Surat us Saaffaat
Surah: 37
Verse: 18
سورة الصافات
قُلۡ نَعَمۡ وَ اَنۡتُمۡ دَاخِرُوۡنَ ﴿ۚ۱۸﴾
Say, "Yes, and you will be [rendered] contemptible."
آپ جواب دیجئے کہ ہاں ہاں اور تم ذلیل ( بھی ) ہوؤگے ۔
قُلۡ نَعَمۡ وَ اَنۡتُمۡ دَاخِرُوۡنَ ﴿ۚ۱۸﴾
Say, "Yes, and you will be [rendered] contemptible."
آپ جواب دیجئے کہ ہاں ہاں اور تم ذلیل ( بھی ) ہوؤگے ۔
Say: "Yes, and you shall then be humiliated". means, `tell them, O Muhammad: Yes, you will be raised up on the Day of Resurrection, after you have become dust and bones, and you will be humiliated,' i.e., put to shame before His great might. This is like the Ayat: وَكُلٌّ أَتَوْهُ دَخِرِينَ And all shall come to Him, humbled, (27:87) and, إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِى سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَخِرِينَ Verily, those who scorn My worship, they will surely enter Hell in humiliation! (40:60) Then Allah says: فَإِنَّمَا هِيَ زَجْرَةٌ وَاحِدَةٌ فَإِذَا هُمْ يَنظُرُونَ
18۔ 1 جس طرح دوسرے مقام پر بھی فرمایا ( وَكُلٌّ اَتَوْهُ دٰخِرِيْنَ ) 27 ۔ النمل :87) ' سب اس کی بارگاہ میں ذلیل ہو کر آئیں گے
[١٠] انسان کی دوبارہ زندگی کیسے ؟ کفار مکہ کے اس اعتراض اور انکار کو قرآن میں بہت سے مقامات پر ذکر کیا گیا ہے اور اس کا جواب بھی کئی طرح سے دیا گیا ہے اس مقام پر بھی مذکور ہے کہ انسان کی پیدائش مٹی سے ہوئی ہے۔ پھر وہ زندہ ہو کر مٹی یا زمین سے جدا نہیں ہوا بلکہ اس کی تمام تر ضروریات مٹی یا زمین ہی سے وابستہ ہیں۔ مر کر بھی وہ اس مٹی میں دفن ہوگا تو جب گل سڑ کر مٹی بن کر مٹی میں مل جائے گا تو زمین اس کے تحلیل شدہ اجزاء نکال کر باہر نہیں پھینک دے گی۔ بلکہ سنبھال کر اپنے اندر محفوظ رکھے گی پھر انہیں تحلیل شدہ اجزاء کو اللہ تعالیٰ پھر سے اکٹھا کرکے ان اجزاء کو اپنی پہلی حالت میں لے آئے گا۔ اس کی روح پہلے ہی مرتے وقت قبض کرلی تھی۔ اور یہی روح اس کا اصل تشخص ہے جو پہلے ہی اللہ کے قبضہ میں ہے۔ یہی روح اس کے جسم میں ڈال کر اسے پھر سے اٹھا کھڑا کیا جائے گا۔ رہی یہ بات کہ ان کے آباء و اجداد جو مدتوں پہلے مرچکے ان میں سے کوئی بھی زندہ ہوا نہ ان کے پاس واپس آیا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ زمین میں پڑا ہوا بیج پڑا ہی رہتا ہے۔ جب اس کے اگنے کا موقع آتا ہے۔ اگتا وہ اسی وقت ہے پہلے نہیں اگتا۔ اسی طرح جب تمہارے دوبارہ جی اٹھنے کا وقت یا موسم آئے گا اسی وقت تم بھی اور تمہارے آباء و اجداد بھی جی کر زمین سے نکل آؤ گے پہلے نہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ دوبارہ زندہ ہو کر تمہارے پاس نہیں آئیں گے بلکہ تم بھی اور وہ بھی اللہ کے حضور حاضر ہوجاؤ گے۔
