Surat Yaseen

Surah: 36

Verse: 65

سورة يس

اَلۡیَوۡمَ نَخۡتِمُ عَلٰۤی اَفۡوَاہِہِمۡ وَ تُکَلِّمُنَاۤ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ تَشۡہَدُ اَرۡجُلُہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ ﴿۶۵﴾

That Day, We will seal over their mouths, and their hands will speak to Us, and their feet will testify about what they used to earn.

ہم آج کے دن ان کے منہ پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے اور ان کے پاؤں گواہیاں دیں گے ، ان کاموں کی جو وہ کرتے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

This Day, We shall seal up their mouths, and their hands will speak to Us, and their legs will bear witness to what they used to earn. This will be the state of the disbelievers and hypocrites on the Day of Resurrection, when they deny the sins they committed in this world and swear that they did not do that. Allah will seal their mouths and cause their limbs to speak about what they did. Ibn Abi Hatim recorded that Anas bin Malik, may Allah be pleased with him, said, "We were with the Prophet and he smiled so broadly that his molar could be seen, then he said: Do you know why I am smiling? We said, `Allah and His Messenger know best.' He said: مِنْ مُجَادَلَةِ الْعَبْدِ رَبَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَقُولُ رَبِّ أَلَمْ تُجِرْنِي مِنَ الظُّلْمِ فَيَقُولُ بَلَى فَيَقُولُ لاَ أُجِيزُ عَلَيَّ إِلاَّ شَاهِدًا مِنْ نَفْسِي فَيَقُولُ كَفَى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا وَبِالْكِرَامِ الْكَاتِبِينَ شُهُودًا فَيُخْتَمُ عَلَى فِيهِ وَيُقَالُ لاَِرْكَانِهِ انْطِقِي فَتَنْطِقَ بِعَمَلِهِ ثُمَّ يُخَلَّى بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْكَلَمِ فَيَقُولُ بُعْدًا لَكُنَّ وَسُحْقًا فَعَنْكُنَّ كُنْتُ أُنَاضِل Because of the way a servant will argue with his Lord on the Day of Resurrection. He will say, "O Lord, will You not protect me from injustice!" (Allah) will say, "Of course." He will say, "I will not accept any witness against me except from myself." (Allah) will say, "Today you will be a sufficient witness against yourself, and the honorable scribes will serve as witnesses against you." Then his mouth will be sealed, and it will be said to his faculties, "Speak!" So they will speak of what he did. Then he will be permitted to speak, and he will say, "May you be doomed! It was for you that I was fighting." This was recorded by Muslim and An-Nasa'i. Ibn Jarir narrated that Abu Musa Al-Ash`ari, may Allah be pleased with him, said, "The believer will be called to account on the Day of Resurrection, and his Lord will show him his deeds, just between him and His Lord. He will admit it and will say, `Yes, O Lord, I did do that.' Then Allah will forgive him his sins and conceal them, and no creature on earth will see any of those sins, but his good deeds will be seen, and he will want all the people to see them. Then the disbeliever and the hypocrite will be brought to account, and his Lord will show him his deeds and he will deny them, saying, `O Lord, by Your glory, this angel has written down things that I did not do.' The angel will say to him, `Did you not do such and such on such a day and in such a place?' He will say, `No, by Your glory, I did not do that.' When he says this, Allah will seal his mouth." Abu Musa Al-Ash`ari, may Allah be pleased with him, said, "I think that the first part of his body to speak will be his right thigh." Then he recited: الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَى أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (This Day, We shall seal up their mouths, and their hands will speak to Us, and their legs will bear witness to what they used to earn). وَلَوْ نَشَاء لَطَمَسْنَا عَلَى أَعْيُنِهِمْ فَاسْتَبَقُوا الصِّرَاطَ فَأَنَّى يُبْصِرُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

65۔ 1 یہ مہر لگانے کی ضرورت اس لئے پیش آئیگی کہ ابتداءً مشرکین قیامت والے دن بھی جھوٹ بولیں گے اور کہیں گے (وَاللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِيْنَ ) 6 ۔ الانعام :23) اللہ کی قسم، جو ہمارا رب ہے، ہم مشرک نہیں تھے چناچہ اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں پر مہر لگا دے گا، جس سے وہ خود تو بولنے کی طاقت سے محروم ہوجائیں گے، البتہ اللہ تعالیٰ اعضائے انسانی کو قوت گویائی عطا فرما دے گا، ہاتھ بولیں گے کہ ہم سے اس نے فلاں فلاں کام کیا تھا اور پاؤں اس پر گواہی دیں گے۔ یوں گویا اقرار اور شہادت، دونوں مرحلے طے ہوجائیں گے۔ علاوہ ازیں ناطق کے مقابلے میں غیر ناطق چیزوں کا بول کر گواہی دینا، حجت واستدلال میں زیادہ بلیغ ہے کہ اس میں ایک اعجازی شان پائی جاتی ہے۔ (فتح القدیر) اس مضموں کو احادیث میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ (ملاحظہ ہو صحیح مسلم، کتاب الزھد۔ )

