Surat Yaseen

Surah: 36

Verse: 41

سورة يس

وَ اٰیَۃٌ لَّہُمۡ اَنَّا حَمَلۡنَا ذُرِّیَّتَہُمۡ فِی الۡفُلۡکِ الۡمَشۡحُوۡنِ ﴿ۙ۴۱﴾

And a sign for them is that We carried their forefathers in a laden ship.

ان کے لئے ایک نشانی ( یہ بھی ) ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Among the Signs of Allah is that He carried Them in the laden Ship Allah tells us: another sign for them of His might and power is that He has subjugated the sea to carry ships, including -- most significantly -- the ship of Nuh , peace be upon him, in which Allah saved him and the believers, apart from whom none of the descendants of Adam were left on the face of the earth. Allah says: وَايَةٌ لَّهُمْ أَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّتَهُمْ ... And an Ayah for them is that We bore their offspring, means, their forefathers, ... فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ in the laden ship. means, in the ship which was filled with luggage and animals, in which Allah commanded him to put two of every kind. Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, said, "Laden means filled." This was also the view of Sa`id bin Jubayr, Ash-Sha`bi, Qatadah and As-Suddi. Ad-Dahhak, Qatadah and Ibn Zayd said, "This was the ship of Nuh peace be upon him." وَخَلَقْنَا لَهُم مِّن مِّثْلِهِ مَا يَرْكَبُونَ

سمندر کی تسخیر ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی قدرت کی ایک اور نشانی بتا رہا ہے کہ اس نے سمندر کو مسخر کر دیا ہے جس میں کشتیاں برابر آمد و رفت کر رہی ہیں ۔ سب سے پہلی کشتی حضرت نوح علیہ السلام کی تھی جس پر سوار ہو کر وہ خود اور ان کے ساتھ ایماندار بندے نجات پا گئے تھے باقی روئے زمین پر ایک انسان بھی نہ بچا تھا ، ہم نے اس زمانے والے لوگوں کے آباؤ اجداد کو کشتی میں بٹھا لیا تھا جو بالکل بھرپور تھی ۔ کیونکہ اس میں ضرورت اکل اسباب بھی تھا اور ساتھ ہی حیوانات بھی تھے جو اللہ کے حکم سے اس میں بٹھا لئے گئے تھے ہر قسم کے جانور کا ایک ایک جوڑا تھا ، بڑا باوقار مضبوط اور بوجھل وہ جہاز تھا ، یہ صفت بھی صحیح طور پر حضرت نوح کی کشتی پر صادق آتی ہے ۔ اسی طرح کی خشکی کی سواریاں بھی اللہ نے ان کے لئے پیدا کر دی ہیں مثلاً اونٹ جو خشکی میں وہی کام دیتا ہے جو تری میں کشتی کام دیتی ہے ۔ اسی طرح دیگر چوپائے جانور ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کشتی نوح نمونہ بنی اور پھر اس نمونے پر اور کشتیاں اور جہاز بنتے چلے گئے ۔ اس مطلب کی تائید آیت ( لِنَجْعَلَهَا لَكُمْ تَذْكِرَةً وَّتَعِيَهَآ اُذُنٌ وَّاعِيَةٌ 12۝ ) 69- الحاقة:12 ) سے بھی ہوتی ہے یعنی جب پانی نے طغیانی کی تو ہم نے انہیں کشتی میں سوار کر لیا تاکہ اسے تمہارے لئے ایک یادگار بنا دیں اور یاد رکھنے والے کان اسے یاد رکھیں ۔ ہمارے اس احسان کو فراموش نہ کرو کہ سمندر سے ہم نے تمہیں پار کر دیا اگر ہم چاہتے تو اسی میں تمہیں ڈبو دیتے کشتی کی کشتی بیٹھ جاتی کوئی نہ ہوتا جو اس وقت تمہاری فریاد رسی کرتا نہ کوئی ایسا تمہیں ملتا جو تمہیں بچا سکتا ۔ لیکن یہ صرف ہماری رحمت ہے کہ خشکی اور تری کے لمبے چوڑے سفر تم با آرام و راحت طے کر رہے ہو اور ہم تمہیں اپنے ٹھہرائے ہوئے وقت تک ہر طرح سلامت رکھتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

