24 That is, `It will not be the kind of wine that is extracted from rotten fruit and corn in the world, but it will flow naturally from fountains like canals. In Surah Muhammad, the same thing has been described more clearly, thus: ........and canals will be flowing in it of wine which will be delightful for the drinkers." (v. 15)
25 Here the word ka `s (cup) only has been used and there is no mention of the wine. But in Arabic the use of ka's always implies wine. The cup which contains milk or water, instead of wine, or is empty, is not called ka's. The word ka's is used for a cup only when it contains wine.
سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :24
اصل میں یہاں شراب کی تصریح نہیں ہے بلکہ صرف کأس ( ساغر ) کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ لیکن عربی زبان کی کأس کا لفظ بول کر ہمیشہ شراب ہی مراد لی جاتی ہے ۔ جس پیالے میں شراب کے بجائے دودھ یا پانی ہو ، یا جس پیالے میں کچھ نہ ہو اسے کأس نہیں کہتے کأس کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب اس میں شراب ہو ۔
سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :25
یعنی وہ شراب اس قوم کی نہ ہو گی جو دنیا میں پھلوں اور غلوں کو سڑا کر کشید کی جاتی ہے ۔ بلکہ وہ قدرتی طور پر چشموں سے نکلے گی اور نہروں کی شکل میں بہے گی ۔ سورہ محمد میں اسی مضمون کو صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے : وَاَنْھٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّۃٍ لِّشَّارِبِیْنَ ۔ اور شراب کی نہریں جو پینے والوں کے لیے لذت ہوں گی ۔
سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :26
یہاں یہ نہیں بتایا گیا کہ شراب کے یہ ساغر لے کر جنتیوں کے درمیان گردش کون کرے گا ۔ اس کی تفصیل دوسرے مقامات پر ارشاد ہوئی ہے : وَ یَطُوْفُ عَلَیْھِمْ غِلْمَانٌ لَّھُمْ کَاَنَّھُمْ لُوءْ لُوءٌ مَّکْنُوْنٌ ۔ اور ان کی خدمت کے لیے گردش کریں گے ان کے خادم لڑکے ، ایسے خوبصورت جیسے صدف میں چھپے ہوئے موتی ( الطور ، آیت 24 ) ۔ وَیَطُوْفُ عَلَیْھِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ اِذَا رَأَیْتَھُمْ حَسِبْتَھُمْ لُوْء لُؤًا مَّنْشُوْراً ۔ اور ان کی خدمت کے لیے گردش کریں گے ایسے لڑکے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہنے والے ہیں ۔ تم انہیں دیکھو تو سمجھو کہ موتی بکھیر دیے گئے ہیں ( الدہر ، آیت 19 ) ۔ پھر اس کی مزید تفصیل حضرت اَنَس اور حضرت سَمُرَہ بن جُندُب کی ان روایات میں ملتی ہے جو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی ہیں ۔ ان میں بتایا گیا ہے کہ مشرکین کے بچے اہل جنت کے خادم ہوں گے ( ابو داؤد طَیالِسی ، طبرانی ، بزَّار ) ۔ یہ روایات اگرچہ سنداً ضعیف ہیں ، لیکن متعدد دوسری احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو بچے سن رشد کو نہیں پہنچے ہیں وہ جنت میں جائیں گے ۔ پھر یہ بھی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جن بچوں کے والدین جنتی ہوں گے وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ رہیں گے تاکہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں ۔ اس کے بعد لامحالہ وہ بچے رہ جاتے ہیں جن کے ماں باپ جنتی نہ ہوں گے ۔ سو ان کے متعلق یہ بات معقول معلوم ہوتی ہے کہ وہ اہل جنت کے خادم بنا دیے جائیں ۔ ( اس کے متعلق تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو فتح الباری اور عمدۃالقاری ، کتاب الجنائز ، باب ماقیل فی اولاد المشرکین رسائل و مسائل ، جلد سوم ، ص 177 تا 187 )