Surat Yaseen

Surah: 36

Verse: 47

سورة يس

وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ اَنۡفِقُوۡا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ ۙ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنُطۡعِمُ مَنۡ لَّوۡ یَشَآءُ اللّٰہُ اَطۡعَمَہٗۤ ٭ۖ اِنۡ اَنۡتُمۡ اِلَّا فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۴۷﴾

And when it is said to them, "Spend from that which Allah has provided for you," those who disbelieve say to those who believe, "Should we feed one whom, if Allah had willed, He would have fed? You are not but in clear error."

اور ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالٰی کے دیئے ہوئے میں سے کچھ خرچ کرو ، تو یہ کفار ایمان والوں کو جواب دیتے ہیں کہ ہم انہیں کیوں کھلائیں؟ جنہیں اگر اللہ تعالٰی چاہتا تو خود کھلا پلا دیتا ، تم تو ہو ہی کھلی گمراہی میں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ أَنفِقُوا مِمَّا رَزَقَكُمْ اللَّهُ ... And when it is said to them: "Spend of that with which Allah has provided you," means, when they are told to spend of that which Allah has provided to them on the poor and needy among the Muslims, ... قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ امَنُوا ... those who disbelieve say to those who believe, means, about the believers who are poor, i.e., they say to those believers who tell them to spend on the needy, ... أَنُطْعِمُ مَن لَّوْ يَشَاء اللَّهُ أَطْعَمَهُ ... Shall we feed those whom, if Allah willed, He (Himself) would have fed, meaning, `those whom you are telling us to spend on, if Allah had wanted to, He would have made them independent and fed them from His provision, so we are in accordance with the will of Allah with regard to them. ... إِنْ أَنتُمْ إِلاَّ فِي ضَلَلٍ مُّبِينٍ You are only in a plain error. means, `by telling us to do that.'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

