Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 144

سورة الصافات

لَلَبِثَ فِیۡ بَطۡنِہٖۤ اِلٰی یَوۡمِ یُبۡعَثُوۡنَ ﴿۱۴۴﴾ۚ ؒ

He would have remained inside its belly until the Day they are resurrected.

تو لوگوں کے اٹھائے جانے کے دن تک اس کے پیٹ میں ہی رہتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Had he not been of them who glorify Allah, He would have indeed remained inside its belly (the fish) till the Day of Resurrection. It was said that, if he had not already done righteous deeds during his time of ease. This was the view of Ad-Dahhak bin Qays, Abu Al-`Aliyah, Wahb bin Munabbih, Qatadah and others, and it was the view favored by Ibn Jarir. This is what is indicated in the authentic Hadith which we quote below, if Allah wills. In a Hadith narrated from Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, he said: تَعَرَّفْ إِلَى اللهِ فِي الرَّخَاءِ يَعْرِفْكَ فِي الشِّدَّة Remember Allah during times of ease and He will remember you during times of difficulty. And it was said that what was meant by the Ayah: فَلَوْلاَ أَنَّهُ كَانَ مِنْ الْمُسَبِّحِينَ (Had he not been of them who glorify Allah), was the meaning of the following Ayat: فَنَادَى فِى الظُّلُمَـتِ أَن لاَّ إِلَـهَ إِلاَّ أَنتَ سُبْحَـنَكَ إِنِّى كُنتُ مِنَ الظَّـلِمِينَ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَـهُ مِنَ الْغَمِّ وَكَذلِكَ نُنجِـى الْمُوْمِنِينَ But he cried through the darkness (saying): "La ilaha illa Anta, You are glorified! Truly, I have been of the wrongdoers." So We answered his call, and delivered him from the distress. And thus We do deliver the believers. (21:87-88) This was the view of Sa`id bin Jubayr and others. Ibn Abi Hatim recorded that Anas bin Malik, may Allah be pleased with him -- and I do not know of anything narrated from Anas that he did not attribute to the Messenger of Allah: إِنَّ يُونُسَ النَّبِيَّ عَلَيْهِ الصَّلَةُ وَالسَّلَمُ حِينَ بَدَا لَهُ أَنْ يَدْعُوَ بِهَذِهِ الْكَلِمَاتِ وَهُوَ فِي بَطْنِ الْحُوتِ فَقَالَ اللْهُمَّ لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ فَأَقْبَلَتِ الدَّعْوَةُ تَحُفُّ بِالْعَرْشِ قَالَتِ الْمَلَأيِكَةُ يَا رَبِّ هَذَا صَوْتٌ ضَعِيفٌ مَعْرُوفٌ مِنْ بِلَأدٍ بَعِيدَةٍ غَرِيبَةٍ فَقَالَ اللهُ تَعَالَى أَمَا تَعْرِفُونَ ذَلِكَ قَالُوا يَا رَبِّ وَمَنْ هُوَ قَالَ عَزَّ وَجَلَّ عَبْدِي يُونُسُ قَالُوا عَبْدُكَ يُونُسُ الَّذِي لَمْ يَزَلْ يُرْفَعُ لَهُ عَمَلٌ مُتَقَبَّلٌ وَدَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ قَالُوا يَا رَبِّ أَوَلاَا تَرْحَمُ مَا كَانَ يَصْنَعُ فِي الرَّخَاءِ فَتُنْجِيَهُ فِي الْبَلَاءِ قَالَ بَلَى فَأَمَرَ الْحُوتَ فَطَرَحَهُ بِالْعَرَاء When it occurred to the Prophet Yunus, upon him be peace, to call upon Allah in these words when he was in the belly of the great fish, he said, "La ilaha illa Anta, You are glorified! Truly, I have been of the wrongdoers." This call went and hovered around the (mighty) Throne, and the angels said, "O Lord, this is the voice of one who is weak but known, in a faraway strange land. Allah, may He be exalted, said, "How do you know this?" They said, "O Lord, who is he?" Allah, may He be exalted, said, "My servant Yunus." They said, "Your servant Yunus, from whom there kept coming acceptable deeds and supplications which were answered!" They said, "O Lord, will You not have mercy on him for what he did during his time of ease, and save him from this trial and tribulation?" He said, "Of course." So, He commanded the great fish, and it cast him forth on the naked shore. Allah says:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

