Surat Yaseen

Surah: 36

Verse: 53

سورة يس

اِنۡ کَانَتۡ اِلَّا صَیۡحَۃً وَّاحِدَۃً فَاِذَا ہُمۡ جَمِیۡعٌ لَّدَیۡنَا مُحۡضَرُوۡنَ ﴿۵۳﴾

It will not be but one blast, and at once they are all brought present before Us.

یہ نہیں ہے مگر ایک چیخ کہ یکایک سارے کے سارے ہمارے سامنے حاضر کر دیئے جائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

It will be but a single Sayhah, so behold they will all be brought up before Us! This is like the Ayat: فَإِنَّمَا هِىَ زَجْرَةٌ وَحِدَةٌ فَإِذَا هُم بِالسَّاهِرَةِ But it will be only a single Zajrah, when behold, they find themselves (on the surface of the earth) alive (after their death). (79:13-14) وَمَأ أَمْرُ السَّاعَةِ إِلاَّ كَلَمْحِ الْبَصَرِ أَوْ هُوَ أَقْرَبُ And the matter of the Hour is not but as a twinkling of the eye, or even nearer. (16:77) and, يَوْمَ يَدْعُوكُمْ فَتَسْتَجِيبُونَ بِحَمْدِهِ وَتَظُنُّونَ إِن لَّبِثْتُمْ إِلاَّ قَلِيلً On the Day when He will call you, and you will answer (His call) with (words of) His praise and obedience, and you will think that you have stayed (in this world) but a little while! (17:52) which means, `We will issue but one command, and all of them will be gathered together.'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٥١] جب انہیں صحیح صورت حال کا علم ہوجائے گا تو فرشتے انہیں دھکیل کر میدان محشر کی طرف لے جائیں گے اور وہ مجرموں کی طرح اللہ کے حضور جواب دہی کے لئے پیش کردیئے جائیں گے۔ اور ساتھ ہی انہیں یہ بتادیا جائے گا کہ تم دنیا میں جیسے اعمال کرکے آئے ہو ویسا ہی تمہیں بدلہ دیا جائے گا تاہم یہ یقین رکھو کہ تمہیں تمہارے جرائم سے زیادہ سزا نہیں دی جائے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنْ كَانَتْ اِلَّا صَيْحَةً وَّاحِدَةً : مراد صور میں دوسری دفعہ کی پھونک ہے، جس سے لمحہ بھر میں قیامت برپا ہوجائے گی۔ دیکھیے سورة نحل (٧٧) اور نازعات (١٣، ١٤) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنْ كَانَتْ اِلَّا صَيْحَۃً وَّاحِدَۃً فَاِذَا ہُمْ جَمِيْعٌ لَّدَيْنَا مُحْضَرُوْنَ۝ ٥٣ صاح الصَّيْحَةُ : رفع الصّوت . قال تعالی: إِنْ كانَتْ إِلَّا صَيْحَةً واحِدَةً [يس/ 29] ( ص ی ح ) الصیحۃ کے معنی آواز بلندکرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنْ كانَتْ إِلَّا صَيْحَةً واحِدَةً [يس/ 29] وہ تو صرف ایک چنگھاڑ تھی ( آتشین ۔ جمع الجَمْع : ضمّ الشیء بتقریب بعضه من بعض، يقال : جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ ، وقال عزّ وجل : وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] ، وَجَمَعَ فَأَوْعى [ المعارج/ 18] ، جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] ، ( ج م ع ) الجمع ( ف ) کے معنی ہیں متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملا دینا ۔ محاورہ ہے : ۔ چناچہ وہ اکٹھا ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔ ( مال ) جمع کیا اور بند رکھا ۔ جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے لدن لَدُنْ أخصّ من «عند» ، لأنه يدلّ علی ابتداء نهاية . نحو : أقمت عنده من لدن طلوع الشمس إلى غروبها، فيوضع لدن موضع نهاية الفعل . قال تعالی: فَلا تُصاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْراً [ الكهف/ 76] ( ل دن ) لدن ۔ یہ عند سے اخص ہے کیونکہ یہ کسی فعل کی انتہاء کے آغاز پر دلالت کرتا ہے ۔ جیسے قمت عند ہ من لدن طلوع الشمس الیٰ غروبھا آغاز طلوع شمس سے غروب آفتاب اس کے پاس ٹھہرا رہا ۔ قرآن میں ہے : فَلا تُصاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْراً [ الكهف/ 76] تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھئے گا کہ آپ کو مجھے ساتھ نہ رکھنے کے بارے میں میری طرف سے عذر حاصل ہوگا ۔ حضر الحَضَر : خلاف البدو، والحَضَارة والحِضَارَة : السکون بالحضر، کالبداوة والبداوة، ثمّ جعل ذلک اسما لشهادة مکان أو إنسان أو غيره، فقال تعالی: كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة/ 180] ، نحو : حَتَّى إِذا جاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ الأنعام/ 61] ، وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء/ 8] ، وقال تعالی: وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء/ 128] ، عَلِمَتْ نَفْسٌ ما أَحْضَرَتْ [ التکوير/ 14] ، وقال : وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ [ المؤمنون/ 98] ، وذلک من باب الکناية، أي : أن يحضرني الجن، وكني عن المجنون بالمحتضر وعمّن حضره الموت بذلک، وذلک لما نبّه عليه قوله عزّ وجل : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق/ 16] ، وقوله تعالی: يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آياتِ رَبِّكَ [ الأنعام/ 158] ، وقال تعالی: ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً [ آل عمران/ 30] ، أي : مشاهدا معاینا في حکم الحاضر عنده، وقوله عزّ وجلّ : وَسْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كانَتْ حاضِرَةَ الْبَحْرِ [ الأعراف/ 163] ، أي : قربه، وقوله : تِجارَةً حاضِرَةً [ البقرة/ 282] ، أي : نقدا، وقوله تعالی: وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنا مُحْضَرُونَ [يس/ 32] ، وفِي الْعَذابِ مُحْضَرُونَ [ سبأ/ 38] ، شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] ، أي : يحضره أصحابه، والحُضْر : خصّ بما يحضر به الفرس إذا طلب جريه، يقال : أَحْضَرَ الفرس، واستحضرته : طلبت ما عنده من الحضر، وحاضرته مُحَاضَرَة وحِضَارا : إذا حاججته، من الحضور، كأنه يحضر کلّ واحد حجّته، أو من الحضر کقولک : جاریته، والحضیرة : جماعة من الناس يحضر بهم الغزو، وعبّر به عن حضور الماء، والمَحْضَر يكون مصدر حضرت، وموضع الحضور . ( ح ض ر ) الحضر یہ البدو کی ضد ہے اور الحضارۃ حاد کو فتحہ اور کسرہ دونوں کے ساتھ آتا ہے جیسا کہ بداوۃ وبداوۃ اس کے اصل شہر میں اقامت کے ہیں ۔ پھر کسی جگہ پر یا انسان وگیرہ کے پاس موجود ہونے پر حضارۃ کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة/ 180] تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آجائے ۔ وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء/ 8] اور جب تم میراث کی تقسیم کے وقت ۔۔۔ آمو جود ہوں ۔ وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء/ 128] اور طبائع میں بخل ودیعت کردیا گیا ہے ۔ عَلِمَتْ نَفْسٌ ما أَحْضَرَتْ [ التکوير/ 14] تب ہر شخص معلوم کرلے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے اور آیت کریمہ : وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ [ المؤمنون/ 98] میں کنایہ کہ اے پروردگار میں پناہ مانگتا ہوں کہ جن و شیاطین میرے پاس آھاضر ہوں ۔ اور بطور کنایہ مجنون اور قریب المرگ شخص کو محتضر کہا جاتا ہے جیسا کہ آیت : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق/ 16] اور آیت کریمہ : یوم یاتی بعض ایات ربک میں اس معنی پر متنبہ کیا گیا ہے اور آیت کریمہ ۔ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً [ آل عمران/ 30] کے معنی یہ ہیں کہ انسان جو نیکی بھی کرے گا ۔ قیامت کے دن اس کا اس طرح مشاہدہ اور معاینہ کرلے گا جیسا کہ کوئی شخص سامنے آموجود ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَسْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كانَتْ حاضِرَةَ الْبَحْرِ [ الأعراف/ 163] اور ان سے اس گاؤں کا حال پوچھ جواب دریا پر واقع تھا ۔ میں حاضرۃ البحر کے معنی دریا کے قریب یعنی ساحل کے ہیں اور آیت کریمہ : تِجارَةً حاضِرَةً [ البقرة/ 282] میں حاضرۃ کے معنی نقد کے ہیں ۔ نیز فرمایا : وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنا مُحْضَرُونَ [يس/ 32] اور سب کے سب ہمارے روبرو حاضر کئے جائیں گے ۔ وفِي الْعَذابِ مُحْضَرُونَ [ سبأ/ 38] وی عذاب میں ڈالے جائیں گے ۔ اور آیت کریمہ : شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] ، ہر باری والے کو اپنی باری پر آنا چاہئے میں بانی کی باری کے محتضر ہونے کے معنی یہ ہیں کہ باڑی والے اس گھاٹ پر موجود ہوں ۔ الحضر ۔ خاص کر گھوڑے کی تیز دوڑے کو کہتے ہیں کہا جاتا ہے : احضر الفرس گھوڑا دوڑا استحضرتُ الفرس میں نے گھوڑے کو سرپٹ دوڑایا ۔ حاضرتہ محاضرۃ وحضارا باہم جھگڑنا ۔ مباحثہ کرنا ۔ یہ یا تو حضور سے ہے گویا ہر فریق اپنی دلیل حاضر کرتا ہے اور یا حضر سے ہے جس کے معنی تیز دوڑ کے ہوتے ہیں جیسا کہ ۔۔۔۔۔۔ جاریتہ کہا جاتا ہے ۔ الحضیرۃ ُ لوگوں کی جماعت جو جنگ میں حاضر کی جائے اور کبھی اس سے پانی پر حاضر ہونے والے لوگ بھی مراہ لئے جاتے ہیں ۔ المحضرُ ( اسم مکان ) حاضر ہونے کی جگہ اور حضرت ُ ( فعل ) کا مصدر بھی بن سکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور پیغمبر بعث بعد الموت کے بارے میں سچ کہتے تھے بس وہ دوسری صور تو ایک زور کی آواز ہوگی جس سے یکایک سب حساب کے لیے ہمارے سامنے حاضر کردیے جائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٣ { اِنْ کَانَتْ اِلَّا صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً فَاِذَا ہُمْ جَمِیْعٌ لَّدَیْنَا مُحْضَرُوْنَ } ” (پھر) ایک ہی چنگھاڑ ہوگی تو ( اس کے نتیجے میں) وہ سب کے سب ہمارے حضور حاضر کردیے جائیں گے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی لمحہ بھر میں دیکھئے ( نحل : 77، 14)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(اِِنْ کَانَتْ اِِلَّا صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً فَاِِذَا ھُمْ جَمِیْعٌ لَّدَیْنَا مُحْضَرُوْنَ ) (بس وہ نفخہ ثانیہ ایک زور کی آواز ہوگی جس سے یکایک سب جمع ہو کر ہمارے پاس حاضر کیے جائیں گے) یہ جمع ہونا حساب کتاب کے لیے ہوگا، حساب ہونے پر جس کو جو سزا ملے گی اس میں کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا، نہ کسی کی کوئی نیکی کم کی جائے گی جو لائق ثواب ہو اور نہ کسی کے گناہوں میں کسی ناکردہ گناہ کا اضافہ ہوگا۔ سورة کہف میں فرمایا (وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا وَ لَا یَظْلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا) (اور انہوں نے جو عمل کیے تھے ان کو حاضر پائیں گے اور آپ کا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