47۔ 1 یعنی غربا مساکین اور ضرورت مندوں کو دو ۔ 47۔ 2 یعنی اللہ چاہتا تو ان کو غریب ہی نہ کرتا، تاہم ان کو دے کر اللہ کی مشیت کے خلاف کیوں کریں۔ یعنی یہ کہہ کر، غربا کی مدد کرو، کھلی غلطی کا مظاہرہ کر رہے ہو۔ یہ بات تو ان کی صحیح تھی کہ غربت و ناداری اللہ کی مشیت ہی سے تھی، لیکن اس کو اللہ کے حکم سے اعراض کا جواز بنا لینا غلط تھا، آخر انکی امداد کرنے کا حکم دینے والا بھی تو اللہ ہی تھا، اس لیے اسکی رضا تو اسی میں ہے کہ غرباء و مساکین کی امداد کی جائے۔ اس لیے کہ مشیت اور چیز ہے اور رضا اور چیز مشیت کا تعلق امور تکوینی سے ہے جس کے تحت جو کچھ بھی ہوتا ہے، اس کی حکمت و مصلحت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور رضا کا تعلق امور تشریعی سے ہے، جن کو بجا لانے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے تاکہ ہمیں اس کی رضا حاصل ہو۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٤٦] مشیئت کا سہارا اس وقت لیا جاتا ہے جب جرم اپنا ہو :۔ یہ ہے ان کج بحث اور ہٹ دھرم لوگوں کی && خوے بدرا بہانہ بسیار && والی بات یعنی وہ خوب جانتے ہیں کہ غریبوں کی مدد کرنا بڑا اچھا اور نیک کام ہے۔ امیری ہو یا غریبی اللہ ہر حال میں سب کی آزمائش کرتا ہے۔ امیروں کی اس طرح کہ وہ غریبوں کو کچھ دیتے ہیں یا نہیں اور غریبوں کی اس طرح کہ وہ اس حال میں صبر اور اللہ کا شکر کرتے ہیں یا نہیں۔ اصل مشیئت تو اللہ کی یہ ہے کہ کسی کو امیر اور کسی کو غریب بنا کر دونوں کی آزمائش کرے جبکہ ان لوگوں کا استدلال یہ ہے کہ اگر اللہ چاہتا تو انہیں خود ہی اپنے پاس سے دے دیتا۔ اور ان کی واضح گمراہی یا ان کا یہ استدلال باطل اسی لحاظ سے ہے کہ مشیئت الٰہی کا سہارا اس وقت لیتے ہیں جب یہ خود مجرم ہوں اور جب کوئی دوسرا مجرم ہو اور ان کی حق تلفی ہو رہی ہو تو کبھی مشیئت الٰہی کا سہارا نہ لیں گے۔ مثلاً اگر کوئی ڈاکو ان سے مال چھین لے جائے تو اس وقت اس کے خلاف پوری چارہ جوئی کریں گے اور اس وقت کبھی نہ کہیں گے کہ ڈاکو کا کوئی قصور نہیں یا ہمیں سب کچھ برداشت کرلینا چاہئے کیونکہ اللہ کی مشیئت یہی تھی۔ واضح رہے کہ یہ مطلب اس لحاظ سے ہوگا جب ( إنْ أنْتُمْ الاَّ فِیْ ضَلاَلٍ مُّبِیْنٍ ) کو اللہ کا فرمان سمجھا جائے۔ اور اگر اس جملہ کو صدقہ نہ دینے والے کافروں کا کلام سمجھا جائے اور اس کے مخاطب مسلمان ہوں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ مسلمانو ! تمہاری گمراہی بڑی واضح ہے کہ جن لوگوں کا اللہ پیٹ بھرنا نہیں چاہتا تم ایسے لوگوں کا پیٹ بھرنا چاہتے ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ : یعنی جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو کچھ دیا ہے، اس میں فقراء اور مساکین کے جو حقوق ہیں وہ بھی ادا کرو، تو جواب یہ دیتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہوتا تو وہ ان فقراء و مساکین کو خود ہی دے دیتا۔ جب اللہ تعالیٰ ہی کا ارادہ انھیں دینے کا نہیں تو ہم انھیں کیوں دیں ؟ تم مسلمان تو صاف گمراہی میں پڑے ہوئے ہو کہ ایسے لوگوں کا پیٹ بھرنا چاہتے ہو جن کا پیٹ اللہ نہیں بھرنا چاہتا۔ مشرکین کی یہ بات محض کٹ حجتی ہے، کیونکہ وہ خود بھی خوب جانتے تھے کہ غریبوں کی مدد کرنا بہت اچھا کام ہے۔ رہا اللہ کے چاہنے کا بہانہ، تو یہ محض اپنی بخیلی چھپانے کے لیے ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا امتحان ہی کے لیے بنائی ہے، فقیری اور امیری دونوں آزمائشیں ہیں، فقیر کی آزمائش صبر سے ہے اور غنی کی اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے سے۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی مشیّت یعنی اس کے چاہنے کا سہارا صرف اس وقت تک لیتے ہیں جب تک خود مجرم ہوں۔ جب کوئی دوسرا مجرم ہو اور ان کی حق تلفی ہو رہی ہو تو کبھی اللہ کی مشیّت کا سہارا نہیں لیں گے۔ مثلاً اگر کوئی ڈاکو ان کا مال چھین لے، یا ان کا آدمی قتل کر دے تو کبھی یہ کہہ کر خاموش نہیں ہوں گے کہ اللہ نے ایسے ہی چاہا، اس لیے ٹھیک ہوگیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار و مشرکین کو صرف توحید و رسالت ہی کی دعوت نہیں دیتے تھے، بلکہ نماز، زکوٰۃ اور دوسری نیکیوں کا حکم بھی دیتے تھے، جیسا کہ حدیث ہرقل میں ہے کہ ہرقل نے ابوسفیان سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق پوچھا : ” وہ تمہیں کس بات کا حکم دیتے ہیں ؟ “ تو ابو سفیان نے بتایا : ( یَأْمُرُنَا بالصَّلَاۃِ وَالزَّکَاۃِ وَالصِّلَۃِ وَالْعَفَافِ ) ” وہ ہمیں نماز، زکوٰۃ، صلہ رحمی اور پاک دامنی کا حکم دیتے ہیں۔ “ [ بخاري، التفسیر، باب : ( قل یا أھل الکتاب تعالوا۔۔ ) : ٤٥٥٣ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا قِيْلَ لَہُمْ اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللہُ۝ ٠ ۙ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنُطْعِمُ مَنْ لَّوْ يَشَاۗءُ اللہُ اَطْعَمَہٗٓ۝ ٠ ۤۖ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۝ ٤٧ نفق نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] ( ن ف ق ) نفق ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔ رزق الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، ( ر ز ق) الرزق وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ طعم الطَّعْمُ : تناول الغذاء، ويسمّى ما يتناول منه طَعْمٌ وطَعَامٌ. قال تعالی: وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة/ 96] ، قال : وقد اختصّ بالبرّ فيما روی أبو سعید «أنّ النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمر بصدقة الفطر صاعا من طَعَامٍ أو صاعا من شعیر» «2» . قال تعالی: وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة/ 36] ، طَعاماً ذا غُصَّةٍ [ المزمل/ 13] ، طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان/ 44] ، وَلا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ [ الماعون/ 3] ، أي : إِطْعَامِهِ الطَّعَامَ ، فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا [ الأحزاب/ 53] ، وقال تعالی: لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ جُناحٌ فِيما طَعِمُوا [ المائدة/ 93] ، قيل : وقد يستعمل طَعِمْتُ في الشّراب کقوله : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي[ البقرة/ 249] ، وقال بعضهم : إنّما قال : وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ تنبيها أنه محظور أن يتناول إلّا غرفة مع طَعَامٍ ، كما أنه محظور عليه أن يشربه إلّا غرفة، فإنّ الماء قد يُطْعَمُ إذا کان مع شيء يمضغ، ولو قال : ومن لم يشربه لکان يقتضي أن يجوز تناوله إذا کان في طَعَامٍ ، فلما قال : وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ بَيَّنَ أنه لا يجوز تناوله علی كلّ حال إلّا قدر المستثنی، وهو الغرفة بالید، وقول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم في زمزم : «إنّه طَعَامُ طُعْمٍ وشِفَاءُ سُقْمٍ» «3» فتنبيه منه أنه يغذّي بخلاف سائر المیاه، واسْتَطْعَمَهُ فَأْطْعَمَهُ. قال تعالی: اسْتَطْعَما أَهْلَها[ الكهف/ 77] ، وَأَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ [ الحج/ 36] ، وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ [ الإنسان/ 8] ، أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ [يس/ 47] ، الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ [ قریش/ 4] ، وَهُوَ يُطْعِمُ وَلا يُطْعَمُ [ الأنعام/ 14] ، وَما أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ [ الذاریات/ 57] ، وقال عليه الصلاة والسلام : «إذا اسْتَطْعَمَكُمُ الإمامُ فَأَطْعِمُوهُ» «1» أي : إذا استفتحکم عند الارتیاج فلقّنوه، ورجلٌ طَاعِمٌ: حَسَنُ الحالِ ، ومُطْعَمٌ: مرزوقٌ ، ومِطْعَامٌ: كثيرُ الإِطْعَامِ ، ومِطْعَمٌ: كثيرُ الطَّعْمِ ، والطُّعْمَةُ : ما يُطْعَمُ. ( ط ع م ) الطعم ( س) کے معنی غذا کھانے کے ہیں ۔ اور ہر وہ چیز جو بطورغذا کھائی جائے اسے طعم یا طعام کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة/ 96] اور اس کا طعام جو تمہارے فائدہ کے لئے ۔ اور کبھی طعام کا لفظ خاص کر گیہوں پر بولا جاتا ہے جیسا کہ ابوسیعد خدری سے ۔ روایت ہے ان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امر بصدقۃ الفطر صاعا من طعام اوصاعا من شعیر ۔ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقہ فطر میں ایک صحابی طعام یا ایک صاع جو د ینے کے حکم دیا ۔ قرآن میں ہے : وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة/ 36] اور نہ پیپ کے سوا ( اس کے ) لئے کھانا ہے ۔ طَعاماً ذا غُصَّةٍ [ المزمل/ 13] اور گلوگیرکھانا ہے ۔ طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان/ 44] گنہگار کا کھانا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَلا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ [ الماعون/ 3] اور فقیر کو کھانا کھلانے کے لئے لوگوں کو ترغیب نہیں دیتا ۔ میں طعام بمعنی اوطعام یعنی کھانا کھلانا کے ہے فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب/ 53] اور جب کھانا کھا چکو تو چل دو لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ جُناحٌ فِيما طَعِمُوا[ المائدة/ 93] جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے اور انپر ان چیزوں کا کچھ گناہ نہیں جو وہ کھاچکے ۔ بعض نے کہا ہے کہ کبھی طعمت بمعنی شربت آجاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي[ البقرة/ 249] جو شخص اس میں سے پانی پی لے گا توہ وہ مجھ دے نہیں ہے اور جو شخص اس سے پانی نہ پیے گا ( اس کی نسبت تصور کیا جائے گا کہ ) میرا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں من لم یشربہ بجائے ومن لم یطعمہ کہہ کر اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جس طرح چلو بھر سے زیادہ محض پانی کا استعمال ممنوع ہے اسی طرح طعام کے ساتھ بھی اس مقدار سے زائد پانی پینا ممنوع ہے کیونکہ جو پانی کھانے کے ساتھ پیاجاتا ہے اس پر بھی طعمت کا لفظ بولا جاسکتا ہے ۔ لہذا اگر من لمیشربہ لایا جاتا تو اس سے کھانے کے ساتھ پانی پینے کی ممانعت ثابت نہ ہوتی اس کے برعکس یطعمہ کے لفظ سے یہ ممانعت بھی ثابت ہوجاتی اور معین مقدار سے زائد پانی کا پینا بہر حالت ممنوع ہوجاتا ہے ۔ اور ایک حدیث (20) میں آنحضرت نے زم زم کے پانی کے متعلق انہ طعام طعم و شفاء سقم ( کہ یہ کھانے کا کھانا اور بیماری سے شفا ہے ) فرماکر تنبیہ کی ہے کہ بیر زمزم کے پانی میں غذائیت بھی پائی جاتی ہے جو دوسرے پانی میں نہیں ہے ۔ استطعمتہ فاطعمنی میں نے اس سے کھانا مانگا چناچہ اس نے مجھے کھانا کھلایا ۔ قرآن میں ہے : اسْتَطْعَما أَهْلَها[ الكهف/ 77] اور ان سے کھانا طلب کیا ۔ وَأَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ [ الحج/ 36] اور قناعت سے بیٹھے رہنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ [ الإنسان/ 8] اور وہ کھانا کھلاتے ہیں أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ [يس/ 47] بھلا ہم ان لوگوں کو کھانا کھلائیں جن کو اگر خدا چاہتا تو خود کھلا دیتا ۔ الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ [ قریش/ 4] جس نے ان کو بھوک میں کھانا کھلایا ۔ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلا يُطْعَمُ [ الأنعام/ 14] دہی سب کو کھانا کھلاتا ہے اور خود کسی سے کھانا نہیں لیتا ۔ وَما أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ [ الذاریات/ 57] اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ مجھے کھانا کھلائیں ۔ اور (علیہ السلام) نے فرمایا (21) اذا استطعمکم الامام فاطعموہ یعنی جب امام ( نماز میں ) تم سے لقمہ طلب کرے یعنی بھول جائے تو اسے بتادو ۔ رجل طاعم خوش حال آدمی رجل مطعم جس کو وافروزق ملا ہو مطعم نیک خورندہ ۔ مطعام بہت کھلانے والا ، مہمان نواز طعمۃ کھانے کی چیز ۔ رزق ۔ شاء والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] . ( ش ی ء ) الشیئ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور جب ان مکہ والوں سے فقراء مومنین کے لیے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ تمہیں اللہ نے مال دیا ہے اس میں سے ان فقراء پر خرچ کرو تو یہ کفار مکہ ان فقراء مومنین کے بارے میں یوں کہتے ہیں کیا ہم ایسے ولگوں کو کھانے کو دیں جن کو اگر اللہ چاہے تو خود کھانے کو دے دے۔ اے گروہ مومنین تم تو کھلی غلطی میں گرفتار ہو یا یہ کہ قول اہل ایمان کا ہے کہ انہوں نے کفار سے یہ کہا۔ کہا گیا ہے کہ یہ آیت مبارکہ قریش کے زندیق لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٧ { وَاِذَا قِیْلَ لَہُمْ اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ } ” اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ خرچ کرو اس میں سے جو اللہ نے تمہیں دیا ہے “ یعنی اللہ کے دیے ہوئے رزق میں سے غریبوں کی حاجت روائی کرو ‘ بھوکوں کو کھلائو ‘ یتیموں کی سرپرستی کرو ‘ خلق ِخدا کی بہبود اور بھلائی کے دوسرے کاموں میں خرچ کرو۔ { قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنُطْعِمُ مَنْ لَّوْ یَشَآئُ اللّٰہُ اَطْعَمَہٗٓ} ” تو یہ کافر کہتے ہیں اہل ِ ایمان سے کہ کیا ہم انہیں کھلائیں جنہیں اللہ چاہتا تو خود کھلا دیتا ! “ اس کے جواب میں ان کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ اللہ تو ہرچیز پر قادر ہے۔ وہ اگر چاہتا کہ یہ لوگ بھوکے نہ رہیں تو وہ انہیں خود ہی وافر رزق عطا کردیتا ‘ لیکن اگر اللہ نے انہیں ان کی ضروریات کے مطابق رزق نہیں دیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خود انہیں اسی حالت میں رکھنا چاہتا ہے۔ تو کیا ہم انہیں کھلائیں جنہیں اللہ نے ہی کھلانا نہیں چاہا ؟ { اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ } ” تم تو خود ہی صریح گمراہی میں پڑے ہوئے ہو ! “ یہ جواب ہے ان کافروں کا نصیحت کرنے والوں کو کہ تم لوگ ہمیں کیا نصیحتیں کرتے ہو ‘ تمہاری تو مت ماری گئی ہے ‘ تم تو خود بھٹکے ہوئے ہو ‘ تمہاری یہ بات اور نصیحت عقل اور منطق ہی کے خلاف ہے کہ خوشحال لوگ غرباء و مساکین کا خیال رکھیں اور بھوکوں کو کھانا کھلائیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

