Surat Yaseen

Surah: 36

Verse: 49

سورة يس

مَا یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّا صَیۡحَۃً وَّاحِدَۃً تَاۡخُذُہُمۡ وَ ہُمۡ یَخِصِّمُوۡنَ ﴿۴۹﴾

They do not await except one blast which will seize them while they are disputing.

انہیں صرف ایک سخت چیخ کا انتظار ہے جو انہیں آپکڑے گی اور یہ باہم لڑائی جھگڑے میں ہی ہونگے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

They await only but a single Sayhah which will seize them while they are disputing! meaning, they are only waiting for a single shout which -- and Allah knows best -- will be the trumpet blast of terror when the Trumpet will be blown while the people are in their marketplaces and places of work, arguing and disputing as they usually do. While in this state, Allah will command Israfil to blow into the Trumpet, so he will sound a long note and there will be no one left on the face of the earth except he will tilt his head to listen to the sound coming from heaven. Then the people who are alive will be driven to the gathering place by a fire which will surround them on all sides. Allah says:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

49۔ 1 یعنی لوگ بازاروں میں خریدو فروخت اور حسب عادت بحث و تکرار میں مصروف ہونگے کہ اچانک صور پھونک دیا جائے گا اور قیامت برپا ہوجائے گی یہ نفخہ اولیٰ ہوگا جسے نفخہ فزع بھی کہتے ہیں کہا جاتا ہے کہ اس کے بعد دوسرا نفخہ ہوگا۔ نَفْخَۃُ الْصَّعْقِ جس سے اللہ تعالیٰ کے سوا سب موت کی آغوش میں چلے جائیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٤٧] قیامت دفعتاً آجائے گی :۔ قیامت جب آئے گی تو وہ آہستہ آہستہ نہیں آئے گی جسے تم دیکھ کر سمجھ لو کہ آرہی ہے اور کچھ سنبھل جاؤ۔ بلکہ اس وقت تم اپنے اپنے کام کاج میں پوری طرح منہمک ہوگے، کوئی کاروبار کررہا ہوگا، کوئی سودا بازی کرتے ہوئے جھگڑ رہا ہوگا، اس وقت اچانک ایک زور کا دھماکہ ہوگا اور جو شخص جس حال میں بھی ہوگا وہیں دھر لیا جائے گا۔ چناچہ سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : کہ قیامت اس حال میں آئے گی کہ دو آدمی اپنا کپڑا بچھائے بیٹھے ہوں گے وہ اس کی سودا بازی اور کپڑا لپیٹنے سے ابھی فارغ نہ ہوں گے کہ قیامت آجائے گی اور آدمی اپنی اونٹنی کا دودھ لے کر چلے گا۔ ابھی اس کو پئے گا نہیں کہ قیامت آجائے گی اور کوئی آدمی اپنا حوض لیپ پوت رہا ہوگا پھر ابھی اس کا پانی پیا نہیں جائے گا کہ قیامت آجائے گی اور ایک آدمی کھانے کا نوالہ منہ کی طرف اٹھا رہا ہوگا اور ابھی کھایا نہ ہوگا کہ قیامت آجائے گی۔ && (بخاری۔ کتاب الرقاق۔ باب بلاعنوان)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

