Surat Yaseen

Surah: 36

Verse: 38

سورة يس

وَ الشَّمۡسُ تَجۡرِیۡ لِمُسۡتَقَرٍّ لَّہَا ؕ ذٰلِکَ تَقۡدِیۡرُ الۡعَزِیۡزِ الۡعَلِیۡمِ ﴿ؕ۳۸﴾

And the sun runs [on course] toward its stopping point. That is the determination of the Exalted in Might, the Knowing.

اور سورج کے لئے جو مقررہ راہ ہے وہ اسی پر چلتا رہتا ہے یہ ہے مقرر کردہ غالب باعلم اللہ تعالٰی کا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And the sun runs on its fixed course for a term (appointed). That is the decree of the Almighty, the All-Knowing. There are two views over the meaning of the phrase لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا (on its fixed course for a term (appointed)). - The first view is that it refers to its fixed course of location, which is beneath the Throne, beyond the earth in that direction. Wherever it go... es, it is beneath the Throne, it and all of creation, because the Throne is the roof of creation and it is not a sphere as many astronomers claim. Rather it is a dome supported by legs or pillars, carried by the angels, and it is above the universe, above the heads of people. When the sun is at its zenith at noon, it is in its closest position to Throne, and when it runs in its fourth orbit at the opposite point to its zenith, at midnight, it is in its furthest position from the Throne. At that point it prostrates and asks for permission to rise, as mentioned in the Hadiths. Al-Bukhari recorded that Abu Dharr, may Allah be pleased with him, said, "I was with the Prophet in the Masjid at sunset, and he said: يَا أَبَا ذَرَ أَتَدْرِي أَيْنَ تَغْرُبُ الشَّمْسُ O Abu Dharr! Do you know where the sun sets? I said, `Allah and His Messenger know best.' He said: فَإِنَّهَا تَذْهَبُ حَتْى تَسْجُدَ تَحْتَ الْعَرْشِ فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى It goes and prostrates beneath the Throne, and that is what Allah says: وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (And the sun runs on its fixed course for a term. That is the decree of the Almighty, the All-Knowing.)" It was also reported that Abu Dharr, may Allah be pleased with him, said, "I asked the Messenger of Allah about the Ayah: وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا (And the sun runs on its fixed course for a term). He said: مُسْتَقَرُّهَا تَحْتَ الْعَرْش Its fixed course is beneath the Throne." - The second view is that this refers to when the sun's appointed time comes to an end, which will be on the Day of Resurrection, when its fixed course will be abolished, it will come to a halt and it will be rolled up. This world will come to an end, and that will be the end of its appointed time. This is the fixed course of its time. Qatadah said: لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا (on its fixed course for a term (appointed)) means, "It has an appointed time and it will not go beyond that." It was also said that; this means, it keeps moving in its summer orbit for a certain time, and it does not exceed that, then it moves to its winter orbit for a certain time, and it does not exceed that. This was narrated from Abdullah bin `Amr, may Allah be pleased with him. Ibn Mas`ud and Ibn Abbas, may Allah be pleased with them, recited this Ayah as: وَالشَّمْسُ تَجْرِي لاَامُسْتَقَرٍّ لَّهَا (And the sun runs with no fixed course for a term), meaning that it has no destination and it does not settle in one place, rather it keeps moving night and day, never slowing down or stopping, as in the Ayah: وَسَخَّر لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَايِبَينَ And He has made the sun and the moon, both constantly pursuing their courses, to be of service to you. (14:33) which means, they will never slow down or stop, until the Day of Resurrection. ... ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ ... That is the decree of the Almighty, means, which none can oppose or prevent. ... الْعَلِيمِ the All-Knowing. Who knows every movement and every cessation of movement, Who has decreed that and Who has set it in motion following a pattern in which there are no differences or inversions, as Allah says: فَالِقُ الاِصْبَاحِ وَجَعَلَ الَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَاناً ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (He is the) Cleaver of the daybreak. He has appointed the night for resting, and the sun and the moon for reckoning. Such is the measuring of the Almighty, the All-Knowing. (6:96) And this is how this Ayah ends: ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (That is the decree of the Almighty, the All-Knowing). Then Allah says:   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

(1) یعنی اپنے اس مدار (فلک) پر چلتا رہتا ہے، جو اللہ نے اس کے لیے مقرر کردیا ہے، اسی سے اپنی سیر کا آغاز کرتا ہے اور وہیں پر ختم کرتا ہے۔ علاوہ ازیں اس سے ذرا ادھر ادھر نہیں ہوتا، کہ کسی دوسرے سیارے سے ٹکرا جائے۔ دوسرے معنی ہیں، اپنے ٹھہرنے کی جگہ تک، اور اس کا یہ مقام قرار عرش کے نیچے ہے، جیسا کہ ... حدیث میں ہے کہ سورج روزانہ غروب کے بعد عرش کے نیچے جاکر سجدہ کرتا ہے اور پھر وہاں سے طلوع ہونے کی اجازت طلب کرتا ہے (صحیح بخاری، تفسیر سورة یسین) دونوں مفہوم کے اعتبار سے لمستقر میں لام، علت کے لئے ہے۔ ای۔ لأجل مستقرلھا بعض کہتے ہیں کہ لام، الی کے معنی میں ہے، پھر مستقر یوم قیامت ہوگا۔ یعنی سورج کا یہ چلنا قیامت کے دن تک ہے، قیامت والے دن اس کی حرکت ختم ہوجائے گی۔ یہ تینوں مفہوم اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں۔   Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٣٦] اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جس طرح فضا میں دوسرے تمام سیارے اپنے اپنے مدار پر گردش کررہے ہیں اسی طرح سورج بھی اپنے مدار یا اپنی مقررہ گزر گاہ پر چل رہا ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ جو ہر چیز پر غالب اور اپنی مخلوقات کے تمام تر حالات سے واقف ہے & چاہے گا یہ سورج اسی طرح اپنی...  مقررہ گزر گار پر چلتا رہے گا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : سورج کا عرش الٰہی کے نیچے سجدہ ریز ہونا :۔ ایک دفعہ خود رسول اللہ نے سیدنا ابوذر (رض) سے پوچھا : && جانتے ہو کہ سورج غروب ہونے کے بعد کہاں جاتا ہے ؟ && سیدنا ابوذر (رض) کہنے لگے : && اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں && آپ نے فرمایا &&: سورج غروب ہونے پر اللہ تعالیٰ کے عرش کے نیچے سجدہ ریز ہوتا ہے اور دوسرے دن طلوع ہونے کا اذن مانگتا ہے تو اسے اذن دے دیا جاتا ہے پھر ایک دن ایسا آئے گا کہ اس سے کہا جائے گا کہ جدھر سے آیا ہے ادھر ہی لوٹ جا۔ پھر وہ مغرب سے طلوع ہوگا۔ پھر آپ نے یہی آیت پڑھی && (بخاری۔ کتاب التوحید۔ باب وکان عرشہ علی المائ) اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ سورج اور اسی طرح دوسرے سیاروں کی گردش محض کشش ثقل اور مرکز گریز قوت کا نتیجہ نہیں بلکہ اجرام فلکی اور ان کے نظام پر اللہ حکیم وخبیر کا زبردست کنٹرول ہے کہ ان میں نہ تو تصادم و تزاحم ہوتا ہے اور نہ ہی ان کی مقررہ گردش میں کمی بیشی ہوتی ہے اور یہ سب اجرام اللہ کے حکم کے تحت گردش کر رہے ہیں دوسرے یہ کہ قیامت سے پہلے ایک ایسا وقت آنے والا ہے جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا اس کے بعد نظام کائنات بگڑ جائے گا۔ آج کا مغرب زدہ طالب علم سورج کے طلوع و غروب ہونے اور عرش کے نیچے جاکر دوبارہ طلوع ہونے کی اجازت مانگنے کا مذاق اڑاتا ہے اور کہتا ہے کہ سورج تو اپنی جگہ پر قائم ہے اور ہمیں جو طلوع و غروب ہوتا نظر آتا ہے تو یہ محض زمین کی محوری گردش کی وجہ سے ہے حالانکہ اللہ کا عرش اتنا بڑا ہے کہ ایک سورج کی کیا بات ہے کائنات کی ایک ایک چیز اس کے عرش کے تلے ہے اور جن و انس کے سوا ہر چیز اس کے ہاں سجدہ ریز یا اللہ کی طرف سے سپرد کردہ خدمت سرانجام دینے پر لگی ہوئی ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَالشَّمْسُ تَجْرِيْ لِمُسْتَــقَرٍّ لَّهَا : ” مُسْتَقَرٌّ“ باب استفعال سے اسم ظرف ہے، قرار کی جگہ یا وقت۔ یہ دوسری دلیل ہے، یعنی سورج کا روزانہ غروب ہونے کے بعد طلوع ہونا موت کے بعد زندگی کی دلیل ہے۔ اس آیت کے دو معنی ہیں اور دونوں معنی ایک وقت میں مراد ہوسکتے ہیں اور یہ قرآن کا اعجاز ہے۔ ایک معنی...  یہ کہ سورج اپنی اس جگہ چل رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے مقرر فرما دی ہے اور وہ عرش کے نیچے ہے۔ اس صورت میں ” لِمُسْتَــقَرٍّ “ میں ” لام “ ” عَلٰی “ یا ” فِيْ “ کے معنی میں ہوگا، جیسا کہ شاہ عبد القادر (رض) نے ترجمہ کیا ہے : ” اور سورج چلا جاتا ہے اپنے ٹھہرے ہوئے راستے پر۔ “ اس معنی کی دلیل ابوذر (رض) کی یہ حدیث ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اللہ تعالیٰ کے اس قول ”ۙوَالشَّمْسُ تَجْرِيْ لِمُسْتَــقَرٍّ لَّهَا “ کے متعلق پوچھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مُسْتَقَرُّھَا تَحْتَ الْعَرْشِ )[ بخاري، التفسیر، سورة یٰسٓ، باب قولہ : ( و الشمس تجري۔۔ ) : ٤٨٠٣ ] ” اس کا مستقر عرش کے نیچے ہے۔ “ دوسرا معنی یہ کہ سورج اپنی اس جگہ یا وقت کی طرف چلا جا رہا ہے جو اس کے ٹھہرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے مقرر فرما دیا ہے، جہاں پہنچنے کے بعد اسے آگے چلنے کے بجائے واپس چلنے کا حکم دیا جائے گا اور وہ مشرق سے طلوع ہونے کے بجائے مغرب سے طلوع ہوگا۔ اس کے چلنے کا یہ راستہ اور ٹھہر جانے کی وہ جگہ اور وہ وقت اس ہستی کا مقرر کردہ ہے جو سب پر غالب، سب کچھ جاننے والی ہے۔ یہ معنی بھی حدیث سے ثابت ہے، جیسا کہ ابوذر (رض) ہی سے مروی ہے کہ سورج غروب ہوتے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے پوچھا : ( أَ تَدْرِيْ أَیْنَ تَذْھَبُ ؟ ) ” کیا تم جانتے ہو یہ کہاں جاتا ہے ؟ “ میں نے کہا : ( اَللّٰہُ وَ رَسُوْلُہُ أَعْلَمُ ) ” اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( فَإِنَّہَا تَذْہَبُ حَتّٰی تَسْجُدَ تَحْتَ الْعَرْشِ ، فَتَسْتَأْذِنَ فَیُؤْذَنَ لَہَا، وَیُوْشِکُ أَنْ تَسْجُدَ فَلاَ یُقْبَلَ مِنْہَا، وَتَسْتَأْذِنَ فَلاَ یُؤْذَنَ لَہَا، فَیُقَالُ لَہَا ارْجِعِيْ مِنْ حَیْثُ جِءْتِ فَتَطْلُعُ مِنْ مَّغْرِبِہَا، فَذٰلِکَ قَوْلُہُ تَعَالٰی : (ۙوَالشَّمْسُ تَجْرِيْ لِمُسْتَــقَرٍّ لَّهَا ۭذٰلِكَ تَــقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِــيْمِ ) [ بخاري، بدء الخلق، باب صفۃ الشمس والقمر : ٣١٩٩ ] ” یہ سورج چلتا جاتا ہے، حتیٰ کہ عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے، پھر اجازت مانگتا ہے تو اسے اجازت دی جاتی ہے اور قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے تو اس کا سجدہ قبول نہ کیا جائے اور اجازت مانگے تو اسے اجازت نہ دی جائے، پھر وہ اپنے مغرب سے طلوع ہوگا، یہ ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان : (ۙوَالشَّمْسُ تَجْرِيْ لِمُسْتَــقَرٍّ لَّهَا ۭذٰلِكَ تَــقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِــيْمِ ) “ اس آیت سے معلوم ہوا کہ سورج چل رہا ہے۔ سائنس دان اس کی دو حرکتیں بیان کرتے ہیں، ایک اس کی اپنے مدار کے گرد حرکت اور دوسری اس حرکت کے ساتھ ساتھ کسی عظیم کہکشاں کے گرد حرکت۔ (واللہ اعلم) یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ حقیقت تو سب کو معلوم ہے کہ سورج ہر وقت چلتا رہتا ہے، اگر کہیں غروب ہوتا ہے تو اس سے اگلی جگہ طلوع ہو رہا ہوتا ہے، تو غروب ہوتے وقت اس کے عرش کے نیچے سجدہ کرنے اور چلنے کی اجازت طلب کرنے کا مطلب کیا ہے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ سورج عرش کے نیچے چل رہا ہے اور ہر وقت اور ہر لمحے اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہے اور ہر لمحے اس کا آگے چلنا اللہ تعالیٰ کی اجازت پر موقوف ہے، جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اجازت نہیں ملے گی، وہ ٹھہر جائے گا اور اللہ کے حکم کے مطابق مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہوگا۔ اس کی دلیل قرآن مجید کی یہ آیت ہے : (اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يَسْجُدُ لَهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَاۗبُّ وَكَثِيْرٌ مِّنَ النَّاسِ ۭ وَكَثِيْرٌ حَقَّ عَلَيْهِ الْعَذَابُ ۭ وَمَنْ يُّهِنِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ مُّكْرِمٍ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَفْعَلُ مَا يَشَاۗءُ ) [ الحج : ١٨ ] ” کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ، اسی کے لیے سجدہ کرتے ہیں جو کوئی آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں اور سورج اور چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور چوپائے اور بہت سے لوگ۔ اور بہت سے وہ ہیں جن پر عذاب ثابت ہوچکا اور جسے اللہ ذلیل کر دے پھر اسے کوئی عزت دینے والا نہیں۔ بیشک اللہ کرتا ہے جو چاہتا ہے۔ “ سورج کا روزانہ غروب کے بعد دوبارہ طلوع ہونا موت کے بعد زندگی کی واضح دلیل ہے۔ سورج اور چاند کی عظیم مخلوقات کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنی دو جلال و کمال والی صفات ” عزیز “ اور ” علیم “ کا یہاں بھی ذکر فرمایا ہے اور سورة انعام (٩٦) اور سورة حٰم السجدہ (١٢) میں بھی۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 38, it was said: وَالشَّمْسُ تَجْرِ‌ي لِمُسْتَقَرٍّ‌ لَّهَا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ‌ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (And the sun is quickly proceeding towards its resting place. That is the designing of the All-Mighty, the All-Knowing. 36:38). The word: لِمُسْتَقَر mustaqarr) is used to denote place of rest as well as time of rest, that is, it could be time-oriented and, space-oriented too. Then, this...  word is also employed in the sense of the end or destination of a course or journey - even if another journey begins immediately after it without any break or stillness (as mentioned by Ibn Kathir). Some respected commentators have taken the word: لِمُسْتَقَرّ (mustaqarr) at this place as a time-oriented destination, that is, when the sun reaches the end of its movement already determined - and that time is the Day of Doom (the Qiyamah). In the light of this Tafsir, the verse would mean that the sun is moving on its orbit supported by such a precise and perfect system that does never betray the difference of even a minute or second. Thousands of years have passed over this orbit. But, all this is not everlasting. There is a particular point in time and space for it. When that is arrived at, this solar system and the movement will stop, end - and that is the Day of Qiyamah. This Tafsir has been reported from Qatdaha:sv (Ibn Kathir). And a verse from Surah Az-Zumar in the Holy Qur&an also supports it, that is, the word: مُّسْتَقَرّ‌ (mustaqarr) means a time-oriented destination or abode and refers to the Day of Qiyamah. The words of the verse of Surah az-Zumar are: خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ بِالْحَقِّ ۖ يُكَوِّرُ‌ اللَّيْلَ عَلَى النَّهَارِ‌ وَيُكَوِّرُ‌ النَّهَارَ‌ عَلَى اللَّيْلِ ۖ وَسَخَّرَ‌ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ‌ ۖ كُلٌّ يَجْرِ‌ي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى He created the heavens and the earth in His wisdom. He wraps the night over the day and He wraps the day over the night, and He has put the Sun and the Moon under His command, each one of tham moving for an appointed term. (39:5) The statement in this verse is nearly the same as given in the present verse of Surah Ya Sin. Firstly, the alternation of the night and the day has been described through a similitude in terms of common perception - Allah Ta’ ala puts the cover of night over the day and that of day over the night. Thus, the night and the day have been likened to two covers. The cover of the night is draped over the day and it is night, and the cover of the day is draped over the night and it is day. After that, it was said that the sun and the moon are both subjugated before Allah Ta’ ala and are subservient to His command. Each is moving up to an appointed term. The words used in the text are: أَجَلٍ مُّسَمًّى (ajalim-musamma) meaning fixed term, and the verse means that the movement of both the sun and the moon is not everlasting. When it reaches a certain fixed term, that is, the Day of Qiyamah, this movement shall stand terminated. In the present verse of Surah Ya Sin too, the word: مُّسْتَقَرٌّ‌ (mustaqarr) quite obviously means this very fixed or appointed term, that is, a time-oriented point of arrival, destination or abode. In the light of this Tafsir, neither does the sense of the verse present any difficulty, nor is there any objection in terms of astronomy and mathematics. And some respected commentators have taken it to mean a spatial destination or abode as based on the following Hadith reported in the Sahihs of al-Bukhari and Muslim and others from several Sahabah and chains of authority. According to a narration of Sayyidna Abu Dharr al-Ghifari (رض) ، once he was present in the company of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) at the time of sunset. Addressing him, he said, |"Abu Dharr, do you know where the sun sets?|" Sayyidna Abu Dharr (رض) says that he submitted: |"Allah and His Messenger know best.|" Thereupon, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"The sun keeps on moving until when it reaches beneath the &Arsh (the Throne) it makes sajdah (sujud or prostration).|" After that, he said, |"This is what &mustaqarr& means in this verse: وَالشَّمْسُ تَجْرِ‌ي لِمُسْتَقَرٍّ‌ لَّهَا (And the sun is quickly proceeding towards its resting place.). In a narration, again from Sayyidna Abu Dharr (رض) ، there appear the additional words to the effect: |"I asked the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) the explanation of: وَالشَّمْسُ تَجْرِ‌ي لِمُسْتَقَرٍّ‌ لَّهَا (And the sun is quickly proceeding towards its resting place.). He said: مُستَقَرُّھَا تَحتَ العَرشِ (mustaqarruha that al-&Arsh: Its resting place is under the ` Arsh). Al-Bukhari has reported this narration at several place and, with the exception of Ibn Majah, this narration is present in all Six Books. And there is a Hadith bearing on the same subject reported from Sayyidna ` Abdullah Ibn Masud (رض) as well. It has some additions to the effect that, every day, when the sun reaches beneath the ` Arsh, it performs a Sajdah and seeks permission for the next orbit. After the permission, it starts the next orbit - until, there will come that day when it will not have the permission to start the next orbit. Instead, it will be commanded to go back towards where it had come from. In other words, it would be asked to go beneath the earth from the side of the West, then, return from the same side of the West and rise from the West. The day it happens, it will be the sign of the Day of Qiyamah being absolutely close and, thereafter the doors of &iman and taubah (repentance) will be closed. That will be a time when the taubah (repentance) of anyone sunk in sin or the taubah of anyone soaked in shirk and kufr will not be accepted (Ibn Kathir with reference to &Abd-ur- Razzaq). The prostration of the sun: A look into the phenomenon of the sun performing sajdah (prostration) beneath the ` Arsh From these narrations of Hadith, we learn that mustaqarr means a spatial destination, that is, a place where one orbit of the movement of the sun stands completed - and they also tell us that this place is beneath the Arsh. Hence, the verse would mean that, every day, the sun moves towards a particular destination, and once it has reached there, it performs sajdah before Allah Ta’ ala and seeks His permission for the next orbit. Once the permission is given, it begins the next orbit. But, when seen outwardly, several strong difficulties arise on the basis of principles laid down by experiments, observations and astronomy. 1. The state of the ` Arsh of Rahman (generally referred to as the Divine Throne) as understood from the Qur&an and Sunnah is that it surrounds all that we know as the masses of land and expanses of the sky. All these masses and expanses along with planets and stars, without any exception, are enclosed within the ` Arsh - and the ` Arsh of Rahman holds this entire cosmic universe inside itself. If seen from this angle, the sun is, in all conditions and at all times, simply under the ` Arsh. What, then, would be the sense of going beneath the ` Arsh after it sets? 2. It is common observation that the sun, after it sets at some place, does rise elsewhere. Therefore, its rising and setting is an ongoing phenomenon. What then is the meaning of going beneath the ` Arsh after setting and doing Sajdah? 3. From the apparent sense of the Hadith mentioned above, we learn that the sun, after having reached its destination (mustaqarr), pauses within which it offers Sajdah before Allah and seeks the permission for the next orbit - although, there being no break in the movement of the sun at any time is an open observation. And since this rising and setting of the sun keeps taking place all the time in terms of different locations, therefore, this pause should also be there all the time as a result of which the sun should not have any movement any time. Such difficulties are related not only to astronomy, but also to observations and experiences that cannot be bypassed. Technically, the daily movement of the sun under the arrangement of the celestial sphere and its being positioned in the fourth heaven is a theoretical assumption of Ptolemy that was refuted by Pythagoras. Modern knowledge has confirmed the error in the theory of Ptolemy and also brought the soundness of the theory of Pythagoras to the level of certitude. Then there are the space flights in our time and the spectacle of human access to the moon that makes at least this much certain that all planets are in the lower space of the sky, not inside. The verse of the Qur&an: وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ And each one is floating in an orbit. - Ya Sin, 36:40) which is to appear a little later also confirms this view. Since this view is also suggestive of the daily rising and setting as being from the movement of the earth and not from the movement of the sun, another technical difficulty is added to the understanding of the aforementioned Hadith. To understand its answer, it must be borne in mind that to the extent the explanation of