Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 146

سورة الصافات

وَ اَنۡۢبَتۡنَا عَلَیۡہِ شَجَرَۃً مِّنۡ یَّقۡطِیۡنٍ ﴿۱۴۶﴾ۚ

And We caused to grow over him a gourd vine.

اور ان پر سایہ کرنے والا ایک بیل دار درخت ہم نے اگا دیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And We caused a plant of gourd to grow over him. Ibn Mas`ud and Ibn Abbas, may Allah be pleased with them both, Mujahid, Ikrimah, Sa`id bin Jubayr, Wahb bin Munabbih, Hilal bin Yasaf, Abdullah bin Tawus, As-Suddi, Qatadah, Ad-Dahhak, Ata' Al-Khurasani and several others, all said that; "gourd means squash." Some of them mentioned that the squash has a number of benefits: it grows quickly, its leaves offer shade because of their large size and smooth texture, flies do not come near it, and its fruits provide good nourishment; they may be eaten raw or cooked, and both the pulp and the peel may be eaten. It was reported that the Messenger of Allah used to like squash and would look for it wherever it was on the serving dish. وَأَرْسَلْنَاهُ إِلَى مِيَةِ أَلْفٍ أَوْ يَزِيدُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

146۔ 1 یَقْطِیْنِ ہر اس بیل کو کہتے ہیں جو اپنے تنے پر کھڑی نہیں ہوتی، جیسے لوکی، کدو وغیرہ کی بیل اس چٹیل میدان میں جہاں کوئی درخت تھا نہ عمارت۔ ایک سایہ دار بیل اگا کر ہم نے ان کی حفاظت فرمائی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٦] آپ کی رہائش اور خوراک کا بندوبست :۔ یَقْطِیْنٌکا اطلاق ہر اس پودے پر ہوتا ہے جس کا تنا نہ ہو مثلاً کدو، ککڑی، تربوز وغیرہ اور بالخصوص اس کا اطلاق پیٹھا کدو کی بیل پر ہوتا ہے۔ اور مفسرین کی اکثر رائے کے مطابق یہی پودا وہاں اگ آیا تھا۔ اس کے پتے چوڑے چوڑے ہوتے ہیں جو دھوپ وغیرہ سے سایہ کا کام دیتے ہیں۔ نیز کہتے ہیں کہ مکھی اس پودے کے نزدیک نہیں آتی۔ آپ کی خوراک کا اللہ تعالیٰ نے کیا انتطام فرمایا ؟ کتاب و سنت میں اس کی کوئی صراحت نہیں۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ روزانہ ایک ہرنی آتی جس کا آپ دودھ پی لیتے تھے۔ تاآنکہ چند دنوں میں آپ چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاَنْۢبَتْنَا عَلَيْهِ شَجَرَةً مِّنْ يَّقْطِيْنٍ : ” قَطَنَ بالْمَکَانِ “ (ن) کسی جگہ اقامت اختیار کرنے کو کہتے ہیں۔ ” يَّقْطِيْنٍ “ اس میں سے ” یَفْعِیْلٌ“ کے وزن پر ہے۔ یہ لفظ ہر ایسے پودے پر بولا جاتا ہے جس کا تنا نہ ہو، مثلاً کدو، ککڑی، تربوز اور خربوزہ وغیرہ۔ زیادہ تر پیٹھے کدو کو ” يَّقْطِيْنٍ “ کہتے ہیں، کیونکہ وہ زمین پر پڑا رہتا ہے۔ ” عَلَيْهِ “ کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بیل کا تنا معجزانہ طور پر اونچا کردیا، جس سے یونس (علیہ السلام) پر سایہ ہوگیا، یا وہ بیل کسی اور بلند چیز پر چڑھ کر انھیں سایہ اور غذا مہیا کرتی رہی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Said next, it was: وَأَنبَتْنَا عَلَيْهِ شَجَرَ‌ةً مِّن يَقْطِينٍ (and We caused a tree of gourd to grow over him. - 146). The word: يَقْطِينٍ (yagtin) signifies every such tree that has no trunk. It appears in Hadith narrations that it was a gourd creeper. The purpose of having a tree grow there was to make the provision of shade for Sayyidna Yunus (علیہ السلام) . The word: شَجَرَ‌ةً (shajarah: tree) at this place serves as an indicator of two possibilities: Either Allah had made this very plant of gourd grow with a trunk by way of a miracle, or it was some other tree on which the creeping plant of gourd was made to wind its way up, so that it could provide a thick shade, otherwise, having enough shade from a winding plant alone would have been difficult.