مَا يَنْظُرُوْنَ اِلَّا صَيْحَةً وَّاحِدَةً : ان کے جواب میں یہ نہیں کہا گیا کہ قیامت فلاں وقت آئے گی، بلکہ ان کے سامنے قیامت کے چند ہولناک مناظر کا نقشہ پیش کردیا گیا ہے۔ اِلَّا صَيْحَةً وَّاحِدَةً : ایک ہی چیخ سے مراد اسرافیل (علیہ السلام) کا پہلی دفعہ صور میں پھونکنا ہے، جس سے تمام مخلوق مرجائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، یہ لوگ جس قیامت کا انتظار کر رہے ہیں اس کے لیے ہمیں کسی لمبی چوڑی تیاری کی ضرورت نہیں، صرف ایک مرتبہ صور میں پھونک دیا جائے گا، جس کی چیخ کی آواز سے سب لوگ بےہوش ہو کر مرجائیں گے۔ تَاْخُذُهُمْ وَهُمْ يَخِصِّمُوْنَ : ” يَخِصِّمُوْنَ “ اصل میں ” یَخْتَصِمُوْنَ “ (افتعال) ہے۔ تاء کو صاد کے ساتھ بدل کر صاد میں ادغام کردیا اور صاد کی موافقت کے لیے خاء کو بھی کسرہ دے دیا۔ ادغام سے ان کے جھگڑنے کی شدت بیان کرنا مقصود ہے۔ یعنی وہ قیامت آہستہ آہستہ نہیں آئے گی، جسے دیکھ کر وہ کچھ سنبھل جائیں، بلکہ سب لوگ اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہوں گے اور پورے زور و شور سے ایک دوسرے سے جھگڑا اور بحث کر رہے ہوں گے کہ اچانک ایک چیخ سے قیامت برپا ہوجائے گی۔ ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( تَقُوْمُ السَّاعَۃُ وَالرَّجُلُ یَحْلُبُ اللِّقْحَۃَ فَمَا یَصِلُ الْإِنَاءُ إِلٰی فِیْہِ حَتّٰی تَقُوْمَ وَ الرَّجُلَانِ یَتَبَایَعَان الثَّوْبَ فَمَا یَتَبَایَعَانِہِ حَتّٰی تَقُوْمَ وَالرَّجُلُ یَلِطُ فِيْ حَوْضِہِ فَمَا یَصْدُرُ حَتّٰی تَقُوْمَ ) [ مسلم، الفتن، باب قرب الساعۃ : ٢٩٥٤ ] ” قیامت (اتنی اچانک) قائم ہوگی کہ آدمی اونٹنی کا دودھ دوہ رہا ہوگا، پھر برتن اس کے منہ تک نہیں پہنچے گا یہاں تک کہ وہ قائم ہوجائے گی اور دو آدمی کپڑے کی خریدو فروخت کر رہے ہوں گے، تو ابھی سوداکر نہیں پائیں گے کہ وہ قائم ہوجائے گی اور آدمی اپنے حوض کی لپائی کر رہا ہوگا، ابھی واپس نہیں ہوگا کہ وہ قائم ہوجائے گی۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary مَا يَنظُرُ‌ونَ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً (They are looking for nothing but for a single Cry that will seize them - 36:49). The question of the disbelievers quoted here is the one they used to&-ask the Muslims by way of mockery, and the real purpose was to deny the Day of Judgment. It was not asked for finding out the truth, nor as a serious effort to reach the reality. It was simply a way of taunting the Muslims and making fun of them. And even if it were for finding out the true nature of the event, then, the mercy of the Lord of the universe requires that the full and precise knowledge of the year and day of the coming of Qiyamah should not be given to anyone, so much so that it was not given even to any one from among His noble prophets and messengers. Even if this question asked by these dimwit people was no more than a fact-finding exercise on their part, it was patently absurd. Therefore, rather than tell them, in response, the time when Qiyamah will come, they were admonished. They were told that reasonable people, once they become aware of something that is bound to come in all certainty, should start making necessary preparations ahead of it, and not go about wasting precious time in trying to find out its precise hour and day. Common sense required that, once they had heard the foreboding of Qiyamah, they should have believed and did what it takes to achieve success in that life to come. But, so entangled they are in their heedlessness that they virtually seem to be waiting for nothing short of the time when the day of Qiyamah comes before them - and then, they would think about it. Therefore, it was said that these people were waiting for the Qiyamah - while, Qiyamah will have a scenario of its own, for it would be just one terrible sound of the Horn صُور (Sur) that will seize everyone all of a sudden in a way that people will be busy in their businesses settling their disputes and they all, in this very condition, will lie dead. It appears in Hadith that two men will be engaged in their activity of buying and selling cloth. Stretched before them will be the yardage of the cloth pieces while, of a sudden, Qiyamah will come - and they would be unable to complete their deal of cloth. Then, there will be someone else busy plastering his water tank who will fall dead in the same state (reported by Abu Nu&aym from Sayyidna Abu Hurairah (رض) - al-Qurtubi).

