Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 114

سورة الصافات

وَ لَقَدۡ مَنَنَّا عَلٰی مُوۡسٰی وَ ہٰرُوۡنَ ﴿۱۱۴﴾ۚ

And We did certainly confer favor upon Moses and Aaron.

یقیناً ہم نے موسیٰ اور ہارون ( علیہما السلام ) پر بڑا احسان کیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Musa and Harun Allah tells, وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَى مُوسَى وَهَارُونَ وَنَجَّيْنَاهُمَا وَقَوْمَهُمَا مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيمِ

حضرت موسیٰ پر انعامات الٰہی ۔ اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ اور ہارون پر اپنی نعمتیں جتا رہاہے کہ انہیں نبوت دی انہیں مع ان کی قوم کے فرعون جیسے طاقتور دشمن سے نجات دی جس نے انہیں بےطرح پست و ذلیل کر رکھا تھا ان کے بچوں کو کاٹ دیتا تھا ان کی لڑکیوں کو رہنے دیتا تھا ان سے ذلیل مزدوریاں کراتا تھا اور بےحیثیت بنا رکھا تھا ۔ ایسے بدترین دشمن کو ان کے دیکھتے ہلاک کیا ، انہیں اس پر غالب کر دیا ان کی زمین و زر کے یہ مالک بن گئے ۔ پھر حضرت موسیٰ کو واضح جلی روشن اور بین کتاب عنایت فرمائی جو حق و باطل میں فرق و فیصلہ کرنے والی اور نور و ہدایت والی تھی ، ان کے اقوال و افعال میں انہیں استقامت عطا فرمائی اور ان کے بعد والوں میں بھی ان کا ذکر خیر اور ثناء و صفت باقی رکھی کہ ہر زبان ان پر سلام ہی پڑھتی ہے ۔ ہم نیک کاروں کو یہی اور ایسے ہی بدلے دیتے ہیں ۔ وہ ہمارے مومن بندے تھے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

114۔ 1 یعنی انہیں نبوت و رسالت اور دیگر انعامات سے نوازا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٨] یعنی انہیں نبوت عطا فرمائی۔ معجزات بھی دیئے اور اپنی مدد کا وعدہ دے کر انہیں فرعون کے پاس بھیجا تاکہ وہ اپنی قوم کو فرعون کی غلامی اور طرح طرح کی تکلیفوں سے نجات دلائیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلٰي مُوْسٰى وَهٰرُوْنَ : یعنی انھیں نبوت عطا کی اور دوسرے بیشمار احسانات فرمائے، جن میں سے بعض احسانات کا ذکر آگے فرمایا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Described in the verses cited above is the third event relating to Sayyidna Musa (علیہ السلام) and Harun (علیہ السلام) . It has appeared in details at several places. Here it serves as an indicator. The purpose is to tell how Allah Ta’ ala helps out His sincere and obedient servants, and how He bestows so many of His rewards on them. Mentioned here are His favors bestowed upon Sayyidna Musa علیہ السلام and Harun (علیہ السلام) . These favors are of two kinds. First come positive favors that bring benefits as in: وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَىٰ مُوسَىٰ وَهَارُ‌ونَ (And We did bestow favors upon Musa (علیہ السلام) and Harun (علیہ السلام) - 37:114). This points out towards those beneficial favors. Then there are negative favors that save from loss or harm. Later verses spell out details of the other kind.

