Surat Yaseen

Surah: 36

Verse: 83

سورة يس

فَسُبۡحٰنَ الَّذِیۡ بِیَدِہٖ مَلَکُوۡتُ کُلِّ شَیۡءٍ وَّ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ ﴿۸۳﴾٪  4

So exalted is He in whose hand is the realm of all things, and to Him you will be returned.

پس پاک ہے وہ اللہ جس کے ہاتھ میں ہرچیز کی بادشاہت ہے اور جس کی طرف تم سب لوٹائے جاؤ گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

So glorified be He and exalted (above all that they associate with Him), and in Whose Hand is the dominion of all things, and to Him you shall be returned. means, glorified and exalted and sanctified above any evil be the Ever Living, the Self-Sufficient, in Whose hand is the control of the heavens and the earth, to Whom all matters return. His is the power to create and command, and to Him all mankind will return on the Day of Resurrection. Then He will reward or punish each one according to his deeds, and He is the Just, the Generous Bestower, the Graciously Disposed. The meaning of this Ayah, فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ (So glorified be He and exalted (above all that they associate with Him), and in Whose Hand is the sovereignty (Malakut) of all things) is like the Ayat: قُلْ مَن بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَىْءٍ Say: "In Whose Hand is the sovereignty (Malakut) of everything." (23:88) تَبَارَكَ الَّذِى بِيَدِهِ الْمُلْكُ Blessed be He in Whose Hand is the dominion (Al-Mulk). (67:1) Al-Mulk and Al-Malakut mean the same thing, although some people claim that Al-Mulk has to do with the physical realm and Al-Malakut has to do with the spiritual realm. But the former view is the one which is correct, and this is the opinion of the majority of the scholars of Tafsir and others. Imam Ahmad recorded that Hudhayfah bin Al-Yaman, may Allah be pleased with him, said, "I stood in prayer with the Messenger of Allah one night and he recited the seven long Surahs in seven Rak`ahs. When he raised his head from bowing, he said, سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَه Allah hears the one who praises Him. Then he said; الْحَمْدُ للهِِذي الْمَلَكُوتِ وَالْجَبَرُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَة Praise be to Allah, the Owner of Malakut, might, pride and greatness. His bowing was as long as his standing position, and his prostration was as long as his bowing. Then he finished and my legs were nearly broken." Abu Dawud recorded that `Awf bin Malik Al-Ashja`i, may Allah be pleased with him, said, "I stood in prayer with the Messenger of Allah one night and he recited Al-Baqarah. - He did not reach any Ayah that mentioned mercy but he paused and asked for it, and - he did not reach any Ayah that mentioned punishment but he paused and sought refuge from it. Then he bowed for as long as he had stood, and while bowing he said, سُبْحَانَ ذِي الْجَبَرُوتِ وَالْمَلَكُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَة Glory be to Allah, the Owner of might, Malakut, pride and greatness. Then he prostrated for as long as he had bowed, and said something similar while prostrating. Then he stood and recited Al `Imran, then he recited one Surah after another." This was recorded by At-Tirmidhi in Ash-Shama'il and An-Nasa'i. This is the end of the Tafsir of Surah Ya Sin. All praise and thanks are due to Allah.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

