Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 19

سورة الصافات

فَاِنَّمَا ہِیَ زَجۡرَۃٌ وَّاحِدَۃٌ فَاِذَا ہُمۡ یَنۡظُرُوۡنَ ﴿۱۹﴾

It will be only one shout, and at once they will be observing.

وہ تو صرف ایک روز کی جھڑکی ہے کہ یکایک یہ دیکھنے لگیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

It will be a single Zajrah, and behold, they will be staring! means, it will be a single command from Allah, He will call them once to come forth from the earth, then they will be standing before Him, staring at the horrors of the Day of Resurrection. And Allah knows best.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

19۔ 1 یعنی وہ اللہ کے ایک ہی حکم اور اسرافیل (علیہ السلام) کی ایک ہی پھونک (نفخہ ثانیہ) سے قبروں سے زندہ ہو کر نکل کھڑے ہونگے۔ 19۔ 2 یعنی ان کے سامنے قیامت کے ہولناک مناظر اور میدان محشر کی سختیاں ہوں گی جنہیں وہ دیکھیں گے، نفخے یا چیخ کو زجرہ (ڈانٹ) سے تعبیر کیا، کیونکہ اس سے مقصود ڈانٹ ہی ہے

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١] یعنی تمہارے دوبارہ جی اٹھنے کا موسم یا وقت وہ ہوگا جب دوسری بار صور پھونکا جائے گا۔ صور کی آواز بالکل ایک ڈانٹ کی طرح ہوگی۔ جیسے کوئی شخص سوئے ہوئے آدمی کو ڈانٹ کر کہتا ہے اب اٹھتے کیوں نہیں ہو اتنا دن چڑھ آیا ہے۔ تو وہ خواہ کیسی گہری نیند لے رہا ہو، بیدار ہوجاتا ہے۔ یہی تمہاری کیفیت ہوگی۔ اور تمہاری یہ کیفیت اختیاری نہیں بلکہ اضطراری ہوگی۔ یعنی جس طرح تمہاری پیدائش اور تمہاری موت میں تمہاری اپنی مرضی کا کوئی عمل دخل نہ تھا اسی طرح تم دوبارہ جی اٹھنے پر بھی مجبور اور بےبس ہوگے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاِنَّمَا هِىَ زَجْرَةٌ وَّاحِدَةٌ : اس سے مراد دوسرا نفخہ ہے۔ یعنی انھیں دوبارہ اٹھانے کے لیے اللہ تعالیٰ کو کسی خاص اہتمام کی ضرورت نہیں ہوگی، بلکہ صور کی ایک پھونک ایسی زبردست ڈانٹ اور اٹھ جانے کا اعلان ہوگی کہ سب قبروں سے نکل کر زمین کے اوپر ہوں گے، جیسا کہ فرمایا : (فَاِنَّمَا ھِيَ زَجْرَةٌ وَّاحِدَةٌ۔ فَاِذَا هُمْ بالسَّاهِرَةِ ) [ النازعات : ١٣، ١٤ ] ” پس وہ تو صرف ایک ہی ڈانٹ ہوگی۔ پس یک لخت وہ زمین کے اوپر ہوں گے۔ “ فَاِذَا هُمْ يَنْظُرُوْنَ : یعنی اس ایک ہی ڈانٹ سے سب مردے خواہ مٹی ہوچکے ہوں، یکایک زندہ ہو کر قیامت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary After having shown the possibility and proof of &Akhirah or Hereafter, Allah Ta’ ala has described some events relating to Resurrection in these verses. Given in the first verse (19) is the mode in which the dead will rise again. It was said: فَإِنَّمَا هِيَ زَجْرَ‌ةٌ وَاحِدَةٌ, it will be only a single [ castigating ] Call and all of a sudden they will begin to see - 37:19). The word: زَجْرَ‌ةٌ (Zajrah) is a noun derived from زَجر (zajr), and it is used to carry many meanings in the Arabic language. Out of these, one meaning is: &To utter such sounds which, when heard by cattle, would motivate them to rise and get moving.& Here, it means the second Sur (Horn or Trumpet) that will be blown by the angel, Sayyidna Israfilll. Hence, it has been expressed as &zajrah& for the reason that the way some sounds are produced to prompt cattle to rise and get moving, very similarly, this Sur will be blown to make the dead rise. Though Allah Ta’ ala is, in His infinite power, inherently capable of making the dead rise again without having the صُور Sur blown, yet this صُور Sur will be blown in order to highlight the awe of the Resurrection (Tafsir Kabir). Its effect on the disbelievers has been identified as: فَإِذَا هُمْ يَنظُرُ‌ونَ all of a sudden they will begin to see - 37:19), that is, the way they could see in the mortal world, in the same way, they would be able to see there. Some other commentators have explained it by saying that, overtaken by wonder, they will start looking at each other. (Qurtubi)

