Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 48

سورة الصافات

وَ عِنۡدَہُمۡ قٰصِرٰتُ الطَّرۡفِ عِیۡنٌ ﴿ۙ۴۸﴾

And with them will be women limiting [their] glances, with large, [beautiful] eyes,

اور ان کے پاس نیچی نظروں ، بڑی بڑی آنکھوں والی ( حوریں ) ہونگی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَعِنْدَهُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ ... And beside them will be Qasirat At-Tarf, means, chaste females, who will not look at anyone other than their husbands, as Ibn Abbas, Mujahid, Zayd bin Aslam, Qatadah, As-Suddi and others said. ... عِينٌ with (wide and beautiful) eyes. means, with beautiful eyes. It was also said that it means with wide eyes, which is connected to the first meaning. They are wide-eyed and beautiful, and their eyes are described as being beautiful and chaste. Allah says: وَعِنْدَهُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ عِينٌ (And beside them will be Qasirat At-Tarf, with (wide and beautiful) eyes. كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَّكْنُونٌ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

48۔ 1 بڑی اور موٹی آنکھیں حسن کی علامت ہے یعنی حسین آنکھیں ہونگی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٦] قصر کا لغوی مفہوم : قَصَرَ کے معنی کسی چیز کی لمبائی یا اس کی انتہا کو نہ پہنچنا۔ نیز کم کرنا، چھوٹا کرنا، یا کوئی کام جتنا کرنا تھا اتنا نہ کرنا اور قصر الطرف یعنی جتنی دور نگاہ جاسکتی ہے اتنی دور تک نہ دیکھنا، یا نظر بھر کر نہ دیکھنا بلکہ صرف نیچے نظر رکھنا۔ اللہ تعالیٰ نے اہل جنت کی اشیاء خوردونوش کے بعد ان کی عائلی زندگی کا ذکر فرمایا کہ انہیں عورتیں ایسی دی جائیں گی جو اپنے خاوندوں کے سوا کسی کو دیکھنے کی بھی روادار نہ ہوں گی۔ [٢٧] عین بمعنی آنکھ اور عیناء اس عورت کو کہتے ہیں جس کی آنکھیں بڑی اور موٹی موٹی ہوں اور عیناء کی جمع عین آتی ہے۔ موٹی آنکھیں چہرے کی خوبصورت کو دوبالا کردیتی ہیں۔ گویا اہل جنت کی عورتوں میں دوسری صفت یہ ہوگی کہ ان کی آنکھیں موٹی اور خوبصورت ہوں گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَعِنْدَهُمْ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ عِيْنٌ : ” عِيْنٌ“ ” عَیْنَاءُ “ کی جمع ہے، خوب صورت موٹی آنکھوں والی۔ کھانے پینے اور شراب کے ساتھ لذت کی تکمیل بیویوں کی صحبت سے ہوتی ہے، اس کے لیے ان کی بیویوں کا ذکر فرمایا، جو ہر قسم کے ظاہری و باطنی اور صوری و معنوی کمال سے آراستہ ہوں گی۔ معنوی کمال یہ کہ ایسی عفیف ہوں گی کہ ان کی نگاہیں اپنے خاوندوں کے سوا کسی کی طرف نہیں اٹھیں گی اور ظاہری حسن کا یہ حال ہوگا کہ وہ گورے رنگ والی اور نہایت خوب صورت موٹی آنکھوں والی ہوں گی، جن کی آنکھوں کی سیاہی بہت سیاہ اور سفیدی بہت سفید ہوگی۔ سورة واقعہ میں ہے : (وَحُوْرٌ عِيْنٌ) [ الواقعۃ : ٢٢ ] ” اور (ان کے لیے وہاں) سفید جسم، سیاہ آنکھوں والی عورتیں ہیں، جو فراخ آنکھوں والی ہیں۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

