Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 142

سورة الصافات

فَالۡتَقَمَہُ الۡحُوۡتُ وَ ہُوَ مُلِیۡمٌ ﴿۱۴۲﴾

Then the fish swallowed him, while he was blameworthy.

تو پھر انہیں مچھلی نے نگل لیا اور وہ خود اپنے آپ کو ملامت کرنے لگ گئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Then a (big) fish swallowed him as he had done an act worthy of blame. Then Allah commanded a large fish from the Green Sea (i.e., Mediterranean Sea) to cleave the oceans and come and swallow Yunus, peace be upon him, without cutting his flesh or breaking his bones. The fish came and Yunus, peace be upon him, threw himself overboard, and the fish swallowed him and took him away, traveling through all the seas with him. When Yunus had stayed for some time in the fish's belly, he thought that he had died; then he moved his head and legs and arms, and saw that he was alive. He prayed in the belly of the fish, and one of the things he said in his main prayer was: "O Lord, I have taken as a place of worship to You a place which no other person has reached." They differed as to how long he spent in the belly of the fish. Some said three days; this was the view of Qatadah. Some said seven days; this was the view of Ja`far As-Sadiq, may Allah be pleased with him. Some said forty days; this was the view of Abu Malik. Mujahid said, narrating from Ash-Sha`bi, "It swallowed him in the morning and cast him forth in the evening." And Allah knows best how long exactly was. Allah says, فَلَوْلاَ أَنَّهُ كَانَ مِنْ الْمُسَبِّحِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

142۔ 1 حضرت یونس (علیہ السلام) عراق کے علاقے نینوی (موجودہ موصل) میں نبی بنا کر بھیجے گئے، یہ آشوریوں کا پایہ تخت تھا، انہوں نے ایک لاکھ بنواسرائیلیوں کو قیدی بنایا ہوا تھا، چناچہ ان کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف حضرت یونس (علیہ السلام) کو بھیجا، لیکن یہ قوم آپ پر ایمان نہ لائی۔ بالآخر اپنی قوم کو ڈرایا کہ عنقریب تم عذاب الٰہی کی گرفت میں آجاؤ گے۔ عذاب میں تاخیر ہوئی تو اللہ کی اجازت کے بغیر ہی اپنے طور پر وہاں سے نکل گئے اور سمندر پر جا کر ایک کشتی میں سوار ہوگئے۔ اپنے علاقے سے نکل کر جانے کو ایسے لفظ سے تعبیر کیا جس طرح ایک غلام اپنے آقا سے بھاگ کر چلا جاتا ہے۔ کیونکہ آپ بھی اللہ کی اجازت کے بغیر ہی اپنی قوم کو چھوڑ کر چلے گئے۔ کشتی سواروں اور سامان سے بھری ہوئی تھی۔ کشتی سمندر کی موجوں میں گھر گئی اور کھڑی ہوگئی۔ چناچہ اس کا وزن کم کرنے کے لئے ایک آدھ آدمی کو کشتی سے سمندر میں پھینکنے کی تجویز سامنے آئی تاکہ کشتی میں سوار دیگر انسانوں کی جانیں بچ جائیں۔ لیکن قربانی دینے کے لئے کوئی تیار نہیں تھا اس لئے قرعہ اندازی کرنی پڑی، جس میں حضرت یونس (علیہ السلام) کا نام آیا۔ اور وہ مغلوبین میں سے ہوگئے، یعنی طوحًا و کرھًا اپنے آپ کو بھاگے ہوئے غلام کی طرح سمندر کی موجوں کے سپرد کرنا پڑا۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے مچھلی کو حکم دیا کہ وہ انہیں ثابت نگل لے اور یوں حضرت یونس (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے مچھلی کے پیٹ میں چلے گئے

