Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 35

سورة الصافات

اِنَّہُمۡ کَانُوۡۤا اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ۙ یَسۡتَکۡبِرُوۡنَ ﴿ۙ۳۵﴾

Indeed they, when it was said to them, "There is no deity but Allah ," were arrogant

یہ وہ ( لوگ ) ہیں کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو یہ سرکشی کرتے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Certainly, that is how We deal with criminals. Truly, when it was said to them: "La ilaha illallah," they puffed themselves up with pride. means, in this world they were too arrogant to say these words as the believers said them. Ibn Abi Hatim narrated that Abu Hurayrah, may Allah be pleased with him, said that the Messenger of Allah said: أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتْى يَقُولُوا لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ فَمَنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ فَقَدْ عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ وَنَفْسَهُ إِلاَّ بِحَقِّهِ وَحِسَابُهُ عَلَى اللهِ عَزَّ وَجَل I have been commanded to fight the people until they say La ilaha ill-Allah. Whoever says La ilaha illallah, he and his property are safe from me except for his obligation, and his reckoning will be with Allah, may He be glorified. Allah revealed in His Book the story of people who were arrogant, as He says: إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُمْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ يَسْتَكْبِرُونَ وَيَقُولُونَ أَيِنَّا لَتَارِكُوا الِهَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُونٍ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

35۔ 1 یعنی دنیا میں ان سے کہا جاتا تھا کہ جس طرح مسلمانوں نے یہ کلمہ پڑھ کر شرک سے توبہ کرلی ہے، تم بھی یہ پڑھ لو، تاکہ تم دنیا میں بھی مسلمانوں کے قہر و غضب سے بچ جاؤ اور آخرت میں بھی عذاب الٰہی سے تمہیں دو چار نہ ہونا پڑے، تو تکبر کرتے اور انکار کرتے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨] خوشحال لوگوں کے اکڑنے کی تین وجوہ :۔ ان کے تکبر کی کئی وجوہ تھیں، ایک یہ کہ جب انہیں یہ بتایا جاتا کہ اللہ کے سوا کوئی حاجت روا اور مشکل کشا نہیں تو تم اس میں اپنے بتوں اور معبودوں کی بھی توہین سمجھتے تھے، اپنی بھی اور اپنے آباء واجداد کی بھی لہذا وہ اکڑ بیٹھتے تھے دوسری یہ کہ مشرکانہ رسوم کے رواج سے جو کچھ دنیوی مفادات حاصل کر رہے تھے اس سے انہیں دستبردار ہونا پڑتا تھا لہذا وہ اکڑ بیٹھتے تھے، تیسری یہ کہ اگر وہ لا الہ الا اللہ کا دل سے اقرار کرتے تو انہیں اپنی چودھراہٹوں اور سرداریوں سے دستبردار ہو کر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنا پڑتا تھی۔ لہذا وہ اکڑ بیٹھتے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّهُمْ كَانُوْٓا اِذَا قِيْلَ لَهُمْ : یہاں ” لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ “ سے پہلے ” قُوْلُوْا “ (کہو) محذوف ہے۔ ”إِنَّ “ تعلیل یعنی عذاب کی وجہ بیان کرنے کے لیے ہے۔ یعنی ان کے عذاب کی وجہ یہ ہے کہ جب انھیں کہا جاتا ہے کہ ” لا الٰہ الا اللہ “ کہو اور توحید کا اقرار کرو تو اس سے تکبر کرتے تھے، یعنی اس سب سے بڑی حقیقت کو بھی ماننے سے انکار کردیتے تھے اور اصل تکبر یہی ہے کہ حق بات کا انکار کردیا جائے۔ عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِيْ قَلْبِہِ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ ، قَالَ رَجُلٌ إِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ أَنْ یَکُوْنَ ثَوْبُہُ حَسَنًا وَنَعْلُہُ حَسَنَۃً ، قَالَ إِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ ، الْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ ) [ مسلم، الإیمان، باب تحریم الکبر و بیانہ : ٩١ ] ” وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا۔ “ ایک آدمی نے پوچھا : ” آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو اور اس کا جوتا اچھا ہو۔ (کیا یہ بھی تکبر ہے) ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” بیشک اللہ جمیل ہے، جمال کو پسند کرتا ہے، تکبر تو حق سے اکڑ جانے اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّہُمْ كَانُوْٓا اِذَا قِيْلَ لَہُمْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ۝ ٠ ۙ يَسْتَكْبِرُوْنَ۝ ٣٥ۙ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله» وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حیھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) الاسْتِكْبارُ والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة . والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين : أحدهما : أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود . والثاني : أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] . ( ک ب ر ) کبیر اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔ الاستکبار ( استتعال ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔ ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مدموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔ c