(1) یعنی یہ نہیں ہوگا کہ مٹی میں رل مل کر مبالغے کا صیغہ قرار دیتے ہیں۔ (فتح القدیر) یعنی ملکوت ملک کا مبالغہ ہے۔ 83۔ 1 یعنی یہ نہیں ہوگا کہ مٹی میں رل مل کر تمہارا وجود ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے نہیں بلکہ اسے دوبارہ وجود عطا کیا جائے گا۔ یہ بھی نہیں ہوگا کہ تم بھاگ کر کسی اور کے پاس پناہ طلب کرلو۔ تمہیں ہر حال اللہ ہی کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہوگا، جہاں وہ عملوں کے مطابق اچھی یا بری جزا دے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٧٥] ہر چیز پر حکومت و تسلط، ہر چیز پر تصرف و اختیار تو اللہ کے ہاتھ میں ہے مگر یہ مشرکین اللہ کے اختیارات دوسروں میں بانٹ کر اللہ پر جو کئی طرح کے عیوب، کمی، نقص وغیرہ کا الزام لگاتے ہیں اللہ تعالیٰ کی ذات مشرکوں کی ایسی تمام بےہودگیوں سے پاک ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَسُبْحٰنَ الَّذِيْ بِيَدِهٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَيْءٍ : ” مَلَكُوْتُ “ ” مُلْکٌ“ (مصدر) میں مبالغہ ہے، اس لیے اس کا ترجمہ ” کامل بادشاہی “ کیا گیا ہے۔ وَّاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ : یعنی یہ نہیں کہ مٹی میں رل مل کر تمہارا وجود ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے۔ نہیں، بلکہ اسے دوبارہ وجود عطا کیا جائے گا۔ یہ بھی نہیں ہوگا کہ تم بھاگ کر کسی اور کے پاس پناہ طلب کرلو، بلکہ تمہیں ہر حال میں اس کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہوگا، جہاں وہ تمہارے اعمال کے مطابق اچھی یا بری جزا دے گا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَسُبْحٰنَ الَّذِيْ بِيَدِہٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَيْءٍ وَّاِلَيْہِ تُرْجَعُوْنَ۝ ٨٣ۧ سبحان و ( سُبْحَانَ ) أصله مصدر نحو : غفران، قال فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم/ 17] ، وسُبْحانَكَ لا عِلْمَ لَنا [ البقرة/ 32] ، وقول الشاعرسبحان من علقمة الفاخر «1» قيل : تقدیره سبحان علقمة علی طریق التّهكّم، فزاد فيه ( من) ردّا إلى أصله «2» ، وقیل : أراد سبحان اللہ من أجل علقمة، فحذف المضاف إليه . والسُّبُّوحُ القدّوس من أسماء اللہ تعالیٰ «3» ، ولیس في کلامهم فعّول سواهما «4» ، وقد يفتحان، نحو : كلّوب وسمّور، والسُّبْحَةُ : التّسبیح، وقد يقال للخرزات التي بها يسبّح : سبحة . ( س ب ح ) السبح ۔ سبحان یہ اصل میں غفران کی طرح مصدر ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم/ 17] سو جس وقت تم لوگوں کو شام ہو اللہ کی تسبیح بیان کرو ۔ تو پاک ذات ) ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( سریع) (218) سبحان من علقمۃ الفاخر سبحان اللہ علقمہ بھی فخر کرتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سبحان علقمۃ ہے اس میں معنی اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمۃ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ، ، سبحان اللہ من اجل علقمۃ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا ۔ السبوح القدوس یہ اسماء حسنیٰ سے ہے اور عربی زبان میں فعول کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کلوب وسمود السبحۃ بمعنی تسبیح ہے اور ان منکوں کو بھی سبحۃ کہاجاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔ ملك) بادشاه) المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور وَالمِلْكُ ضربان : مِلْك هو التملک والتّولّي، ومِلْك هو القوّة علی ذلك، تولّى أو لم يتولّ. فمن الأوّل قوله : إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل/ 34] ، ومن الثاني قوله : إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة/ 20] ( م ل ک ) الملک ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے . اور ملک کا لفظ دو طرح پر ہوتا ہے عملا کسی کا متولی اور حکمران ہونے کو کہتے ہیں ۔ دوم حکمرانی کی قوت اور قابلیت کے پائے جانے کو کہتے ہیں ۔ خواہ نافعل اس کا متولی ہو یا نہ ہو ۔ چناچہ پہلے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل/ 34] بادشاہ جب کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں ۔ تو اس کو تباہ کردیتے ہیں ۔ اور دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة/ 20] کہ اس نے تم میں پیغمبر کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا ۔ شيء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . ( ش ی ء ) الشئی بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اس کی ذات پاک ہے جس کے ہاتھ میں ہر ایک چیز کے پیدا کرنے اور دینے کا اختیار ہے اور تم سب کو مرنے کے بعد اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے وہ تمہیں تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے دے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٣ { فَسُبْحٰنَ الَّذِیْ بِیَدِہٖ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیْئٍ وَّاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ } ” تو بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس کے قبضہ قدرت میں ہر شے کا اختیار ہے اور اسی کی طرف تم سب لوٹا دیے جائو گے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(36:83) فسبحان الذی۔ سبحان مصدر ہے یہ فعل محذوف کا مفعول مطلق ہے الفاء للسببیۃ۔ یعنی جب تم کو معلوم ہوگیا کہ وہ ایک حقیر بوند سے انسان کو پیدا کرسکتا ہے اور بوسیدہ ہڈیوں کو دوبارہ زندگی عطا کرنے کی قدرت رکھتا ہے اور جب وہ کسی چیز کو کرنا چاہتا ہے تو حکم کرتا ہے ہوجا۔ تو وہ فی الفور ہوجاتی ہے ۔ تو اب اس خدا کی پاکی بیان کرو جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا پورا اختیار ہے۔ بیدہ۔ باء حرف جر ید مجرور۔ مضاف ہ ضمیر واحد مذکر غائب مضاف الیہ۔ ہ کا مرجع اسم موصول الذی ہے۔ فسبحن الذی بیدہ پس پاک ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں ہے (ملکوت کل شیئ) ۔ ملکوت۔ اصل میں ملک۔ ملک یملک (ضرب) سے مصدر ہے وائو اور تاء کو مبالغہ کے لئے بڑھا دیا گیا ہے۔ اقتدار کامل۔ مکمل غلبہ۔ حکومت حقیقیہ۔ یہ لفظ بقول امام راغب (رح) اللہ تعالیٰ کی ملک (ملکیت) کے ساتھ مخصوص ہے۔ ترجعون۔ مضارع مجہول جمع مذکر حاضر، رجع (باب ضرب) سے مصدر۔ تم لوٹائے جائوگے۔ تم پھیرے جائو گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 نہ کہ کسی اور کی طرف لہٰذا وہ تمہیں سزا دے گا اور وہی جزا