خلاصہ تفسیر پس قیامت تو بس ایک للکار ہوگی (یعنی دوسرا صور) سو (اس سے) سب یکایک (زندہ ہو کر) دیکھنے بھالنے لگیں گے اور (حسرت سے) کہیں گے ہائے ہماری کم بختی یہ تو وہی روز جزا (معلوم ہوتا) ہے (ارشاد ہوگا کہ ہاں) یہ وہی فیصلہ کا دن ہے جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے (آگے قیامت ہی کے بعض واقعات کی تفصیل ہے کہ فرشتوں کو حکم ہوگا) جمع کرلو ظالموں کو (یعنی جو کفر و شرک کے بانی اور مقتدا تھے) اور ان کے ہم مشربوں کو (یعنی جو ان کے ساتھ تابع تھے) اور ان معبودوں کو جن کی وہ لوگ خدا کو چھوڑ کر عبادت کیا کرتے تھے (یعنی شیاطین اور بت) پھر ان سب کو دوزخ کا رستہ بتلاؤ (یعنی ادھر لے جاؤ) اور (پھر یہ حکم ہوگا کہ اچھا) ان کو (ذرا ٹھہراؤ ان سے کچھ پوچھا جائے گا (چنانچہ ان سے یہ سوال ہوگا) کہ اب تم کو کیا ہوا کہ (عذاب کا حکم سن کر) ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے (یعنی کافروں کے بڑے بڑے رہنما انسان ہو یا شیاطین اپنے تابعین کی مدد نہیں کرتے، جس طرح دنیا میں ان کو بہکایا کرتے تھے ؟ مگر سوال کے بعد بھی وہ مدد نہ کرسکیں گے) بلکہ وہ سب کے سب اس روز سرافگندہ (کھڑے) ہوں گے۔ معارف ومسائل آخرت کے امکان و ثبوت کے بعد باری تعالیٰ نے ان آیتوں میں حشر و نشر کے کچھ واقعات بیان فرمائے ہیں، اور دوبارہ زندہ ہونے کے بعد کافروں اور مسلمانوں کو جو حالات پیش آئیں گے ان کا تذکرہ فرمایا ہے۔ سب سے پہلی آیت میں مردوں کے زندہ ہونے کا طریق کار بیان فرمایا ہے کہ فانما ھی زجرة واحدة (یعنی قیامت تو بس ایک للکار ہوگی، زجرة کا لفظ زجر کا اسم مرہ ہے اور اس کے عربی زبان میں کئی معنی آتے ہیں۔ ان میں ایک معنی ہیں ” مویشیوں کو چلنے پر آمادہ کرنے کے لئے ایسی آوازیں نکالنا جنہیں سن کر وہ اٹھ کھڑے ہوں “ یہاں اس سے مراد وہ دوسرا صور ہے جو حضرت اسرافیل (علیہ السلام) مردوں کو زندہ کرنے کے لئے پھونکیں گے، اور اسے ” زجرة “ سے اس لئے تعبیر کیا گیا ہے کہ جس طرح مویشیوں کو اٹھا کر چلانے کے لئے کچھ آوازیں نکالی جاتی ہیں اسی طرح مردوں کو زندہ کرنے کے لئے یہ صور پھونکا جائے گا۔ (تفسیر قرطبی) اگرچہ باری تعالیٰ اس پر بھی قادر ہے کہ صور پھونکے بغیر مردوں کو زندہ کر دے، لیکن یہ صور حشر ونشر کے منظر کو پرہیبت بنانے کے لئے پھونکا جائے گا (تفسیر کبیر) اس صور پھونکنے کا اثر کافروں پر یہ ہوگا کہ (آیت) فاذا ھم ینظرون (پس اچانک وہ دیکھنے بھالنے لگیں گے) یعنی جس طرح دنیا میں وہ دیکھنے پر قادر تھے اسی طرح وہاں بھی دیکھ سکیں گے، اور بعض مفسرین نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ وہ حیرانی کے عالم میں ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں گے۔ (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاِنَّمَا ہِىَ زَجْرَۃٌ وَّاحِدَۃٌ فَاِذَا ہُمْ يَنْظُرُوْنَ۝ ١٩ زجر الزَّجْرُ : طرد بصوت، يقال : زَجَرْتُهُ فَانْزَجَرَ ، قال : فَإِنَّما هِيَ زَجْرَةٌ واحِدَةٌ [ النازعات/ 13] ، ثمّ يستعمل في الطّرد تارة، وفي الصّوت أخری. وقوله : فَالزَّاجِراتِ زَجْراً [ الصافات/ 2] ، أي : الملائكة التي تَزْجُرُ السّحاب، وقوله : ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ [ القمر/ 4] ، أي : طرد ومنع عن ارتکاب المآثم . وقال : وَقالُوا مَجْنُونٌ وَازْدُجِرَ [ القمر/ 9] ، أي : طرد، واستعمال الزّجر فيه لصیاحهم بالمطرود، نحو أن يقال : اعزب وتنحّ ووراءک . ( زج ر ) الزجر ۔ اصل میں آواز کے ساتھ دھتکارنے کو کہتے ہیں زجرتہ میں نے اسے جھڑکا ، روکا ۔ انزجر ( جھڑکنے پر ) کسی کام سے رک جانا ۔ یہ زجر کا مطاوع بن کر استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّما هِيَ زَجْرَةٌ واحِدَةٌ [ النازعات/ 13] اور قیامت تو ایک ڈانٹ ہے ۔ پھر کبھی یہ صرف دھتکار دینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور کبھی آواز کیلئے اور آیت کریمہ : فَالزَّاجِراتِ زَجْراً [ الصافات/ 2] سے مراد وہ فرشتے ہیں جو بادلوں کو ڈانٹ کر چلاتے ہیں اور آیت :۔ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ [ القمر/ 4] جس میں ( کافی ) تنبیہ ہے ۔ میں مزدجر سے ایسی باتیں مراد ہیں جو ارتکاب معاصی سے روکتی اور سختی سے منع کرتی ہیں اور آیت ؛۔ وَازْدُجِرَ [ القمر/ 9] اور اسے جھڑکیاں دی گئیں ۔ کے معنی ہیں ڈانٹ کر نکال دیا گیا یہاں زجر کا لفظ اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ مار بھگانے کے وقت تہدید آمیز کلمات استعمال کئے جاتے ہیں ۔ جیسے جا چلا جا دور ہوجا وغیرہ ۔ نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب/ 53] أي : منتظرین، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٩۔ ٢٠) قیامت تو صرف ایک للکار ہوگی یعنی دوسرا صو تو اس سے سب قبروں سے اٹھ کر دیکھنے بھالنے لگیں گے کہ ان کو کیا حکم دیا جارہا ہے۔ اور قبروں سے کھڑے ہونے کے بعد کہیں گے ہائے ہماری کمبختی یہ تو وہی حساب کا دن ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩{ فَاِنَّمَا ہِیَ زَجْرَۃٌ وَّاحِدَۃٌ فَاِذَا ہُمْ یَنْظُرُوْنَ } ” بس وہ ایک زور کی ڈانٹ ہوگی ‘ تو جبھی وہ (زندہ ہو کر) دیکھنے لگیں گے۔ “ ہماری طرف سے ایک زور دار ڈانٹ کی صورت میں حکم دیاجائے گا جس کی تعمیل میں تمام انسانوں کے ذرات اجسام آنِ واحد میں مجتمع ہو کر جیتے جاگتے انسانوں کی صورت اختیار کرلیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