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٥٨] کٹر قسم کے مجرم جب اللہ کے حضور پیش ہوں گے تو اپنے جرائم کا اعتراف کرنے کی بجائے وہاں بھی حسب عادت جھوٹ بولنا شروع کردیں گے اور اپنے گناہوں سے مکر جائیں گے۔ پھر ان پر شہادتیں قائم کی جائیں گی تو ان شہادتوں اور گواہوں کو بھی جھٹلا دیں گے اور یہی کچھ انہوں نے اس دنیا میں سیکھا تھا۔ اب اللہ تعالیٰ ان کا یہ علاج کریں گے کہ ان کی زبانوں سے قوت گویائی سلب کرلیں گے۔ اور ان کے ہاتھوں اور پاؤں کو قوت گویائی عطا کردی جائے گی تو ان کے یہ اعضا جن سے انہوں نے گناہ کے کام سرزد کئے ہوں گے ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ اور سورة حم السجدہ کی آیت نمبر ٢٠ کے مطابق ان کے کان، ان کی آنکھیں اور ان کے چمڑے بھی ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ جب ان کے اپنے اعضاء کی گواہیوں کے مطابق ان کے جرم ثابت ہوجائیں گے تو وہ اپنے ان گواہی دینے والے اعضاء کو مخاطب کرکے کہیں گے کہ ظالمو ! ہم نے تمہیں بچانے کے لئے ہی تو جھوٹ بولا تھا۔ پھر تم نے یہ کیا ظلم ڈھا دیا ؟ تو اعضاء انہیں جواب دیں گے کہ ہمیں اس اللہ نے قوت گویائی بخشی تھی جس نے ہر چیز کو بخشی ہے && (٤١: ٢١) پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ ہم صحیح صحیح گواہی نہ دیتے ؟ خ اعضاء وجوارح کی گواہی کیسے ہوگی ؟ واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ مجرموں کے اعضاء سے ان کے خلاف زبردستی گواہی نہیں لیں گے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ اس بات پر بھی قادر ہے مگر یہ بات اس کی صفت عدل کے خلاف ہے کہ اگر وہ زبردستی ان کے خلاف شہادت چاہتا تو خود ان سے اور ان کی زبانوں سے بھی لے سکتا تھا۔ بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ انسان سے جو اقوال، اعمال اور افعال سرزد ہوتے ہیں تو اس کے اثرات (جسے سورة یٰسین میں اٰثَارَھُمْ کہا گیا ہے) فضا میں مرتسم ہوتے جاتے ہیں اور خود انسان کے اعضا پر بھی مرتسم ہوتے ہیں جدید تحقیق کے مطابق بنی آدم سے لے کر آج تک پیدا ہونے والے تمام انسانوں کے اقوال اور آوازیں بدستور فضا میں موجود ہیں۔ مگر وہ آپس میں ملی جلی اور گڈ مڈ ہیں اور انسان تاحال اس بات پر قادر نہیں ہوسکا کہ کسی خاص شخص کے مثلاً کسی نبی کے تمام تر اقوال الگ کرکے سن سکے۔ البتہ انسان اس بات پر بھی قادر ہوچکا ہے کہ تین چار گھنٹے کے اندر اندر کسی مجرم کے اعضاء کا خوردبینی مطالعہ کرکے یہ معلوم کرسکے کہ اس شخص نے واقعی یہ جرم کیا ہے یا نہیں ؟ اور اللہ تعالیٰ تو خود ہر چیز کا خالق اور ہر چیز کی فطرت اور حقیقت کو سب سے بڑھ کر جاننے والا ہے۔ لہذا جب مجرم لوگوں کے ان اعضاء کو قوت گویائی دی جائے گی تو وہی حقیقت وہ بیان کریں گے جو ان پر گناہ کے دوران ثبت ہوئی تھی وہ برملا بول اٹھیں گے کہ اس شخص نے ہم سے فلاں اور فلاں گناہ کا کام کیا تھا اور فلاں فلاں وقت کیا تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓي اَفْوَاهِهِمْ : مونہوں پر مہر لگانے کی وجہ یہ ہوگی کہ بعض مجرم قیامت کے دن اپنے جرم کا اقرار کرنے سے انکار کردیں گے اور کہیں گے کہ ہم نے کوئی جرم کیا ہی نہیں، وہ گواہوں کو جھٹلا دیں گے اور نامہ اعمال کو بھی درست نہیں مانیں گے، بلکہ اپنے بےگناہ ہونے کی قسمیں کھائیں گے، جیسا کہ فرمایا : (ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُهُمْ اِلَّآ اَنْ قَالُوْا وَاللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِيْنَ ) [ الأنعام : ٢٣ ] ” پھر ان کا فریب اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ کہیں گے، اللہ کی قسم ! جو ہمارا رب ہے، ہم شریک بنانے والے نہ تھے۔ “ اور قسمیں کھا کر دل میں سمجھیں گے کہ جس طرح دنیا میں جھوٹ چل جاتا تھا، اب بھی چل جائے گا، فرمایا : (يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ جَمِيْعًا فَيَحْلِفُوْنَ لَهٗ كَمَا يَحْلِفُوْنَ لَكُمْ وَيَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ عَلٰي شَيْءٍ ۭ اَلَآ اِنَّهُمْ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ ) [ المجادلۃ : ١٨ ] ” جس دن اللہ ان سب کو اٹھائے گا تو وہ اس کے سامنے قسمیں کھائیں گے جس طرح تمہارے سامنے قسمیں کھاتے ہیں اور گمان کریں گے کہ وہ کسی چیز پر (قائم) ہیں، سن لو ! یقیناً وہی اصل جھوٹے ہیں۔ “ اس وقت ان سے یہ معاملہ ہوگا جس کا اس آیت میں ذکر ہے۔ انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھے کہ آپ اچانک ہنس دیے اور فرمایا : ” جانتے ہو میں کس بات پر ہنسا ہوں ؟ “ ہم نے کہا : ” اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مِنْ مُخَاطَبَۃِ الْعَبْدِ رَبَّہُ یَقُوْلُ یَا رَبِّ ! أَلَمْ تُجِرْنِيْ مِنَ الظُّلْمِ ؟ قَالَ یَقُوْلُ بَلٰی، قَالَ فَیَقُوْلُ فَإِنِّيْ لَا أُجِیْزُ عَلٰی نَفْسِيْ إِلَّا شَاہِدًا مِنِّيْ ، قَالَ فَیَقُوْلُ کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ شَہِیْدًا وَبِالْکِرَامِ الْکَاتِبِیْنَ شُہُوْدًا قَالَ فَیُخْتَمُ عَلٰی فِیْہِ فَیُقَالُ لِأَرْکَانِہِ انْطِقِيْ قَالَ فَتَنْطِقُ بِأَعْمَالِہِ قَالَ ثُمَّ یُخَلّٰی بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْکَلَامِ قَالَ فَیَقُوْلُ بُعْدًا لَکُنَّ وَسُحْقًا فَعَنْکُنَّ کُنْتُ أُنَاضِلُ ) [ مسلم، الزھد والرقائق، باب الدنیا سجن للمؤمن و جنۃ للکافر : ٢٩٦٩ ] ” میں بندے کی اپنے رب سے گفتگو پر ہنسا ہوں (جو وہ قیامت کے دن کرے گا) ، وہ کہے گا : ” اے میرے رب ! کیا تو مجھے ظلم سے پناہ نہیں دے چکا ؟ “ وہ فرمائے گا : ” کیوں نہیں ؟ “ کہے گا : ” میں اپنے سوا کسی گواہ کی گواہی اپنے خلاف منظور نہیں کروں گا (میرا بدن میرا اپنا ہے باقی سب میرے دشمن ہیں) ۔ “ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ” آج تیری ذات ہی تیرے خلاف بطور گواہ کافی ہے اور کراماً کاتبین گواہ کافی ہیں۔ “ چناچہ اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کے جسم کے اعضا سے کہا جائے گا : ” بولو ! “ تو وہ اس کے سارے اعمال بول کر بتائیں گے، پھر اسے بولنے کی اجازت دی جائے گی تو وہ اپنے اعضا سے کہے گا : ” تمہارا ستیاناس ہو اور تم (مجھ سے) دور ہوجاؤ، میں تو تمہارا ہی دفاع کر رہا تھا۔ “ اس آیت میں ہاتھوں اور پاؤں کے بولنے اور شہادت دینے کا ذکر ہے، جبکہ دوسرے مقامات پر جسم کے دوسرے اعضا کے بولنے کا بھی ذکر ہے، چناچہ فرمایا : (حَتّىٰٓ اِذَا مَا جَاۗءُوْهَا شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَاَبْصَارُهُمْ وَجُلُوْدُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ) [ حٰآ السجدۃ : ٢٠ ] ” یہاں تک کہ جوں ہی اس (آگ) کے پاس پہنچیں گے ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کے چمڑے ان کے خلاف اس کی شہادت دیں گے جو وہ کیا کرتے تھے۔ “ اور فرمایا : (يَّوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَاَيْدِيْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ) [ النور : ٢٤ ] ” جس دن ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے خلاف اس کی شہادت دیں گے جو وہ کیا کرتے تھے۔ “ اس آیت پر ایک سوال ہے کہ مونہوں پر مہر کے باوجود زبانیں کیسے شہادت دیں گی ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ مہر سے مراد یہ ہے کہ اس کی زبان پر سے اس کا اختیار ختم کردیا جائے گا اور زبان کو اپنی مرضی سے صحیح بات کہنے کا اختیار ہوگا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 65, it was said: الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَىٰ أَفْوَاهِهِمْ (Today We will set a seal on their mouths). On the day of Resurrection, when comes the time to account for deeds, everyone will be free to offer any excuse one has. But, Mushriks, the practitioners of shirk, those who associate partners in the pristine divinity of Allah Ta’ ala, will declare on oaths that they never had anything to do with shirk and kufr: وَاللَّـهِ رَ‌بِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِ‌كِينَ (By Allah, our Lord, we ascribed no partners to Allah - A1-An` am, 6:23). And some of them will also say that they were free of whatever the angels had written down in their book of deeds. At that time, Allah Ta’ ala will put a seal on their mouths, so that they would not speak. Then, He will give power of speech to their own body parts, the hands and the feet, who will testify to all their deeds as court witnesses against them. As for the present verse, it mentions the speaking of hands and feet only. In another verse, mentioned there is the speaking of one&s ear, eye and skin: شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصَارُ‌هُمْ وَجُلُودُهُم & (their ears and their eyes and their skins will testify against them - 41:20). As for what has been said at one place: تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ (and their tongues will testify against them - An-Nur, 24:24), it is not contrary to &putting a seal on their mouths& because putting a seal means that they will be unable to say anything out of their own volition. Their tongue will speak counter to their personal choice and will testify to the truth. As for the question how these parts of the body would acquire power of speech, the Qur&an has already answered that by saying: أَنطَقَنَا اللَّـهُ الَّذِي أَنطَقَ كُلَّ شَيْءٍ (Why did you testify against us? - 41:21) that is, these parts of the body will say that Allah, who has given power of speech to all things endowed with the ability to speak, has also enabled us to speak.