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ ہر قسم کی کمزوری سے پاک ہے اور مشرک کے عقیدہ اور قیامت کے منکر کی سوچ سے اعلیٰ اور مبرّا ہے۔ مشرک کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اتنے وسیع و عریض نظام کو اکیلا نہیں چلا سکتا اس لیے اسے معاونین کی ضرورت ہے قیامت کا منکر اس لیے جی اٹھنے سے انکار کرتا ہے کہ ایسا ہونا اس کے نزدیک بڑا محال ہے۔ ایسے لوگوں کے نظریات کی تردید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ اپنی قوت وسطوت، اقتدار اور اختیار کا ذکر پورے جلال کے ساتھ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جس ذات کے بارے میں ضعیف اور کمزور تصورات رکھتے ہو اس کے اقتدار واختیار کا عالم یہ ہے کہ ہر چیز کی بادشاہی اس کے پاس ہے وہی سب کا مالک اور خالق ہے۔ وہ اس قدر قادر ہے کہ تم چاہو یا نہ چاہو بالآخر تم سب نے اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اس کا فرمان ہے : (قُلْ کُوْنُوْا حِجَارَۃً اَوْ حَدِیْدًا۔ اَوْ خَلْقًا مِّمَّا یَکْبُرُ فِیْ صُدُوْرِکُمْ فَسَیَقُوْلُوْنَ مَنْ یُّعِیْدُنَا قُلِ الَّذِیْ فَطَرَکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ فَسَیُنْغِضُوْنَ اِلَیْکَ رُءُ وْسَھُمْ وَ یَقُوْلُوْنَ مَتٰی ھُوَ قُلْ عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنَ قَرِیْبًا) [ بنی اسرائیل : ٥٠ تا ٥١] ” فرما دیں کہ تم پتھر بن جاؤ یا لوہا۔ یا کوئی ایسی مخلوق جو تمہارے دلوں میں بڑی ہے عنقریب وہ کہیں گے کون ہمیں لوٹائے گا ؟ فرما دیں جس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا۔ پھر وہ آپ کے سامنے اپنے سر ہلائیں گے اور کہیں گے یہ کب ہوگا ؟ فرمادیں امید ہے عنقریب ہوگا۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی کمزوری اور شرک سے پاک ہے۔ ٢۔ کائنات کے ذرّہ ذرّہ پر اس کی بادشاہی ہے۔ ٣۔ وہی ہر چیز کا مالک اور خالق ہے اور سب نے اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فسبحن الذی۔۔۔۔ ترجعون (83) ” “۔ لفظ ملکوت سے خالق و مخلوق کے تعلق کی اہمیت اور عظمت کا اظہار ہوتا ہے۔ یعنی یہ کہ اس کائنات کی ہر چیز مطلقا اللہ کی ملکیت ہے اور اس کائنات کی تمام مملوکات پر اللہ کا مکمل قبضہ اور کنٹرول ہے۔ دوسری بات یہ کہ تمام چیزوں کو اللہ کی طرف لوٹنا ہے۔ یہ آخری ضرب ہے اور اس سورت کی نہایت عظیم اور ہولناک فضا کے لیے یہ نہایت ہی مناسب تنبیہہ ہے۔ اس سورت کا موضوع بھی نہایت ہی عظیم اور اہم ہے۔ اور اس کے اندر جو حقائق اور دلائل بھی لائے گئے ہیں وہ بھی بہت ہی عظیم اور ہولناک ہیں اور اس عظیم حقیقت سے مربوط و متعلق ہیں جن کی تفصیلات اور موضوع اس سورت میں دی گئی ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(فَسُبْحٰنَ الَّذِیْ بِیَدِہِ مَلَکُوتُ کُلِّ شَیْءٍ وَّاِِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ ) (سو پاک ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا پورا اختیار ہے اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے) اس کی ذات ہر عیب اور نقص سے پاک ہے کسی بھی چیز کے پیدا کرنے سے عاجز نہیں، مردہ انسانوں کو دوبارہ زندہ پیدا فرمانا بھی اس کی قدرت سے باہر نہیں تمہیں لوٹ کر اسی کی طرف جانا ہے، اس کی قدرت کا انکار کرو گے تو سزا پاؤ گے۔ ولقد تَمَّ تفسیر سورة یٰسٓ والصلوٰۃ والسلام علی سیّد الانبیاء والمرسلین وعلیٰ اٰلہ و اصحابہ وَمَنْ تَبِعَھُمْ بْاِحْسَانٍ الٰی یوم الدّین

