Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 105

سورة الصافات

قَدۡ صَدَّقۡتَ الرُّءۡیَا ۚ اِنَّا کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۱۰۵﴾

You have fulfilled the vision." Indeed, We thus reward the doers of good.

یقیناً تو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا بیشک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَدْ صَدَّقْتَ الرُّوْيَا ... We called out to him: "O Ibrahim!" You have fulfilled the dream! Ibrahim turned, and saw a fine, horned, white ram." Ibn Abbas said, "We used to look for similar types of rams." Hisham mentioned this Hadith at length in Al-Manasik. وَنَادَيْنَاهُ أَنْ يَا إِبْرَاهِيمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّوْيَا ... We called out to him: "O Ibrahim! You have fulfilled the dream!" means, `the purpose of your dream has been fulfilled by your laying down your son to sacrifice him.' As-Suddi and others said that; he passed the knife over Ismail's neck, but it did not cut him at all, because a sheet of copper was placed between them. Ibrahim was called at that point, and it was said: قَدْ صَدَّقْتَ الرُّوْيَا (You have fulfilled the dream!) Allah says; ... إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ Verily, thus do We reward the doers of good. means, `this is how We deal with those who obey Us in things that are difficult for them; We make for them a way out.' As Allah says: ... وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجاً وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لاَ يَحْتَسِبُ وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللَّهَ بَـلِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَىْءٍ قَدْراً And whosoever has Taqwa of Allah, He will make a way for him to get out (from every difficulty). And He will provide him from (sources) he never could imagine. And whosoever puts his trust in Allah, then He will suffice him. Verily, Allah will accomplish his purpose. Indeed Allah has set a measure for all things. (65:2-3) On the basis of this Ayah and this story, some of the scholars of Usul have stated that it is valid for a ruling to be abrogated before anyone is able to act upon it -- unlike some of the Mutazilah. The evidence for this is obvious, because Allah commanded Ibrahim, peace be upon him, to sacrifice his son, then He abrogated that and pointed out the ransom. The purpose of His command had been primarily to reward His close Friend for his patience and resolve in sacrificing his son. Allah says: إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْبَلَء الْمُبِينُ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

105۔ 1 یعنی دل کے پورے ارادے سے بچے کو ذبح کرنے کے لئے زمین پر لٹا دینے سے ہی تو نے اپنا خواب سچا کر دکھایا ہے کیونکہ اس سے واضح ہوگیا کہ اللہ کے حکم کے مقابلے میں تجھے کوئی چیز عزیز تر نہیں حتٰی کہ اکلوتا بیٹا بھی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦١] باپ بیٹے کا امتحان میں سرفراز ہونا :۔ جب باپ اور بیٹا دونوں نے اللہ کی فرمانبرداری کی بےنظیر مثال قائم کردی تو اس وقت رحمت الٰہی جوش میں آگئی۔ اور فوراً سیدنا ابراہیم پر وحی ہوئی کہ بس بس اس سے زیادہ کچھ نہ کرو۔ ہمیں تو صرف تمہارا امتحان لینا مقصود تھا۔ اور وہ ہوچکا جس میں تم پوری طرح کامیاب اترے ہو۔ ہمارا یہ مقصود ہرگز نہ تھا کہ تم فی الواقع بیٹے کو ذبح کر ڈالو۔ واضح رہے کہ سیدنا ابراہیم نے جو خواب دیکھا تھا وہ یہ تھا کہ && میں ذبح کر رہا ہوں && یہ نہیں دیکھا تھا کہ && میں نے ذبح کردیا ہے && اور جتنا خواب آپ نے دیکھا تھا اتنا کام ہوچکا تو آگے ذبح کردینے سے اللہ تعالیٰ نے روک دیا۔ [٦٢] یعنی ہمارا دستور ہے کہ ہم نیکو کار لوگوں کو آزمائش میں ڈالتے ہیں پھر جب وہ اس آزمائش میں پورے اترتے ہیں، تو ان کے درجات بلند کرتے ہیں۔ ان کو فضیلت عطا کردیتے ہیں۔ پھر جس آزمائش میں ہم انہیں ڈالتے ہیں اس سے نکلوا بھی دیتے ہیں۔ جیسے سیدنا ابراہیم کو آگ کی آزمائش میں ڈالا وہ وہاں سے سلامت نکال بھی لائے اور ان کا مرتبہ بھی بلند کیا اسی طرح بیٹے کی قربانی کی آزمائش میں ان کے بیٹے کو بھی بچا لیا اور درجات بھی بلند کئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

