Surat Yaseen

Surah: 36

Verse: 54

سورة يس

فَالۡیَوۡمَ لَا تُظۡلَمُ نَفۡسٌ شَیۡئًا وَّ لَا تُجۡزَوۡنَ اِلَّا مَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۵۴﴾

So today no soul will be wronged at all, and you will not be recompensed except for what you used to do.

پس آج کسی شخص پر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا اور تمہیں نہیں بدلہ دیا جائے گا ، مگر صرف ان ہی کاموں کا جو تم کیا کرتے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَالْيَوْمَ لاَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْيًا ... This Day, none will be wronged in anything, means, with regard to his deeds. ... وَلاَ تُجْزَوْنَ إِلاَّ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ nor will you be requited anything except that which you used to do.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَالْيَوْمَ لَا تُــظْلَمُ نَفْسٌ شَـيْــــًٔا : یعنی اس وقت اعلان ہوگا کہ آج کسی جان پر کچھ بھی ظلم نہیں کیا جائے گا، نہ یہ کہ ان کی نیکیوں میں کوئی کمی کی جائے اور نہ یہ کہ وہ گناہ اس کے ذمے ڈال دیے جائیں جو اس نے نہیں کیے، بلکہ صرف انھی اعمال کی جزا ملے گی جو وہ کرتے رہے تھے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَالْيَوْمَ لَا تُــظْلَمُ نَفْسٌ شَـيْــــًٔا وَّلَا تُجْـزَوْنَ اِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝ ٥٤ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( ن ف س ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے شيء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . ( ش ی ء ) الشئی بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، جزا الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان/ 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، ( ج ز ی ) الجزاء ( ض ) کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا } ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور پھر اس قیامت کے دن کسی کی نیکیوں میں سے ذرہ برابر کمی نہیں کی جائے گی اور نہ اس کے گناہوں میں اضافہ کیا جائے گا اور تمہیں بس آخرت میں انہیں کاموں کا بدلہ ملے گا جو تم دنیا میں کیا کرتے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٤ { فَالْیَوْمَ لَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئًا وَّلَا تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ } ” پس آج کے دن کسی جان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا اور تمہیں بدلے میں نہیں دیا جائے گا مگر وہی کچھ جو تم عمل کرتے رہے تھے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

50 This is what AIlah will tell the disbelievers and the polytheists, the sinners and the culprits, when they will be presented before Him.

