Surat us Saaffaat
Surah: 37
Verse: 107
سورة الصافات
وَ فَدَیۡنٰہُ بِذِبۡحٍ عَظِیۡمٍ ﴿۱۰۷﴾
And We ransomed him with a great sacrifice,
اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیہ میں دے دیا ۔
وَ فَدَیۡنٰہُ بِذِبۡحٍ عَظِیۡمٍ ﴿۱۰۷﴾
And We ransomed him with a great sacrifice,
اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیہ میں دے دیا ۔
And We ransomed him with a great sacrifice. It was reported that Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, said, "A ram which had grazed in Paradise for forty years." Imam Ahmad recorded that Safiyyah bint Shaybah said, "A woman from Bani Sulaym, who was the midwife of most of the people in our household, told me that the Messenger of Allah sent for `Uthman bin Talhah, may Allah be pleased with him." On one occasion she said, "I asked `Uthman, `Why did the Prophet call you?' He said, `The Messenger of Allah said to me, إِنِّي كُنْتُ رَأَيْتُ قَرْنَيِ الْكَبْشِ حِينَ دَخَلْتُ الْبَيْتَ فَنَسِيتُ أَنْ امُرَكَ أَنْ تُخَمِّرَهُمَا فَخَمِّرْهُمَا فَإِنَّهُ لاَ يَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ فِي الْبَيْتِ شَيْءٌ يَشْغَلُ الْمُصَلِّي I saw the horns of the ram when I entered the House (i.e., the Ka`bah), and I forgot to tell you to cover them up; cover them up, for there should not be anything in the House which could distract the worshipper."' Sufyan said, "The horns of the ram remained hanging in the House until it was burned, and they were burned too." This offers independent evidence that the one who was to be sacrificed was Ismail, peace be upon him. The Quraysh had inherited the horns of the ram that Ibrahim sacrificed, and they had been passed down from generation to generation, until the Messenger of Allah was sent. And Allah knows best. Reports which state that the One Who was to be sacrificed was Ismail, and that this is Correct without a Doubt Sa`id bin Jubayr, `Amir Ash-Sha`bi, Yusuf bin Mihran, Mujahid, Ata' and others reported from Ibn Abbas that it was Ismail, peace be upon him. Ibn Jarir narrated that Ibn Abbas said, "The one who was ransomed was Ismail, peace be upon him. The Jews claimed that it was Ishaq, but the Jews lied." It was reported that Ibn Umar said, "The sacrifice was Ismail." Ibn Abi Najih said, narrating from Mujahid, "It was Ismail, peace be upon him." This was also the view of Yusuf bin Mihran. Ash-Sha`bi said, "It was Ismail, peace be upon him, and I saw the horns of the ram in the Ka`bah." Muhammad bin Ishaq reported from Al-Hasan bin Dinar and `Amr bin `Ubayd from Al-Hasan Al-Basri that; he did not doubt that the one of the two sons Ibrahim was commanded to sacrifice was Ismail, peace be upon him. وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الاْخِرِينَ
107۔ 1 یہ بڑا ذبیحہ ایک مینڈھا تھا جو اللہ تعالیٰ نے جنت سے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے ذریعے سے بھیجا (ابن کثیر) اسماعیل (علیہ السلام) کی جگہ اسے ذبح کیا گیا اور پھر سنت ابراہیمی کو قیامت تک قرب الٰہی کے حصول کا ایک ذریعہ اور عید الاضحٰی کا سب سے پسندیدہ عمل قرار دے دیا گیا۔
