Commentary After having shown the possibility and proof of &Akhirah or Hereafter, Allah Ta’ ala has described some events relating to Resurrection in these verses. Given in the first verse (19) is the mode in which the dead will rise again. It was said: فَإِنَّمَا هِيَ زَجْرَةٌ وَاحِدَةٌ, it will be only a single [ castigating ] Call and all of a sudden they will begin to see - 37:19). The word: زَجْرَةٌ (Zajrah) is a noun derived from زَجر (zajr), and it is used to carry many meanings in the Arabic language. Out of these, one meaning is: &To utter such sounds which, when heard by cattle, would motivate them to rise and get moving.& Here, it means the second Sur (Horn or Trumpet) that will be blown by the angel, Sayyidna Israfilll. Hence, it has been expressed as &zajrah& for the reason that the way some sounds are produced to prompt cattle to rise and get moving, very similarly, this Sur will be blown to make the dead rise. Though Allah Ta’ ala is, in His infinite power, inherently capable of making the dead rise again without having the صُور Sur blown, yet this صُور Sur will be blown in order to highlight the awe of the Resurrection (Tafsir Kabir). Its effect on the disbelievers has been identified as: فَإِذَا هُمْ يَنظُرُونَ all of a sudden they will begin to see - 37:19), that is, the way they could see in the mortal world, in the same way, they would be able to see there. Some other commentators have explained it by saying that, overtaken by wonder, they will start looking at each other. (Qurtubi)
خلاصہ تفسیر پس قیامت تو بس ایک للکار ہوگی (یعنی دوسرا صور) سو (اس سے) سب یکایک (زندہ ہو کر) دیکھنے بھالنے لگیں گے اور (حسرت سے) کہیں گے ہائے ہماری کم بختی یہ تو وہی روز جزا (معلوم ہوتا) ہے (ارشاد ہوگا کہ ہاں) یہ وہی فیصلہ کا دن ہے جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے (آگے قیامت ہی کے بعض واقعات کی تفصیل ہے کہ فرشتوں کو حکم ہوگا) جمع کرلو ظالموں کو (یعنی جو کفر و شرک کے بانی اور مقتدا تھے) اور ان کے ہم مشربوں کو (یعنی جو ان کے ساتھ تابع تھے) اور ان معبودوں کو جن کی وہ لوگ خدا کو چھوڑ کر عبادت کیا کرتے تھے (یعنی شیاطین اور بت) پھر ان سب کو دوزخ کا رستہ بتلاؤ (یعنی ادھر لے جاؤ) اور (پھر یہ حکم ہوگا کہ اچھا) ان کو (ذرا ٹھہراؤ ان سے کچھ پوچھا جائے گا (چنانچہ ان سے یہ سوال ہوگا) کہ اب تم کو کیا ہوا کہ (عذاب کا حکم سن کر) ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے (یعنی کافروں کے بڑے بڑے رہنما انسان ہو یا شیاطین اپنے تابعین کی مدد نہیں کرتے، جس طرح دنیا میں ان کو بہکایا کرتے تھے ؟ مگر سوال کے بعد بھی وہ مدد نہ کرسکیں گے) بلکہ وہ سب کے سب اس روز سرافگندہ (کھڑے) ہوں گے۔ معارف ومسائل آخرت کے امکان و ثبوت کے بعد باری تعالیٰ نے ان آیتوں میں حشر و نشر کے کچھ واقعات بیان فرمائے ہیں، اور دوبارہ زندہ ہونے کے بعد کافروں اور مسلمانوں کو جو حالات پیش آئیں گے ان کا تذکرہ فرمایا ہے۔ سب سے پہلی آیت میں مردوں کے زندہ ہونے کا طریق کار بیان فرمایا ہے کہ فانما ھی زجرة واحدة (یعنی قیامت تو بس ایک للکار ہوگی، زجرة کا لفظ زجر کا اسم مرہ ہے اور اس کے عربی زبان میں کئی معنی آتے ہیں۔ ان میں ایک معنی ہیں ” مویشیوں کو چلنے پر آمادہ کرنے کے لئے ایسی آوازیں نکالنا جنہیں سن کر وہ اٹھ کھڑے ہوں “ یہاں اس سے مراد وہ دوسرا صور ہے جو حضرت اسرافیل (علیہ السلام) مردوں کو زندہ کرنے کے لئے پھونکیں گے، اور اسے ” زجرة “ سے اس لئے تعبیر کیا گیا ہے کہ جس طرح مویشیوں کو اٹھا کر چلانے کے لئے کچھ آوازیں نکالی جاتی ہیں اسی طرح مردوں کو زندہ کرنے کے لئے یہ صور پھونکا جائے گا۔ (تفسیر قرطبی) اگرچہ باری تعالیٰ اس پر بھی قادر ہے کہ صور پھونکے بغیر مردوں کو زندہ کر دے، لیکن یہ صور حشر ونشر کے منظر کو پرہیبت بنانے کے لئے پھونکا جائے گا (تفسیر کبیر) اس صور پھونکنے کا اثر کافروں پر یہ ہوگا کہ (آیت) فاذا ھم ینظرون (پس اچانک وہ دیکھنے بھالنے لگیں گے) یعنی جس طرح دنیا میں وہ دیکھنے پر قادر تھے اسی طرح وہاں بھی دیکھ سکیں گے، اور بعض مفسرین نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ وہ حیرانی کے عالم میں ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں گے۔ (قرطبی)