41۔ 1 اس میں اللہ تعالیٰ اپنے اس احسان کا تذکرہ فرما رہا ہے کہ اس نے سمندر میں کشتیوں کا چلنا آسان فرما دیا، حتٰی کہ تم اپنے ساتھ بھری ہوئی کشتیوں میں اپنے بچوں کو بھی لے جاتے ہو اور دوسرے معنی سے یہ مراد کشتی نوح (علیہ السلام) ہے۔ یعنی سفینہ نوح (علیہ السلام) میں لوگوں کو بٹھایا جن سے بعد میں نسل انسانی چلی۔ گویا نسل انسانی کے آبا اس میں سوار تھے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٤٠] بھری ہوئی کشتی سے مراد وہ کشتی ہے جو سیدنا نوح نے اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے مطابق طوفان سے پہلے بنائی تھی۔ جس میں سیدنا نوح کے علاوہ تمام ایماندار، ان کا سامان خوردونوش، ہر قسم کے جاندار کا ایک ایک جوڑا لدا ہوا تھا۔ جس سے یہ کشتی بھر گئی تھی اور اس میں گویا پوری بنی نوع انسان لدی ہوئی تھی وہ یوں کہ جتنے بھی انسان موجود ہیں سب کے سب ان کشتی میں سوار لوگوں کی اولاد ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاٰيَةٌ لَّهُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّــتَهُمْ : ” ذُرِّیَّۃٌ“ کا لفظی معنی اولاد ہے۔ ” ذُرِّيَّــتَهُمْ “ میں ضمیر ” ھُمْ “ سے مراد انسان ہیں۔ ” الْمَشْحُوْنِ “ بھری ہوئی، مراد اس سے نوح (علیہ السلام) کی کشتی ہے۔ یعنی ایک اور نشانی ان کے لیے یہ ہے کہ ہم نے نسل انسان کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا اور وہ پانی جو لوہے کی سوئی اور لکڑی کے ایک ڈنڈے تک کو نہیں اٹھاتا، بلکہ غرق کردیتا ہے، اسی پانی نے ہمارے سکھانے کے مطابق لوہے یا لکڑی سے بنی ہوئی کشتی کو اٹھا لیا، جو آدمیوں سے اور ہر جانور کے ایک ایک جوڑے اور ان کی ضرورت کی اشیاء سے خوب بھری ہوئی تھی۔ یہاں ایک سوال ہے کہ کشتی میں اولاد ہی نہیں ان کے باپ بھی سوار ہوتے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ جو فرمایا کہ ” ہم نے ان کی نسل (یا اولاد) کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا “ یہ کیوں نہ فرما دیا کہ ” ہم نے ان کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا ؟ “ جواب اس کا یہ ہے کہ نوح (علیہ السلام) سے پہلے آباء کو کشتی بنانے کا طریقہ معلوم نہ تھا، نہ وہ سمندر میں سفر کرسکتے تھے۔ آدم (علیہ السلام) کے بعد ان کی اولاد، جسے باقی رکھنا منظور تھا، ساری کی ساری اس کشتی میں سوار تھی اور طوفان کے بعد وہی زمین پر باقی رہی، باقی سب غرق ہوگئی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : (وَجَعَلْنَا ذُرِّيَّتَهٗ هُمُ الْبٰقِيْنَ ) [ الصافات : ٧٧ ] ” اور ہم نے اس کی اولاد ہی کو باقی رہنے والے بنادیا۔ “ اس لیے یہاں ” اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّــتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ “ فرمایا۔ (نظم الدرر) دوسری جگہ اسی کشتی کا ذکر ان الفاظ میں ہے : (اِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَاۗءُ حَمَلْنٰكُمْ فِي الْجَارِيَةِ ۔ لِنَجْعَلَهَا لَكُمْ تَذْكِرَةً وَّتَعِيَهَآ اُذُنٌ وَّاعِيَةٌ) [ الحآقۃ : ١١، ١٢ ] ” بلاشبہ ہم نے ہی جب پانی حد سے تجاوز کر گیا، تمہیں کشتی میں سوار کیا، تاکہ ہم اسے تمہارے لیے ایک یاد دہانی بنادیں اور یاد رکھنے والا کان اسے یاد رکھے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 41 and 42, it was said: وَآيَةٌ لَّهُمْ أَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّ‌يَّتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ وَخَلَقْنَا لَهُم مِّن مِّثْلِهِ مَا يَرْ‌كَبُونَ (And a sign for them is that We boarded their children at the loaded ship, and created for them things similar to it on which they ride.). Mentioned earlier to these verses were manifestations of Divine power and wisdom in what was created on the earth and in the heavens in that order. In the present verses, Divine power over the sea and its adjuncts has been mentioned. It was said that Allah Ta’ ala has made heavily laden boats and ships capable of sailing on the surface of the waters and reach distant places without getting drowned in route. Then, it was said in the verse that |"We boarded their children at the loaded ship|" - although, those who embarked the Ark were these very people. Perhaps, children were mentioned for the reason that one&s children and family place a great burden of responsibility on parents, particularly when unable to move around. Thus, the sense of the verse is to emphasize that it is not only they who were riding the boat, but there also were young children and aged men and women and their belongings with them. The boat carried both, people and their things. In the verse following immediately (42), it was said: خَلَقْنَا لَهُم مِّن مِّثْلِهِ مَا يَرْ‌كَبُونَ (and created for them things similar to it on which they ride.- 36:42). It means that human beings have not only been provided with boats and ships that serve as rides for themselves and carry their things, but Allah has also created other rides like the boat. From this, people of Arabia have taken it to mean the ride of camels as habitually familiar to them, particularly so, because the camel is a carrier of things. It takes heavy loads across countries, therefore, the Arab called camels: The Boat of the Land.