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

جب ان سے دنیا میں کہا جاتا تھا کہ اس بات کا اقرار کرلو کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں تو یہ اس کے ماننے سے تکبر کیا کرتے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٥{ اِنَّہُمْ کَانُوْٓا اِذَا قِیْلََ لَہُمْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ یَسْتَکْبِرُوْنَ } ” ان کا معاملہ یہ تھا کہ جب ان سے کہا جاتا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو وہ استکبار کرتے تھے۔ “ جب بھی ان کے سامنے کلمہ توحید لَا اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ کا ذکر کیا جاتا تو وہ اپنے گھمنڈ میں اس کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٥۔ ٥٠۔ مکہ کے مشرکوں میں بہت دنوں سے شرک کی باتیں چلی آتی تھیں۔ اس لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے جب توحید کی باتیں فرماتے تو کبھی مشرک لوگ یہ کہتے کہ جس طریقہ پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ ہم تو اس طریقہ پر قائم رہویں گے اور جب کبھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شرک اور ان مشرکوں کے بتوں کی مذمت کرتے تو وہ ظالم نہایت زیادتی سے اللہ تعالیٰ کے حق میں بےادبی کے کلمات کہنے کو مستعد ہوجاتے۔ صحیح سند کا حضرت عبد اللہ (رض) ابن عباس کی روایت سے ترمذی ٢ ؎ نسائی وغیرہ میں ایک دفعہ کا یہ ایک قصہ ہے۔ کہ ابو طالب کی بیماری کے زمانہ میں ایک بڑی جماعت قریش کی ابو طالب کے پاس گئی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس شکایت کا سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا میں تو ایک بات ایسی ان لوگوں کو بتلاتا ہوں۔ جس کے اختیار کرنے کے سبب سے سب ملک عرب و عجم ان کا تابعدار ہوجاوے۔ جب ان جماعت کے لوگوں نے پوچھا کہ آخر وہ بات کیا ہے۔ بیان تو کرو تو آپ نے کلمہ توحید پڑھ کر سنایا ہے۔ یہ سنتے ہی بڑے تکبر سے اجعل الالھۃ الہ واحدا اور ما سمعنا بھذا فی الملۃ الاخرۃ کہتے ہوئے وہ سب لوگ اس مجلس میں سے اٹھ کر چلے گئے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے ایک معبود کی عبادت کسی پچھلے دین میں نہیں سنی۔ غرض اسی طرح توحید کی باتیں سن کر نخوت اور تکبر سے پیش آنے کے مشرکین مکہ کے بہت سے قصے قرآن شریف اور حدیث شریف میں ہیں۔ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے وہی ذکر فرمایا ہے۔ کہ قیامت کے دن جب ان لوگوں پر طرح طرح کا عذاب ہوگا جس کا ذکر اوپر کی آیتوں میں ہے۔ تو اس وقت ان کو یاد دلایا جاوے گا۔ کہ تم پر عذاب اسی سبب سے ہے کہ تم توحید کی باتیں اللہ کے رسول سے سن کر نخوت اور تکبر سے ان حق باتوں کو نہیں سنتے تھے۔ اور اللہ کے رسول کو شاعر اور دیوانہ بتلاتے تھے اور کہتے تھے کہ کیا ایک دیوانہ کے کہنے سے ہم اپنے باپ دادا کے زمانہ کے معبودوں کو چھوڑ دیویں گے۔ اب بیچ میں اللہ تعالیٰ نے ان مشرکوں کی بات کا جواب دیا ہے کہ اللہ کے رسول شاعر اور دیوانہ نہیں بلکہ یہ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ پھر جنت اور اہل جنت کا ذکر فرمایا ہے۔ تاکہ عقبیٰ کے منکروں کو جنت کا حال سن کر ایک طرح کی رغبت عقبیٰ کی پیدا ہو۔ ایک آدمی دوسرے آدمی کی طرف پیٹھ کرے تو ذرا برا معلوم ہوتا ہے۔ اس لئے فرمایا کہ جنت میں جنتی لوگ اس طرح جڑاؤ تختوں پر بیٹھیں گے کہ ایک کی پشت دوسرے کی طرف نہ ہوگی۔ دنیا کی شراب سے درد سر ہوتا ہے ‘ قے ہوتی ہے ‘ نشہ چڑھ کر عقل زائل ہوجاتی ہے ‘ کبھی قولنج کا درد پیدا ہوجاتا ہے۔ اس واسطے فرمایا کہ جنت کی شراب میں یہ کوئی بات نہ ہوگی۔ نہروں میں جس طرح پانی بہتا ہے۔ اس طرح جنت میں شراب اور دودھ اور شہد اور میٹھے پانی کی نہایت صاف نہریں ہوں گی۔ اس شراب کا رنگ ایسا ہوگا کہ جس کے دیکھنے سے رغبت آوے گی۔ یہ دودھ نہ کبھی جمے گا نہ کھٹا ہوگا۔ یہ شہد موم کے میل سے بالکل صاف ہوگا۔ جنت کی اور نعمتوں اور جنت کے میووں کا جو ان آیتوں میں ذکر ہے۔ صحیح ١ ؎ بخاری و مسلم کی حضرت ابوہریرہ (رض) کی حدیث اوپر گزر چکی ہے کہ جنت کی نعمتیں وہ ہیں کہ نہ آنکھوں سے کسی نے دیکھیں اور نہ کانوں سے سنیں۔ نہ کسی کے دل میں ان نعمتوں کا تصور گزر سکتا ہے۔ اس لئے جنت کی نعمتوں کی تفصیل سوا خدا کے کون جان سکتا ہے۔ آیتوں میں جنت کی حوروں کا بھی ذکر ہے۔ حدیث شریف میں ترمذی ٢ ؎ کی روایت سے آیا ہے حوروں کے جسم میں اس طرح کی چمک ہوگی۔ کہ ستر پوشاکوں میں سے ان کا جسم نظر آوے گا۔ ترمذی نے اس روایت کو عبد اللہ (رض) بن مسعود کا قول صحیح قررار دیا ہے۔ بخاری ٣ ؎ کی ابوہریرہ کی روایت میں ہے ‘ کہ جنت کی حوروں کی پوشاک ایسی ہوگی کہ اس پوشاک میں سے ان کا ایک دوپٹہ دنیا بھر کی چیزوں سے بڑھ کر قیمت کا ہوگا۔ غرض جنت کی سب چیزیں ایسی ہیں۔ کہ خدا تعالیٰ اپنی رحمت سے جب جنت میں جانا نصیب کرے گا۔ اسی وقت ان چیزوں کی قدر معلوم ہوگی۔ اس واسطے صحیح ١ ؎ بخاری و مسلم کی حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ دنیا میں جتنی سی جگہ میں گھوڑے کا سوار اپنے گھوڑے کا کوڑا رکھتا ہے۔ جنت کی اتنی سی جگہ تمام دنیا سے بہتر ہے غول کے معنے خلاف طبیعت بات کے پیش آنے کے ہیں۔ اس لئے حاصل مطلب یہ ہے۔ کہ جنت کی شراب سے درد سر۔ قے۔ قولنج کوئی خلاف طبیعت بات پیش نہ آوے گی۔ عرب کے محاورہ میں نزف الرجل ایسے موقعہ پر بولتے ہیں۔ جب کوئی آدمی نشہ میں ہوجاتا ہے۔ اس لئے فرمایا کہ جنت کی شراب میں یہ بات نہ ہوگی۔ کہ کوئی جنتی مدہوش ہوجاوے۔ بیض مکنون اس کا یہ مطلب ہے کہ انڈے کے سخت چھلکے کے اندر کا نرم پوست جیسا آبدار ہوتا ہے۔ حوروں کا جسم ایسا آبدارہو گا۔ (٢ ؎ جامع ترمذی تفسیر سورة ص۔ ص ١٧٨ ج ٢۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ الخ ص ٤٦٠ ج ١) (٢ ؎ جامع ترمذی باب ماجاء فی صفۃ نساء اھل الجنۃ الخ ص ٨٩ ج ٢) (٣ ؎ بحوالہ مشکوٰۃ شریف باب صفۃ الجنت واھلھا الفصل الاول ص ٤٩٥) (١ ؎ صحیح بخاری باب ماجاء فی صفۃ الجنت الخ ص ٤٦١ ج ١)

