Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 12

سورة الصافات

بَلۡ عَجِبۡتَ وَ یَسۡخَرُوۡنَ ﴿۪۱۲﴾

But you wonder, while they mock,

بلکہ تو تعجب کر رہا ہے اور یہ مسخرا پن کر رہے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Nay, you wondered while they mock. means, `you were astounded, O Muhammad, at these people who denied the resurrection whilst you were certain that it is true, when they disbelieved in what Allah told you of this wondrous matter, which is the re-creation of their bodies after they have disintegrated. They oppose what you say because of their intense disbelief and they make fun of what you tell them about that.' Qatadah said, "Muhammad was astounded by the mockery of the misguided ones among the sons of Adam." وَإِذَا ذُكِّرُوا لاَإ يَذْكُرُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

12۔ 1 یعنی آپ کو تو منکرین آخرت کے انکار پر تعجب ہو رہا ہے کہ اس کے امکان بلکہ وضاحت کے اتنے واضح دلائل کے باوجود وہ اسے مان کر نہیں دے رہے اور وہ آپ کے دعوائے قیامت کا مذاق اڑا رہے ہیں کہ یہ کیوں کر ممکن ہے ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨] یعنی آپ کو اللہ کے ایسے عظیم تخلیقی کارنامے سن کر تعجب ہوتا ہے مگر یہ لوگ نہایت بےفکری اور لاپروائی سے ایسی محیرا لعقول نشانیوں کا مذاق اڑا دیتے ہیں یا آپ کو اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ یہ کس قدر بےحس اور ناانصاف لوگ ہیں کہ اللہ کی ایسی واضح قدرتیں بھی ان پر کچھ اثر نہیں کرتیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

بَلْ عَجِبْتَ : یہاں ایک سوال ہے کہ یہاں ” بَلْ “ لانے کا کیا فائدہ ہے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ” فَاسْتَفْتِهِمْ “ (ان سے پوچھ) کہ تمہیں دوبارہ پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے یا جو کچھ ہم پیدا کرچکے ؟ جواب اس کا اس کے سوا ہو ہی نہیں سکتا کہ یقیناً وہ سب کچھ انسان کے دوبارہ پیدا کرنے سے زیادہ مشکل ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے شروع میں بیان فرمایا ہے۔ چناچہ اس سوال کا مقصد انھیں لاجواب کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔ اتنے واضح دلائل کے باوجود یہ لوگ قیامت سے انکار کیوں کرتے ہیں، یہ بات انسان کی سمجھ میں نہیں آسکتی، بلکہ اے نبی یا اے مخاطب ! اس پر تجھے تعجب ہوتا ہے اور تعجب ہونا بھی چاہیے، کیونکہ بات ہی تعجب کی ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَاِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ ءَاِذَا كُنَّا تُرٰبًا ءَاِنَّا لَفِيْ خَلْقٍ جَدِيْدٍ ڛ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ الْاَغْلٰلُ فِيْٓ اَعْنَاقِهِمْ ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ ) [ الرعد : ٥ ] ” اور اگر تو تعجب کرے تو ان کا یہ کہنا بہت عجیب ہے کہ کیا جب ہم مٹی ہوجائیں گے تو کیا واقعی ہم یقیناً ایک نئی پیدائش میں ہوں گے۔ یہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب کا انکار کیا اور یہی ہیں جن کی گردنوں میں طوق ہوں گے اور یہی آگ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ “ وَيَسْخَرُوْنَ : یعنی تجھے ان پر تعجب ہوتا ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ جب دلائل سے لاجواب ہوتے ہیں تو مذاق اڑاتے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

As for the reaction of disbelievers on rational proofs, it was said: بَلْ عَجِبْتَ وَيَسْخَرُ‌ونَ وَإِذَا ذُكِّرُ‌وا لَا يَذْكُرُ‌ونَ (But you wonder [ at their denial ], and they mock [ at the idea of an Hereafter ]. And when any advice is given to them, they pay no heed to it. – 12-13). Given here first is the stance of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) who wonders as to how could these people, after having such clear proofs before them, still remain reluctant to accept the truth while these people, on the contrary, indulge in making fun of the proofs and beliefs presented by him before them. In fact, no amount of advice and counsel given to them works. They are just averse to any understanding.