الیوم نختم علیٰ افواھہم، محشر میں حساب کتاب کے لئے پیشی میں اول تو ہر شخص کو آزادی ہوگی جو چاہے عذر پیش کرے، مگر مشرکین وہاں قسمیں کھا کر اپنے شرک و کفر سے مکر جائیں گے واللہ ربنا ماکنا مشرکین۔ اور بعض یہ بھی کہیں گے کہ فرشتوں نے ہمارے نامہ اعمال میں جو کچھ لکھ دیا ہے ہم تو اس سے بری ہیں اس وقت اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے کہ بول نہ سکیں اور ان کے مقابلہ میں خود انہی کے ہاتھ پاؤں اور اعضاء کو سرکاری گواہ بنا کر ان کو بولنے کی صلاحیت دے دیں گے وہ ان کے تمام اعمال کی گواہی دیں گے۔ آیت مذکورہ میں تو ہاتھ پاؤں کا بولنا ذکر کیا گیا ہے۔ دوسری آیت میں انسان کے کان، آنکھ اور کھال کا بولنا مذکور ہے، شھد علیھم سمعھم وابصارھم وجلودھم، اور ایک جگہ جو تشھد علیہم السنتھم آیا ہے، یعنی خود ان کی زبانیں گواہی دیں گی۔ یہ اس کے منافی نہیں کہ ان کے مونہوں پر مہر لگا دی جائے گی، کیونکہ مہر لگانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے اختیار سے کچھ نہ بول سکیں گے، ان کی زبان کی مرضی کے خلاف چلے گی، اور شہادت دے گی۔ رہا یہ اشکال کہ ان اعضاء میں گویائی کیسے پیدا ہوگی تو اس کا جواب خود قرآن نے دے دیا ہے انطقنا اللہ الذی انطق کل شئی، یعنی یہ اعضاء کہیں گے جس اللہ نے ہر گویائی والے کو گویا کیا ہے، اس نے ہمیں بھی گویائی دے دی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓي اَفْوَاہِہِمْ وَتُكَلِّمُنَآ اَيْدِيْہِمْ وَتَشْہَدُ اَرْجُلُہُمْ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ۝ ٦٥ ختم الخَتْمُ والطّبع يقال علی وجهين : مصدر خَتَمْتُ وطبعت، وهو تأثير الشیء کنقش الخاتم انتهيت إلى آخره، فقوله : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وقوله تعالی: قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخَذَ اللَّهُ سَمْعَكُمْ وَأَبْصارَكُمْ وَخَتَمَ عَلى قُلُوبِكُمْ [ الأنعام/ 46] ، إشارة إلى ما أجری اللہ به العادة أنّ الإنسان إذا تناهى في اعتقاد باطل، أو ارتکاب محظور۔ ولا يكون منه تلفّت بوجه إلى الحقّ- يورثه ذلك هيئة تمرّنه علی استحسان المعاصي، وكأنما يختم بذلک علی قلبه، وعلی ذلك : أُولئِكَ الَّذِينَ طَبَعَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَسَمْعِهِمْ وَأَبْصارِهِمْ [ النحل/ 108] ، وعلی هذا النّحو استعارة الإغفال في قوله عزّ وجلّ : وَلا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنا [ الكهف/ 28] ، واستعارة الكنّ في قوله تعالی: وَجَعَلْنا عَلى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ [ الأنعام/ 25] ، واستعارة القساوة في قوله تعالی: وَجَعَلْنا قُلُوبَهُمْ قاسِيَةً [ المائدة/ 13] ، قال الجبّائيّ «1» : يجعل اللہ ختما علی قلوب الکفّار، ليكون دلالة للملائكة علی كفرهم فلا يدعون لهم «2» ، ولیس ذلک بشیء فإنّ هذه الکتابة إن کانت محسوسة فمن حقّها أن يدركها أصحاب التّشریح، وإن کانت معقولة غير محسوسة فالملائكة باطّلاعهم علی اعتقاداتهم مستغنية عن الاستدلال . وقال بعضهم : ختمه شهادته تعالیٰ عليه أنه لا يؤمن، وقوله تعالی: الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلى أَفْواهِهِمْ [يس/ 65] ، أي : نمنعهم من الکلام، وَخاتَمَ النَّبِيِّينَ [ الأحزاب/ 40] ، لأنه خَتَمَ النّبوّة، أي : تمّمها بمجيئه . وقوله عزّ وجلّ : خِتامُهُ مِسْكٌ [ المطففین/ 26] ، قيل : ما يختم به، أي : يطبع، وإنما معناه : منقطعه وخاتمة شربه، أي : سؤره في الطيّب مسك، وقول من قال يختم بالمسک «3» أي : يطبع، فلیس بشیء، لأنّ الشّراب يجب أن يطيّب في نفسه، فأمّا ختمه بالطّيب فلیس ممّا يفيده، ولا ينفعه طيب خاتمه ما لم يطب في نفسه . ( خ ت م ) الختم والطبع ۔ کے لفظ دو طرح سے استعمال ہوتے ہیں کبھی تو ختمت اور طبعت کے مصدر ہوتے ہیں اور اس کے معنی کسی چیز پر مہری کی طرح نشان لگانا کے ہیں اور کبھی اس نشان کو کہتے ہیں جو مہر لگانے سے بن جا تا ہے ۔ مجازا کبھی اس سے کسی چیز کے متعلق وتوق حاصل کرلینا اور اس کا محفوظ کرنا مراد ہوتا ہے جیسا کہ کتابوں یا دروازوں پر مہر لگا کر انہیں محفوظ کردیا جاتا ہے ۔ کہ کوئی چیز ان کے اندر داخل نہ ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ وَخَتَمَ عَلى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ [ الجاثية/ 23] اور اس کے کانوں اور دل پر مہر لگا دی ۔ اور کبھی کسی چیز کا اثر حاصل کرلینے سے کنایہ ہوتا ہے جیسا کہ مہر نقش ہوجاتا ہے اور اسی سے ختمت القرآن کا محاورہ ہے ۔ یعنی قرآن ختم کرایا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں پر مہر لگادی اور آیت : ۔ قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخَذَ اللَّهُ سَمْعَكُمْ وَأَبْصارَكُمْ وَخَتَمَ عَلى قُلُوبِكُمْ [ الأنعام/ 46]( ان کافروں سے ) کہو بھلا دیکھو تو اگر خدا تمہارے کان یا دو آنکھیں چجین لے اور تمہارے دلوں پر مہر لگا دے ۔ میں عادت الہیہ کی طرف اشارہ ہے کہ جب انسان اعتقاد باطل بامحرمات کے ارتکاب میں حد کو پہنچ جاتا ہے اور کسی طرح حق کی طرف ( التفات نہیں کرنا تو اس کی ہیئت نفسانی کچھ ایسی بن جاتی ہے کہ گناہوں کو اچھا سمجھنا اس کی خوبن جاتی ہے ۔ گویا اس کے دل پر مہر لگ جاتی ہے ۔ چناچہ اس ی معنی میں فرمایا : ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ طَبَعَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَسَمْعِهِمْ وَأَبْصارِهِمْ [ النحل/ 108] یہی لوگ ہیں جن کے دلوں پر اور کانوں پر اور آنکھوں پر خدا نے مہر لگا رکھی ہے اسی طرح آیات کریمہ : ۔ وَلا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنا [ الكهف/ 28] اور جس شخص کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے ۔۔۔ اس کا کہا نہ ماننا۔ وَجَعَلْنا عَلى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ [ الأنعام/ 25] اور ان کے دلوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں کہ اسے سمجھ نہ سکیں ۔ وَجَعَلْنا قُلُوبَهُمْ قاسِيَةً [ المائدة/ 13] اور ان کے دلوں سخت کردیا ۔ میں اعفال کن اور قساوۃ سے بھی علی الترتیب یہی معنی مراد ہیں ۔ جبائی کہتے ہیں کہ اللہ کے کفار کے دلوں پر مہر لگانے کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انکے دلوں پر ایسی علامت قائم کردیتے ہیں کہ فرشتے انکے کفر سے آگاہ ہوجاتے ہیں اور ان کے حق میں دعائے خیر نہیں کرتے ۔ لیکن یہ بےمعنی سی بات ہے ۔ کیونکہ اگر یہ کتابت محسوس ہو تو اصحاب التشریح ( ) کو بھی اس کا ادراک ہونا ضروری ہے اور اگر سراسر عقلی اور غیر محسوس ہے تو ملائکہ ان کے عقائد باطلہ سے مطلع ہونے کے بعد اس قسم کی علامات سے بےنیاز ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مہر لگانے کے معنی ان کے ایمان نہ لانے کی شہادت دینے کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ :۔ الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلى أَفْواهِهِمْ [يس/ 65] آج ہم ان کے موہوں پر مہر لگادیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ کلام نہیں کرسکیں گے اور آیت میں آنحضرت کو خاتم النبین فرمانے کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت نے اپنی آمد سے سلسلہ نبوت کی مکمل کردیا ۔ ہے ( اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ) اور آیت کریمہ :۔ خِتامُهُ مِسْكٌ [ المطففین/ 26] جسکی مہر مسک کی ہوگی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ ختام کے معنی مایختم بہ کے ہیں یعنی وہ چیز جس سے مہر لگائی جائے مگر آیت کے معنی یہ ہیں کہ اس کا آخری لطف اور برین میں باقی ماندہ جھوٹ مسک کی طرح مہ کے گا اور بعض نے اس سے یہ مراد لی ہے کہ اس پر کستوری کی مہر لگی ہوئی ہوگی مگر یہ بےمعنی سی بات ہے ۔ کیونکہ شراب کو بذات خود لذت ہونا چاہیے اگر وہ بذات خود لذت لذیذ نہ ہو تو اس پر مسک کی مہر لگانا چنداں مفید نہیں ہوسکتا ، اور نہ ہی اس کی لذت میں اضافہ کا باعث بن سکتا ہے ۔ فوه أَفْوَاهُ جمع فَمٍ ، وأصل فَمٍ فَوَهٌ ، وكلّ موضع علّق اللہ تعالیٰ حکم القول بِالْفَمِ فإشارة إلى الکذب، وتنبيه أنّ الاعتقاد لا يطابقه . نحو : ذلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْواهِكُمْ [ الأحزاب/ 4] ، وقوله : كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف/ 5]. ( ف و ہ ) افواہ فم کی جمع ہے اور فم اصل میں فوہ ہے اور قرآن پاک میں جہاں کہیں بھی قول کی نسبت فم یعنی منہ کی طرف کی گئی ہے وہاں در وغ گوئی کی طرف اشارہ ہے اور اس پر تنبیہ ہے کہ وہ صرف زبان سے ایسا کہتے ہیں ان کے اندرون اس کے خلاف ہیں جیسے فرمایا ذلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْواهِكُمْ [ الأحزاب/ 4] یہ سب تمہارے منہ کی باتیں ہیں ۔ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف/ 5] بات جوان کے منہ سے نکلتی ہے ۔ كلم الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها، ( ک ل م ) الکلم ۔ یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔ يد الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] ، ( ی د ی ) الید کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ شَّهَادَةُ : قول صادر عن علم حصل بمشاهدة بصیرة أو بصر . وقوله : أَشَهِدُوا خَلْقَهُمْ [ الزخرف/ 19] ، يعني مُشَاهَدَةِ البصر ثم قال : سَتُكْتَبُ شَهادَتُهُمْ [ الزخرف/ 19] ، تنبيها أنّ الشّهادة تکون عن شُهُودٍ ، وقوله : لِمَ تَكْفُرُونَ بِآياتِ اللَّهِ وَأَنْتُمْ تَشْهَدُونَ [ آل عمران/ 70] ، أي : تعلمون، وقوله : ما أَشْهَدْتُهُمْ خَلْقَ السَّماواتِ [ الكهف/ 51] ، أي : ما جعلتهم ممّن اطّلعوا ببصیرتهم علی خلقها، وقوله : عالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهادَةِ [ السجدة/ 6] ، أي : ما يغيب عن حواسّ الناس وبصائرهم وما يشهدونه بهما الشھادۃ ۔ ( 1 ) وہ بات جو کامل علم ویقین سے کہی جائے خواہ وہ علم مشاہدہ بصر سے حاصل ہوا ہو یا بصیرت سے ۔ اور آیت کریمہ : أَشَهِدُوا خَلْقَهُمْ [ الزخرف/ 19] کیا یہ ان کی پیدائش کے وقت حاضر تھے ۔ میں مشاہدہ بصر مراد ہے اور پھر ستکتب شھادتھم ( عنقریب ان کی شھادت لکھ لی جائے گی ) سے اس بات پر تنبیہ کی ہے کہ شہادت میں حاضر ہونا ضروری ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَأَنْتُمْ تَشْهَدُونَ [ آل عمران/ 70] اور تم اس بات پر گواہ ہو ۔ میں تشھدون کے معنی تعلمون کے ہیں یعنی تم اس بات کو یقین کے ساتھ جانتے ہو ۔ اور آیت کریمہ ۔ ما أَشْهَدْتُهُمْ خَلْقَ السَّماواتِ [ الكهف/ 51] میں نے نہ تو ان کو آسمان کے پیدا کرنے کے وقت بلایا تھا ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ یہ اس لائق نہیں ہیں کہ اپنی بصیرت سے خلق آسمان پر مطع ہوجائیں اور آیت کریمہ : عالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهادَةِ [ السجدة/ 6] پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے ۔ میں غالب سے وہ چیزیں مراد ہیں جن کا ادراک نہ تو ظاہری حواس سے ہوسکتا ہو اور نہ بصیرت سے اور شہادت سے مراد وہ اشیا ہیں جنہیں لوگ ظاہری آنکھوں سے دیکھتے ہیں ۔ رِّجْلُ : العضو المخصوص بأكثر الحیوان، قال تعالی: وَامْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ [ المائدة/ 6] ، واشتقّ من الرِّجْلِ رَجِلٌ ورَاجِلٌ للماشي بالرِّجْل، ورَاجِلٌ بيّن الرُّجْلَةِ «1» ، فجمع الرَّاجِلُ رَجَّالَةٌ ورَجْلٌ ، نحو : ركب، ورِجَالٌ نحو : رکاب لجمع الرّاكب . ويقال : رَجُلٌ رَاجِلٌ ، أي : قويّ علی المشي، جمعه رِجَالٌ ، نحو قوله تعالی: فَرِجالًا أَوْ رُكْباناً [ البقرة/ 239] ، الرجل ۔ پاؤں ۔ اس کی جمع ارجل آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَامْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ [ المائدة/ 6] اپنے سروں کا مسح کرلیا کرو اور اپنے پاؤں بھی ٹخنوں تک دھو لیا کرو ۔ راجل ورجل پا پیادہ چلنے والا یہ بھی الرجل بمعنی پاؤں سے مشتق ہے اور راجل کی جمع رجالۃ اور رجل آتی ہے جیسے رکب جو کہ راکب کی جمع ہے اور راجل کی جمع رجال بھی آجاتی ہے جیسے راکب ورکاب ۔ اور رجل راجل اسے کہتے ہیں جو چلنے پر قدرت رکھتا ہو اس کی جمع رجال آجاتی ہے قرآن میں ہے : ۔ فَرِجالًا أَوْ رُكْباناً [ البقرة/ 239] تو پاؤں پیدل یا سوار ۔ كسب ( عمل رزق) الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی: أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] ، وقوله : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] ( ک س ب ) الکسب ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور قیامت کے دن ان کے انکار کرنے کے بعد ہم ان کی زبانوں پر مہر لگا کر انہیں بات کرنے سے روک دیں گے۔ اور ان کے ہاتھ اس چیز کے بارے میں جو انہوں نے ہاتھوں سے کی تھیں ہم سے کلام کریں گے اور ان کے پیر جدھر گئے تھے وہ اس کے بارے میں شہادت دیں گے غرض کہ ان کے تمام اعضاء ان برائیوں کے بارے میں گواہی دیں گے جو یہ کیا کرتے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٥ { اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓی اَفْوَاہِہِمْ وَتُکَلِّمُنَآ اَیْدِیْہِمْ } ” آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے “ { وَتَشْہَدُ اَرْجُلُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ } ” اور ان کے پائوں گواہی دیں گے اس کمائی کے بارے میں جو وہ کرتے رہے تھے۔ “ مجرمین کے اپنے اعضاء ان کے خلاف گواہی دیں گے کہ ہمارے ذریعے سے انہوں نے فلاں فلاں غلط کام کیے تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

