Surat Yaseen

Surah: 36

Verse: 78

سورة يس

وَ ضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّ نَسِیَ خَلۡقَہٗ ؕ قَالَ مَنۡ یُّحۡیِ الۡعِظَامَ وَ ہِیَ رَمِیۡمٌ ﴿۷۸﴾

And he presents for Us an example and forgets his [own] creation. He says, "Who will give life to bones while they are disintegrated?"

اور اس نے ہمارے لئے مثال بیان کی اور اپنی ( اصل ) پیدائش کو بھول گیا ، کہنے لگا ان گلی سڑی ہڈیوں کو کون زندہ کر سکتا ہے؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And he puts forth for Us a parable, and forgets his own creation. He says: "Who will give life to these bones after they are rotten and have become dust." meaning, he thinks it unlikely that Allah, the Almighty Who created the heavens and the earth, will recreate these bodies and dry bones. Man forgets about himself, that Allah created him from nothing and brought him into existence, and he knows by looking at himself that there is something greater than that which he denies and thinks impossible. Allah says: قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٧٠] یعنی وہ اپنے پروردگار کو عام مخلوق کی طرح عاجز سمجھتا ہے کہ جب انسان کسی مردے کو زندہ نہیں کرسکتا تو ہم بھی نہیں کرسکتے۔ وہ ایک بوسیدہ ہڈی کو دکھا کر اور اپنے ہاتھوں سے اسے مسل کر اور چورا چورا کرکے کہتا ہے کہ بتاؤ یہ زندہ ہوسکتی ہے ؟ اس وقت اسے یہ بات یاد نہیں رہتی کہ جس نطفہ سے وہ خود پیدا ہوا ہے وہ بھی بےجان غذاؤں سے بنا تھا۔ اگر وہ اس بات پر غور کرتا تو کبھی ایسا اعتراض نہ کرتا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاِذَا هُوَ خَصِيْمٌ مُّبِيْنٌ : ” خَصِيْمٌ“ مبالغے کا صیغہ ہے، بہت جھگڑنے والا۔ ”إِذَا “ فجائیہ اچانک کے معنی میں آتا ہے، یعنی ایسی عجیب چیز کا وجود میں آنا جس کا وہم و گمان نہ ہو، یعنی ایسے حقیر قطرے سے پیدا کیے جانے والے انسان کا حق تو یہ تھا کہ ہمیشہ اس کا سر ہمارے احسان کے بوجھ سے جھکا رہتا۔ یہ تو امید ہی نہ تھی کہ وہ صاف جھگڑے پر اتر آئے گا اور اتنا زیادہ جھگڑے گا۔ دیکھیے سورة نحل (٤) ۔ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِيَ خَلْقَهٗ : یعنی ہمیں مخلوق کی طرح عاجز سمجھتا ہے کہ جس طرح انسان مردہ کو زندہ نہیں کرسکتا ہم بھی نہیں کرسکتے اور یہ بھول جاتا ہے کہ خود اسے ہم نے کس چیز سے پیدا کیا۔ کہتا ہے، آخر جب بدن گل سڑ کر ہڈیاں رہ گیا اور وہ بھی پرانی اور بوسیدہ و کھوکھلی تو انھیں دوبارہ کون زندہ کرے گا ؟ اگر یہ اپنی پیدائش کو یاد رکھتا تو یہ سوال ہرگز نہ کرتا، کیونکہ جو انسان کو ایک حقیر مردہ قطرے سے پیدا کرسکتا ہے، جب اس کا نام و نشان نہیں تھا، اس کے لیے اسے اس کی بوسیدہ ہڈیوں کو دوبارہ زندہ کرنا کیا مشکل ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے انسان کو نطفے سے پیدا کرنے کی بات کئی مقامات پر یاد دلائی ہے، سورة دہر میں فرمایا : (اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ ) [ الدھر : ٢ ] ” بلاشبہ ہم نے انسان کو ایک ملے جلے قطرے سے پیدا کیا۔ “ اور سورة مرسلات میں فرمایا : (اَلَمْ نَخْلُقْكُّمْ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّهِيْنٍ ) [ المرسلات : ٢٠ ] ” کیا ہم نے تمہیں ایک حقیر پانی سے پیدا نہیں کیا ؟ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 78, it was said: ضَرَ‌بَ لَنَا مَثَلًا (And he has set up an argument about Us). Here, the expression refers to the event described above, that is, while smashing and rubbing the bone into bone meal, its revival was considered improbable. After that, it was said: وَنَسِيَ خَلْقَهُ (and forgot his own creation). It means while he was giving that example, he forgot the example of his own creation as to how he himself was created by infusing life in a lowly, impure and lifeless drop - a bland anatomy of his creation indeed. Had he not forgotten his real genetic origin, he would have never come up with such examples and would have never dared saying no to Divine power.