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:35) انہم میں ضمیر جمع مذکر غائب مشترکون کی طرف راجع ہے۔ کانوا یستکبرون۔ ماضی استمراری کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ وہ تکبر کیا کرتے تھے۔ وہ بڑے بنتے تھے۔ وہ استکبار کیا کرتے تھے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 یعنی کلمہ توحید کو قبول کرنا اپنی کسر شان سمجھتے تھے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں کا سب سے بڑا جرم۔ جہنمیوں کے جہنم میں داخل ہونے کا سب سے بڑا جرم یہ ہوگا کہ وہ ” لَا اِلٰٰہَ اِلَّا اللّٰہُ “ کے منکر ہوں گے۔ دنیا میں جب بھی ایسے لوگوں کو انبیائے کرام یا ان کے سچے جانشینوں نے ” لَا اِلٰٰہَ اِلَّا اللّٰہُ “ کی دعوت دی کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور وہی حاجت روا اور مشکل کشا ہے۔ لوگوں کی غالب اکثریت نے اس دعوت کے ساتھ تکبر کا مظاہرہ کیا۔ مشرک کی عادت ہے کہ جوں ہی اسے توحیدِخالص کی دعوت دی جاتی ہے تو وہ منہ بسوڑتا اور تکبر کا اظہار کرتا ہے۔ دعوت توحید کے ساتھ تکبر کرنے والوں نے انبیائے کرام (علیہ السلام) اور نبی آخر الزّماں کی دعوت کو یہ کہہ کر ٹھکرایا کیا ہم اس شاعر اور دیو انے کے کہنے پر اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں ؟ اس الزام اور خرافات کے ساتھ انہوں نے یہ بھی پراپیگنڈہ کیا کہ ہمارے لیے اس نبی کی دعوت انوکھی ہے حالانکہ ان کے پہلے الزامات کی طرح یہ بات بھی سراسر جھوٹ تھی اور ہے۔ کیونکہ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف دعوت حق پیش کرنے والے نہیں تھے بلکہ پہلے تمام انبیائے کرام (علیہ السلام) کی تصدیق بھی فرماتے تھے۔ ” ان کو تعجب ہوتا ہے کہ ان کے پاس انہی میں سے ایک آدمی سمجھانے والا آیا اور منکر کہتے ہیں کہ یہ جادوگر اور بڑا جھوٹا ہے۔ اس نے تمام معبودوں کو چھوڑ کر ایک معبود بنا لیا ہے کچھ شک نہیں کہ یہ عجیب بات ہے۔ ان کے سردار کہنے لگے کہ اپنے معبودوں پر جمے رہو اس کے پیچھے تو کوئی غرض دکھائی دیتی ہے۔ “ (صٓ: ٤ تا ٧) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کافر اس لیے دیوانہ کہتے تھے کہ اس شخص کی معاشرے میں بہت عزت بنی ہوئی تھی لیکن اس نے محض اپنی دعوت کی خاطر ساری عزت برباد کرلی ہے اور دیوانوں کی طرح ایک ہی بات دھراے جاتا ہے۔ وہ اس لیے بھی آپ کو دیوانہ کہتے تھے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک ہی خدا اتنی بڑی کائنات کا نظام اکیلا چلا سکے۔ وہ آپ کو اس لیے بھی دیوانہ کہتے تھے کہ ہر قسم کی پیشکش کی ہے لیکن یہ دیوانوں کی طرح ہر بات کو ٹھکراتے جا رہا ہے۔ ان کے بارے میں ارشاد ہے کہ یہ ضرور اذّیت ناک عذاب میں مبتلا ہوں گے اور یہ ان کو ان کے کیے کی سزا ملے گی۔ مسائل ١۔ لوگوں کی غالب اکثریت دعوت توحید کے ساتھ تکبر کرتی ہے۔ ٢۔ مشرکین اور کفار نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیوانہ اور شاعر ہونے کا الزام دیا۔ ٣۔ کفار نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو انوکھی بات قرار دیا۔ ٤۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام انبیائے کرام (علیہ السلام) کی تصدیق کرنے والے تھے۔ تفسیر بالقرآن لَا اِلٰٰہَ اِلَّااللّٰہَ کے ساتھ منکرین کا روّیہ : ١۔ جب مشرکین سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں تو وہ تکبر کرتے ہیں۔ ( الصافات : ٣٥) ٢۔ جب ایک اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل جل اٹھتے ہیں۔ ( الزمر : ٤٥) ٣۔ جب تنہا ایک رب کی طرف بلایا جاتا ہے تو مشرکین اس دعوت کو ٹھکرا دیتے ہیں۔ ( المؤمن : ١٢) ٤۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرو تو وہ انکار کرتے ہوئے مزید نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ (الفرقان : ٦٠) ٥۔ جب قرآن میں آپ کے اکیلے رب کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو وہ اپنی پیٹھوں کے بل بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ (بنی اسرائیل : ٤٦) ٦۔ جب مشرکین سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کی پیروی کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تو اپنے آباء و اجداد کی پیروی کریں گے۔ ( البقرۃ : ١٧٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