(آیت) وایة لہم انا حملنا ذریتہم فی الفلک المشحون وخلقنا لہم من مثلہ ما یرکبون، پہلے زمینی مخلوقات کا پھر آسمانی کا بیان اور ان میں اللہ تعالیٰ شانہ، کی حکمت وقدرت کے مظاہر کا بیان آ چکا ہے۔ اس آیت میں بحر اور اس سے متعلقہ اشیاء میں مظاہر قدرت کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کشتیوں کو خود وزنی بوجھ سے بھری ہوئی ہونے کے باوجود پانی کی سطح پر چلنے کے قابل بنادیا کہ پانی ان کو غرق کرنے کے بجائے دور ملکوں تک پہنچاتا ہے۔ اور آیت میں ارشاد یہ ہے کہ ہم نے ان کی ذریت کو کشتیوں میں سوار کیا، حالانکہ سوار ہونے والے خود یہ لوگ تھے۔ ذریت کا ذکر شاید اس لئے کیا کہ انسان کا بڑا بوجھ اس کی اولاد و ذریت ہوتی ہے، خصوصاً جبکہ وہ چلنے پھرنے کے قابل نہ ہو۔ اور مطلب آیت کا یہ ہے کہ صرف یہی نہیں کہ تم خود ان کشتیوں میں سوار ہو سکو بلکہ چھوٹے بچے اور ضعیف آدمی اور ان کے سب سامان یہ کشتیاں اٹھاتی ہیں۔ اور خلقنا لہم من مثلہ ما یرکبون کے معنی یہ ہیں کہ انسان کی سواری اور بار برداری کے لئے صرف کشتی ہی نہیں بلکہ کشتی کی مثل اور بھی سواری بنائی ہے۔ اس سے اہل عرب نے اپنی عادت کے مطابق اونٹ کی سواری مراد لی ہے، کیونکہ اونٹ بار برادری میں سب جانوروں سے زیادہ ہے، بڑے بڑے بوجھ کے انبار لے کر ملکوں کا سفر کرتا ہے، اسی لئے عرب اونٹ کو سفینة البر یعنی خشکی کی کشتی کہا کرتے تھے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاٰيَۃٌ لَّہُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّــتَہُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ۝ ٤١ۙ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ حمل الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل . وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی: وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر/ 18] ، ( ح م ل ) الحمل ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر/ 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔ ذر الذّرّيّة، قال تعالی: وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة/ 124] ( ذ ر ر) الذریۃ ۔ نسل اولاد ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة/ 124] اور میری اولاد میں سے بھی شحن قال تعالی: فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ [ الشعراء/ 119] ، أي : المملوء، والشَّحْنَاءُ : عداوة امتلأت منها النّفس . يقال : عدوّ مُشَاحِنٍ ، وأَشْحَنَ للبکاء : امتلأت نفسه لتهيّئه له . ( ش ح ن ) الشحن ۔ کشتی یا جہاز میں سامان لادنا بھرنا قرآن میں ہے : فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ [ الشعراء/ 119] بھری ہوئی کشتی میں ( سوار ) تھے ۔ الشحناء کینہ و عداوت جس سے نفس پر اور بھر ہوا ہو عدو مشاحن بہت سخت دشمن گویا وہ دشمنی سے پر ہے ۔ اشحن للبکاء غم سے بھر کر رونے کیلئے آمادہ ہونا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