وَاَنْۢبَتْنَا عَلَيْهِ شَجَرَةً مِّنْ يَّقْطِيْنٍ (اور ہم نے ان پر ایک بیلدار درخت بھی اگا دیا تھا) یقطین ہر اس درخت کو کہتے ہیں جس کا تنہ نہ ہو۔ روایات میں ہے کہ یہ کدو کی بیل تھی۔ اس درخت کو اگانے کا منشا یہ تھا کہ حضرت یونس (علیہ السلام) کو سایہ حاصل ہو۔ یہاں شجرة کا لفظ بتارہا ہے کہ یا تو اسی کدو کی بیل کو اللہ نے معجزہ کے طور پر تنہ دار بنادیا تھا، یا کوئی اور درخت تھا جس پر وہ بیل چڑھا دی تھی، تاکہ اس سے گھنا سایہ مل سکے، ورنہ بیل سے سایہ ملنا مشکل تھا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَنْۢبَتْنَا عَلَيْہِ شَجَرَۃً مِّنْ يَّقْطِيْنٍ۝ ١٤٦ۚ نبت النَّبْتُ والنَّبَاتُ : ما يخرج من الأرض من النَّامِيات، سواء کان له ساق کا لشجر، أو لم يكن له ساق کالنَّجْم، لکن اختَصَّ في التَّعارُف بما لا ساق له، بل قد اختصَّ عند العامَّة بما يأكله الحیوان، وعلی هذا قوله تعالی: لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَباتاً [ النبأ/ 15] ومتی اعتبرت الحقائق فإنّه يستعمل في كلّ نام، نباتا کان، أو حيوانا، أو إنسانا، والإِنْبَاتُ يستعمل في كلّ ذلك . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها حَبًّا وَعِنَباً وَقَضْباً وَزَيْتُوناً وَنَخْلًا وَحَدائِقَ غُلْباً وَفاكِهَةً وَأَبًّا[ عبس/ 27- 31] ( ن ب ت ) النبت والنبات ۔ ہر وہ چیز جو زمین سے اگتی ہے ۔ اسے نبت یا نبات کہا جاتا ہے ۔ خواہ وہ تنہ دار ہو جیسے درخت ۔ یا بےتنہ جیسے جڑی بوٹیاں لیکن عرف میں خاص کر نبات اسے کہتے ہیں ہیں جس کے تنہ نہ ہو ۔ بلکہ عوام تو جانوروں کے چاراہ پر ہی نبات کا لفظ بولتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَباتاً [ النبأ/ 15] تاکہ اس سے اناج اور سبزہ پیدا کریں ۔ میں نبات سے مراد چارہ ہی ہے ۔ لیکن یہ اپانے حقیقی معنی کے اعتبار سے ہر پڑھنے والی چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور بناتات حیوانات اور انسان سب پر بولاجاتا ہے ۔ اور انبات ( افعال ) کا لفظ سب چیزوں کے متعلق اسستعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها حَبًّا وَعِنَباً وَقَضْباً وَزَيْتُوناً وَنَخْلًا وَحَدائِقَ غُلْباً وَفاكِهَةً وَأَبًّا[ عبس/ 27- 31] پھر ہم ہی نے اس میں اناج اگایا ور انگور اور ترکاری اور زیتون اور کھجوریں اور گھنے گھے باغ ور میوے ور چارہ ۔ شجر الشَّجَرُ من النّبات : ما له ساق، يقال : شَجَرَةٌ وشَجَرٌ ، نحو : ثمرة وثمر . قال تعالی: إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح/ 18] ، وقال : أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها [ الواقعة/ 72] ، وقال : وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ [ الرحمن/ 6] ، لَآكِلُونَ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ [ الواقعة/ 52] ، إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ [ الدخان/ 43] . وواد شَجِيرٌ: كثير الشّجر، وهذا الوادي أَشْجَرُ من ذلك، والشَّجَارُ الْمُشَاجَرَةُ ، والتَّشَاجُرُ : المنازعة . قال تعالی: حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء/ 65] . وشَجَرَنِي عنه : صرفني عنه بالشّجار، وفي الحدیث : «فإن اشْتَجَرُوا فالسّلطان وليّ من لا وليّ له» «1» . والشِّجَارُ : خشب الهودج، والْمِشْجَرُ : ما يلقی عليه الثّوب، وشَجَرَهُ بالرّمح أي : طعنه بالرّمح، وذلک أن يطعنه به فيتركه فيه . ( ش ج ر ) الشجر ( درخت وہ نبات جس کا تنہ ہو ۔ واحد شجرۃ جیسے ثمر و ثمرۃ ۔ قرآن میں ہے : إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح/ 18] جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے ۔ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها [ الواقعة/ 72] کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ۔ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ [ الرحمن/ 6] اور بوٹیاں اور درخت سجدہ کررہے ہیں ۔ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ [ الواقعة/ 52] ، تھوہر کے درخت سے إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ [ الدخان/ 43] بلاشبہ تھوہر کا درخت گنجان درختوں والی وادی ۔ بہت درختوں والی جگہ ۔ ھذا الوادی اشجر من ذالک اس وادی میں اس سے زیادہ درخت ہیں ۔ الشجار والمشاجرۃ والتشاجر باہم جھگڑنا اور اختلاف کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء/ 65] اپنے تنازعات میں ۔ شجرنی عنہ مجھے اس سے جھگڑا کرکے دور ہٹا دیا یا روک دیا حدیث میں ہے ۔ (189) فان اشتجروا فالسلطان ولی من لا ولی لہ اگر تنازع ہوجائے تو جس عورت کا ولی نہ ہو بادشاہ اس کا ولی ہے الشجار ۔ ہودہ کی لکڑی چھوٹی پالکی ۔ المشجر لکڑی کا اسٹینڈ جس پر کپڑے رکھے یا پھیلائے جاتے ہیں ۔ شجرہ بالرمح اسے نیزہ مارا یعنی نیزہ مار کر اس میں چھوڑ دیا ۔ قطن قال تعالی: وَأَنْبَتْنا عَلَيْهِ شَجَرَةً مِنْ يَقْطِينٍ [ الصافات/ 146] ، والقُطْنُ ، وقَطَنُ الحیوانِ معروفان . ( ق ط ن ) الیقطین : گیارہ بےساقدر خت کدو مانند آں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَنْبَتْنا عَلَيْهِ شَجَرَةً مِنْ يَقْطِينٍ [ الصافات/ 146] اور ان پر کدو کا درخت اگایا ۔ القطن زوئی قطن الحیوان میاں دوران ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٦{ وَاَنْبَتْنَا عَلَیْہِ شَجَرَۃً مِّنْ یَّقْطِیْنٍ } ” تو ہم نے اس کے اوپر یقطین کا ایک پودا اگا دیا۔ “ عربی میں ” یقطین “ ایسے پودے کو کہا جاتا ہے جو کسی تنے پر کھڑا نہیں ہوتا ‘ بلکہ بیل کی شکل میں پھیلتا ہے ‘ جیسے کدو ‘ تربوز ‘ ککڑی وغیرہ۔ ” یقطین “ کے بارے میں ہمارے ایک دوست جناب احمد الدین مارہروی مرحوم کی تحقیق ماہنامہ میثاق (فروری ١٩٨٠ ء) میں شائع ہوئی تھی۔٭ موصوف کا تعلق کراچی سے تھا ‘ محکمہ تعلیم میں ملازم تھے اور اسی ملازمت کے دوران وہ مکران میں بھی رہے۔ میثاق کے مستقل قاری تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے ‘ بہت نیک انسان تھے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ مکران کا ساحل طبعی طور پر ساحل ِعراق سے مشابہ ہے۔ وہاں پر انہوں نے ایک بیل نما پودا دیکھا جسے مقامی زبان میں ” اَگین “ کہا جاتا ہے۔ اس پودے کے پتے بہت بڑے بڑے ہوتے ہیں۔ اس پر گول کدو ّکی شکل کا پھل لگتا ہے جو جسامت میں تربوز کے برابر اور مزے میں ککڑی جیسا ہوتا ہے۔ اس میں شیرینی بھی ہوتی ہے اور پانی کا جزو تو بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس کی بیل زمین پر دور دور تک پھیلی ہوتی ہے جس کے اندر بیک وقت دوچار آدمی اپنے آپ کو بخوبی چھپا سکتے ہیں۔ پتے نہایت چکنے اور ملائم ہوتے ہیں جو نیچے نرم و نازک گدوں اور اوپر اوڑھنے کے لیے ریشمی چادر کا کام دیتے ہیں۔ تری اور خنکی اتنی ہوتی ہے کہ آفتاب کی کرنیں اندر چھپے ہوئے انسان کو تکلیف نہیں دے سکتیں۔ اس کے پتوں میں قدرتی طور پر کوئی اینٹی بیکٹیریا مادہ بھی پایا جاتا ہے ‘ جس کی وجہ سے حشرات الارض حتیٰ کہ سانپ اور بچھو بھی اس سے دور رہتے ہیں۔ جناب احمد الدین مارہروی مرحوم کا خیال تھا کہ یہ وہی پودا ہے جس کا ذکر قرآن میں ” یقطین “ کے نام سے ہوا ہے۔ انہوں نے یہ بھی لکھا تھا کہ اہل مکران کی زبان مسخ شدہ فارسی ہے ‘ لیکن اس میں دوسری زبانوں بالخصوص عربی کے الفاظ بھی ملتے ہیں۔ چناچہ لسانی اور صوتی اعتبار سے یہ بات قرین قیاس ہے کہ یقطین کی ” ق “ مقامی زبان کی ” گ “ سے بدل گئی ہو (جیسے سعودی عرب میں بھی آج کل عوام ” قُمْ “ کو ” گُم “ ہی بولتے ہیں) ‘ ” ی “ الف سے بدل گئی ہو اور ” ط “ کثرتِ استعمال سے حذف ہوگیا ہو۔ اس طرح ہوتے ہوتے اس لفظ نے ” اَگین “ کی صورت اختیار کرلی ہو۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے اس بیل کی صورت میں حضرت یونس (علیہ السلام) کے لیے anti septic ماحول ‘ سایہ ‘ غذائیت اور مٹھاس سے بھر پور پھل کی صورت میں تینوں بنیادی ضرورتیں پوری کردیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

83 The Arabic word yaqtin applies to a tree which does not stand on a stem but grows and spreads like a creeper, e.g. a pumpkin, cucumber, water-melon, etc. In any case, a creeper was produced miraculously, so that its leaves should provide shade to the Prophet Jonah and its fruit should serve him both as food and as shade.

