Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 38

سورة الصافات

اِنَّکُمۡ لَذَآئِقُوا الۡعَذَابِ الۡاَلِیۡمِ ﴿ۚ۳۸﴾

Indeed, you [disbelievers] will be tasters of the painful punishment,

یقیناً تم دردناک عذاب ( کا مزہ ) چکھنے والے ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Punishment of the Idolators and the Reward of the sincere Believers Allah says, addressing the people: إِنَّكُمْ لَذَايِقُو الْعَذَابِ الاَْلِيمِ وَمَا تُجْزَوْنَ إِلاَّ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ

متقیوں کے لیے نجات اور انعامات ۔ اللہ تعالیٰ تمام لوگوں سے خطاب کر کے فرما رہا ہے کہ تم المناک عذاب چکھنے والے ہو ۔ اور صرف اسی کا بدلہ دئیے جانے والے ہو جسے تم نے کیا دھرا ہے ۔ پھر اپنے مخلص بندوں کو اس سے الگ کر لیتا ہے جیسے والعصر میں فرمایا کہ تمام انسان گھاٹے میں ہیں ۔ مگر ایماندار نیک ... اعمال ۔ اور سورہ والتین میں فرمایا ہم نے انسان کو بہت اچھی پیدائش میں پیدا کیا پھر اسے نیچوں کا نیچ کردیا مگر جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال کئے ۔ اور سورہ مریم میں فرمایا ( وَاِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا ۚ كَانَ عَلٰي رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا 71؀ۚ ) 19-مريم:71 ) ، تم میں سے ہر ایک جہنم پروارد ہونے والا ہے یہ تو تیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے اور یہ ضروری چیز ہے لیکن پھر ہم متقیوں کو نجات دیں گے اور ظالموں کو اسی میں گرے پڑے چھوڑ دیں گے ۔ سورہ مدثر میں ارشاد ہوا ہے ۔ ( كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ ۣثُمَّ اِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ 57؀ ) 29- العنكبوت:57 ) ہر شخص اپنے اپنے اعمال میں مشغول ہے مگر وہ جن کے دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال آچکا ہے اسی طرح یہاں پر بھی اپنے خاص بندوں کا استثناء کرلیا کہ وہ المناک عذابوں سے حساب کے پھنساوے سے الگ ہیں بلکہ ان کی برائیوں سے درگذر فرمایا گیا ہے اور ان کی نیکیاں بڑھا چڑھا کر ایک کی دس دس گنی بلکہ سات سات سو گنی کرکے بلکہ اس سے بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر انہیں دی گئی ہیں ۔ ان کے لیے مقررہ روزی اور وہ قسم قسم کے میوہ جات ہیں ۔ وہ مخدوم ہیں ، ذی عزت ہیں ، ذی اکرام ہیں ، ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں ، بڑی آؤ بھگت ہوتی ہے ، بڑا ادب لحاظ رکھا جاتا ہے ۔ یہ نعمتوں سے پر جنتوں میں ہیں ۔ وہاں کے تختوں پر اس طرح بیٹھے ہیں کہ کسی کی پیٹھ کسی کی طرف نہیں ۔ ایک مرفوع غریب حدیث میں بھی ہے کہ اس آیت کی تلاوت کرکے آپ نے فرمایا ہر ایک کی نگاہیں دوسرے کے چہرے پر پڑیں گی ، آمنے سامنے بیٹھے ہوئے ہوں گے ۔ اس شراب کے دور ان میں چل رہے ہوں گے جو جاری ہے جس کے ختم ہو جانے کم ہو جانے کامطلق اندیشہ نہیں ۔ جو ظاہر باطن میں آراستہ ہے خوبیاں ہیں برائیاں نہیں ۔ رنگ کی سفید مزے کی بہت اچھی لذیذ ۔ نہ اس کے پینے سے سردرد ہو نہ بک جھک لگے ، دنیا کی شراب میں یہ آفتیں تھیں پیٹ کا درد سر کا درد بیہوشی بد حواسی وغیرہ لیکن جنت کی شراب میں ان میں سے ایک برائی بھی موجود نہیں رہی ۔ دیکھنے میں خوش رنگ ، پینے میں لذیذ ، فوائد میں اعلیٰ ، سرور و کیف میں عمدہ لیکن سدھ بدھ دور کردینے والی بد مست بنادینے والی نہیں ، نہ بدبو دار نہ بد نظر نہ قابل نفرت ۔ بلکہ خوشبو دار خوش رنگ خوش ذائق خوش فائدہ ، اس کے پینے سے پیٹ میں درد نہیں ہوتا اور اس کی کثرت ضرر رساں نہیں خلاف طبع نہیں ۔ سربھاری نہیں ہو جاتا چکر نہیں آتے گرانی محسوس نہیں ہوتی ۔ ہوش و حواس جاتے نہیں رہتے ۔ کوئی ایذاء تکلیف قے متلی نہیں ہوتی ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں دنیا کی شراب میں چار برائیاں ہیں ، نشہ ، سردرد ، قے اور پیشاب ۔ جنت کی شراب ان تمام برائیوں سے پاک ہے دیکھ لو سورہ الصافات ۔ ان کے پاس نیچی نگاہوں والی شرمیلی نظروں والی پاک دامن عفیفہ حوریں ہیں جن کی نگاہ اپنے خاوندوں کے چہرے کے سوا کبھی کسی کے چہرے پر نہیں پڑتی اور نہ پڑیں گی ۔ بڑی بڑی موٹی موٹی رسیلی آنکھیں ہیں حسن صورت حسن سیرت دونوں چیزیں ان میں موجود ہیں ۔ جس طرح حضرت زلیخا نے حضرت یوسف علیہ السلام میں یہ دونوں خوبیاں دیکھیں ۔ عورتوں نے جب انہیں طعنے دینے شروع کئے تو ایک دن سب کو بلا کر بٹھالیا اور حضرت یوسف کا پورا بناؤ سنگھار کراکر بلایا عورتوں کی نگاہیں ان کے جمال کو دیکھ کر خیرہ ہوگئیں اور بےساختہ ان کے منہ سے نکل گیا کہ یہ تو فرشتہ ہیں ۔ اسی وقت کہا یہی تو ہیں جن کے بارے میں تم سب مجھے ملامت کر رہی تھیں واللہ میں نے ان کو ہر چند اپنی طرف مائل کرنا چاہا لیکن یہ پاک دامن ہی رہا ۔ یہ باوجود جمال ظاہری کے حسن باطنی بھی رکھتا ہے ۔ بڑا پاکباز امین پارسا متقی پرہیزگار ہے اسی طرح حوریں ہیں کہ جمال ظاہری کے ساتھ ہی باطنی خوبی بھی اپنے اندر رکھتی ہیں ۔ پھر ان کا مزید حسن بیان ہو رہا ہے کہ ان کا گورا گورا جسم اور بھبوکا سا رنگ ایسا چمکیلا دلکش اور جاذب نظر ہے کہ گویا محفوظ موتی ۔ جس تک کسی کا ہاتھ نہ پہنچا ہو ، جو سیپ سے نہ نکلا ہو جسے زمانے کی ہوا نہ لگی ہو جو اپنی آبداری میں بےمثل ہو ایسے ہی انکے اچھوتے جسم ہیں ۔ یہ بھی کہا گیا کہ گویا وہ انڈے کی طرح ہیں ۔ انڈے کے اوپر کے چھلکے کے نیچے چھوٹے چھلکے جیسے ان کے بدن ہیں ۔ ایک حدیث میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے سوال پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حور عین سے مراد بہت بڑی آنکھوں والی سیاہ پلکوں والی حوریں ہیں ۔ پھر پوچھا بیض مکنون سے کیا مراد ہے؟ فرمایا انڈے کے اندر کی سفید جھلی ۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے تو سب سے پہلے میں کھڑا کیا جاؤن گا اور جبکہ وہ جناب باری میں پیش ہوں گے تو میں ان کا خطیب بنوں گا اور جب وہ غمگین ہو رہے ہوں گے تو میں انہیں خوشخبریاں سنانے والا ہوں گا اور ان کا سفارشی بنوں گا جب کہ یہ رکے ہوئے ہوں گے ۔ حمد کا جھنڈا اس دن میرے ہاتھ میں ہوگا ۔ حضرت آدم کی اولاد میں سے سب سے زیادہ اللہ کے ہاں اکرام و عزت والا میں ہوں یہ میں بطور فخر کے نہیں کہہ رہا ۔ میرے آگے پیچھے قیام کے دن ایک ہزار خادم گھوم رہے ہوں گے جو مثل چھپے ہوئے انڈوں یا اچھوت موتیوں کے ہوں گے واللہ اعلم بالصواب ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّكُمْ لَذَاۗىِٕقُوا الْعَذَابِ الْاَلِــيْمِ : اس سے پہلے انھوں نے آپس میں جو کہا تھا ” اِنَّا لَذَاۗىِٕقُوْنَ “ (ہم عذاب چکھنے والے ہیں) صحیح بھی ہوسکتا تھا، غلط بھی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے یقینی بات کا اعلان فرمایا کہ تم یقیناً دردناک عذاب چکھنے والے ہو۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّكُمْ لَذَاۗىِٕقُوا الْعَذَابِ الْاَلِــيْمِ۝ ٣٨ۚ ذوق الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له : الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في ال... عذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] ( ذ و ق ) الذاق ( ن ) کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا ألم الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء/ 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام/ 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» . ( ا ل م ) الالم کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ { فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ } ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ } ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٨{ اِنَّکُمْ لَذَآئِقُوا الْعَذَابِ الْاَلِیْمِ } ” اب تمہیں یقینا دردناک عذاب کا مزہ چکھنا ہوگا۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:38) انکم لذائقوا العذاب الالیم۔ لام تاکید کا ہے ذائقوا (مضاف) اصل میں ذائقون تھا۔ اضافت کی وجہ سے نون گرگیا۔ العذاب الالیم موصوف وصفت مل کر مضاف الیہ۔ یہ خطاب ہے مجرمین سے (اے مجرمو ! ) تم ضرور چکھو گے دردناک عذاب کو،

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 14 یعنی کفر و شرک کی جو روش تم نے اختیار کی اور رسولوں کی جو تکذیب تم کرتے رہے اس کی سزا تمہیں مل کر رہے گی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

19:۔ انکم لذائقوا الخ :۔ یہ مشرکین کے لیے تخویف اخروی ہے۔ اے مشرکین ! (اتباع و متبوعین) تم دردناک عذاب ضرور چکھو گے تم پر زیادتی نہیں ہوگی۔ بلکہ یہ تمہارے اپنے اعمال ہی کی سزا ہوگی۔ الا عباد اللہ الخ، یہ بشارت اخروی ہے اور استثناء منقطع ہے۔ لیکن جو اللہ کے خاص بندے ہیں جو شرک و عصیان سے دور رہے ان ک... ا حال ان مشرکین سے جدا گانہ ہے اگلی آیتوں میں ان مخلصین کے احوال و مراتب کی تفصیل ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(38) بلا شبہ تم دردناک عذاب کا مزہ چکھنے والے ہو۔