the cited verse is concerned, no difficulty out of the doubts and difficulties mentioned above relates to the Qur&an. The sense it carries is no more than that Allah Ta’ ala has commissioned the sun to move in such an organized and steady way that it keeps moving continuously in a single state towards its destination (mustaqarr). If, this destination is taken to mean a time-oriented destination - that is, the Day of Qiyamah - as in the Tafsir of Qatadah, then, it would mean that this movement of the sun shall continue in a single state right through the last Day of Qiyamah - and shall terminate on that very Day. And if it were to be taken as a spatial destination, even then, its destination can be said as being the point in the orbit of the sun, the point from which the sun started its movement at the time of the initial creation. When it reaches that point, one orbit through a day and night stands completed, for this very point is the end of its journey and, once it reaches there, the next orbit begins. As for the precise determination of where lies that point from which this magnificent orbit of the sun started in eternity, the noble Qur&an does not throw human beings into unnecessary debates of this nature, something that does not bring them any benefit, neither in this world nor in the world-to-come. This is an inquiry of this very nature. Therefore, the Qur&an has bypassed it and drawn attention to the essential purpose. That purpose is to put particular aspects of the most perfect power and wisdom of Allah Ta’ ala into clear focus. It was said that the sun is the largest and the brightest sphere of this universe. That too did neither come into existence automatically, nor does it move on its own, nor can it sustain. In its present movement through days and nights all the time, it moves under the permission and will of Allah Ta’ ala. Any doubt, out of the doubts mentioned above, does not apply to what has been said in the cited verse. However, all these doubts and difficulties in comprehension do arise from the Hadith statement about the sun that soon after its setting, it goes beneath the ` Arsh, performs sajdah and seeks permission to start the next orbit. And this debate sprung up in relation to this verse for the reason that, in some words of the Hadith, reference has been made to this verse. Answers to these doubts given by experts of Hadith and commentators of the Qur&an differ. From the apparent connotation of the words there, it is generally gathered that this sajdah of the sun takes effect only once in a day-night span after its setting. Respected writers, who have taken the Hadith in terms of its apparent sense, have laid down three probabilities concerning the setting: (1) That it may refer to the setting in the main part of populated areas, that is, of a place the setting of the sun whereat holds good for its setting for the majority of the population of the world; (2) that it be the setting of the Equator; or (3) the setting on the horizon of Madinah. Thus, the difficulty that the setting and rising of the sun is a phenomenon which keeps manifesting itself all the time, every moment, does not remain there, because this Hadith is talking about the setting of a particular horizon. But, the clear-cut and cloudless rejoinder seems to be that which my teacher, ` Allamah Shabbir Ahmad Usmani has given in his treatise: سُجُود الشَّمسِ Sujudu&sh-Shams: The Prostration of the Sun) which finds support in the statements of several leading commentators. Before one proceeds to understand the presentation, it is useful to first understand a matter of principle about prophetic teachings and interpretations. The noble prophets, may peace be upon them, and the Scriptures they bring incessantly invite the entire Divine creation to ponder over whatever has been created in the heavens and the earth, and it is from these that they build their argument to prove the existence of Allah Ta’ ala, His Oneness, Knowledge and Power. But, deliberation in these things is desirable, according to Shari&ah, only to the extent of its relevance to one&s worldly and social requirement or religious and other worldly need. Beyond that, the great mass of the creation of Allah is not thrown into the senseless concern of digging into bland philosophical hair splitting and the ultimate reality of things. The reason is that, first of all, the real and perfect knowledge of the ultimate reality of things is something scientists and philosophers have themselves been unable to find out, despite having spent their entire lives in the pursuit - not to say much about the poor masses. Let us suppose, even if this could be acquired somehow, yet it fulfills no religious need, nor does it help to acquire something materially sound and worthwhile, what is the sense of indulging in this unnecessary and wasteful debate? Obviously, nothing but a waste of wonderful years of life and a waste of precious wealth! noble Prophets (علیہم السلام) through the creations in the heavens and the earth and the major changes that occur therein is limited to the extent that could be rationalized by every human beings by virtue of bare observation and elementary deliberation. Technical refinements of philosophy and mathematics that can be resolved by experts in the field alone are not the material on which an argument of this nature is based, nor are people invited to deliberate in these. The reason is simple. Believing in Allah Ta’ ala and acting in accordance with His message is the duty of every human being - learned or illiterate, man or woman, urbanite or villager, dweller of some mountain or island. Therefore, prophetic teachings are synchronized with the level of perception, reason and understanding of common people that need no technical expertise. Take the example of knowing the times of Salah, fixing the orientation to Qiblah, and knowing the months, years and dates. The knowledge of all these things can also be acquired through mathematical computations. But, the Shari&ah of Islam has, rather than rely on high-tech mathematical calculations to determine any of these things, placed reliance on common observations. Months and years and their dates were set in accordance with the lunar calendar. The basis of determining whether the new moon has or has not appeared was declared to be physical observation alone, the seeing of the new moon. The days of fasting and the Hajj were fixed on that very basis. When some people asked the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) about the secret behind the waning, waxing and disappearing of the moon and then its rising again, the answer to it was given by the Qur&an on his behalf: قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ (Say: They are indicative of time for the people, and of the Hajj - A1-Baqarah, 2:189). In other words, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was asked to tell people that all those changes occurring in the life of the moon are there so that they could find out when the month begins and ends and then find out its dates and determine the days of the Hajj. This answer served them with a warning against their unnecessary and ineffectual question, because no business of theirs, in this world or in the next, hinges on finding the reality behind it. Therefore, they were supposed to ask only about something that related to either their worldly or other worldly need. After these initial remarks, let us give a little thought to the essential matter before us. Is it not that, in the cited verses, Allah Ta’ ala has, after having mentioned some manifestations of His perfect power and infinite wisdom, invited human beings to believe? Of these, mentioned first was the land that is before us all the time: وَآيَةٌ لَّهُمُ الْأَرْ‌ضُ (And a sign for them is the land- 33). Then, mention was made of how rains made it come alive and the growth of trees and other produce became possible – something everyone sees and knows: أَحْيَيْنَاهَا وَأَخْرَ‌جْنَا مِنْهَا حَبًّا (We gave it life and brought forth grain from it.- 33). Mentioned first after that was the daily alternation of the night and day وَآيَةٌ لَّهُمُ اللَّيْلُ : (And a sign for them is the night) Mentioned thereafter were planets and stars. Out of these, about the sun it was said: وَالشَّمْسُ تَجْرِ‌ي لِمُسْتَقَرٍّ‌ لَّهَا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ‌ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (And the sun is quickly proceeding towards its resting place. That is the designing of the All-Mighty, the All-Knowing.- 38). Think about it. The purpose here is to tell that the sun is not moving on its own, not of its volition or power. Instead, it is moving in subservience to the One who is Mighty and Knowing, and moving under the predetermined system originated by an entity with great power and knowledge. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) close to the time of one sunset, had alerted Sayyidna Abu Dharr al-Ghiffari (رض) to the reality behind it during a question answer interlude with him. He has told him that the sun, at the time of its setting, performs a Sajdah before Allah Ta’ ala beneath the ` Arsh and seeks the permission to start the next orbit. When it has the permission, it moves as usual and rises from the east in the morning. Its outcome is no more than that the atmosphere of the world goes through a new transformation at the time of the setting and rising of the sun, something that depends on the sun. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) took this moment as suitable to teach human beings their essential lesson that they should not take the sun to be an independent entity moving of its own volition and power. It moves only under the permission and will of Allah Ta’ ala. Every time it rises and every time it sets has to be with His permission, for it is subservient to His permission. This very act of moving under the command of Allah Ta’ ala has been declared to be its sajdah, the act of prostration before its creator. The reason is that a Sajdah made by anything happens to be appropriate to its state of being as the Qur&an has itself clearly said: كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهُ وَتَسْبِيحَهُ :|"Everything [ in the creation of Allah ] already knows its Salah [ mode of worship ] and its tasbih [ mode of Divine glorification|" - An-Nur, 24:41]. It means that the entire creation of Allah is engaged in worshipping and glorifying Allah, but each has its own separate way of doing it that has already been taught to it just like human beings who have been told how to do their Salah and Tasbih. Therefore, taking the sajdah of the sun to mean that it can take effect only when it places its forehead on some floor like a human being would not be correct. And when it stands clarified from the statements of the Qur&an and Sunnah that the Divine Throne, the ` Arsh of the Rahmn, surrounds all heavens and stars and surfaces, it is already obvious that the sun is nowhere but under the ` Arsh, at all times and at every place. And when experience bears out that the time the sun is setting at one place, it is also rising at another. Therefore, no moment of the sun is free of either rising or setting. Thus, the being of the sun under the ` Arsh is also perennial under all states and so is its setting and rising. Therefore, the outcome of the subject mentioned in the Hadith is that the sun, in its entire orbit, remains in the state of prostration (Sajdah) before Allah under the ` Arsh, that is, it moves under His permission and command. And this cycle will stay activated right through the proximity of the last day of the Qiyamah until comes the time for the emergence of the sign that the Qiyamah is very close. When this happens, the sun will, rather than start its next orbit, be commanded to turn back - and then, it will rise from the west. At that time, the door of taubah (repentance) will be closed and no declaration of faith (&Iman) or repentance (Taubah) from anyone shall remain acceptable at that hour. In short, this particularity of the setting of the sun, its passing under the ` Arsh, the making of prostration there and the incidence of seeking permission for the next orbit mentioned in the narration being studied is simply a similitude in consonance with the mores of effective prophetic teaching and in terms of common perception. Neither does it make it necessary that it performs Sajdah on some land surface like a human being, nor does it make it necessary that there be some pause in the movement of the sun at the time of making a sajdah, nor does it mean that it goes to some particular place doing only one sajdah during a day and night, and nor that it goes beneath the ` Arsh after setting only. But, at this time of great alternation, when people are seeing that the sun is receding away from them, what has been done is that they have been appraised of the truth of what is happening in the manner of a similitude while the reality is that this whole thing is happening because of the sun moving beneath the ` Arsh in subservience to the Divine command - the sun does not have any capability or power of its own. So, the way, at this time, the people of Madinah were convinced that the sun would now make its sajdah and seek permission for the next orbit, similarly, the message was relayed onwards to every place where the sun would be setting and everyone there would stand advised of the lesson thereof. Thus, the truth of the matter turns out to be that the sun at every moment while moving on its orbit keeps offering sajdah before Allah Ta’ ala and keeps seeking permission to move ahead - and it needs no pause or break to make Sajdah or seek permission. Following this submission, there remains no doubt concerning the Hadith quoted, neither in terms of observations, nor in terms of the rules of astronomy, nor in the light of the position taken by Ptolemy or Pythagoras - though, the latter has found support in newer investigation. In either case, there remains no doubt or difficulty in the comprehension of the said Hadith. As for the question about the sun making Sajdah and seeking permission to start the next orbit as mentioned in the Hadith, where it is stressed that doing all this required life, awareness and reason. The sun and the moon are devoid of life and consciousness. How could these actions issue forth from them? An answer to this has already appeared under the verse of the Qur&an: وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ (And there is not a single thing that does not extol His purity and praise - Al&Isra&, 17:44). (For commentary, please see Ma&ariful Qur’ an, English, Vol. V, pp. 506-510). There it was said that things we take to be devoid of life, sense and consciousness do have a special share of spirit, life, sense and consciousness. However, their life, sense and consciousness are insignificant as compared with humans and animals, so insignificant that these cannot be perceived commonly. But, there is no proof for its absence either, neither in the revealed law, nor in reason while the noble Qur&an, in the verse cited above, has proved their being possessors of the elements of life, reason and consciousness, something also recognized in new investigations: وَاللہ سبحانہ و تعالیٰ اَعلَم And Allah who is pure and High knows best. Special Note From these clarifications of the Qur&an and Hadith, it is established that both the sun and the moon are in motion, moving for a fixed term. This refutes the theory that the sun has no movement at all. The findings of the latest research have also refuted this presumption.  Show more

(آیت) والشمس تجری لمستقرلہا ذلک تقدیر العزیز العلیم، آیت کا مفہوم یہ ہے کہ آفتاب چلتا رہتا ہے، اپنے مستقر کی طرف مستقر جائے قرار کو بھی کہا جاتا ہے، اور وقت قرار کو بھی یعنی مستقر زمانی بھی ہوسکتا ہے مکانی بھی۔ اور لفظ مستقر منتہائے سیر و سفر کے معنی میں بھی آتا ہے۔ اگرچہ اس کے ساتھ ہی بلا کسی وقفہ...  اور سکون کے دوسرا دورہ سفر شروع ہوجائے۔ (ذکرہ ابن کثیر) بعض حضرات مفسرین نے تو اس جگہ مستقر سے مستقر زمانی مراد لیا ہے، یعنی وہ وقت جبکہ آفتاب اپنی حرکت مقررہ پوری کر کے ختم کر دے گا، اور وہ وقت قیامت کا دن ہے۔ اس تفسیر پر معنی آیت کے یہ ہیں کہ آفتاب اپنے مدار پر ایسے محکم اور مضبوط نظام کے ساتھ حرکت کر رہا ہے جس میں کبھی ایک منٹ ایک سیکنڈ کا فرق نہیں آتا۔ ہزارہا سال اس روش پر گزر چکے ہیں، مگر یہ سب دائمی نہیں، اس کا ایک خاص مستقر ہے، جہاں پہنچ کر یہ نظام شمسی اور حرکت بند اور ختم ہوجائے گی، اور وہ قیامت کا دن ہے۔ یہ تفسیر حضرت قتادہ سے منقول ہے۔ (ابن کثیر) اور قرآن کریم کی سورة زمر کی ایک آیت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، کہ مستقر سے مراد مستقر زمانی یعنی روز قیامت ہے۔ آیت سورة زمر کی یہ ہے : (آیت) خلق السموٰت والارض بالحق یکور الیل علیٰ النہار ویکور النہار علیٰ الیل وسخرالشمس والقمر کل یجری لاجل مسمی، اس آیت میں بھی تقریباً وہی بیان ہے جو سورة یٰسین کی آیت مذکورہ کا ہے کہ اول لیل ونہار کے انقلاب کو عوامی نظر کے مطابق ایک تمثیل سے بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ رات کو دن پر ڈھانپ دیتا ہے، اور دن کو رات پر، گویا رات اور دن کو دو غلافوں سے تشبیہ دی گئی ہے۔ رات کا غلاف دن پر چڑھا دیا جاتا ہے تو رات ہوجاتی ہے اور دن کا غلاف رات پر چڑھا دیا جاتا ہے تو دن ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ شمس و قمر دونوں اللہ تعالیٰ کے مسخر اور تابع فرمان ہیں، ان میں سے ہر ایک ایک خاص میعاد کے لئے چل رہا ہے۔ یہاں اجل مسمی کے الفاظ ہیں جس کے معنی میعاد معین کے ہیں، اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ شمس و قمر دونوں کی حرکت دائمی نہیں، ایک میعاد معین یعنی روز قیامت پر پہنچ کر ختم اور منقطع ہوجائے گی۔ سورة یٰسین کی آیت مذکورہ میں بھی ظاہر یہی ہے کہ لفظ مستقر سے یہی میعاد معین یعنی مستقر زمانی مراد ہے۔ اس تفسیر میں نہ آیت کے مفہوم و مراد میں کوئی اشکال ہے، نہ قواعد ہیئت و ریاضی کا کوئی اعتراض۔ اور بعض حضرات مفسرین نے اس سے مراد مستقر مکانی لیا، جس کی بنا ایک حدیث پر ہے جو صحیحین بخاری و مسلم وغیرہ میں متعدد صحابہ سے متعدد اسانید کے ساتھ منقول ہے۔ حضرت ابوذر غفاری کی روایت ہے کہ وہ ایک روز آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ غروب آفتاب کے وقت مسجد میں حاضر تھے۔ آپ نے ان کو خطاب کر کے سوال کیا کہ ابو ذر ! تم جانتے ہو کہ آفتاب کہاں غروب ہوتا ہے ؟ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ آفتاب چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ عرش کے نیچے پہنچ کر سجدہ کرتا ہے۔ پھر فرمایا کہ اس آیت میں مستقر سے یہی مراد ہے : والشمس تجری لمستقر لہا۔ حضرت ابوذر ہی کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے والشمس تجری لمستقرلہا کی تفسیر دریافت کی تو آپ نے فرمایا : مستقرھا تحت العرش، بخاری نے اس روایت کو متعدد مقامات پر نقل کیا ہے اور ابن ماجہ کے علاوہ تمام کتب ستہ میں یہ روایت موجود ہے۔ اور حضرت عبداللہ بن عمر سے بھی اسی مضمون کی حدیث منقول ہے، اس میں کچھ زیادتی ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ روزانہ آفتاب تحت العرش پہنچ کر سجدہ کرتا ہے اور نئے دورے کی اجازت طلب کرتا ہے۔ اجازت پا کر نیا دورہ شروع کرتا ہے، یہاں تک کہ ایک دن ایسا آئے گا جب اس کو نیا دورہ کرنے کی اجازت نہیں ملے گی، بلکہ یہ حکم ہوگا کہ جس طرف سے آیا ہے اسی طرف لوٹ جا۔ یعنی مغرب کی طرف سے زمین کے نیچے جا پھر مغرب ہی کی طرف سے لوٹ کر مغرب سے طلوع ہوجا۔ جس روز ایسا ہوگا تو یہ قیامت کے بالکل قریب ہونے کی علامت ہوگی، اور اس وقت توبہ کرنے اور ایمان لانے کا دروازہ بند کردیا جائے گا، اس وقت کسی مبتلا گناہ کی گناہ سے اور مبتلائے شرک و کفر کی کفر سے توبہ قبول نہ ہوگی۔ (ابن کثیر بحوالہ عبدالرزاق) سجود الشمس یعنی آفتاب کے زیر عرش سجدہ کرنے کی تحقیق : ان روایات حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مستقر سے مراد مکانی مستقر ہے یعنی وہ جگہ جہاں آفتاب کی حرکت کا ایک دورہ پورا ہوجائے، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ جگہ تحت العرش ہے۔ اس صورت میں مطلب آیت کا یہ ہوگا کہ ہر روز آفتاب ایک خاص مستقر کی طرف چلتا ہے، پھر وہاں پہنچ کر اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ کر کے اگلے دورے کی اجازت مانگتا ہے، اجازت ملنے پر دوسرا دورہ شروع کرتا ہے۔ لیکن واقعات ومشاہدات اور ہیئت و فلکیات کے بیان کردہ اصول کی بنا پر اس میں متعدد قوی اشکالات ہیں۔ اول یہ کہ عرش رحمن کی جو کیفیت قرآن و سنت سے سمجھی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ تمام زمینوں اور آسمانوں کے اوپر محیط ہے۔ یہ زمین اور سب آسمان مع سیارات و نجم کے سب کے سب عرش کے اندر محصور ہیں، اور عرش رحمن ان تمام کائنات سماویہ کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے، اس لحاظ سے آفتاب تو ہمیشہ ہر حال اور ہر وقت ہی زیر عرش ہے، پھر غروب کے بعد زیر عرش جانے کا کیا مطلب ہوگا ؟ دوسرے یہ کہ مشاہدہ عام ہے کہ آفتاب جب کسی ایک جگہ سے غروب ہوتا ہے تو دوسری جگہ طلوع ہوتا ہے، اس لئے طلوع و غروب اس کا ہر وقت ہر حال میں جاری ہے، پھر بعد الغروب تحت العرش جانے اور سجدہ کرنے کے کیا معنی ہیں ؟ تیسرے یہ کہ اس حدیث کے ظاہر سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آفتاب اپنے مستقر پر پہنچ کر وقفہ کرتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ کر کے اگلے دورے کی اجازت لیتا ہے، حالانکہ آفتاب کی حرکت میں کسی وقت بھی انقطاع نہ ہونا کھلا ہوا مشاہدہ ہے۔ اور پھر چونکہ طلوع و غروب آفتاب کا مختلف مقامات کے اعتبار سے ہر وقت ہی ہوتا رہتا ہے، تو یہ وقفہ اور سکون بھی ہر وقت ہونا چاہئے جس کا نتیجہ یہ ہو کہ آفتاب کو کسی وقت بھی حرکت نہ ہو ؟ یہ اشکالات صرف فنون ریاضی اور فلکیات کے ہی نہیں، مشاہدات اور واقعات کے ہیں جن سے صرف نظر نہیں ہو سکتا، اور فنی اعتبار سے فلک الافلاک کے تابع آفتاب کی یومیہ حرکت اور آفتاب کا چوتھے آسمان میں مرکوز ہونا جو بطلیموسی نظریہ ہے، جس کے خلاف اس سے پہلے بھی فیثا عورث نے اس نظریہ کی مخالفت کی تھی، اور آجکل کی نئی تحقیقات نے بطلیموسی نظریہ کی غلطی اور فیثا غورث کے نظریہ کی صحت کو قریب بہ یقین کردیا ہے، اور حالیہ خلائی سفروں اور چاند تک انسان کی رسائی کے واقعات نے اتنی بات تو یقینی کر ہی دی ہے کہ تمام سیارات آسمان سے نیچے کی فضا میں ہیں، آسمانوں کے اندر مرکوز نہیں۔ قرآن کریم کی آیت جو عنقریب آ رہی ہے (آیت) وکل فی فلک یسبحون، اس سے بھی اس نظریہ کی تصدیق ہوتی ہے، اس نظریہ میں یہ بھی ہے کہ یہ روزانہ کا طلوع و غروب آفتاب کی حرکت سے نہیں بلکہ زمین کی حرکت سے ہے۔ اس فنی نظریہ کے اعتبار سے حدیث مذکور میں ایک اور اشکال بڑھ جاتا ہے۔ اس کا جواب سمجھنے سے پہلے یہ پیش نظر رہنا چاہئے کہ جہاں تک آیت مذکورہ کی تصریح ہے اس پر مذکورہ شبہات واشکالات میں سے قرآن پر کوئی بھی اشکال نہیں ہوتا۔ اس کا مفہوم تو صرف اتنا ہے کہ آفتاب کو حق تعالیٰ نے ایک ایسی منظم اور مستحکم حرکت پر لگایا ہوا ہے کہ وہ اپنے مستقر کی طرف برابر ایک حالت پر چلتا رہتا ہے۔ اگر اس مستقر سے مراد تفسیر قتادہ کے مطابق مستقر زمانی لیا جائے، یعنی روز قیامت، تو معنی اس کے یہ ہیں کہ آفتاب کی یہ حرکت قیامت تک دائمی ایک حال پر چلتی رہے گی پھر اس روز ختم ہوجائے گی۔ اور اگر مستقر مکانی مراد لیں تو بھی اس کا مستقر مدار شمسی کے اس نقطہ کو کہا جاسکتا ہے جہاں سے اول تخلیق کے وقت آفتاب نے حرکت شروع کی اسی نقطہ پر پہنچ کر اس کا شبانہ روز کا ایک دورہ مکمل ہوتا ہے۔ کیونکہ یہی نقطہ اس کا انتہا سفر ہے، اس پر پہنچ کر نئے دورہ کی ابتدا ہوتی ہے۔ رہا یہ کہ اس عظیم الشان دائرہ کا وہ نقطہ کہاں اور کونسا ہے جہاں سے آفتاب کی حرکت ابتداء آفرینش میں شروع ہوئی، قرآن کریم اس قسم کی فضول بحثوں میں انسان کو نہیں الجھاتا جس کا تعلق اس کے کسی دینی یا دنیوی فائدے سے نہ ہو۔ یہ اسی قسم کی بحث ہے، اس لئے اس کو چھوڑ کر قرآن کریم نے اصل مقصد کی طرف توجہ دلائی۔ اور وہ مقصد حق تعالیٰ کی قدرت و حکمت کاملہ کے خاص مظاہر کا بیان ہے، کہ اس جہان میں سب سے بڑا اور سب سے روشن ترین کرہ آفتاب کا ہے، وہ بھی نہ خود بخود بن گیا ہے اور نہ خودبخود اس کی کوئی حرکت پیدا ہوتی ہے نہ باقی رہ سکتی ہے، اور وہ اپنی اس شبانہ روز کی حرکت میں ہر وقت حق تعالیٰ کی اجازت و مشیت کے تابع چلتا ہے۔ جتنے اشکالات اوپر لکھے گئے ہیں آیات مذکورہ کے بیان پر ان میں سے کوئی بھی شبہ اور اشکال نہیں، البتہ احادیث مذکورہ جن میں یہ آیا ہے کہ وہ غروب کے بعد زیر عرش پہنچ کر سجدہ کرتا ہے اور اگلے دورے کی اجازت مانگتا ہے یہ سب اشکالات اس سے متعلق ہیں۔ اور اس آیت کے ذیل میں یہ بحث اس لئے چھڑی کہ حدیث کے بعض الفاظ میں اس آیت کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ اس کے جوابات محدثین و مفسرین حضرات نے مختلف دیئے ہیں، ظاہر الفاظ کے اعتبار سے جو یہ سمجھا جاتا ہے کہ آفتاب کا یہ سجدہ دن رات میں صرف ایک مرتبہ بعد الغروب ہوتا ہے، جن حضرات نے حدیث کو اسی ظاہری مفہوم پر محمول کیا ہے انہوں نے غروب کے متعلق تین احتمال بیان کئے ہیں۔ ایک یہ کہ معظم معمورہ کا غروب مراد ہو، یعنی اس مقام کا جہاں کے غروب پر اکثر دنیا کی آبادی میں غروب ہوجاتا ہے، یا خط استواء کا غروب، یا افق مدینہ کا غروب۔ اس طرح یہ اشکال نہیں رہتا کہ آفتاب کا غروب وطلوع تو ہر وقت ہر آن ہوتا رہتا ہے۔ کیونکہ اس حدیث میں ایک خاص افق کے غروب پر کلام کیا گیا ہے، لیکن صاف و بےغبار جواب وہ معلوم ہوتا ہے جو حضرت استاذ علامہ شبیر احمد عثمانی رحمة اللہ علیہ نے اپنے مقالے ” سجود الشمس “ میں اختیار فرمایا ہے، اور متعدد ائمہ تفسیر کے کلام سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ اس کے سمجھنے سے پہلے پیغمبرانہ تعلیمات و تعبیرات کے متعلق یہ اصولی بات سمجھ لینی ضروری ہے کہ آسمانی کتابیں اور اس کے لانے والے انبیاء (علیہم السلام) خلق خدا کو آسمان و زمین کی مخلوقات میں غور و فکر اور تدبر کی طرف مسلسل دعوت دیتے ہیں، اور ان سے اللہ تعالیٰ کے وجود، توحید، علم وقدرت پر استدلال کرتے ہیں، مگر ان چیزوں میں تدبیر اسی حد تک مطلوب شرعی ہے جس حد تک اس کا تعلق انسان کی دنیوی اور معاشرتی ضرورت سے یا دینی اور اخروی ضرورت سے ہو۔ اس سے زائد نری فلسفیانہ تدقیق اور حقائق اشیاء کے کھوج لگانے کی فکر میں عام خلق اللہ کو نہیں ڈالا جاتا۔ کیونکہ اول تو حقائق اشیاء کا مکمل حقیقی علم خود حکماء و فلاسفہ کو بھی باوجود عمریں صرف کرنے کے نہیں ہوسکا، بیچارے عوام تو کس شمار میں ہیں، پھر اگر وہ حاصل بھی ہوجائے اور اس سے نہ ان کی کوئی دینی ضرورت پوری ہو اور نہ کوئی صحیح مقصد دنیوی اس سے حاصل ہو تو اس لایعنی اور فضول بحث میں دخل دینا اضاعت عمر اور اضاعت مال کے سوا کیا ہے۔ قرآن اور انبیاء کا استدلال آسمان و زمین کی مخلوقات اور ان کے تغیرات و انقلابات سے صرف اس حد تک ہوتا ہے جو ہر انسان کو مشاہدہ اور ادنیٰ غور و فکر سے حاصل ہو سکے۔ فلسفہ اور ریاضی کی فنی تدقیقات جو صرف حکماء و علماء ہی کرسکتے ہیں نہ ان پر استدلال کا مدار رکھا جاتا ہے نہ ان میں غور وخوض کی ترغیب دی جاتی ہے، کیونکہ خدا تعالیٰ پر ایمان اور اس کے پیغام پر عمل ہر انسان کا فرض ہے۔ عالم ہو یا جاہل، مرد ہو یا عورت، شہری ہو یا دیہاتی، کسی پہاڑ اور جزیرہ میں رہتا ہو یا کسی متمدن شہر میں، اس لئے پیغمبرانہ تعلیمات عوام کی نظر اور ان کی عقل وفہم کے مطابق ہوتی ہیں جن میں کسی فنی مہارت کی ضرورت نہ ہو۔ نماز کے اوقات کی پہچان، سمت قبلہ کا متعین کرنا، مہینوں اور سالوں اور تاریخوں کا ادراک، ان سب چیزوں کا علم ریاضی کے حسابات کے ذریعہ بھی حاصل کیا جاسکتا ہے، مگر شریعت اسلام نے ان میں سے کسی چیز کا مدار ریاضی کی فنی تحقیقات پر رکھنے کے بجائے عام مشاہدات پر رکھا ہے۔ مہینے اور سال اور ان کی تاریخیں قمری حساب سے رکھیں اور چاند کے ہونے نہ ہونے کا مدار صرف رویت ہلال اور مشاہد پر رکھا۔ روزے اور حج کے ایام اسی بنیاد سے متعین کئے گئے۔ چاند کے گھٹنے، بڑھنے، چھپنے اور پھر طلوع ہونے کا راز بعض لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا، تو اس کا جواب قرآن نے یہ دیا کہ قل ھی مواقیت للناس والحج، یعنی آپ کہہ دیں کہ چاند کے یہ سب تغیرات اس مقصد کے لئے ہیں کہ تم ان سے مہینے کا شروع اور ختم اور اس کی تاریخیں معلوم کر کے حج وغیرہ کے دن متعین کرسکو۔ اس جواب نے ان کو اس پر تنبیہ فرما دی کہ تمہارا سوال لایعنی اور فضول ہے، اس کی حقیقت معلوم کرنے پر تمہارا کوئی کام دین یا دنیا کا اٹکا ہوا نہیں، اس لئے سوال اس چیز کا کرو جس کا تعلق تمہاری دینی و دنیوی ضرورت سے ہو۔ اس تمہید کے بعد اصل معاملہ پر غور کیجئے، کہ آیات مذکورہ میں حق تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کے چند مظاہر کا ذکر کر کے انسان کو اللہ کی توحید اور علم وقدرت کاملہ پر ایمان لانے کی دعوت دی ہے اس میں سب سے پہلے زمین کا ذکر کیا، جو ہر وقت ہمارے سامنے ہے (آیت) وایة لہم الارض، پھر اس پر پانی برسا کر درخت اور نباتات اگانے کا ذکر کیا، جو ہر انسان دیکھتا اور جانتا ہے، احییناھا الایة۔ اس کے بعد آسمان اور فضائے آسمانی سے متعلق چیزوں کا ذکر شروع کر کے پہلے سے لیل و نہار کے روزانہ انقلاب کا ذکر فرمایا (آیت) و ایة لہم الیل الآیة، اس کے بعد سورج اور چاند جو سیارات و انجم میں سب سے بڑے ستارے ہیں ان کا ذکر فرمایا۔ ان میں پہلے آفتاب کے متعلق فرمایا والشمس تجری لمستقر لھا ذلک تقدیر العزیز العلیم، اس میں غور کیجئے کہ مقصد اس کا یہ بتلانا ہے کہ آفتاب خود بخود اپنے ارادے اور اپنی قدرت سے نہیں چل رہا بلکہ یہ ایک عزیز وعلیم یعنی قدرت والے اور جاننے والے کے مقرر کردہ نظام کے تابع چل رہا ہے۔ آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غروب آفتاب کے قریب حضرت ابوذرغفاری کو ایک سوال و جواب کے ذریعہ اسی حقیقت پر متنبہ ہونے کی ہدایت فرمائی، جس میں بتلایا کہ آفتاب غروب ہونے کے بعد عرش کے نیچے اللہ کو سجدہ کرتا ہے اور پھر اگلا دورہ شروع کرنے کی اجازت مانگتا ہے، جب اجازت مل جاتی ہے تو حسب دستور آگے چلتا ہے، اور صبح کو جانب مشرق سے طلوع ہوجاتا ہے۔ اس کا حاصل اس سے زائد نہیں کہ آفتاب کے طلوع و غروب کے وقت عالم دنیا میں ایک نیا انقلاب آتا ہے، جس کا مدار آفتاب پر ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس انقلابی وقت کو انسانی تنبیہ کے لئے موزوں سمجھ کر یہ تلقین فرمائی کہ آفتاب کو خود مختار اپنی قدرت سے چلنے والا نہ سمجھو، یہ صرف اللہ تعالیٰ کے اذن و مشیت کے تابع چل رہا ہے۔ اس کا ہر طلوع و غروب اللہ تعالیٰ کی اجازت سے ہوتا ہے، یہ اس کی اجازت کے تابع ہے، اس کے تابع فرمان حرکت کرنے ہی کو اس کا سجدہ قرار دیا گیا۔ کیونکہ سجدہ ہر چیز کا اس کے مناسب حال پر ہوتا ہے، جیسا کہ قرآن نے خود تصریح فرما دی ہے کل قد علم صلوٰتہ و تسبیحہ، یعنی ساری مخلوق اللہ کی عبادت اور تسبیح میں مشغول ہے، مگر ہر ایک کی عبادت و تسبیح کا طریقہ الگ الگ ہے، اور ہر مخلوق کو اس کی عبادت و تسبیح کا طریقہ سکھلا دیا جاتا ہے۔ جیسے انسان کو اس کی نماز و تسبیح کا طریقہ بتلا دیا گیا ہے، اس لئے آفتاب کے سجدہ کے یہ معنی سمجھنا کہ وہ انسان کے سجدہ کی طرح زمین پر ماتھا ٹیکنے ہی سے ہوگا صحیح نہیں۔ اور جبکہ قرآن و سنت کی تصریحات کے مطابق عرش خداوندی تمام آسمانوں، سیاروں، زمینوں پر محیط ہے، تو یہ ظاہر ہے کہ آفتاب ہر وقت ہر جگہ زیر عرش ہی ہے۔ اور جبکہ تجربہ شاہد ہے کہ آفتاب جس وقت ایک جگہ غروب ہو رہا ہوتا ہے تو دوسری جگہ طلوع بھی ہو رہا ہوتا ہے، اس لئے اس کا ہر لمحہ طلوع و غروب سے خالی نہیں، تو آفتاب کا زیر عرش رہنا بھی دائمی ہر حال میں ہے، اور غروب و طلوع ہونا بھی ہر حال میں ہے۔ اس لئے حاصل مضمون حدیث کا یہ ہوا کہ آفتاب اپنے پورے دورے میں زیر عرش اللہ کے سامنے سجدہ ریز رہتا ہے، یعنی اس کی اجازت اور فرمان کے تابع حرکت کرتا ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح قریب قیامت تک چلتا رہے گا، یہاں تک کہ قیامت کی بالکل قریبی علامت ظاہر کرنے کا وقت آجائے گا، تو آفتاب کو اپنے مدار پر اگلا دورہ شروع کرنے کی بجائے پیچھے لوٹ جانے کا حکم ہوجائے گا، اور وہ پھر مغرب کی طرف سے طلوع ہوجائے گا۔ اس وقت توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا، کسی کا ایمان و توبہ اس وقت مقبول نہیں ہوگا۔ خلاصہ یہ ہے کہ غروب آفتاب کی تخصیص اور اس کے بعد زیر عرش جانے اور وہاں سجدہ کرنے اور اگلے دورے کی اجازت مانگنے کے جو واقعات اس روایت میں بتلائے گئے ہیں وہ پیغمبرانہ موثر تعلیم کے مناسب بالکل عوامی نظر کے اعتبار سے ایک تمثیل ہے۔ نہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ وہ انسان کی طرح زمین پر سجدہ کرے، اور نہ سجدہ کرے کے وقت آفتاب کی حرکت میں کچھ وقفہ ہونا لازم آتا ہے۔ اور نہ یہ مراد ہے کہ وہ دن رات میں صرف ایک ہی سجدہ کسی خاص جگہ جا کر کرتا ہے، اور نہ یہ کہ وہ صرف غروب کے بعد تحت العرش ہوجاتا ہے۔ مگر اس انقلابی وقت میں جبکہ سب عوام یہ دیکھ رہے ہیں کہ آفتاب ہم سے غائب ہو رہا ہے اس وقت بطور تمثیل ان کو اس حقیقت سے آگاہ کردیا گیا کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ درحقیقت آفتاب کے زیر عرش تابع فرمان چلنے رہنے سے ہو رہا ہے، آفتاب خود کوئی قدرت و طاقت نہیں رکھتا، تو جس طرح اس وقت اہل مدینہ اپنی جگہ یہ محسوس کر رہے تھے کہ اب آفتاب سجدہ کر کے اگلے دورے کی اجازت لے گا اس طرح جہاں جہاں وہ غروب ہوتا جائے گا سب کے لئے ہی سبق حاصل کرنے کی تلقین ہوگئی اور حقیقت معاملہ یہ نکلی کہ آفتاب اپنے مدار پر حرکت کے درمیان ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کو سجدہ بھی کرتا ہے اور آگے چلنے کی اجازت بھی مانگتا رہتا ہے، اور اس سجدہ اور اجازت کے لئے اس کو کسی سکون اور وقفہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس تقریر پر حدیث مذکورہ میں نہ مشاہدات کی رو سے کوئی شبہ ہوتا ہے نہ قواعد ہیئت و ریاضی کے اعتبار سے اور نظام شمسی اور حرکت سیارات میں بطلیموسی تحقیق صحیح ہو یا فیثا غورث والی تحقیق جو آج کل نئی تحقیقات سے موید ہوگئی ہے، دونوں صورتوں میں حدیث مذکورہ پر کوئی شبہ اور اشکال باقی نہیں رہتا۔ رہا یہ سوال کہ حدیث مذکور میں جو آفتاب کا سجدہ کرنا اور اگلے دورے کی اجازت طلب کرنا مذکور ہے، یہ کام تو حیات اور علم و عقل کا ہے، آفتاب و ماہتاب بےجان بےشعور مخلوقات ہیں، ان سے یہ افعال کیسے صادر ہوئے ؟ تو اس کا جواب قرآن کی آیت وان من شئی الا یسبع بحمدہ کے تحت میں آ چکا ہے کہ ہم جن چیزوں کو بےجان اور بےعقل و بےشعور سمجھتے ہیں، وہ بھی درحقیقت روح اور جان اور عقل و شعور کا ایک خاص حصہ رکھتے ہیں، البتہ ان کی حیات اور عقل و شور انسان و حیوان کے مقابلہ میں کم اور اتنی کم ہے کہ عام احساسات اس کا ادراک نہیں کرسکتے، مگر اس کی نفی پر بھی کوئی شرعی یا عقلی دلیل موجود نہیں اور قرآن کریم نے آیت مذکورہ میں ان کا ذی حیات اور ذی عقل و شعور ہونا ثابت کردیا ہے، اور نئی تحقیقات نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔ فائدہ : قرآن و حدیث کی مذکورہ تصریحات سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہوئی کہ شمس و قمر دونوں متحرک ہیں۔ ایک میعاد کے لئے چل رہے ہیں اس سے نئے نظریہ کی نفی ہوتی ہے جو آفتاب کی حرکت کو تسلیم نہیں کرتا اور جدید ترین تحقیقات نے خود بھی اس کو غلط ثابت کردیا ہے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالشَّمْسُ تَجْرِيْ لِمُسْتَــقَرٍّ لَّہَا۝ ٠ ۭ ذٰلِكَ تَــقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِــيْمِ۝ ٣٨ۭ شمس الشَّمْسُ يقال للقرصة، وللضّوء المنتشر عنها، وتجمع علی شُمُوسٍ. قال تعالی: وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس/ 38] ، وقال : الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن/ 5] ، وشَمَسَ يومَنا،...  وأَشْمَسَ : صار ذا شَمْسٍ ، وشَمَسَ فلان شِمَاساً : إذا ندّ ولم يستقرّ تشبيها بالشمس في عدم استقرارها . ( ش م س ) الشمس کے معنی سورج کی نکیر یا وہوپ کے ہیں ج شموس قرآن میں ہے ۔ وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس/ 38] اور سورج اپنے مقرر راستے پر چلتا رہتا ہے ۔ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن/ 5] سورج اور چاند ایک حساب مقرر سے چل رہے ہیں ۔ شمس یومنا واشمس ۔ دن کا دھوپ ولا ہونا شمس فلان شماسا گھوڑے کا بدکنا ایک جگہ پر قرار نہ پکڑناز ۔ گویا قرار نہ پکڑنے ہیں میں سورج کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے ۔ جری الجَرْي : المرّ السریع، وأصله كمرّ الماء، ولما يجري بجريه . يقال : جَرَى يَجْرِي جِرْيَة وجَرَيَاناً. قال عزّ وجل : وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] ( ج ر ی ) جریٰ ( ض) جریۃ وجریا وجریا نا کے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ پانی اور پانی کی طرح چلنے والی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] اور یہ نہریں جو میرے ( محلوں کے ) نیچے بہ رہی ہیں ۔ میری نہیں ہیں ۔ اسْتَقَرَّ فلان : إذا تحرّى الْقَرَارَ ، وقد يستعمل في معنی قرّ ، کاستجاب وأجاب . قال في الجنّة : خَيْرٌ مُسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِيلًا [ الفرقان/ 24] ، وفي النار : ساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66] ، وقوله : فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ [ الأنعام/ 98] ، قال ابن مسعود : مُسْتَقَرٌّ في الأرض ومستودع في القبور «5» . وقال ابن عبّاس : مستقرّ في الأرض ومستودع في الأصلاب . وقال الحسن : مستقرّ في الآخرة ومستودع في الدّنيا . وجملة الأمر أنّ كلّ حال ينقل عنها الإنسان فلیس بالمستقرّ التّامّ. استقر فلان قرار پکڑنے کا فصد کرنا اور کبھی یہ بمعنی قرر ( قرار پکڑنا ) بھی آجاتا ہے جیسے استجاب بمعنی اجاب چناچہ جنت کے متعلق فرمایا : خَيْرٌ مُسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِيلًا [ الفرقان/ 24] ٹھکانا بھی بہترہوگا اور مقام استراحت بھی عمدہ ہوگا اور جن ہم کے متعلق فرمایا : ساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66] اور درزخ ٹھہرنے کی بہت بری جگہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ [ الأنعام/ 98] تمہاری لئے ایک ٹھہرنے کی جگہ ہے اور ایک سپر د ہونے کی ۔ میں ابن مسعود کے نزدیک مستقر سے مراد زمین میں ٹھہرنا ہے اور مستودع سے مراد قبر میں ہیں ۔ ابن عباس کا قول ہے کہ مستقر سے مراد تو زمین ہی ہے لیکن مستودع سے مراد دنیا ہے ۔ الحاصل ہر وہ حالت جس سے انسان منتقل ہوجائے وہ مستقر تام نہیں ہوسکتا ہے قَدْرُ والتَّقْدِيرُ والقَدْرُ والتَّقْدِيرُ : تبيين كمّيّة الشیء . يقال : قَدَرْتُهُ وقَدَّرْتُهُ ، وقَدَّرَهُ بالتّشدید : أعطاه الْقُدْرَةَ. يقال : قَدَّرَنِي اللہ علی كذا وقوّاني عليه، فَتَقْدِيرُ اللہ الأشياء علی وجهين : أحدهما : بإعطاء القدرة . والثاني : بأن يجعلها علی مقدار مخصوص ووجه مخصوص حسبما اقتضت الحکمة، وذلک أنّ فعل اللہ تعالیٰ ضربان : ضرب أوجده بالفعل، ومعنی إيجاده بالفعل أن أبدعه کاملا دفعة لا تعتريه الزّيادة والنّقصان إلى إن يشاء أن يفنيه، أو يبدّله کالسماوات وما فيها . ومنها ما جعل أصوله موجودة بالفعل وأجزاء ه بالقوّة، وقدّره علی وجه لا يتأتّى منه غير ما قدّره فيه، کتقدیره في النّواة أن ينبت منها النّخل دون التّفّاح والزّيتون، وتقدیر منيّ الإنسان أن يكون منه الإنسان دون سائر الحیوانات . فَتَقْدِيرُ اللہ علی وجهين : أحدهما بالحکم منه أن يكون کذا أو لا يكون کذا، إمّا علی سبیل الوجوب، وإمّا علی سبیل الإمكان . وعلی ذلک قوله : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] . والثاني : بإعطاء الْقُدْرَةِ عليه . وقوله : فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات/ 23] ، تنبيها أنّ كلّ ما يحكم به فهو محمود في حكمه، أو يكون من قوله : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] ، وقرئ : فَقَدَرْنا «1» بالتّشدید، وذلک منه، أو من إعطاء القدرة، وقوله : نَحْنُ قَدَّرْنا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ [ الواقعة/ 60] ، فإنه تنبيه أنّ ذلک حكمة من حيث إنه هو الْمُقَدِّرُ ، وتنبيه أنّ ذلک ليس كما زعم المجوس أنّ اللہ يخلق وإبلیس يقتل، وقوله : إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر/ 1] ، إلى آخرها . أي : ليلة قيّضها لأمور مخصوصة . وقوله : إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر/ 49] ، وقوله : وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ عَلِمَ أَنْ لَنْ تُحْصُوهُ [ المزمل/ 20] ، إشارة إلى ما أجري من تكوير اللیل علی النهار، وتكوير النهار علی اللیل، وأن ليس أحد يمكنه معرفة ساعاتهما وتوفية حقّ العبادة منهما في وقت معلوم، وقوله : مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ [ عبس/ 19] ، فإشارة إلى ما أوجده فيه بالقوّة، فيظهر حالا فحالا إلى الوجود بالصّورة، وقوله : وَكانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَراً مَقْدُوراً [ الأحزاب/ 38] ، فَقَدَرٌ إشارة إلى ما سبق به القضاء، والکتابة في اللّوح المحفوظ والمشار إليه بقوله عليه الصلاة والسلام : «فرغ ربّكم من الخلق والخلق والأجل والرّزق» «1» ، والْمَقْدُورُ إشارة إلى ما يحدث عنه حالا فحالا ممّا قدّر، وهو المشار إليه بقوله : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن/ 29] ، وعلی ذلک قوله : وَما نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ [ الحجر/ 21] ، قال أبو الحسن : خذه بقدر کذا وبقدر کذا، وفلان يخاصم بقدر وقدر، وقوله : عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ [ البقرة/ 236] ، أي : ما يليق بحاله مقدّرا عليه، وقوله : وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدى [ الأعلی/ 3] ، أي : أعطی كلّ شيء ما فيه مصلحته، وهداه لما فيه خلاصه، إمّا بالتّسخیر، وإمّا بالتّعلیم کما قال : أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] ، والتَّقْدِيرُ من الإنسان علی وجهين : أحدهما : التّفكّر في الأمر بحسب نظر العقل، وبناء الأمر عليه، وذلک محمود، والثاني : أن يكون بحسب التّمنّي والشّهوة، وذلک مذموم کقوله : فَكَّرَ وَقَدَّرَ فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ [ المدثر/ 18- 19] ، وتستعار الْقُدْرَةُ والْمَقْدُورُ للحال، والسّعة في المال، القدر ( والتقدیر کے معنی کسی چیز کی کمیت کو بیان کرنے کے ہیں۔ کہاجاتا ہے ۔ قدرتہ وقدرتہ اور قدرہ ( تفعیل ) کے معنی کسی کو قدرت عطا کرنا بھی آتے ہیں محاور ہ ہے ۔ قدرنی اللہ علی کذا وتوانی علیہ اللہ نے مجھے اس پر قدرت عطافرمائی پس ، ، تقدیرالہی ِ ، ، کی دوصورتیں ہیں اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو قدرت بخشنا یا اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو مقدار مخصوص اور طرز مخصوص پر بنانا جیسا کہ اس کی حکمت کا تقاضا ہے اس لئے کہ فعل دوقسم پر ہے اول ایجاد بالفعل یعنی ابتداء سے کسی چیز کو ایسا کامل وجو عطا کرنا کی جب تک مشیت الہی اس کے فنا یا تبدیل کی مقتضی نہ ہو اس میں کمی بیشی نہ ہوسکے جیسے اجرام سماویہ اور ومافیما کی تخلیق ( کہ ان میں تاقیامت کسی قسم کا تغیر نہیں ہوگا ) دوم یہ کہ اصول اشیاء کو بالفعل اور ان کے اجزاء کو بالقوۃ وجو عطافرمانا اور ان کو اس ندازہ کے ساتھ مقدر کرنا کہ اس کی خلاف ظہور پزیر نہ ہوسکیں جیسا کہ خرما کی گھٹلی کے متعلق تقیدر الہٰی یہ ہے کہ اس سے خرما کا درخت ہی اگتا ہے اور سیب بازیتون کا درخت نہیں اگ سکتا اسی طرح انسان کی منی سے انسان پی پیدا ہوتا ہے دوسرے جانور پیدا نہیں ہوسکتے ۔ پس تقدیر الہی کے دو معنی ہوئے ایک یہ کہ کسی چیز کے متعلق نفی یا اثبات کا حکم لگانا کہ یوں ہوگا اور یوں نہیں ہوگا ۔ عام اس سے کم وہ حکم برسبیل وجوب ہو یا برسبیل امکان چناچہ آیت ؛ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے ۔ میں یہی معنی مراد ہیں دوم کی چیز پر قدرت عطا کرنے کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات/ 23] پھر اندازہ مقرر کیا اور ہم ہی خوب اندازہ مقرر کرنے والے ہیں ۔ میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ اللہ کا ہر حکم قابل ستائش ہے ۔ اور یہ آیت : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کررکھا ہے ۔ کے ہم معنی ہے اور اس میں ایک قراءت ققدر نا ( تشدیددال ) کے ساتھ بھی ہے اور اس کے معنی یا تو حکم کرنے کے ہیں اور یا اعطاء قدرت کے اور آیت کریمہ : نَحْنُ قَدَّرْنا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ [ الواقعة/ 60] ہم نے تم میں مرنا ٹھہراد یا ۔ میں اس امر تنبیہ ہے کہ موت مقدر کرنے والا چونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہے اس لئ یہ بھی عین حکمت کے مطابق ہے اور مجوس کا یہ علم غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے اور ابلیس مارتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر/ 1] ہم نے اس ( قرآن ) گوشب قدر میں نازل کرنا شروع کیا ۔ میں لیلۃ القدر سے خاص رات مراد ہے جسے اور مخصوصہ کی انجام دہی لے لئے اللہ نے مقرر کر رکھا ہے ۔ نیز فرمایا :إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر/ 49] ہم نے ہر چیز اندازہ مقرر کے ساتھ پیدا کی ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ عَلِمَ أَنْ لَنْ تُحْصُوهُ [ المزمل/ 20] اور خدا تو رات اور دن ، کا اندازہ رکھتا ہے اس نے معلوم کیا کہ تم اس کی نباہ نہ سکوگے ۔ میں سلسلہ لیل ونہار کے اجرء کی طرف اشارہ ہے اور یہ کہ ان کے اوقات کی معرفت حاصل کرنا اور پھر اوقات معینہ ، میں حق عبادات ادا کرنا کسی کے لئے ممکن نہیں ہے اور آیت کریمہ : مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ [ عبس/ 19] نطفے سے بنایا پھر اس کا اندازہ مقرر کیا ۔ میں ان قویٰ کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے نطفہ میں بالقوۃ ودیعت کر رکھے ہیں اور وہ قتا فوقتا صورت کا لباس بہن کر ظہور پذیر ہوتے ہیں آیت کریمہ : وَكانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَراً مَقْدُوراً [ الأحزاب/ 38] اور خدا کا حکم ٹھہرچکا ہے ۔ میں قدر کے لفظ سے ان امور کی طرف اشارہ ہے جن کا فیصلہ ہوچکا ہے اور وہ لوح محفوظ میں لکھے جا چکے ہیں جن کی طرف کہ آنحضرت نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : فرغ ربکم من الخلق والاجل والرزق کہ اللہ تبارک وتعالیٰ خلق ۔ عمر اور رزق سے فارغ ہوچکا ہے اور مقدور کے لفظ سے ان امور کیطرف اشارہ ہے جو وقتا فوقتا ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں ۔ جن کی طرف آیت : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن/ 29] وہ ہر روز کام میں مصروف ر ہتا ہے ۔ میں اشارہ فرمایا ہے اسی معنی میں فرمایا : وَما نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ [ الحجر/ 21] اور ہم ان کو بمقدار مناسب اتارتے رہتے ہیں ۔ ابوالحسن نے کہا ہے کہ یہ قدر وقدر ( بفتح الدال وسکونہا ) دونوں طرح بولا جاتا ہے چناچہ محاورہ خذ بقدر کذا ) وقدر کذا ( کہ اتنی مقدار میں لے لو ) وفلان یخاصم بقدر وقدر اور آیت کریمہ : عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ [ البقرة/ 236] یعنی ) مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق دے اور تنگدست اپی حیثیت کے مطابق ۔ میں قدر کے معنی یہ ہیں کہ جو شخص اپنی مقدور کے مطابق اخراجات ادا کرے ۔ اور آیت کریمہ : وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدى[ الأعلی/ 3] اور جس نے ( اس کا ) اناازہ ٹھہرادیا ( پھر اس کو ) رستہ بتایا : کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کو وہ سمجھ عطا فرمادیا جس میں اس کی مصلحت ہے اور اسے تعلیمی یا تسخیری طور پر ان چیزوں کی طرف ہدایت کردی ہے جن میں اس کی نجات مضمرہ جیسے فرمایا : أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] جس نے ہر چیز کو اس کی شکل و صورت بخشی پھر راہ دکھائی ۔ جب ، ، تقدیر ، ، کا فاعل انسان ہو تو اس کے دومعنی ہوتے ہیں ایک تقدیر محمود یعنی عقل وفکر کے مطابق کسی امر پر غور فکر کرنا اور پھر اس فارمولا کے مطابق کسی امر بچہ غور فکر کرنا اور پھر اس فارمولا کے مطابق کسی کام کو سرا نجام دینا ۔ دوم تقدیر مذموم کہ انسان اپنی تمنا اور خواہش کے پیمانہ کے مطابق کسی امر پر غور فکر کرے اور عقل وفکر سے کام نہ لے جیسے فرمایا فَكَّرَ وَقَدَّرَ فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ [ المدثر/ 18- 19] اس نے فکر کیا اور تجویز کی یہ مارا جائے اس نے کیسی تجویز کی ۔ اور استعارہ کے طورپر قدرۃ اور مقدور کے معنی حالت اور وسعت مالی کے بھی آتے ہیں اور قدر کے معنی اس معین وقت یا مقام کے بھی ہوتے ہیں جو کسی کام کے لئے مقرر ہوچکا ہو چناچہ فرمایا : إِلى قَدَرٍ مَعْلُومٍ [ المرسلات/ 22] ایک معین وقت تک ۔ نیز فرمایا : فَسالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِها [ الرعد/ 17] پھر اس سے اپنے اپنے اندازے کے مطابق نالے بہ نکلے ۔ یعنی نالے اپنے ( ظرف کے مطابق بہ نکلتے ہیں ایک قرات میں بقدر ھا ہے جو بمعنی تقدیر یعنی اندازہ ۔۔۔ کے ہے اور آیت کریمہ : وَغَدَوْا عَلى حَرْدٍ قادِرِينَ [ القلم/ 25]( اور کوشش کے ساتھ سویرے ہی جاپہنچے ( گویا کھیتی پر ) قادر ہیں ۔ میں قادرین کے معنی قاصدین کے ہیں یعنی جو وقت انہوں نے مقرر کر رکھا تھا ۔ اندازہ کرتے ہوئے اس وقت پر وہاں جا پہنچے اور یہی معنی آیت کریمہ : فَالْتَقَى الْماءُ عَلى أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ [ القمر/ 12] تو پانی ایک کام کے لئے جو مقدر ہوچکا تھا جمع ہوگیا میں مراد ہیں ۔ اور قدرت علیہ الشئی کے معنی کسی پر تنگی کردینے کے ہیں گویا وہ چیز اسے معین مقدار کے ساتھ دی گئی ہے اس کے بالمقابل بغیر حساب ( یعنی بےاندازہ ) آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ [ الطلاق/ 7] اور جس کے رزق میں تنگی ہو ۔ یعنی جس پر اس کی روزی تنگ کردی گئی ہو ۔ نیز فرمایا : يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشاءُ وَيَقْدِرُ [ الروم/ 37] خدا جس پر جاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے ۔ فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ [ الأنبیاء/ 87] اور خیال کیا کہ ہم ان پر تنگی نہیں کریں گے اور ایک قرآت میں لن نقدر علیہ سے اور اسی سے لفظ اقدر مشتق ہے جس کے معنی کوتاہ گردن آدمی کے ہیں اوراقدر اس گھوڑے کو بھی کہتے ہیں جس کے دوڑتے وقت پچھلے پاؤں ٹھیک اس جگہ پڑیں جہاں اگلے پاؤں پڑے تھے ۔ اور آیت کریمہ وما قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ [ الأنعام/ 91] ان لوگوں نے خدا کی قدرشناسی جیسی کرنی چاہیے تھی نہیں کی ۔ یعنی لوگ اس کی حقیقت کو نہیں پاسکے اور پھر اس امر پر تنبیہ کی ہے کہ وہ اس کی کنہہ کا ادارک بھی کیسے کرسکتے ہیں جب کہ اس کی شان یہ ہے کہوالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 67] اور قیامت کے دن تمام زمین آں کی مٹھی میں ہوگی ۔ اور آیت کریمہ : أَنِ اعْمَلْ سابِغاتٍ وَقَدِّرْ فِي السَّرْدِ [ سبأ/ 11] کو کشادہ زر ہیں بناؤ اور کڑیوں کو اندازے سے جوڑ دو ۔ میں قدرفی السرد کے معنی یہ ہیں کہ مضبوطی اور محکم زر ہیں بناؤ ۔ اور مقدارالشئی اس وقت یاز مانہ وغیرہ کو کہا جاتا ہے جو کسی چیز کے لئے مقرر کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے : يَوْمٍ كانَ مِقْدارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ [ المعارج/ 4] اور اس روز ( نازل ہوگا ) جس کا اندازہ پچاس ہزار برس کا ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : لِئَلَّا يَعْلَمَ أَهْلُ الْكِتابِ أَلَّا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ [ الحدید/ 29]( یہ باتیں ) اسلئے ( بیان کی گئی ہیں ) کہ اہل کتاب جان لیں کہ وہ خدا کے فضل کے ساتھ مختص ہے ( یعنی اس میں تاویل سے چارہ نہیں ہے ) القدر ( دیگ) برتن جس میں گوشت پکایا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ/ 13] اور دیگیں جو ایک ہی جگہ رکھی ہیں ۔ اور قدرت اللحم کے معنی ہانڈی میں گوشت پکانے کے ہیں اور ہینڈیاں پکائے ہوئے گوشت کو قدیر کہاجاتا ہے ۔ القدار ( قصاب ) وہ شخص جو اونٹ کو نحر ( ذبح ) کرکے دیگ میں اس کا گوشت پکاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل) (351) ضرب القدار نقیعۃ القدام جیسا کہ قصاب سفر سے آنے والے کی خوشی میں دعوت کے لئے گوشت کاٹتا ہے ۔ عزیز ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] ( ع ز ز ) العزۃ العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ )  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

سورج کی روانی دلیل ربانی ہے قول باری ہے (والشمس تجری لمستقرلھا۔ اور ایک نشانی سورج بھی ہے جو اپنے ٹھکانے کی طرف رواں دواں رہتا ہے) ۔ قیامت کی نشانیاں ہمیں عبداللہ بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں حسن بن ابی الربیع نے، انہیں معمر نے ابواسحق سے انہوں نے وہب بن جبار سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر...  (رض) سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ سورج طلوع ہوتا ہے اور انسان اس کا مشاہدہ کرتا ہے پھر ایک دن ایسا آئے گا کہ سورج غروب ہوجائے گا اور اللہ اسے جب تک چاہے گا روکے رکھے گا پھر اسے حکم ہوگا کہ جہاں وہ پہنچاسکے گا۔ یعنی قیامت کا دن اس موقعہ پر حضرت عمر (رض) نے اس مضمون کی پوری آیت کی تلاوت کی۔ معمر کہتے ہیں کہ مجھے حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) سے روایت پہنچی ہے کہ وہ رات آجائے گی جس کی صبح سورج مغرب سے طلوع ہوگا تو تہجد گزار لوگ حسب معمول تہجد کے لئے اٹھیں گے، لیکن وہ تہجد پڑھتے پڑھتے اکتا جائیں گے اور رات ختم ہونے کو نہیں آئے گی پھر وہ سوجائیں گے پھر اٹھیں گے اور پھر تہجد پڑھتے پڑھتے اکتا جائیں گے ۔ وہ اس طرح تین مرتبہ کریں گے لیکن رات اپنی جگہ باقی رہے گی، ستارے ٹھہرے نظر آئیں گے حتیٰ کے لوگ نیند سے اکتا کر اپنے گھروں سے نکل آئیں گے اور ایک دوسرے کی طرف چل پڑیں گے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس روایت کی روشنی میں قول باری (لمستقرلھا) کے معنی یہ ہوں گے کہ سورج اس رات کھڑا ہوجائے گا اور اس کی یومیہ رفتار رک جائے گی اور اس طرح اگلے دن وہ مغرب سے طلوع ہوگا۔ معمر کہتے ہیں مجھے یہ روایت بھی پہنچی ہے کہ قیامت کی پہلی اور آخری نشانی کے درمیان چھ ماہ کی مدت ہوگی۔ معمر سے پوچھا گیا کہ قیامت کی نشانیاں کون کون سی ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ قتادہ نے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ چھ چیزوں کے ظہور سے پہلے پہلے جو نیکیاں کرسکتے ہو کرلو۔ سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے پہلے، دجال، دخان اور دابۃ الارض کے نکلنے سے پہلے، فتن خاصہ سے پہلے اور فتن عامہ سے پہلے۔ “ ان سے پوچھا گیا آیا آپ کو معلوم ہے کہ ان میں سے کون سی نشانی سب سے پہلے آئے گی۔ انہوں نے کہا۔” سورج کا مغرب سے طلوع ہونا۔ “ سب سے پہلے وقوع پذیر ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ دجال کا خروج سب سے پہلے ہوگا۔ جب تک دنیا میں ایک بھی موحد باقی ہے قیامت برپا نہ ہوگی ہمیں عبداللہ بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں حسن نے، انہیں عبدالرزاق نے، انہیں معمر نے ثابت البنانی سے، انہوں نے حضرت انس بن مالک (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (لا تقوم الساعۃ علی احد یقول لا الہ الا اللہ قیامت کسی ایسے شخص پر نہیں آئے گی جو کلمہ توحید ” لا الہ الا اللہ “ کہتا ہوگا) یعنی جب تک دنیا میں ایک موحد بھی باقی رہے گا اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی۔ قتادہ نے (لمستقرلھا) کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ ” ایک وقت تک کے لئے جس سے وہ یعنی سورج آگے نہیں جاسکتا۔ “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ سورج ایک ہی رفتار اور اس کی ایک ہی مقدار پر رواں دواں ہے اس رفتار اور مقدار میں فرق نہیں پڑتا۔ ایک قول کے مطابق اس قول باری کا مفہوم یہ ہے کہ سورج اپنے بعید ترین منزل پر پہنچ کر غروب ہوتا ہے۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور سورج بھی اپنی منزلوں میں چلتا رہتا ہے یا یہ کہ رات اور دن چلتے رہتے ہیں کوئی ان کے ٹھہرنے کی جگہ نہیں یہ اس ذات کی طرف سے اندازہ مقرر کیا ہوا ہے جو کافر کو سزا دینے میں زبردست اور اپنی مخلوق اور ان کی تدابیر سے واقف ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٨ { وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّہَا } ” اور سورج چلتا رہتا ہے اپنے مقررہ راستے پر۔ “ یعنی اپنے ایک معین مدار پر گردش کرتا ہے۔ { ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ } ” یہ اندازہ مقرر کیا ہوا ہے اس کا جو بہت زبردست ‘ بہت علم والا ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

33 "Place of rest" may either mean the place where the sun will ultimately come to a halt, or the time when it will come to a halt. The true meaning of this verse can be determined only when man has attained the full and exact knowledge of the realities of the universe. But man's knowledge is such that it has boon changing in every age and what he seems to know today might change tomorrow. The peo... ple of the ancient times on the basis of their observations of the sun believed that it was moving round the earth. Then after further research and observation the view became that the sun was stationary and all the planets of the solar system were revolving round it. But this theory also did not last long. The later observations revealed that not only the sun but All the stars also are moving in a particular direction, at speeds of 10 to 100 miles per second. About the sun the modern astronomers hold the view that it is moving at a speed of 20 kilometres (about 12 miles) per second along with its whole family of the planets. (See "Star" and "Sun" in Encyclopedia Britannica).  Show more

