Surat Yaseen

Surah: 36

Verse: 46

سورة يس

وَ مَا تَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ اٰیَۃٍ مِّنۡ اٰیٰتِ رَبِّہِمۡ اِلَّا کَانُوۡا عَنۡہَا مُعۡرِضِیۡنَ ﴿۴۶﴾

And no sign comes to them from the signs of their Lord except that they are from it turning away.

اور ان کے پاس تو ان کے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ایسی نہیں آتی جس سے یہ بے رخی نہ برتتے ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمَا تَأْتِيهِم مِّنْ ايَةٍ مِّنْ ايَاتِ رَبِّهِمْ ... And never came an Ayah from among the Ayat of their Lord to them, meaning, signs of Tawhid and the truth of the Messengers, ... إِلاَّ كَانُوا عَنْهَا مُعْرِضِينَ but they did turn away from it, means, they did not accept it or benefit from it.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

46۔ 1 یعنی توحید اور صداقت رسول کی نشانی بھی ان کے سامنے آتی، اس میں یہ غور ہی نہیں کرتے کہ جس سے ان کو فائدہ ہو، ہر نشانی سے اعراض ان کا شیوہ ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٤٥] نشانی سے مراد خرق عادت یا معجزہ بھی ہوسکتا ہے اور قرآن کی آیات بھی کہ قرآن کی ہر آیت بذات خود ایک معجزہ ہے۔ اور آفاق وانفس کی آیات بھی یعنی جب بھی کوئی نشانی ان کے سامنے آتی یا لائی جاتی ہے تو اس میں غور و فکر کرنا بلکہ اسے توجہ سے سننا یا دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَا تَاْتِيْهِمْ مِّنْ اٰيَةٍ : یعنی صرف اس نصیحت ہی سے نہیں، ان کے پاس ان کے رب کی آیات میں سے جو آیت بھی آتی ہے وہ اس سے منہ پھیر لیتے ہیں، خواہ وہ ان کی ذات یا پوری کائنات میں پھیلی ہوئی آیات اور نشانیاں ہوں اور خواہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ آیات ہوں۔ چناچہ وہ نہ اس کی توحید کو مانتے ہیں اور نہ اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا تَاْتِيْہِمْ مِّنْ اٰيَۃٍ مِّنْ اٰيٰتِ رَبِّہِمْ اِلَّا كَانُوْا عَنْہَا مُعْرِضِيْنَ۝ ٤٦ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ «5» ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ «6» . والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل/ 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل/ 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر/ 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر : 5- أتيت المروءة من بابها «7» فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء/ 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) «1» فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم/ 27] . يقال : أتيته وأتوته الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو { أَتَى أَمْرُ اللَّهِ } [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ { فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ } [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت { وَجَاءَ رَبُّكَ } [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) |" اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ { وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى } [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ { يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ } [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ { لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا } [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ اعرض وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ ( ع ر ض ) العرض اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء/ 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور ان کفار مکہ کے پاس ان کے پروردگار کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ایسی نہیں آئی جس کی یہ تکذیب نہ کرتے ہوں جیسا کہ انشقاق قمر کسوف شمس بعثت رسول اکرم اور نزول کریم۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٦ { وَمَا تَاْتِیْہِمْ مِّنْ اٰیَۃٍ مِّنْ اٰیٰتِ رَبِّہِمْ اِلَّا کَانُوْا عَنْہَا مُعْرِضِیْنَ } ” اور نہیں آتی ان کے پاس کوئی نشانی ان کے رب کی نشانیوں میں سے مگر یہ اس سے اعراض ہی کرتے ہیں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

42 "Revelations" : Verses of the Divine Book by which man is admonished, and the Signs which are found in the universe and in man's own self and in his history which serve as object lessons for man, provided he is inclined to learn any lesson.