55 This command will be given in respect of the stubborn culprits, who will refuse to confess their crimes, will belie the witnesses, and will also not acknowledge the genuineness of their conduct-book. Then will Allah Almighty conunand: "Well, stop your babbling. Just see what your own limbs say about your misdeeds. " In this connection, here only the evidence to be given by the hands and the feet has been mentioned. But at other places it has been said that their eyes and their ears and their tongues, and the very skins of their body, will tell how they had been employed in the world. "They should not forget the Day when their own tongues and their own hands and feet will bear testimony to their misdeeds.' (An-Nur: 24) "Then, when all will have reached there, their ears and their eyes and their very skins will bear witness against them concerning what they had been doing in the world." (Ha Mim Sajdah: 20). The question arises: On the one hand, Allah says: "We shall seal their mouths," and on the other, in the verse of Surah An-Nur, He says: "Their tongues will bear testimony against them." How can these two things be reconciled ? The answer is: "To seal the mouths means to deprive them of their power of speech. That is, after this they will not be able to say whatever they like with their tongue. The testimony of their tongues mans that their tongues themselves will tell how the wicked people had used them, what blasphemies and lies they had been made to utter, what mischiefs they had invented and what falsehoods they had been made to say on different occasions. "

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :55 یہ حکم ان ہیکڑ مجرموں کے معاملہ میں دیا جائے گا جو ا پنے جرائم کا اقبال کرنے سے انکار کریں گے ، گواہیوں کو بھی جھٹلا دیں گے ، اور نامۂ اعمال کی صحت بھی تسلیم نہ کریں گے ۔ تب اللہ تعالیٰ حکم دے گا کہ اچھا ، اپنی بکواس بند کرو اور دیکھو کہ تمہارے اپنے اعضائے بدن تمہارے کرتوتوں کی کیا روداد سناتے ہیں ۔ اس سلسلہ میں یہاں صرف ہاتھوں اور پاؤں کی شہادت کا ذکر فرمایا گیا ہے ۔ مگر دوسرے مقامات پر بتایا گیا ہے کہ ان کی آنکھیں ، ان کے کان ، ان کی زبانیں اور ان کے جسم کی کھالیں بھی پوری داستان سنا دیں گی کہ وہ ان سے کیا کام لیتے رہے ہیں ۔ یَوْمَ تَشْھَدُ عَلَیْھِمْ اَلْسِنَتُھُمْ وَاَیْدِیْھِمْ وَاَرْجُلُھُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ( النور ۔ آیت 24 ) ۔ حَتّٰی اِذَا مَا جَآؤُھَا شَھِدَ عَلَیْھِمْ سَمْعُھُمْ وَ اَبْصَارُھُمْ وَجُلُوْدُھُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ( حٓم السجدہ ۔ آیت 20 ) ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم ان کے منہ بند کر دیں گے ، اور دوسری طرف سورۃ نور کی آیت میں فرماتا ہے کہ ان کی زبانیں گواہی دیں گی ، ان دونوں باتوں میں تطابق کیسے ہو گا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ منہ بند کر دینے سے مراد ان کا اختیار کلام سلب کر لینا ہے ، یعنی اس کے بعد وہ اپنی زبان سے اپنی مرضی کے مطابق بات نہ کر سکیں گے ۔ اور زبانوں کی شہادت سے مراد یہ ہے کہ ان کی زبانیں خود یہ داستان سنانا شروع کر دیں گی کہ ہم سے ان ظالموں نے کیا کام لیا تھا ، کیسے کیسے کفر بکے تھے ، کیا کیا جھوٹ بولے تھے ، کیا کیا فتنے برپا کیے تھے ، اور کس کس موقع پر انہوں نے ہمارے ذریعہ سے کیا باتیں کی تھیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