144۔ 1 یعنی توبہ استغفار اور اللہ کی تسبیح بیان نہ کرتے، (جیسا کہ انہوں نے کہا (وَدَاوٗدَ وَسُلَيْمٰنَ اِذْ يَحْكُمٰنِ فِي الْحَرْثِ اِذْ نَفَشَتْ فِيْهِ غَنَمُ الْقَوْمِ ۚ وَكُنَّا لِحُـكْمِهِمْ شٰهِدِيْنَ ) 21 ۔ الانبیاء :78) تو قیامت تک وہ مچھلی کے پیٹ میں ہی رہتے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٥] مچھلی کے پیٹ سے باہر آنا :۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی توبہ و استغفار کو قبول فرمایا اور مچھلی کو حکم دیا کہ وہ انہیں ساحل کے کنارے پر پھینک دے۔ چناچہ مچھلی نے جیسے آپ کو نگلا تھا ویسے ہی صحیح وسالم ایک چٹیل میدان کے قریب اگل دیا۔ آپ اس وقت سخت نحیف و ناتواں تھے۔ جلد بھی بہت نرم و نازک بن گئی تھی۔ اس وقت آپ کی وہی حالت تھی جیسے ایک بچہ کی ماں کے پیٹ سے نکلنے کے بعد ہوتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَـلَبِثَ فِيْ بَطْنِہٖٓ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ۝ ١٤٤ۚ لبث لَبِثَ بالمکان : أقام به ملازما له . قال تعالی: فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت/ 14] ، ( ل ب ث ) لبث بالمکان کے معنی کسی مقام پر جم کر ٹھہرنے اور مستقل قیام کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت/ 14] تو وہ ان میں ۔ ہزار برس رہے ۔ بطن أصل البَطْن الجارحة، وجمعه بُطُون، قال تعالی: وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهاتِكُمْ [ النجم/ 32] ، وقد بَطَنْتُهُ : أصبت بطنه، والبَطْن : خلاف الظّهر في كلّ شيء، ويقال للجهة السفلی: بَطْنٌ ، وللجهة العلیا : ظهر، وبه شبّه بطن الأمر وبطن الوادي، والبطن من العرب اعتبارا بأنّهم کشخص واحد، وأنّ كلّ قبیلة منهم کعضو بطن وفخذ وكاهل، وعلی هذا الاعتبار قال الشاعر : 58- النّاس جسم وإمام الهدى ... رأس وأنت العین في الرأس «1» ويقال لكلّ غامض : بطن، ولكلّ ظاهر : ظهر، ومنه : بُطْنَان القدر وظهرانها، ويقال لما تدرکه الحاسة : ظاهر، ولما يخفی عنها : باطن . قال عزّ وجلّ : وَذَرُوا ظاهِرَ الْإِثْمِ وَباطِنَهُ [ الأنعام/ 120] ، ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأنعام/ 151] ، والبَطِين : العظیم البطن، والبَطِنُ : الكثير الأكل، والمِبْطَان : الذي يكثر الأكل حتی يعظم بطنه، والبِطْنَة : كثرة الأكل، وقیل : ( البطنة تذهب الفطنة) «2» . وقد بَطِنَ الرجل بَطَناً : إذا أشر من الشبع ومن کثرة الأكل، وقد بَطِنَ الرجل : عظم بطنه، ومُبَطَّن : خمیص البطن، وبَطَنَ الإنسان : أصيب بطنه، ومنه : رجل مَبْطُون : علیل البطن، والبِطانَة : خلاف الظهارة، وبَطَّنْتُ ثوبي بآخر : جعلته تحته . ( ب ط ن ) البطن اصل میں بطن کے معنی پیٹ کے ہیں اس کی جمع بطون آتی ہے قرآں میں ہے ؛{ وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ } ( سورة النجم 32) اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے ۔ بطنتۃ میں نے اس کے پیٹ پر مارا ۔ البطن ہر چیز میں یہ ظھر کی ضد ہے اور ہر چیز کی نیچے کی جہت کو بطن اور اویر کی جہت کو ظہر کہا جاتا ہے اسی سے تشبیہ کہا جاتا ہے ؛۔ بطن الامر ( کسی معاملہ کا اندرون ) بطن الوادی ( وادی کا نشیبی حصہ ) اور بطن بمعنی قبیلہ بھی آتا ہے اس اعتبار سے کہ تمام عرب کو بمنزلہ ایک شخص کے فرض کیا جائے ہیں اور ہر قبیلہ بمنزلہ بطن مخذ اور کاہل ( کندھا) وغیرہ اعضاء کے تصور کیا جائے ۔ اسی بناء پر شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) (57) الناس جسم اومامھم الھدیٰ راس وانت العین فی الراس ( کہ لوگ بمنزلہ جسم ہیں اور امام ہدی بمنزلہ سر ہے مگر تم سر میں آنکھ ہو ۔ اور ہر پیچیدہ معاملہ کو بطن اور جلی اور یہاں کو ظہر کہا جاتا ہے ۔ اسی سے بطنان القدر وظھرانھا کا محاورہ ہے ۔ یعنی دیگ کی اندرونی اور بیرونی جانب ۔ ہر اس چیز کو جس کا حاسہ بصر سے ادراک ہو سکے اسے ظاہر اور جس کا حاسہ بصر سے ادراک نہ ہوسکے اسے باطن کہا جاتا ہے قرآن میں ہے :۔ وَذَرُوا ظاهِرَ الْإِثْمِ وَباطِنَهُ [ الأنعام/ 120] اور ظاہری اور پوشیدہ ( ہر طرح کا ) گناہ ترک کردو ۔ ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأنعام/ 151] ظاہری ہوں یا پوشیدہ ۔ البطین کلاں شکم ۔ البطن بسیار خور المبطان جس کا بسیار خوری سے پیٹ بڑھ گیا ہو ۔ البطنۃ بسیارخوری ۔ مثل مشہور ہے ۔ البطنۃ نذھب الفطنۃ بسیار خوری ذہانت ختم کردیتی ہے ۔ بطن الرجل بطنا شکم پری اور بسیار خوری سے اتراجانا ۔ بطن ( ک ) الرجل بڑے پیٹ والا ہونا ۔ مبطن پچکے ہوئے پیٹ والا ۔ بطن الرجل مرض شکم میں مبتلا ہونا اس سے صیغہ صفت مفعولی مبطون مریض شکم آتا ہے ۔ البطانۃ کے معنی کپڑے کا استریا اس کے اندورنی حصہ کے ہیں اور اس کے ضد ظہارۃ ہے ۔ جس کے معنی کپڑے کا اوپر کا حصہ یا ابرہ کے ہیں اور بطنت ثوبی باٰ خر کے معنی ہیں میں نے ایک کپڑے کو دوسرے کے نیچے لگایا ۔ بعث أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة/ 6] ، زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن/ 7] ، ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان/ 28] ، فالبعث ضربان : - بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة . - وإلهي، وذلک ضربان : - أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس «3» ، وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد . والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] ، يعني : يوم الحشر، وقوله عزّ وجلّ : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة/ 31] ، أي : قيّضه، وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل/ 36] ، نحو : أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون/ 44] ، وقوله تعالی: ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] ، وذلک إثارة بلا توجيه إلى مکان، وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل/ 84] ، قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام/ 65] ، وقالعزّ وجلّ : فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة/ 259] ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام/ 60] ، والنوم من جنس الموت فجعل التوفي فيهما، والبعث منهما سواء، وقوله عزّ وجلّ : وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة/ 46] ، أي : توجههم ومضيّهم . ( ب ع ث ) البعث ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بھیجنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا ۔ يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة/ 6] جس دن خدا ان سب کو جلا اٹھائے گا ۔ زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن/ 7] جو لوگ کافر ہوئے ان کا اعتقاد ہے کہ وہ ( دوبارہ ) ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے ۔ کہدو کہ ہاں ہاں میرے پروردیگا رکی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤگے ۔ ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان/ 28] تمہارا پیدا کرنا اور جلا اٹھا نا ایک شخص د کے پیدا کرنے اور جلانے اٹھانے ) کی طرح ہے پس بعث دو قسم پر ہے بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا دوم بعث الہی یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة/ 31] اب خدا نے ایک کوا بھیجا جو زمین کو کرید نے لگا ۔ میں بعث بمعنی قیض ہے ۔ یعنی مقرر کردیا اور رسولوں کے متعلق کہا جائے ۔ تو اس کے معنی مبعوث کرنے اور بھیجنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل/ 36] اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا ۔ جیسا کہ دوسری آیت میں أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون/ 44] فرمایا ہے اور آیت : ۔ ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] پھر ان کا جگا اٹھایا تاکہ معلوم کریں کہ جتنی مدت وہ ( غار میں ) رہے دونوں جماعتوں میں سے اس کو مقدار کس کو خوب یاد ہے ۔ میں بعثنا کے معنی صرف ۃ نیند سے ) اٹھانے کے ہیں اور اس میں بھیجنے کا مفہوم شامل نہیں ہے ۔ وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل/ 84] اور اس دن کو یا د کرو جس دن ہم ہر امت میں سے خود ان پر گواہ کھڑا کریں گے ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام/ 65] کہہ و کہ ) اس پر بھی ) قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ عذاب بھیجے ۔ فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة/ 259] تو خدا نے اس کی روح قبض کرلی ( اور ) سو برس تک ( اس کو مردہ رکھا ) پھر اس کو جلا اٹھایا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے اور جو کبھی تم دن میں کرتے ہو اس سے خبر رکھتا ہے پھر تمہیں دن کو اٹھادیتا ہے ۔ میں نیند کے متعلق تونی اور دن کو اٹھنے کے متعلق بعث کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ نیند بھی ایک طرح کی موت سے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة/ 46] لیکن خدا نے ان کا اٹھنا ( اور نکلنا ) پسند نہ کیا ۔ میں انبعاث کے معنی جانے کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٤{ لَلَبِثَ فِیْ بَطْنِہٖٓ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ } ” تو اس کے پیٹ ہی میں رہتا اس دن تک کہ جس میں لوگ اٹھائے جائیں گے۔ “ یعنی اگر آپ ( علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کی تسبیح (آیت ِکریمہ کا ورد) نہ کرتے تو قیامت تک اس مچھلی کے پیٹ ہی میں رہتے (اُس کا پیٹ ہی آپ ( علیہ السلام) کے لیے قبر بنا رہتا) اور قیامت کے دن وہیں سے آپ ( علیہ السلام) اٹھائے جاتے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