(آیت) ضرب لنا مثلاً یہاں ضرب مثل سے مراد اس کا یہ واقعہ ہے کہ بوسیدہ ہڈی کو ہاتھ سے ریزہ ریزہ کرتے ہوئے اس کے دوبارہ زندہ ہونے کو محال یا مستبعد سمجھا۔ اس کے بعد فرمایا : (آیت) ونسی خلقہ، یعنی اس مثال کے بیان کرنے کے وقت وہ خود اپنی پیدائش کو بھول گیا کہ ایک حقیر اور ناپاک قطرہ بےجان میں جان ڈال کر اس کو پیدا کیا ہے۔ اگر وہ اپنی اس اصل کو نہ بھولتا تو ایسی مثالیں پیش کر کے قدرت آلٰہیہ کے انکار کی جرأت نہ کرتا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِيَ خَلْقَہٗ۝ ٠ ۭ قَالَ مَنْ يُّـحْيِ الْعِظَامَ وَہِىَ رَمِيْمٌ۝ ٧٨ ضَرْبُ المَثلِ هو من ضَرْبِ الدّراهمِ ، وهو ذکر شيء أثره يظهر في غيره . قال تعالی: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر/ 29] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف/ 32] ، ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم/ 28] ، وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم/ 58] ، ضرب اللبن الدراھم سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں کسی بات کو اس طرح بیان کرنے کہ اس سے دوسری بات کی وضاحت ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر/ 29] خدا ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف/ 32] اور ان سے قصہ بیان کرو ۔ ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم/ 28] وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم/ 58] اور ہم نے ہر طرح مثال بیان کردی ہے ۔ نسی النِّسْيَانُ : تَرْكُ الإنسانِ ضبطَ ما استودِعَ ، إمَّا لضَعْفِ قلبِهِ ، وإمَّا عن غفْلةٍ ، وإمَّا عن قصْدٍ حتی يَنْحَذِفَ عن القلبِ ذِكْرُهُ ، يقال : نَسِيتُهُ نِسْيَاناً. قال تعالی: وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه/ 115] ، فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ [ السجدة/ 14] ، فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ [ الكهف/ 63] ، لا تُؤاخِذْنِي بِما نَسِيتُ [ الكهف/ 73] ، فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة/ 14] ، ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ ما کانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [ الزمر/ 8] ، سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى[ الأعلی/ 6] إِخبارٌ وضَمَانٌ من اللهِ تعالیٰ أنه يجعله بحیث لا يَنْسَى ما يسمعه من الحقّ ، وكلّ نسْيانٍ من الإنسان ذَمَّه اللهُ تعالیٰ به فهو ما کان أصلُه عن تعمُّدٍ. وما عُذِرَ فيه نحو ما رُوِيَ عن النبيِّ صلَّى اللَّه عليه وسلم : «رُفِعَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأُ وَالنِّسْيَانُ» فهو ما لم يكنْ سَبَبُهُ منه . وقوله تعالی: فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ لِقاءَ يَوْمِكُمْ هذا إِنَّا نَسِيناكُمْ [ السجدة/ 14] هو ما کان سببُهُ عن تَعَمُّدٍ منهم، وترْكُهُ علی طریقِ الإِهَانةِ ، وإذا نُسِبَ ذلك إلى اللہ فهو تَرْكُهُ إيّاهم استِهَانَةً بهم، ومُجازاة لِما ترکوه . قال تعالی: فَالْيَوْمَ نَنْساهُمْ كَما نَسُوا لِقاءَ يَوْمِهِمْ هذا[ الأعراف/ 51] ، نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ [ التوبة/ 67] وقوله : وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ [ الحشر/ 19] فتنبيه أن الإنسان بمعرفته بنفسه يعرف اللَّهَ ، فنسیانُهُ لله هو من نسیانه