Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 170

سورة الصافات

فَکَفَرُوۡا بِہٖ فَسَوۡفَ یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۷۰﴾

But they disbelieved in it, so they are going to know.

لیکن پھر اِس قرآن کے ساتھ کفر کر گئے پس اب عنقریب جان لیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

But they disbelieve therein, so they will come to know! This is a definite and stern threat because of their disbelief in their Lord and their rejection of His Messenger .

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

170۔ 1 یہ تنبہہ ہے کہ جھٹلانے کا انجام عنقریب ان کو معلوم ہوجائے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٥] قریش کا دعویٰ کہ اگر ہمارے پاس نبی آیا ہوتا تو ہم اللہ کے مخلص بندے ہوتے :۔ سیدنا شعیب کے بعد حجاز میں کوئی نبی نہیں آیا تھا۔ یہ لوگ جب سنتے کہ فلاں علاقہ میں فلاں نبی مبعوث ہوا ہے تو بسا اوقات یہ آرزو کیا کرتے کہ اگر ہمارے پاس بھی کوئی نبی آتا اور اللہ کی کتاب نازل ہوتی تو ہم اللہ کے ایسے فرمانبردار بندے بنتے جو دوسرے لوگوں کے لئے ایک مثال ہوتی۔ پھر جب ان کے پاس نبی آخر الزمان آگیا تو اپنے ایسے سب قول وقرار بھول گئے۔ نبی کی تکذیب کی اور اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَكَفَرُوْا بِہٖ فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ۝ ١٧٠ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

چناچہ جب رسول اکرم ان کے پاس تشریف لائے اور قرآن حکیم نازل ہوا تو یہ لوگ انکار کرنے لگے سو عنقریب ان کو انجام معلوم ہوجائے گا کہ مرنے کے وقت اور قبر میں اور قیامت کے دن ان کے ساتھ کیا ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧٠{ فَکَفَرُوْا بِہٖ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْن } ” مگر (اب وہ ذکر آگیا ہے تو) انہوں نے اس کا انکار کردیا ‘ تو عنقریب یہ جان جائیں گے۔ “ قرآن کے انکار اور کفر کی پاداش میں ان کے ساتھ جو کچھ ہونے والا ہے وہ عنقریب اسے خود دیکھ لیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:170) فکفروا بہ : ف فصیحت کا ہے جیسے آیت ان اضرب بعصاک البحر فانفلق (26:63) میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع القرآن ہے۔ ای فجاء ہم ذکر ای ذکر سید الاذکار وکتاب مھین علی سائر الکتب والاخبار فکفروابہ۔ پس جب ان کے پاس وہ ذکر جو سید الاذکا ہے اور وہ کتاب جو جملہ کتب و اخبار کی نگران و مشاہد ہے ان کے پاس آئی تو انہوں نے اس کا انکار کردیا۔ (جملہ جواب شرط ہے) فاسوف یعلمون ای فسوف یعلمون عاقبۃ کفر ھو پس عنقریب ہی ان کے اپنے کفر کا انجام معلوم ہوجائے گا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 یعنی جب یہ کتاب، قرآن ان کے پاس آگئی تو یہ اس سے انکار کرنے پر تل گئے۔11 یعنی اس انکار کا نتیجہ معلوم ہوجائے گا۔ ( قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(170) پھراب یہ لوگ اس کتاب اور اس نبی کا انکار کرنے لگے اور اس سے منکر ہوگئے سو تھوڑے دنوں میں اپنا انجام جان لیں گے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں عرب کے لوگ انبیاء کا نام سنتے تھے ان کے علم سے خبردار نہ تھے تو یہ کہتے تھے اب جو اپنے اندر نبی پیدا ہوا تو پھرگئے۔ یعنی حضور کی بعثت سے پہلے جب انبیائے سابقین کا حال اور ان کی قوموں کی مخالفت کے تذکرے سنتے تو یہ خواہش کرتے کہ اگر ہمارے پاس کوئی ایسی کتاب لاتا جیسی پہلوں کے پاس آئی تھی تو ہم ہرگز اس کی مخالفت نہ کرتے بلکہ ہم تو اھدے من احدی الامم ہوتے لیکن جب کتاب آئی اور رسول لے کر آیا تو اب اس سے منکر ہوگئے اور مخالفت شروع کردی لہٰذا تھوڑے دنوں میں ان کا اپنا انجام معلوم ہوجائے گا یہود و نصاریٰ کے احوال سنتے ہوں گے یا اور دوسرے رسولوں کے تذکرے سنتے ہوں گے بہرحال ! خواہش یہ کرتے تھے مگر کتاب اور رسول کے آتے ہی وہی کرنے لگے جو پہلی امتیں اپنے رسولوں کے ساتھ کیا کرتی تھیں۔