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :42 آیات سے مراد کتاب اللہ کی آیات بھی ہیں جن کے ذریعہ سے انسان کو نصیحت کی جاتی ہے ، اور وہ آیات بھی مراد ہیں جو آثار کائنات اور خود انسان کے وجود اور اس کی تاریخ میں موجود ہیں جو انسان کو عبرت دلاتی ہیں ، بشرطیکہ وہ عبرت حاصل کرنے کے لیے تیار ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(36:46) وما تاتیہم من ایۃ من ایت ربہم۔ وائو عاطفہ ہے ما نافیہ ہے تاتی مضارع واحد مؤنث غائب ہم ضمیر جمع مذکر غائب جس کا مرجع کفار مکہ ہیں۔ من زائدہ ہے۔ اور تاکید کے لئے لایا گیا ہے من ایت میں من تبعیضیہ ہے ایت مضاف ہے ربہم مضاف مضاف الیہ مل کر ایت کا مضاف الیہ ہے ان کے رب کی آیات ترجمہ ہوگا : اور ان کے پروردگار کی نشانیوں میں سے کوئی بھی نشانی (ایسی ) ان کے پاس آئی۔ الا کانوا عنھا معرضین۔ الا حرف استثناء کانوا معرضین ماضی استمراری معرضین اسم فاعل جمع مذکر منصوب بوجہ خبر کانوا۔ عنھا میں ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع ایۃ ہے ! مگر یہ کہ وہ اس سے روگردانی ہی کیا کرتے تھے۔ آیت ہذا سابق آیت کی علت غایت کے طور پر ذکر کی گئی ہے۔ آیت (6:4) میں بھی یہی الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 آیات سے مراد قرآن حکیم کی آیات بھی ہوسکتی ہے اور وہ عام نشانات قدرت بھی جو لوگوں کے اپنے اندر اور باہر دوسری کائنات میں پائے جاتے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