19: جب کافر لوگ اس بات سے انکار کریں گے کہ انہوں نے شرک یا دوسرے جرائم کا ارتکاب کیا تھا تو اس وقت اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھوں اور پاؤں کو بولنے کی صلاحیت عطا فرما دے گا، اور وہ گواہی دیں گے کہ انہوں نے فلاں فلاں جرائم کئے تھے۔ یہ تفصیل قرآن کریم نے سورۂ نور : 24 اور سورۃ حم السجدۃ : 20 میں بھی بیان فرمائی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٥۔ صحیح مسلم، ترمذی، نسائی، مسند امام احمد، مسند بزار، تفسیر ابن جریر، تفسیر ابن ابی حاتم وغیرہ میں جو چند روایتیں ٢ ؎ اس آیت تفسیر میں حضرت انس (رض) وغیرہ کی روایت سے آئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جس حالت کا ذکر اس آیت میں ہے وہ قیامت کے دن لوگوں کا حساب جس وقت ہوگا اس وقت کی حالت کا ذکر ہے جب نیک وبدسب طرح کے لوگ اللہ تعالیٰ کے روبر وکھڑے ہوں گے تو بعضے نیک گناہ گار لوگ ایسے ہوں گے کہ اپنے نامہ اعمال کو دیکھ کر جس قدر گناہ اس میں لکھے ہوں گے ان کا اقرار کریں گے ان کے اقرار پر اللہ تعالیٰ کو رحم آئے گا اس لیے اللہ تعالیٰ ان کے سب گناہ بخش دے گا اور بعضے کافر اور منافق ایسے ہوں گے کہ اپنے گناہوں کا انکار کریں گے اور کہیں گے کہ یا اللہ تیرے فرشتوں نے ہمارے نامہ اعمال میں وہ برے کام لکھ دئے ہیں جو ہم نے ہرگز دنیا میں نہیں کئے اور بعضے یہ بھی کہیں گے کہ یا اللہ کیا آج کے دن تجھ کو انصاف درکار نہیں ہے اللہ تعالیٰ فرمادے گا کہ ہاں مجھ کو ضرور آج کے دن انصاف درکار ہے اس پر وہ لوگ کہویں گے کہ آج کے دن ہم ایسا گواہ چاہتے ہیں کہ جس پر ہمارا بھروسہ ہو اس پر اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے منہ پر اپنی قدرت سے خاموشی کی مہر لگا دیوے گا جس سے ان کی زبان بالکل بند ہوجاوے گی اور ان کے ہاتھ پیروں کو گویائی دیوے گا ان کے ہاتھ پیر ان کے سب گناہوں کا حال اس طرح بیان کر دیویں گے کہ جب ہاتھ گناہوں کا حال بیان کرے گا تو پیر اس کے بیان کے سچے ہونے کی گواہی دیوے گا اور جب پیر گناہوں کا حال بیان کرے گا تو ہاتھ گواہی دیوے گا اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے آیت میں باتیں کرنا اور گواہی دینا دو لفظ فرمائے ہیں جب یہ ہوچکے گا تو وہ کافر اور منافق لوگ اپنے ہاتھ پیروں پر خفا ہوں گے کہ تم نے ہمارے مخالف گواہی کیوں دی ہاتھ پیر جواب دیں گے کہ ہم نے جو کچھ کیا اللہ کے حکم سے کیا۔ تفسیر کرخی میں ہے کہ جس اللہ نے گوشت کے ایک ٹکڑے زبان کا گوشت اور اور سب گوشت یکساں ہے۔ تفسیر مقاتل میں ہے کہ جب یہ کافر اور منافق لوگ سچی بات کے کہتے کہنے سے زبان کو بند کریں گے تو اللہ تعالیٰ خود ان کے ہاتھ پیروں سے ان کو قائل کراوے گا مسند امام احمد مستدرک حاکم نسائی بیہقی تفسیر عبدالرزاق اور تفسیر ابن ابی حاتم میں معاویہ (رض) بن حیدہ سے روایت ١ ؎ ہے (١ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٣٦٣ ج) کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا شام کی سر زمین پر مخلوقات کا حشر ہوگا سوار پیدل اور منہ کے بل تین طرح کے لوگ قبروں سے میدان حشر تک جائیں گے اور اپنے برے اعمالوں سے لوگ منکر ہوں گے تو سب سے پہلے ہتھیلی اور ران کو قوت گویائی دی جائے گی اور زبان بند کردی جاوے گی حاکم نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ٢ ؎ (٢ ؎ تفسیر الدرالمنثور ایضا) اس آیت میں تو اللہ تعالیٰ نے فقط ہاتھ اور پاؤں کو گویائی دیے جانے کا ذکر فرمایا ہے اور حمٓ السجدہ میں آگے ذکر آئے گا وہاں کان آنکھ اور سارے جسم کا ذکر فرمایا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جن اعضا سے آدمی دنیا میں برا کام کرے گا وہ سب قیامت کے دن گواہی دیں گے امام فخر الدین رازی نے حم السجدہ کی تفسیر میں کان آنکھ اور جلد کا ذکر کر کے یہ بات ثابت کی ہے کہ باقی کے سب اعضاء اس ذکر میں داخل ہیں صحیح مسلم اور نسائی کی۔ روایت ٣ ؎ میں یہ بھی ہے (٣ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٢٦٧ ج ٥) کہ ایک روز آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہنسی آئی صحابہ (رض) نے آپ کی ہنسی کا سبب دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ قیامت کے دن لوگ جس طرح خدا تعالیٰ سے جھگڑیں گے وہ ذکر یاد کر کے مجھ کو ہنسی آئی ہے پھر آپ نے لوگوں کے گناہوں سے انکار کرنے اور منہ پر مہر لگنے اور ہاتھ پاؤں کی گواہی دینے کا ذکر فرمایا قتادہ کا قول ہے کہ منہ پر سکوت کی مہر لگ جانے سے پہلے یہ لوگ طرح طرح کی حجتیں کریں گے جب ان کے منہ پر سکوت کی مہر لگ جاوے گی تو پھر زبان کے کھل جانے کے بعد بھی ان کو کوئی موقع ہاتھ پیروں کی گواہی کے جھٹلانے کا باقی نہ رہے گا قرآن شریف اور صحیح حدیثوں میں یہ جو ہے کہ دوزخی دوزخ میں طرح طرح سے فریاد کریں گے اس سے قتادہ کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے کیوں کہ اس قسم کی آیتوں اور حدیثوں سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ دوزخ میں جانے سے پہلے ان لوگوں کی زبان کھل جاوے گی۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(36:65) تکلمنا ہم سے باتیں کریں گے ! ہم سے کلام کریں گے۔ ہم سے بولیں گے ! تکلم۔ مضارع واحد مؤنث غائب نا ضمیر جمع متکلم۔ عربی کا قاعدہ ہے کہ جب فاعل اسم ظاہر ہو تو فعل کو واحد لاتے ہیں خواہ فاعل بصیغہ جمع ہی ہو اور جمع مکسر کا حکم مؤنث غیر حقیقی کا حکم ہے کہ اس کے لئے مذکر اور مؤنث دونوں کا صیغہ استعمال کیا جاسکتا ہے، اگرچہ مؤنث کے صیغہ کا استعمال زیادہ فصیح ہے۔ یہاں چونکہ تکلم کا فاعل ایدی ہے ید کی جمع۔ اس لئے فعل کو مؤنث لایا گیا ہے تکلم تکلیم (تفعیل) مصدر سے ہے۔ تشھد۔ مضارع واحد مؤنث غائب شھادۃ (سمع) مصدر سے، وہ شہادت دیں گے۔ وہ گواہی دیں گے۔ نیز اوپر تکلمنا ملاحظہ ہو۔ کانوا یکسبون۔ یکسبون جمع مذکر غائب مضارع کسب مصدر سے ابتدا میں کانوا (جمع مذکر غائب) بڑھانے سے ماضی استمراری کا صیغہ بن گیا (جو ) وہ کمائی کیا کرتے تھے۔ (جو ) وہ کمایا کرتے تھے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یہ صورت حال ان کفار اور منافقین کو پیش آئے گی جو اپنے جرائم کا اقبال کرنے سے انکار کریں گے۔ فرشتوں کی گواہی اور نامہ اعمال کی صحت کو جھٹلائیں گے تو ان کے ہاتھ پائوں ان کے خلاف شہادت دیں گے۔ دوسری آیات میں آنکھ، کان، زبان اور چمڑوں کی شہادت کا بھی ذکر ہے۔ ( دیکھئے سورة نور 24، حم السجدہ آیت 20) حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ بندہ قیامت کے دن اپنے برے اعمال سے انکار کرے گا اور عرض کردے گا کہ ” اے اللہ ! میں تو اپنے خلاف صرف اسی کی گواہی قبول کروں گا جو میرا اپنا ہو “۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ تیرے خلاف خود تیری اور تجھ پر مقررفرشتوں کی گواہی کافی ہے “۔ پھر اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کے ہاتھ پائوں کو حکم ہوگا کہ گواہی پیش کرو۔ چناچہ وہ اس کے کرتوتوں کی ساری روداد پیش کریں گے، تب بندہ ان سے کہے گا ” جائو مجھ سے دور ہوجائو میں تو جو کچھ کرتا تھا تمہارے ہی بچانے کے لئے کرتا تھا ‘۔ ( شوکانی، ابن کثیر) تنبیہ۔ منہ پر مہر کردینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے اختیار سے کلام نہیں کرسکیں گے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ جس سے یہ عذر باطل نہ کرسکیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جہنم کے داخلے کا اعلان سنتے ہی مجرموں کی حالت۔ محشر میں ایک مرحلہ ایسا آئے گا کہ مجرم اپنے اعمال نامے اور دوسری شہادتوں کا انکار کردیں گے۔ اس پر ان کے مونہوں پر مہریں لگا دی جائیں گی۔ حکم ہوگا کہ آج تمہارے ہاتھ اور پاؤں ہمارے حضور گواہی دیں گے۔ دوسرے مقام پر ہے کہ مجرموں کے ہاتھ پاؤں گواہی دینے کے ساتھ ساتھ ان کی آنکھیں، کان اور جسم کا ایک ایک رونگٹا بول پڑے گا کہ خدایا اس کی زبان جھوٹ بول رہی ہے اس شخص نے ہمارے ذریعے یہ تمام جرم کیے ہیں جو اس کے اعمال نامے میں درج ہیں ( حٰمٓ السجدۃ : ٢٠، ٢١) اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو دنیا میں بھی مجرموں کے اعضاء ختم اور ان کی آنکھیں مسخ کردے جس سے ان کا وجود جامد اور ساکت ہوکررہ جائے۔ بعض مجرموں کو قیامت کے دن یہ سزا دی جائے گی جس وجہ سے وہ ان الفاظ میں آہ و زاریاں کریں گے۔ ” جو کوئی میری نصیحت سے منہ پھیرے گا اس کی زندگی بد نصیبی کی ہوگی اور قیامت کے دن ہم اس کو اندھا کرکے اٹھائیں گے۔ کہے گا کہ اے میرے پر ودگا مجھے تو نے اندھا کر کے کیوں اٹھایا حالانکہ میں تو دیکھا کرتا تھا اللہ تعالیٰ فرمائیں گے۔ تیرے پاس میرے احکام پہنچے تھے مگر تو ان کو بھول گیا اسی طرح آج تجھے بھلا دیا گیا ہے۔ جو کوئی اپنے پروردگار کے احکام سے تجاوز کرے اور ایمان نہ لائے ہم اس کو اسی طرح سزا دیں گے اور آخرت کا عذاب بہت ہی سخت اور دائمی ہے۔ “ (طہٰ : ١٢٤ تا ١٢٧) انسان کی بےبسی کا عالم : اگر مجرموں کو اس بات پر یقین نہیں تو کسی بوڑھے کو دیکھ لیں جس کے کان، ناک، آنکھیں اور بظاہر پورے کا پور اجسم موجود ہوتا ہے لیکن نہ سن سکتا ہے اور نہ اسے بو اور خوشبو کا احساس ہوتا ہے۔ آنکھیں ہیں مگر دکھائی نہیں دیتا، پاؤں ہیں لیکن چل نہیں سکتا، زبان ہے مگر بات سمجھا نہیں سکتا۔ یہاں تک سوچتا کچھ ہے اور کہتاکچھ ہے۔ گویا کہ پورا جسم نکارہ ہوچکا ہے۔ بس روح اور جسم کے رشتہ کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اسی طرح بعض لوگ اس قدر ضعف اور بڑھاپے کا شکار ہوجاتے ہیں کہ بچوں کی طرح دوسرے کے سہارے کے بغیرنہ چل سکتے نہ خود کھا سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ اٹھنے، بیٹھنے میں بھی دوسرے کے محتاج ہوتے ہیں اور بچوں جیسی باتیں اور حرکتیں کرتے ہیں۔ (عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ فِی ہَذِہِ الأُمَّۃِ خَسْفٌ وَمَسْخٌ وَقَذْف فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ یَا رَسُول اللَّہِ وَمَتَی ذَاکَ قَالَ إِذَا ظَہَرَتِ الْقَیْنَاتُ وَالْمَعَازِفُ وَشُرِبَتِ الْخُمُورُ ) [ رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی عَلاَمَۃِ حُلُولِ الْمَسْخِ وَالْخَسْفِ ] ” عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اس امت میں دھنسایا جانا، شکلیں تبدیل ہونا اور تہمت لگا ناعام ہوجائے گا۔ مسلمانوں میں سے ایک آدمی نے پوچھا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ایسا وقت کب آئے گا۔ آپ نے فرمایا جب گانا گانے والیاں، بانسریاں بجانا اور شراب نوشی عام ہوجائے گی۔ “ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِک ٍ اَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ یَدْعُو أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْبُخْلِ وَالْکَسَلِ ، وَأَرْذَلِ الْعُمُرِ ، وَعَذَابِ الْقَبْرِ ، وَفِتْنَۃِ الدَّجَّالِ ، وَفِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ ) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ (وَمِنْکُمْ مَنْ یُرَدُّ إِلَی أَرْذَلِ الْعُمُرِ )] ” حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا کیا کرتے تھے اے اللہ ! میں بخیلی، سستی، رذیل عمر، عذاب قبر، دجال کے فتنے اور زندگی اور موت کے فتنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ “ مسائل ١۔ قیامت کے دن مجرم کے ہاتھ اور پاؤں اس کے جرائم کی گواہی دیں گے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو مجرموں کے اعضاء ختم اور ان کی شکلیں مسخ کردے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