خلاصہ تفسیر اور ہم نے موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) پر بھی احسان کیا (کہ ان کو نبوت اور دیگر کمالات عطا فرمائے) اور ہم نے ان دونوں کو اور ان کی قوم (یعنی بنی اسرائیل) کو بڑے غم سے (یعنی فرعون کی جانب سے پہنچائی جانیوالی تکالیف سے) نجات دی اور ہم نے ان سب کی (فرعون کے مقابلے میں) مدد کی، سو (آخر میں) یہی لوگ غالب آگئے (کہ فرعون کو غرق کردیا گیا، اور یہ صاحب حکومت ہوگئے) اور ہم نے (فرعون کے غرق ہونے کے بعد) ان دونوں (صاحبوں) کو (یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کو اصالتاً اور ہارون (علیہ السلام) کو تبعاً ) واضح کتاب دی (مراد تورات ہے کہ اس میں احکام واضح طور پر مذکور تھے) اور ہم نے ان کو سیدھے رستہ پر قائم رکھا، (جس کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ انہیں نبی معصوم بنایا، اور ہم نے ان دونوں کے لئے پیچھے آنے والے لوگوں میں (مدت ہائے دراز کے لئے) یہ بات رہنے دی کہ موسیٰ اور ہارون پر سلام (چنانچہ دونوں حضرات کے ناموں کے ساتھ آج تک (علیہ السلام) کہا جاتا ہے) ہم مخلصین کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں (کہ ان کو ثناء اور دعا کا مستحق بنا دیتے ہیں) بیشک وہ دونوں ہمارے (کامل) ایمان دار بندوں میں سے تھے ( اس لئے صلہ بھی کامل عطا ہوا) معارف ومسائل ان آیتوں میں تیسرا واقعہ حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) کا بیان کیا گیا ہے۔ یہ واقعہ متعدد مقامات پر تفصیل کے ساتھ گزر چکا ہے، یہاں اس کی طرف صرف اشارہ کیا گیا ہے اور اسے ذکر کرنے سے اصل مقصود یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مخلص اور اطاعت شعار بندوں کو کس طرح مدد فرماتے ہیں اور انہیں کیسے کیسے انعامات سے نوازتے ہیں۔ چناچہ یہاں حضرت موسیٰ و ہارون پر اپنے انعامات کا تذکرہ فرمایا ہے، انعامات کی بھی دو قسمیں ہوتی ہیں، ایک مثبت انعامات، یعنی فائدے پہنچانا، وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلٰي مُوْسٰى وَهٰرُوْنَ میں اسی قسم کے انعامات کی طرف اشارہ ہے۔ دوسرے منفی انعامات، یعنی نقصانات سے بچانا، اگلی آیات میں اسی قسم کی تفصیل ہے۔ آیات کا مفہوم خلاصہ تفسیر سے واضح ہوجاتا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلٰي مُوْسٰى وَہٰرُوْنَ۝ ١ ١٤ۚ منن والمِنَّةُ : النّعمة الثّقيلة، ويقال ذلک علی وجهين : أحدهما : أن يكون ذلک بالفعل، فيقال : منَّ فلان علی فلان : إذا أثقله بالنّعمة، وعلی ذلک قوله : لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران/ 164] والثاني : أن يكون ذلک بالقول، وذلک مستقبح فيما بين الناس إلّا عند کفران النّعمة، ولقبح ذلک قيل : المِنَّةُ تهدم الصّنيعة «4» ، ولحسن ذكرها عند الکفران قيل : إذا کفرت النّعمة حسنت المنّة . وقوله : يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلامَكُمْ [ الحجرات/ 17] فالمنّة منهم بالقول، ومنّة اللہ عليهم بالفعل، وهو هدایته إيّاهم كما ذكر، ( م ن ن ) المن المن کے معنی بھاری احسان کے ہیں اور یہ دوطرح پر ہوتا ہے ۔ ایک منت بالفعل جیسے من فلان علیٰ فلان یعنی فلاں نے اس پر گرا انبار احسان کیا ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران/ 164] خدا نے مومنوں پر بڑا احسان گیا ہے ۔ اور دوسرے معنی منۃ بالقول یعنی احسان جتلانا گو انسانی معاشرہ میں معیوب سمجھا جاتا ہے مگر جب کفران نعمت ہو رہا ہو تو اس کے اظہار میں کچھ قباحت نہیں ہے اور چونکہ ( بلاوجہ اس کا اظہار معیوب ہے اس لئے مشہور ہے ، المنۃ تھدم الصنیعۃ منت یعنی احسان رکھنا احسان کو بر باد کردیتا ہے اور کفران نعمت کے وقت چونکہ اس کا تذکرہ مستحن ہوتا ہے اس لئے کسی نے کہا ہے : جب نعمت کی ناشکری ہو تو احسان رکھنا ہیں مستحن ہے اور آیت کریمہ : ۔ يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلامَكُمْ [ الحجرات/ 17] یہ لوگ تم احسان رکھتے ہیں ۔ کہ مسلمان ہوگئے ہیں ، کہدو کہ اپنے مسلمان ہونے کا مجھ پر احسان نہ رکھو ۔ بلکہ خدا تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کا رستہ دکھایا ۔ میں ان کی طرف سے منت بالقوم یعنی احسان جتلانا مراد ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے منت بالفعل یعنی انہیں ایمان کی نعمت سے نواز نامراد ہے۔ موسی مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته . هرن هَارُونُ اسم أعجميّ ، ولم يرد في شيء من کلام العرب .