قُلْ نَعَمْ : یعنی آپ ان سے کہیں ہاں، تم اور تمہارے باپ دادا مٹی اور ہڈیاں ہونے کے بعد دوبارہ اٹھائے جاؤ گے۔ وَاَنْتُمْ دَاخِرُوْنَ : ” دَخَرَ یَدْخَرُ دُخُوْرًا “ (ف) ذلیل اور حقیر ہونا۔ یعنی تم اس حال میں اٹھائے جاؤ گے کہ اللہ عزوجل کی قدرت کے سامنے بےبس اور حقیر ہو گے۔ تمہارا اٹھنا اختیاری نہیں بلکہ اضطراری ہوگا، یعنی جس طرح تمہاری پیدائش اور موت میں تمہاری اپنی مرضی کا کوئی عمل دخل نہ تھا، اسی طرح تم دوبارہ جی اٹھنے پر بھی مجبور اور بےبس ہو گے، جیسا کہ فرمایا : (وَكُلٌّ اَتَوْهُ دٰخِرِيْنَ ) [ النمل : ٨٧ ] ” اور وہ سب اس کے پاس ذلیل ہو کر آئیں گے۔ “
قُلْ نَعَمْ وَاَنْتُمْ دَاخِرُوْنَ ١٨ۚ نعم (هاں) و «نَعَمْ» كلمةٌ للإيجابِ من لفظ النِّعْمَة، تقول : نَعَمْ ونُعْمَةُ عَيْنٍ ونُعْمَى عَيْنٍ ونُعَامُ عَيْنٍ ، ويصحُّ أن يكون من لفظ أَنْعَمَ منه، أي : أَلْيَنَ وأَسْهَلَ. نعم یہ کلمہ ایجاب ہے اور لفظ نعمت سے مشتق ہے ۔ اور نعم ونعمۃ عین ونعمیٰ عین ونعام عین وغیرہ ان سب کا ماخز نعمت ہی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ تمام مرکبات انعم سے ماخوذ ہوں جس کے معنی نرم اور سہل بنانے کے ہیں ۔ دخر قال تعالی: وَهُمْ داخِرُونَ [ النحل/ 48] ، أي : أذلّاء، يقال : أدخرته فَدَخَرَ ، أي : أذللته فذلّ ، وعلی ذلک قوله : إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ داخِرِينَ [ غافر/ 60] ، وقوله : يَدَّخِرُ أصله : يذتخر، ولیس من هذا الباب . ( د خ ر ) الدخور والد خور ۔ ( ف ) س ) کے معنی ذلیل ہونے کے ہیں کہا جاتا ہے ۔ میں نے اسے ذلیل کیا تو وہ ذلیں ہوگیا قرآن میں ہے وَهُمْ داخِرُونَ [ النحل/ 48] اور وہ ذلیل ہوکر إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ داخِرِينَ [ غافر/ 60] جو لوگ میری عبادت سے از راہ تکبر کنیا تے ہیں عنقریب جہنم میں ذلیل ہوکر داخل ہوں گے ۔ اور یدخر اصل میں یذ تخر تھا ( پہلے تاء کو دال سے تبدیل کیا پھر ذال کو دال کو دال میں ادغام کرکے یدخر بنالیا اور یہ اس باب ( د خ ر ) سے نہیں ہے ۔
آیت ١٨{ قُلْ نَعَمْ وَاَنْتُمْ دَاخِرُوْنَ } ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہیے : ہاں ! (تم اٹھائے بھی جائو گے) اور تم ذلیل بھی ہوگے۔ “ نہ صرف تم سب کو اٹھا لیا جائے گا بلکہ اس وقت تمہیں اپنے اس کفر اور انکار کے باعث ذلت و خواری کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔
11 That is, "Allah can make of you whatever He likes. When He willed, you came into being forthwith; when He wills, you will die at one Command by Him; and then whenever He wills, His one Command will raise you back to lift. "
سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :11 یعنی اللہ جو کچھ بھی تمہیں بنانا چاہے بنا سکتا ہے ۔ جب اس نے چاہا اس کے ایک اشارے پر تم وجود میں آ گئے ۔ جب وہ چاہے گا اس کے ایک اشارے پر تم مر جاؤ گے ۔ اور پھر جس وقت بھی وہ چاہے گا اس کا ایک اشارہ تمہیں اٹھا کھڑا کرے گا ۔
(37:18) قل نعم کہہ دیجئے ہاں (ضرور) ای تبعثون انتم واباء کم الاولون کہ تم بھی دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے جائوں گے اور تمہارے اگلے باپ دادا بھی۔ وانتم داخرون۔ وائو حالیہ ہے انتم سے انتم واباء کم الاولون مراد ہیں یعنی تم اور تمہارے باپ دادا۔ داخرون۔ اسم فاعل کا صیغہ جمع مذکر۔ دخر، دخور مصدر (باب فتح وسمع) ذلیل ہونا۔ داخرون ذلیل ہونے والے۔ یہ جملہ حالیہ ہے یعنی جب تم کو دوبارہ اٹھایا جائے گا تو تمہاری حالت ذلت و خواری کی ہوگی !
ف 6 یا ” ًتم اللہ تعالیٰ کی قدرت کے مقابلہ میں) بےبس اور حقیر ہو۔ جیسے فرمایا : ( وکل اتوہ واخرین) اور سب اس کے حضور بےبس ہو کر حاضر ہوں گے۔ ( نمل : 87)
1۔ جو شخص دلیل کے بعد بھی عنادا انکار کرے اس کے لئے ایسا ہی جواب زیبا ہے۔
ق اگر یہ لوگ اس جہاں میں ان مشاہدات پر ٹھنڈے دل سے غوروفکر نہیں کرتے اور صحیح نتیجے پر پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے۔ تو اللہ تعالیٰ ان کے سامنے یہ ہولناک منظر پیش فرماتا ہے کہ اب یہ لوگ گویا موت کے بعد اٹھا دئیے گئے ہیں۔ قیامت کے اس منظر کی تصویر کشی اس قدر خوفناک انداز میں کی گئی ہے کہ اس میں دو ماہی بےآب کی طرح مضطرب نظر آتے ہیں۔ ۔ قل نعم وانتم داخرون (18) ” “۔ ہاں تم اور تمہارے آباؤواجدادازمنہ قدیم والے بھی اٹھا ئے جائیں گے ۔ اور نہایت ہی بےبسی کی حالت میں ، ذلیل اور گرفتار کرکے ، یوں کہ سرتابی کی مجال نہ ہوگی۔ اور یہ کس طرح ہوگا ۔ ذرا دیکھو اس منظر کو اب قیامت کا ایک طویل منظر پیش کیا جاتا ہے ۔ اس منظر کے پیش کرنے کا اسلوب منضرو ہے ۔ زندہ اور متحرک ہے ۔ مکالمے اور حرکات سے بھرپور ہے ۔ کبھی بیانیہ انداز کلام ہے اور کبھی مکالمے کی شکل میں ہے اور کبھی واقعات پر بیچ میں تبصرہ آجاتا ہے ۔ چناچہ کلام کے اعلیٰ ترین خصوصیات پر یہ منظر مشتمل ہے
(قُلْ نَعَمْ وَاَنْتُمْ دَاخِرُوْنَ ) (آپ فرما دیجیے کہ ہاں تم ذلیل بھی ہوگے) یعنی تمہارے انکار کے باوجود تمہیں قیامت میں زندہ ہونا ہے اور قبروں سے اٹھنا ہے، تمہارے پرانے باپ دادے بھی زندہ کیے جائیں گے اور قبروں سے اٹھیں گے اور تم ذلیل بھی ہوگے، حق بات تمہارے سامنے آتی ہے تو اس کے منکر ہوجاتے ہو، اس دن منکر اور کافر کی ذلت یقینی ہے۔