(آیت) بل عجبت ویسخرون، و اذا ذکروا لا یذکرون، یعنی آپ کو تو ان لوگوں پر یہ تعجب ہوتا ہے کہ کیسے واضح دلائل سامنے آنے کے باوجود یہ لوگ نہیں مان رہے، لیکن یہ الٹا آپ کے دلائل و عقائد کا مذاق اڑاتے ہیں، اور انہیں کتنا ہی سمجھا لو سمجھ کر نہیں دیتے، رہے نقلی دلائل، سو اس کے بارے میں ان کا ردعمل یہ ہے کہ :

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

بَلْ عَجِبْتَ وَيَسْخَرُوْنَ۝ ١٢۠ عجب العَجَبُ والتَّعَجُّبُ : حالةٌ تعرض للإنسان عند الجهل بسبب الشیء، ولهذا قال بعض الحکماء : العَجَبُ ما لا يُعرف سببه، ولهذا قيل : لا يصحّ علی اللہ التَّعَجُّبُ ، إذ هو علّام الغیوب لا تخفی عليه خافية . يقال : عَجِبْتُ عَجَباً ، ويقال للشیء الذي يُتَعَجَّبُ منه : عَجَبٌ ، ولما لم يعهد مثله عَجِيبٌ. قال تعالی: أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا [يونس/ 2] ، تنبيها أنهم قد عهدوا مثل ذلک قبله، وقوله : بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ [ ق/ 2] ، وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد/ 5] ، ( ع ج ب ) العجب اور التعجب اس حیرت کو کہتے ہیں جو کسی چیز کا سبب معلوم نہ ہونے کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوجاتی ہے اسی بنا پر حکماء نے کہا ہے کہ عجب اس حیرت کو کہتے ہیں جس کا سبب معلوم نہ ہو اس لئے اللہ تعالیٰ پر تعجب کا اطلاق جائز نہیں ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ تو علام الغیوب ہے اس بنا پر کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے عجبت عجبا ( س ) میں نے تعجب کیا عجب ہر وہ بات جس سے تعجب پیدا ہوا اور جس جیسی چیز عام طور نہ دیکھی جاتی ہوا ہے عجیب کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا[يونس/ 2] کیا لوگوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ ہم نے وحی بھیجی ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ آنحضرت کی طرف وحی بھیجنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ پہلے سے سلسلہ وحی کو جانتے ہیں نیز فرمایا : ۔ بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ [ ق/ 2] بلکہ ان لوگوں نے تعجب کیا ہے کہ انہی میں سے ایک ہدایت کرنے والا ان کے پاس آیا ۔ وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد/ 5] اور اگر تم عجیب بات سننی چاہو تو کافروں کا یہ کہنا عجیب ہے ۔ سخر التَّسْخِيرُ : سياقة إلى الغرض المختصّ قهرا، قال تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية/ 13] ( س خ ر ) التسخیر ( تفعیل ) کے معنی کسی کو کسی خاص مقصد کی طرف زبر دستی لیجانا کے ہیں قرآن میں ہے وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية/ 13] اور جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اس نے ( اپنے کرم سے ) ان سب کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

