Surat Yaseen

Surah: 36

Verse: 51

سورة يس

وَ نُفِخَ فِی الصُّوۡرِ فَاِذَا ہُمۡ مِّنَ الۡاَجۡدَاثِ اِلٰی رَبِّہِمۡ یَنۡسِلُوۡنَ ﴿۵۱﴾

And the Horn will be blown; and at once from the graves to their Lord they will hasten.

تو صور کے پھونکے جاتے ہی سب کے سب اپنی قبروں سے اپنے پروردگار کی طرف ( تیز تیز ) چلنے لگیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Trumpet Blast of the Resurrection Allah says: وَنُفِخَ فِي الصُّورِ ... And the Trumpet will be blown This will be the third blast of the trumpet, the trumpet blast of the resurrection when people will come forth from their graves. Allah says: ... فَإِذَا هُم مِّنَ الاْإَجْدَاثِ إِلَى رَبِّهِمْ يَنسِلُونَ and behold from the graves they will come out quickly to their Lord. Yansilun means they will be walking quickly. This is like the Ayah: يَوْمَ يَخْرُجُونَ مِنَ الاٌّجْدَاثِ سِرَاعاً كَأَنَّهُمْ إِلَى نُصُبٍ يُوفِضُونَ The Day when they will come out of the graves quickly as racing to a goal. (70:43)

ان آیتوں میں دوسرے نفخہ کا ذکر ہو رہا ہے ۔ جس سے مردے جی اٹھیں گے ۔ ینسلون کا مصدر نسلان سے ہے اور اس کے معنی تیز چلنے کے ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( يَوْمَ يَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ سِرَاعًا كَاَنَّهُمْ اِلٰى نُصُبٍ يُّوْفِضُوْنَ 43؀ۙ ) 70- المعارج:43 ) جس دن یہ قبروں سے نکل کر اس تیزی سے چلیں گے کہ گویا وہ کسی نشان منزل کی طرف لپکے جا رہے ہیں ۔ چونکہ دنیا میں انہیں قبروں سے جی اٹھنے کا ہمیشہ انکار رہا تھا اس لئے آج یہ حالت دیکھ کر کہیں گے کہ ہائے افسوس ہمارے سونے کی جگہ سے ہمیں کس نے اٹھایا ؟ اس سے قبر کے عذاب کا نہ ہونا ثابت نہیں ہوتا اس لئے کہ جس ہول و شدت کو جس تکلیف اور مصیبت کو یہ اب دیکھیں گے اس کی بہ نسبت تو قبر کے عذاب بیحد خفیف ہی تھے گویا کہ وہ وہاں آرام میں تھے ، بعض بزرگوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس سے پہلے ذرا سی دیر کے لئے فی الواقع انہیں نیند آ جائے گی ، حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں پہلے نفخہ اور اس دوسرے نفخہ کے درمیان یہ سو جائیں گے ، اس لئے اب اٹھ کر یوں کہیں گے ، اس کا جواب ایماندار لوگ دیں گے کہ اسی کا وعدہ اللہ نے کیا تھا اور یہی اللہ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ جواب فرشتے دیں گے ۔ بہرحال دونوں قولوں میں اس طرح تطبیق بھی ہو سکتی ہے کہ مومن بھی کہیں اور فرشتے بھی کہیں واللہ اعلم ۔ عبدالرحمٰن بن زید کہتے ہیں یہ کل قول کافروں کا ہی ہے لیکن صحیح بات وہ ہے جسے ہم نے پہلے نقل کیا جیسے کہ سورہ صافات میں ہے کہ یہ کہیں گے ہائے افسوس ہم پر یہ جزا کا دن ہے یہی فیصلہ کا دن ہے جسے ہم جھٹلاتے تھے اور آیت میں ہے ( وَيَوْمَ تَــقُوْمُ السَّاعَةُ يُـقْسِمُ الْمُجْرِمُوْنَ ڏ مَا لَبِثُوْا غَيْرَ سَاعَةٍ ۭ كَذٰلِكَ كَانُوْا يُؤْفَكُوْنَ 55؀ ) 30- الروم:55 ) جس دن قیامت برپا ہو گی گنہگار قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ وہ صرف ایک ساعت ہی رہے ہیں اسی طرح وہ ہمیشہ حق سے پھرے رہے ، اس وقت با ایمان اور علماء فرمائیں گے تم اللہ کے لکھے ہوئے کے مطابق قیامت کے دن تک رہے یہی قیامت کا دن ہے لیکن تم محض بےعلم ہو ۔ تم تو اسے ان ہونی مانتے تھے حالانکہ وہ ہم پر بالکل سہل ہے ایک آواز کی دیر ہے کہ ساری مخلوق ہمارے سامنے موجود ہو جائے گی ، جیسے اور آیت میں ہے کہ ایک ڈانٹ کے ساتھ ہی سب میدان میں مجتمع موجود ہوں گے ۔ اور آیت میں فرمایا امر قیامت تو مثل آنکھ جھپکانے کے بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب ہے ، اور جیسے فرمایا ( يَوْمَ يَدْعُوْكُمْ فَتَسْتَجِيْبُوْنَ بِحَمْدِهٖ وَتَظُنُّوْنَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِيْلًا 52؀ۧ ) 17- الإسراء:52 ) جس دن وہ تمہیں بلائے گا اور تم اس کی تعریف کرتے ہوئے اسے جواب دو گے اور یقین کر لو گے کہ تم بہت ہی کم مدت رہے ۔ الغرض حکم کے ساتھ ہی سب حاضر سامنے موجود ۔ اس دن کسی کا کوئی عمل مارا نہ جائے گا ، ہر ایک کو اس کے کئے ہوئے اعمال کا ہی بدلہ دیا جائے گا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

