Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 40

سورة الصافات

اِلَّا عِبَادَ اللّٰہِ الۡمُخۡلَصِیۡنَ ﴿۴۰﴾

But not the chosen servants of Allah .

مگر اللہ تعالٰی کے خالص برگزیدہ بندے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Save the chosen servants of Allah. meaning, they will not taste the painful torment nor will they be brought to account. Their evil acts, if there are any, will be overlooked, and each good deed will be rewarded in multiples of between ten and seven hundred, or as much as Allah wills. أُوْلَيِكَ لَهُمْ رِزْقٌ مَّعْلُومٌ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

40۔ 1 یعنی عذاب سے محفوظ ہونگیں، ان کی کوتاہیوں سے بھی درگزر کردیا جائے گا، اگر کچھ ہونگی اور ایک ایک نیکی کا اجر کئی کئی گنا دیا جائے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِلَّا عِبَاد اللّٰهِ الْمُخْلَصِيْنَ : مگر اللہ کے وہ بندے جنھیں اس نے اپنے لیے خالص کرلیا، جن کے متعلق ابلیس نے بھی اقرار کیا کہ وہ انھیں گمراہ نہیں کرسکے گا (دیکھیے سورة ص : ٨٣) وہ عذاب الیم نہیں چکھیں گے، نہ ان کے حساب میں شدت ہوگی، بلکہ اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں کو دس گنا سے سات سو گنا، بلکہ بےحساب گنا تک بڑھائے گا اور برائیوں سے، اگر کوئی ہوئیں، درگزر فرمائے گا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِلَّا عِبَادَ اللہِ الْمُخْلَصِيْنَ۝ ٤٠ عبد والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب : الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] . الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] . والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة، والناس في هذا ضربان : عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] . العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے وہ دوقسم پر ہیں ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔ ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔ خلص الخالص کالصافي إلّا أنّ الخالص هو ما زال عنه شوبه بعد أن کان فيه، والصّافي قد يقال لما لا شوب فيه، وقوله تعالی: فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف/ 80] ، أي : انفردوا خالصین عن غيرهم .إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف/ 24] ( خ ل ص ) الخالص ( خالص ) خالص اور الصافی دونوں مترادف ہیں مگر الصافی کبھی ایسی چیز کو بھی کہہ دیتے ہیں جس میں پہلے ہی سے آمیزش نہ ہو اور خالص اسے کہتے ہیں جس میں پہلے آمیزش ہو مگر اس سے صاف کرلیا گیا ہو ۔ آیت کریمہ : ۔ فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف/ 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے میں خلصوا کے معنی دوسروں سے الگ ہونا کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ [ البقرة/ 139] اور ہم خالص اس کی عبادت کرنے والے ہیں ۔ إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف/ 24] بیشک وہ ہمارے خالص بندوں میں سے تھے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٠۔ ٤٧) سوائے ان لوگوں کے جو کفر و شرک سے محفوظ تھے۔ یا یہ کہ عبادت و توحید کے ساتھ اللہ کے خاص کیے ہوئے بندے ہیں۔ ان کے لیے صبح و شام کے اندازہ کے مطابق ایسی غذائیں ہیں جن کا حال معلوم ہوچکا ہے۔ یعنی میوے وہ لوگ بڑی عزت سے ایسے باغوں میں جن کی نعمتیں ختم نہ ہوں گی تختوں پر آمنے سامنے زیارت کے لیے بیٹھے ہوں گے۔ ان کے پاس پاکیزہ جام شراب لایا جائے گا جو سفید ہوگی اور پینے والوں کو لذیذ معلوم ہوگی۔ نہ اس کے پینے سے پیٹ میں درد ہوگا نہ عقل میں فتور آئے گا نہ اور کسی قسم کی تکلیف ہوگی نہ گناہ ہوگا اور نہ اس سے نشہ آئے گا اور نہ سر میں درد ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٠{ اِلَّا عِبَادَ اللّٰہِ الْمُخْلَصِیْنَ } ” سوائے اللہ کے مخلص بندوں کے۔ “ آج اللہ کے چیدہ بندے ہی اس انجامِ بد سے محفوظ رہیں گے۔ مُخلَص (لام کی زبر کے ساتھ) کے معنی ہیں ” خالص کیا گیا “۔ یہاں وہ بندے مراد ہیں جنہیں اللہ نے خاص کرلیا ہو ‘ جنہیں اپنے لیے ُ چن کر الگ کرلیا ہو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:40) الا عباد اللہ المخلصین۔ الا حرف علت۔ عباد اللہ مضاف مضاف الیہ مل کر مستثنیٰ منقطع ضمیر تجزون سے۔ المخلصین اسم مفعول جمع مذکر حاضر عباد اللہ کی صفت ہے “ (مستثنیٰ منقطع ہمیشہ منصوب ہوتا ہے بدیں وجہ عباد منصوب ہے) معنی کلام ہوں گے :۔ ولکن عباد اللہ المخلصین یجزون اضعافا مضاعفۃ بالنسبۃ الی ما عملوا۔ لیکن اللہ کے مخلص بندے اپنے اعمال کی نسبت سے کئی گنا اجر دئیے جائیں گے ! ”(مگر اللہ کے مخلص (منتخب پسندیدہ ) بندے (ان کو بدلہ سینکڑوں گنا زائد دیا جائے گا) “ تفسیر مظہری۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عباد اللہ ضمیر ذائقوا سے مستثنیٰ منقطع ہے اور درمیانی جملہ وما تجزون الا ما کنتم تعملون جملہ معترضہ ہے۔ ای انکم لذائقوا العذاب الالیم ولکن عباد اللہ۔ المخلصین اولئک لہم رزق معلوم فواکہ۔۔ الخ اے مجرمو ! تم دردناک عذاب کا مزہ چکھنے والے ہو لیکن اللہ کے مخلص بندوں کے لئے رزق معلوم یعنی میوے ہوں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ مراد اس سے اہل ایمان ہیں کہ انہوں نے حق کا اتباع کیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو مقبول اور مخصوص فرمالیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں کے مقابلے میں جنت میں داخل ہونے والوں کا مقام اور احترام۔ قرآن مجیدنے اپنے دلنشین اسلوب کے تحت یہاں بھی دو قسم کے افراد اور ان کے انجام کا تقابل پیش کیا ہے۔ جہنمیوں کے مقابلے میں جنتیوں کے لیے اللہ کے مخلص بندوں کی اصطلاح استعمال فرمائی ہے۔ مخلصین کے القاب سے یہ ثابت کیا ہے کہ جنت میں وہی لوگ داخل ہو پائیں گے جن کے عقیدہ اور کردار میں شرک کی ملاوٹ نہ ہوگی اور نہ ہی وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گستاخی کے مرتکب ہوں گے بلکہ یہ لوگ انتہائی فرمانبردار اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت کرنے والے ہوں گے۔ ان کے لیے انواع و اقسام کا رزق ہوگا جو بڑے اہتمام اور تکریم کے ساتھ انہیں پیش کیا جائے گا۔ وہ نعمتوں بھری جنت میں ہوں گے اور اس میں بہترین صوفوں پر ایک دوسرے کے سامنے تشریف فرما ہو کر شراب کے جام لوٹا رہے ہوں گے۔ یہ شراب رنگت کے اعتبار سے دودھ سے زیادہ سفید اور انتہائی لذت دار ہوگی اس میں نہ نشہ ہوگا اور نہ کسی قسم کی تلخی پائی جائے گی۔ جب جنت کے پھل جنتیوں کے سامنے پیش کیے جائیں گے تو وہ ایک دم پکاراٹھیں گے کہ یہ تو وہی پھل ہیں جو ہمیں دنیا میں عطا کیے گئے تھے۔ شکل و صورت اور رنگت کے اعتبار سے جنت کے پھل اس لیے دنیا کے پھلوں کی مانند ہوں گے تاکہ جنتیوں کو پہچاننے میں کسی قسم کی پریشانی نہ اٹھانی پڑے۔ اس لیے ارشاد ہوا کہ جنتیوں کو دنیا کے پھلوں کے متشابہ پھل دیئے جائیں گے (البقرۃ : ٢٥) یاد رہے کہ جنت میں مشروبات کی چار قسم کی نہریں ہوں گی۔ 1 صاف اور شفاف پانی نہ اس کا رنگ بدلے گا اور نہ اس میں بو ( SMELL) پیدا ہوگی۔ 2 دودھ جس کا ذائقہ کبھی تبدیل نہیں ہوگا۔ 3 شہد اتنا شفاف اور روشن ہوگا جس میں پینے والے کو اپنا چہرہ نظر آئے گا۔ 4 شراب جس میں نشہ نہیں ہوگا۔ جنتیوں کے لیے ہر قسم کے میوہ جات ہوں گے اور ہمیشہ کے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہوگی۔ مسائل ١۔ جنت میں داخل ہونے والے لوگ عقیدہ اور کردار کے اعتبار سے خالص اور نہایت مخلص ہوں گے۔ ٢۔ جنتیوں کو بڑی تکریم کے ساتھ ان کی چاہت کے مطابق پھل اور میوہ جات پیش کیے جائیں گے۔ ٣۔ جنتی صوفوں پر بیٹھے ہوئے ایک دوسرے کے سامنے شراب کے جام اڑا رہے ہوں گے۔ ٤۔ جنت کی شراب میں کسی قسم کی تلخی اور نشہ نہیں پایاجائے گا۔ تفسیر بالقرآن جنت کی نعمتوں کی ایک جھلک : ١۔ ہم ان کے دلوں سے کینہ نکال دیں گے اور وہ ایک دوسرے کے سامنے تکیوں پر بیٹھے ہوں گے۔ انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور نہ وہ اس سے نکالے جائیں گے۔ (الحجر : ٤٧۔ ٤٨) ٢۔ جس جنت کا مومنوں کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ اس کے نیچے سے نہریں جاری ہیں اور اس کے پھل اور سائے ہمیشہ کے لیے ہوں گے۔ (الرّعد : ٣٥) ٣۔ جنت میں بےخار بیریاں، تہہ بہ تہہ کیلے، لمبا سایہ، چلتا ہوا پانی، اور کثرت سے میوے ہوں گے۔ (الواقعۃ : ٢٨ تا ٣٠) ٤۔ جنت کے میوے ٹپک رہے ہوں گے۔ (الحاقۃ : ٢٣) ٥۔ جنت میں وہ سب کچھ ہوگا جس کی جنتی خواہش کرے گا۔ (حٰم السجدۃ : ٣١) ٦۔ ایمان والوں اور عمل صالح کرنے والوں کے لیے جنت الفردوس ہے۔ (الکہف : ١٠٧) ٧۔ یقیناً متقین سایوں اور چشموں اور پسندیدہ میوہ جات میں رہیں گے۔ (المرسلات : ٤١۔ ٤٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(40) لیکن ہاں اللہ تعالیٰ کے وہ بندے جو مخصوص اور چیدہ ہیں۔ مخلص بندے وہی ہیں جو شرک و معاصی سے خالص ہوں ان کا کوئی تعلق ان لوگوں سے نہیں ہوگا بلکہ ان کے ساتھ معاملہ دوسری قسم کا ہوگا جو آگے مذکور ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی ان کے کیوں کا بدلا نہیں معاف ہوں گے۔