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٣] مُلِیْمٌکا معنی وہ شخص ہے جس کا ضمیر خود ہی ملامت کر رہا ہو کہ وہ واقعی مجرم ہے اور کوئی ملامت کرے یا نہ کرے۔ اور سیدنا یونس کو اپنی اجتہادی غلطی کا احساس بھاگنے کے فوراً بعد ہی ہوگیا تھا۔ اور قرعہ میں ہر بار آپ کا نام نکلنے پر اس کا یقین ہوگیا۔ [٨٤] چناچہ آپ مچھلی کے پیٹ میں چلے جانے کے بعد اپنے پروردگار کے حضور توبہ استغفار میں مشغول رہنے لگے۔ مچھلی کے پیٹ کی تاریکیوں میں آپ کا وظیفہ یہ ہوتا تھا۔ (لاَاِلٰہَ الاَّ أنْتَ سُبْحَانَکَ إنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمیْن) َجیسا کہ سورة انبیاء کی آیت نمبر ٨٧ میں مذکور ہے۔ اگر آپ یہ کلمات تسبیحات نہ پڑھتے رہتے تو ہمیشہ مچھلی کے پیٹ میں ہی رہتے یعنی اس کی غذا بن کر اس کے جسم میں تحلیل ہوجاتے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَالْتَقَمَهُ الْحُوْتُ وَهُوَ مُلِـيْمٌ : ” الْحُوْتُ “ مچھلی۔ اکثر بڑی مچھلی کو ” حُوت “ کہا جاتا ہے۔ ” مُلِـيْمٌ“ ” أَلَامَ یُلِیْمُ “ (افعال) ملامت والا کام کرنا، ملامت کا مستحق ہونا۔ ” مُلِـيْمٌ“ ملامت کا مستحق، خواہ اسے ملامت کی جائے یا نہ کی جائے۔ جب یونس (علیہ السلام) کو سمندر میں پھینکا گیا تو اللہ کے حکم سے ایک بڑی مچھلی نے انھیں سالم نگل لیا۔ مستحق ملامت اس لیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر قوم سے نکل آئے تھے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَالْتَقَمَہُ الْحُوْتُ وَہُوَمُلِـيْمٌ۝ ١٤٢ لقم لُقْمَانُ : اسم الحکيم المعروف، واشتقاقه يجوز أن يكون من : لَقِمْتُ الطّعام أَلْقَمُهُ وتَلَقَّمْتُهُ ، ورجل تَلْقَامٌ: كثير اللُّقَمِ ، واللَّقَمُ أصله الملتقم، ويقال لطرف الطریق : اللَّقَمُ. ( ل ق م ) لقمان مشہور حکیم کا نام ہے ہوسکتا ہے کہ یہ بھی لقمت الطعام القمہ وتلقمتہ سے مشتق ہو جس کے معنی کسی چیز کو ہڑپ کو جانا کے ہیں ۔ رجل تلقام ۔ بڑے بڑے لقمے نگلنے والا ۔ اللقیم ۔ لوالا اور راستہ کی ایک جانب کو لقم کہاجاتا ہے ۔ حوت قال اللہ تعالی: نَسِيا حُوتَهُما[ الكهف/ 61] ، وقال تعالی: فَالْتَقَمَهُ الْحُوتُ [ الصافات/ 142] ، وهو السّمک العظیم، إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعاً [ الأعراف/ 163] ، وقیل : حاوتني فلان، أي : راوغني مراوغة الحوت . ( ح وت ) الحوت بڑی مچھلی کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ نَسِيا حُوتَهُما[ الكهف/ 61] تو اپنی مچھلی بھول گئے فَالْتَقَمَهُ الْحُوتُ [ الصافات/ 142] پھر مچھلی نے ان کو نگل لیا ۔ اس کی جمع حیتان آتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعاً [ الأعراف/ 163] اس وقت کے ان کے ہفتے کے دن مچھلیاں ان کے سامنے پانی کے اوپر آتیں ۔ اور مچھلی چونکہ رخ بدلتی رہتی ہے اس لئے کہا جاتا ہے حاوتنی فلان اس نے مجھے مچھلی کی طرح ہو کا دیا ۔ لوم اللَّوْمُ : عذل الإنسان بنسبته إلى ما فيه لوم . يقال : لُمْتُهُ فهو مَلُومٌ. قال تعالی: فَلا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنْفُسَكُمْ [إبراهيم/ 22] ، فَذلِكُنَّ الَّذِي لُمْتُنَّنِي فِيهِ [يوسف/ 32] ، وَلا يَخافُونَ لَوْمَةَ لائِمٍ [ المائدة/ 54] ، فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ [ المؤمنون/ 6] ، فإنه ذکر اللّوم تنبيها علی أنه إذا لم يُلَامُوا لم يفعل بهم ما فوق اللّوم . ( ل و م ) لمتہ ( ن ) لوما کے معنی کسی کو برے فعل کے ارتکاب پر برا بھلا کہنے اور ملامت کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَلا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنْفُسَكُمْ [إبراهيم/ 22] تو آج مجھے ملامت نہ کرو ا پنے آپ ہی کو ملامت کرو ۔ فَذلِكُنَّ الَّذِي لُمْتُنَّنِي فِيهِ [يوسف/ 32] یہ وہی ہے جس گے بارے میں تم ۔ مجھے طعنے دیتی تھیں ۔ وَلا يَخافُونَ لَوْمَةَ لائِمٍ [ المائدة/ 54] اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں ۔ اور ملوم ( ملامت کیا ہوا ) صفت مفعولی ۔ ہے اور آیت کریمہ : فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ [ المؤمنون/ 6] ان سے مباشرت کرنے میں انہیں ملامت نہیں ہے ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ جب ان پر ملامت ہی نہیں ہے ۔ تو اس سے زیادہ سرزنش کے وہ بالاولےٰ مستحق نہیں ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٢{ فَالْتَقَمَہُ الْحُوْتُ وَہُوَ مُلِیْمٌ } ” تو اس کو نگل لیا مچھلی نے اور وہ ملامت زدہ تھا۔ “ یہ کوئی بہت بڑی وہیل مچھلی ہوگی۔ آج تو ہم مچھلیوں کی بہت سی ایسی اقسام کو بخوبی جانتے ہیں جو بڑی آسانی سے ایک ہی لقمے میں انسان کو نگل سکتی ہیں۔ وَہُوَ مُلِیْمٌ کے الفاظ میں ناراضگی اور خفگی کا انداز پایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے اللہ کے ہاں ع ” جن کے رتبے ہیں سوا ‘ ان کی سوا مشکل ہے “ کے مصداق کسی بہت بڑی شخصیت کی چھوٹی سی غلطی پر بھی بہت سخت گرفت ہوتی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