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٤۔ ١١٥) اور ہم نے موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) پر بھی نبوت و اسلام کے ذریعے سے احسان کیا اور ہم نے ان کو اور ان کی قوم کو غرق ہونے سے نجات دی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١٤{ وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلٰی مُوْسٰی وَہٰرُوْنَ } ” اور ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام) ٰ اور ہارون ( علیہ السلام) پر بھی احسان فرمایا ۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١١٤۔ ١٢٢۔ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ان احسانوں کا ذکر فرمایا ہے۔ جو اس نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہم السلام) پر کئے اول یہ کہ ان دونوں کو نبوت عطا کی دوسرے یہ کہ فرعون اور اس کی قوم بنی اسرائیل پر ظلم کرتے تھے۔ کہ ان کے لڑکوں کو مار ڈالتے اور ان کی لڑکیوں کو زندہ چھوڑتے اللہ تعالیٰ نے اس سے ان کو نجات دی۔ اور مدد کی کہ یہ ان پر غالب ہوگئے۔ اور ان کی زمین اور مال سب کچھ ان کے ہاتھ لگا۔ اور ان کی آنکھوں کے رو برو ان کے دشمنوں کو ہلاک کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر توراۃ شریف کو اتارا۔ اور بتائی ان کو راہ سیدھی اور پچھلی خلقت میں ان کا یہ ذکر خیر رکھا کہ سب ایماندار ان پر سلام بھیجتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ بیشک ہم اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔ نیکی کرنے والوں کو۔ پھر فرمایا۔ موسیٰ و ہارون (علیہم السلام) ہمارے ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) کی چوتھی پشت کے دادا ہیں۔ ایک جگہ گزر چکا ہے۔ کہ اسرائیل یعقوب (علیہ السلام) کا لقب ہے۔ اس لئے یعقوب (علیہ السلام) کی نسل کو بنی اسرائیل کہتے ہیں۔ یوسف (علیہ السلام) کی مصر کی سکونت کے سبب سے بنی اسرائیل کا قیام مصر میں ہوا۔ فرعون کے زمانہ میں بنی اسرائیل سے محنت مزدوری کے ذلیل کام لئے جاتے تھے۔ پھر بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کی ذلت اس سبب سے شروع ہوئی کہ فرعون نے بیت المقدس کی طرف سے ایک آگ آتی ہوئی خواب میں دیکھی۔ اور یہ بھی دیکھا کہ اس آگ سے فرعونی قبطی قوم کے سب گھر جلادیئے۔ اور بنی اسرائیل کا محلہ اس آگ سے بالکل بچ گیا۔ اس وقت کے نجومیوں نے خواب کی تعبیر یہ بتلائی کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہوگا۔ جس کے سبب سے فرعونی سلطنت کو زوال ہوجاوے گا۔ اسی واسطے فرعون نے اپنے نزدیک موسیٰ (علیہ السلام) کو دنیا میں نہ رکھنے کے لئے بنی اسرائیل کے سب لڑکوں کے قتل کا حکم جاری کیا تھا۔ مگر تقدیر الٰہی کو کون روک سکتا ہے۔ اگرچہ حضرت موسیٰ کے شبہ میں بنی اسرائیل کے ہزاروں لڑکے قتل ہوئے۔ لیکن موسیٰ (علیہ السلام) آخر پیدا ہو کر فرعون ہی کے گھر میں پلے۔ اور ان ہی کے سبب سے فرعون کو صدمہ پہنچا۔ حاصل کلام یہ ہے۔ کہ فرعون کے اسی سخت حکم کو بڑی گھبراہٹ فرمایا۔ کیونکہ آنکھوں کے سامنے اولاد کا قتل ہونا بڑی گھبراہٹ ہے۔ فرعون اور اس کے لشکر کے غرق ہونے کا قصہ جو کئی جگہ گزر چکا ہے۔ وہ قصہ آیت ونصرنہم فکانواھم الغلبین کی گویا تفسیر ہے۔ سیدھی راہ سے مقصد شرک سے بچنا اور وحدانیت الٰہی پر قائم رہنا ہے۔ جو سب شریعتوں کا جزاعظم ہے۔ صحیح بخاری ١ ؎ میں مالک (رض) بن صعصعہ کی بڑی حدیث ہے جس میں یہ کہ معراج کی رات ہارون (علیہ السلام) کی پانچویں آسمان پر اور موسیٰ (علیہ السلام) کی چھٹے آسمان پر نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملاقات ہوئی موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کے مرتبہ میں اللہ تعالیٰ نے جو فرق رکھا ہے۔ اس کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے۔ (١ ؎ صحیح بخاری باب حدیث الاسراء الخ ص ٥٤٨ ج ١۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:114) مننا۔ ماضی جمع متکلم من مصدر (باب نصر) ہم نے بڑا احسان کیا۔ ہم نے بڑی نعمت دی۔ مادہ م ن ن سے من مصدر مندرجہ ذیل معنی میں مستعمل ہے۔ (1) من یمن (نصر) من مصدر۔ نیز ( منۃ وامتنان) احسان جتانا۔ جیسے من علیہ بما صنع۔ اپنے کئے کا احسان جتانا۔ یا قرآن میں ہے :۔ لا تبطلوا صدقتکم بالمن والاذی (2:264) اپنے صدقون کو احسان جتا کر اور اذیت پہنچا کر ضائع نہ کرو۔ (2) من یمن (باب نصر) من وامن وتمنن سے بمعنی کم کرنا۔ منقطع کرنا۔ ختم کرنا۔ اس معنی میں قرآن مجید میں ہے فلہم اجر غیر ممنون (95:6) تو ان کے لئے اجر غیر منقطع ہے (یعنی جو نہ ختم کیا جائے گا اور نہ کم کیا جائے گا) ۔ (3) من یمن (باب نصر) مصدر بھلائی کرنا۔ انعام کرنا۔ احسان کرنا۔ مننا اسی مصدر سے باین معنی آیا ہے ۔ اسی معنی میں منجملہ دیگر متعدد جگہوں کے سورة یوسف میں ہے۔ قال انا یوسف وھذا اخی قد من اللہ علینا (12:90) فرمایا۔ (ہاں ) میں یوسف ہی ہوں اور یہ ہے میرا بھائی۔ بیشک ہم پر اللہ نے بڑا احسان کیا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 4 ۔ آیات 114 ۔ تا۔ 138: اسرار و معارف : یہی حال موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کو پیش آیا کہ فرعون نے سخت مقابلہ کیا اور انہیں تباہ کرنا چاہا جبکہ اللہ نے انہیں دنیا میں بھی غالب فرمایا اور فرعون کو اس کی قوم سمیت تباہ کرکے انہیں ان کی قوم سمیت اس سے نجات دی اور ہم نے ان کی مدد فرمائی تو وہ غالب اور کامیاب رہے انہیں اللہ نے کتاب عطا فرمائی جو واضح دلائل رکھتی تھی اور سیدھے راستے پر راہنمائی فرمائی۔ نیز ان کا ذکر خیر بعد والوں میں بھی باقی رکھا اللہ کی سلامتی ہو موسیٰ اور ہارون پر کہ ہم احسان کرنے والوں کا ایسے ہی بدلہ چکاتے ہیں وہ دونوں بھی ہمارے کھرے اور مخلص بندے تھے۔ پھر الیاس (علیہ السلام) مبعوث ہوئے انہوں نے بھی اپنی قوم کو ہدایت کی طرف بلایا۔ اور فرمایا کیا جہالت ہے کہ بعل بت کو تو پوجتے ہو اور اللہ کو بھولے ہوئے ہو جو سب سے اعلی اور بہتر پیدا کرنے والا ہے مراد ہے کہ حقیق خالق۔ خالق تو وہی ہے جو عدم سے وجود کو تخلیق فرماتا ہے دوسرا کوئی اگر بنائے بھی تو اس کی تخلیق کو جوڑ کر کوئی شے بنائے گا لہذا خالق کہلانے کا حق نہیں رکھتا اور آج کل تو خصوصاً ادیب اور شعرا حضرات خالق کہلاتے ہیں جو ہرگز جائش نہیں کہ خالق صرف اللہ ہے۔ وہ اللہ جو نہ صرف خالق ہے بلکہ تخلیق کے بعد اسے درجہ کمال تک پہنچانا اور باقی رکھنا بھی اسی کا کام ہے خود تم کو بھی اور تمہارے آباؤ اجداد کو بھی اسی نے پیدا فرمایا اور حیات بکشی لیکن انہوں نے ان حقائق کا انکار کیا اور مقابلے کی ٹھانی۔ دنیا میں بھی رسوا ہوئے اور آخرت میں بھی۔ میدان حشر میں پکڑے آئیں گے سوائے اللہ کے کھرے بندوں کے جنہوں نے الیاس (علیہ السلام) کی اطاعت کرلی تھی۔ کیا الیاس (علیہ السلام) زندہ ہیں : یہ عقیدہ کہ الیاس (علیہ السلام) زندہ ہیں اسرائیلی روایات میں سے ہے ایسے ہی خضر (علیہ السلام) کے بارے بھی۔ بےغبار بات یہ ہے کہ وصال کے بعد بعض ارواح کو بھی اللہ کریم فرشتوں کی طرح کسی کام کی ذمہ داری بخش دیتے ہیں جن میں خضر (علیہ السلام) کا واقعہ بھی ہے اور الیاس (علیہ السلام) کے بارے میں بھی۔ بعض اولیاء اللہ کو بھی یہ حال نصیب ہوتا ہے مگر اس میں ان کا کچھ اختیار نہیں ہوتا تعمیل ارشاد کرتے ہیں ہاں عیسیٰ (علیہ السلام) زندہ ہیں آسمانوں پر اور زمین پر تشریف لائیں گے یہ سب ارشادات نبوی سے ثابت ہے۔ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔ چنانچہ ان کا نیک نام ہم نے بعد والوں میں بھی باقی رکھا سلامتی ہو الیاس (علیہ السلام) پر بھی کہ ہم اپنے مخلص بندوں کو یونہی نوازا کرتے ہیں اور وہ ہمارے بہت ہی کھرے بندے تھے۔ اور بیشک حضرت لوط (علیہ السلام) بھی ہمارے رسول تھے انہیں بھی قوم کی طرف سے کس قدر شدید مخالفت اور مظالم کا سامنا کرن اپڑا مگر ہم نے انہیں بھی اور ان کے سب پیروکاروں کو بھی بچا لیا سوائے ان کی اہلیہ کے وہ دل سے پیچھے رہ جانے والوں یعنی کفار کے ساتھ تھی تو عملاً بھی انہیں پیچھے چھوڑ دیا گیا جب یہ حضرات تشریف لے گئے تو ہم نے بعد والوں کو نابود کردیا اور اے اہل عرب تو تم رات دن ان راہوں پہ سفر کرتے ہو جن میں ان کی ویرانی کی داستانیں بکھری پڑی ہیں ان کھنڈرات اور زمین کی الٹ پلٹ کو دیکھ کر تمہیں عقل نہیں آتی۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 114 تا 122 :۔ مننا ( ہم نے احسان کیا ) المستبین (واضح اور صاف صاف) ھدینا (ہم نے ہدایت دی ، رہنمائی کی) ترکنا ( ہم نے چھوڑا) نجزی (ہم بدلہ دیتے ہیں، جزا دیتے ہیں) تشریح : آیت نمبر 114 تا 122 :۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعات کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) و ہارون (علیہ السلام) کے واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں پر بڑے احسان اور کرم فرمائے انہیں اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو جو فرعونوں کے ظلم و ستم کی چکی میں پسے چلے جا رہے تھے نجات عطاء فرمائی اور اس طرح ان کی مدد کی کہ وہی جو انتہائی کمزور اور بےبس ہوچکے تھے ان کو فرعونوں اور قبطیوں کی چھوڑی ہوئی سلطنت اور گھر بار کا وارث ومالک بنا دیا ۔ فرمایا کہ ان کی ہدایت کے لئے اور صراط مستقیم پر قائم رہنے کے لئے ایک روشن اور واضح کتاب عطاء فرمائی تا کہ دنیا کی قوموں میں وہ سر بلند ہو کر جینے کا سلیقہ سیکھ لیں ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کی دن رات کی جدوجہد اور کاوشیں آنے والی نسلوں کے لئے ایک بہترین مثال اور نمونہ ہیں ۔ اللہ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) و ہارون (علیہ السلام) پر سلامتی بھیجتے ہوئے فرمایا کہ ہم نیکو کاروں اور اللہ کی راہ میں سر توڑ کوششیں کرنے والوں کو اسی طرح اجر عظیم عطاء کیا کرتے ہیں کیونکہ وہ موسیٰ و ہارون دونوں مومن اور ایمان دار بندے تھے اس لئے ان کی ہر کوشش اللہ کے ہاں ایک عظیم مقام رکھتی ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولقد مننا علی موسی۔۔۔۔۔ عبادنا المؤمنین (114 – 122) ۔ قصہ موسیٰ کی اس جھلک میں یہ دکھایا گیا ہے کہ اللہ نے ان پر احسان کیا کہ ان کو منصب نبوت کے لیے منتخب کیا اور ان کے ذریعہ ان کو اور ان کی قوم کو نجات دی اور یہ نجات ان کو اس عظیم اذیت سے دلائی جس میں وہ اور ان کی قوم مبتلا تھے۔ دوسری سورتوں میں اس کی تفصیلات دی گئی ہیں۔ یہاں صرف یہ کہا کہ ظالموں اور جلادوں پر ان کو نصرت اور غلبہ دیا گیا اور ان کو واضح احکام پر مشتمل کتاب دی گئی اور ان کو صراط مستقیم کی ہدایت دی گئی۔ وہ راستہ جو اللہ تمام اہل ایمان کو عطا کرتا ہے یعنی اسلامی نظام زندگی اور ان پر یہ احسان کہ موسیٰ و ہارون کے ذکر کو دوام بخشا گیا۔ اس حصے کا خاتمہ بھی موسیٰ اور ہارون پر اللہ کی طرف سے سلامتی کے اظہار سے ہوتا ہے۔ یہ مختصر اور پرتاثیر فقرے بار بار دہرائے جاتے ہیں۔ یہ جتانے کے لیے کہ اللہ اپنے محسن بندوں پر احسان بھی کرتا ہے اور ان کے ذکر کو دوام بھی بخشتا ہے۔ اور یہ بتانے کے لیے کہ اہل ایمان کی قدر و قیمت ان کے ایمان اور اسلام کی وجہ سے ہوتی ہے یعنی احسان کی وجہ سے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کا تذکرہ ان آیات میں حضرت موسیٰ اور ان کے بھائی حضرت ہارون (علیہ السلام) کا تذکرہ فرمایا ہے۔ اول تو یہ فرمایا کہ ہم نے ان دونوں پر احسان کیا یعنی نبوت عطا کی اور اس بڑے انعام سے نوازا اور اس کے علاوہ بھی دوسری نعمتیں عطا فرمائیں، انہیں نعمتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انہیں اور ان کی قوم کو بڑی بےچینی سے نجات دی کیونکہ یہ لوگ مصر میں رہتے تھے جہاں کا صاحب اقتدار فرعون تھا وہ بڑا ظالم تھا اس کی حکومت میں بنی اسرائیل عاجز محض بنے ہوئے تھے (جو حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کی قوم کے لوگ تھے) فرعون ان کے لڑکوں تک کو ذبح کردیتا تھا اور یہ چوں بھی نہیں کرسکتے تھے۔ اس سے بڑی بےچینی اور مظلومیت کیا ہوگی، اللہ تعالیٰ نے اس بےچینی سے ان کو نجات دی، ان لوگوں کی مدد فرمائی۔ دریا سے پار کردیا، یہ لوگ غالب ہوئے اور فرعون اور اس کے لشکر مغلوب ہوئے جو دریا میں غرق ہو کر ہلاک ہوگئے۔ (وَاٰتَیْنَاھُمَا الْکِتٰبَ الْمُسْتَبِیْنَ ) (اور ہم نے انہیں واضح کتاب دی) یعنی توریت شریف عطا فرمائی جس میں واضح طور پر احکام شرعیہ بیان فرمائے (وَھَدَیْنَاھُمَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ) (اور ہم نے ان دونوں کو صراط مستقیم کی ہدایت دی) جس پر وہ قائم رہے اور بنی اسرائیل کو بھی اسی کی دعوت دیتے رہے۔ (وَتَرَکْنَا عَلَیْہِمَا فِی الْاٰخِرِیْنَ سَلاَمٌ عَلٰی مُوْسٰی وَھَارُوْنَ ) (اور ہم نے بعد کے آنے والوں میں ان کے بارے میں یہ بات رہنے دی کہ سلام ہو موسیٰ اور ہارون پر (چنانچہ ان کے بعد آنے والے ساری امتیں خاص کر امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والتحیہ برابر دعا وسلام کے ساتھ ان کے نام لیتی ہے یعنی انہیں لفظ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ یاد کرتی ہے) (اِِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ اِِنَّہُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ ) (بیشک ہم مخلصین کو اسی طرح صلہ دیا کرتے ہیں بلاشبہ وہ دونوں ہمارے مومن بندوں میں سے ہیں۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

51:۔ ولقد مننا الخ : یہ تیسرا اور چوتھا قصہ ہے۔ حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) کی قوم کو فرعون نے غلام بنا رکھات تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اور ان کی قوم کو فرعون کی غلامی سے نجات دی اور پھر فرعون کے لشکر سے دریا میں معجزانہ راستے بنا کر ان کو بچایا۔ وہ تو خود مصائب میں خداوند تعالیٰ کے محتاج ہیں اسلیے شفیع غالب کس طرح ہوسکتے ہیں۔ مننا میں احسان سے دینی اور دنیوی احسانات مراد ہیں انعمنا علیہما بالنبوۃ وغیرہا من المنافع الدینیۃ والدنیویۃ (روح ج 23 ص 138) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(114) اور یقینا ہم نے موسیٰ اور ہارون پر احسان فرمایا۔ جیسا کہ سورة طٰہٰ میں گزر چکا ہے۔ ولقد سننا علیک مرۃ اخری۔