معارف و مسائل (آیت) ما ینظرون الاصیحة واحدة، یہ ان کفار کا ہے جواب ہے جو استہزاء و انکار کے طور پر مسلمانوں سے پوچھا کرتے تھے کہ تم جس قیامت کے آنے کے قائل ہو وہ کب کس سال اور کس تاریخ میں آئے گی۔ (آیت) یقولون متیٰ ھذا الوعد، ان لوگوں کا یہ سوال درحقیقت کسی تحقیق واقعہ کے لئے نہیں بلکہ تمسخر و استہزاء کے تھا اور بالفرض تحقیق کے لئے بھی ہوتا تو رب العالمین کی حکمت کا مقتضیٰ یہ ہے کہ قیامت کے سال اور تاریخ کا پورا یقینی علم کسی کو نہ دیں، یہاں تک کہ اپنے انبیاء و رسل کو بھی نہیں دیا۔ ان احمقوں کا یہ سوال بالفرض تحقیق طلبی ہی کے لئے ہو تو بھی لغو و مہمل تھا۔ اس لئے اس کے جواب میں قیامت کی تاریخ بتانے کے بجائے ان لوگوں کو اس پر تنبیہ فرمائی کہ جو چیز یقینی طور پر آنے والی ہے عقلمند کا کام یہ ہے کہ اس کی تیاری میں لگے، نہ یہ کہ اس کے وقت اور تاریخ کی تحقیق میں وقت ضائع کرے۔ مقتضیٰ عقل کا یہ تھا کہ قیامت کی خبر سن کر ایمان لاتے اور وہ کام کرتے جس سے اس عالم میں فلاح حاصل ہو، مگر یہ لوگ اپنی غفلت میں ایسے پھنسے ہوئے ہیں گویا اس کا انتظار کر رہے ہیں کہ جب قیامت آئے تو کچھ سوچیں۔ اس لئے فرمایا کہ یہ قیامت کے منتظر ہیں۔ اور قیامت کا حال یہ ہوگا کہ وہ ایک ہی زور کی آواز صور کی ہوگی جو سب کو اچانک اس طرح پکڑے گی کہ لوگ اپنے اپنے کاروبار میں اور باہمی معاملات کے جھگڑوں میں لگے ہوئے ہوں گے سب کے سب اسی حال میں مردے رہ جائیں گے۔ حدیث میں ہے کہ دو آدمی ایک کپڑے کی خریدو فروخت میں لگے ہوئے ہوں گے، کپڑا پھیلایا ہوا ہوگا کہ اچانک قیامت آجائے گی، اور وہ کپڑا طے نہ کر پائیں گے، کوئی آدمی اپنے حوض کو مٹی سے لیپ کر درست کر رہا ہوگا، کہ اسی حال میں مرا رہ جائے گا (رواہ ابونعیم عن ابی ہریرة قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَا يَنْظُرُوْنَ اِلَّا صَيْحَۃً وَّاحِدَۃً تَاْخُذُہُمْ وَہُمْ يَخِصِّمُوْنَ۝ ٤٩ نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب/ 53] أي : منتظرین، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں صاح الصَّيْحَةُ : رفع الصّوت . قال تعالی: إِنْ كانَتْ إِلَّا صَيْحَةً واحِدَةً [يس/ 29] ( ص ی ح ) الصیحۃ کے معنی آواز بلندکرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنْ كانَتْ إِلَّا صَيْحَةً واحِدَةً [يس/ 29] وہ تو صرف ایک چنگھاڑ تھی ( آتشین ۔ أخذ الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف/ 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] ( اخ ذ) الاخذ ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ { مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ } ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ { لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ } ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔ خصم الخَصْمُ مصدر خَصَمْتُهُ ، أي : نازعته خَصْماً ، يقال : خاصمته وخَصَمْتُهُ مُخَاصَمَةً وخِصَاماً ، قال تعالی: وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصامِ [ البقرة/ 204] ، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] ، ثم سمّي المُخَاصِم خصما، واستعمل للواحد والجمع، وربّما ثنّي، وأصل المُخَاصَمَة : أن يتعلّق كلّ واحد بخصم الآخر، أي جانبه وأن يجذب کلّ واحد خصم الجوالق من جانب، وروي : ( نسیته في خصم فراشي) «1» والجمع خُصُوم وأخصام، وقوله : خَصْمانِ اخْتَصَمُوا [ الحج/ 19] ، أي : فریقان، ولذلک قال : اخْتَصَمُوا وقال : لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ [ ق/ 28] ، وقال : وَهُمْ فِيها يَخْتَصِمُونَ [ الشعراء/ 96] ، والخَصِيمُ : الكثير المخاصمة، قال : هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ [ النحل/ 4] ، والخَصِمُ : المختصّ بالخصومة، قال : بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ [ الزخرف/ 58] . ( خ ص م ) الخصم ۔ یہ خصمتہ کا مصدر ہے جس کے معنی جھگڑنے کے ہیں کہاجاتا ہے خصمتہ وخاصمتہ مخاصمۃ وخصاما کسی سے جھگڑا کر نا قرآن میں ہے :۔ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصامِ [ البقرة/ 204] اور وہ حالانکہ سخت جھگڑا لو ہے ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] اور جھگڑنے کے وقت بات نہ کرسکے ۔ اور مخاصم کو خصم کہا جات ہے ، اور خصم کا لفظ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر کبھی تثنیہ بھی آجاتا ہے۔ اصل میں خصم کے معنی کنارہ کے ہیں ۔ اور مخاصمت کے معنی ایک دوسرے سے کو کنارہ سے پکڑنے کے ہیں ۔ اور بوری کو کونے سے پکڑکر کھینچنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے :۔ (114) نسی تھا فی خصم فراشی کہ میں اسے اپنے بسترہ کے کونے میں بھول آیا ہوں خصم کی جمع خصوم واخصام آتی ہے اور آیت کریمہ ؛۔ اخْتَصَمُوا[ الحج/ 19] دوفریق جھگڑتے ہیں ۔ میں خصما ن سے دو فریق مراد ہیں اسی لئے اختصموا آیا ہے ۔ الاختصام ( افتعال ) ایک دوسرے سے جھگڑنا ۔ قرآن میں ہے :۔ لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ [ ق/ 28] ہمارے حضور رد کد نہ کرو ۔ وَهُمْ فِيها يَخْتَصِمُونَ [ الشعراء/ 96] ۔۔۔۔ وہ آپس میں جھگڑیں گے ۔ الخصیم ۔ جھگڑا لو بہت زیادہ جھگڑا کرنے والا جیسے فرمایا :۔ هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ [ النحل/ 4] مگر وہ ( اس بارے میں ) علانیہ جھگڑنے لگا ۔ الخصم سخٹ جھگڑالو جس کا شیوہ ہ جھگڑنا ہو ۔ قرآن میں ہے :َ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ [ الزخرف/ 58] حقیقت یہ ہے ۔ یہ لوگ ہیں ہی جھگڑا لو، لو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