17:۔ انھم کانوا الخ :۔ یہ زجر ہے مع شکوی۔ ان مجرمین کا جرم کیا ہے جس کی وجہ سے انہیں جہنم میں ڈالا جائے گا ؟ ان کا جرم یہ ہے کہ دنیا میں جب ان کو توحید کی دعوت دی جاتی اور ان سے کہا جاتا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اللہ کے سوا کوئی کارساز، حاجت روا، مشکل کشا اور متصرف و مختار نہیں۔ ہر قسم کی عبادت اور دعا پکار کے لائق بھی اس کے سوا کوئی نہیں تو یہ اس دعوت کو نہیں مانتے تھے اور اس کے قبول کرنے سے استکبار کرتے تھے۔ ویقولون ائنا لتارکوا الہتنا الخ، نیز یہ مجرمین کہا کرتے تھے کیا ہم اس دیوانے شاعر کے کہنے سے اپنے معبودوں کو چھور دیں ؟ مشرکین کا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حق میں، شاعر مجنون، کہنا سراسر ہذہان تھا۔ اس سے ان کا مقصود رسالت کا انکار تھا۔ اگلی آیت میں مشرکین کے اس ہذیان کا جواب ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(35) یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان سے کہا جاتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی حقیقی معبود نہیں تو یہ تکبر کا اظہار کیا کرتے تھے۔