By saying: كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ (This is how We reward those who are good in deeds - 110), the sense is, &when a servant of Allah bows down before the command of Allah and is ready to sacrifice all personal thoughts and feelings, then, ultimately, We take care of him, so that he remains safe from whatever could have afflicted him here in this world, and as for the recompense and reward of the Hereafter, that We write down in his book of deeds.&

اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ (ہم مخلصین کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں) یعنی جب کوئی اللہ کا بندہ اللہ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کر کے اپنے تمام جذبات کو قربان کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے، تو ہم بالآخر اسے دنیوی تکلیف سے بھی بچا لیتے ہیں، اور آخرت کا اجر وثواب بھی اس کے نامہ اعمال میں لکھ دیتے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْيَا۝ ٠ ۚ اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِـنِيْنَ۝ ١٠٥ صدق الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ رُّؤْيَا : ما يرى في المنام، وهو فعلی، وقد يخفّف فيه الهمزة فيقال بالواو، وروي : «لم يبق من مبشّرات النّبوّة إلّا الرّؤيا» . قال : لَقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيا بِالْحَقِ [ الفتح/ 27] ، وَما جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْناكَ [ الإسراء/ 60] ، وقوله : فَلَمَّا تَراءَا الْجَمْعانِ [ الشعراء/ 61] ، أي : تقاربا وتقابلا حتی صار کلّ واحد منهما بحیث يتمكّن من رؤية الآخر، ويتمكّن الآخر من رؤيته . ومنه قوله : «لا تَتَرَاءَى نارهما» . ومنازلهم رِئَاءٌ ، أي : متقابلة . وفعل ذلک رِئَاءُ الناس، أي : مُرَاءَاةً وتشيّعا . والْمِرْآةُ ما يرى فيه صورة الأشياء، وهي مفعلة من : رأيت، نحو : المصحف من صحفت، وجمعها مَرَائِي، والرِّئَةُ : العضو المنتشر عن القلب، وجمعه من لفظه رِؤُونَ ، وأنشد (أبو زيد) : فغظناهمو حتی أتى الغیظ منهمو ... قلوبا وأکبادا لهم ورئينا ورِئْتُهُ : إذا ضربت رِئَتَهُ. الرؤیا بمعنی خواب کے ہیں اور یہ ہمزہ کے ساتھ بروزن فعلیٰ ہے اور کبھی ہمزہ کو حذف کرکے واؤ کے ساتھ الرؤیا کہہ دیتے ہیں ۔ ایک حدیث میں ہے (165) لم یبق من مبشرات النبوۃ الا الرؤیا ۔ کہ مبشرات نبوت سے صرف خواب رہ گئے ہیں ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيا بِالْحَقِ [ الفتح/ 27] بیشک اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو واقعی سچا خواب دکھا یا تھا ۔ وَما جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْناكَ [ الإسراء/ 60] اور خواب جو ہم نے تم کو دکھایا تھا تو بس اس کو لوگوں ( کے ایمان ) کی آزمائش ( کا ذریعہ ) ٹھہرایا ۔ فَلَمَّا تَراءَا الْجَمْعانِ [ الشعراء/ 61] پھر جب دونوں فوجیں آمنے سامنے آئیں ۔ یعنی جب وہ باہم اس طرح آمنے سامنے ہوئے کہ ایک دوسرے کو دیکھ سکیں اور اسی سے وہ حدیث ہے جس میں فرمایا لایترای نارھما کہ ایک دوسرے کی آگ نظر نہ آئے محاورہ ہے ۔ ومنازلهم رِئَاءٌ ، کہ ان کے مکانات باہم متقابل ہیں ۔ وفعل ذلک رِئَاءُ الناساس نے نمود اور دکھاوے کے لئے یہ کام کیا ۔ المرءۃ آئینہ جس میں اشیاء کا عکس نظر آئے ۔ یہ رایت سے مفعلۃ کے وزن پر ہے جیسے صفحت سے مصحفۃ اور اس کے جمع مرائی آتی ہے ۔ الرئۃ ۔ پھیپھڑا ۔ اس کی جمع من لفظہ رؤون آتی ہے ۔ اس پر ابو زید نے اس شعر سے استشہاد کیا ہے ۔ فغظناهمو حتی أتى الغیظ منهمو ... قلوبا وأکبادا لهم ورئيناہم نے انہیں غصہ دلایا حتی کے غیظ وغضب ان کے دل و جگر اور پھیپھڑوں میں سرایت کر گیا ۔ اور اسی سے رئتہ ہے جسکے معنی پھیپھڑے سے پر مارنے کے ہیں ۔ جزا الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان/ 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، ( ج ز ی ) الجزاء ( ض ) کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا } ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] . ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٥{ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّئْ یَاج اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ } ” تم نے خواب سچ کر دکھایا ‘ یقینا ہم اسی طرح بدلہ دیتے ہیں محسنین کو۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