51۔ 1 پہلے قول کی بنا پر یہ نفخہ ثانیہ اور دوسرے قول کی بنا پر یہ نفخہ ثالثہ ہوگا، جسے نَفْخَۃُ الْبَعْثِ وَالنُّشُور کہتے ہیں، اس سے لوگ قبروں سے زندہ ہو کر اٹھ کھڑے ہونگے۔ (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَنُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَاِذَا هُمْ مِّنَ الْاَجْدَاثِ : ” الْاَجْدَاثِ “ ” جَدَثٌ“ کی جمع ہے، جیسے ” فَرَسٌ“ کی جمع ” أَفْرَاسٌ“ ہے۔ ” يَنْسِلُوْنَ “ ” نَسَلَ “ (ن، ض) نَسْلاً ، نَسَلًا وَ نَسَلَانًا فِيْ مَشْیِہِ “ دوڑنا۔ یعنی صور میں دوسری دفعہ پھونکا جائے گا تو اچانک سب لوگ اپنی قبروں سے نکل کر اپنے رب کی طرف دوڑ رہے ہوں گے۔ (دیکھیے قمر : ٦ تا ٨۔ معارج : ٤٣ ) صور میں کتنی دفعہ پھونکا جائے گا اور دو دفعہ پھوکنے کے درمیان کتنا عرصہ ہوگا، اس تفصیل کے لیے سورة نمل کی آیت (٨٧) کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

After that, it was said: وَنُفِخَ فِي الصُّورِ‌ فَإِذَا هُم مِّنَ الْأَجْدَاثِ إِلَىٰ رَ‌بِّهِمْ يَنسِلُونَ (And the Horn will be blown, and suddenly they will be rushing from their graves towards their Lord. (36:51). Here, the word: أَجْدَاثِ (ajdath) is the plural form of: جَدَث (jadath) which means a grave. And: يَنسِلُونَ (yansilun) is a derivation from: نَسلان (nasalan) which means to walk swiftly as it appears in another verse: يَخْرُ‌جُونَ مِنَ الْأَجْدَاثِ سِرَ‌اعًا (they will come out of their graves in haste - Al-Ma۔ arij, 70:43). As for what is said in another verse: فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنظُرُ‌ونَ (and suddenly, they will stand up, looking around - Az-Zumar, 39:68), it is not contrary to that, for first came the instant of standing up in wonder and then came the act of racing toward the plains of the Resurrection. There is no contradiction in between these two. Then, as it is already proved from the verses of the Qur&an that the angels will call them to come to the plains of the Resurrection, it becomes clear that the presence of disbelievers on the plain of the Resurrection will not be out of their pleasure, rather, it would be out of compulsion whereby the call of the angels will prompt them to come hastening toward it.

