Surat Yaseen
Surah: 36
Verse: 61
سورة يس
وَّ اَنِ اعۡبُدُوۡنِیۡ ؕ ؔہٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِیۡمٌ ﴿۶۱﴾
And that you worship [only] Me? This is a straight path.
اور میری ہی عبادت کرنا سیدھی راہ یہی ہے ۔
وَّ اَنِ اعۡبُدُوۡنِیۡ ؕ ؔہٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِیۡمٌ ﴿۶۱﴾
And that you worship [only] Me? This is a straight path.
اور میری ہی عبادت کرنا سیدھی راہ یہی ہے ۔
Allah says: وَأَنْ اعْبُدُونِي هَذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ And that you should worship Me. That is the straight path. meaning, `I commanded you in the world to disobey the Shaytan, and I commanded you to worship Me, and this is the straight path, but you followed a different path and you followed the commands of the Shaytan.'
61۔ 1 یعنی یہ بھی عہد لیا تھا کہ تمہیں صرف میری ہی عبادت کرنی ہے، میری عبادت میں کسی کو شریک نہیں کرنا۔ 61۔ 2 یعنی صرف ایک اللہ کی عبادت کرنا، یہی وہ سیدھا راستہ ہے، جس کی طرف تمام انبیاء لوگوں کو بلاتے رہے اور یہی منزل مقصود یعنی جنت تک پہنچانے والا۔
[ ٥٦] عبادت کا مفہوم :۔ سیدھے راستہ کی تفصیل میں جائیں تو اس سے مراد تمام تر شریعت ہے اور انتہائی مختصر الفاظ میں سیدھے راستہ کی تعریف کی جائے تو وہ یہ ہے کہ && صرف ایک اللہ کی عبادت کی جائے && اس جملہ میں شرک کی تمام تر اقسام کی تردید ہوگئی۔ پھر عبادت کا مفہوم بھی بہت وسیع ہے۔ عبادت سے عموماً ارکان اسلام کی بجاآوری مراد لی جاتی ہے تو یہ عبادت کی صرف ایک معروف قسم ہے۔ کسی کو اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لئے پکارنا بھی عبادت ہے۔ پھر عبادت کا لغوی معنی بندگی اور غلام ہے وہ بھی تذلل کے ساتھ اور غلام ہر وقت غلام ہوتا ہے۔ لہذا اس میں کتاب و سنت کے تمام اوامرو نواہی کی بجا آوری بھی آجاتی ہے۔
وَّ اَنِ اعْبُدُوْنِيْ ڼ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَــقِيْمٌ : ” اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطٰنَ “ میں اور ” اَنِ اعْبُدُوْنِيْ “ میں ” اَنِ “ تفسیریہ ہے اور یہ سب اسی تاکیدی نصیحت کی تفسیر ہے۔
وَّاَنِ اعْبُدُوْنِيْ ٠ ۭؔ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَــقِيْمٌ ٦١ عبادت العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . والعِبَادَةُ ضربان : عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود . وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ عبادۃ دو قسم پر ہے (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ صرط الصِّرَاطُ : الطّريقُ المستقیمُ. قال تعالی: وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام/ 153] ، ويقال له : سِرَاطٌ ، وقد تقدّم . سرط السِّرَاطُ : الطّريق المستسهل، أصله من : سَرَطْتُ الطعامَ وزردته : ابتلعته، فقیل : سِرَاطٌ ، تصوّرا أنه يبتلعه سالکه، أو يبتلع سالکه، ألا تری أنه قيل : قتل أرضا عالمها، وقتلت أرض جاهلها، وعلی النّظرین قال أبو تمام : 231- رعته الفیافي بعد ما کان حقبة ... رعاها وماء المزن ينهلّ ساكبه «2» وکذا سمّي الطریق اللّقم، والملتقم، اعتبارا بأنّ سالکه يلتقمه . ( ص ر ط ) الصراط ۔ سیدھی راہ ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام/ 153] اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے ۔ اسے سراط ( بسین مھملہ ) پڑھا جاتا ہے ملاحظہ ہو ( س ر ط) السراط کے معنی آسان راستہ ، کے آتے ہیں اور اصل میں سرطت الطعام وزاردتہ سے مشتق ہے جس کے معنی طعام کو نگل جانے کے ہیں ۔ اور راستہ کو صراط اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ راہر کو گویا نگل لیتا ہے یار ہرد اس کو نگلتا ہوا چلایا جاتا ہے ۔ مثل مشہور ہے ۔ قتل ارضا عالھا وقتلت ارض جاھلھا کہ واقف کار رہر و توزمین کو مار ڈالتا ہے لیکن ناواقف کو زمین ہلاک کردیتی ہے ۔ ابو تمام نے کہا ہے ۔ رعتہ الفیما فی بعد ماکان حقبۃ رعاھا اذا ماالمزن ینھل ساکبہ اس کے بعد کو اس نے ایک زمانہ دراز تک سرسبز جنگلوں میں گھاس کھائی اب اس کو جنگلات نے کھالیا یعنی دبلا کردیا ۔ اسی طرح راستہ کو لقم اور ملتقم بھی کہا جاتا ہے اس لحاظ سے کہ گویا ر ہرو اس کو لقمہ بنالیتا ہے۔ الاسْتِقَامَةُ يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] الاستقامۃ ( استفعال ) کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] ہم کو سيدھے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے
آیت ٦١ { وَّاَنِ اعْبُدُوْنِیْط ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ} ” اور میری ہی بندگی کرنا۔ یہی سیدھا راستہ ہے۔ “
53 Here again Allah has used `ibadat in the sense of ita at (obedience). This subject has already been explained above in Al-Baqarah: 172, An-Nisa': 117, AI-An'am: 121, 137, At-Taubah; 31, Ibrahim: 22, Al-Kahf: 52, Maryam: 42, AlQasas: 63 and E.N. 63 of Saba. In this connection, the fine explanation given of it by Imam Razi in his Tafsir Kabir is also noteworthy. He writes: "Do not worship Satan means: Do not obey him, the reason being that only falling prostrate before him is not forbidden, but following him and obeying his commands also is forbidden; therefore, ita et (obedience) is ibadat (worship). " After this, the Imam raises the question: If `ibadat means ita'at, then have the Muslims been commanded to worship the Prophet and the rulers in the verse: Ati `ullaha wa ati '-ur-rasula wa ulil--amr-i min-kum? He himself answers it thus: "If obedience to theta is in accordance with the Commands of Allah, it will be Allah's worship ('ibadat) and His obedience (ita`at. Did not the angels fall prostrate before Adam i» obedience to Allah's Command ? This was nothing but worship of Allah. Obedience of the rulers will be their worship only in cases where they are obeyed in matters in which Allah has not given leave to obey them." Then he writes: "If a person comes to you and commands you to do something, you should see whether his command is in accordance with the Command of Allah or not. If it is not, Satan is with him; and if you obeyed him in this, you worshipped him and his Satan. Likewise, if your self urges you to do something, you should see whether it is permissible to do it according to the Sahari'ah or not. If it is not permissible, your self is Satan itself, or Satan is with it. If you obeyed him, you in fact became guilty of worshipping him." Further on, he writes: "But there are different degrees of the worship of Satan. Sometimes it so happens that a man dces a work and his limbs and his tongue also join him in this, and his heart also cooperates. At another time it so happens that a man uses his limbs to do a work but his heart and tongue do trot cooperate in this. Some people commit a sin while their heart is disagreeable and their tongue is invoking Allah for forgiveness, and they confess that they are committing an evil. This is Satan's worship with external limbs. There are other people who commit a crime with a cool mind and express pleasure and satisfaction with the tongue also. ..........Such people are the worshippers of Satan from outside as well as from inside. (Tafsir Kabir, vol. VII, pp. 103-104).
سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :53 یہاں پھر اللہ تعالیٰ نے عبادت کو اطاعت کے معنی میں استعمال فرمایا ہے ۔ ہم اس سے پہلے تفہیم القرآن میں متعدد مقامات پر اس مضمون کی تشریح کر چکے ہیں ) ملاحظہ ہو جلد اول ، صفحات 134 ۔ 398 ۔ 577 ۔ 578 ۔ 586 ۔ جلد دوم ، صفحات 189 ۔ 482 ۔ 483 ۔ جلد سوم ، صفحات 31 ۔ 69 ۔ 656 ۔ جلد چہارم ، سورہ سبا ، حاشیہ 63 ) اس سلسلہ میں وہ نفیس بحث بھی قابل ملاحظہ ہے جو اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے امام رازی نے اپنی تفسیر کبیر میں فرمائی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں : لَا تَعْبُدُوا الشَّیْطٰن کے معنی ہیں لا تطیعوہ ( اس کی اطاعت نہ کرو ) ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس کو محض سجدہ کرنا ہی ممنوع نہیں ہے بلکہ اس کی اطاعت کرنا اور اس کے حکم کی تابعداری کرنا بھی ممنوع ہے ۔ لہٰذا طاعت عبادت ہے ۔ اس کے بعد امام صاحب یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر عبادت بمعنی طاعت ہے تو کیا آیت اَطِیْعُوا االلہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ میں ہم کو رسول اور امراء کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ؟ پھر اس سوال کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ : ان کی اطاعت جبکہ اللہ کے حکم سے ہو تو وہ اللہ ہی کی عبادت اور اسی کی اطاعت ہو گی ۔ کیا دیکھتے نہیں ہو کہ ملائکہ نے اللہ کے حکم سے آدم کو سجدہ کیا اور یہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ تھی ۔ امراء کی طاعت ان کی عبادت صرف اس صورت میں ہو گی جبکہ ایسے معاملات میں ان کی اطاعت کی جائے جن میں اللہ نے ان کی اطاعت کا اذن نہیں دیا ہے ۔ پھر فرماتے ہیں : اگر کوئی شخص تمہارے سامنے آئے اور تمہیں کسی چیز کا حکم دے تو دیکھو کہ اس کا یہ حکم اللہ کے حکم کے موافق ہے یا نہیں ۔ موافق نہ ہو تو شیطان اس شخص کے ساتھ ہے ، اگر اس حالت میں تم نے اس کی اطاعت کی تو تم نے اس کی اور اس کے شیطان کی عبادت کی ۔ اسی طرح اگر تمہارا نفس تمہیں کسی کام کے کرنے پر اکسائے تو دیکھو کہ شرع کی رو سے وہ کام کرنے کی اجازت ہے یا نہیں ۔ اجازت نہ ہو تو تمہارا نفس خود شیطان ہے یا شیطان اس کے ساتھ ہے ۔ اگر تم نے اس کی پیروی کی تو تم اس کی عبادت کے مرتکب ہوئے ۔ آگے چل کر وہ پھر فرماتے ہیں : مگر شیطان کی عبادت کے مراتب مختلف ہیں ۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی ایک کام کرتا ہے اور اس کے اعضاء کے ساتھ اس کی زبان بھی اس کی موافقت کرتی ہے اور دل بھی اس میں شریک ہوتا ہے ۔ اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اعضاء و جوارح سے تو آدمی ایک کام کرتا ہے مگر دل اور زبان اس کام میں شریک نہیں ہوتے ۔ بعض لوگ ایک گناہ کا ارتکاب اس حال میں کرتے ہیں کہ دل ان کا اس پر راضی نہیں ہوتا اور زبان ان کی اللہ سے مغفرت کر رہی ہوتی ہے اور وہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہم یہ برا کام کر رہے ہیں ۔ یہ محض ظاہری اعضاء سے شیطان کی عبادت ہے ۔ کچھ اور لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ٹھنڈے دل سے جرم کرتے ہیں اور زبان سے بھی اپنے اس فعل پر خوشی و اطمینان کا اظہار کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ظاہر و باطن دونوں میں شیطان کے عابد ہیں ۔ ( تفسیر کبیر ۔ ج 7 ۔ ص 103 ۔ 104 )
(36:61) ھذا صراط۔ یعنی شیطان کے ورغلانے سے ارتکاب گناہ سے اجتناب اور اللہ ہی کی عبادت کرنا صراط مستقیم (سیدھا راستہ) ہے۔ صراط کی تنوین مبالغہ کے لئے یا اظہار عظمت کے لئے یا تبعیض کے لئے کیونکہ توحید سیدھے راستے پر چلنے کا ایک حصہ ہے اور تکمیل تو تمام فرائض کی ادائیگی اور ممنوعات سے اجتناب کا مل سے ہوتی ہے۔
(61) اور یہ کہ میری ہی عبادت کرنا یہی سیدھی راہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہر پیغمبر کی معرفت شیطان کی آشکارا اور کھلی عداوت سے آگاہ کیا گیا تھا اور اس کی اطاعت سے روکا گیا تھا اور اپنی عبادت کو عام دعوت دی گئی تھی اور اسی کو سیدھا راستہ بنایا گیا تھا۔ اعہد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی عہد نامہ مرتب کیا گیا تھا بلکہ اللہ تعالیٰ جو حکم دیتا ہے اور انبیاء جو بات فرماتے ہیں وہ ہر فرد انسانی کے لئے واجب التعمیل ہوتی ہے اور یہی وہ عہد ہے۔