Surat Yaseen

Surah: 36

Verse: 76

سورة يس

فَلَا یَحۡزُنۡکَ قَوۡلُہُمۡ ۘ اِنَّا نَعۡلَمُ مَا یُسِرُّوۡنَ وَ مَا یُعۡلِنُوۡنَ ﴿۷۶﴾

So let not their speech grieve you. Indeed, We know what they conceal and what they declare.

پس آپ کو ان کی بات غمناک نہ کرے ، ہم ان کی پوشیدہ اور اعلانیہ سب باتوں کو ( بخوبی ) جانتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَلَ يَحْزُنكَ قَوْلُهُمْ ... So, let not their speech then grieve you. means, `their denying you and their disbelief in Allah.' ... إِنَّا نَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ Verily, We know what they conceal and what they reveal. means, `We know everything about them, and We will punish them for their false claims and deal with them accordingly on the Day when none of their deeds, great or small, major or minor, will be overlooked, and every deed they did throughout their worldly lives will be laid open for examination.'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٦٨] اگر یہ لوگ اپنے پروردگار اور منعم حقیقی کے معاملہ میں اس قدر ناانصاف اور ظالم واقع ہوئے ہیں تو آپ کو بھی ان کے اس معاندانہ رویہ پر غمزدہ نہ ہونا چاہئے۔ یہ لوگ ظاہر تو یہ کرتے ہیں کہ آپ کاہن ہیں، دیوانہ ہیں، جادوگر ہیں، اللہ پر افترا باندھتے ہیں۔ اور دوسرے لوگوں کو یہ باتیں اس لئے کہتے ہیں کہ جیسے بھی بن پڑے اسلام کو اور آپ کو دبا سکیں۔ لیکن یہی لوگ اپنی نجی محفلوں میں اس بات کا اعتراف کرتے تھے اور پوری طرح سمجھتے تھے کہ جو الزامات یہ رسول اللہ صلی اللہ پر لگا رہے ہیں وہ سراسر غلط اور بےبنیاد ہیں۔ لہذا آپ کو پریشان اور غمزدہ نہ ہونا چاہئے۔ حق کے مقابلہ میں ان کا یہ جھوٹا پروپیگنڈہ زیادہ دیر نہ چل سکے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَلَا يَحْزُنْكَ قَوْلُهُمْ : اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے کہ جب ہمارے متعلق ان مشرکین کے جہل اور عناد کا یہ حال ہے تو آپ بھی ان کی باتوں سے غم زدہ نہ ہوں۔ اِنَّا نَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ وَمَا يُعْلِنُوْنَ : (إِنَّ تعلیل کے لیے ہوتا ہے) کیونکہ آپ غم زدہ تو تب ہوں جب انھیں کوئی پوچھنے والا نہ ہو، ہم تو ان کی وہ باتیں بھی جانتے ہیں جو وہ چھپاتے ہیں اور وہ بھی جو ظاہر کرتے تھے۔ ہمیں معلوم ہے کہ آپس میں وہ آپ کے سچا ہونے کا اقرار کرتے ہیں اور لوگوں کے سامنے آپ کو شاعر، ساحر اور کاہن وغیرہ کہتے ہیں۔ اسی طرح ہمیں ان کی خفیہ سازشوں کا بھی علم ہے اور علانیہ دشمنی کا بھی، آپ فکر نہ کریں، ہم سارا حساب برابر کردیں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر (جب یہ لوگ ایسے واضح اور کھلے ہوئے امور میں بھی خلاف ہی کرتے ہیں) تو ان لوگوں کی باتیں (انکار توحید و رسالت سے متعلق) آپ کے لئے آزردگی کا باعث نہ ہونا چاہئے (کیونکہ آزردگی ہوتی ہے امید سے، اور امید ہوتی ہے مخاطب کے عقل و انصاف سے اور ان لوگوں میں نہ عقل ہے نہ انصاف تو ان سے کسی چیز کی امید ہی نہیں ہو سکتی، پھر غم کیوں ہو۔ آگے دوسرے طریقہ سے آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی ہے) بیشک ہم سب جانتے ہیں جو کچھ یہ دل میں رکھتے ہیں اور جو کچھ (زبان سے) ظاہر کرتے ہیں (اس لئے وقت مقرر پر ان کو ان کے عمل کی سزا ملے گی) کیا (اس) آدمی کو (جو قیامت کا انکار کرتا ہے) یہ معلوم نہیں کہ ہم نے اس کو (ایک حقیر) نطفہ سے پیدا کیا (جس کا تقاضا یہ تھا کہ اپنی ابتدائی حالت کو یاد کر کے اپنی حقارت اور خالق کی عظمت کو دیکھ کر خود شرماتا کہ گستاخی کی جرأت نہ کرتا دوسرے خود اپنے حالات سے اس پر استدلال کرتا کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کردینا اس کی قدرت سے کیا بعید ہے) سو (اس نے ایسا نہ کیا بلکہ اقتضائے مذکور کے خلاف) وہ علانیہ اعتراض کرنے لگا اور (وہ اعتراض یہ کہ) اس نے ہماری شان میں ایک عجیب مضمون بیان کیا (عجیب اس لئے کہ اس سے انکار قدرت لازم آتا ہے) اور اپنی اصل کو بھول گیا (کہ ہم نے اس کو نطفہ حقیر سے ایک کامل انسان بنایا) کہتا ہے کہ ہڈیوں کو جبکہ وہ بوسیدہ ہوگئی ہوں کون زندہ کر دے گا۔ آپ جواب دے دیجئے کہ ان کو وہ زندہ کرے گا جس نے پہلی مرتبہ ان کو پیدا کیا ہے (کہ پہلی تخلیق کے وقت ان ہڈیوں کا زندگی سے کوئی تعلق ہی نہ تھا اور اب تو ایک مرتبہ ان میں حیات پیدا ہو کر ایک قسم کا تعلق حیات سے ہوچکا ہے اب ان میں حیات پیدا کرنا کیا مشکل ہے) اور وہ ہر طرح کا پیدا کرنا جانتا ہے (یعنی ابتداً کسی چیز کو پیدا کردینا یا پیدا شدہ کو فنا کر کے دوبارہ پیدا کردینا) وہ ایسا (قادر مطلق) ہے کہ (بعض) ہرے درخت سے تمہارے لئے آگ پیدا کردیتا ہے، پھر تم اس سے اور آگ سلگا لیتے ہو (جیسا کہ عرب میں ایک درخت تھا، مرخ دوسرا عفار، ان دونوں درختوں سے چقماق کا کام لیتے تھے، دونوں کے ملانے سے آگ پیدا ہوجاتی تھی، تو جس قادر نے ہرے درخت کے پانی میں آگ پیدا فرما دی تو دوسرے جمادات میں حیات پیدا کردینا اس کے لئے کیا مشکل ہے) اور جس نے آسمان اور زمین پیدا کئے ہیں کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ ان جیسے آدمیوں کو (دوبارہ) پیدا کر دے، ضرور قادر ہے اور وہ بڑا پیدا کرنے والا خوب جاننے والا ہے (اور اس کی قدرت ایسی ہے کہ) جب وہ کسی چیز (کے پیدا کرنے) کا ارادہ کرتا ہے تو بس اس کا معمول تو یہ ہے کہ اس چیز کو کہہ دیتا ہے کہ ہوجا بس وہ ہوجاتی ہے تو (ان سب مقدمات سے ثابت ہوگیا کہ) اس کی پاک ذات ہے جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا پورا اختیار ہے اور (یہ بات سب شبہات سے سالم رہ گئی کہ) تم سب کو اسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے (یعنی قیامت کے روز) ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَا يَحْزُنْكَ قَوْلُہُمْ۝ ٠ ۘ اِنَّا نَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ وَمَا يُعْلِنُوْنَ۝ ٧٦ حزن الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] ( ح ز ن ) الحزن والحزن کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا سرر (كتم) والسِّرُّ هو الحدیث المکتم في النّفس . قال تعالی: يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه/ 7] ، وقال تعالی: أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْواهُمْ [ التوبة/ 78] ( س ر ر ) الاسرار السر ۔ اس بات کو کہتے ہیں جو دل میں پوشیدہ ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه/ 7] وہ چھپے بھید اور نہایت پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے ۔ علن العَلَانِيَةُ : ضدّ السّرّ ، وأكثر ما يقال ذلک في المعاني دون الأعيان، يقال : عَلَنَ كذا، وأَعْلَنْتُهُ أنا . قال تعالی: أَعْلَنْتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْراراً [ نوح/ 9] ، أي : سرّا وعلانية . وقال : ما تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَما يُعْلِنُونَ [ القصص/ 69] . وعِلْوَانُ الکتابِ يصحّ أن يكون من : عَلَنَ اعتبارا بظهور المعنی الذي فيه لا بظهور ذاته . ( ع ل ن ) العلانیہ ظاہر اور آشکار ایہ سر کی ضد ہے اور عام طور پر اس کا استعمال معانی یعنی کیس بات ظاہر ہونے پر ہوتا ہے اور اجسام کے متعلق بہت کم آتا ہے علن کذا کے معنی میں فلاں بات ظاہر اور آشکار ہوگئی اور اعلنتہ انا میں نے اسے آشکار کردیا قرآن میں ہے : ۔ أَعْلَنْتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْراراً [ نوح/ 9] میں انہیں بر ملا اور پوشیدہ ہر طرح سمجھا تا رہا ۔ ما تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَما يُعْلِنُونَ [ القصص/ 69] جو کچھ ان کے سینوں میں مخفی ہے اور جو یہ ظاہر کرتے ہیں علوان الکتاب جس کے معنی کتاب کے عنوان اور سر نامہ کے ہیں ہوسکتا ہے کہ یہ علن سے مشتق ہو اور عنوان سے چونکہ کتاب کے مشمو لات ظاہر ہوتے ہیں اس لئے اسے علوان کہہ دیا گیا ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور یہ کفار مکہ تو غلاموں کی طرح ان جھوٹے معبودوں کے دست بستہ کھڑے ہوئے ہیں محمد ان لوگوں کی تکذیب آپ کے لیے دکھ کا سبب نہیں ہونا چاہیے۔ بیشک ہم سب جانتے ہیں جو یہ مکر و خیانت دل میں رکھتے ہیں اور جس عداوت و دشمنی کو یہ ظاہر کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٦ { فَلَا یَحْزُنْکَ قَوْلُہُمْ } ” تو (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) ان کی بات آپ کو رنجیدہ نہ کرے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی باتوں سے رنجیدہ اور دل گرفتہ نہ ہوں۔ { اِنَّا نَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَمَا یُعْلِنُوْنَ } ” ہم خوب جانتے ہیں جو کچھ یہ لوگ چھپا رہے ہیں اور جو کچھ ظاہر کر رہے ہیں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

63 The address is to the Holy Prophet. Here the allusion is to the campaign of vilification which the chiefs of the disbelievers of Makkah were carrying on against him. They knew in their hearts and acknowledged in their private assemblies that the charges they brought against him were absolutely baseless. In order to create suspicions against him in the minds of the people, they branded him a poet, sorcerer, magician, madman, etc. But their consciences recognized, and they also acknowledged before one another, that whatever they were uttering Was false, which they were forging only to frustrate his mission. That is why Allah says to His Prophet: "Do not grieve at their absurd and meaningless talk. Those who are opposing and resisting the Truth with falsehood shall ultimately meet with failure in this world and see their evil end in the Hereafter, too. "

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :63 خطاب ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ۔ اور کھلی اور چھپی باتوں کا اشارہ اس طرف ہے کہ کفار مکہ کے وہ بڑے بڑے سردار جو آپ کے خلاف جھوٹ کے طوفان اٹھا رہے تھے ، وہ اپنے دلوں میں جانتے ، اور اپنی نجی محفلوں میں مانتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جو الزامات وہ لگا رہے ہیں وہ سراسر بے اصل ہیں ۔ وہ لوگوں کو آپ کے خلاف بد گمان کرنے کے لیے آپ کو شاعر ، کاہن ، ساحر ، مجون اور نہ معلوم کیا کیا کہتے تھے ، مگر خود ان کے ضمیر اس بات کے قائل تھے ، اور آپس میں وہ ایک دوسرے کے سامنے اقرار کرتے تھے کہ سب جھوٹی باتیں ہیں جو محض آپ کی دعوت کو نیچا دکھانے کے لیے وہ گھڑ رہے ہیں ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے فرماتا ہے کہ ان لوگوں کی بیہودہ باتوں پر رنجیدہ نہ ہو ۔ سچائی کا مقابلہ جھوٹ سے کرنے والے آخر کار اس دنیا میں بھی ناکام ہوں گے اور آخرت میں بھی اپنا برا انجام دیکھ لیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(36:76) فلا یحزنک قولہم میں الفاء للسببیۃ۔ ای اذا کان ھذا حالہم مع ربہم عزوجل فلا تحزن بسبب قولہم علیک۔ جب کا اپنے رب عزوجل کے ساتھ یہ حال ہے تو اپنے متعلق ان کی باتوں سے رنجیدہ خاطر مت ہوں۔ لا یحزنک فعل نفی واحد مذکر غائب ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر۔ حزن مصدر (باب نصر) سے۔ تجھے غمگین نہ کرے۔ قولہم مضاف مضاف الیہ لا یحزن کا فاعل ۔ ان کا قول۔ ان کا کہنا۔ (کہ آپ شاعر ہیں) ۔ ما یسرون : ما موصولہ ہے یسرون مضارع جمع مذکر غائب اسرار (افعال) مصدر۔ جو کچھ وہ چھپاتے ہیں۔ ما یعلنون۔ ما موصولہ یعلنون مضارع جمع مذکر غائب اعلان (افعال) مصدر سے جو وہ ظاہر کرتے ہیں جو وہ علانیہ کرتے ہیں

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی ان کی کفر و شرک کی باتوں سے یا ان کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جادوگر، شاعر اور دیوانہ وغیرہ کہنے سے۔3 یعنی ان کے ظاہر اور پوشیدہ تمام اقوال و افعال سے خوب واقف ہیں اور انہیں ان کی پوری پوری سزا دے کر رہیں گے ہم سے بھاگ کر یہ کہیں پناہ نہیں لے سکتے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ عاص بن وائل ایک بوسیدہ ہڈی لیکر حضور نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں حاضر ہوا، اور اس کو چٹکی سے مل کر کہنے لگا کہ کیا یہ ایسی حالت کے بعد زندہ ہوگی ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں۔ اور تو دوزخ میں جاوے گا اس پر اولم یر الانسان سے آخر سورت تک آیتیں نازل ہوئیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : شرک کی حقیقت اور اس کا انجام بتلانے کے بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رؤف اور رحیم بنایا تھا۔ ( التوبۃ : ١٢٨) اللہ تعالیٰ نے آپ کو رحمۃ العٰلمین بنایا۔ (الانبیاء : ١٠٧) آپ نرم دل تھے۔ ( آل عمران : ١٥٩) اپنی طبیعت اور منصب نبوت کی اہمیت کے پیش نظر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح وشام لوگوں کو سمجھاتے، مگر مکہ کے لوگوں کی حالت یہ تھی کہ وہ سمجھنے کی بجائے آپ کی جان کے دشمن بن چکے تھے۔ انہوں نے بار ہا دفعہ آپ کو قتل کرنے کی کوشش کی۔ اس کے باوجود آپ کی کیفیت یہ تھی کہ آپ لوگوں کی اصلاح کی خاطر دن رات ایک کیے ہوئے تھے۔ رات کو تہجد میں رو رو کر دعائیں کرتے اور دن کو دعوت الی اللہ دیتے۔ آپ کی محنت کا عالم یہ تھا کہ ایک مرتبہ ایک صحابی (رض) نے حضرت عائشہ (رض) سے استفسار کیا کہ کیا اللہ کے رسول بیٹھ کر بھی نفل پڑھا کرتے تھے ؟ ام المؤمنین (رض) نے فرمایا ہاں اس وقت جب آپ کو لوگوں نے چور چور کردیا تھا۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَقِیقٍ (رض) قَالَ قُلْتُ لِعَاءِشَۃَ (رض) ہَلْ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُصَلِّی وَہُوَ قَاعِدٌ قَالَتْ نَعَمْ بَعْدَ مَا حَطَمَہُ النّاسُ )[ رواہ مسلم : کتاب صلاۃ المسافر ین، باب جواز النافلۃ قائما وقاعدا ] ” حضرت عبداللہ بن شقیق بیان کرتے ہیں میں نے حضرت عائشہ (رض) سے پو چھا کیا نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھ کر بھی نماز پڑھا کرتے تھے ؟ ام المومنین (رض) نے فرمایا ہاں لوگوں نے آپ کو چور چور کردیا تھا۔ “ (قَالَ ہَنْدُ بْنُ اَبِیْ ہَالَۃَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مُتَوَاصِلَ الْاَحْزَنِ دَاءِمَ الْفِکْرَۃِ لَیْثَتْ لَہٗ رَاحَۃٌ) [ الرحیم المختوم : باب کمال النفس ومکارم الاخلاق ] ” ہند بن ابی ہالہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلسل غم سے دوچار رہتے، ہمیشہ غوروفکر فرماتے رہتے تھے۔ آپ کے لیے راحت نہ تھی۔ “ (یعنی جب آپ خلوت میں ہوتے تو لوگوں کے غم میں مسلسل فکر مند رہتے۔ ) اس صورت حال میں اللہ تعالیٰ نے کئی بار نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک حد سے زیادہ غمگین نہیں ہونا چاہیے آپ کا کام لوگوں تک حق پہچانا ہے منوانا نہیں۔ جہاں تک ان لوگوں کی سازشوں اور شرارتوں کا معاملہ ہے آپ یقین کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کے اعلانیہ اور خفیہ کی ہوئی ہر حرکت کو جانتا ہے۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْمُؤْمِنُ الَّذِيْ یُخَالِطُ النَّاسَ وَیَصْبِرُ عَلٰی أَذَاھُمْ أَعْظَمُ أَجْرًا مِّنَ الْمُؤْمِنِ الَّذِیْ لَایُخَالِطُ النَّاسَ وَلَا یَصْبِرُ عَلٰی أَذَاھُمْ ) [ رواہ ابن ماجۃ : کتاب الفتن، باب الصبر علی البلاء ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو مومن لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے وہ اس مومن سے زیادہ اجر والا ہے جو نہ لوگوں میں گھل مل کر رہتا ہے اور نہ ان کی دی ہوئی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے کئی بار نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی عطا فرمائی۔ ٢۔ داعی الی اللہ کو ایک حد سے زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر حال میں لوگوں کے خفیہ اور اعلانیہ گفتگو اور معاملات سے واقف رہتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پریشانی کے وقت تسلی دینا : ١۔ کفار کی باتوں سے آپ پریشان نہ ہوں۔ (یٰسٓ: ٧٦) ٢۔ کیا آپ اپنے آپ کو ہلاک کرلیں گے۔ ( الشعراء : ٣) ٣۔ آپ اس لیے پریشان نہ ہوں کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔ ( الکہف : ٦) ٤۔ جو لوگ کفر میں جلدی کرتے ہیں وہ آپ کو پریشان نہ کردیں۔ (آل عمران : ١٧٦) ٥۔ آپ صبر کریں یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ (الروم : ٦٠) ٦۔ آپ صاحب عزم رسولوں کی طرح صبر کریں۔ (الاحقاف : ٣٥) ٧۔ آپ ان کے ایمان نہ لانے پر افسوس کرتے ہوئے اپنے آپ کو پریشانی میں مبتلا نہ کریں۔ (الاحقاف : ٦) ٨۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کو صبر کا حکم دیا گیا۔ (المعارج : ٥) ٩۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! صبر کرو متقین کا بہتر انجام ہے۔ (ہود : ٤٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فلا یحزنک ۔۔۔۔۔ وما یعلنون (36: 76) ” اچھا جو باتیں یہ بنا رہے ہیں وہ تمہیں رنجیدہ نہ کریں ۔ ان کی چھپی اور کھی سب باتوں کو ہم جانتے ہیں “۔ اس میں خطاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے ۔ آپ کے مخاطب وہی لوگ تھے جنہوں نے اللہ کے سوا دو سروں کو الہہ بنار کھا تھا ۔ اور یہ لوگ اللہ کا شکر ادا کرتے تھے ۔ لہٰذا یہ لوگ نصیحت بھی نہ لیتے تھے ۔ حضور سے کہا گیا کہ آپ ان کی فکر نہ کریں ۔ اللہ ان کے بارے میں خوب جانتا ہے ۔ وہ تحریک اسلامی کے خلاف اور بت پر ستی کے حق میں جو تدابیر اختیار کررہے ہیں ، وہ ہماری نظر وں میں ہیں ۔ لہٰذا اے رسول آپ پر ان باتوں کی ذمہ داری نہیں ہے ۔ ان کے معاملات قدرت المبیہ کے سامنے کھلے ہیں اور اللہ کی قدرت ان کا احاطہ کیے ہوئے ہے ۔ تحریک اسلامی کے کارکن جب یہ عقیدہ رکھیں تو ان کا معاملہ بہت ہی سہل ہوجاتا ہے ۔ وہ چونکہ صرف اللہ پر بھروسہ کرنے والے ہوتے ہیں اس لیے ان کے لیے کوئی خطرہ نہیں رہتا ۔ کیونکہ ان کو یقین ہوتا ہے کہ اللہ ظاہر و باطن سے واقف ہے ۔ یہ کہ وہ اللہ کے قبضے میں ہیں ، اللہ کی نظروں میں ہیں اگر چہ بظاہر یہ بات نظر نہ آتی ہو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(فَلاَ یَحْزُنْکَ قَوْلُہُمْ اِِنَّا نَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَمَا یُعْلِنُوْنَ ) (سو ان کی باتیں آپ کو رنجیدہ نہ کریں بلاشبہ ہم جانتے ہیں جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں) اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے کہ آپ منکرین کی باتوں سے رنجیدہ نہ ہوں، ان میں عناد ہے بات ماننے کو تیار نہیں، لہٰذا ان سے ایمان قبول کرنے کی امید رکھنا ہی غلط ہے آپ اپنے کام میں لگے رہیں اور ان کی باتوں سے آزردہ خاطر نہ ہوں ان کے دل کے حالات اور زبانی باتیں ہمیں سب معلوم ہیں ہم انہیں ان سب چیزوں کی سزا دے دیں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

46:۔ فلا یحزنک الخ :۔ یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی اور مشرکین کے لیے تخویف اخروی ہے مشرکین کی تکذیب اور طعن وتشنیع سے آپ آزردہ خاطر نہ ہوں ہم ان کی تمام شرارتوں اور خباثتوں کو اچھی طرح جانتے ہیں اور انہیں ان کی شرارتوں کی پوری پوری سزا دیں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(76) پس اے پیغمبر آپ کو ان کی باتیں اور ان کے ناشائستہ اقوال موجب دل آزادی نہ ہوں اور آپ کو غمگین نہ کریں کیونکہ یہ جو کچھ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں وہ ہم سب جانتے ہیں۔ یعنی آپ کے آزردہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہم ان کی کھلی اور چھپی دشمنی کو خوب جانتے ہیں اور ہم ان کو ان کے اعمال بد کی سزا دینے کو کافی ہیں اور ان کو ان کی حرکات کی سزا ملنے والی ہے لہٰذا آپ کو کسی غم اور فکر کی ضرورت نہیں۔