Surat Yaseen

Surah: 36

Verse: 71

سورة يس

اَوَ لَمۡ یَرَوۡا اَنَّا خَلَقۡنَا لَہُمۡ مِّمَّا عَمِلَتۡ اَیۡدِیۡنَاۤ اَنۡعَامًا فَہُمۡ لَہَا مٰلِکُوۡنَ ﴿۷۱﴾

Do they not see that We have created for them from what Our hands have made, grazing livestock, and [then] they are their owners?

کیا وہ نہیں دیکھتے کے ہم نے اپنے ہاتھوں بنائی ہوئی چیزوں میں سے ان کے لئے چوپائے ( بھی ) پیدا کردئے جن کے یہ مالک ہوگئے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

There is a Sign and a Blessing in Cattle Allah mentions the blessing that He has bestowed upon His creation; أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ مِمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَا أَنْعَامًا ... Do they not see that We have created for them of what Our Hands have fashioned, the cattle, Allah mentions the blessing that He has bestowed upon His creation by subjugating these cattle for their use. ... فَهُمْ لَهَا مَالِكُونَ so that they are their owners. Qatadah said, "They are their masters."

چوپائیوں کے فوائد ۔ اللہ تعالیٰ اپنے انعام و احسان کا ذکر فرما رہا ہے ۔ کہ اس نے خود ہی یہ چوپائے پیدا کئے اور انسان کی ملکیت میں دے دئیے ، ایک چھوٹا سا بچہ بھی اونٹ کی نکیل تھام لے اونٹ جیساقوی اور بڑا جانور اس کے ساتھ ساتھ ہی سو اونٹوں کی ایک قطار ہو ایک بچے کے ہانکنے سے سیدھے چلتی رہتی ہے ۔ اس ماتحتی کے علاوہ بعض لمبے لمبے مشقت والے سفر بآسانی جلدی جلدی طے ہوتے ہیں خود سوار ہوتے ہیں اسباب لادتے ہیں بوجھ ڈھونے کے کام آتے ہیں ۔ اور بعض کے گوشت کھائے جاتے ہیں ، پھر صوف اور ان کے بالوں کھالوں وغیرہ سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ دودھ پیتے ہیں ، بطور علاج پیشاب کام میں آتے ہیں اور بھی طرح طرح کے فوائد حاصل کئے جاتے ہیں ۔ کیا پھر ان کو نہ چاہے کہ ان نعمتوں کے منعم حقیقی ، ان احسانوں کے محسن ، ان چیزوں کے خالق ، ان کے حقیقی مالک کا شکر بجا لائیں ؟ صرف اسی کی عبادت کریں؟ اس کی توحید کو مانیں اور اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کریں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