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

ٖف 51:۔ فسبحن الخ :۔ یہ آخر میں ساری سورت کا خلاصہ ہے اللہ تعالیٰ ان تمام شریکوں سے برتر اور پاک ہے جن کو مشرکین اللہ کے سوا معبود اور شفعاء بنائے ہوئے ہیں ساری کائنات کا مکمل قبضہ اس کے ہاتھ میں ہے۔ ساری کائنات میں وہی مختار کل اور متصرف مطلق ہے اور آخرت میں بھی سب اسی کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے اس لیے اس کے سوا کوئی معبود اور کارساز نہیں اور نہ کوئی اس کی بارگاہ میں شفیع غالب ہے اس لیے حاجات و مشکلات میں مافوق الاسباب اسی کو پکارا کرو۔ واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین۔ سورة یسین میں آیات توحید 1:۔ وما لی لا اعبد الذی فطرنی۔ تا۔ لا تغن عنی شفاعتہم شیئا ولا ینقذون (رکوع 2) نفی شرک اعتقادی و نفی شفاعت قہری۔ 2:۔ وایۃ لہم الارض المیتۃ۔ تا۔ فلا صریخ لہم ولا ینقذون (رکوع 3) نفی شرک فی التصرف 3 ۔ وما علمنہ الشعر۔ تا۔ وقران مبین۔ (رکوع 5) نفی علم شعر از نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و دلیل صداقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ 4 ۔ اولم یروا انا خلقنا۔ تا۔ افلا یشکرون (رکوع 5) نفی شرک فی التصرف۔ 5 ۔ فسبحن الذی بیدہ ملکوت کل شیء والیہ ترجعون۔ (رکوع 5) ۔ نفی شرک ہر قسم و نفی شفاعت قہری۔ سورة یسین ختم ہوئی

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(83) پس جملہ عیوب سے اس اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے جس کے ہاتھ ہر چیز کی زبام حکومت ہے اور اسی کی طرف تم سب لوٹائے جائو گے۔ یعنی ہر چیز کی حکومت اور بادشاہت اسی کے ہاتھ اور اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے اور تم سب کی بازگشت اسی کی طرف ہے۔ سورۂ یٰس کی بہت بزرگی احادیث میں مذکور ہے اس سورت کو قرآن کریم کا دل فرمایا ہے یاسین کی تلاوت کرنیوالے کے لئے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور گناہوں کی بخشش کا سبب فرمایا ہے اور ایک دفعہ سورة یٰس کا پڑھنا ایسا ہے جیسا کسی نے بائیس مرتبہ قرآن شریف پڑھا اور فرمایا جس کو حاجت پیش ہو اور وہ سورة یٰسین پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کی حاجت پوری کر دے گا اور فرمایا جس کسی نے سورة یٰس پڑھی اللہ تعالیٰ اس کی بھوک اور پیاس کو دور کر دے گا۔ اگر عریاں ہو تو اس کو کپڑا پہنا دے گا۔ اگر وہ ڈرتا ہو کسی سے تو اس کا ڈر دور کر دے گا اورا گر وحشت ہو تو اس کی وحشت دور کر دے گا۔ فقیر ہو تو اس کو غنی کر دے گا۔ قید میں ہوگا تو اس کو قید سے خلاصی دے گا۔ راستہ بھولا ہوا ہوگا تو راستہ پائے گا۔ اگر مقروض ہوگا تو اللہ تعالیٰ اپنے خزانے سے اس کا قرض ادا کر دے گا اور اس سورت کو دافعہ اور قاضیہ بھی کہتے ہیں۔ یہ سورت اپنے پڑھنے والے سے ہر برائی کو دور کرتی ہے۔ تم سورة یٰسین