(آیت) ونفخ فی الصور فاذا ھم من الاجداث الیٰ ربھم ینسلون، اجداث حدیث کی جمع ہے، بمعنے قبر اور ینسلون نسلان سے مشتق ہے جس کے معنی تیز چلنے کے ہیں، جیسا کہ ایک دوسری آیت میں یخرجون من الاجداث سراعاً ، آیا ہے کہ یہ لوگ اپنی قبروں سے جلدی کرتے ہوئے نکلیں گے۔ اور ایک آیت میں جو ارشاد ہے (آیت) فاذاھم قیام ینظرون، یعنی حشر کے وقت لوگ اپنی قبروں سے اٹھ کر کھڑے دیکھتے رہیں گے، یہ اس کے منافی نہیں۔ کیونکہ ابتداً حیرت سے کھڑے ہو کر دیکھنے کا واقعہ ہو اور بعد میں تیزی سے محشر کی طرف دوڑنا، ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں۔ اور جیسا کہ آیات قرآن سے ثابت ہے کہ فرشتے ان سب کو پکار کر میدان حشر میں لائیں گے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار کی حاضری محشر اپنی خوشی سے نہیں بلکہ جبری طور پر ہوگی اور فرشتوں کے پکارنے کی وجہ سے دوڑتے ہوئے محشر میں آجائیں گے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَنُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَاِذَا ہُمْ مِّنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰى رَبِّہِمْ يَنْسِلُوْنَ۝ ٥١ نفخ النَّفْخُ : نَفْخُ الرِّيحِ في الشیءِّ. قال تعالی: يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه/ 102] ، وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف/ 99] ، ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر/ 68] ، وذلک نحو قوله : فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر/ 8] ومنه نَفْخُ الرُّوح في النَّشْأَة الأُولی، قال : وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ( ن ف خ ) النفخ کے معنی کسی چیز میں پھونکنے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه/ 102] ، اور جس دن صور پھونکا جائیگا ۔ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف/ 99] اور جس وقت ) صؤر پھونکا جائے گا ۔ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر/ 68] پھر دوسری دفعہ پھونکا جائے گا ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر/ 8] جب صور پھونکا جائے گا ۔ اور اسی سے نفخ الروح ہے جس کے معنی اس دنیا میں کسی کے اندر روح پھونکنے کے ہیں چناچہ آدم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي[ الحجر/ 29] اور اس میں اپنی بےبہا چیز یعنی روح پھونک دوں ۔ صور الصُّورَةُ : ما ينتقش به الأعيان، ويتميّز بها غيرها، وذلک ضربان : أحدهما محسوس يدركه الخاصّة والعامّة، بل يدركه الإنسان وكثير من الحیوان، كَصُورَةِ الإنسانِ والفرس، والحمار بالمعاینة، والثاني : معقول يدركه الخاصّة دون العامّة، کالصُّورَةِ التي اختصّ الإنسان بها من العقل، والرّويّة، والمعاني التي خصّ بها شيء بشیء، وإلى الصُّورَتَيْنِ أشار بقوله تعالی: ثُمَّ صَوَّرْناكُمْ [ الأعراف/ 11] ، وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ [ غافر/ 64] ، وقال : فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ [ الانفطار/ 8] ، يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحامِ [ آل عمران/ 6] ، وقال عليه السلام : «إنّ اللہ خلق آدم علی صُورَتِهِ» «4» فَالصُّورَةُ أراد بها ما خصّ الإنسان بها من الهيئة المدرکة بالبصر والبصیرة، وبها فضّله علی كثير من خلقه، وإضافته إلى اللہ سبحانه علی سبیل الملک، لا علی سبیل البعضيّة والتّشبيه، تعالیٰ عن ذلك، وذلک علی سبیل التشریف له کقوله : بيت الله، وناقة الله، ونحو ذلك . قال تعالی: وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ، وَيَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ النمل/ 87] ، فقد قيل : هو مثل قرن ينفخ فيه، فيجعل اللہ سبحانه ذلک سببا لعود الصُّوَرِ والأرواح إلى أجسامها، وروي في الخبر «أنّ الصُّوَرَ فيه صُورَةُ الناس کلّهم» «1» ، وقوله تعالی: فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَ«2» أي : أَمِلْهُنَّ من الصَّوْرِ ، أي : المیل، وقیل : قَطِّعْهُنَّ صُورَةً صورة، وقرئ : صرهن «3» وقیل : ذلک لغتان، يقال : صِرْتُهُ وصُرْتُهُ «4» ، وقال بعضهم : صُرْهُنَّ ، أي : صِحْ بِهِنَّ ، وذکر الخلیل أنه يقال : عصفور صَوَّارٌ «5» ، وهو المجیب إذا دعي، وذکر أبو بکر النّقاش «6» أنه قرئ : ( فَصُرَّهُنَّ ) «7» بضمّ الصّاد وتشدید الرّاء وفتحها من الصَّرِّ ، أي : الشّدّ ، وقرئ : ( فَصُرَّهُنَّ ) «8» من الصَّرِيرِ ، أي : الصّوت، ومعناه : صِحْ بهنّ. والصَّوَارُ : القطیع من الغنم اعتبارا بالقطع، نحو : الصّرمة والقطیع، والفرقة، وسائر الجماعة المعتبر فيها معنی القطع . ( ص و ر ) الصورۃ : کسی عین یعنی مادی چیز کے ظاہر ی نشان اور خدوخال جس سے اسے پہچانا جاسکے اور دوسری چیزوں سے اس کا امتیاز ہوسکے یہ دو قسم پر ہیں ( 1) محسوس جن کا ہر خاص وعام ادراک کرسکتا ہو ۔ بلکہ انسان کے علاوہ بہت سے حیوانات بھی اس کا ادراک کرلیتے ہیں جیسے انسان فرس حمار وغیرہ کی صورتیں دیکھنے سے پہچانی جاسکتی ہیں ( 2 ) صؤرۃ عقلیہ جس کا ادارک خاص خاص لوگ ہی کرسکتے ہوں اور عوام کے فہم سے وہ بالا تر ہوں جیسے انسانی عقل وفکر کی شکل و صورت یا وہ معانی یعنی خاصے جو ایک چیز میں دوسری سے الگ پائے جاتے ہیں چناچہ صورت کے ان پر ہر دو معانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ ثُمَّ صَوَّرْناكُمْ [ الأعراف/ 11] پھر تمہاری شکل و صورت بنائی : وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ [ غافر/ 64] اور اس نے تمہاری صورتیں بنائیں اور صؤرتیں بھی نہایت حسین بنائیں ۔ فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ [ الانفطار/ 8] اور جس صورت میں چاہا تجھے جو ڑدیا ۔ جو ماں کے پیٹ میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہاری صورتیں بناتا ہے ۔ اور حدیث ان اللہ خلق ادم علیٰ صؤرتہ کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو اس کی خصوصی صورت پر تخلیق کیا ۔ میں صورت سے انسان کی وہ شکل اور ہیت مراد ہے جس کا بصرہ اور بصیرت دونوں سے ادارک ہوسکتا ہے اور جس کے ذریعہ انسان کو بہت سی مخلوق پر فضیلت حاصل ہے اور صورتہ میں اگر ہ ضمیر کا مرجع ذات باری تعالیٰ ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف لفظ صورت کی اضافت تشبیہ یا تبعیض کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ اضافت ملک یعنی ملحاض شرف کے ہے یعنی اس سے انسان کے شرف کو ظاہر کرنا مقصود ہے جیسا کہ بیت اللہ یا ناقۃ اللہ میں اضافت ہے جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] میں روح کی اضافت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف کی ہے اور آیت کریمہ وَيَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ النمل/ 87] جس روز صور پھونکا جائیگا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ صؤر سے قرآن یعنی نر سنگھے کی طرح کی کوئی چیز مراد ہے جس میں پھونکا جائیگا ۔ تو اس سے انسانی صورتیں اور روحیں ان کے اجسام کی طرف لوٹ آئیں گی ۔ ایک روایت میں ہے ۔ ان الصورفیہ صورۃ الناس کلھم) کہ صور کے اندر تمام لوگوں کی صورتیں موجود ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَ«2» میں صرھن کے معنی یہ ہیں کہ ان کو اپنی طرف مائل کرلو اور ہلالو اور یہ صور سے مشتق ہے جس کے معنی مائل ہونے کے ہیں بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی پارہ پارہ کرنے کے ہیں ایک قرات میں صرھن ہے بعض کے نزدیک صرتہ وصرتہ دونوں ہم معنی ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ صرھن کے معنی ہیں انہیں چلا کر بلاؤ چناچہ خلیل نے کہا ہے کہ عصفور صؤار اس چڑیا کو کہتے ہیں جو بلانے والے کی آواز پر آجائے ابوبکر نقاش نے کہا ہے کہ اس میں ایک قرات فصرھن ضاد کے ضمہ اور مفتوحہ کے ساتھ بھی ہے یہ صر سے مشتق ہے اور معنی باندھنے کے ہیں اور ایک قرات میں فصرھن ہے جو صریربمعنی آواز سے مشتق ہے اور معنی یہ ہیں کہ انہیں بلند آواز دے کر بلاؤ اور قطع کرنے کی مناسبت سے بھیڑبکریوں کے گلہ کو صوار کہاجاتا ہے جیسا کہ صرمۃ قطیع اور فرقۃ وغیرہ الفاظ ہیں کہ قطع یعنی کاٹنے کے معنی کے اعتبار سے ان کا اطلاق جماعت پر ہوتا ہے ۔ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ جدث قال تعالی: يَوْمَ يَخْرُجُونَ مِنَ الْأَجْداثِ سِراعاً [ المعارج/ 43] ، جمع الجَدَث، يقال : جدث وجدف وفي سورة يس : فَإِذا هُمْ مِنَ الْأَجْداثِ إِلى رَبِّهِمْ يَنْسِلُونَ [يس/ 51] . ( ج د ث ) جدث ۔ قرج اجداث قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ يَخْرُجُونَ مِنَ الْأَجْداثِ سِراعاً [ المعارج/ 43] اس دن یہ قبر سے نکل کر ( اس طرح ) دوڑیں گے ۔ اور سورة یسن میں ہے : ۔ فَإِذا هُمْ مِنَ الْأَجْداثِ إِلى رَبِّهِمْ يَنْسِلُونَ [يس/ 51] یہ قبروں سے نکل کر اپنے پروردگار کیطرف دوڑیں گے ۔ اور قبروں کو جدف بھی کہا جاتا ہے ۔ نسل النَّسْلُ : الانفصالُ عن الشیءِ. يقال : نَسَلَ الوَبَرُ عن البَعيرِ ، والقَمِيصُ عن الإنسان، قال الشاعر۔ فَسُلِّي ثِيَابِي عَنْ ثِيَابِكِ تَنْسِلي والنُّسَالَةُ : ما سَقَط من الشَّعر، وما يتحاتُّ من الریش، وقد أَنْسَلَتِ الإبلُ : حَانَ أن يَنْسِلَ وَبَرُهَا، ومنه : نَسَلَ : إذا عَدَا، يَنْسِلُ نَسَلَاناً : إذا أسْرَعَ. قال تعالی: وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ [ الأنبیاء/ 96] . والنَّسْلُ : الولدُ ، لکونه نَاسِلًا عن أبيه . قال تعالی: وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] وتَنَاسَلُوا : تَوَالَدُوا، ويقال أيضا إذا طَلَبْتَ فَضْلَ إنسانٍ : فَخُذْ ما نَسَلَ لک منه عفواً. ( ن س ل ) النسل ۔ کے معنی کسی چیز سے الگ ہوجانے کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نسل الوا بر عن البعیر اون اونٹ سے الگ ہوگئی ۔ اور نسل القمیص عن الانسان کے معنی قمیص کے بدن سے الگ ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( 422 ) فسلی ثیا بی عن ثیا بک تنسلی تو اپنے کپڑوں سے کھینچ لے تاکہ جدا ہوجائیں ۔ النسا لۃ داڑھی سے گرے ہوئے بال یا پرندہ کے پر جو جھڑ کر گر پڑتے ہیں ۔ انسلت الابل اونٹوں کی اون جھڑنے کا وقت آگیا اسی سے نسل ینسل نسلانا ہے جس کے معنی تیز دوڑ نے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ [ الأنبیاء/ 96] اور وہ ہر بلند ی سے دوڑ رہے ہوں گے ۔ النسل اولاد کو کہتے ہیں کیونکہ وہ بھی اپنے باپ سے جدا ہوئی ہوتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] اور کھیتی کو ( بر باد ) اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کر دے ۔ اور تنا سلو ا کے معنی تو الد وا کے ہیں نیز جب کوئی انسان دوسرے سے خیرات طلب کرے تو کہا جاتا ہے : ۔ فخذ ما سنل لک منہ عفوا کہ جو کچھ ملے وہی لے لو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور پھر دوسری مرتبہ صور پھونکا جائے گا تو سب قبروں سے نکل نکل کر اپنے پروردگار کی طرف چلنے لگیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥١ { وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَاِذَا ہُمْ مِّنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰی رَبِّہِمْ یَنْسِلُوْنَ } ” اور صور پھونکا جائے گا تو وہ یکایک قبروں سے (نکل کر) اپنے رب کی طرف دوڑ پڑیں گے۔ “ وہ چار ونا چار ‘ کشاں کشاں اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کے لیے بھاگے چلے جا رہے ہوں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