71۔ 1 اس سے غیروں کی شرکت کی نفی ہے، ان کو ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنایا، کسی اور کا ان کے بناننے میں حصہ نہیں ہے۔ 71۔ 2 اَنْعَام نَعَم کی جمع ہے۔ اس سے مراد چوپائے یعنی اونٹ، گائے، بکری اور بھیڑ دنبہ وغیرہ ہیں۔ 71۔ 3 یعنی جس طرح چاہتے ہیں ان میں تصرف کرتے ہیں، اگر ہم ان کے اندر وحشی پن رکھ دیتے (جیسا کہ بعض جانوروں میں ہے) تو یہ چوپائے ان سے دور بھاگتے اور وہ ان کی ملکیت اور قبضے میں ہی نہ آسکتے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٦٤] مثلاً گائے، بیل، بھیڑ، بکری، اونٹ، گھوڑے، گدھے یہ سب قسم کے جانور الگ الگ انواع ہیں۔ اور سب انسان کے فائدے کے لئے اللہ نے بنائی ہیں ان کی نسل بھی ایسے ہی نطفہ سے چلتی ہے جیسے انسان کی چلتی ہے۔ اور نطفہ بےجان مادوں سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ چیزیں انسان کی مملوک نہیں تھیں۔ اللہ نے انسان کو عقل دی۔ عقل کے ذریعہ اس نے چوپایوں کو اپنے قابو میں کیا۔ پھر ان میں اپنے لئے فوائد دیکھے تو انہیں اپنے گھروں میں پالنا شروع کردیا اور آپس میں ان کی خریدو فروخت شروع کردی اور ان کے مالک بن بیٹھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ : یہاں سے پھر توحید اور اس کے بعد آخرت کے دلائل کا بیان ہے۔” اَنْعَامًا “ ” نَعَمٌ“ کی جمع ہے، یعنی کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ یہ جانور جن کے یہ مالک بنے ہوئے ہیں، یہ سب ہم نے پیدا کیے ہیں۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں کا ذکر قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر بھی ہے اور ان پر ایمان رکھنا اور ان کی کیفیت اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنا واجب ہے، تاہم یہاں اہل علم نے ” اپنے ہاتھوں سے “ بنانے کا مطلب یہ بیان فرمایا ہے کہ ہم نے انھیں کسی کی شرکت یا واسطے کے بغیر خود بنایا ہے۔ ان کے پیدا کرنے میں کسی دوسرے کا ذرہ برابر دخل نہیں ہے۔ (فتح البیان)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 71, it was said: أَوَلَمْ يَرَ‌وْا أَنَّا خَلَقْنَا لَهُم مِّمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَا أَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا مَالِكُونَ (Did they not see that We have created for them cattle, among things made (directly) by Our hands, then they are their owners?). Along with the mention of the Divine novelty and beneficence in the creation of the cattle in this verse, yet another great favor of Allah Ta’ ala has been identified. It has been said that man has played no role in the creation of these cattle. Allah Ta’ ala made them, exclusively, by His own hands, so to say. Then, He not only let human beings benefit from these cattle with His permission, but also made them their owners, so that they could dispose them off in any manner they chose - use them to their advantage or sell them off and use the money thus acquired. Gift of God - not capital or labor - is the real wisdom behind the ownership of things In our day, debate is still going on between various economic theories as to the basis of production of things and their ownership. Is it wealth, or is it labor? The votaries of the capitalist economic system declare capital and wealth as its basis. The protagonists of the socialist and communist system support labor as the real reason or justification behind production of things and their ownership. This decree of the Qur&an tells us that none of these two has any role to play in the creation of things and their ownership. The creation of anything does not rest in the possession or control of human beings. That is an act of Allah Ta’ ala, directly. Then, reason demands that the one who creates something should also be its owner. Therefore, when it comes to things of this world, the essential and real ownership is that of Allah Ta’ ala. The ownership of human beings in anything whatsoever can take effect only when Allah Ta’ ala passes it on to them in His mercy. Allah Ta’ ala has already revealed the law of the proof and transfer of ownership through his prophets. Counter to this law, no one can become the owner of anything.