34:۔ ان کانت الخ :۔ یہ نفخہ ثانیہ کی طرف اشارہ ہے یعنی یہ نفخہ ایک ہولناک آواز ہوگی جس سے سب مردے زندہ ہو کر فورًا ہمارے سامنے حاضر ہوجائیں گے یعنی ان احیاءہم و بعثہم کان بصیحۃ واحدۃ (قرطبی ج 15 ص 42) ۔ فالیوم لا تظلم نفس الخ، یہ خطاب صرف کافروں سے ہوگا۔ یا مومنوں اور کافروں دونوں سے ہوگا۔ یعنی آج کسی فرد بشر سے نیک ہو یا بد ذرہ بھر بےانصافی نہیں ہوگی اور ہر ایک کو اس کے اپنے ہی اعمال کی جزاء و سزا ملے گی اور کسی کو ناکردہ گناہ کی سزا نہیں ملے گی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(53) وہ صور کا نفحۂ ثانیہ ایک تند اور زور کی آواز ہوگی جس سے وہ سب کے سب دفعتًہ ہمارے حضور میں حاضر کردیئے جائیں گے۔ یعنی اس نفحہ سے لوگ نکلنے شروع ہوجائیں گے اور نفحہ کے ختم ہونے تک سب لاحاضر کئے جائیں گے یعنی فرشتے گھیر کرلے آئیں گے۔