79 This is what one understands from a study of these sentences: (1) The vessel which the Prophet Jonah boarded was already overloaded. (2) Lots were drawn in the vessel probably at a time when during the voyage it was felt that the lives of the passengers had been endangered due to the overloading; therefore, lots were cast to pick oat a person to be thrown overboard. (3) The lot fell on the Prophet Jonah, and so he was thrown into the sea. and a fish swallowed him. (4) The Prophet Jonah was so afflicted because he had fled and abandoned the place of his mission without the permission of his Master (Allah Almighty). This meaning is confirmed by the word abaqa as has been explained in E.N. 78 above, and also by the word mulim. Mulim IS a blameworthy person, who becomes worthy of blame by himself because of his sin and error, whether somebody else blames himfor it or not. (Ibn Jarir).

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :79 ان فقروں پر غور کرنے سے جو صورت واقعہ سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ: ( 1 ) حضرت یونس جس کشتی میں سوار ہوئے تھے وہ اپنی گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی ( Overloaded ) تھی ۔ ( 2 ) قرعہ اندازی کشتی میں ہوئی ، اور غالباً اس وقت جب بحری سفر کے دوران میں یہ محسوس ہوا کہ بوجھ کی زیادتی کے سبب سے تمام مسافروں کی جان خطرے میں پڑ گئی ہے ۔ لہٰذا قرعہ اس غرض کے لیے ڈالا گیا کہ جس کا نام قرعہ میں نکلے اسے پانی میں پھینک دیا جائے ۔ ( 3 ) قرعہ میں حضرت یونس ہی کا نام نکلا ، وہ سمندر میں پھینک دیے گئے اور ایک مچھلی نے ان کو نگل لیا ۔ ( 4 ) اس ابتلا میں حضرت یونس اس لیے مبتلا ہوئے کہ وہ اپنے آقا ( یعنی اللہ تعالیٰ ) کی اجازت کے بغیر اپنے مقام ماموریت سے فرار ہو گئے تھے ۔ اس معنی پر لفظ اَبَقَ بھی دلالت کرتا ہے جس کی تشریح اوپر حاشیہ نمبر 78 میں گزرچکی ہے ، اور اسی معنی پر لفظ مُلِیْم بھی دلالت کرتا ہے ۔ مُلیم ایسے قصور وار آدمی کو کہتے ہیں جو اپنے قصور کی وجہ سے آپ ہی ملامت کا مستحق ہو گیا ہو ، خواہ اسے ملامت کی جائے یا نہ کی جائے ( یقال قد الام الرجل اذا اتیٰ ما یلام علیہ من الامر و ان لم یُلِم ۔ ابن جریر )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:142) التقمہ۔ ماضی واحد مذکر غائب التقم یلتقم التقام (افتعال) نگلنا۔ یا لقمہ کرنا۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب (کا مرجع حضرت یونس علیہ السلام) ۔ الحوت مچھلی (عام طور پر بڑی مچھلی کو حوت کہتے ہیں ) (بڑی مچھلی نے) نگل لیا۔ اس کا لقمہ کرلیا۔ (ثابت نگل لیا) ۔ وھو ملیم۔ وائو حالیہ ہے، جملہ حالیہ ہے۔ ملیم الامۃ (افعال سے ) اسم فاعل واحد مذکر۔ ملامت یا لوم کا مستحق، سزاوار ملامت، ات بما یلام علیہ۔ ایسا کام کرنے والا جس پر ملامت کی جائے۔ لامہ ویلومہ۔ (باب نصر) لوم وملام وملامۃ ملامت کرنا۔ اس باب سے صفت فاعلی لائم۔ اور صفت مفعولی ملیم ہوگی ! باب افعال سے الامۃ سے صفت فاعلی اور صفت مفعولی ملام۔ آیت ہذا میں باب افعال سے آیا ہے۔ وھو ملیم درآنحالیکہ وہ (اپنے آپ کو) ملامت کر رہا تھا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 کہ وہ ناحق اپنی قوم سے ناراض ہو کر اور اپنے آقا کے حکم کا انتظار کئے بغیر بھاگ کھڑے ہوئے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(142) پھر اس کو مچھلی نے نگل لیا اور وہ الزام خوردہ اور پشیمان تھا۔ یعنی الزام وہی کہ بلا اجازت شہر سے کیوں نکل گئے اور عذاب کی تاریخ بلااجازت کیوں معین فرمائی۔ بہرحال ! مچھلی نے نگل لیا اور مچھلی کو یہ حکم ہوا کہ یہ تیری غذا نہیں ہے تیرا پیٹ فقط اس کے لئے قربی خانہ ہے جو تیرے پیٹ میں اس طرح محفوظ رہے جس طرح بچہ ماں کے پیٹ میں محفوظ رہتا ہے چناچہ مچھلی دریا میں اپنا منہ باہر نکال کر چلتی تھی تاکہ یونس کا دم نہ گھٹے حضرت یونس ان اندھیروں میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے تھے جیسا کہ سورہانبیاء میں گزر چکا ہے۔