(آیت) اولم یروا انا خلقنا لہم مما عملت ایدینا انعاماً فہم لہا مالکون۔ اس آیت میں چوپائے جانوروں کی تخلیق میں انسانی منافع اور ان میں قدرت کی عجیب و غریب صنعت کاری کا ذکر فرمانے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ایک اور احسان عظیم کو بتلایا گیا ہے کہ یہ چوپائے جانور جن کی تخلیق میں کسی انسان کا کوئی دخل نہیں، خالص دست قدرت کے بنائے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے صرف یہی نہیں کیا کہ انسان کو ان چوپاؤں سے نفع اٹھانے کا موقع ملا اور اجازت دے دی بلکہ اس کو ان کا مالک بنادیا کہ وہ ان میں ہر طرح کے مالکانہ تصرفات کرسکتے ہیں، خود نفع اٹھائیں یا ان کو فروخت کر کے ان کی قیمت سے فائدہ اٹھائیں۔ ملکیت اشیاء کی اصل علت عطاء حق ہے، نہ سرمایہ محنت : آج کل نئے نئے معاشی ازموں اور نظریات میں یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ تخلیق اشیاء اور ان کی ملکیت میں سرمایہ اور دولت اصل ہے، یا محنت ؟ سرمایہ دارانہ نظام معیشت کے قائل دولت وسرمایہ کو اصل قرار دیتے ہیں اور سوشلزم اور کمیونزم والے محنت کو اصل علت تخلیق و ملکیت کی قرار دیتے ہیں۔ قرآن مجید کے اس فیصلے نے بتلا دیا کہ تخلیق اشیاء اور ان کی ملکیت میں دونوں کا کوئی دخل نہیں، تخلیق کسی چیز کی انسان کے قبضہ میں نہیں، وہ براہ راست حق تعالیٰ کا فعل ہے۔ اور عقل کا تقاضا ہے کہ جو کسی چیز کو پیدا کرے وہی اس کا مالک بھی ہو۔ اس طرح اصل اور حقیقی ملکیت اشیائے عالم میں حق تعالیٰ کی ہے، انسان کی ملکیت کسی بھی چیز میں صرف اللہ تعالیٰ کے عطا کرنے سے ہو سکتی ہے، اللہ تعالیٰ نے اشیاء کی اثبات ملکیت اور انتقال ملکیت کا قانون اپنے پیغمبروں کے ذریعہ نازل فرما دیا ہے۔ اس قانون کے خلاف کوئی کسی چیز کا مالک نہیں ہو سکتا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا خَلَقْنَا لَہُمْ مِّمَّا عَمِلَتْ اَيْدِيْنَآ اَنْعَامًا فَہُمْ لَہَا مٰلِكُوْنَ۝ ٧١ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے يد الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] ، ( ی د ی ) الید کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ نعم النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] ( ن ع م ) النعمۃ اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔ ملك ( مالک) فالمُلْك ضبط الشیء المتصرّف فيه بالحکم، والمِلْكُ کالجنس للمُلْكِ ، فكلّ مُلْك مِلْك، ولیس کلّ مِلْك مُلْكا . قال : قُلِ اللَّهُمَّ مالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشاءُ [ آل عمران/ 26] ، وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان/ 3] ، وقال : أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس/ 31] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا[ الأعراف/ 188] وفي غيرها من الآیات ملک کے معنی زیر تصرف چیز پر بذیعہ حکم کنٹرول کرنے کے ہیں اور ملک بمنزلہ جنس کے ہیں لہذا ہر ملک کو ملک تو کہہ سکتے ہیں لیکن ہر ملک ملک نہیں کہہ سکتے قرآن میں ہے : ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان/ 3] اور نہ نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے اور نہ جینا اور نہ مر کر اٹھ کھڑے ہونا ۔ اور فرمایا : ۔ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس/ 31] یا تمہارے کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا[ الأعراف/ 188] کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ اختیار نہیں رکھتا علی بذلقیاس بہت سی آیات ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

کیا یہ مکہ والے اس چیز پر نظر نہیں کرتے کہ ہم نے اپنی قدرت سے کن فرما کر ان کے لیے مویشی پیدا کیے کہ یہ لوگ ان کے مالک بن رہے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧١ { اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا خَلَقْنَا لَہُمْ مِّمَّا عَمِلَتْ اَیْدِیْنَآ اَنْعَامًا فَہُمْ لَہَا مٰـلِکُوْنَ } ” کیا انہوں نے غور نہیں کیا کہ ہم نے اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی چیزوں میں سے ان کے لیے چوپائے پیدا کردیے ‘ جن کے اب یہ مالک بنے پھرتے ہیں۔ “ یہ میری بھینس ہے ‘ میں اس کا مالک ہوں ! یہ اس کی گائے ہے ! یہ فلاں کا گھوڑا ہے ! بکریوں کے ریوڑ کا مالک فلاں ہے ! گویا یہ لوگ بڑے فخر سے ان مویشیوں اور چوپایوں پر اپنا حق ملکیت جتاتے ہیں ‘ لیکن یہ حقیقت وہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ انہیں تخلیق تو اللہ نے ہی کیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

60 The word "hands" has been used metaphorically for Allah. This dces not mean that, God forbid, Allah has a body and He works with the hands like human beings, but it means to impress that Allah has made these things Himself, and none else has any share in the matter of their creation.

