Surat us Saaffaat
Surah: 37
Verse: 32
سورة الصافات
فَاَغۡوَیۡنٰکُمۡ اِنَّا کُنَّا غٰوِیۡنَ ﴿۳۲﴾
And we led you to deviation; indeed, we were deviators."
پس ہم نے تمہیں گمراہ کیا ہم تو خود بھی گمراہ ہی تھے ۔
فَاَغۡوَیۡنٰکُمۡ اِنَّا کُنَّا غٰوِیۡنَ ﴿۳۲﴾
And we led you to deviation; indeed, we were deviators."
پس ہم نے تمہیں گمراہ کیا ہم تو خود بھی گمراہ ہی تھے ۔
So now the Word of our Lord has been justified against us, that we shall certainly (have to) taste (the torment). So we led you astray because we were ourselves astray. Those who were arrogant will say to those who were deemed weak, `the Word of Allah has been justified against us, that we are among the doomed who will taste the punishment of the Day of Resurrection.' فَأَغْوَيْنَاكُمْ (So we led you astray), means, `so we called you to misguidance,' إِنَّا كُنَّا غَاوِينَ (because we were ourselves astray). means, `we called you to follow the path which we were on, and you responded.' Allah says: فَإِنَّهُمْ يَوْمَيِذٍ فِي الْعَذَابِ مُشْتَرِكُونَ
32۔ 1 یعنی جس بات کی پہلے انہیں نفی کی، کہ ہمارا تم پر کونسا زور تھا کہ تمہیں گمراہ کرتے۔ اب اس کا یہاں اعتراف ہے کہ ہاں واقعی ہم نے تمہیں گمراہ کیا تھا۔ لیکن یہ اعتراف اس تنبیہ کے ساتھ کیا کہ ہمیں اس ضمن میں مورد طعن مت بناؤ، اس لئے کہ ہم خود بھی گمراہ ہی تھے، ہم نے تمہیں بھی اپنے جیسا ہی بنانا چاہا اور تم نے آسانی سے ہماری راہ اپنا لی۔ جس طرح شیطان بھی اس روز کہے گا
فَاَغْوَيْنٰكُمْ اِنَّا كُنَّا غٰوِيْنَ : یہ پانچواں جواب ہے کہ ہمارا تم پر کوئی زور نہ تھا، مگر ہم خود گمراہ تھے اور ظاہر ہے ایک گمراہ سے گمراہی کی طرف بلانے ہی کی توقع ہوسکتی ہے، کیونکہ جو گمراہ ہوتا ہے وہ لازماً یہ چاہتا ہے کہ دوسرے بھی اس جیسے ہوجائیں، تاکہ کوئی کسی کو ملامت کرنے والا نہ رہے۔ لہٰذا ہم نے تمہیں گمراہی کی دعوت ہی دینا تھی اور دی، یہ تمہارا کام تھا کہ عقل سے کام لیتے اور ہماری بات نہ مانتے۔ اب مرضی سے کفر اختیار کرنے کے بعد ہمیں اس کا ذمہ دار نہ ٹھہراؤ۔
فَاَغْوَيْنٰكُمْ اِنَّا كُنَّا غٰوِيْنَ ٣٢ غوی الغَيُّ : جهل من اعتقاد فاسد، وذلک أنّ الجهل قد يكون من کون الإنسان غير معتقد اعتقادا لا صالحا ولا فاسدا، وقد يكون من اعتقاد شيء فاسد، وهذا النّحو الثاني يقال له غَيٌّ. قال تعالی: ما ضَلَّ صاحِبُكُمْ وَما غَوى[ النجم/ 2] ، وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِّ [ الأعراف/ 102] . وقوله : فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا[ مریم/ 59] ، أي : عذابا، فسمّاه الغيّ لمّا کان الغيّ هو سببه، وذلک کتسمية الشیء بما هو سببه، کقولهم للنّبات ندی . وقیل معناه : فسوف يلقون أثر الغيّ وثمرته . قال : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء/ 91] ، وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء/ 224] ، إِنَّكَ لَغَوِيٌّ مُبِينٌ [ القصص/ 18] ، وقوله : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوى [ طه/ 121] ، أي : جهل، وقیل : معناه خاب نحو قول الشاعر : ومن يغو لا يعدم علی الغيّ لائما «2» وقیل : معنی ( غَوَى) فسد عيشُه . من قولهم : غَوِيَ الفصیلُ ، وغَوَى. نحو : هوي وهوى، وقوله : إِنْ كانَ اللَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُغْوِيَكُمْ [هود/ 34] ، فقد قيل : معناه أن يعاقبکم علی غيّكم، وقیل : معناه يحكم عليكم بغيّكم . وقوله تعالی: قالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنا هؤُلاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنا أَغْوَيْناهُمْ كَما غَوَيْنا تَبَرَّأْنا إِلَيْكَ [ القصص/ 63] ، إعلاما منهم أنّا قد فعلنا بهم غاية ما کان في وسع الإنسان أن يفعل بصدیقه، فإنّ حقّ الإنسان أن يريد بصدیقه ما يريد بنفسه، فيقول : قد أفدناهم ما کان لنا وجعلناهم أسوة أنفسنا، وعلی هذا قوله تعالی: فَأَغْوَيْناكُمْ إِنَّا كُنَّا غاوِينَ [ الصافات/ 32] ، فَبِما أَغْوَيْتَنِي [ الأعراف/ 16] ، وقال : رَبِّ بِما أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ [ الحجر/ 39] . ( غ و ی ) الغی ۔ اس جہالت کو کہتے ہیں جو غلطاعتقاد پر مبنی ہو ۔ کیونک جہالت کبھی تو کسی عقیدہ پر مبنی ہوتی ہے اور کبھی عقیدہ کو اس میں داخل نہیں ہوتا پہلی قسم کی جہالت کا نام غی ) گمراہی ہے قرآن پاک میں ہے : ما ضَلَّ صاحِبُكُمْ وَما غَوى[ النجم/ 2] کہ تمہارے رفیق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) نہ رستہ بھولے ہیں اور نہ بھٹکے ہیں ۔ وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِّ [ الأعراف/ 102] اور ان ( کفار ) کے بھائی انہیں گمراہی میں کھینچے جاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا[ مریم/ 59] سو عنقریب ان کو گمراہی ( کی سزا ) ملے گی ۔ میں غی سے عذاب مراد ہے اور عذاب کو غی اس لئے کہاجاتا ہے کہ گمراہی عذاب کا سبب بنتی ہے لہذا عذاب کو غی کہنا مجازی ہے یعنی کسی شے کو اس کے سبب نام سے موسوم کردینا جیسا کہ نبات کو ندی ( طرادت ) کہہ دیتے ہیں ۔ بعض نے آیت کے یہ معنی کہتے ہیں کہ یہ لوگ عنقریب ہی اپنی گمراہی کا نتیجہ اور ثمرہ پالیں گے مگر مآل کے لحاظ سے دونوں معنی ایک ہی ہیں ۔ غاو بھٹک جانے والا گمراہ جمع غادون وغاوین جیسے فرمایا : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء/ 91] اور دوزخ گمراہوں کے سامنے لائی جائے گی ۔ وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء/ 224] اور شاعروں کی پیروی گمرا ہلوگ کیا کرتے ہیں ۔ ( الغوی ۔ گمراہ غلط رو ۔ جیسے فرمایا :إِنَّكَ لَغَوِيٌّ مُبِينٌ [ القصص/ 18] کہ تو تو صریح گمراہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوى[ طه/ 121] اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا ( تو وہ اپنے مطلوب سے ) بےراہ ہوگئے ۔ میں غویٰ کے معنی یہ ہیں ک آدم نے جہالت کا ارتکاب کیا اور بعض نے اس کے معنی خاب کئ ہیں یعنی انہوں نے سراسر نقصان اٹھایا ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) (334) ومن یغولا بعدم علی الغی لائما اور اگر ناکام ہوجائے تو ناکامی پر بھی ملامت کرنے والون کی کمی نہیں ہے ؛بعض نے غوی کے معنی ففدعیشہ کئے ہیں یعنی اس کی زندگی تباہ ہوگئی اور یہ غوی الفصیل وغویٰ جیسے ھویٰ وھوی ٰ ۔ سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں اونٹ کے بچے نے بہت زیادہ دودھ پی لیا جس سے اسے بدہضمی ہوگئی اور آیت کریمہ : إِنْ كانَ اللَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُغْوِيَكُمْ [هود/ 34] اور اگر خدا یہ چاہے کہ تمہیں گمراہ کرے ۔ میں یغویکم سے مراد گمراہی کی سزا دینے کے ہیں اور بعض نے اس کے معنی گمراہی کا حکم لگانا بھی کئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : قالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنا هؤُلاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنا أَغْوَيْناهُمْ كَما غَوَيْنا تَبَرَّأْنا إِلَيْكَ [ القصص/ 63]( تو جن لوگوں پر ) عذاب کا حکم ثابت ہوچکا ہوگا وہ کہیں گے کہ ہمارے پروردگار ی وہ لوگ ہیں جن کو ہم نے گمراہی کیا تھا اور جس طرح ہم خود گمراہ تھے اسی سطرح انہیں گمراہ کیا تھا ۔ میں بتایا گیا ہے کہ کفار قیامت کے دن اعلان کریں گے کہ ہم ان کے ساتھ انتہائی مخلصانہ سلوک کیا تھا جو کہ ایک انسان اپنے دوست سے کرسکتا ہے
آیت ٣٢{ فَاَغْوَیْنٰـکُمْ اِنَّا کُنَّا غٰوِیْنَ } ” تو ہم نے تم لوگوں کو گمراہ کیا ‘ ہم خود بھی تو گمراہ تھے۔ “ تم لوگ درست کہتے ہو کہ ہم نے تمہیں گمراہ کیا تھا ‘ لیکن ایسا تو نہیں تھا کہ ہم خود ہدایت پر تھے اور تمہاری گمراہی کا باعث بنے۔ بلکہ حقیقت تو یہ تھی کہ ہم خود بھی گمراہ تھے اس لیے تم لوگوں کو بھی ہم اسی تباہی کے راستے پرلے آئے۔
19 For explanation, see E.N's 51, 52, 53 of Surah Saba.
سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :19 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، سورہ سبا ، حواشی نمبر 51 ۔ 52 ۔ 53 ۔
8: مطلب یہ ہے کہ ہم چونکہ خود بہکے ہوئے تھے، اس لیے ہم نے تمہیں بہکایا ضرور، لیکن ہمارے بہکانے سے تم کفر پر مجبور نہیں ہوگئے تھے، اگر تم ہمارے بہکائے میں نہ آتے تو ہمارا تم پر کوئی زور نہ چلتا۔
(37:32) اغوینکم۔ ماضی جمع متکلم کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر اغواء (افعال) مصدر غوی مادہ۔ گمراہ کرنا۔ ہم نے تم کو گمراہ کیا۔ الغی الرشد کی ضد ہے جیسے کہ قرآن مجید میں ہے قد تبین الرشد من الغی (2:256) ہدایت گمراہی سے صاف صاف کھل چکی ہے انا کنا غوین جملہ مستانفہ ہے اور جملہ ما قبل کی علت ہے۔ تحقیق ہم خود ہی گمراہ تھے مطلب یہ ہے کہ ہم خود بھی گمراہ تھے اس لئے ہم نے تم کو بھی اسی راستے پر چلنے کی دعوت دی۔ ایماندار تم بھی نہ تھے اپنے حق خود ارادیت کا استعمال کرتے ہوئے تم نے بھی ہماری گمراہی کا راستہ اختیار کیا۔ اس طرح ہم دونوں فریق برابر عذاب جہنم کے سزاوار ہوئے۔ غوین الغی سے اسم فاعل کا صیغہ جمع مذکر ہے منصوب بوجہ خبر کنا ہے۔
ف 9 کیونکہ جو گمراہ ہوتا ہے وہ لازماً یہ چاہتا ہے کہ دوسرے بھی اس جیسے ہوجائیں تاکہ کوئی کسی کو ملامت کرنے والا نہ رہے۔ یہ پانچ باتیں شیطان یارئیس اپنے تابعداروں سے کہیں گے۔ ( فتح البیان)
15:۔ فاغوینکم الخ :۔ ہم نے تمہیں زبردستی گمراہ نہیں کیا۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم تو گمراہ تھے ہی، اس لیے ہم نے تمہیں بھی گمراہی کی دعوت دی تو تم نے اپنی مرضی سے بلا جبر واکراہ گمراہی کو قبول کرلیا۔ اس لیے ہمیں ملامت نہ کرو۔ انا کنا غاوین، جملہ ما قبل کے لیے تعلیل ہے۔ فانہم یومئذا لخ، چونکہ دونوں فریق مجرم ہیں اس لیے دونوں عذاب میں شریک ہوں گے۔ چونکہ گمراہی میں سب شریک تھے۔ روؤساء شرک، علماء سوء، پیرانِ سیہ کار عوام کو شرک و بدعت کی تعلیم دیتے اور انہیں گمراہ کرتے تھے اور عوام نے ان کے اغواء واضلال سے گمراہی کا راستہ اختیار کیا اس لیے دونوں فریق (متبوعین و اتباع) مجرم ہیں۔ لہذا دونوں جہنم کا ایندھن ہوں