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :83 اصل الفاظ ہیں شَجَرَۃً مِّنْ یَّقْطِیْن ۔ یقطین عربی زبان میں ایسے درخت کو کہتے ہیں جو کسی تنے پر کھڑا نہیں ہوتا بلکہ بیل کی شکل میں پھیلتا ہے ، جیسے ، کدو ، تربوز ، ککڑی وغیرہ بہرحال وہاں کوئی ایسی بیل معجزانہ طریقہ پر پیدا کر دی گئی تھی جس کے پتے حضرت یونس پر سایہ بھی کریں اور جس کے پھل ان کے لیے بیک وقت غذا کا کام بھی دیں اور پانی کا کام بھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:146) وانبتنا علیہ۔ ماضی جمع متکلم۔ انبات (افعال) مصدر سے ہم نے اگایا۔ علیہ اس پر۔ یعنی اس پر سایہ کرنے کیلئے ۔ من یقطین۔ من تبعیضیہ ہے۔ یقطین اسم جنس ہے۔ ایسی نباتات جس کا تنہ نہ ہو۔ مالا ساق لہ من النبات۔ بغوی نے حضرت حسن اور مقاتل کا قول بیان کیا ہے کہ جس درخت کا تنہ نہ ہو اور اس کی بیل زمین پر پھیلتی چلی جائے اور سردی کے زمانہ میں باقی نہ رہے۔ وہ یقطین ہے۔ جیسے کدو۔ کھیرا۔ ککڑی۔ خربوزے کی بیل اکثر علمائے تفسیر نے اس سے مراد کدو کی بیل ہی لیا ہے۔ گو بعج نے اس سے کیلے کا درخت یا انجیر کا درخت بھی مراد لیا ہے۔ یقطین بروزن یفعیل قطن سے ماخوذ ہے۔ قطن بالمکان۔ اس جگہ وہ اقامت پذیر ہوگیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9” یقطین “ ہر ایسے درخت کو کہتے ہیں جو تنے پر کھڑا نہیں ہوتا۔ اس لئے اس سے کھر وغیرہ ہر چیز کی بیل مراد ہوسکتی ہے۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” کہتے ہیں کہ وہ کدو کی بیل تھی “۔ ( موضح) بہر حال اللہ تعالیٰ نے اس چٹیل میدان میں خرق عادت کے طور پر ایک بیل اگا دی جس کے پتوں سے ان پر سایہ بھی ہوتا رہا اور اس کے پھل غذا اور پانی کا کام بھی دیتے رہے۔ ( واللہ اعلم ) (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وانبتنا علیہ شجرۃ من یقطین (37: 146) ” اور ہم نے اس پر ایک بیلدار درخت اگا دیا “۔ اور یہ کدو کی بیل تھی۔ یہ اپنے پھیلے ہوئے بتوں کے ذریعہ انہیں دھوپ سے بچاتی اور یہ ان سے مکھیوں کو بھی دور رکھتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ مکھیاں اس درخت کے قریب نہیں جاتیں۔ یہ اللہ کا لطف و کرم تھا اور معجزانہ تدابیر تھیں۔ جب ان کی صحت لوٹ آئی تو اللہ نے ان کو اپنی اس قوم کھے پاس واپس بھیجا جن سے ناراض ہوکر وہ آگئے تھے۔ حضرت یونس کے بعد یہ لوگ ڈرگئے تھے ، ایمان لے آئے تھے۔ اللہ سے استغفار کیا اور اجتماعی طور پر معافی مانگی اور اللہ نے ان کی دعا قبول کرلی اور ان پر وہ عذاب سنت الہیہ کے مطابق نہ آیا جو مکذبین پر آتا رہتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(146) اور ہم نے اس پر ایک بیل دار درخت اگادیا۔ یعنی مچھلی نے ایک بن گھاس کے میدان میں ان کو اگل دیا اور چونکہ وہ بیمار مضمحل اور ناتواں تھے مچھلی کے پیٹ کی حدت نے اس کو اس قدر گھلا دیا تھا کہ ایک گوشت کا لوتھڑا معلوم ہوتے تھے وہاں ہم نے ان پر کدو کی بیل اگا دی اور وہ اس طرح ان پر چھا گئی کہ مکھی اور مچھر کے ضرر سے محفوظ رہے اور دھوپ سے ان کی حفاظت ہوئی پہاڑی بکری کو حکم دیا گیا جو صبح اور شام ان کو دودھ پلاجایا کرتی تھی۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہتے ہیں وہ کدو کی بیل تھی۔ غرض چند روز میں ان کے جسم میں کھال اور بال وغیرہ جم آئے اور وہ تندرست و توانا ہوگئے فرمایا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہ جب کسی پر سختی اور لا نازل ہو تو اس کے دور کرنے کے لئے میں تم کو بتائوں کہ کیا چیز نافع ہوسکتی ہے صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بتائیے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ حضرت یونس (علیہ السلام) کی دعا ہے جس کے پڑھنے سے بلا دور ہوجاتی ہے بزرگوں سے اس دعا کو پڑھنے کے بہت سے طریقے منقول ہیں۔