43 This means to show that disbelief has not only blinded their intellect but has destroyed their moral sense, too. They neither have the right thought about Allah nor do they adopt the right attitude towards the people. They react adversely to every admonition, follow a perverse philosophy in respite of every deviation and immorality and have a ready made pretence for escape from every good.

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :43 اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ کفر نے صرف ان کی عقل ہی اندھی نہیں کی ہے بلکہ ان کی اخلاقی حِس کو بھی مردہ کر دیا ہے ۔ وہ نہ خدا کے بارے میں صحیح تفکر سے کام لیتے ہیں ، نہ خلق کے ساتھ صحیح طرز عمل اختیار کرتے ہیں ۔ ان کے پاس ہر نصیحت کا الٹا جواب ہے ۔ ہر گمراہی اور بد اخلاقی کے لیے ایک اوندھا فلسفہ ہے ۔ ہر بھلائی سے فرار کے لیے ایک گھڑا گھڑایا بہانا موجود ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(36:47) انطعم میں الف ہمزہ استفہامیہ ہے نطعم مضارع کا صیغہ جمع متکلم ہے کیا ہم کھلائیں ۔ کیا ہم کھانے کو دیں۔ من موصولہ ہے بمعنی الذی۔ لو یشاء اللہ۔ جملہ شرطیہ ہے اطعمہ جواب شرط۔ جس کو اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو خود کھلا دیتا۔ ان انتم الا فی ضلل مبین۔ ان نافیہ الا حرف شرط۔ ضلل مبین موصوف وصفت کھلی گمراہی۔ تم تو صریح گمراہی میں پڑے ہوئے ہو۔ یہ جملہ بھی کافروں کے قول کا تتمہ ہے۔ اگرچہ بعض نے اسے اللہ کی طرف سے کافروں کی بات کا جواب کہا ہے لیکن سیاق وسباق سے قول اول ہی زیادہ صحیح ہے !