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :60 ہاتھوں کا لفظ اللہ تعالیٰ کے لیے بطور استعارہ استعمال ہوا ہے ۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ معاذاللہ وہ ذات پاک جسم رکھتی ہے اور انسانوں کی طرح ہاتھوں سے کام کرتی ہے ۔ بلکہ اس سے یہ احساس دلانا مقصود ہے کہ ان چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے خود بنایا ہے ، ان کی تخلیق میں کسی دوسرے کا ذرہ برابر دخل نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(36:71) اولم یروا۔ ہمزہ استفہام انکاری کے لئے وائو عاطفہ ہے جس کا عطف جملہ منفیہ مقدرہ پر ہے ای الم یعلموا علما یقینا ولم یروا۔ کیا انہیں پختہ یقین نہ تھا اور انہوں نے دیکھا نہیں۔ خلقنالہم۔ ای خلقنا لاجلہم وانتفاعہم۔ ہم نے پیدا کیا ان کے لئے اور ان کے فائدہ کے لئے۔ مما۔ من تبعیضیہ اور ما موصول سے مرکب ہے عملت ایدینا (جو) ہمارے ہاتھوں نے بنایا (یعنی بلا شرکت غیرے) مما عملت ایدینا۔ ہمارے ہاتھوں کی بنائی ہوئی چیزوں میں سے۔ بنانے کی نسبت ہاتھوں کی طرف بطور استعارہ ہے جس سے تخلیق میں انفرادیت خداوندی اور بلا شرکت اللہ کے ساتھ ساری چیزوں کی وابستگی پیدائش پرزور طور پر ظاہر ہو رہی ہے۔ انعام۔ چوپائے ، مویشی۔ مراد الازواج الثمانیۃ جیسا کہ فرمایا وانزل لکم من الانعام ثمنیۃ ازواج (39:6) اور پیدا کئے تمہارے لئے جانوروں میں سے آٹھ جوڑے۔ انعاما خلقنا کا مفعول ہے۔ فہم۔ فاء تفریع کے لئے ہے (فرع یفرع تفویع : قاعدہ یا دلیل سے فروعی مسائل کا نکالنا۔ یا یہ الفرع فی المسائل سے ہے مسائل قیاسیہ یعنی وہ مسائل جو کسی دوسری چیز پر مبنی ہوں اور اس پر ان کو قیاس کیا گیا ہو۔ اس کے مقابل اصل ہے) ۔ یا سببیہ ہے ای خلقنا ہم انعاما وملکنا ھاہم فہم بسب ذلک مالکون لھا۔ ہم نے ان کے لئے مویشی پیدا کئے اور ان مویشیوں کو ان کے قابو میں دیا۔ اور بدین سبب وہ ان کے مالک بن گئے) ۔ مالکون۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ مالک واحد ۔ قابو رکھنے والے، ہر قسم کا تصرف کرنے والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی یہ جانور جن کے یہ مالک بنے ہوئے سب ہم نے پیدا کئے ہیں اور ” اپنے ہاتھوں سے بنانے “ کا مطلب یہ ہے کہ ان کے پیدا کرنے میں کسی دوسرے کا ذرہ بھر دخل نہیں ہے اگر ہم چاہتے تو ان جانوروں کو اس طور سے پیدا کردیتے کہ وہ ان کے قابو میں نہ آتے کجا کہ یہ ان کے مالک بنتے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : سورة یٰس کا مرکزی مضمون بعث بعد الموت ہے۔ سابقہ آیات میں اسی کے دلائل دیئے گئے ہیں۔ درمیان میں قرآن مجید کے بارے میں کفار کے ایک الزام کی تردید کی گئی ہے۔ اب پھر موت کے بعد جی اٹھنے کے دلائل پیش کیے جاتے ہیں۔ قرآن مجید تحریر کی صورت میں نہیں بلکہ تقریر اور خطاب کے انداز میں نازل ہوا ہے۔ خطاب کے دوران اگر سامع کوئی اعتراض یا سوال اٹھائے یا خطاب کرنے والا خود محسوس کرے تو وہ اپنے مضمون سے زرا ہٹ کر اس اعتراض کا جواب دینا لازم سمجھتا ہے اگر ایسا نہ کیا جائے تو پورے کا پورا خطاب بےاثر ہوجانے کا اندیشہ ہوتا ہے اسی اصول کے پیش نظر قرآن مجید ایک مضمون بیان کرتے ہوئے اس کے متعلقات کا جواب دینا بھی ضروری سمجھتا ہے۔ کیونکہ اہل مکہ توحید و رسالت اور عقیدہ آخرت کی تردید کے لیے ضروری سمجھتے تھے کہ سرے سے قرآن مجید کو ہی مشکوک قرار دے دیا جائے اس لیے اس موقعہ پر قرآن مجید کے بارے میں وضاحت کردی گئی کہ یہ شاعرانہ کلام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ قرآن کی صورت میں نصیحت ہے مگر اس سے وہی شخص فائدہ اٹھا سکتا ہے جس کا ضمیر زندہ ہوگا۔ مردہ ضمیر کو بیدار کرنے کے لیے یہ دلیل دی جارہی ہے کیا انہوں نے کبھی غور کیا کہ اللہ تعالیٰ نے کیسے کیسے چوپائے پیدا کیے اور پھر لوگوں کو ان کا مالک بنا دیا۔ انسان سے کئی گنا زیادہ، جسیم اور طاقتور چوپائے اس کے تابع فرمان کردیے ہیں۔ کچھ ایسے ہیں جن پر یہ سواری کرتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جن کا انسان دودھ پیتے اور گوشت کھاتے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی بیشمار فوائد ہیں مگر لوگ اپنے رب کا شکر ادا نہیں کرتے۔ اونٹ کو دیکھیں کس قدر طویل القامت، جسیم اور طاقتور جانور ہے لیکن اس کی مہار پکڑے ہوئے ایک بچہ بھی اس کو ادھر ادھر لیے پھر تا ہے۔ گھوڑے پر غور کریں کہ اس قدر سر پٹ دھوڑتا ہے کہ آدمی اسے پکڑنا چاہے تو پکڑ نہیں سکتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے اس طرح انسان کا تابع دار بنا دیا ہے کہ یہ جب چاہے گھوڑے پر سورا ہوجائے اور جب چاہے اس سے باربرداری کا کام لینا شروع کر دے۔ جانوروں کے بارے میں فرمایا کہ ہم نے انہیں اپنے ہاتھوں سے بنایا۔ لغت کے اعتبار سے ید کی جمع ” اَیْدِیْ “ ہے جس کا معنٰی ہاتھ ہے۔ اس کا معنٰی نعمت بھی کیا گیا ہے۔ یہاں اہل علم نے ” اَیْدِیْ “ کا معنٰی قدرت کیا ہے۔ جس کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کیا لوگوں نے غور نہیں کیا ؟ کہ ہم نے اپنی قدرت سے چوپائے پیدا کیے اور لوگوں کو ان کا مالک بنایا ہے۔ چوپاؤں کو ہم نے لوگوں کے تابع کردیا کچھ پر یہ سوار ہوتے اور کچھ کا گوشت کھاتے ہیں۔ چوپاؤں میں اور فائدوں کے ساتھ یہ فائدہ بھی ہے کہ ان کے ذریعے آبپاشی کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ یہ نعمتیں پیدا کرنے میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا عمل دخل نہیں لیکن پھر بھی لوگ اس کا شکر ادا نہیں کرتے۔ قرآن مجید میں چوپاؤں، آسمانوں اور انسان کے بارے میں ” یَدٌ“ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے انہیں اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ہے۔ آدم (علیہ السلام) کے بارے میں ” یَدٌ“ کا لفظ استعمال کیا ہے اور باقی کے بارے میں ” اَیْدِیْ “ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ ” یَدٌ“ کا ہاتھ کے علاوہ کوئی معنٰی نہیں کیا جاسکتا اس کی تاویل کر ناجائز نہیں۔ لیکن ” اَیْدِیْ “ کے بارے میں صحابہ کرام (رض) سے منقول ہے کہ وہ اس کا معنٰی ہاتھ کی بجائے قدرت کرتے تھے اور اس پر اہل علم کا اتفاق ہے۔ مسائل ١۔ اللہ کی تخلیق پر انسان کو غور کرنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے بیشمار فوائد رکھے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن شکر کا حکم اور فائدے : ١۔ لوگو ! اللہ کو یاد کرو اللہ تمہیں یاد کرے گا اور اس کا شکر ادا کرو کفر نہ کرو۔ (البقرۃ : ١٥٢) ٢۔ لوگو ! تم اللہ کا شکر ادا کرو اور ایمان لاؤ۔ اللہ بہت ہی قدر دان ہے۔ (النساء : ١٤٧) ٣۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ اگر تم شکر کرو گے تو وہ مزید عطا فرمائے گا۔ (ابراہیم، آیت : ٧) ٥۔ اللہ کی پاکیزہ نعمتیں کھا کر اس کا شکر کرو۔ (البقرۃ : ١٧٢) ٦۔ اللہ کی عبادت کرتے ہوئے اس کا شکر ادا کرو۔ (العنکبوت : ١٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اولم یروا انا ۔۔۔۔۔ ما یسرون وما یعلنون (71 – 76) کیا یہ دیکھتے نہیں ؟ اللہ کی نشانیاں تو ان کے سامنے موجود ہیں اور سب کو نظر آتی ہیں۔ نہ ان سے اوجھل ہیں اور نہ دور ہیں۔ اور نہ یہ نشانیاں اس قدر پیچیدہ ہیں کہ انہیں سمجھنے کے لئے کسی بڑے غوروفکر کی ضرورت ہے۔ یہ انعامات جو اللہ نے انسانوں کے لیے پیدا کیے اور انسانوں کو ان کا مالک بنایا ، ان میں سے جانور ہیں جن کو انسانوں کے تابع بنایا جن پر انسان سوار ہوتے ہیں ، ان میں سے بعض نعمتوں کو کھاتے اور پیتے ہیں ۔ اور بعض سے بعض دوسرے فائدے اٹھاتے ہیں اور یہ سب امور اللہ کی تدابیر اور تقادیر کے مطابق ہے۔ اور پھر اللہ نے انسانوں کے اندر مختلف صلاحیتیں اور خصوصیات و دیعت فرمائیں۔ پھر جانوروں کو مختلف خصائص اور صلاحیتیں دیں۔ انسانوں کو یہ قدرت دی کہ وہ ان کو اپنا تابع فرمان بنائیں اور ان سے فائدے اٹھائیں۔ چناچہ وہ سدھائے گئے تابع فرمان بنائے گئے اور ان سے انسانوں کی مختلف حاجات و ضروریات پوری ہوتی رہیں۔ انسانوں کے اندر یہ قدرت نہ تھی کہ وہ ازخود ان نعمتوں کو پیدا کرسکتے۔ سب نعمتیں تو بڑی بات ہے اگر تمام انسان جمع ہوجائیں اور وہ ایک مکھی کی تخلیق کرنا چاہیں تو وہ بھی نہ کرسکیں گے۔ نیز اللہ نے چونکہ مکھی کے اندر یہ خاصیت نہیں رکھی کہ وہ انسانوں کے تابع ہوجائے اس لیے آج تک انسان مکی کو تابع نہ کرسکے۔ افلا یشکرون (36: 73) ” پھر کیا یہ شکر گزار نہیں ہوتے “۔ جب انسان ان معاملات کے بارے میں اس انداز سے سوچتا ہے اور قرآن کریم کی روشنی میں ان امور پر غور کرتا ہے تو وہ اس نتیجے پر پہنچ جاتا ہے کہ وہ تو اللہ کے انعامات کے اندر ڈوبا ہوا ہے اور اس پر اللہ کے کرم کی ہر وقت بارش ہو رہی ہے۔ اس کے ماحول کی ہر چیز اس کے لیے رحمت ہے۔ جب بھی وہ کسی حیوان پر سوار ہوتا ہے ، یا گوشت کا کوئی ٹکڑا کھاتا ہے ، یا دودھ کا ایک گھونٹ پیتا ہے یا سوت ، اون اور ریشم کا کوئی کپڑا پہنتا ہے ، یا گھی اور پنیت استعمال کرتا ہے یا اپنے انعامات کو کام میں لاتا ہے تو اسے گہرا شعور حاصل ہوتا ہے کہ خالق کائنات کی رحمت کس قدر وسیع ہے اور اس کے انعامات کا دائرہ کسی قدر بڑا ہے۔ غرض یہ شعور اور بھی پختہ ہوجاتا ہے جب انسان اس جہاں کی تازہ اور باسی فصلوں اور پھلوں کو استعمال کرتا ہے اور اسی شعور کے نتیجے میں انسانی زندگی پوری کی پوری حمد و ثنا ہوجاتی ہے۔ قدم قدم پر اس شعور کی وجہ سے انسان عبادت اور بندگی کرتا ہے اور رات دن اللہ کا ثنا خواں ہوتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