تو آپ کی قوم جب آپ کو جھٹلا رہی ہے تو یہ عذاب کے لیے صرف پہلے صور کے منتظر ہیں جو ان کو آپکڑے گا اور یہ اس وقت بازار میں باہمی جھگڑوں میں مصروف ہوں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٩ { مَا یَنْظُرُوْنَ اِلَّا صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً تَاْخُذُہُمْ وَہُمْ یَخِصِّمُوْنَ } ” یہ لوگ نہیں انتظار کر رہے مگر ایک چنگھاڑ کا ‘ وہ انہیں آپکڑے گی اور یہ (اسی طرح) جھگڑ رہے ہوں گے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(36:49) ما ینظرون۔ ای ما ینتظرون۔ مضارع منفی جمع مذکر غائب وہ انتظار نہیں کر رہے ہیں۔ صیحۃ واحدۃ۔ چیخ۔ کڑک، ہولناک آواز، چنگھاڑ۔ صاح یصیح (ضرب) کا مصدر۔ بمعنی حاصل مصدر بھی آتا ہے۔ اصل میں لکڑی کے چرونے یا کپڑے کے پھٹنے سے جو زور کے جھراٹے کی آواز پیدا ہوتی ہے اس آواز کے نکلنے کو الصیاح کہتے ہیں۔ صیحۃ اسی سے ہے چونکہ زور کی آواز سے آدمی گھبرا اٹھتا ہے اسی لئے بمعنی گھبراہٹ اور عذاب کے بھی استعمال ہوتا ہے (نیز ملاحظہ ہو (36:29) ۔ یہاں صیحۃ سے مراد النفخۃ الاولی پہلی مرتبہ صور کا پھونکا جانا ہے جب سب کے سب ہلاک ہوجائیں گے۔ صیحۃ واحدۃ موصوف وصفت ہیں اور صیحۃ منصوب بوجہ ینظرون کے مفعول ہونے کے ہے۔ اور اس کی تنوین اظہار عظمت اور جلالت کے لئے ہے۔ تاخذہم۔ مضارع واحد مؤنث غائب، ضمیر فاعل صیحۃ کی طرف راجع ہے ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب کفار مکہ کی طرف راجع ہے۔ وہ ان کو آ لے گی۔ وہ ان کو آپکڑے گی۔ وہم یخصمون۔ وائو حالیہ ہے یخصمون مضارع کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے اصل میں یختصمون تھا (افتعال) مصدر سے۔ تا کو ساکن کیا پھر تاء کو صاد میں بدلا۔ پھر صاد کو صاد میں مدغم کیا۔ خاء پر اجتماع ساکنین کی وجہ سے کسرہ دیا گیا یخصمون ہوگیا۔ دراں حالیکہ وہ اپنے معاملات میں جھگڑ رہے ہوں گے یعنی وہ بیخبر اپنے کسی کام میں منہمک ہوں گے کہ یکایک صور پھونکی جائے گی۔ اور سب کچھ تباہ ہوجائے گا۔ الخصم کے معنی جھگڑنے کے لئے۔ کہا جاتا ہے خصمتہ وخاصمتہ مخاصمۃ وخصا کسی سے جھگڑا کرنا۔ قرآن مجید میں ہے وھو الد الخصام (2:204) اور وہ سخت جھگڑالو ہے۔ الاختصام (افتعال) ایک دوسرے سے جھگڑنا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 مراد نضخہ فزع یعنی نضخہ اولیٰ ہے واللہ اعلم۔ (ابن کثیر) 3 یعنی قیامت نا گہاں آئے گا اور وہ اپنے معاملات میں مشغول ہوں گے۔ ( موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ما ینظرون الا۔۔۔۔۔۔ جمیع لدینا محضرون (49 – 53) “۔ “۔ جھٹلانے والوں کا سوال یہ تھا۔ ویقولون متی ھذا۔۔۔۔۔ صدقین (36: 48) ” یہ قیامت کی دھمکی کب پوری ہوگی ؟ بتاؤ اگر تم سچے ہو “۔ لہٰذا ان کا جواب اس منظر کی شکل میں دیا گیا۔ ما ینظرون الا۔۔۔۔ الی اھلھم یرجعون (36: 49 – 50) ” دراصل یہ جس چیز کی راہ تک رہے ہیں وہ بس ایک دھماکہ ہے جو یکایک انہیں عین اس حالت میں دھرلے گا جب یہ جھگڑ رہے ہوں گے اور اس وقت یہ وصیت تک نہ کرسکیں گے اور نہ اپنے گھروں کو پلٹ سکیں گے “۔ قیامت اچانک لوگوں کو اپنی گرفت میں لے لے گی ، اس وقت وہ اپنے دنیاوی جھگڑوں یا مذہبی مباحثوں میں مصروف ہوں گے اور ان کو وقوع قیامت کی امید ہی نہ ہوگی ۔ اور نہ وہ اسے کچھ اہمیت دیں گے۔ لیکن وہ اچانک واقع ہوجائے گی۔ ہر شخص اسی حال میں گرفتار ہوگا۔ جس پر وہ اس وقت ہوگا۔ کسی کو آنے والوں کے بارے میں نہ وصیت کے مواقع ہوں گے۔ اور نہ ان کو اس قدر مہلت ہوگی کہ وہ گھر تک چلا جائے اور گھر والوں کے بارے میں نہ وصیت کے مواقع ہوں گے۔ اور نہ ان کو اس قدر مہلت ہوگی کہ وہ گھر تک چلا جائے اور گھر والوں سے کچھ کہہ دے۔ اور وہ ہوں گے کہاں ؟ کیونکہ گھر والے بھی جہاں ہوں گے اسی قیامت کی گرفت میں ہوں گے۔ اور اس کے بعد صور پھونکا جائے گا۔ ہر شخص اپنی قبر سے اٹھے گا اور جلدی سے دوڑ پڑے گا۔ یہ انتہائی درجے میں ہیبت زدہ اور دہشت زدہ ہوگا۔ ہر شخص دوسرے سے پوچھے گا۔ من بعثنا من مرقدنا (36: 52) ” ارے یہ کس نے ہماری خوابگاہ سے ہمیں اٹھا کر کھڑا کیا ؟ قدرے وقفے کے بعد اب دہشت ختم ہوگی تو اصل حقیقت ان کو معلوم ہوجائے گی۔ ھذا ما وعد۔۔۔۔ المرسلون (36: 52) ” یہ وہی چیز ہے جس کا خدائے رحمن نے وعدہ کیا تھا اور رسولوں کی بات سچی تھی “ اور اب آخری آواز ہوگی۔ ایک پکار اور یہ تمام بکھرے ہوئے پریشان اور حیران لوگ اللہ کے حضور حاضر ہوں گے فاذاھم جمیع لدینا محضرون (36: 53) ” اچانک سب کے سب ہمارے سامنے حاضر کر دئیے جائیں گے “۔ اور سب کے سب صفوں کی صورت میں منظم کر دئیے جائیں گے اور یہ پیشی چشم زدن میں ہوگی اور صدائے بازگشت کی طرح ہوگی اور اس وقفہ و محل پر اللہ کا یہ فیصلہ سنایا جائے گا اور اعلان ہوگا کہ جزاء و سزائیں کسی کے ساتھ کوئی بےانصافی نہ ہوگی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(49) یہ لوگ صرف ایک ہولناک آواز اور چیخ کا انتظار کر رہے ہیں جو ان کو آپکڑے گی اور یہ سب اپنے معمول کے موافق کاروبار کے سلسلے میں جھگڑ رہے ہوں گے۔ یعنی کفار پر قیامت اچانک آجائے گی جبکہ یہ لوگ حسب معمول کاروبار اور لین دین کرتے ہوں گے اور باہم کاروبار کے وقت جو بہادر وغیرہ میں جھگڑے ہوا کرتے ہیں وہ جھگڑے بھی ہو رہے ہوں گے ہولناک آواز یعنی صور کے پھنکنے کی آواز۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی قیامت ناگہاں آوے گی اپنے معاملات میں غرق ہوں گے۔ خلاصہ : یہ ہے کہ جن کفار پر قیامت کا ظہور ہوگا تو اچانک ہی ہوگا اور جو وقوع قیامت سے قبل مریں گے تو ان کیلئے ان کی موت ہی قیامت ہوگی کیونکہ عالم آخرت بہرحال ان کے سامنے آجائے گا۔ آگے قیامت کے ناگہاں آنے کی تفصیل ہے۔