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی یہ کافربجائے اس کے کہ کسی نصیحت کرنے والے کی نصیحت قبول کریں کٹ حجتیاں کرتے ہیں۔ چناچہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ غریبوں اور مسکینوں کے جو حقوق تمہارے سوال پر عائد ہوتے ہیں ان کو ادا کرو تو وہ تقدیر کا سہارا لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے باوجود قدرت کے روزی نہیں دی ہم بھی اس کو نہیں دیں گے کیونکہ ہم اللہ تعالیٰ کی مشیت کے خلاف نہیں کرسکتے۔ ( جامع البیان)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ غرض نہ ترہیب سے وہ ایمان لاویں نہ ترغیب سے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے اعراض کرنے والوں کا انفاق فی سبیل اللہ کے بارے میں رویہ۔ جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس کی قدرت کی نشانیوں سے اعراض کرنے کا رویہ اختیار کرلے تو وہ اس بات کو فراموش کردیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو مجھے رزق عطا فرمایا ہے۔ اس میں کسی غریب کا حق بھی پایا جاتا ہے۔ دنیادار مال کی محبت میں اس حد تک مبتلا ہوجاتا ہے کہ اگر اسے انفاق فی سبیل اللہ کی تلقین کی جائے تو وہ کسی غریب پر خرچ کرنے کی بجائے یہ کہتا ہے کہ میں اسے کیوں دوں ؟ جسے اللہ نے کچھ نہیں دیا۔ اگر اللہ تعالیٰ کو اس کی تونگری منظور ہوتی تو وہ خود اسے رزق کی فروانی سے ہمکنار کرتا۔ جب اللہ تعالیٰ نے اسے کشادگی سے ہمکنار کرنا ٹھیک نہیں سمجھا تو ہم اس کی امداد کیوں کریں ؟ کسی شخص کا ایسا سوچنا اور کہنا اس کی پرلے درجے کی گمراہی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کا نظام چلانے اور لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب رکھنے کے لیے انہیں ایک دوسرے کا ضرورت مند بنایا ہے اس کا فرمان ہے۔ (اَہُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَۃَ رَبِّکَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَہُمْ مَعِیْشَتَہُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِیَتَّخِذَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا وَرَحْمَۃُ رَبِّکَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ ) [ الزخرف : ٣٢] ” کیا تیرے رب کی رحمت یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں ؟ دنیا کی زندگی کے لیے وسائل ہم نے ان کے درمیان تقسیم کیے ہیں۔ اور ان میں بعض کو بعض پر ہم نے برتری دی ہے۔ تاکہ یہ ایک دوسرے سے خدمت لیں اور جو وہ سمیٹ رہے ہیں تیرے رب کی رحمت اس سے زیادہ قیمتی ہے۔ “ (عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ ۔۔ ، فَقَال النَّبِی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہَلْ تُنْصَرُونَ وَتُرْزَقُونَ إِلاَّ بِضُعَفَاءِکُمْ )[ رواہ البخاری : باب مَنِ اسْتَعَان بالضُّعَفَاءِ وَالصَّالِحِینَ فِی الْحَرْبِ ] ” حضرت مصعب بن عمیر (رض) بیان کرتے ہیں۔۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہاری مدد اور تمہیں رزق تمہارے کمزوروں کی وجہ سے دیا جاتا ہے۔ “