آپ تو ان کے جھٹلانے پر تعجب کرتے ہیں اور یہ منکر آپ کی اور آپ کی کتاب کے ساتھ مذاق کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢{ بَلْ عَجِبْتَ وَیَسْخَرُوْنَ } ” بلکہ (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ تعجب کرتے ہیں اور یہ لوگ تمسخر کرتے ہیں ! “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بجا طور پر ان کے رویے ّپر تعجب ہوتا ہے یہ سوچتے ہوئے کہ میں تو انہیں اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دیتا ہوں ‘ انہیں توحید کی طرف بلاتا ہوں ‘ اس توحید کی طرف جس کا ایک واضح تصور ہر انسان کی فطرت کے اندر پیدائشی طور پر بھی موجود ہے ‘ جبکہ یہ لوگ میری ان باتوں پر غور کرنے اور میری اس دعوت کو قبول کرنے کے بجائے اُلٹا اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:12) بل۔ صاحب روح المعانی (رح) رقمطراز ہیں :۔ کہ بل اضراب کے لئے ہے۔ لیکن علامہ پانی پتی (رح) تفسیر مظہری میں فرماتے ہیں :۔ بل ابتدائیہ ہے کلام سابق سے گریز کے لئے نہیں ہے بلکہ ایک مقصد سے دوسرے مقصد کی جانب انتقال مطلوب ہے۔ یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور کفار کی حالت بیان کرنا ہے “ یعنی ایک طرف تعجب اور دوسری طرف مذاق و تمسخر۔ عجبت۔ عجب یعجب (سمع) مصدر سے ماضی کا صیغہ واحد مذکر حاضر ہے تو نے تعجب کیا۔ تو نے اچنبھا جانا۔ یا بمعنی حال ۔ تو تعجب کرتا ہے۔ تو اچنبھا جانتا ہے۔ عجب اس حالت کو کہتے ہیں کہ جو کسی غیر معمولی بات کو دیکھنے سے انسان کے اندر پیدا ہوجاتی ہے۔ عجیب میں بھی یہی حالت مراد ہوتی ہے۔ لفظ عجب کا اطلاق صرف حالت پر مبنی ہی نہیں ہے بلکہ غیر معمولی چیز پر بھی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :۔ اکان للناس عجبا ان اوحینا الی رجل منہم (10:2) کیا یہ امر لوگون کے لئے عجیب ہے کہ ان میں سے ایک شخص کے پاس ہم نے وحی بھیجی ہے۔ مادہ عجب کا زیادہ تر استعمال و اطلاق زیادہ تر ان چیزوں یا باتوں کے لئے ہوتا ہے جو آدمی کو بہت زیادہ حسین نظر آئیں اور پسندیدہ ہوں۔ اعجبنی کذا۔ مجھے یہ بات بہت پسند آئی۔ (خوبصورت معلوم ہوئی) ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :۔ ومن الناس من یعجبک قولہ (2:204) اور لوگوں میں ایسا آدمی ہے جس کی بات تجھ کو پسند آتی ہے یا اعجب الکفار نباتہ (57:20) کسانوں کو اس کا سبزہ خوش لگا ۔ یا عجب ربکم من شاب : تمہارے رب کو نوجوان کی یہ بات بہت پسند آئی۔ اور اگر کوئی امر بہت برا معلوم ہو تو اس کے لئے بھی لفظ عجب استعمال ہوتا ہے مثلاً عجبت من بخلک وحرصک۔ مجھے تیری کنجوسی اور حرص بہت بری معلوم ہوتی ہے ۔ شاعر کہتا ہے :۔ شیئان عجیبان ہما ابرد من یخ شیخ یتصبی وصبی یتشیخ دو باتیں عجیب (بڑی ناپسندیدہ ) ہیں دونوں برف سے زیادہ ٹھنڈی ہیں۔ ایک وہ بوڑھا جو بچہ بنتا ہے اور دوسرا وہ بچہ جو بوڑھا بنتا ہے۔ اور کبھی کسی چیز کی کثرت ظاہر کرنے کے لئے صیغہ تعجب استعمال کیا جاتا ہے (خواہ وہ برائی کی کثرت ہو یا اچھائی کی) جیسے ما اکرمہ وہ کس قدر سخی ہے اور ما اجھلہ وہ کس قدر جاہل ہے۔ ان مثالوں کا مطلب یہ ہے کہ اس کی سخاوت اور جہالت غیر معمولی اور بےمثال ہے ۔ بعض علماء کے نزدیک کسی چیز کا سبب نہ جاننے کے وقت آدمی کی جو حالت ہوتی ہے اس کو عجب کہتے ہیں۔ اس بنیاد پر عجب کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں کی جاسکتی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا علم محیط کل ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ کسی چیز کو بڑا جاننے کے وقت آدمی کی جو حالت ہوجاتی ہے اس کو عجب کہتے ہیں۔ ان دونوں تشریحوں کا مآل کوئی نیا نہیں ہے بلکہ دونوں کا مطلب وہی نکلتا ہے جو پہلے ذکر کردیا گیا ۔ کہ غیر معمولی چیز کو دیکھنے سے انسان کی جو حالت ہوتی ہے اس کو عجب کہتے ہیں۔ کیونکہ آدمی بڑا اس چیز کو سمجھے گا جو غیر معمولی ہوگی اور جس چیز کا سبب معلوم نہ ہو وہ بھی غیر معمولی ہوتی ہے (تفسیر مظہری) ۔ عجبت میں خطاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے اس تعجب اور کفار مکہ کے مذاق کی کئی صورتیں ہیں۔ مثلاً :۔ (1) آپ کو یقین تھا کہ قرآن جیسی منزل من اللہ کتاب جو معجزہ سے کم نہیں اس کو سن کر ہر سننے والا ایمان لے آئے گا۔ لیکن آپ کو تعجب ہے کہ یہ مشرکین نہ صرف ایمان نہیں لاتے بلکہ الٹا مذاق کرتے ہیں۔ (2) باوجودیکہ یہ لوگ آپ کو صادق وامین مانتے ہیں اور آپ کی صداقت کے بارہ میں معجزات بھی دیکھ چکے ہیں۔ (مثلاً شق القمر وغیرہ) لیکن تعجب ہے کہ پھر بھی آپ کی تکذیب کرتے ہیں اور آپ کی باتوں کا تمسخر اڑاتے ہیں :۔ (3) باوجودیکہ خداوند تعالیٰ کی قدرت کے نمونے از قسم تخلیق زمین و آسمان ، ماہ ہ مہر، ملائکہ جن وانس۔ ان کی نظروں کے سامنے ہیں اور وہ یہ مانتے بھی ہیں کہ سب اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں لیکن تعجب ہے کہ بعث بعد الموت کے منکر ہیں۔ (4) آپ کے تعجب کا مذاق اڑاتے ہیں۔ یسخرون۔ مضارع جمع مذکر غائب سخر (باب سمع) سے مصدر، وہ مذاق بناتے ہیں وہ ٹھٹھہ کرتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 تعجب کرنے سے مراد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کے کرشموں پر تعجب کرنا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