نَفْسَهُ. وقوله تعالی: وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذا نَسِيتَ [ الكهف/ 24] . قال ابن عباس : إذا قلتَ شيئا ولم تقل إن شاء اللَّه فَقُلْهُ إذا تذكَّرْتَه «2» ، وبهذا أجاز الاستثناءَ بعد مُدَّة، قال عکرمة «3» : معنی «نَسِيتَ» : ارْتَكَبْتَ ذَنْباً ، ومعناه، اذْكُرِ اللهَ إذا أردتَ وقصدتَ ارتکابَ ذَنْبٍ يكنْ ذلک دافعاً لك، فالنِّسْيُ أصله ما يُنْسَى کالنِّقْضِ لما يُنْقَض، ( ن س ی ) النسیان یہ سنیتہ نسیانا کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کو ضبط میں نہ رکھنے کے ہیں خواہ یہ ترک ضبط ضعف قلب کی وجہ سے ہو یا ازارہ غفلت ہو یا قصدا کسی چیز کی یاد بھلا دی جائے حتیٰ کہ وہ دل سے محو ہوجائے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه/ 115] ہم نے پہلے آدم (علیہ السلام) سے عہد لیا تھا مگر وہ اسے بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا ۔ فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ [ السجدة/ 14] سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا ۔ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ [ الكهف/ 63] تو میں مچھلی وہیں بھول گیا ۔ اور مجھے آپ سے اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ لا تُؤاخِذْنِي بِما نَسِيتُ [ الكهف/ 73] کہ جو بھول مجھ سے ہوئی اس پر مواخذاہ نہ کیجئے فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة/ 14] مگر انہوں نے بھی اس نصیحت کا جوان کو کی گئی تھی ایک حصہ فراموش کردیا ۔ ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ ما کانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [ الزمر/ 8] پھر جب وہ اس کو اپنی طرف سے کوئی نعمت دے دیتا ہے تو جس کام کے لئے پہلے اس کو پکارتا ہے اسے بھول جاتا ہے اور آیت سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى[ الأعلی/ 6] ہم تمہیں پڑھائیں گے کہ تم فراموش نہ کرو گے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے ایسا بنادے گا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سنو گے اسے بھولنے نہیں پاؤ گے پھر ہر وہ نسیان جو انسان کے قصد اور ارداہ سے ہو وہ مذموم ہے اور جو بغیر قصد اور ارادہ کے ہو اس میں انسان معزور ہے اور حدیث میں جو مروی ہے رفع عن امتی الخطاء والنیان کہ میری امت کو خطا اور نسیان معاف ہے تو اس سے یہی دوسری قسم کا نسیان مراد ہے یعنیوی جس میں انسان کے ارادہ کو دخل نہ ہو اور آیت کریمہ : ۔ فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ لِقاءَ يَوْمِكُمْ هذا إِنَّا نَسِيناكُمْ [ السجدة/ 14] سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا ۔ میں نسیان بمعنی اول ہے یعنی وہ جس میں انسان کے قصد اور ارادہ کو دخل ہو اور کسی چیز کو حقیر سمجھ کرا سے چھوڑ دیا جائے ۔ پھر جب نسیان کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس سے ازراہ اہانث انسان کو چھوڑ ینے اور احکام الہیٰ کے ترک کرنے کی وجہ سے اسے سزا دینے کے معنی مراد ہوتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَالْيَوْمَ نَنْساهُمْ كَما نَسُوا لِقاءَ يَوْمِهِمْ هذا[ الأعراف/ 51] تو جس طرح یہ لوگ اس دن کے آنے کو بھولے ہوئے تھے اس طرح آج ہم بھی انہیں بھلا دیں گے ۔ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ [ التوبة/ 67] انہوں نے خدا کو بھلا یا تو خدا نے بھی ان کو بھلا دیا ۔ وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ [ الحشر/ 19] اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے خدا کو بھلا دیا تو خدا نے انہیں ایسا کردیا کہ خود اپنے تئیں بھول گئے ۔ میں متنبہ کیا ہے کہ انسان اپنے نفس کی معرفت حاصل کرنے سے ہی معرفت الہیٰ حاصل کرسکتا ہے لہذا انسان کا اللہ تعالیٰ کو بھلا دینا خود اپنے آپکو بھال دینے کے مترادف ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذا نَسِيتَ [ الكهف/ 24] اور جب خدا کا نام لینا بھال جاؤ تو یاد آنے پر لے لو ۔ کے ابن عباس نے یہ معنی کئے ہیں کہ جب تم کوئی بات کہو اور اس کے ساتھ انشاء اللہ کہنا بھول جاؤ تو یاد آنے پر انشاء اللہ کہہ لیا کرو ۔ اسی لئے ابن عباس کے نزدیک حلف میں کچھ مدت کے بعد بھی انشاء اللہ کہنا جائز ہے اور عکرمہ نے کہا ہے کہ نسیت بمعنی ارتکبت ذنبا کے ہے ۔ اور آیت کے معنی یہ ہیں ۔ کہ جب تمہیں کسی گناہ کے ارتکاب کا خیال آئے تو اس وسوسہ کو دفع کرنے کے لئے خدا کے ذکر میں مشغول ہوجایا کرو تاکہ وہ وسوسہ دفع ہوجائے ۔ النسی کے اصل معنی ماینسیٰ یعنی فراموش شدہ چیز کے ہیں جیسے نقض بمعنی ماینقض آتا ہے ۔ مگر عرف میں نسی اس معمولی چیز کو کہتے ہیں جو در خود اعتناء نہ سمجھی جائے حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ عظم العَظْمُ جمعه : عِظَام . قال تعالی: عِظاماً فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً [ المؤمنون/ 14] ، وقرئ : عظاما «1» فيهما، ومنه قيل : عَظْمَة الذّراع لمستغلظها، ( ع ظ م ) العظم کے معنی ہڈی کے ہیں اس کی جمع عظا م آتی ہے ۔ قرآن پا ک میں ہے : ۔ عِظاماً فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً [ المؤمنون/ 14] ہڈیاں ( بنائیں ) پھر ہڈیوں پر گوشت ( پوست ) چڑھا یا ۔ ایک قرات میں دونوں جگہ عظم ہے اور اسی سے عظمۃ الذراع ہے جس کے معنی بازو کا موٹا حصہ کے ہیں عظم الرجل بغیر تنگ کے پالان کی لکڑی عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے ہو یا عقل سے ۔ رَمِيمٌ الرَّمُّ : إصلاح الشیء البالي، والرِّمَّةُ : تختصّ بالعظم البالي، قال تعالی: مَنْ يُحْيِ الْعِظامَ وَهِيَ رَمِيمٌ [يس/ 78] ، وقال : ما تَذَرُ مِنْ شَيْءٍ أَتَتْ عَلَيْهِ إِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِيمِ [ الذاریات/ 42] ، والرُّمَّةُ تختصّ بالحبل البالي، والرِّمُّ : الفُتات من الخشب والتّبن . ورَمَّمْتُ المنزل : رعیت رَمَّهُ ، کقولک : تفقّدت، وقولهم : ادفعه إليه بِرُمَّتِهِ «4» معروف، والْإِرْمَامُ : السّكوت، وأَرَمَّتْ عظامه : إذا سحقت حتی إذا نفخ فيها لم يسمع لها دويّ ، وتَرَمْرَمَ القوم : إذا حرّكوا أفواههم بالکلام ولم يصرّحوا، والرُّمَّانُ : فُعْلانُ ، وهو معروف . ( ر م م ) الرم ( ن ) کے معنی پوشیدہ چیز کی اصلاح اور مرمت کرنے کے ہیں اور رمۃ خاص کر بوسیدہ ہڈی کو کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ مَنْ يُحْيِ الْعِظامَ وَهِيَ رَمِيمٌ [يس/ 78] ہڈیاں جب بوسیدہ ہوجائیں گی تو انہیں کون زندہ کرسکتا ہے ۔ ما تَذَرُ مِنْ شَيْءٍ أَتَتْ عَلَيْهِ إِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِيمِ [ الذاریات/ 42] جس چیز پر سے ہو کر وہ گزرتی ہے اسے پرانی ہڈی کی طرح ( چورہ ) کئے بغیر نہ چھوڑتی ۔ الرمۃ خاص طور پر بوسیدہ رسی کو کہا جاتا ہے اور الرم لکڑی بھوسہ وغیرہ کے چورہ کو کہتے ہیں رممت المنزل عمارت کی مرمت کرنا جیسے تفقدت ( کسی چیز کی دیکھ بھال کرنا ) مشہور محاورہ ہے ( مثل ) ادفعہ الیہ برمتہ اسے کلیۃ اس کے سپرد کر دیجئے الارمام اس کے معنی خاموش ہونے کے ہیں اور ارمت عظامہ کے معنی ہیں ہڈیوں کا اس قدر بوسیدہ ہو کر باریک ہوجانا کہ پھوکنے سے اڑ جائیں اور آواز نہ آئے ترمرم القوم کے معنی مہمل بڑ بڑانے یا گفتگو کے لئے ہونٹ ہلا کر رہ جانے کے ہیں الرمان ( فعلان ) انار کو کہتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