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :33 ٹھکانے سے مراد وہ جگہ بھی ہو سکتی ہے جہاں جا کر سورج کو آخر کار ٹھر جانا ہے اور وہ وقت بھی ہو سکتا ہے جب وہ ٹھر جائے گا ۔ اس آیت کا صحیح مفہوم انسان اسی وقت متعین کر سکتا ہے جبکہ اسے کائنات کے حقائق کا ٹھیک ٹھیک علم حاصل ہو جائے ۔ لیکن انسانی علم کا حال یہ ہے کہ وہ ہر زم... انہ میں بدلتا رہا ہے اور آج جو کچھ اسے بظاہر معلوم ہے اس کے بدل جانے کا ہر وقت امکان ہے ۔ سورج کے متعلق قدیم زمانے کے لوگ عینی مشاہدے کی بنا پر یہ یقین رکھتے تھے کہ وہ زمین کے گرد چکر لگا رہا ہے ۔ پھر مزید تحقیق و مشاہدہ کے بعد یہ نظریہ قائم کیا گیا کہ وہ اپنی جگہ ساکن ہے اور نظام شمسی کے سیارے اس کے گرد گھوم رہے ہیں ۔ لیکن یہ نظریہ بھی مستقل ثابت نہ ہوا ۔ بعد کے مشاہدات سے پتہ چلا کہ نہ صرف سورج ، بلکہ وہ تمام تارے جن کو ثوابت ( Fixed Stars ) کہا جاتا ہے ، ایک رخ پر چلے جا رہے ہیں ۔ ثوابت کی رفتار کا اندازہ 10 سے لے کر 100 میل فی سکنڈ تک کیا گیا ہے ۔ اور سورج کے متعلق موجودہ زمانہ کے ماہرین فلکیات کہتے ہیں کہ وہ اپنے پورے نظام شمسی کو لیے ہوئے 20 کلو میٹر ( تقریباً 12 میل ) فی سکنڈ کی رفتار سے حرکت کر رہا ہے ۔ ( ملاحظہ ہو انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا ، لفظ اسٹار ۔ اور لفظ سن ) ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٨۔ حسن بصری (رح) اور سلف کے قول کے موافق سورج کہ تین سو ساٹھ مطلع اور چاند کی اٹھائیس منزلیں مقرر ہیں سورج کے مطلع پورے ہونے سے ایک سال اور چاند کی منزلیں پوری ہونے سے ایک مہینہ پورا ہوتا ہے اس آیت میں رات دن کے ذکر کی مناسبت سے سورج کے دورہ کا اور آگے کی آیت میں چاند کے دورہ کا ذکر ہے سورج کے دورہ...  کے علمائے مفسرین نے دو مطلب بیان کئے ہیں ایک تو یہ کہ ہر روز مشرق سے مغرب کی طرف جو سورج جاتا ہے تو کہاں جاتا ہے اس مطلب کی تفصیل اور تفسیر صحیح حدیثوں میں آئی ہے صحیح بخاری مسلم ترمذی نسائی مسند امام احمد ٣ ؎ وغیرہ میں جو حدیثیں ہیں (٣ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥٧١ ج ٣ و تفسیر الدر المنثور ص ٢٦٣ ج ٥) ان کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک روز حضرت ابوذر (رض) سے پوچھا کہ یہ سورج جو غروب ہوتا ہے تو تم کو معلوم ہے کہ یہ کہاں جاتا ہے انہوں نے کہا مجھ کو کچھ معلوم نہیں آپ نے فرمایا یہ عرش معلیٰ کے نیچے اللہ تعالیٰ کی درگاہ میں سجدہ کرتا ہے ‘ اور معمول کے موافق مشرق سے نکلنے کی اس کو اجازت ملتی ہے جب قیامت آنے کو ہوگی تو مغرب کی طرف سے نکلنے کا اس کو حکم ہوجائے گا پھر کسی کا ایمان قبول نہ ہوگا یہ فرما کر پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی اگرچہ سورج اور تمام مخلوقات ہر وقت عرش معلیٰ کے نیچے ہے کیوں کہ مستدرک حاکم اور بیہقی کی حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی حدیث میں جس حدیث کو حاکم نے صحیح قرار دیا ٤ ؎ ہے یہ آچکا ہے (٤ ؎ حوالہ کے سلاوہ دیکھئے تفسیر ثنائی پہلی جلد ص ٩٨) کہ ساتوں آسمان بمقابلہ کرسی کے ایسے ہیں جس طرح بڑے جنگل میں ایک چھلا پڑا ہوا ہو اور جس قدر اس چھلے سے وہ جنگل بڑا ہے وہی حال عرش کا بمقابلہ کرسی کے ہے اب عرش معلیٰ کی بڑائی اس قدر ہونے کے سبب سے کسی وقت تمام مخلوقات میں کی کوئی شے عرش معلیٰ کے نیچے ہونے سے سرک تو نہیں سکتی لیکن خاص طور پر سورج کے سجدہ کرنے کے ذکر میں اس کے عرش کے نیچے ہونے کا ذکر حدیث میں آیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ غروب کے قوت بھی سورج عرش معلیٰ کے نیچے ہی رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی درگاہ میں سجدہ کرتا ہے دوسرا مطلب آفتاب کے دورہ کا یہ ہے کہ قیامت تک مشرق سے نکلنے اور مغرب میں غروب ہونے کا دورہ جو اللہ تعالیٰ نے اس کے پیچھے لگا دیا ہے وہی اس کا دور ہے قیامت کے دن اس کی حرکت جاتی رہے گی اس مطلب کی تائید اس طرح کی صحیح حدیثوں سے نہیں ہوتی جس طرح پہلے مطلب کی تائید صحیح حدیثوں سے ہوتی ہے اس لیے آیت کی وہی تفسیر صحیح ہے جو اوپر بیان ہوئی غرض سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے کسی شے کو ایک حال پر قیام نہیں اب سورج مشرق سے نکلتا ہے ایک دفعہ اس کو مغرب سے نکلنا پڑے گا اور اب بھی جاڑے کے موسم میں مشرق سے مغرب تک اس کو تھوڑا سا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے جس کے سبب سے جاڑے کے موسم کا دن چھوٹا ہوجاتا ہے اور گرمی کے موسم میں بہت فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے جس کے سبب سے گرمی کے موسم کا دن بڑا ہوجاتا ہے بعض روایتوں میں یہ جو ہے کہ سورج کے مغرب کی طرف سے نکلنے کے بعد دنیا ایک سوبیس برس تک قائم ہوگی اور جب لوگ سورج کا مغرب کی طرف سے نکلنا بھول جائیں گے تو ایمان اور توبہ پھر قبول ہونے لگ جاویں گے یہ بات صحیح حدیثوں کی مخالف ہے کیوں کہ صحیح حدیثوں میں آچکا ہے کہ سورج کے مغرب سے نکلتے ہی دابۃ الارض نکل آوے گا اور مسلمان اور کافر کو الگ الگ کر دیوے گا اور سورج کے مغرب سے نکلتے ہی اسلام اور توبہ پھر قیامت تک قبول نہ ہوں گے ‘ آخر کو فرمایا سورج کی چال کا یہ انداز ایسے زبردست صاحب علم کا ٹھہرایا ہوا ہے کہ اس میں کبھی فرق نہیں پڑسکتا (شاہ صاحب (رح) کے) ترجمہ میں ہندی کا جو لفظ سادھا ہے اس سے مطلب یہی اندازہ ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(36:38) مستقر۔ ظرف مکان مجرور استقرار (استفعال) مصدر بمعنی قرار گاہ ٹھہرنے کی جگہ۔ ٹھکانہ۔ والشمس تجری لمستقرلھا۔ اور سورج ہے کہ اپنے ٹھکانے کی طرف چلتا رہتا ہے۔ ذلک۔ اشارہ ہے سورج کا اپنے مستقر کی طرف چلنے کی طرف۔ تقدیر۔ قدر یقدر سے تفعیل کے وزن پر مصدر ہے اگرچہ یہ لفظ کثیر المعانی ہے مگر یہاں اس...  سے مراد اندازہ کرنا ہے اور العزیز العلیم کا مضاف ہے۔ ایک زبردست گرامی قدر ( العزیز) بڑے دانا اور خوب جاننے والے العلیم کا اندازہ کردہ نظام۔ یعنی سورج کی اپنے مقرر شدہ مقام کی طرف لگاتار حرکت ایک عزیز وعلیم کے اندازہ کردہ نظام الاوقات کے تحت ہے۔ اس کے طلوع و غروب، ارتفاع و انخفاض تاب وتپش، سفر وراہ سفر میں کوئی ردو بدل نہیں تا آنکہ خود وہ ذات اقدس اس میں کسی قسم کے ردو بدل کا ارادہ نہ فرمائے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4( لام بمعنی الیٰ ہے) یعنی قیامت تک چناچہ جب قیامت آجائے گی تو وہ ٹھہر جائے گا اور اس میں کوئی حرکت نہ رہے گی یا اس کے معنی ہیں۔” اپنے ٹھہرنے کے مقام تک “ اور اس کے ٹھہرنے کا قیام، جیسا کہ حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ کے عرش کے نیچے ہے جیسا کہ ایک حدیث میں حضرت ابو ذر (رض) کے جواب میں آنحضرت (صلی اللہ ... علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (مستقفرھا تحت العرش) کہ اس کے ٹھہرنے کا مقام عرش کے نیچے ہے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ سورج ہر روز عرش کے نیچے اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہے اور طلوع کے لئے اذن چاہتا ہے چناچہ اسے اذن دے دیا جاتا ہے حتیٰ کہ ایک وقت آئے گا کہ اسے حکم ہوگا ” ارجیع من حیث جنت “ کہ جدھر سے آئے ہو ادھر پلٹ جائو چناچہ وہ مغرب سے طلوع ہوگا۔ اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی یہ دوسری تفسیر چونکہ صحیح حدیث سے ثابت ہے اس لئے اسی کو اختیار کرنا ضروری ہے کہ گو امام رازی (رح) نے مستقر کے متعدد معانی بیان کئے ہیں مثلاً یہ کہ سورج اپنے مقررہ راستہ پر چلا جا رہا ہے اور اس سے ادھر ادھر نہیں ہوتا وغیرہ۔ ( کبیر) ۔  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یہ عام ہے اس نقطہ کو بھی جہاں سے چل کر سالانہ دورہ کر کے پھر اسی نقطہ پر جا پہنچتا ہے، اور اس نقطہ افقیہ کو بھی کہ حرکت یومیہ میں وہاں پہنچ کر غروب ہوجاتا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

سورج کی رفتار میں مظاہر قدرت ہے (وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّہَا) (اور سورج اپنے ٹھکانے کی طرف چلتا ہے) سورج بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے، اس کا وجود مستقل نشانی ہے اور اس کی روشنی مستقل نشانی ہے پھر اس کا اپنے ٹھکانہ کے لیے چلنا یہ بھی مستقل نشانی ہے، اس کی رفتار اور اس کے محور پر چلنا، ا... دھر ادھر نہ ہونا یہ سب اللہ تعالیٰ کی قدرت قاہرہ کی نشانی ہے۔ (ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ ) (یہ اس کا مقرر کیا ہوا ہے جو زبردست ہے علم والا ہے) سورج پابند ہے کہ اپنے محور پر چلے اور اسی رفتار پر چلے جو اس کی رفتار مقرر ہے، گرمیوں کے زمانہ میں سورج خط استواء پر چلتا ہے اور سردیوں میں ہٹ جاتا ہے اور دوسرا محور اختیار کرلیتا ہے، اس کا جو راستہ خالق جل مجدہٗ کی طرف سے طے کردیا گیا ہے اس کے خلاف نہیں چل سکتا۔ سورج کے مستقر یعنی ٹھکانہ کا کیا مطلب ہے۔ بعض لوگوں نے بلاوجہ اس کو مجاز پر محمول کیا ہے، اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اس کا یہ مطلب ہے کہ ایک سال سے دوسرے سال کے ختم تک اس کا جو دور ہے اسی حد معین کا نام مستقر ہے، اور بعض حضرات نے یہ فرمایا ہے کہ لام تعلیلیہ ہے اور مطلب یہ ہے کہ چونکہ اسے اپنے مستقر کے مشارق اور مغارب پر پہنچنا ہے اس لیے چلتا رہتا ہے، اس کی ایک حد مقرر ہے وہاں تک پہنچنے اور پھر آگے بڑھنے کو مستقر فرمایا۔ اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ بارہ برجوں میں مخصوص طریقہ پر ٹھہرنا اور پھر آگے بڑھنا یہ مستقر میں پہنچنا ہے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ مستقر اسم زمان ہے اور مطلب یہ ہے کہ اس کے مسلسل چلتے رہنے کا جو ایک وقت مقرر ہے اس وقت تک چلتا رہے گا اور جب قیامت قائم ہوگی تو اس کی رفتار ختم ہوجائے گی۔ سورج کا سجدہ کرنا ان سب باتوں کی بنیاد محض احتمالات ہیں، صحیح بات وہ ہے جو حضرت ابوذر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (ایک دن مجھ سے) سورج چھپ جانے کے بعد فرمایا کیا تم جانتے ہو یہ کہاں جاتا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی خوب جانتے ہیں، اس پر آپ نے ارشاد فرمایا کہ بیشک یہ چلتے چلتے عرش کے نیچے پہنچ کر سجدہ کرتا ہے اور حسب عادت مشرق سے طلوع ہونے کی اجازت چاہتا ہے اور اسے اجازت دے دی جاتی ہے اور ایسا بھی ہونے والا ہے کہ ایک روز یہ سجدہ کرے گا اور اس کا سجدہ قبول نہ ہوگا اور (مشرق سے طلوع ہونے کی) اجازت چاہے گا تو اجازت نہ دی جائے گی اور کہا جائے گا کہ جہاں سے آیا ہے وہیں لوٹ جا، چناچہ سورج (واپس ہوکر) مغرب کی جانب سے طلوع ہوگا۔ پھر فرمایا کہ (وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّہَا) (سورج اپنے ٹھکانے کو جاتا ہے) کا یہی مطلب ہے کہ (اپنے مقررہ ٹھکانے تک جا کر مشرق سے نکلتا ہے) اور فرمایا کہ اس کا ٹھکانا عرش کے نیچے ہے۔ (بخاری و مسلم) حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ سورج چلتا ہے، اپنے مستقر پر جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتا ہے، آگے بڑھنے اور طلوع ہونے کی اجازت مانگتا ہے جب اجازت ملتی ہے تو وہ آگے بڑھتا ہے اور طلوع ہوتا ہے، ایک وہ وقت بھی آئے گا جب وہ آگے بڑھنے کی اجازت طلب کرے گا تو اجازت نہ دی جائے گی اور واپس پیچھے لوٹنے کا حکم ہوگا چناچہ وہ واپس پیچھے لوٹ جائے گا۔ یہاں لوگوں نے یہ اشکال کیا ہے کہ آلات رصدیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی حرکت کسی وقت بھی ختم نہیں ہوتی برابر چلتا رہتا ہے، اس کا اصل جواب تو یہ ہے کہ حدیث شریف کی تصریح کے بعد اس کے خلاف کوئی قول معتبر نہیں، پھر کیا یہ ضروری ہے کہ پورے عالم کا ہر ہر جگہ کا طلوع اور غروب مراد ہو، ممکن ہے کہ خاص مدینہ منورہ اور اس کے محاذی نقطہ غروب والے مقامات کا غروب مراد ہو اور یہ سجدہ والا سکون ایسا خفیف ہو جس کا آلات رصدیہ سے ادراک نہ ہوتا ہو۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ اس سے حرکت سنو یہ بھی مراد ہوسکتی ہے یعنی ہر سال کے ختم پر وہ اپنے مستقر پر جاتا ہے پھر سجدہ کرتا ہے اور طلوع ہونے کی اجازت لیتا ہے، لیکن یہ اس مفہوم کے خلاف ہے جو حدیث شریف سے متبادر ہوتا ہے۔ (واللّٰہ تعالیٰ اعلم باسرارہ ما اودع فی کتابہ) فائدہ : سورج کا چلنا تو آیت کریمہ سے ثابت ہوا جس کا انکار کفر ہے، رہی یہ بات کہ زمین چلتی ہے یا نہیں ! اس کے بارے میں قرآن مجید ساکت ہے، اور سورة نمل میں جو (اَمَّنْ جَعَلَ الْاَرْضَ قَرَارًا) فرمایا ہے اس سے قطعی طور پر زمین کے عدم تحرک پر واضح دلالت نہیں ہے کیونکہ قَرَارًا کا ایک یہ معنی بتایا گیا ہے کہ وہ اس طرح حرکت نہیں کرتی کہ اس پر انسانوں کا رہنا مشکل ہوجائے جسے سورة لقمان میں (وَاَلْقٰی فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَبِکُمْ ) میں بیان فرمایا ہے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(38) اور آفتاب بھی قدرت خداوندی کی ایک نشانی ہے جو اپنی ٹھہری راہ اور اپنے ٹھکانے کی طرف چلتا رہتا ہے یہ اس خدا تعالیٰ کا مقرر کردہ نظام ہے جو کمال قوت اور کمال حکمت کا مالک ہے۔ جس طرح کسی جانور کا پوست اور اس کی کھال سے اس کا اندرونی حصہ چھپا رہتا ہے اور کھال اتارنے سے وہ اندرونی حصہ ظاہر ہوجاتا ہے...  اس طرح رات کی تاریکی پر دن کی روشنی چھائی رہتی ہے جہاں وہ چھائی ہوئی روشنی اتاری گئی اور چھپی ہوئی تاریکی نمایاں ہوئی اور لوگوں پر اندھیرا چھا گیا اورو ہ اندھیرے میں ہوگئے۔ یہ کھال کھچ جانے کی مثال سے شب و روز کے انقلاب کی تصویر سمجھائی اسی طرح آفتاب کو بھی قدرت کی ایک نشانی بتایا کہ اتنا بڑا کرہ کس طرح مقرر کردہ راہ پر چلتا رہتا ہے خواہ وہ راستہ صبح سے شام تک کا ہو اور خواہ وہ نقطہ ہو جہاں سال بھر کی مسافت طے کرکے پہنچتا ہو۔ بہرحال ! مستقرا دونوں کو شامل ہے۔ وہ سالانہ دورہ ہو یا دن رات کا چلنا ہو نظام شمسی کا مقررہ نظام اس نے مقرر کیا ہے جو بڑی قوت والا اور بڑے علم والا ہے۔  Show more