واذا قیل لھم۔۔۔۔ عنھا معرضین (36: 45 – 46) ” ان لوگوں سے جب کہا جاتا ہے کہ بچو اس انجام سے جو تمہارے آگے آرہا ہے اور تمہارے پیچھے گزر چکا ہے ، شاید کہ تم پر رحم کیا جائے (تو یہ سنی ان سنی کر جاتے ہیں) ۔ ان کے سامنے ان کے رب کی آیات میں سے جو آیت بھی آتی ہے ، یہ اس کی طرف التفات نہیں کرتے “۔ اور اگر ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ تم اپنی دولت میں سے کچھ فقراء پر بھی خرچ کرو تو وہ مزاح کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ انطعم من ۔۔۔۔۔ ضلل مبین (36: 48) ” کیا ہم ان کو کھلائیں جنہیں اگر اللہ چاہتا تو خود کھلاتا ؟ تم تو بالکل ہی بہک گئے ہو “۔ مزاح کے علاوہ یہ لوگ ان لوگوں پر گمراہی کا الزام لگاتے جو ان کو دعوت انفاق دیتے ہیں۔ ان لوگوں کے اس انداز گفتگو سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ لوگ انسانوں کی زندگی میں جاری وساری سنن الہیہ سے بالکل بےبہرہ ہیں۔ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ ہی سب کو کھلاتا ہے۔ اللہ ہی سب کا رازق ہے۔ زمین میں بندوں کے پاس جو دولت اور جو رزق ہے وہ اللہ ہی کا تخلیق کردہ ہے۔ انسانوں نے خود تو اپنے لیے کچھ پیدا کیا ہی نہیں ، اور نہ وہ کسی ایک چیز کی تخلیق پر قدرت رکھتے ہیں۔ لیکن اللہ کی مشیت یہ ہے کہ اس زمین کو انسان آباد کریں۔ اس لیے اللہ نے لوگوں کو ضروریات کا محتاج کیا۔ یہ ضروریات لوگوں کو صرف ان کی جہد اور سعی سے ۔۔ سکتی ہیں۔ زمین کے اندر زراعت کا انتظام صنعتوں کا انتظام پھر زمین کے خزانوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا انتظام ۔ پھر ان اشیاء کی سپلائی اور خریدو فروخت مختلف زمانوں میں مختلف طریقوں سے۔ یہ سب انتظامات اللہ نے کیے۔ پھر لوگ اپنی قابلیت اور صلاحیت کے اعتبار سے مختلف اور متفاوت ہیں اور اللہ اپنی مشیت کے مطابق مختلف لوگوں کو مختلف صلاحیتیں دیں اور یہ اس لیے تاکہ انسان مل کر خلافت ارضی کے فرائض سر انجام دیں۔ انسان کی صلاحیتوں کے اندر تفاوت صرف مال اور دولت جمع کرنے ہی میں نہیں ہے۔ بلکہ بعض اوقات انسان دوسری ضروریات میں مصروف ہوتے ہیں اور یہ دوسرے میدان بھی خلاف ارضی کا تفاضا ہوتے ہیں۔ اس لیے بعض انسان مال دولت جمع کے کام کے لیے فارغ ہی نہیں ہوتے اور مالی لحاظ سے محتاج ہوتے ہیں۔ ایک طرف انسان کے منصب خلافت ارضی کے وسیع تقاضے ہوتے ہیں اور دوسری طرف ان تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے صلاحیتیں ہوتی ہیں ۔ اور ان صلاحیتوں کے مطابق پھر انسانوں کے درمیان ضروریات اور منافع کا لین دین ہوتا ہے۔ لوگوں کے درمیان مقابلہ اور حصہ رسدی کا تعین ہوتا ہے۔ یہ ایک وسیع معاشی نظام ہے جس کی بیشمار کڑیاں ہیں اور ہر کڑی دوسری سے ملی ہوئی ہے بلکہ اس کا تعلق نسلوں سے بھی ہے۔ یعنی نسلا بعد نسل ایسے اسباب ہوتے ہیں جو لوگوں کی معاشی جدوجہد پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ غرض معاشیات کے میدان میں مختلف اور متنوع اسباب کی بنا پر اللہ سے لوگوں کے درمیان دولت اور ان کے رزق میں تفاوت رکھی۔ یہ تفاوت اپنی حقیقت کے اعتبار سے تو اس لیے رکھی گئی ہے کہ انسان خلافت ارضی کے منصب کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اس زمین کی تعمیر و ترقی میں کوشاں رہے لیکن اس تفاوت کو حد اعتدال میں رکھنے کے لیے اسلام نے بعض انفرادی محرومیوں کا مداوا بھی کیا ہے۔ وہ یہ کہ اہل ثروت پر لازم ہے کہ وہ اپنی دولت کا ایک حصہ فقراء اور محرومین کے لیے نکالیں۔ اور معاشرے کے اندر کوئی ایک فرد بھی ایسا نہ رہے جو بنیادی معاشی ضروریات سے محروم ہو۔ ان انتظامات کی وجہ سے اغنیاء اور فقراء کی اخلاقی اور نفسیاتی اصلاح ہوجاتی ہے۔ اس انفاق کے لیے اسلام زکوٰۃ لیتا ہے اور زکوٰۃ کے لغوی مفہوم میں طہارت کے معنی شامل ہیں۔ گویا یہ انفاق طہارت مال بھی ہے اور عبادت بھی۔ اور اس کے ذریعے اللہ نے فقراء اور اغنیاء کے درمیان محبت اور دوستی کا رشتہ بھی استوار کردیا ہے۔ لہٰذا ان لوگوں کا جو حکمت خداوندی کے سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے : کہنا ، انطعم من لو شاء اللہ اطعمہ (36: 47) ” کیا ہم کو ان کو کھلائیں جنہیں اگر اللہ چاہتا تو خود کھلا دیتا ؟ “ اور اس پر مزید پھر ان کی جانب سے انفاق کی دعوت دینے والوں پر یہ الزام ان انتم الا فی ضلل مبین (36: 47) ” تم تو بالکل ہی بہک گئے ہو “۔ دراصل حقیقی گمراہی ہے ۔ اور یہ لوگ اس کائنات میں جاری سنن الہیہ سے بیخبر ہیں۔ اور یہ لوگ اس جہاں میں زندگی کی حقیقی چلن اور اس کے متنوع معاشی اسباب سے بھی بیخبر ہیں۔ پھر اس جہاں میں اللہ نے جن مقاصد کی خاطر لوگوں کو متنوع صلاحیتیں دی ہیں اور جن کے نتیجے میں لوگ مختلف کام کرتے ہیں اور اس کی وجہ سے پھر سامان زیست کا تبادلہ ہوتا ہے اور دنیا کا معاشی نظام چل رہا ہے۔ یہ لوگ اس سے بھی واقف نہیں ہیں۔ اسلام ایک ایسا نظام معیشت وضع کرتا ہے جس کے اندر تمام لوگوں کو کام کرنے کے آزادانہ مواقع حاصل ہوتے ہیں ۔ اس کے بعد اسلامی نظام تمام لوگوں کے مختلف قسم کے کام کرنے کے آزادانہ مواقع فراہم بھی کرتا ہے۔ اور لوگ اس طرح پاک اور صاف زندگی بسر کرتے ہیں اور اس کے بعد اپنے عملی اقدامات سے معاشی ناہمواریوں کے حل کے لیے خصوصی اقدامات بھی کرتے ہیں۔ سب سے آخر میں بات ان کے اس خلجان پر ہوتی ہے۔ جو انہیں بعث بعد الموت کے سلسلے میں تھا۔ اور جس کی وجہ سے وہ اس قسم کا عقیدہ رکھنے والوں کا مذاق اڑاتے تھے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَمَا تَاْتِیْہِمْ مِّنْ اٰیَۃٍ مِّنْ اٰیٰتِ رَبِّہِمْ اِِلَّا کَانُوْا عَنْہَا مُعْرِضِیْنَ ) (اور ان کے پاس ان کے رب کی نشانیوں میں سے جو بھی نشانی آتی ہے اس سے اعراض کرنے والے بن جاتے ہیں۔ ) یہ تو ان کا معاملہ عقیدہ توحید کے ساتھ ہوا جسے وہ قبول کرنے کو تیار نہیں۔ آگے مالی انعامات ہوتے ہوئے جو کنجوسی اور ناشکری کرتے تھے اس کا تذکرہ فرمایا کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ اللہ نے تمہیں دیا ہے اس میں سے مسکینوں اور حاجت مندوں پر خرچ کرو، تو خرچ کرنے کی بجائے شرارت سے اور مذاق اڑانے کی نیت سے کافروں نے یوں کہا کیا ہم ان لوگوں کو کھلائیں جو تمہارے ساتھ ایمان قبول کرچکے ہیں اللہ چاہے تو انہیں کھلا دے ان کا مطلب یہ تھا کہ تم کہتے ہو کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی رزق دینے والا ہے تو بس وہی انہیں رزق دیدے گا۔ ان لوگوں نے یہ بھی کہا کہ تم جو ہمیں خرچ کرنے کو کہہ رہے ہو، یہ کھلی ہوئی گمراہی ہے۔ کفار بھی یہ بات مانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہی رزق دینے والا ہے اور کھلانے والا ہے لیکن اس بات کو انہوں نے بطور طنز کے ذکر کیا اور مقصد ان کا یہ تھا کہ تم تو یوں کہتے ہو کہ جسے اللہ تعالیٰ چاہے کھلا دے تو اپنے قول کے مطابق اللہ تعالیٰ ہی سے مانگ لو اور انہیں کھلا دو ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

30:۔ وما تاتیہم الخ :۔ ان کی عادت ہی یہی ہے کہ جب بھی انہیں اللہ کی آیتیں، جو اس کی توحید اور کمال قدرت پر دلالت کرتی ہیں، سنائی جاتی ہیں تو وہ ان سے اعراض کرتے ہیں۔ اور ان میں غور و فکر کر کے انہیں سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ ای ما ظہرت لہم ایۃ من الایات التی من جملتہا ما ذکر من شئونہ تعالیٰ الشاھدۃ بوحدانیتہ سبحانہ وتفردہ تعالیٰ بالالوھیۃ الا کانوا عنہا معرضین تارکین النظر الصیح فیہا المؤدی الی الایمان بہ عزو جل (روح ج 23 ص 29) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(46) اور ان کے پروردگار کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی اور ان کے پروردگار کے احکام میں سے کوئی حکم ان کے پاس نہیں آتا مگر یہ کہ وہ اس سے روگردانی کرتے ہیں اور منہ پھیر لیتے ہیں۔ یعنی ان کے عناد اور سرکشی کا یہ عالم ہے کہ جو حکم بھی ان کو دیا جاتا ہے اس سے ہی اعراض اور روگردانی کرتے ہیں۔