کسی چیز کو پہلی بار پیدا کرنا مشکل، دوبارہ آسان ہوتا ہے قول باری ہے (قال من یحی العظام وھی رمیم کہنے لگا ہڈیاں جب بوسیدہ ہوجائیں تو انہیں کون زندہ کرے گا ؟ ) پھر ارشاد ہوا (قل یحیھا الذی انشاھا اول مرہ۔ آپ کہہ دیجئے انہیں وہی زندہ کرے گا جس نے انہیں اول بار پیدا کیا تھا) اس میں اس بات کی واضح ترین دلیل موجود ہے کہ جو ذات ابتداء کرنے پر قادر ہے وہ اعادے پر زیادہ قادر ہوتی ہے۔ کیونکہ ظاہری طور پر کسی چیز کا اعادہ کرنا اس کی ابتدا کرنے سے زیادہ سہل ہوتا ہے۔ اس لئے جو ذات شروع میں کسی چیز کو پیدا کرنے کی قدرت رکھتی ہے وہ اس صورت میں اس چیز کو دوبارہ پیدا کرنے پر زیادہ قادر ہوتی ہے جس میں اس چیز کی بقا ممکن ہوتی ہے محال نہیں ہوتی۔ اس میں یہ دلالت بھی موجود ہے کہ قیاس اور اعتبار کو تسلیم کرنا واجب ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے منکرین پر نشاۃ ثانیہ کو نشاۃ اولیٰ پر قیاس کرنا لازم کردیا ہے۔ بعض حضرات نے قول باری (قال من حیی العظام وھی رمیم) سے یہ استدلال کیا ہے کہ ہڈیوں میں زندگی ہوتی ہے۔ انہوں نے اصل جسم کی موت کی بنا پر ہڈیوں پر موت کا حکم لگایا ہے اور انہیں مروہ قرار دیا ہے، لیکن یہ کوئی پائدار بات نہیں ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجازاً ہڈی کو زندہ کا نام دیا ہے۔ اس لئے کہ ہڈی بھی ایک عضو ہے جسے زندہ کیا جائے گا۔ جس طرح یہ قول باری ہے ( یحی الارض بعد موتھا۔ اللہ تعالیٰ زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کرتا ہے) حالانکہ یہ بات واضح ہے کہ زمین میں کوئی زندگی نہیں ہوتی۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اس نے ہماری شان میں ایک عجیب مضمون بیان کیا کہ ہڈیاں دکھا کر ہماری قدرت کا انکار کرتا ہے اور اپنی اصلی پیدائش کو بھول گیا اور کہتا ہے کہ ان ہڈیوں کو جبکہ وہ بوسیدہ ہوگئی ہوں کون زندہ کرے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٨ { وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِیَ خَلْقَہٗ } ” اور یہ ہمارے بارے میں تو مثالیں بیان کرتا ہے اور اپنی پیدائش کو بھول گیا ہے ! “ { قَالَ مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَہِیَ رَمِیْمٌ } ” کہتا ہے کہ کون زندہ کرے گا ہڈیوں کو جبکہ وہ بالکل بوسیدہ ہوچکی ہوں گی ؟ “ وہ اعتراضات کرتا ہے کہ جب ہماری ہڈیاں گل سڑ جائیں گی اور ہمارے جسموں کے اعضاء منتشر ہوجائیں گے تو کون ہمیں دوبارہ پیدا کرے گا ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

66 That is, "He regards Us powerless and weak like the creation, and flunks that just as man cannot raise the dead back to life, so also can't We." 67 "Forgets his own creation": "Forgets that We created the basic germ of life from dead matter, which became the means of his creation; then We caused the germ to develop to such an extent that now he stands before Us as a disputant."