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

31:۔ واذا قیل الخ :۔ یہ شکوی ہے، اس سے معاندین کے عناد و تعنت کی طرف اشارہ ہے۔ جب ان سے کہا جاتا ہے۔ اللہ نے تمہیں جو رزق عطا فرمایا ہے اس میں سے کچھ اللہ کی راہ میں غرباء و مساکین کو بھی دیا کرو۔ قال الذین کفروا الخ، تو وہ ازراہِ عناد و تمسخر جواب دیتے ہیں کہ ہم اللہ کی مشیت اور اس کے معاملات میں دخل دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ غریبوں اور مسکینوں کو خود خدا ہی نے محتاج بنایا ہے اگر وہ چاہتا تو ان کو دولت مند بنا دیتا جب اس نے خود ہی ان کو دولت مند نہیں بنایا تو اس کے کام میں دخل دے کر ہم ان مسکینوں کو کیوں دولت مند بنائیں۔ عن ابن عباس (رض) کان بمکۃ زنادقۃ فاذا امروا بالصدقۃ علی المساکین قالوا لا واللہ ایفقرہ اللہ و نطعمہ نحن (مدارک ج 4 ص 8) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(47) اور جب ان دین حق کے منکروں سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ تم کو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اس میں سے کچھ خیرات بھی کرو اور خدا کی راہ میں خرچ کرو تو یہ منکر اہل حق سے یوں کہتے ہیں کیا ہم ایسے لوگوں کو کھانا کھلائیں جن کو اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو کھانا کھلا دے تم لوگ محض گمراہی میں مبتلا ہو۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو روزی تم کو اپنے کرم اور اپنی عنایت سے دی ہے اس میں سے کچھ مساکین کو بھی دیا کرو تو یہ جواب دیتے ہیں کہ جن کو خدا نے نہیں دیا ان کو ہم کیا دے سکتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ان کو بہت کچھ کھانے کو دے سکتا تھا لیکن جب خدا ہی نے ان کو نہیں دیا تو ہم کیوں دیں۔ ظاہر ہے کہ یہ جواب انتہائی بخل اور ناسپاسی پر مبنی ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا ہے بعض منکر مدینے میں ایسے تھے کہ جب ان کو خیرات کا حکم ہوا تو کہنے لگے خدا کی قسم جن کو اللہ تعالیٰ نے محتاج کیا ہم ان کو کبھی کچھ نہ دیں گے۔ ان انتم الا فی ضلل مبین کا جملہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے منکروں کے حق میں یا مسلمانوں کے قول کی حکایت ہے یا منکروں کا قول ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو کہا ہو کہ یہ تمہاری گمراہی ہے جن کو خدا نے محتاج کیا ہے ان کی سفارش کر رہے ہو۔ (واللہ اعلم) حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہی گمراہی ہے نیک کام میں تقدیر کا حوالہ اور اپنے مزے میں لالچ پر دوڑنا۔