47 For the explanation of the blowing of the "Trumpet" , see E. N . 78 of Surah Ta Ha. As for the length of the interval between the first blowing of the Trumpet and its second blowing, we have no information. The interval maybe of hundreds and thousands of years. Hadrat Abu Hurairah has related that the Holy Prophet said: "Israfil has put the Trumpet to his mouth and is looking up to the Divine Throne, awaiting orders for blowing it. The Trumpet will be blown thrice: On the first blowing (called nafakhat al-faza ) everything in the earth and heavens will be struck with terror. On the second blowing (nafakhat as-Sa'q) everyone will fall down dead. Then, when none shall remain except Allah, the One, the Everlasting, the earth will be changed altogether and will be spread flat and smooth without a crease or wrinkle in it. Then Allah will administer a rebuke to His Creation, whereupon everyone will rise at the spot where he had fallen dead, on the changed earth, and this will happen on the third blowing of the Trumpet (nafakhat al qiyam li-Rabbil- `Alamin). This is supported by several allusions in the Qur'an also. For example, see Surah Ibrahim: 48; Surah Ta Ha: 105-108, and the E.N.'s thereof.

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :47 صور کے متعلق تفصیلی کلام کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم ، ص 122 ۔ پہلے اور دوسرے صور کے درمیان کتنا زمانہ ہو گا ، اس کے متعلق کوئی معلومات ہمیں حاصل نہیں ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ زمانہ سینکڑوں اور ہزاروں برس طویل ہو ۔ حدیث میں حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسرافیل صور پر منہ رکھے عرش کی طرف دیکھ رہے ہیں اور منتظر ہیں کہ کب پھونک مارنے کا حکم ہوتا ہے ۔ یہ صور تین مرتبہ پھونکا جائے گا ۔ پہلا نفخۃ الفَزَع ، جو زمین و آسمان کی ساری مخلوق کو سہما دے گا ۔ دوسرا نفخۃ الصَّعق جسے سنتے ہی سب ہلاک ہو کر گر جائیں گے ۔ پھر جب اللہ واحد صمد کے سوا کوئی ذرا سی سلوَٹ تک نہ رہے گی ۔ پھر اللہ اپنی خلق کو بس ایک جھڑکی دے گا جسے سنتے ہی ہر شخص جس جگہ مر کر گرا تھا اسی جگہ وہ اس بدلی ہوئی زمین پر اٹھ کھڑا ہو گا ، اور یہی نفخۃ القیام لرب العالمین ہے ۔ اسی مضمون کی تائید قرآن مجید کے بھی متعدد اشارات سے ہوتی ہے ۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، ص 492 ۔ 493 ۔ جلد سوم ، ص 124 ۔ 125 ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(36:51) ونفخ فی الصور۔ ھی نفخۃ ثانیۃ اس سے مراد صور کا دوسری دفعہ پھونکا جانا ہے جب سب دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے ۔ نفخ (ماضی مجہول واحد مذکر غائب) ماضی کا صیغہ اس لئے استعمال کیا گیا ہے کہ صور کا پھونکا جانا ایک یقینی امر ہے گویا کہ پھونکا ہی گیا ہے نفخہ اول اور نفخہ ثانی میں چالیس سال کا فاصلہ ہوگا۔ اس کے متعلق مختلف اقوال ہیں :۔ فاذا۔ فا تعقیب کا ہے اذا مفاجاتیہ ہے۔ تو یکا یک، سو فورا۔ الاجداث قبریں۔ جدث واحد۔ ینسلون۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ نسل ینسل نسلا (باب ضرب) النسل کے معنی کسی چیز سے الگ ہوجانے کے ہیں جیسے نسل الوبر عن البعیر اون اونٹ سے الگ ہوگئی۔ النسل اولاد کو بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ بھی اپنے باب سے جدا ہوئی ہوتی ہے۔ اور کہتے ہیں انسلت الابل اونٹوں کی اون جھڑنے کا وقت آگیا اسی سے نسل ینسل نسلانا ہے جس کے معنی تیز دوڑنے کے ہیں۔ جیسے اور جگہ قرآن مجید میں ہے وہم من کل حدب ینسلون۔ (21:96) اور وہ ہر بلندی سے دوڑ رہے ہوں گے۔ نسل ونسلان الاسراع فی المشی چلنے میں تیزی کرنا تیز چلنا۔ فاذاہم من الاجداث الی ربہم ینسلون۔ (دوسری دفعہ صور پھونکے جانے پر) وہ فورا قبروں سے نکل کر اپنے پروردگار کی طرف تیزی سے چلنے لگیں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 ابن کثیر میں ہے کہ اس سے مراد نفخہ ثالثہ یعنی نفخہ بعث ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ دونوں صو وں کے درمیان چالیس برس کا فاصلہ ہوگا۔ ( وحیدی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 4 ۔ آیات 51 تا 67: اسرار و معارف : چنانچہ جب دوبارہ صور پھونکا جائے گا تو اپنی اپنی قبروں سے اٹھ کر اللہ کے حضور چل پڑیں گے یعنی وہ ایسا قادر ہے کہ ایک چنگھاڑ سے ہر شے تباہ کردے گا تو پھر ایک چنگھاڑ یا سخت آواز ہی سب مردہ جسموں کے ذرات کو یکجا کرکے زندہ بھی کردے گی اور ہر فرد چاہے یا نہ چاہے مگر رواں اللہ کی بارگاہ کی طرف ہی ہوگا جہاں سب کی پیشی ہوگی تب پریشان حال یہ کہہ رہے ہوں گے کہ ہمیں کس نے اٹھا دیا اگرچہ برزخ میں بھی کفار عذاب میں ہوں گے۔ مگر میدان حشر کی ہیبت کے سامنے کہیں گے یہاں سے وہاں ہی ٹھیک تھے یہ کس نے ہمیں ان ٹھکانوں سے نکال کھڑا کیا ہے تو جواب آئے گا فرشتے یا مومنین کہہ دیں گے کہ یہی وہ گھڑی ہے جس کا وعدہ اس اللہ نے جس کی رحمت بےپایاں ہے تم دنیا میں مستفید ہوتے رہے کیا تھا اور جو خبر انبیاء و رسل دیتے تھے وہی سچ تھی آج سامنے آگئی اور یہ سب کچھ کرنے کے لیے یعنی ساری مخلوق کو جمع کرنے کے لیے کوئی لمبا اہتمام نہیں ہوگا محض صور پھونکے جانے کی آواز سب کو زندہ بھی کردے گی اور پکڑ کر اللہ کے حضور کھڑے بھی کردئیے جائیں گے۔ تو ارشاد ہوگا کہ یاد رکھو آج کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہوگی کہ یہ دنیا کی یا انسانی عدالت نہیں کہ کبھی عمدا اور کبھی بھولے سے کسی سے زیادتی ہوجائے یہاں ہرگز کسی کے ساتھ بھی کوئی زیادتی نہ ہوگی ہاں تمہارے ہر عمل کا بدلہ دیا جائے گا جو کچھ تم نے خود اپنی پسند سے کیا وہ بھگتنا ہوگا۔ اس گھڑی جب یہ ہیبت ناک منظر ہوگا اور لوگ تڑپ رہے ہوں گے اہل جنت یعنی مومن اور اطاعت گزار بندے اس سب حال سے الگ بڑے مزے سے گپ شپ کر رہے ہوں گے جیسے وہ لمبی مسافت طے کرکے منزل پر پہنچ کر سفر اور صعوبت سفر سے سبکدوش ہو کر آپس میں ہنس کھیل رہے ہوں وہ ان کی بیویاں مزیدار سایہ میں تختوں پر گاؤ تکیے لگا کر بیٹھے ہوں گے۔ یاد رہے بیویاں بھی مومن اور اطاعت گزار ہوں گی کہ یہ سب لوگ اصحب الجنۃ یعنی جنت کے مستحق لوگ ہوں گے اور کھانا پینا پھل میوے یا جو مانگیں گے یا چاہیں گے وہاں حاضر کیا جائے گا اور سب سے بڑی نعمت کہ اللہ بذات خود انہیں سلام کہیں گے کہ اے میرے اطاعت گزار بندے سلامتی ہو تم پر۔ آخرت اور جنت کی سب سے بڑی نعمت : آخرت کی نعمتوں میں میدان حشر کی ہیبت ناکی سے پناہ مل جانا پھر نجات پاجانا اور وہ بھی ایسی کہ لوگ حساب کے لیے پکڑے آئیں اور یہ بیٹھے گپ شپ کر رہے ہوں اور کھا پی رہے ہوں بہت بڑی نعمتیں ہیں مگر سب سے بڑی نعمت اللہ کی رضامندی اس کا خطاب اور اس کا دیدار ہوگا اس کی قدر عام مومن کو وہاں پہنچ کر معلوم ہوگی جبکہ دنیا میں انبیاء جانتے ہیں یا ولی اللہ اپنی حیثیت اور مقام کے ایک حد تک اس کی لذت سے آشنا ہوتے ہیں۔ لیکن اس سب سے پہلے اعلان کردیا جائے گا کہ اے گناہگارو یا عظمت باری کو تسلیم نہ کرنے والو آج کے روز اللہ کے اطاعت گزار بندوں سے الگ ہوجاؤ آج یوم حساب ہے اور سب سے ان کے اس حال کے مطابق سلوک ہوگا جو انہوں نے دنیا میں اپنے لیے منتخب کیا تھا۔ اے اولاد آدم آج کی عذر معذرت کا کیا معنی کیا تمہیں دنیا میں بار بار نہ کہا گیا کہ شیطان کی عبادت ہرگز نہ کرنا کہ یہ تمہارا دشمن ہے تمہیں دھوکا دے کر اپنی اطاعت کروائے گا اور اطاعت ہی عبادت ہے اگر اللہ کے حکم کے خلاف کسی کی بھی بات مانی تو گویا اس کی عبادت کی اور بالآخر یہ شیطان کی عبادت ہے۔ جب عبادت کے لائق صرف اور صرف ہماری ذات ہے۔ صرف اور صرف میری عبادت کرو میری اطاعت کرو کہ یہی سیدھا راستہ ہے مگر شیطان نے تم میں سے ایک جم غفیر کو گمراہ کردیا اور اپنی باتوں پہ لگا لیا کیا تم اتنا سمجھنے کی تکلیف بھی نہ کرسکے اور اس کے اشاروں پہ چلتے رہے۔ اب دیکھو یہ دوزخ سامنے ہے جس کے عذاب سے تمہیں ڈرایا جاتا تھا اور ارتکاب کفر پر جس کا وعدہ کیا گیا تھا مگر تم باز نہ آئے تو اپنے کفر کے سبب اب جہنم میں گھس جاؤ اور بھگتو۔ تب چلائیں گے کہ ہم ایسے تو نہ تھے ہم نے ایسا تو نہیں کیا تو ان کے مونہوں پہ مہر کردی جائے گی کہ بات ہی نہ کرسکیں اور نہ شور ڈالیں پھر ان کے ہاتھ اور پاؤں یعنی اعضاء جسد کو قوت گویائی عطا کردی جائے گی تو وہ ہم سے ہمکلام ہو کر ان کے ایک ایک کرتوت کا کچا چٹھہ کھول دیں گے۔ یہ تو ہمارا کرم ہے کہ یہ دنیا میں دنیا کی نعمتوں سے مستفید ہو رہے ہیں ورنہ اگر ہم چاہیں تو ان کے کفر کے بدلے دنیا میں انہیں اس حال میں پہنچا دیں کہ یہ دنیا کی نعمتوں سے بھی مستفید نہ ہوسکیں جیسے آنکھیں مسخ ہی کردیں تو کہاں سے دیکھ سکیں گے یا انہیں سارے کا سارا ہی مسخ کرکے محض ایک زندہ لاش بنا دیں کہ دیکھ سکیں نہ چل پھر سکیں تو یہ کیا کرلیں گے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے دن لوگ اپنی قبروں سے نکل کر محشر کے میدان کی طرف دوڑیں گے۔ دوسرے نفخہ کے بعد لوگ قبروں سے نکل کر محشر کے میدان کی طرف اس طرح جائیں گے جیسے شکاری شکار کی طرف دوڑتا ہے۔ اللہ کے باغی قبروں سے نکلتے ہی واویلا کریں گے۔ ہائے افسوس ! ہمیں کس نے قبروں سے نکال باہر کیا ہے۔ قیامت کی ہولناکیوں اور محشر کے میدان میں اکٹھے کیے جانے کا حال دیکھ کر انہیں یقین ہوجائے گا کہ یہی قیامت کا دن ہے جس کا ہمارے ساتھ ربِّ رحمن نے وعدہ کیا تھا اور جس کی پیغمبریاد دہانی کروایا کرتے تھے۔ جس قیامت کے بارے میں یہ لوگ جھگڑتے اور کہتے ہیں کہ یہ کبھی نہیں آئے گی وہ تو اسرافیل کی ایک پھونک کا نتیجہ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے جوں ہی اسرافیل صور میں پھونک ماریں گے تو زمین میں شدید ترین زلزلے ہوں گے یہاں تک کہ پھٹ جائے گی۔ ہر کوئی اپنے اپنے مدفن سے نکل کھڑا ہوگا اور سب کے سب ربِّ ذوالجلال کے حضور کھڑے ہوجائیں گے۔ لوگ پسینے سے شرابور ہوں گے اور اس طرح حواس باختہ ہوں گے جیسے انہوں نے نشہ کیا ہوا ہو۔ یہ حالت ان کی نشہ کی وجہ سے نہیں بلکہ محشر کی سختی اور ربِّ ذوالجلال کے جلال کی وجہ سے ہوگی۔ اس موقع پر اعلان ہوگا کہ آج کسی پر رائی کے دانے کے برابر ظلم نہیں ہوپائے گا۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ یُحْشَرُالنَّا سُ یَوْمَ الْقِیاَمَۃِ حُفَاۃً عُرَاۃً غُرْلًا قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَلرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ جَمِیْعًا یَنْظُرُ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ فَقَالَ یَا عَاءِشَۃُ اَلْاَمْرُ اَشَدُّ مِنْ اَنْ یَّنْظُرَ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ ) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب کَیْفَ الْحَشْر ]