جانوروں میں اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں، ان میں منافع اور مشارب ہیں ایمانیات کا تذکرہ فرمانے کے بعد بعض دنیاوی منافع کا تذکرہ فرمایا، ارشاد فرمایا کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں کہ ہم نے ان کے لیے محض اپنی قدرت سے چو پائے پیدا کیے، یہ لوگ چوپایوں کے مالک ہیں، ہر چیز کا حقیقی مالک تو اللہ تعالیٰ ہی ہے انسانوں کو بھی اس نے اپنی مخقول میں سے بعض چیزوں کا مالک بنا دیا ہے، بندے مجازی مالک ہیں اور مالک ہوتے ہوئے ان احکام کے پابند ہیں جو شریعت اسلامیہ کی طرف سے مقرر کیے گئے ہیں، جو شخص ان کی خلاف ورزی کرے گا گنہگار ہوگا، یوں نہ سمجھے کہ میں اس جانور کا مالک ہوں جو چاہوں کروں۔ جانوروں کو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے قابو میں دے دیا ہے، کچھ جانور ایسے ہیں جو سواری کا کام دیتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو خوراک کے کام میں آتے ہیں ان کا گوشت کھایا جاتا ہے، جب کوئی جانور بدک جائے، یا چمک جائے، قابو سے باہر ہوجائے اس وقت انسان کو احساس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تسخیر سے یہ جانور ہمارے قابو میں ہے اگر بےقابو ہوجائے تو ہم اس سے کام نہیں لے سکتے۔ اسی لیے تو سواری کی دعا (سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ھٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِیْنَ وَاِنَّآ اِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ ) تعلیم فرمائی۔ (سورۃ الزخرف رکوع نمبر ١)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