کشتی نوح میں سوار کیا قول باری ہے (وایۃ لھم انا حملنا ذریتھم فی الفلک المشحون اور ان کے لئے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ ہم نے ان کی اولاد کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کرایا) ضحاک اور قتادہ سے مروی ہے کہ اس سے کشتی نوح مراد ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اولاد کی نسبت مخاطبین کی طرف کی گئی ہے اس لئے کہ مخاطبین بھی ان کی جنس میں سے ہیں گویا یوں فرمایا : ” ذریۃ الناس “ (لوگوں کی اولاد)

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور ان مکہ والوں کے لیے ایک نشانی یہ ہے کہ ہم نے ان کو ان کے آباء کی پشتوں میں حضرت نوح کی کشتی میں سوار کیا جو کہ سب کو لیے ہوئے پانی پر تھی اور کسی کو اس نے زمین پر باقی نہیں چھوڑا تھا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤١ { وَاٰیَۃٌ لَّہُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّیَّتَہُمْ فِی الْْفُلْکِ الْمَشْحُوْنِ } ” اور ان کے لیے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کردیا۔ “ اس بارے میں عام رائے یہی ہے کہ اس سے خاص طور پر حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی مراد ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

38 "A laden vessel" : the Ark of the Prophet Noah. As to boarding of the progeny of man in it, it means that although apparently a few companions of the Prophet Noah had boarded it, in reality all human beings who are to be born till Resurrection were boarding it; all the rest of mankind had been drowned in the Flood, all later human beings arc the children of those who were rescued in the Ark.

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :38 بھری ہوئی کشتی سے مراد ہے حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ۔ اور نسل انسانی کو اس پر سوار کر دینے کا مطلب یہ ہے کہ اس کشتی میں بظاہر تو حضرت نوح علیہ السلام کے چند ساتھی ہی بیٹھے ہوئے تھے مگر درحقیقت قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسان اس پر سوار تھے ۔ کیونکہ طوفان نوح ( علیہ السلام ) میں ان کے سوا باقی پوری اولاد آدم کو غرق کر دیا گیا تھا اور بعد کی انسانی نسل صرف انہی کشتی والوں سے چلی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

17: اولاد کا ذکر خاص طور پر اس لیے فرمایا گیا ہے کہ اہل عرب اپنی جوان اولاد کو تجارت کی غرض سے سمندری سفر پر بھیجا کرتے تھے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤١ تا ٤٤۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے مشحون کے معنے بوجھل کے بیان کئے ہیں اور قتادہ کا قول ہے کہ وہ کشتی نوح (علیہ السلام) کی ہے مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے دریا کو بھی تمہارا تا بعدار بنا دیا کہ تم اس میں اسباب کی کشتیاں لیے پھرتے ہو اگر حضرت نوح (علیہ السلام) کی اول کشتی نہ ہوتی تو دنیا میں کشتی کا رواج نہ ہوتا اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) سے وہ کشتی بنوائی جس سے کشتی کا رواج بھی پڑا اور نبی آدم کی نسل بھی آگے کو چلی ورنہ ‘ طوفان میں سب ہلاک ہوجاتے پھر فرمایا بنا دی ہم نے ان کے لیے مثل کشتی کے اور سواریاں جن پر سوار ہوتے ہیں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ من مثلہ سے مراداو نٹ ہیں وہ خشکی کی کشتیاں ہیں اس پر بوجھ بھی لادتے ہیں اور سوار بھی ہوتے ہیں مجاہد نے بھی ایسا ہی کہا ہے پھر فرمایا کہ اگر ہم چاہیں تو خشکی کشتیاں ہیں اس پر بوجھ بھی لادتے ہیں اور سوار بھی ہوتے ہیں مجاہد نے بھی ایسا ہی کہا ہے پھر فرمایا کہ اگر ہم چاہیں تو ڈبو دیں، اور کہ جو کشتیوں میں سوار ہیں پھر کوئی ان کی فریاد کو پہنچنے والا نہیں جو ان کو اس مصیبت سے نجات دے مگر ہم اپنی رحمت سے دریا اور خشکی میں سفر کراتے ہیں۔ اور ایک وقت مقرر تک تم کو ہر ایک آفت سے بچاتے ہیں ‘ ذریۃ کے معنے نسل کے بھی آتے ہیں اور جن بڑے بوڑھوں سے نسل چلتی ہے ان کو بھی ذریۃ کہتے ہیں اسی واسطے مرادی ترجمہ میں پہلے معنے لیے گئے اور باقی کے دونوں ١ ؎ ترجموں میں دوسرے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے (١ ؎ یعنی شاہ ولی اللہ کا فارسی ترجمہ ” قوم بنی آدم را “ اور شاہ رفیع الدین (رح) کا اردو لفظی ترجمہ “ باپ ان کے کو “ (ع ‘ ح) کہ اللہ تعالیٰ نافرمان لوگوں کو ایک وقت مقروہ تک مہلت دیتا ہے جب مہلت کے زمانہ میں وہ لوگ اپنی نافرمانی سے باز نہیں آتے تو ایسے کسی عذاب میں ان کو پکڑ لیتا ہے جس سے وہ پھر بچ نہیں سکتے۔ اس حدیث کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مکہ کے بڑے بڑے نافرمانوں کو اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں کے وعدہ کے موافق جنگل اور دریا کے سفروں میں وقت مقررہ تک ہر ایک آفت سے بچایا جب لوگ اپنی نافرمانی سے باز نہ آئے تو بدر کے سفر میں ان پر ایسی آفت پہنچی کہ جس سے بچ کر پھر ان کو گھر آنا نصیب نہ ہوا چناچہ اس کا قصہ صحیح بخاری ومسلم کی انس بن مالک (رض) کی روایت سے کئی جگہ گزر چکا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(36:41) انا۔ بیشک ہم۔ حرف مشبہ بفعل ہے ان اور نا ضمیر جمع متکلم سے مرکب ہے۔ ذریتہم۔ مضاف مضاف الیہ۔ ان کی ذریت یعنی ان کی اولاد۔ اصل میں چھوٹے چھوٹے بچوں کا نام ذریت ہے۔ مگر عرف میں چھوٹی اور بڑی اولاد سب کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اگرچہ اصل میں جمع ہے لیکن واحد اور جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے، ذریۃ کے بارہ میں مختلف اقوال ہیں :۔ (1) یہ ذرء سے مشتق ہے جس کے معنی پیدا کرنے اور پھیلانے کے ہیں اور اس کا ہمزہ متروک ہوگیا ہے جیسے کہ رویۃ اور بریۃ میں۔ (2) اس کی اصل ذرویۃ بروزن فعلیۃ ہے۔ اور ذر سے مشتق ہے۔ جیسے قریۃ قر سے۔ الفلک المشحون۔ موصوف وصفت، بھری ہوئی کشتی۔ الشحن کشتی یا جہاز میں سامان لادنا یا بھرنا۔ المشحون اسم مفعول واحد مذکر شحن (باب فتح۔ نصر۔ سمع) بھرنا۔ آیت کا ترجمہ ہوگا :۔ ایک نشان ان کے لئے یہ ہے کہ ہم نے ان کی اولاد کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا یہاں کشتی سے مراد خاص کشتی نہیں ہے بلکہ جنس کشتی مراد ہے ۔ بعض کے نزدیک اس سے حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی کی طرف اشارہ ہے وقیل المراد فلک نوح (علیہ الصلوۃ والسلام) (بیضاوی) ۔ الفائدہ : جیسا کہ آیت (36:33) میں بیان ہوچکا ہے کہ خطاب کفار مکہ سے چلا آرہا ہے یہاں بھی ہم ضمیر جمع مذکر غائب کا مرجع کفار مکہ ہی ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7” بھری ہوئی کشتی “ سے مراد حضرت نوح ( علیہ السلام) کی کشتی ہے اور اس میں انسانی نسل کے لانے کا مطلب یہ ہے کہ کا اس میں حضرت نوح ( علیہ السلام) اور جو ان کے ساتھی سوار تھے۔ انہی سے بعد میں نسل انسانی چلی ہے گویا اس میں قیامت تک آنے والی تمام انسانی نسل سولر تھی۔ ( کبیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : آفاق کی نشانیاں پیش کرنے کے بعد بحری نشانی کی طرف توجہ مبذول کروائی گئی ہے۔ دنیا میں بیشمار لوگ موجود رہے ہیں اور رہیں گے جو آمدروفت اور تجارت کی غرض سے بحری سفر اختیار کرتے ہیں۔ بحری سفر کرنے والے لوگوں کی حالت یہ ہے کہ جب وہ بھنور میں پھنستے ہیں تو صرف اور صرف ایک ” اللہ “ کو صدائیں دیتے ہیں۔ لیکن ساحل سمندر پر پہنچ کر شر کیہ کلمات ادا کرتے ہیں۔ کوئی خضر (علیہ السلام) کو نجات دہندہ قرار دیتا ہے اور کوئی بہاول حق کا نام لیتا ہے۔ یہاں نوح (علیہ السلام) کی کشتی کا اشارتاً ذکر فرما کر مشرکوں کے سامنے یہ حقیقت واضح کی ہے کہ قوم نوح (علیہ السلام) کی طرف دیکھیے جو ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے تھے اور ان کے سامنے سجدہ ریز ہوتے اور نذرانے پیش کرتے تھے۔ جب ان کا واسطہ ایسے طوفان کے ساتھ پڑا جس کی لہریں بلندو بالا پہاڑوں کی چوٹیوں کے ساتھ ٹکرا رہی تھیں، اوپر سے موسلا دھار بارش برس رہی تھی اور نیچے سے زمین سے چشمے جاری تھے۔ ایک طرف مشرک ڈبکیاں لے رہے تھے اور دوسری طرف حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی کشتی پر بیٹھے ہوئے اپنی قوم کا انجام دیکھ رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی کشی کے ذریعے مومنوں کو نجات دی اور مشرکوں کو ڈبکیاں دے دے کر ذلت آمیز موت کے منہ دھکیل دیا۔ نہ صرف حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی روحانی اولاد کو طوفان باد و باراں سے نجات بخشی بلکہ لوگوں کو کشتی بانی کے ہنر سے بھی سرفراز فرمایا۔ اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ سمجھ بھی عطا فرمائی کہ وہ نقل و حمل کے لیے دیگر ذرائع اختیار کرے جس میں ہر دور کے ذرائع شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ فہم کا نتیجہ ہے کہ انسان نے اپنی زبان سے نکلی ہوئی آواز سے زیادہ تیز رفتار جہاز تیار کرلیے ہیں۔ نہ معلوم کہ قیامت تک مزید کون کون سی تیز رفتار سواریاں معرض وجود میں آئیں گی۔ ذرائع آمدروفت کی نئی نئی ایجادات کا اشارہ دے کر ایک دفعہ پھر بحری سفر کرنے والوں کو یہ حقیقت باور کروائی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ انہیں غرق کرنے پر آجائے تو زمین آسمان میں کوئی ایسی طاقت نہیں جو ڈوبنے والوں کو بچا سکے۔ پھر بھی مشرک شرک کرنے سے باز نہیں آتے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ لوگوں کو مہلت دیئے جاتا ہے۔ بھری ہوئی کشتی سے مراد حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی ہے جس میں نوح (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھی سوار تھے۔ کیونکہ ان کے سوا باقی لوگوں کو غرق کردیا گیا تھا۔ اس لیے بعد کے لوگ انہی کی اولاد میں سے ہیں جن کے لیے ” ذُرِّیَّتَھُمْ “ کا لفظ بولا گیا ہے۔ اس کا یہ مفہوم لینے کی بھی گنجائش ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) پر ایمان لانے والوں میں نوجوان نسل سے تعلق رکھنے والے حضرات زیادہ تھے جس بنا پر ” ذُرِّیَّتَھُمْ “ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو طوفان سے نجات بخشی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو نقل و حمل کے لیے بہترین سواریاں بنانے کی صلاحیت عطا فرمائی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو مشرکوں کو سمندر میں غرق کر دے لیکن وہ اپنی رحمت سے لوگوں کو نجات اور مہلت دیتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کسی کو غرقاب کرنا چاہے تو زمین و آسمان میں اسے کوئی بچا نہیں سکتا۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید میں کشتیوں کا تذکرہ : ١۔ اللہ تعالیٰ نے نہروں اور کشتیوں کو مسخر فرمایا۔ (ابراہیم : ٣٢) ٢۔ کشتیوں کا غرق ہونے سے بچنا اللہ کی رحمت کا نتیجہ ہے۔ (یٰس : ٤٤) ٣۔ جب وہ کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں تو خالصتاً اللہ کو پکارتے ہیں۔ (العنکبوت : ٦٥) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے زمین کی ہر چیز مسخر کردی، اور کشتیاں دریاؤں میں اسی کے حکم سے چلتی ہیں۔ (الحج : ٦٥) ٥۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ کشتیاں سمندروں میں اللہ کے فضل سے چلتی ہیں۔ (لقمان : ٣١) ٦۔ اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہارے لیے دریاؤں کو مسخر کردیا تاکہ کشتیاں اس کے حکم سے رواں دواں ہوں۔ (الجاثیہ : ١٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وایۃ لھم انا۔۔۔۔۔ الی حین (41 – 44) ۔ یہاں سیاق کلام میں ایک نہایت ہی لطیف مناسبت ہے ۔ ستارے اور سیارے بلند فضائے کا ئناتی میں تیر رہے ہیں اور کشتی اولاد آدم سے بھری ہے اور وہ پانیوں میں تیررہی ہے ۔ ان دونوں مناظر کے اندر ظاہری نسبت بھی ہے ، رفتار کی مناسبت بھی ہے ، اور یہ ربط بھی ہے کہ ان دونوں کو اللہ نے مسخر کرلیا ہے ۔ اور اللہ نے آسمانوں اور زمینوں کے اندر اپنی قدرت سے ان کو تھام رکھا ہے ۔ یہ دونوں مناظر انسانوں کی نظروں کے سامنے ہیں لیکن انسان ان پر غور نہیں کرتے۔ اگر انسان اپنے قلب کو کھول دے اور اپنے دماغ کو وسعت دے تو ان اور امور و تدبر کرکے وہ بڑی سہولت سے اللہ کی نشانیوں کو پاسکتا ہے ۔ بھری ہوئی کشتی سے مراد شاید کشتی نوح ہو جس نے اولاد آدم کو اٹھایا اور اس کے بعد اللہ نے ان کے لیے ایسی ہی دوسری کشتیاں پیدا کیں جو انسانوں کو اٹھا کر چلتی ہیں اور ان دونوں کو اللہ کے ان قوانین قدرت نے چلایا جو اس نے اس کائنات میں ودیعت کیے کہ کشتی پانیوں کی سطح پر تیررہی ہے ۔ سیارے آسمانوں کی فضاؤں میں تیر رہے ہیں اور لکڑی ، پانی اور ہوا ، بخارات یا ایٹمی قوت پیدا کی جس کی وجہ سے یہ بڑے بڑے جہاز چلتے ہیں ۔ یہ سب امور تقدپر الہٰی کے مطابق ہیں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کشتی اللہ کی نعمت ہے، اللہ تعالیٰ حفاظت فرماتا ہے اور ڈوبنے سے بچاتا ہے ان آیات میں کشتی کی سواری کا ذکر ہے، کشتیوں کا دریاؤں میں چلنا (مطلق کشتی ہر چھوٹے بڑے جہاز کو شامل ہے) انسانوں کا ان پر سوار ہونا اور سامان لادنا، ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک سفر کرنا اس میں اللہ تعالیٰ کا انعام عظیم بھی ہے اور قدرت قاہرہ پر دلالت بھی ہے۔ کشتی کی سواری کے ساتھ یوں بھی فرما دیا۔ (وَخَلَقْنَا لَہُمْ مِّنْ مِّثْلِہٖ مَا یَرْکَبُوْنَ ) (اور ہم نے ان کے لیے کشتی جیسی ایسی چیزیں پیدا فرمائیں جن پر یہ لوگ سوار ہوتے ہیں) یہ سواریاں گھوڑے، خچر اور گدھے ہیں جن کا سورة النحل میں ذکر ہے (وَّالْخَیْلَ وَ الْبِغَالَ وَ الْحَمِیْرَ لِتَرْکَبُوْھَا وَ زِیْنَۃً ) اور اب تو ریل گاڑی اور پٹرول سے چلنے والی گاڑیاں اور ہوائی جہاز بھی سواریوں کا کام دے رہے ہیں اور بوجھ بھی لے جاتے ہیں۔ سورة النحل میں ان نئی سواریوں کی بلکہ ان کے بعد جو سواریاں پیدا ہوں گی ان کے بارے میں پیش گوئی فرما دی (وَیَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ) (اور اللہ وہ چیزیں پیدا فرمائے گا جو تم نہیں جانتے۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