الیوم نختم۔۔۔۔ یکسبون (65) ” “۔ یوں وہ ایک دوسرے کو ملامت کرتے ہیں۔ ان پر خود ان کے اعضاء شہادت دے رہے ہیں خود ان کی اپنی شخصیت بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتی ہے اور ان کی ذات کے حصے ایک دوسرے کے خلاف گواہ ہوں گے اور انسان کا ہر عضو اپنے رب کے سامنے انفرادی طور پر ذمہ دار ہوگا۔ اور اللہ کے سامنے ہر عضو اقرار گناہ کرے گا اور سرتسلیم خم کرے گا۔ یہ نہایت ہیبت ناک اور خوفناک منظر ہے۔ انسان اس منظر کے بارے میں سوچتے ہی کانپ اٹھتا ہے۔ یہ منظر یوں اختتام پذیر ہوتا ہے کہ ان کی زبانیں بند ہیں اور ان کے ہاتھ بات چیت کر رہے ہیں۔ ان کے پاؤں شہادت دے رہے ہیں ، حالانکہ انہیں اپنے ہاتھ پاؤں سے یہ توقع ہرگز نہ تھی۔ اگر اللہ چاہتا تو وہ ان کے ساتھ اس کے سوا کوئی اور سلوک کرتا اور انہیں جو سزا چاہتا ، دیتا اور ان پر جو مصیبت چاہتا لے آتا۔ یہاں اللہ دوسری سزاؤں کے دو نمونے بھی دیتا ہے۔ اگر وہ چاہتا تو یوں ہوتا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مجرمین کے خلاف ان کے اعضاء کی گواہی کافروں کی سزا بیان فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا (اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓی اَفْوَاھِہِمْ ) (ہم آج کے دن ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے) (وَتُکَلِّمُنَآ اَیْدِیْہِمْ ) (اور ہم سے ان کے ہاتھ کلام کریں گے) (وَتَشْہَدُ اَرْجُلُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ) اور ان کے پاؤں ان کاموں کی گواہی دیں گے جو وہ کیا کرتے تھے۔ ) اس آیت سے معلوم ہوا کہ مجرمین کی زبانوں پر مہر لگا دی جائے گی اور ہاتھ پاؤں ان کے اعمال بد کی گواہی دیں گے۔ اور سورة النور میں فرمایا (یَوْمَ تَشْہَدُ عَلَیْہِمْ اَلْسِنَتُہُمْ وَاَیْدِیْہِمْ وَاَرْجُلُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اعمال بد کی گواہی زبان بھی دے گی اس میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ قیامت کے دن احوال مختلف ہوں گے، کسی وقت ہاتھ پاؤں بلکہ ان کے چمڑے تک ان کے خلاف گواہی دے دیں گے اور زبان نہ بول سکے گی اور جب زبان کھول دی جائے گی تو زبان سے بھی اپنی نافرمانی کے اقراری ہوجائیں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