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

نفخ صور کے وقت حیرانی اور پریشانی مزید فرمایا (وَنُفِخَ فِی الصُّورِ فَاِِذَا ھُمْ مِنَ الْاَجْدَاثِ اِِلٰی رَبِّہِمْ یَنْسِلُوْنَ ) (اور صور میں پھونکا جائے گا تو وہ اچانک قبروں سے نکل کر اپنے رب کی طرف (یعنی حساب کی جگہ کے لیے) جلدی جلدی چلنے لگیں گے۔ ) قبروں سے اٹھنے والے (جن کو اللہ تعالیٰ امن وامان نہ دے، گھبراہٹ سے محفوظ نہ فرمائے، وہ) کہیں گے (یٰوَیْلَنَا مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَا) (ہائے ہماری کم بختی ہمیں لیٹنے کی جگہ سے کس نے اٹھا دیا) فرشتے جواب میں کہیں گے (ھٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُوْنَ ) (یہ وہی قیامت کا دن ہے جس کا رحمن نے وعدہ فرمایا تھا اور پیغمبروں نے سچی خبر دی تھی۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

33:۔ و نفخ فی الصور الخ :۔ یہ تخویف اخروی ہے۔ اجداث، جدث کی جمع ہے یعنی قبور ینسلون، یسرعون، دوڑ رہے ہوں گے۔ اس سے نفخہ ثانیہ مراد ہے جس سے تمام مردے جی اٹھیں گے اور میدان محشر کی طرف دوڑ پڑینگے۔ قالوا من بعثنا الخ، قیامت کا منظر ایسا ہولناک اور دہشت انگیز ہوگا کہ کفار قبروں کے عذاب کو بھول جائیں گے۔ اور سمجھیں کہ ہم ابتک سوئے رہے ہیں۔ اس لیے جب قبروں سے اٹھیں گے تو ایک دوسرے سے پوچھیں گے ہمیں نیند سے کس نے جگایا ہے۔ والقوم لاختلاط عقولہم ظنوا انہم کانو نیاما ولم یکن لہم ادراک لعذاب القبر لذلک فاستفہموا عن موقظہم (روح ج 23 ص 32) ۔ ھذا ما وعد الرحمن الخ، لیکن جب وہ دیکھیں گے کہ ہر طرف ٹڈی دل کی طرح انسانوں کا ایک سیلاب ہے۔ سب پریشان اور حواس باختہ ہیں۔ اور سب پر خوف و ہراس کی کیفیت طاری ہے تو سمجھ جائیں گے کہ یہ وہی قیامت کا منظر ہے جس سے دنیا میں ہمیں اللہ کے پیغمبر ڈراتے تھے۔ اس لیے اپنے سوال کا خود ہی جواب دیں گے کہ یہ تو وہی قیامت ہے جس کی آمد کا وعدہ اللہ نے فرمایا تھا۔ بیشک اللہ کے رسول سچے تھے۔ ان کے کہنے کے مطابق قیامت آ ہی گئی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(51) اور صور میں پھونکا جائے گا سو وہ سب دفعتًہ قبروں سے نکل کر اپنے پروردگار کی طرف چل پڑیں گے۔ یعنی پہلی مرتبہ صور وقوع قیامت کے لئے پھونکا جائے گا اور اس کے چالیس برس کے بعد یہ دوسری مرتبہ صور پھونکا جائے گا تو سب لوگ زندہ ہو کر اپنی اپنی قبروں سے نکل کر جلدی جلدی اپنے پروردگار کی طرف چلیں گے جو شخص جہاں ہوگا اور جس کے ذرات جہاں ہوں گے وہی اس کی قبر ہے۔