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :50 یہ وہ خطاب ہے جو اللہ تعالیٰ کفار و مشرکین اور فساق و مجرمین سے اس وقت فرمائے گا جب وہ اس کے سامنے حاضر کیے جائیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٤ تا ٦٤۔ اوپر دوسرے صور کی آواز سن کر اللہ تعالیٰ کے روبرو حاضر ہوجانے کا ذکر تھا اب اس کے نتیجے کا ذکر فرمایا۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوذر (رض) کی روایت سے حدیث قدسی کئی جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ظلم اپنی ذات پاک پر حرام کرلیا ہے اسی واسطے فرمایا کہ قیامت کے دن کسی پر کچھ ظلم نہ ہوگا مطلب یہ ہے کہ نیکیوں کے ثواب میں کمی نہ ہوگی اور بدی کی سزا جرم کی حیثیت سے بڑھ کر نہ دی جاویگی اب آگے جنتیوں اور دوزخیوں کا ذکر فرمایا کیوں کہ دنیا کا پیدا ہونا اور حشر کا قائم ہونا سب اسی نتیجہ کے لیے تھا۔ جنتیوں کے حال کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ اور ان کی بیبیاں طرح طرح کی نعمتوں کے مشغلہ میں لگے ہوئے ہوں گے جنت کے مکانوں اور درختوں کے سایہ کی ٹھنڈک میں چھپر کھٹوں کے اندر تکیہ لگائے ہوئے بیٹھے ہوں گے اور طرح طرح کے میوے اور جس چیز کو ان کا جی چاہے گا وہ سب کچھ وہاں موجود ہوجاوے گا اللہ تعالیٰ کا سلام ان کو پہنچے گا جنتی جب جنت میں جانے لگیں گے تو دوزخیوں کو حکم ہوگا کہ تمہاری ٹکڑی الگ ہوجاوے اور پھر ان کو یوں قائل کیا جائے گا کہ کیا رسولوں کی زبانی تم کو شیطان کی فرمانبرداری سے منع نہیں کیا گیا تھا اس پر بھی ایک بڑی جماعت ناسمجھی سے شیطان کے بہکاوے میں آگئی تو ایسے لوگوں کا ٹھکانہ آج کے دن دوزخ ہے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی روایت سے حدیث قدسی کئی جگہ گزر چکی ہے کہ جنتیوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے جنت میں جو نعمتیں پیدا کی ہیں وہ دنیا میں نہ کسی نے آنکھوں سے دیکھیں نہ کانوں سے سنی نہ کسی کے دل پر ان کا خیال گزر سکتا ہے۔ صحیح بخاری ومسلم میں انس بن مالک (رح) سے اور بخاری ترمذی اور مستدرک حاکم میں ابودرداء اور ابوذر (رض) سے جو روایتیں ؎ ہیں (؎ الترغیب والترہیب ص ٢٦٤۔ ٢٦٥ ج ٤ ) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ (رض) سے فرمایا دوزخ کے عذاب کا جو حال مجھ کو معلوم ہے اگر وہ میں پورا بیان کردوں تو لوگ ہنسنا چھوڑ کر ہیمشہ روتے رہو اور گھر بار چھوڑ کر جنگل کو نکل جاؤ ‘ ان حدیثوں کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب قرار پایا کہ اہل جنت کی نعمتوں اور اہل دوزخ کے عذابوں کی پوری تفسیر علمائے امت کی طاقت سے باہر ہے۔ سلام قولا من رب رحمیم کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا قول یہی ہے کہ اہل جنت سے اللہ تعالیٰ سلام علیکم فرمائے گا ابن ماجہ بیہقی وغیرہ میں جابر بن عبداللہ (رض) کی ایک روایت ١ ؎ بھی اس مضمون کی ہے جس سے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے اس قول کی پوری تائید ہوتی ہے اگرچہ اس حدیث کی سند میں ایک راوی فضل بن عیسیٰ (قاشی ضعیف ہے لیکن یہ حدیث چند طریقوں سے آئی ہے اس لیے بیہقی نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ یہ حدیث معتبر ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(36:54) فالیوم سے مراد یوم قیامت ہے منصوب بوجہ الظرف یا مفعول فیہ ہونے کے۔ شیئا۔ شاء یشائ۔ شیء ومشیئۃ ومشاء ۃ (باب فتح) مصدر۔ ارادہ کرنا۔ چاہنا۔ شیء چیز ۔ کچھ ۔ جو چیز جانی پہچانی جائے اور اس کی خبر دی جاسکے شیء کہلاتی ہے اس کی جمع اشیاء ہے نصب بوجہ مصدر کے ہے۔ لا تجزون مضارع منفی مجہول جمع مذکر حاضر۔ جزاء (باب ضرب) مصدر تم جزا دئیے جائو گے۔ تم بدلہ دئیے جائو گے۔ تمہیں بدلہ ملے گا۔ ما۔ موصولہ ہے بطور مضاف الیہ ہے جس کا مضاف محذوف ہے اور مضاف الیہ ہی قائم مقام مضاف کے ہے۔ ای الاجزاء ما کنتم تعملونہ فی الدنیا علی الاستمرار۔ یعنی سوائے اس عمل کے بدلہ کے جو تم دنیا میں کرتے رہے تھے۔ کنتم تعلمون ماضی استمراری کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ یہ بات ہے جو روز قیامت اللہ کی طرف سے ہر نفس کو کہی جائے گی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی نہ ان کی نیکیوں میں کمی کی جائے گی اور نہ ان پر کوئی ناکردہ گناہ لا دا جائے گا۔ اس میں مومن کے لئے خوش خبری اور کافر کے لیے وعید ہے۔ ( کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فالیوم لا تظلم ۔۔۔۔ تعملون (54) ” یہاں نہایت تیزی کے ساتھ تین مناظر کی جھلک دکھائی جاتی ہے اور ان لوگوں کے شکوک اور خلجانات کا رد کردیا جاتا ہے جو خواہ مخواہ وقوع قیامت میں شک کرتے ہیں اور نہایت ہی ترتیب کے ساتھ۔ اب یہاں اہل ایمان کے ستاھ حساب و کتاب کا حال بھی چند لمحوں میں لپیٹ لیا جاتا ہے اور ان کا انجام بھی تیزی کے ساتھ دکھا دیا جاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(54) پھر اس دن کسی جی پر اور کسی شخص پر ذرا سا بھی ظلم اور زیادتی نہ ہوگی اور تم کو صرف انہی اعمال کا بدلا دیا جائے گا جو تم کیا کرتے تھے یعنی زیادتی کچھ نہ ہوگی بلکہ وہی بدلا پائو گے جو تم کیا کرتے تھے۔