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :66 یعنی ہمیں مخلوقات کی طرح عاجز سمجھتا ہے اور یہ خیال کرتا ہے کہ جس طرح انسان کسی مردے کو زندہ نہیں کر سکتا ، اسی طرح ہم بھی نہیں کر سکتے ۔ سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :67 یعنی یہ بات بھول جاتا ہے کہ ہم نے بے جان مادہ سے وہ ابتدائی جرثومہ حیات پیدا کیا جو اس کا ذریعہ تخلیق بنا اور پھر اس جرثومے کو پرورش کر کے اسے یہاں تک بڑھا لائے کہ آج وہ ہمارے سامنے باتیں چھانٹنے کے قابل ہوا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(36:78) وضرب لنا مثلا۔ ضرب مثلا۔ مثال بیان کرنا۔ لنا ہمارے لئے۔ ہمارے بارے میں ۔ وہ ہمارے بارے میں ایک مثال بیان کرتا ہے (وہ مثال آگے آتی ہے : قال من یحی العظام وھی رمیم) ۔ نسی۔ ماضی واحد مذکر غائب، نسیان مصدر سمع سے۔ وہ بھول گیا۔ اس نے بھلا دیا ہے۔ خلقہ۔ مضاف مضاف الیہ مل کر نسی کا مفعول ہے۔ اپنی خلقت، اپنی پیدائش ۔ رمیم۔ صفت مشبہ کا صیغہ ہے واحد مذکر رم یرم (ضرب) رمۃ ورمیم سے۔ ہڈی کا بوسیدہ ہونا۔ اس کی جمع ارماء اور رمام ہے رمیم بمعنی استخوان بوسیدہ ۔ گلی ہوئی ہڈی۔ مؤنث کے لئے بھی رمیم ہی استعمال ہوتا ہے۔ آیت سابقہ اور آیت ہذا کا مطلب یہ ہے کہ :۔ کیا انسان اس حقیقت کو نہیں جانتا کہ ہم نے اس کو ایک نطفہ سے پیدا کیا ہے (اور اس کی یہ جرات) کہ یک دم کھلم کھلا اور بےباک جھگڑا لو بن گیا ہے اور طرح طرح کے اعتراضات گھڑ رہا ہے) وہ ہمارے بارے میں ایک مثال بیان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرسکتا ہے حال یہ ہے کہ وہ اپنی خلقت کو بھول بیٹھا ہے (کہ ہم اسے عدم سے ایک حقیر قطرہ منی سے کیسے وجود میں لائے) اگر وہ یہ نہ بھولتا تو ایسی حماقت و گستاخی نہ کرتا کیونکہ جو ذات ابدا پر قادر ہے وہ اعادہ پر اور زیادہ قادر ہے۔ الانسان سے بعض نے ایک مخصوص آدمی لیا ہے بعض کے نزدیک یہ شخص عاص بن وائل ہے بعض کے نزدیک ابی بن خلف جمحی مراد ہے۔ لیکن صاحب کشاف نے لکھا ہے کہ کفار قریش کی ایک جماعت جس میں ابی بن خلف الجمحی، ابو جہل، عاص بن وائل، ولید بن مغیرہ شامل تھے باتیں کر رہے تھے کہ ابی بن خلف نے کہا کہ کیا تمہیں علم ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو دوبارہ زندہ کرکے اٹھائے گا۔ لات وغری کی قسم میں ان سے بات کرتا ہوں چناچہ وہ ایک بوسیدہ ہڈی لے کر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا اللہ اس ہڈی کو جب کہ یہ بوسیدہ ہوچکی ہے دوبارہ زندہ کر دے گا ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں اور وہ تم کو بھی دوبارہ زندہ کرے گا اور دوزخ میں ڈالے گا۔ بہرکیف اس کا اطلاق ہر اس انسان پر ہے جو بعث بعد الموت پر شک کرتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 شاہ عبد القادر (رح) نے یوں ترجمہ کیا ہے ” اور بٹھاتا ہے ہم پر کہاوت “ یعنی ہمیں بھی مخلوقات کی طرح عاجز اور درماندہ سمجھتا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وضرب ۔۔۔۔۔ خلق علیم (36: 78-79) ” وہ ہم پر مثالیں چسپاں کرتا ہے اور اپنی پیدائش کو بھول جاتا ہے ۔ کہتا ہے ” کون ان ہڈیوں کو زندہ کرے گا جبکہ یہ بوسیدہ ہوچکی ہوں “۔ اس سے کہو ، انہیں وہی زندہ کرے گا جس نے پہلے انہیں پیدا کیا تھا اور وہ تخلیق کا ہر کام جانتا ہے “ کس قدر سادہ منطق ہے یہ ؟ نہایت فطری استدلال ۔ ایسا استدلال جو مشاہدہ کے مطابق نظر آتا ہے ۔ یہ نطفہ جو کچھ کہ وہ ہے کیا وہ بوسیدہ ہڈیوں سے زیادہ قدر و قیمت رکھتا ہے ۔ کیا انسان اسی نطفے سے نہیں بنا اور کیا انسان کی پیدائش ثالی کا عمل پیدائش ادل کا عمل نہیں ہے اور جس ذات نے اسے حقیر نطفے کو ایک انسان بنایا اور اسے وہ شخصیت دی کہ وہ صریح جھگڑالو بن گیا تم وہ ذات ان بوسیدہ ہڈیوں سے انسان کو تیار نہیں کرسکتی اور انہی ہڈیوں اور اجزاء سے ایک خلق جدید تیار نہیں کرسکتی ؟ یہ معاملہ تو بہت ہی آسان اور ظاہر ہے ۔ اور اس قدر ظاہر ہے کہ اس پر کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ چہ جائیکہ کوئی اس پر مباحثہ کرے ۔ قل یحییھا۔۔۔۔ خلق علیم (36: 79) ” اس سے کہو ، انہیں وہی زندہ کرے گا جس نے پہلے انہیں پیدا کیا تھا اور وہ تخلیق کا ہر کام جانتا ہے “۔ اس کے بعد اللہ کی قدرت خالقہ کی ماہیت کا ایک نمونہ انہیں بتایا جاتا کہ یہ بات ان کے ذہن میں بیٹھ جائے ۔ اللہ کی یہ صنعت کاری ان کے مشاہدہ اور ان کے روز مرہ کے معمولات میں سے ہے اور یہ اسے آزماتے رہتے ہیں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اسی کو فرمایا (وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا) اور اس نے ہمارے بارے میں ایک مثل بیان کردی اور ایسی بات کہہ دی جو فی نفسہ عجیب ہے۔ (وَّنَسِیَ خَلْقَہٗ ) اور وہ یہ بھول گیا کہ وہ کیسے پیدا کیا گیا ہے، (قَالَ مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَھِیَ رَمِیْمٌ) کہ ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا حالانکہ وہ بوسیدہ ہوچکی ہوں گی۔ یہ ہے وہ عجیب مضمون جسے اس نے اللہ کی شان میں بیان کیا، بجائے یہ سمجھنے کے کہ میں جس طرح پیدا ہوا ہوں اسی طرح میرا خالق دوبارہ پیدا فرما دے گا ایسی بات کہنے لگا جس سے انکار بعثت مقصود ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(78) اور اس منکر نے ہماری شان میں ایک عجیب مضمون اور ایک عجیب مثال بیان کی اور اپنی پیدائش اور اپنی اصل کو بھول گیا کہتا ہے کہ ان ہڈیوں کو جو بالکل بوسیدہ اور پرانی ہوچکی ہوں کون زندہ کرے گا۔ کہتے ہیں ابی بن خلف جو دین حق کے منکروں میں اشد اور سخت تھا ایک دن ایک پرانی ہڈی جو ریزہ ریزہ ہوجاتی تھی ہاتھ میں لے کر آیا اور مردوں کے دوبارہ زندہ ہونے پر اعتراض کرنے لگا کہ بھلا ان ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا اور اپنی اصل کو بھول گیا کہ خود ایک بےجان چیز سے یعنی نطفہ سے پیدا ہوا ہے اپنی اصل کو بھول گیا اور دوبارہ خلق ہونے پر ایک گلی ہوئی ہڈی کو ہاتھ میں مل کر اعتراض کرنے لگا آگے جواب فرمایا۔