12 That is, "When the time comes for this, it will not be difficult to reestablish the whole world. Just a single shout will be enough to make the people to wake up. Here, the word "shout" or "cry" is very meaningful. It depicts the Resurrection as though the people who had died since the beginning of the creation till the last Day, were lying asleep, and a sudden command to them to "wake up" will cause them to rise up all at once."

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :12 یعنی جب یہ بات ہونے کا وقت آئے گا تو دنیا کو دوبارہ برپا کر دینا کوئی بڑا لمبا چوڑا کام نہ ہو گا ۔ بس ایک ہی جھڑکی سوتوں کو جگا اٹھانے کے لیے کافی ہو گی ۔ جھڑکی کا لفظ یہاں بہت معنیٰ خیز ہے ، اس سے بعث بعد الموت کا کچھ ایسا نقشہ نگاہوں کے سامنے آتا ہے کہ ابتدائے آفرینش سے قیامت تک جو انسان مرے تھے وہ گویا سوتے پڑے ہیں ، یکایک کوئی ڈانٹ کر کہتا ہے اٹھ جاؤ اور بس آن کی آن میں وہ سب اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:19) فانماھی زجرۃ واحدۃ ف جواب شرط کے لئے ہے جو کہ مقدرہ ہے ای اذا کان کذلک فماھی الا زجرۃ واحدۃ۔ جب قیامت آئے گی تو یہ صرف ایک زبردست کڑک ہوگی۔ ھی کی ضمیر واحد مؤنث غائب بعثت کی طرف راجع ہے جس کا ذکر چل رہا ہے۔ زجرۃ سخت آواز، کڑک دار آواز، جھڑکی، ڈانٹ ڈپٹ۔ زجر کا لغوی معنی ہے ہنکا کر نکال دینا۔ اور چیخ کر روک دینا۔ مثلاً کہتے ہیں :۔ زجر الراعی غنمہ چروا ہے نے ڈانٹ کر بکریوں کو روک دیا۔ اس سخت آواز (نفخہ دوم : صور کا دوسری دفعہ پھونکا جانا) کا نتیجہ فورا اس طرح سامنے آئے گا جس طرح (اول نفخہ) سخت آواز کا نتیجہ نمودار ہوا ہوگا۔ یعنی نفخہ اول کے بعد سب فورا مرجائیں گے۔ اور نفخہ دوم کے بعد فورا سب قبروں سے نکل کھڑے ہوں گے ! فاذاہم ینظرون۔ فاذا مفاجاتیہ ہے اور لو وہ دیکھ رہے ہوں گے یعنی ایک کڑک دار آواز ہوگی اور لوگ یکایک قبروں سے نکل کھڑے ہوں گے اور قیامت کے منظر کو اپنی آنکھوں کے سامنے ) دیکھ) رہے ہوں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی نفخہ صور اوپر بعث و قیامت کے امکان پر دلائل قائم فرمائے۔ اب اس کے وقوع کا بیان ہے۔ ( کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس قیامت کا لوگ انکار کرتے ہیں اس کا آغاز اس طرح ہوگا۔ اللہ تعالیٰ قیامت برپا کرنے کا فیصلہ فرمائے گا جس کا دن اور وقت مقرر کیا جاچکا ہے۔ جوں ہی وہ دن اور گھڑی آئے گی تو اسرافیل فرشتہ کو صور پھونکنے کا حکم ہوگا۔ صور میں پھونک مارنے کی دیر ہوگی تو زمین میں ایسے زلزلے ہوں گے جس سے پہاڑ روئی کی طرح اڑنے شروع ہوں گے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہر چیز فنا ہوجائے گی۔ اس کے بعد نہ معلوم کتنی مدت مخلوق فنا رہے گی۔ اس کے بعد اسرافیل کو زندہ کیا جائے گا اسے دوبارہ صور میں پھونک مارنے کا حکم ہوگا۔ اس کے پھونک مارنے کے ساتھ ہی لوگ قبروں سے اٹھنا شرو ع ہوں گے۔ اس وقت قیامت کے منکروں کو یقین ہوجائے گا کہ یہ تو وہی دن ہے جس کی ہم تکذیب کیا کرتے تھے۔ کہیں گے کہ ہم پر افسوس یہ تو فیصلے کا دن آپہنچا ہے۔ تفسیر بالقرآن دوسرے صور کے بعد مردوں کا زندہ ہونا : ١۔ پہلے نفخہ سے لوگ بےہوش ہوجائیں گے اور دوسرے نفخہ سے تمام لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے۔ (الزمر : ٦٨) ٢۔ دوسرے نفخہ کے ساتھ ہی تمام لوگ قبروں سے نکل کر اپنے رب کی طرف چل پڑیں گے۔ (یٰس : ٥١) ٣۔ ایک چیخ سے ہی تمام لوگ ہمارے سامنے حاضر ہوجائیں گے۔ (یٰس : ٥٣) ٤۔ جس دن صور پھونکا جائے گا تم گروہ در گروہ چلے آؤ گے۔ (النّبا : ١٨) ٥۔ جب دوسری دفعہ صور پھونکا جائے گا تو ہم ان سب کو جمع کرلیں گے۔ (الکہف : ٩٩) ٦۔ صور پھونک دیا جائے گا اور وہی دن عذاب کے وعدے کا ہو گاہے۔ (ق ٓ: ٢٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فانما ھی ۔۔۔۔ ھم ینظرون (19) یعنی پلک جھپکتے ہی وہ یہ منظر دیکھ رہے ہوں گے ۔ بس ایک تنعبیہ آمیز چیخ ہوگی ۔ (زجرۃ) کا لفظ اس لیے استعمال ہوا ہے کہ اس میں سختی کلام ہوگی ۔ ایک برتر اتھارنی کی طرف سے حاکمانہ چیخ ۔ اس چیخ کے ساتھ ہی وہ اپنی نظروں کے سامنے سب کچھ دیکھ رہے ہوں گے ۔ یہ منظر ان کے سامنے اچانک بغیر کسی تمید کے ہوگا ۔ یہ لوگ حواس باختہ ہوکر چیخنے چلا نے لگیں گے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(فَاِِنَّمَا ھِیَ زَجْرَۃٌ وَّاحِدَۃٌ) قادر مطلق جل مجدہٗ کے لیے قیامت قائم کرنا اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنا ذرا بھی دشوار نہیں ہے، اس کے حکم سے ایک چیخ وجود میں آئے گی یعنی پہلی بار صور پھونکے جانے کے بعد دوبارہ صور پھونکا جائے گا تو سب قبروں سے نکل کر دیکھنے لگیں گے جیسا کہ موت سے پہلے سابقہ زندگی میں دیکھا کرتے تھے، کما فی سورة الزمر (ثُمَّ نُفِخَ فِیْہِ اُخْرٰی فَاِِذَا ھُمْ قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(19) وہ بعثت اور وہ اٹھنا تو بس نفحہ صور کی ایک تند آواز اور للکار ہوگی کہ اس آواز اور للکار کے ہوتے ہی یہ سب دیکھنے بھالنے لگیں گے۔ یعنی بعثت صرف یہ ہے کہ صور میں نفحہ ثانیہ ہوگا اور نفحہ ثانیہ کے بعد فوراً ہی زندہ ہوکر ایک دوسرے کو دیکھنے بھالنے لگیں گے۔