81 This does not mean that the fish would have lived till Resurrection and the Prophet Jonah would have remained alive in its belly till then, but that the fish's belly would have become his grave till Resurrection. The famous commentator Qatadah has given this same meaning of this verse. (Ibn Jarir).

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :81 اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ مچھلی قیامت تک زندہ رہتی اور حضرت یونس علیہ السلام قیامت تک اس کے پیٹ میں زندہ رہتے ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت تک اس مچھلی کا پیٹ ہی حضرت یونس علیہ السلام کی قبر بنا رہتا ۔ مشہور مفسر قتادہ نے اس آیت کا یہی مطلب بیان کیا ہے ( ابن جریر ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:144) للبثت میں لام جواب شرط میں سے ہے۔ لبث ماضی واحد مذکر غائب لبث (باب سمع) مصدر سے۔ تو وہ ضرور پڑا رہتا۔ وہ ٹھہرا رہتا ہے۔ فی بطنہ۔ ای فی بطن الحوت۔ الی یوم یبعثون۔ یبعثون مضارع مجہول جمع مذکر غائب بعث مصدر (باب فتح) سے۔ وہ اٹھائے جائیں گے۔ اس دن تک جب وہ دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے ۔ یعنی یوم قیامت تک، یہاں مراد لفظی معنی نہیں ہے بلکہ طویل مدت مراد ہے۔ جیسے روز مرہ کی بول چال میں ہم کہتے ہیں کہ میں اس کا قیامت تک پیچھا نہیں چھوڑوں گا۔ یعنی طویل مدت تک تیرا پیچھا کروں ۔ یا اس سے مراد یہ ہوسکتا ہے کہ انہیں مچھلی کے پیٹ سے نکلنا نصیب نہ ہوتا اور وہ اس کی غذا بنا دئیے جاتے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی قیامت تک مچھلی کا پیٹ ہی ان کی قبر بنا رہتا۔ ( شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ مطلب یہ کہ پیٹ سے نکلنا میسر نہ ہوتا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(144) تو وہ یونس اس مچھلی کے پیٹ میں اس دن تک ٹھہرا رہتا جس دن کے مردے قبروں سے اٹھائے جائیں گے یعنی قیامت تک۔ مطلب یہ ہے کہ حضرت یونس اگر مچھلی کے پیٹ میں اللہ تعالیٰ کی پاکی نہ بیان کرتے اور لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظلمین۔ نہ کہتے تو قیامت تک مچھلی کے پیش میں رہتے بلکہ اس کی غذا بنا دیئے جاتے اور قیامت میں عا م مردوں کی طرح اٹھائے جاتے یہ مطلب نہیں کہ قیامت تک مچھلی بھی زندہ رہتی اور ان کو پیٹ میں لئے پھرتی۔ کلمہ لا الہ الا انت توحید اور حضرت حق کی پاکی اور استغفار سب کو شامل ہے۔ من المسبحین ایک مطلب یہ ہے کہ چونکہ یونس ہمیشہ سے شکر کرنے والوں عبادت کرنے والوں نماز پڑھنے والوں پاکی بیان کرنے والوں میں سے تھا اس لئے اس ابتلا کے موقع پر اس کی دعا بہت جلد قبول کرلی گئی جیسا کہ حدیث میں ہے کہ جو بندہ اللہ تعالیٰ کو رخا اور آسانی میں یاد رکھنا ہے تو اللہ تعالیٰ مصیبت کے وقت اس کی دعا جلد قبول کرلیتا ہے اور جو بندہ عیش میں اس غافل رہتا ہے تو مصیبت میں اللہ تعالیٰ بھی اس کی دعا قبول کرنے میں تاخیر سے کام لیتا ہے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کا مچھلی کے پیٹ میں کتنے دن رہنا ہوا اس میں مختلف اقوال ہیں تین دن یا سات دن یا چالیس دن۔ حضرت شعبی کا قول ہے کہ دن کے ابتدائی میں حصے میں مچھلی نے نگلا اور دن کے آخری حصے میں اگل دیا یعنی صبح کو پیٹ میں رکھا اور شام کو اگل دیا۔ (واللہ اعلم)