39:۔ الیوم الخ :۔ یہ قیامت کے دن کفار و مشرکین کا حال ہوگا۔ قیامت کے دن وہ اپنے جرموں کا انکار کریں گے جیسا کہ دوسری جگہ ان کا قول نقل کیا گیا ہے۔ واللہ ربنا ما کنا مشرکین (انعام رکوع 3) ۔ تو اس وقت ان کی زبانیں بند کردی جائیں گی اور ان سے قوت گویائی سلب کرلی جائے گی اور اللہ کے حکم سے ان کے ہاتھ پاؤں بول اٹھیں گے اور جو جو کرتوت انہوں نے کیے ہوں گے وہ سب بیان کردیں گے۔ وفی الحدیث انہم یجحدون ویختصمون فیختمر علی افواھھم وتتکلم ایدیہم وارجلہم (بیضاوی) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(65) آج ہم ان کے منہوں پر مہر کردیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے اور ان کے پائوں اس چیز کی گواہی دیں گے جو وہ کیا کرتے تھے اور کمایا کرتے تھے۔ یعنی منہوں پر مہر لگا دی جائے گی تاکہ بےموقع اور جھوٹے عذر نہ کریں اور غیر مؤثر دلا یعنی باتیں نہ بنائیں بلکہ ان کے ہاتھ اور ان کے پائوں ان کے کمائے ہوئے کاموں کی خبر دیں گے یعنی ہاتھ کلام کریں گے اور پائوں گواہی دیں گے۔ یہ غالباً اس موقع پر ہوگا جب انسان سب کی تکذیب کرے گا حتیٰ کہ فرشتوں کو بھی جھٹلائے گا۔ تب شاید اس کے اعضاء بولیں گے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے مزید بحث انشاء اللہ سورة فصلت میں آجائے گی۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے تمام اعضاء اور ان کی کھال تک بھی کافر کے خلاف بیان دے گی اور اس طرح دین حق کے منکروں پر حجت قائم کی جائے گی۔