[٦٤] بیٹے کی قربانی کا فدیہ :۔ یہ ذبح عظیم ایک سینگ دار مینڈھا تھا جسے فرشتوں نے عین موقع پر لاکر حاضر کردیا اور کہا تھا کہ بیٹے کی جگہ اسے قربان کردو۔ یہی جانثار بیٹے کا فدیہ تھا جسے اللہ نے بھیجا تھا۔ اس لحاظ سے یہ عظیم قربانی تھی اور اس کے عظیم ہونے کی دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ قیامت تک کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ سنت جاری کردی کہ اسی تاریخ کو دنیا بھر کے اہل ایمان جانور قربان کریں۔ اور وفاداری اور جان نثاری کے اس عظیم واقعہ کی یاد تازہ کرتے رہیں۔ خ ذبیح اللہ سیدنا اسماعیل تھے یا سیدنا اسحاق (علیہما السلام) :۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ذبیح اللہ سیدنا اسماعیل نہیں بلکہ سیدنا اسحاق تھے۔ ان کا نظریہ درج ذیل وجوہ کی رو سے درست معلوم نہیں ہوتا۔ ١۔ اسی سورة میں پہلے سیدنا ابراہیم کے اس بیٹے کا ذکر آیا جو فی الواقع ذبیح اللہ تھے اور اس کے بعد سیدنا اسحاق (علیہ السلام) کا ذکر اسی سورة کی آیت نمبر ١١٢ میں آرہا ہے۔ ٢۔ جب سیدنا اسماعیل کی بشارت دی گئی تو اس کے ساتھ حلیم کی صفت مذکور ہے۔ اور اس کا تعلق قربانی سے ہے۔ اور جب سیدنا اسحاق کی بشارت دی گئی تو اس کے ساتھ صفت علیم ذکر کی گئی (١٥: ٥٣، ٥١: ٢٨) اور اس صفت کا قربانی سے کچھ تعلق نہیں۔ نیز جب سیدنا اسحاق کی بشارت دی گئی تو ساتھ ہی یہ بتادیا گیا کہ اسحاق کے بعد ان کا بیٹا یعقوب بھی پیدا ہوگا۔ (١١: ٧١) اور ظاہر ہے جس بیٹے کے پوتے کی بھی بذریعہ وحی بشارت دی جاچکی ہو اس کے متعلق نوجوانی میں ہی قربانی کی وحی آنا محال ہے۔ کیونکہ پوتے کی بشارت پہلے دی جاچکی تھی۔ ٣۔ تورات میں یہ تصریح موجود ہے کہ سیدنا ابراہیم کو اپنے اکلوتے اور محبوب بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور یہ بھی مسلم ہے کہ سیدنا اسمٰعیل، سیدنا اسحاق سے عمر میں بڑے تھے پھر سیدنا اسحاق سیدنا اسماعیل کی موجودگی میں اکلوتے کیسے ہوسکتے ہیں ؟ ٤۔ قربانی کی یادگار اور اس سے متعلقہ رسوم بنی اسرائیل میں بطور وراثت مسلسل منتقل ہوتی چلی آئی ہیں حتیٰ کہ دور نبوی میں بھی موجود تھیں۔ یہ بات بھی اس بات کی قوی دلیل ہے کہ ذبیح اللہ سیدنا اسماعیل تھے نہ کہ سیدنا اسحاق علیہ السلام۔ ٥۔ احسان کا وسیع مفہوم :۔ قربانی اور اس سے متعلقہ رسوم مثلاً سعی صفا ومروہ وغیرہ کا تعلق مکہ سے ہے۔ اور یہ سیدنا اسماعیل کا وطن تھا۔ سیدنا اسحاق کا اصل وطن ملک شام تھا۔
وَفَدَيْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِيْمٍ : ” ذِبْحٌ“ (ذال کے کسرہ کے ساتھ) بمعنی ” مَذْبُوْحٌ“ یعنی ہم نے اسماعیل (علیہ السلام) کے فدیے اور بدلے میں ایک عظیم ذبیحہ دیا۔ یہ ایک مینڈھا تھا جو ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے قربان کردیا۔ اسے عظیم اس لیے فرمایا کہ وہ اسماعیل (علیہ السلام) جیسے عظیم شخص کا فدیہ تھا اور اس لیے کہ اس کی قربانی عظیم عبادت تھی، جو قیامت تک کے مسلمانوں کے لیے سنت قرار پائی۔ تفسیری روایات میں اس مینڈھے کا جنت سے آنے کا ذکر ہے اور یہ بھی کہ یہ وہی مینڈھا تھا جو آدم (علیہ السلام) کے بیٹے نے بطور قربانی دیا تھا۔ وہ جنت میں پلتا رہا اور اس موقع پر ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے اتارا گیا۔ بعض نے کہا کہ یہ ایک پہاڑی بکرا تھا جو پہاڑ سے اتارا گیا تھا۔ مگر یہ تمام روایات اسرائیلی ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک بھی ثابت نہیں۔ ہاں ! یہ ثابت ہے کہ وہ سینگوں والا مینڈھا تھا، جیسا کہ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (کعبہ کے چابی بردار) عثمان بن طلحہ (رض) کو بلایا اور فرمایا : ( إِنِّيْ کُنْتُ رَأَیْتُ قَرْنَيِ الْکَبْشِ حِیْنَ دَخَلْتُ الْبَیْتَ ، فَنَسِیْتُ أَنْ آمُرَکَ أَنْ تُخَمِّرَہُمَا، فَخَمِّرْہُمَا فَإِنَّہُ لاَ یَنْبَغِيْ أَنْ یَکُوْنَ فِي الْبَیْتِ شَيْءٌ یَشْغَلُ الْمُصَلِّيَ ، قَالَ سُفْیَانُ لَمْ تَزَلْ قَرْنَا الْکَبْشِ فِي الْبَیْتِ حَتَّی احْتَرَقَ الْبَیْتُ فَاحْتَرَقَا ) [ مسند أحمد : ٤؍٦٨، ح : ١٦٦٣٧۔ مسند احمد کے محققین نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے ] ” میں جب بیت اللہ میں داخل ہوا تو میں نے اس مینڈھے کے سینگ دیکھے تھے، تو میں تمہیں ان کو ڈھانپنے کا حکم دینا بھول گیا۔ سو انھیں ڈھانپ دو ، کیونکہ یہ مناسب نہیں کہ بیت اللہ میں کوئی ایسی چیز ہو جو نمازی کو مشغول کرے۔ “ سفیان نے فرمایا : ” وہ سینگ بیت اللہ میں رہے، حتیٰ کہ بیت اللہ کو آگ لگ گئی تو وہ بھی جل گئے۔ “