28:۔ وایۃ لہم انا الخ :۔ یہ چوتھی عقلی دلیل ہے۔ یہ بھی اللہ کی وحدانیت اور قدرت کاملہ کی دلیل ہے کہ ہم ان کو آدمیوں سے بھرپور کشتیوں میں سوار کر کے دریاؤں اور سمندروں سے صحیح سلامت پار اتارتے ہیں اور کشتیوں کے مانند اور بھی کئی چیزیں ہم نے ان کی سواری کیلئے پیدا کی ہیں اگر ہم چاہیں تو ان کو غرق کردیں اس وقت ان کے مزعومہ کارساز ان کی فریاد رسی نہ کرسکیں اور نہ انہیں غرق ہونے سے بچا سکیں مگر یہ کہ ہم خود ہی اپنی مہربانی سے ان کو بچا لیں اور ایک معین وقت (وقت موت) تک انہیں دنیوی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کی مہلت دیدیں۔ من مثلہ ما یرکبون سے مراد اونٹ ہیں جو خشکی میں سواری کے لیے پیدا کیے۔ روی عن ابن عباس ان معنی من مثلہ للابل خلقہا لہم للرکوب فی البر مثل السفن المرکوبۃ فی البحر (قرطبی ج 15 ص 35) ۔ حضرت شیخ (رح) فرماتے ہیں سیاق آیت کی روشنی میں ممکن ہے کہ من مثلہ سے ٹلے (تلے) مراد ہوں۔ یعنی سرکنڈوں کے گٹھے جنہیں رسیوں سے مضبوط باندھ لیا جاتا ہے اور ان کے ذریعے سے تیر کر دریا کو عبور کرلیا جاتا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(41) اور ان کے لئے قدرت خداوندی کی ایک قدرت اور نشانی یہ ہے کہ ہم نے ان کی اولاد کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کردیا۔