44:۔ اولم یروا الخ :۔ یہ پانچویں عقلی دلیل ہے ہم نے ان کے لیے مختلف انواع کے چوپائے پیدا کیے ہیں جو ان کے زیر تصرف ہیں اور ہمارے حکم تکوینی سے ان کے مطیع و فرمانبردار ہیں کچھ ان میں سے سواری اور بار برداری کے لیے ان کے کام آتے ہیں۔ کچھ ایسے ہیں جن کا وہ دودھ پیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان میں اور بھی گوناگوں فوائد و منافع ہیں لیکن پھر بھی وہ اللہ کا شکر نہیں کرتے اور اس کی عبادت اور پکار میں اوروں کو شریک کرتے اور انہیں عنداللہ شفیع غالب سمجھتے ہیں، حالانکہ ان چوپایوں کی تخلیق میں اور ان انعامات کے عطا کرنے میں ان کا کوئی حصہ نہیں اس لیے وہ کار ساز اور شفیع غالب بھی نہیں ہوسکتے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(71) کیا ان لوگوں نے یعنی منکرین توحید نے اس بات پر غور نہیں کیا اور اس پر نظر نہیں کی کہ ہم نے اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی چیزوں میں سے ان کیلئے مواشی پیدا کئے ہیں پھر یہ لوگ ان مواشی کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ یعنی ہم نے اپنی بنائی ہوئی اور اپنی ساختہ چیزوں میں سے ان کے نفع کیلئے مواشی مثلاً گائے، بھینس، اونٹ وغیرہ بھی بنائے ہیں پھر ان چوپایوں کا ان کو مالک بنادیا ہے جن سے یہ مختلف فوائد اور منافع حاصل کرتے ہیں انہی فوائد کا آگے بیان فرمایا۔