In verse 107, it was said: وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ (And We ransomed him with a great sacrifice.). In Hadith reports, it is said that on hearing this voice from the heavens, Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) looked up and saw Sayyidna Jibra&il (علیہ السلام) with a ram. From some reports, it appears that it was the same ram that was offered as sacrifice by Habil (Abel), the son of Sayyidna &Adam (علیہ السلام) . Allah knows best. In short, a present of this ram of Paradise was made to Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) ، and he sacrificed it in lieu of his son as commanded by Allah. This sacrificial animal was called: عَظِیم (` azim: great) because it had come by way of mercy from Allah, and no one can entertain any doubt about the acceptance of its sacrifice. (Tafsir Mazhari, and others)
وَفَدَيْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِيْمٍ (اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے عوض میں دیا) روایات میں ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ آسمانی آواز سن کر اوپر کی طرف دیکھا تو حضرت جبرئیل (علیہ السلام) ایک مینڈھا لئے کھڑے تھے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہی مینڈھا تھا جس کی قربانی حضرت آدم (علیہ السلام) کے صاحبزادے حضرت ہابیل نے پیش کی تھی۔ واللہ اعلم۔ بہرحال یہ جنتی مینڈھا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو عطا ہوا اور انہوں نے اللہ کے حکم سے اپنے بیٹے کے بجائے اس کو قربان کیا۔ اس ذبیحہ کو ” عظیم “ اس لئے کہا گیا کہ یہ اللہ کی طرف سے آیا تھا اور اس کی قربانی کے مقبول ہونے میں کسی کو کوئی شک نہیں ہو سکتا۔ (تفسیر مظہری وغیرہ)
وَفَدَيْنٰہُ بِذِبْحٍ عَظِيْمٍ ١٠٧ فدی الفِدَى والفِدَاءُ : حفظ الإنسان عن النّائبة بما يبذله عنه، قال تعالی: فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِداءً [ محمد/ 4] ، يقال : فَدَيْتُهُ بمال، وفدیته بنفسي، وفَادَيْتُهُ بکذا، قال تعالی: إِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة/ 85] ، وتَفَادَى فلان من فلان، أي : تحامی من شيء بذله . وقال : وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات/ 107] ، وافْتَدى: إذا بذل ذلک عن نفسه، قال تعالی: فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ [ البقرة/ 229] ، وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة/ 85] ، والمُفَادَاةُ : هو أن يردّ أسر العدی ويسترجع منهم من في أيديهم، قال : وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ [ الرعد/ 18] ، لَافْتَدَتْ بِهِ [يونس/ 54] ، ولِيَفْتَدُوا بِهِ [ المائدة/ 36] ، وَلَوِ افْتَدى بِهِ [ آل عمران/ 91] ، لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ [ المعارج/ 11] ، وما يقي به الإنسان نفسه من مال يبذله في عبادة قصّر فيها يقال له : فِدْيَةٌ ، ككفّارة الیمین، وكفّارة الصّوم . نحو قوله : فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ [ البقرة/ 196] ، فِدْيَةٌ طَعامُ مِسْكِينٍ [ البقرة/ 184] ( ف د ی ) الفدٰی والفداء کے معنی کسی کی جانب سے کچھ دیگر اسے مصیبت سے بچالینا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِداءً [ محمد/ 4] پھر اس کے بعد یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دینا چاہئے ۔ یا کچھ مال لے لر ۔ چناچہ محاورہ فدیتہ بمال میں نے کچھ خرچ کر کے اسے مسیبت سے بچالیا فدیتہ منفسی میں نے اپنی جان کے عوض اسے چھڑالیا فاواہُ بکذا ۔ اس نے کچھ دے کت اسے چھڑا لیا قرآن میں ہے ۔ إِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة/ 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلہ دے کر انہیں چھڑا بھی لیتے ہو ۔ تفادیٰ فلان من فلان کسی کا فدیہ دے کر اس کو چھڑالینا ۔ وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات/ 107] اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کا فدیہ دیا ۔ افتدیٰ کے معنی خواہ اپنے کو مال کے عوض چھڑانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ [ البقرة/ 229] رہائی پانے کے بدلے میں وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ [ الرعد/ 18]( تو وہ سب کے سب ) اور ان کے ساتھ ہی اتنے اور ( نجات کے ) بدلے میں صرف کر ڈالیں ۔ لَافْتَدَتْ بِهِ [يونس/ 54] تو ( عذاب سے بچنے کے لئے ( سب ) دے ڈالے ۔ ولِيَفْتَدُوا بِهِ [ المائدة/ 36] تاکہ بدلہ دیں۔ وَلَوِ افْتَدى بِهِ [ آل عمران/ 91] اگر بدلے میں دیں لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ [ المعارج/ 11] کہ کسی طرح اس دن کے عذاب کے بدلے میں ( سب کچھادے ڈالے یعنی بیٹے اور جو مال کسی عبادت میں کوتاہی کرنے کی وجہ سے خرچ کر کے انسان خود اپنے کو گناہ سے بچاتا ہے اسے بھی فدیتہ کہا جاتا ہے جیسا کہ کفار یمین اور صوم کے متعلق فرمایا ۔ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ [ البقرة/ 196] تو اس کے بدلے روزے رکھے یا صدقے دے یا قربانی کرے ۔ فِدْيَةٌ طَعامُ مِسْكِينٍ [ البقرة/ 184] روزے کے بدلے محتاج کو کھانا کھلادیں ۔ ذبح أصل الذَّبْح : شقّ حلق الحیوانات . والذِّبْح : المذبوح، قال تعالی: وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات/ 107] ، وقال : إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً [ البقرة/ 67] ، وذَبَحْتُ الفارة شققتها، تشبيها بذبح الحیوان، وکذلك : ذبح الدّنّ «3» ، وقوله : يُذَبِّحُونَ أَبْناءَكُمْ [ البقرة/ 49] ، علی التّكثير، أي : يذبح بعضهم إثر بعض . وسعد الذّابح اسم نجم، وتسمّى الأخادید من السّيل مذابح . ( ذ ب ح ) الذبح ( ف ) اصل میں اس کے معنی حیوانات کے حلق کو قطع کرنے کے ہیں اور ذبح بمعنی مذبوح آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات/ 107] اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کا فدیہ دیا إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً [ البقرة/ 67] کہ خدا تم کو حکم دیتا ہے کہ ایک بیل ذبح کرو ۔ ذبحت الفارۃ ۔ میں نے نافہ مشک کو کو چیرا ۔ یہ حیوان کے ذبح کے ساتھ تشبیہ کے طور پر بولا جاتا ہے ۔ اسی طرح ذبح الدن کا محاورہ ہے جس کے معنی مٹکے میں شگاف کرنے کسے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يُذَبِّحُونَ أَبْناءَكُمْ [ البقرة/ 49] تمہارے بیٹوں کو تو قتل کر ڈالتے تھے ۔ میں صیغہ تفعیل برائے تکثیر ہے یعنی وہ کثرت کے ساتھ یکے بعد دیگرے تمہارے لڑکوں کو ذبح کررہے تھے ۔ سعد الدابح ( برج جدی کے ایک ) ستارے کا نام ہے اور سیلاب کے گڑھوں کو مذابح کہا جاتا ہے ۔ عظیم وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] ، ( ع ظ م ) العظم عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔
آیت ١٠٧{ وَفَدَیْنٰـہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ } ” اور ہم نے ایک ذبح عظیم اس کا فدیہ دیا۔ “ اللہ کے حکم سے جنت سے ایک مینڈھا لایا گیا جو حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی جگہ ذبح ہوا۔ مسلمانوں کے ہاں عید الاضحی کے موقع پر ہر سال جانوروں کی قربانی پیش کر کے اسی قربانی کی یاد منائی جاتی ہے۔
66 "A great sacrifice" : A ram, as mentioned in the Bible and the Islamic traditions, that Allah's angel presented at the time before the Prophet Abraham, so that he should sacrifice it instead of his son. This has been called "a great sacrifice" because it was to serve as a ransom from a faithful servant like Abraham for a patient and obedient son like Ishmael, and Allah made it a means of fulfilling the intention of an unprecedented sacrifice. Another reason for calling it "a great" sacrifice is that AIlah made it a tradition till the Day of Resurrection that all the believers should offer animal sacrifice on the same date in the entire world so as to keep fresh the memory of the great and unique event signifying faithfulness and devotion."
سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :66 بڑی قربانی سے مراد ، جیسا کہ بائیبل اور اسلامی روایات میں بیان ہوا ہے ، ایک مینڈھا ہے جو اس وقت اللہ تعالیٰ کے فرشتے نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سامنے پیش کیا ، تاکہ بیٹے کے بدلے اس کو ذبح کر دیں ۔ اسے بڑی قربانی کے لفظ سے اس لیے تعبیر کیا گیا کہ وہ ابراہیم علیہ السلام جیسے وفادار بندے کے لیے فرزند ابراہیم علیہ السلام جیسے صابر و جاں نثار لڑکے کا فدیہ تھا ، اور اسے اللہ تعالیٰ نے ایک بے نظیر قربانی کی نیت پوری کرنے کا وسیلہ بنایا تھا ۔ اس کے علاوہ اسے بڑی قربانی قرار دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قیامت تک کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ سنت جاری کر دی کہ اسی تاریخ کو تمام اہل ایمان دنیا بھر میں جانور قربان کریں اور وفاداری و جاں نثاری کے اس عظیم الشان واقعہ کی یاد تازہ کرتے رہیں ۔
22: چونکہ باپ بیٹے دونوں اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں اپنے اختیار کا ہر کام کرچکے تھے، اس لیے امتحان پورا ہوگیا تھا۔ اب اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا کرشمہ دکھایا کہ چھری حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بجائے ایک مینڈھے پر چلی جو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے وہاں بھیج دیا، اور حضرت اسماعیل علیہ زندہ سلامت رہے۔
(37:107) فدینہ : فدینا ماضی جمع متکلم فدی یفدی (ضرب) فدی وفدی وفداء مصدر بمعنی مال وغیرہ دے کر قید وغیرہ سے چھڑانا۔ الفدی والفداء کے معنی ہیں کسی کی جانب سے کچھ دے کر اسے مصیبت سے بچا لینا۔ ہ ضمیر واحد مذکر غائب (کا مرجع حضرت اسماعیل ہیں) ہم نے فدیہ دے کر اس کو بچا لیا۔ فدینہ بذبح عظیم ہم نے ایک بڑی قربانی کو اس کا فدیہ دے کر اسے بچا لیا۔
ف 10 اکثر مفسرین (رح) کے نزدیک ” بڑی قربانی “ سے مراد ایک عظیم الشان مینڈھا ہے جو فرشتہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے پاس بھیجاتا کہ وہ بیٹے کی بجائے اس کی قربانی کریں۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : ” حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ کر زور سے چھری چلائی، اللہ کے حکم سے گلا نہ کٹا۔ جبرئیل نے بیٹے کو سرکادیا ( اور) ایک ذنبہ رکھ دیا آنکھیں کھولیں تو دنبہ ذبح پڑا تھا۔ ( موضح)
3۔ ذبح عظیم کی تعیین میں بھی کلام ہے، بعض نے کہا ہے کہ معمولی دنبہ تھا، اور عظیم بمعنی عظیم الجثہ ہے، اور بعض نے کہا ہے کہ جنت سے بھیجا گیا تھا، اور عظیم بمعنی عظیم القدر ہے، اور جب حجر اسود وغیرہ کا جنت سے آنا ثابت ہے تو ایک حیوان کا آنا کیا بعید ہے۔
(107) اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس لڑکے کے فدیہ میں دیا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی بڑے درجے کا بہشت سے آیا ایک دنبہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی آنکھیں پٹی سے باندھ کرچھری چلائی زور سے اللہ کے حکم سے گلا نہ کٹا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بیٹے کو سرکا دیا اور ایک دنبہ رکھ دیا آنکھیں کھولیں تو دنبہ ذبح پڑا تھا۔ خلاصہ : یہ ہے کہ ذبح کو عظیم فرمایا یا تو عظیم الجثہ مراد ہے۔ یا عظیم المرتبت ، یہ واقعہ منیٰ میں پیش آیا جہاں آج کل بھی حاجی قربانیاں کرتے ہیں۔