Surat Yaseen

Surah: 36

Verse: 34

سورة يس

وَ جَعَلۡنَا فِیۡہَا جَنّٰتٍ مِّنۡ نَّخِیۡلٍ وَّ اَعۡنَابٍ وَّ فَجَّرۡنَا فِیۡہَا مِنَ الۡعُیُوۡنِ ﴿ۙ۳۴﴾

And We placed therein gardens of palm trees and grapevines and caused to burst forth therefrom some springs -

اور ہم نے اس میں کھجوروں کے اور انگور کے باغات پیدا کر دیئے ، اور جن میں ہم نے چشمے بھی جاری کر دیئے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

34۔ 1 یعنی مردہ زمین کو زندہ کرکے ہم اس سے ان کی خوراک کے لئے صرف غلہ ہی نہیں لگاتے، بلکہ ان کے کام و دہن کی لذت کے لئے مختلف اقسام کے پھل بھی کثرت سے پیدا کرتے ہیں، یہاں صرف دو پھلوں کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ یہ کثیرالمنافع بھی ہیں اور عربوں کو مرغوب بھی، نیز ان کی پیداوار بھی عرب میں زیادہ ہے۔ پھر غلے کا ذکر پہلے کیا کیونکہ اس کی پیداوار بھی زیادہ ہے اور خوراک کی حیثیت سے اس کی اہمیت بھی مسلمہ۔ جب تک انسان روٹی یا چاول وغیرہ خوراک سے اپنا پیٹ نہیں بھرتا، محض پھل فروٹ سے اس کی غذائی ضرورت پوری نہیں ہوتی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَجَعَلْنَا فِيْهَا جَنّٰتٍ مِّنْ نَّخِيْلٍ : ” نَّخِيْلٍ “ ” نَخْلٌ“ کی جمع ہے، جیسے ” عَبْدٌ“ کی جمع ” عَبِیْدٌ“ ہے۔ ” اَعْنَابٍ “ ” عِنَبٌ“ کی جمع ہے اور ” الْعُيُوْنِ “ ” عَیْنٌ“ کی جمع ہے، مراد کنویں اور چشمے ہیں جن سے زمین سیراب کی جاتی ہے۔ یعنی مردہ زمین کو زندہ کر کے ہم اس سے ان کی خوراک کے لیے صرف غلہ ہی نہیں اگاتے بلکہ ان کے کام و دہن کی لذت کے لیے مختلف اقسام کے پھل بھی کثرت سے پیدا کرتے ہیں۔ یہاں صرف دو پھلوں کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ یہ کثیر المنافع بھی ہیں اور عربوں کو مرغوب بھی، نیز ان کی پیداوار بھی عرب میں زیادہ ہے، پھر غلے کا ذکر پہلے کیا، کیوں کہ اس کی پیداوار بھی زیادہ ہے اور خوراک کی حیثیت سے اس کی اہمیت بھی مسلّمہ ہے۔ جب تک انسان روٹی یا چاول وغیرہ خوراک سے اپنا پیٹ نہیں بھرتا، محض پھل فروٹ سے اس کی غذائی ضرورت پوری نہیں ہوتی۔ (احسن البیان)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَجَعَلْنَا فِيْہَا جَنّٰتٍ مِّنْ نَّخِيْلٍ وَّاَعْنَابٍ وَّفَجَّــرْنَا فِيْہَا مِنَ الْعُيُوْنِ۝ ٣٤ۙ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ نخل النَّخْلُ معروف، وقد يُستعمَل في الواحد والجمع . قال تعالی: كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر/ 20] وقال : كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ خاوِيَةٍ [ الحاقة/ 7] ، وَنَخْلٍ طَلْعُها هَضِيمٌ [ الشعراء/ 148] ، وَالنَّخْلَ باسِقاتٍ لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق/ 10] وجمعه : نَخِيلٌ ، قال : وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ [ النحل/ 67] والنَّخْلُ نَخْل الدّقيق بِالْمُنْخُل، وانْتَخَلْتُ الشیءَ : انتقیتُه فأخذْتُ خِيارَهُ. ( ن خ ل ) النخل ۔ کھجور کا درخت ۔ یہ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ خاوِيَةٍ [ الحاقة/ 7] جیسے کھجوروں کے کھوکھلے تنے ۔ كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر/ 20] اور کھجوریں جن کے خوشے لطیف اور نازک ہوتے ہیں ۔ وَالنَّخْلَ باسِقاتٍ لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق/ 10] اور لمبی لمبی کھجوریں جن کا گا بھاتہ بہ تہ ہوتا ہے اس کی جمع نخیل آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ [ النحل/ 67] اور کھجور کے میووں سے بھی ۔ النخل ( مصدر کے معنی چھلنی سے آٹا چھاننے کے ہیں اور انتخلت الشئی کے معنی عمدہ چیز منتخب کرلینے کے ؛ عنب العِنَبُ يقال لثمرة الکرم، وللکرم نفسه، الواحدة : عِنَبَةٌ ، وجمعه : أَعْنَابٌ. قال تعالی: وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنابِ [ النحل/ 67] ، وقال تعالی: جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَعِنَبٍ [ الإسراء/ 91] ، وَجَنَّاتٍ مِنْ أَعْنابٍ [ الرعد/ 4] ، ( عن ن ب ) العنب ( انگور ) یہ انگور کے پھل اور نفس کے لئے بھی بولا جات ا ہے اس کا واحد عنبۃ ہے اور جمع اعناب قرآن میں ہے : وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنابِ [ النحل/ 67] اور کھجور اور انگور کے میووں سے بھی ۔ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَعِنَبٍ [ الإسراء/ 91] کھجوروں اور انگوروں کا کوئی باغ ہو ۔ وَجَنَّاتٍ مِنْ أَعْنابٍ [ الرعد/ 4] اور انگوروں کے باغ ۔ فجر الْفَجْرُ : شقّ الشیء شقّا واسعا كَفَجَرَ الإنسان السّكرَيقال : فَجَرْتُهُ فَانْفَجَرَ وفَجَّرْتُهُ فَتَفَجَّرَ. قال تعالی: وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] ، وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] ، فَتُفَجِّرَ الْأَنْهارَ [ الإسراء/ 91] ، تَفْجُرَ لَنا مِنَ الْأَرْضِ يَنْبُوعاً [ الإسراء/ 90] ، وقرئ تفجر . وقال : فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتا عَشْرَةَ عَيْناً [ البقرة/ 60] ، ومنه قيل للصّبح : فَجْرٌ ، لکونه فجر اللیل . قال تعالی: وَالْفَجْرِ وَلَيالٍ عَشْرٍ [ الفجر/ 1- 2] ، إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كانَ مَشْهُوداً [ الإسراء/ 78] ، وقیل : الفَجْرُ فجران : الکاذب، وهو كذَنَبِ السَّرْحان، والصّادق، وبه يتعلّق حکم الصّوم والصّلاة، قال : حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيامَ إِلَى اللَّيْلِ [ البقرة/ 187] . ( ف ج ر ) الفجر کے معنی کسی چیز کو وسیع طور پر پھا ڑ نے اور شق کردینے کے ہیں جیسے محاورہ ہے فجر الانسان السکری اس نے بند میں وسیع شکاف ڈال دیا فجرتہ فانفجرتہ فتفجر شدت کے ساتھ پانی کو پھاڑ کر بہایا قرآن میں ہے : ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی اور اس کے بیچ میں نہریں بہا نکالو ۔ تَفْجُرَ لَنا مِنَ الْأَرْضِ يَنْبُوعاً [ الإسراء/ 90] جب تک کہ ہمارے لئے زمین میں سے چشمے جاری ( نہ) کردو ۔ اور ایک قرآت میں تفجر ( بصیغہ تفعیل ) ہے ۔ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتا عَشْرَةَ عَيْناً [ البقرة/ 60] تو پھر اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے ۔ اور اسی سے صبح کو فجر کہا جاتا ہے کیونکہ صبح کی روشنی بھی رات کی تاریکی کو پھاڑ کر نمودار ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالْفَجْرِ وَلَيالٍ عَشْرٍ [ الفجر/ 1- 2] فجر کی قسم اور دس راتوں کی ۔ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كانَ مَشْهُوداً [ الإسراء/ 78] کیونکہ صبح کے وقت قرآن پڑھنا موجب حضور ( ملائکہ ) ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ فجر دو قسم پر ہے ایک فجر کا ذب جو بھیڑیئے کی دم کی طرح ( سیدھی روشنی سی نمودار ہوتی ہے دوم فجر صادق جس کے ساتھ نماز روزہ وغیرہ احکام تعلق رکھتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيامَ إِلَى اللَّيْلِ [ البقرة/ 187] یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری رات کی ) سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے پھر روزہ ( رکھ کر ) رات تک پورا کرو عين ويقال لذي العَيْنِ : عَيْنٌ «3» ، وللمراعي للشیء عَيْنٌ ، وفلان بِعَيْنِي، أي : أحفظه وأراعيه، کقولک : هو بمرأى منّي ومسمع، قال : فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور/ 48] ، وقال : تَجْرِي بِأَعْيُنِنا [ القمر/ 14] ، وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنا[هود/ 37] ، أي : بحیث نریونحفظ . وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه/ 39] ، أي : بکلاء تي وحفظي . ومنه : عَيْنُ اللہ عليك أي : كنت في حفظ اللہ ورعایته، وقیل : جعل ذلک حفظته وجنوده الذین يحفظونه، وجمعه : أَعْيُنٌ وعُيُونٌ. قال تعالی: وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود/ 31] ، رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان/ 74] . ويستعار الْعَيْنُ لمعان هي موجودة في الجارحة بنظرات مختلفة، واستعیر للثّقب في المزادة تشبيها بها في الهيئة، وفي سيلان الماء منها فاشتقّ منها : سقاء عَيِّنٌ ومُتَعَيِّنٌ: إذا سال منها الماء، وقولهم : عَيِّنْ قربتک «1» ، أي : صبّ فيها ما ينسدّ بسیلانه آثار خرزه، وقیل للمتجسّس : عَيْنٌ تشبيها بها في نظرها، وذلک کما تسمّى المرأة فرجا، والمرکوب ظهرا، فيقال : فلان يملك كذا فرجا وکذا ظهرا لمّا کان المقصود منهما العضوین، وقیل للذّهب : عَيْنٌ تشبيها بها في كونها أفضل الجواهر، كما أنّ هذه الجارحة أفضل الجوارح ومنه قيل : أَعْيَانُ القوم لأفاضلهم، وأَعْيَانُ الإخوة : لنبي أب وأمّ ، قال بعضهم : الْعَيْنُ إذا استعمل في معنی ذات الشیء فيقال : كلّ ماله عَيْنٌ ، فکاستعمال الرّقبة في المماليك، وتسمية النّساء بالفرج من حيث إنه هو المقصود منهنّ ، ويقال لمنبع الماء : عَيْنٌ تشبيها بها لما فيها من الماء، ومن عَيْنِ الماء اشتقّ : ماء مَعِينٌ. أي : ظاهر للعیون، وعَيِّنٌ أي : سائل . قال تعالی: عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان/ 18] ، وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] ، فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن/ 50] ، يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن/ 66] ، وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ/ 12] ، فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر/ 45] ، مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء/ 57] ، وجَنَّاتٍ وَعُيُونٍ وَزُرُوعٍ [ الدخان/ 25- 26] . وعِنْتُ الرّجل : أصبت عَيْنَهُ ، نحو : رأسته وفأدته، وعِنْتُهُ : أصبته بعیني نحو سفته : أصبته بسیفي، وذلک أنه يجعل تارة من الجارحة المضروبة نحو : رأسته وفأدته، وتارة من الجارحة التي هي آلة في الضّرب فيجري مجری سفته ورمحته، وعلی نحوه في المعنيين قولهم : يديت، فإنه يقال : إذا أصبت يده، وإذا أصبته بيدك، وتقول : عِنْتُ البئر أثرت عَيْنَ مائها، قال :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون/ 50] ، فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک/ 30] . وقیل : المیم فيه أصليّة، وإنما هو من : معنت «2» . وتستعار العَيْنُ للمیل في المیزان ويقال لبقر الوحش : أَعْيَنُ وعَيْنَاءُ لحسن عينه، وجمعها : عِينٌ ، وبها شبّه النّساء . قال تعالی: قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات/ 48] ، وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] . ( ع ی ن ) العین اور عین کے معنی شخص اور کسی چیز کا محافظ کے بھی آتے ہیں اور فلان بعینی کے معنی ہیں ۔ فلاں میری حفاظت اور نگہبانی میں ہے جیسا کہ ھو بمر ا ئ منی ومسمع کا محاورہ ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور/ 48] تم تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو ۔ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے چلتی تھی ۔ وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه/ 39] اور اس لئے کہ تم میرے سامنے پر دریش پاؤ ۔ اور اسی سے عین اللہ علیک ہے جس کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت اور نگہداشت فرمائے یا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے نگہبان فرشتے مقرر کرے جو تمہاری حفاظت کریں اور اعین وعیون دونوں عین کی جمع ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود/ 31] ، اور نہ ان کی نسبت جن کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو یہ کہتا ہوں کہ ۔ رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان/ 74] اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے آ نکھ کی ٹھنڈک عطا فرما ۔ اور استعارہ کے طور پر عین کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جو مختلف اعتبارات سے آنکھ میں پائے جاتے ہیں ۔ مشکیزہ کے سوراخ کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ہیئت اور اس سے پانی بہنے کے اعتبار سے آنکھ کے مشابہ ہوتا ہے ۔ پھر اس سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے ۔ سقاء عین ومعین پانی کی مشک جس سے پانی ٹپکتا ہو عین قر بتک اپنی نئی مشک میں پانی ڈالواتا کہ تر ہو کر اس میں سلائی کے سوراخ بھر جائیں ، جاسوس کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ دشمن پر آنکھ لگائے رہتا ہے جس طرح کو عورت کو فرج اور سواری کو ظھر کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں سے مقصود یہی دو چیزیں ہوتی ہیں چناچنہ محاورہ ہے فلان یملک کذا فرجا وکذا ظھرا ( فلاں کے پاس اس قدر لونڈ یاں اور اتنی سواریاں ہیں ۔ (3) عین بمعنی سونا بھی آتا ہے کیونکہ جو جواہر میں افضل سمجھا جاتا ہے جیسا کہ اعضاء میں آنکھ سب سے افضل ہوتی ہے اور ماں باپ دونوں کی طرف سے حقیقی بھائیوں کو اعیان الاخوۃ کہاجاتا ہے ۔ (4) بعض نے کہا ہے کہ عین کا لفظ جب ذات شے کے معنی میں استعمال ہوجی سے کل مالہ عین تو یہ معنی مجاز ہی ہوگا جیسا کہ غلام کو رقبۃ ( گردن ) کہہ دیا جاتا ہے اور عورت کو فرج ( شرمگاہ ) کہہ دیتے ہیں کیونکہ عورت سے مقصود ہی یہی جگہ ہوتی ہے ۔ (5) پانی کے چشمہ کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ اس سے پانی ابلتا ہے جس طرح کہ آنکھ سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور عین الماء سے ماء معین کا محاورہ لیا گیا ہے جس کے معنی جاری پانی کے میں جو صاف طور پر چلتا ہوا دکھائی دے ۔ اور عین کے معنی جاری چشمہ کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان/ 18] یہ بہشت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن/ 50] ان میں دو چشمے بہ رہے ہیں ۔ يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن/ 66] دو چشمے ابل رہے ہیں ۔ وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ/ 12] اور ان کیلئے ہم نے تانبے کا چشمہ بہا دیا تھا ۔ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر/ 45] باغ اور چشموں میں ۔ مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء/ 57] باغ اور چشمے اور کھیتیاں ۔ عنت الرجل کے معنی ہیں میں نے اس کی آنکھ پر مارا جیسے راستہ کے معنی ہوتے ہیں میں نے اس کے سر پر مارا فادتہ میں نے اس کے دل پر مارا نیز عنتہ کے معنی ہیں میں نے اسے نظر بد لگادی جیسے سفتہ کے معنی ہیں میں نے اسے تلوار سے مارا یہ اس لئے کہ اہل عرب کبھی تو اس عضو سے فعل مشتق کرتے ہیں جس پر مارا جاتا ہے اور کبھی اس چیز سے جو مار نے کا آلہ ہوتی ہے جیسے سفتہ ورمحتہ چناچہ یدیتہ کا لفظ ان ہر دومعنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی میں نے اسے ہاتھ سے مارا یا اس کے ہاتھ پر مارا اور عنت البئر کے معنی ہیں کنواں کھودتے کھودتے اس کے چشمہ تک پہنچ گیا قرآن پاک میں ہے :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون/ 50] ایک اونچی جگہ پر جو رہنے کے لائق تھی اور ہوا پانی جاری تھا ۔ فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک/ 30] تو ( سوائے خدا کے ) کون ہے جو تمہارے لئے شیریں پال کا چشمہ بہالائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ معین میں لفظ میم حروف اصلیہ سے ہے اور یہ معنت سے مشتق ہے جسکے معنی ہیں کسی چیز کا سہولت سے چلنا یا بہنا اور پر بھی بولا جاتا ہے اور وحشی گائے کو آنکھ کی خوب صورتی کہ وجہ سے اعین دعیناء کہاجاتا ہے اس کی جمع عین سے پھر گاواں وحشی کے ساتھ تشبیہ دے کر خوبصورت عورتوں کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات/ 48] جو نگاہیں نیچی رکھتی ہوں ( اور ) آنکھیں بڑی بڑی ۔ وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور نیز ہم نے اس زمین میں کھجوروں اور انگوروں کے باغ لگائے اور اس زمین میں نہریں جاری کیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٤ { وَجَعَلْنَا فِیْہَا جَنّٰتٍ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّاَعْنَابٍ } ” اور ہم نے بنا دیے ہیں اس میں باغات کھجور اور انگور کے “ { وَّفَجَّرْنَا فِیْہَا مِنَ الْعُیُوْنِ } ” اور جاری کردیے ہیں ہم نے اس میں چشمے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(36:34) فیھا ای فی الارض۔ زمین میں۔ نخیل۔ نخیل ونخل اسم جنس ہے کھجور کے درخت یا کھجوریں۔ درختوں کے معنی میں قرآن مجید میں ہے کانہم اعجاز نخل خاویۃ (66:7) جیسے کھجوروں کے کھوکھلے تنے۔ اور کھجوروں کے معنی میں فیھما فکھۃ ونخل ورمان۔ (55:68) ان میں میوے۔ کھجوریں اور انار ہیں۔ نخل کی جمع نخیل ہے جیسے عبد کی جمع عبید ہے۔ اعناب عنب کی جمع ہے بمعنی انگور۔ فجرنا ماضی جمع متکلم تفجیر (تفعیل) مصدر ای شققنا۔ ہم نے پھاڑا ہم نے پھاڑ کر بہایا۔ فیھا۔ ای فی الارض اوفی جنت۔ زمین میں یا باغات میں۔ من العیون۔ من کی مندرجہ ذیل صورتیں ہیں :۔ (1) من ابتدائیہ ہے ای فجرنا من المنابع ما ینتفع بہ من المائ۔ یعنی منبعوں سے (چشموں) سے نفع بخش پانی بہایا۔ (2) من زائدہ ہے۔ ای فجرنا فیھا العیون جب کہ عیون فجرنا کا مفعول ہے اس میں ہم نے چشمے جاری کئے ۔ (3) من بیانیہ ہے اس میں ہم نے چشمے جاری کر دئیے۔ (4) من تبعیضیہ ہے ہم نے اس میں کچھ چشمے جاری کئے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جو ذات زمین سے دانہ اگاتی ہے اسی ذات نے کھجوروں اور انگوروں کے باغ پیدا کیے ہیں۔ عرب میں کھجور اور انگور کے باغ کثرت سے پائے جاتے تھے۔ صحراء میں رہنے والے لوگ عام طور پر کھجور پر ہی گزارا کرتے تھے۔ متمدن لوگ کھجور اور انگور کو مختلف طریقوں کے ساتھ خوراک کے طور پر استعمال کرتے اور کھجور اور انگور سے کئی قسم کے مشروبات تیار کرتے اور اسی سے شراب بناتے تھے جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔ جن لوگوں کو کھجور اور انگورکا مشترکہ باغ دیکھنے کا موقع ملا ہے وہ جانتے ہیں کہ اس سے پُر کشش باغ کسی اور درخت کا نہیں ہوتا۔ خاص طور پر انگوروں اور کھجوروں کے جس باغ میں پانی کے چشمے جاری ہوں اس کی ہریالی اور خوبصورتی کا اَن دیکھے تصور کرنا محال ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایسے باغات اور چشموں کو اپنی قدرت کی نشانی کے طور پر پیش فرمایا ہے اور مشرکین کو اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اپنے رب کی قدرتوں کی طرف دیکھو کہ اس نے تمہارے لیے کس قسم کے باغات پیدا کیے تاکہ تم ان کے ثمرات سے لطف اندوز ہو سکو کیا پھر تم اپنے رب کا شکر ادا نہیں کرتے۔ نمک حرامی کی حد یہ ہے کہ مشرک اپنے رب کی نعمتیں کھاتا ہے لیکن اس کے سامنے جھکنے کی بجائے دوسروں کے سامنے جھکتا ہے جنہوں نے اس کے لیے ایک ذرہ بھی پیدا نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے شرک سے پاک ہے۔ اسی نے نباتات کو جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا اور اسی نے انسانوں کے جوڑے بنائے۔ اس نے ان چیزوں کے جوڑے پیدا کیے ہیں جو لوگوں کے احاطۂ علم سے باہر ہیں۔ انسان شروع ہی سے صرف اپنے بارے میں جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مرد وزن کی شکل میں جوڑے پیدا کیے ہیں لیکن یہ حقیقت بہت کم لوگ جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین سے اگنے والی ہر چیز کو ازواج کی شکل میں پیدا فرمایا ہے۔ عرب، کھجور کے بارے میں کسی حد تک علم رکھتے تھے کہ کھجور کی نسل میں نر اور مادہ پائے جاتے ہیں اس سے آگے نباتات کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتے تھے یہ حقیقت پہلی دفعہ قرآن مجید نے لوگوں کے سامنے آشکارا کی ہے کہ نباتات میں بھی ازواج ہوتے ہیں۔ ” زَوْجٌ“ کی جمع ” اَزْوَاجٌ“ ہے جس کا معنٰی جوڑا ہے یعنی نر اور مادہ، میٹھا اور پھیکا وغیرہ۔ لیکن یہاں صرف کھجور اور انگور کے بارے میں کچھ معلومات دی جاتی ہیں۔ کیونکہ ان کو دیگر پودوں پر ایک امتیاز اور برتری حاصل ہے۔ یوں تو تمام نباتات اور پودے خالق ارض و سماء کے پیدا کیے ہوئے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان پودوں کا اپنے کلام میں تذکرہ فرما کر ان پودوں کا نام ابد الآباد تک کلام الٰہی میں محفوظ کردیا گیا ہے۔ کھجور قرآنی نام : ١۔ نَخْل، نَخِیل، نَخْلَۃ دیگر نام : Date (انگریزی ) ، Datte (فرانسیسی) ، Tamar-Tamarim (عبرانی ) ، کھجور (اردو، پنجابی، ہندی) ، خرما (فارسی ) ، کھرجور (سنسکرت) کر جور و (کشمیری) ۔ نباتاتی نام : (Phoenix dactylifera Linn. (Family: Palmae /Aracaceae ) قرآنی ارشادات کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے متعدد بار ان احسانوں اور مہربانیوں کا ذکر کیا ہے جو اس نے پھلوں کی صورت میں انسان پر کیے ہیں۔ جس پھل اور درخت کا حوالہ سب سے زیادہ دیا گیا ہے وہ کھجو رہے۔ اس کا بیان مختلف الفاظ میں قرآن کریم میں بیس مرتبہ آیا ہے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ کھجور کی کاشت آٹھ ہزار سال قبل جنوبی عراق میں شروع ہوئی تھی۔ اس وقت دنیا میں کہیں بھی پھلدار پودوں کی کھیتی کا تصور تک نہ تھا۔ کھجور کا پھل انسان کے لیے بہترین غذا ہے۔ اس کی غذائیت کا اندازہ اس کے کیمیاوی اجزاء سے کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس میں تقریباً ساٹھ فیصد Invert sugar اور Sucrose کے علاوہ اسٹارچ، پروٹین، Cellulose, pe ctin, Tannin اور چربی مختلف مقدار میں موجود ہیں۔ علاوہ ازیں اس میں وٹامن اے، وٹامن بی، وٹامن بی ٹو اور وٹامن سی بھی پائے جاتے ہیں۔ اس کے معدنیاتی اجزاء بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں، یعنی یہ سوڈیم، کیلشیم، سلفر، کلورین، فاسفورس اور آئرن، سے بھرپور ہے۔ کھجور میں نر اور مادہ ہوتے ہیں۔ دونوں کے پھولوں کے ذریعہ (Cross Polination) ہوتا ہے۔ تب ہی مادہ پودوں میں پھل آتے ہیں۔ ایک نر درخت کے پھول ایک سو مادہ درختوں کے (Polination) کے لیے کافی سمجھے جاتے ہیں۔ (تفصیل کے دیکھیں الانعام : ١٤٧) انگور انگور کا شمار قدرت کی بہترین نعمتوں میں کیا جاتا ہے۔ اسی لیے قرآن حکیم میں اس کا ذکر ” عِنْبٌ“ اور ” اَعْنَابٌ“ (جمع) کے نام سے گیارہ آیات میں کیا گیا ہے۔ انگور فارسی کا لفظ ہے جس کا نباتاتی نام Vitis Vinifera ہے۔ کھجور کے بعد انگور کی تاریخ بھی پھلوں میں سب سے قدیم مانی جاسکتی ہے۔ انگور کی قسمیں آٹھ ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ کیمیاوی طور سے انگور، گلوکوز اور فرکٹوزکا بہترین ذریعہ ہے جو اس میں پندرہ سے پچیس فیصد تک پائے جاتے ہیں اس کے سوا Tartaric acid اور Malic acid بھی خاصی مقدار میں ملتے ہیں۔ سوڈیم پوٹاشیم، کیلشیم اور آئرن کی قابل قدر مقدار اس میں موجود ہے جبکہ پروٹین اور چربی برائے نام ہے۔ اس میں ایک بہت اہم کمپاؤنڈ بھی دریافت ہوا ہے جس کو وٹامن ” پی “ (P) کہا گیا ہے۔ یہ کیمیاوی جز ذیابیطس سے پیدا شدہ خون کے بہنے کو روکتا ہے۔ جسم کے ورم اور نسوں کی سو جن کو کم کرتا ہے اور Athe rosclerosis کا مؤثر علاج ہے۔ کیمیاوی اجزاء کی بنا پر انگور ایک ایسا لاجواب ثمر ہے جو نہایت ہاضم ہونے کے ساتھ انتہائی فرحت بخش اور Demulcent ہے۔ خون کو صاف کرتا ہے اور جسم میں خون کی مقدار بڑھاتا ہے اور جسمانی کمزوری کو دور کرتا ہے۔ کچے انگور کا رس گلے کی خرابیوں میں مفید سمجھا جاتا ہے۔ اس کی پتیاں اسہال کو روکتی ہیں۔ اس کی بیلوں سے حاصل کیا گیا رس (Sap) جلد کی بیماریوں میں کام میں لایا جاسکتا ہے۔ انگوری سرکہ معدہ کی خرابیوں، ہیضہ اور قولنج کی اچھی دوا ہے۔ ( تفصیل کے لیے دیکھئے الانعام آیت ١٤١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(34) اور پیدا کئے ہم نے زمین میں باغ کھجوروں کے اور باغ انگوروں کے اور نیز اس زمین میں یا ان باغوں میں چشمے جاری کئے۔ فیھا میں دو قول ہیں بعض نے زمین مراد لی ہے بعض نے باغ مراد لئے ہیں۔ مقصد ایک ہی ہے جو چشمے زمین سے نکلتے ہیں ان کا پانی بھی باغوں میں دیا جاتا ہے۔ کھجوروں کا باغ جس میں کھجور کے درخت زیادہ ہوں اسی طرح انگور کا باغ جس میں انگور کے درخت زیادہ ہوں۔