63 That is, "We did not make you see in the dream that you had actually slaughtered your son and he had died, but that you were slaughtering him. That Vision you have fulfilled. Now, it is not Our will w take the life of your child: the actual object of the vision has been fulfilled by your submission and preparation to sacrifice him for Our sake." 64 That is, "We do not subject the people who adopt the righteous way to trials in order to involve them in trouble and distress and affliction just for the sake of it, but these trials are meant to bring out their excellencies and to exalt them to high ranks, and then We deliver them also safe and sound from the dilemma in which We place them for the sake of the trial. Thus, your willingness and preparation to sacrifice yow son is enough to entitle you to be exalted to the rank that could be attained only by the one who would actually have slaughtered his son for Our approval and pleasure. Thus, We have saved the life of yow child as well as exalted you to this high rank. "

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :63 یعنی ہم نے تمہیں یہ تو نہیں دکھایا تھا کہ تم نے بیٹے کو ذبح کر دیا ہے اور اس کی جان نکل گئی ہے ، بلکہ یہ دکھایا تھا کہ تم ذبح کر رہے ہو ۔ تو وہ خواب تم نے پورا کر دکھایا ۔ اب ہمیں تمہارے بچے کی جان لینی مطلوب نہیں ہے ۔ اصل مدعا جو کچھ تھا وہ تمہاری اس آمادگی اور تیاری سے حاصل ہو گیا ہے ۔ سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :64 یعنی جو لوگ احسان کی روش اختیار کرتے ہیں ان کے اوپر آزمائشیں ہم اس لیے نہیں ڈالا کر تے کہ انہیں خواہ مخواہ تکلیفوں میں ڈالیں اور رنج و غم میں مبتلا کریں ۔ بلکہ یہ آزمائشیں ان کی فضیلتوں کو ابھارنے کے لیے اور انہیں بڑے مرتبے عطا کرنے کے لیے ان پر ڈالی جاتی ہیں ، اور پھر آزمائش کی خاطر جس مخمصے میں ہم انہیں ڈالتے ہیں اس سے بخیریت ان کو نکلوا بھی دیتے ہیں ۔ چنانچہ دیکھو ، بیٹے کی قربانی کے لیے تمہاری آمادگی و تیاری ہی بس اس کے لیے کافی ہو گئی کہ تمہیں وہ مرتبہ عطا کر دیا جائے جو ہماری خوشنودی پر واقعی بیٹا قربان کر دینے والے کو مل سکتا تھا ۔ اس طرح ہم نے تمہارے بچے کی جان بچا دی اور تمہیں یہ مرتبۂ بلند بھی عطا کر دیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:105) قد صدقت۔ قد ماضی کے ساتھ تحقیق کے معنی دیتا ہے۔ صدقت ماضی واحد مذکر حاضر۔ تصدیق (تفعیل) مصدر سے، بیشک تو نے سچ کر دکھایا۔ الرؤیا۔ واحد ۔ خواب۔ رؤی جمع۔ مادہ رء ی۔ یہ لفظ اکثر خواب کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ لیکن کبھی جاگتے میں آنکھ سے یکھنے کے لئے بھی آتا ہے (ای بمعنی رؤیۃ ) مثلا وما جعلنا الرؤیا التی ارینک الا فتنۃ للناس (17:60) اور ہم نے جو منظر تجھ کو دکھایا تھا اسے ہم نے لوگوں کی آزمائش کا سبب بنادیا۔ یا متنبی کا شعر ہے :۔ ورؤیاک احلی فی العیون من الغمض۔ نیم باز آنکھوں کی نسبت تو تیرا (نگاہ بھر کر) دیکھنا آنکھون کو زیادہ بھلا معلوم ہوتا ہے۔ کذلک نجزی المحسنین۔ ہم مخلصوں کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں ! قد صدقت الرؤیا پر ندائیہ کلام ختم ہوگیا۔ بیان القرآن میں ہے :۔ یعنی جو خواب میں حکم ہوا تھا (تم نے) اپنی طرف سے اس پر پورا عمل کیا۔ اب ہم اس حکم کو منسوخ کرتے ہیں۔ بس ان (حضرت اسماعیل) کو چھوڑ دو ۔ وہ وقت بھی عجیب تھا۔ غرج ان کو چھوڑ دیا۔ جان کی جان بچ گئی اور مراتب علیا مزید برآں عطا ہوئے۔ مطلب یہ کہ خدا وندتعالیٰ نے حضرت اسماعیل کے ذبح ہوجانے سے قبل فعل ذبح کی تیاری و آمادگی ذبح کو خواب کی تکمیل کے لئے کافی قرار دیا۔ اور ان کو اس امتحان میں کامیابی پر پورے انعام کا مستحق قرار دیا۔ اس احسان و اکرام کی طرف اگلے جملے کذلک نجزی المحسنین میں اشارہ ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یعنی انہیں آزمائشوں سے اسی طرح سرخرو کر کے نکالتے ہیں اور ان کے درجات بلند کرتے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ونادینہ ان یابراھیم ۔۔۔۔۔ بذبح عظیم (105 – 107) ” ۔ “۔ تمہارا خواب بھی سچا تھا ، تم نے اسے سچ کر دکھایا۔ عملاً سچا کردیا۔ اللہ تو تسلیم و رضا کا خواہش مند ہے۔ یوں کہ نفس کے اندر کوئی ایسی بات نہ رہے جو اللہ سے چھپائے ، جو اللہ کے حکم سے زیادہ عزیز ہو ، یا حکم الٰہی کے مقابلے میں کوئی تحفظ ہو۔ اگرچہ وہ اکلوتا بیٹا اور جگر گوشہ ہو۔ اگرچہ وہ جان اور روح ہو۔ اے ابراہیم تو نے تو یہ گویا کر دکھایا۔ تم تو ذبح عظیم کے لیے تیار ہوگئے تھے۔ اگر اللہ ہاتھ کو نہ پکڑتا۔ تم نے عزیز ترین متاع قربان کردی تھی۔ اور تم نہایت ہی سنجیدگی ، دھیمے انداز اور پروقار طریقے سے ، اطمینان اور اعتماد کے ساتھ ، مشورے اور سوچ کے ساتھ قربانی کردی۔ اب تو صرف خون اور گوشت رہ گیا تھا۔ اس مقام پر انسان کے خون اور گوشت کے بدلے قربانی کا خون اور گوشت پیش کردیا جاتا ہے۔ اس کا بدل دے دیا جاتا ہے اور اسے ذبح عظیم کا نام بھی دے دیا جاتا ہے۔ ایک ایک مینڈھا حکم ربی سے ابراہیم (علیہ السلام) کی چھری کے نیچے آجاتا ہے۔ اور وہ اسے اسماعیل (علیہ السلام) کے بدلے ذبح کردیتے ہیں اور کہا جاتا ہے : انا کذلک نجری المحسنین (37: 105) ” ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں “۔ ہم ان کو اس قسم کی آزمائش کے لیے چن کر ان پر کرم کرتے ہیں اور ان کے دلوں کو تسلیم ورضا اور اطاعت وفا کے لیے تیار کرکے اور ان کو اس عظیم کام پر آمادہ کرکے ان پر انعام کرتے ہیں اور اس قسم کی عظیم قربانی پر ان کو قدرت دے کر اور صبر دے کر ان کو جزاء دیتے ہیں۔ اور ھقیقی جزاء کے مستحق قرار دے کر ان پر احسان کرتے ہیں۔ اس تعذیب و ابتلا کو ایک سنت جاریہ بنایا گیا ہے۔ ہر بقر عید پر قربانی جاری ہوگئی۔ یہ اس عظیم واقعہ کی دائمی یادگار ہے۔ جس کے اندر ایمان اپنے عروج پر نظر آتا ہے جس میں اطاعت کا حسن اور تسلیم و رضا کی بلندی اور عظمت نظر آتی ہے۔ اور امت مسلمہ اس قربانی کی یاد تازہ کرتی رہتی ہے تاکہ اپنے جدا مجد حضرت ابراہیم کی عظمت کی معرفت تازہ ہوتی رہے۔ جن کی ملت پر یہ امت ہے جن کی نسبت اور جن کی نطریاتی میراث کی وہ وارث ہے تاکہ وہ اس نظریہ حیات اور ان عقاید و ایمانیات کا اچھی طرح ادراک کرسکے جو ملت ابراہیمی کی میراث ہیں۔ اور جسے معلوم ہو کہ مسلم وہ ہوتا ہے ۔ جو بےچون و چرا رب تعالیٰ کے احکام کی تعمیل کرے ، خوشی خوشی۔ اور اللہ کا حکم پاتے ہی بلکہ اشارہ پاتے ہی وہ اسے روبعمل لائے۔ اپنے لیے کچھ نہ رکھے۔ کوئی تحفظ نہ ہو۔ وہ اللہ کی اطاعت میں کوئی اپنا طریقہ ، اپنا اسلوب اختیار نہ کرے بلکہ اللہ کی مرضی اور اس کے طریقے کے مطابق عمل پیدا ہو ، جس طرح حکم ہو اور جس طرح حکم ملا ہو۔ پھر امت کو یہ بھی سبق دیا گیا کہ اللہ کے احکام کی تعمیل میں امت پر سختی اور تشدد مطلوب نہیں ہے کہ اسے ایسے احکام دئیے جائیں جو اس کی وسعت اور طاقت میں نہ ہوں۔ اللہ ایسے احکام دیتا ہے جن پر امت لبیک کہہ کر تعمیل کرسکے۔ اور پوری طرح ان احکام کو ادا کرسکے۔ اور جو حکم بھی آئے اس پر سلمنا کہے۔ اور اپنی طرف سے کوئی تجویز نہ دے۔ نہ اس میں سستی دکھائے اور نہ احسان جتلائے۔ جب اللہ آمادگی اور تسلیم کو جان لیتا ہے تو پھر وہ اپنے بندوں کو عذاب دے کر اور ان پر تشدد کرکے خوش نہیں ہوتا۔ آمادگی اور سرتسلیم خم کرنا ہی دراصل عمل شمار ہوا اور اصل عمل کا فدیہ دے دیا گیا۔ یہ سلوک اللہ کا اس امت کے ساتھ ہے جس طرح اس کے جد امجد ابراہیم کے ساتھ ہوا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(105) تونے خواب کو پوری طرح سچ کر دکھایا کر دکھایا بلا شبہ ہم نیکوکار اور مخلفین کو اسی طرح صلہ دیا کرتے ہیں۔ یعنی جب چھری چلانی چاہی اس وقت عالم بالا کے ملائکہ پر کیا گزری اور زمین و آسمان پر کیا بیتی بہرحال ان دونوں کی قربانیوں کو ہم نے قبول کرلیا اور ابراہیم کو پکار کر کہا اے ابراہیم تونے اپنے خواب کو سچا کردیاہم مخلصین کو اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں کہ دونوں عالم میں ان کو بھلائی ملتی ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی ایسے مشکل حکم کر کر آزماتے ہیں پھر ان کو قائم رکھتے ہیں تب درجے بلند ہوتے ہیں۔