بل عجبت ویسخرون۔۔۔۔۔ ایۃ یستخرون (37: 12 – 14) ” تم حیران ہو اور یہ مذاق اڑا رہے ہیں۔ سمجھایا جاتا ہے تو سمجھ کر نہیں دیتے۔ کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو اسے ٹھٹھہ میں اڑا دیتے ہیں “۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تو حق ہے کہ آپ ان کے معاملات پر تعجب کریں۔ کیونکہ آپ تو اللہ کو اپنے قلب میں پاتے ہیں۔ جس طرح ہر مومن پاتا ہے اور اللہ کی آیات کو واضح طور پر دیکھتا ہے۔ جو اس کائنات میں ہر طرف بکھری پڑی ہیں۔ آپ کو اس پر تعجب ہے کہ ان آیات اور نشانیوں کو دیکھتے ہوئے کس طرح ایک شخص اندھا ہوسکتا ہے اور کس طرح اس قسم کا جاہلانہ موقف اختیار کرسکتا ہے۔ ادھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے رویہ کی وجہ سے انگشت بدنداں ہیں ، ادھر ان کی حالت یہ ہے کہ مسئلہ کی اس قدر وضاحت کے باوجود ، عقیدہ توحید اور بعث بعد الموت کے مسائل کے واضح ہونے کے باوجود ان کے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں ان کی فطرت مسخ ہوچکی ہے۔ اور وہ مذاق کرتے ہیں ۔ بلکہ وہ مذاق طلب کرتے ہیں ۔ دوسروں کو بھی مذاق کی دعوت دیتے ہیں۔ لفظ (یستخرون) سے اس کا اظہار ہوتا ہے۔ ان کے مذاق اور نافہمی کا ایک نمونہ یہ ہے کہ یہ لوگ قرآن مجید کو جادو کہتے ہیں اور اس بات پر تعجب کرتے ہیں کہ قرآن کریم موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کے نظریہ کی دعوت دیتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(بَلْ عَجِبْتَ وَیَسْخَرُوْنَ ) (بلکہ یہ بات ہے کہ آپ تو ان کے انکار پر تعجب کرتے ہیں کیونکہ یہ قدرت الٰہیہ کے منکر ہیں اور یہ لوگ تمسخر کرتے ہیں مذاق بناتے ہیں)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

6:۔ بل عجبت الخ :۔ یہ فاستفتہم سے اضراب ہے۔ یعنی چھورئیے ان سے اس سوال کا کیا فائدہ ؟ وہ انتہاء درجہ کے معاند ہیں۔ ایسے واضح اور پختہ دلائل کو بھی وہ کافی نہیں سمجھتے۔ بلکہ ان دلائل کے حسن اور ان کی قطعیت پر آپ تو متعجب اور خوش ہیں لیکن وہ ظالم ضد وعناد میں آ کر ماننے کے بجائے آپ سے اور قرآن سے استہزاء کر رہے ہیں۔ بل عجبت مما نزل علیک من القرا و ھم یسخرون بہ (قرطبی ج 15 ص 69) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(12) بلکہ آپ تو تعجب کرتے ہیں اور وہ لوگ مذاق اڑاتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی تجھ کو ان سے تعجب آتا ہے کہ ایمان کیوں نہیں لاتے اور ان کو تجھ سے ٹھٹا۔