کیا اور ہم لشکر نازل کرنے والے نہ تھے وہ تو صرف ایک چیخ تھی سو اچانک وہ بجھ کر رہ گئے) یعنی مذکورہ بستی والے جو ہلاک کردئیے گئے۔ ان کی ہلاکت کے لیے ہمیں کوئی لشکر اور جماعت کبیرہ بھیجنے کی ضرورت نہ تھی بس ایک چیخ ہی کے ذریعے ہلاک کردئیے گئے۔ اس میں عبرت ہے دوسرے منکرین و مکذبین کے لیے، کوئی فرد یا جماعت یہ نہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے انتقام نہیں لے سکتا اگر وہ انتقام لینا چاہے گا تو العیاذ باللہ اسے دشواری نہ ہوگی نہ اسے کوئی لشکر بھیجنا پڑے گا۔ وہ تو قادر مطلق ہے، اس کے صرف کن کے خطاب سے سب کچھ ہوجاتا ہے جو چیخ بھیجی اس کی بھی ضرورت نہ تھی لیکن حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ انہیں ایک چیخ کے ذریعے ہلاک کردیا جائے، ایک چیخ آئی اور یہ لوگ بجھے ہوئے رہ گئے، بڑے غرور اور طمطراق میں بھرے ہوئے تھے نہ خود رہے نہ جماعت رہی نہ غرور رہا، بالکل ایسے ہوگئے جیسے آگ کسی لکڑی کو بجھا کر راکھ بنا دے۔ (قِیْلَ ادْخُلِ الْجَنَّۃَ ) جو فرمایا ہے اس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ بلاحساب کتاب جنت میں داخل ہوں گے اس شخص کو انہیں میں شامل فرما دیا اور اسے مزید یہ فضیلت دی کہ وقوع قیامت کا انتظار نہیں کیا گیا ابھی سے جنت میں داخل کردیا گیا اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے یہ کوئی بعید نہیں ہے۔ (کما قال النّبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لقد رأیت رَجُلاً یتقلب فی الجنّۃ فی شجرۃ قطعھا من ظھر الطریق کانت تؤذی النّاس) (رواہ مسلم ص ٣٢٨) (جیسا کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے کہ میں نے جنت میں ایک آدمی کو آزادی سے پھرتے دیکھا جس نے راستہ سے لوگوں کو تکلیف دینے والا درخت کاٹا۔ ) اور بعض حضرات نے (قِیْلَ ادْخُلِ الْجَنَّۃَ ) کا مطلب یہ لیا ہے کہ اس سے محض بشارت دینا مقصود ہے اور جنت کا داخلہ قیامت کے دن اپنے وقت پر ہوگا، اگر یہ قول مراد لیا جائے تو (قَالَ ٰیلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَ ) کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ موت کے بعد ہی برزخ میں جو حسن سلوک ہوا اسی سے متاثر ہو کر اس نے یہ بات کہی۔ (وَاللّٰہُ تَعَالیٰ اَعْلَمْ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

18:۔ قیل ادخل الخ، اس سے پہلے اندماج ہے، ولما قتل قیل لہ ادخل الجنۃ (مدارک ج 4 ص 5) ، یعنی جب اسے قتل کردیا گیا تو اس سے کہا گیا جنت میں داخل ہوجاؤ۔ حبیب نجار چونکہ شہید تھا اس لیے دیگر شہداء کی طرح اس کی روح کو پرندے کے قالب میں جنت میں داخل کردیا گیا۔ فادخلہ اللہ الجنۃ وھو حی فیہا یرزق یعی حیوۃ الشہداء (مظہری ج 8 ص 79) ۔ 19:۔ قال یلیت الخ، جب اس نے جنت میں اپنا بےپایاں اعزازو اکرام اور بےحد و حساب نعمتیں دیکھیں تو تمنا کرنے لگا کہ کاش ! میری قوم کو معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کس چیز کے سبب بخش دیا اور جنت میں داخل کیا ہے۔ اور اپنی بےحساب نوازشوں سے نوازا یعنی اللہ کی توحید پر ایمان اور اس کے پیغمبروں کی تصدیق۔ اس تمنا سے اس کا مقصود یہ تھا کہ اللہ نے اسے جس انعام واکرام سے نوازا ہے اگر انہیں اس کا علم ہوجائے تو وہ بھی ایمان لے آئیں، بایمانی بربی و تصدیق المرسلین و مقصودہ انہم لو اطلعوا علی ما حصل لی من الثواب والجزاء والنعم المقیم لقادہم ذلک الی اتباع الرسل(رح) ورضی عنہ فلقد کان حریصا علی ھدایۃ قومہ (ابن کثیر ج 3 ص 568) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(26) اس شخص کیلئے حضرت حق تعالیٰ کی جانب سے کہا گیا جا بہشت میں داخل ہوجا وہ کہنے لگا کاش میری قوم کو یہ بات معلوم ہوجاتی۔