7. In verse 48, it was said: قَاصِرَ‌اتُ الطَّرْ‌فِ (restricting their gazes). This is an attribute of the hurs or houris of Jannah - wide eyes with lowered gaze. It means that except for the mate to whom Allah Ta’ ala gives them in marital bond, they will not raise their eyes to cast a look at any other male. &Allamah Ibn-ul-Jauzi reports: These women will tell their spouses, &By the honor of our Lord, I see no one better than you in this Jannah. Praised be Allah who made me your spouse and made you, mine.& ` Allamah Ibn-ul-Jauzi has given yet another sense of &those with lowered gaze& when he says that they will cause the gaze of their spouses remain lowered. In other words, they will be so beautiful and so faithful that their spouses would simply not have a wish to look at anyone else. (Tafsir Zad-ul-Masir , pages 57, 58, volume 8)

(٧) (آیت) قصرت الطرف، یہ جنت کی حوروں کی صفت ہے کہ وہ ” نگاہیں نیچی رکھنے والی ہوں گی “ مطلب یہ ہے کہ جن شوہروں کے ساتھ ان کا ازدواجی رشتہ اللہ تعالیٰ نے قائم کردیا، وہ ان کے علاوہ کسی بھی مرد کو آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھیں گی۔ علامہ ابن جوزی نے نقل کیا ہے کہ یہ عورتیں اپنے شوہروں سے کہیں گی، ” میرے پروردگار کی عزت کی قسم ! جنت میں مجھے تم سے بہتر کوئی نظر نہیں آتا جس اللہ نے مجھے تمہاری بیوی اور تمہیں میرا شوہر بنایا تمام تعریفیں اسی کی ہیں “ ” نگاہیں نیچی رکھنے والی “ کا ایک اور مطلب علامہ ابن جوزی نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ اپنے شوہروں کی نگاہیں نیچی رکھیں گی۔ یعنی وہ خود اتنی خوب صورت اور وفا شعار ہوں گی کہ ان کے شوہروں کو کسی اور کی طرف نظر اٹھانے کی خواہش ہی نہ ہوگی۔ (تفسیر زاد المسیر لابن جوزی ص ٧٥، ٨٥، ج ٨)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَعِنْدَہُمْ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ عِيْنٌ۝ ٤٨ۙ عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ قصر القِصَرُ : خلاف الطّول، وهما من الأسماء المتضایفة التي تعتبر بغیرها، وقَصَرْتُ كذا : جعلته قَصِيراً ، والتَّقْصِيرُ : اسم للتّضجیع، وقَصَرْتُ كذا : ضممت بعضه إلى بعض، ومنه سمّي الْقَصْرُ ، وجمعه : قُصُورٌ. قال تعالی: وَقَصْرٍ مَشِيدٍ [ الحج/ 45] ، وَيَجْعَلْ لَكَ قُصُوراً [ الفرقان/ 10] ، إِنَّها تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ [ المرسلات/ 32] ، وقیل : الْقَصْرُ أصول الشّجر، الواحدة قَصْرَةٌ ، مثل : جمرة وجمر، وتشبيهها بالقصر کتشبيه ذلک في قوله : كأنّه جمالات صفر [ المرسلات/ 33] ، وقَصَرْتُه جعلته : في قصر، ومنه قوله تعالی: حُورٌ مَقْصُوراتٌ فِي الْخِيامِ [ الرحمن/ 72] ، وقَصَرَ الصلاةَ : جعلها قَصِيرَةً بترک بعض أركانها ترخیصا . قال : فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ [ النساء/ 101] وقَصَرْتُ اللّقحة علی فرسي : حبست درّها عليه، وقَصَرَ السّهمِ عن الهدف، أي : لم يبلغه، وامرأة قاصِرَةُ الطَّرْفِ : لا تمدّ طرفها إلى ما لا يجوز . قال تعالی: فِيهِنَّ قاصِراتُ الطَّرْفِ [ الرحمن/ 56] . وقَصَّرَ شعره : جزّ بعضه، قال : مُحَلِّقِينَ رُؤُسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ [ الفتح/ 27] ، وقَصَّرَ في كذا، أي : توانی، وقَصَّرَ عنه لم : ينله، وأَقْصَرَ عنه : كفّ مع القدرة عليه، واقْتَصَرَ علی كذا : اکتفی بالشیء الْقَصِيرِ منه، أي : القلیل، وأَقْصَرَتِ الشاة : أسنّت حتی قَصَرَ أطراف أسنانها، وأَقْصَرَتِ المرأة : ولدت أولادا قِصَاراً ، والتِّقْصَارُ : قلادة قَصِيرَةٌ ، والْقَوْصَرَةُ معروفة «1» . ( ق ص ر ) القصر یہ طول کی ضد ہے اور یہ دونوں اسمائے نسبتی سے ہیں جو ایک دوسرے پر قیاس کے ذریعہ سمجھے جاتے ہیں ۔ قصرت کذا کے معنی کسی چیز کو کوتاہ کرنے کے ۔ ہیں اور تقصیر کے معنی اور سستی کے ہیں اور قصرت کذا کے معنی سکیٹر نے اور کسی چیز کے بعض اجزاء کو بعض کے ساتھ ملانا کے بھی آتے ہیں ۔ اسی سے قصر بمعنی محل ہے اس کی جمع قصور آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقَصْرٍ مَشِيدٍ [ الحج/ 45] اور بہت سے محل : ۔ وَيَجْعَلْ لَكَ قُصُوراً [ الفرقان/ 10] نیز تمہارے لئے محل بنادے گا ۔ إِنَّها تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ [ المرسلات/ 32] اس سے آگ کی اتنی ( بڑی بڑی ) چنگاریاں اٹھتی ہیں ۔ جیسے محل ۔ بعض نے کہا ہے کہ قصر جمع ہے اور اس کے معنی درخت کی جڑوں کے ہیں ۔ اس کا واحد قصرۃ ہے جیسے جمرۃ وجمر اور ان شراروں کو قصر کے ساتھ تشبیہ دینا ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری آیت میں ان کا ۔ كأنّه جمالات صفر [ المرسلات/ 33] گویا زور درنگ کے اونٹ ہیں ۔ کہا ہے کہ اور قصرتہ کے معنی محل میں داخل کرنے کے ہیں اور اسی سے ارشاد الہٰی ہے ۔ حُورٌ مَقْصُوراتٌ فِي الْخِيامِ [ الرحمن/ 72] وہ حوریں ہیں جو خیموں میں ستور ہیں ۔ قصرالصلٰوۃ بموجب رخصت شرعی کے نماز کے بعض ارکان کو ترک کرکے اسے کم کرکے پڑھنا ۔ قرآن پاک میں ہے : فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ [ النساء/ 101] تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ نماز کو کم کر کے پڑھو ۔ قصرت اللقحتہ علٰی فرسی اونٹنی کا دودھ اپنی گھوڑی کے لئے مخصوص کردیا قصرالسھم عن الھدف ۔ تیر کا نشانے تک نہ پہنچنا ۔ امراءۃ قاصرۃ الطرف وہ عورت ناجائز نظر اٹھا کے نہ دیکھے ۔ قرآن پاک میں ہے : فِيهِنَّ قاصِراتُ الطَّرْفِ [ الرحمن/ 56] ان میں نیچی نگاہ والی عورتیں ۔ قصری شعرہ بال کتروانا قرآن پاک میں ہے : مُحَلِّقِينَ رُؤُسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ [ الفتح/ 27] اپنے سر منڈاوا کر اور بال کتروا کر ۔ قصرفی کذا : کسی کام میں سستی کرنا قصر عنہ کسی کام کے کرنے سے عاجز ہونا ۔ اقصرت عنہ ۔ باوجود قدرت کے کسی کام کرنے سے باز رہنا ۔ اقتصر علیٰ کذا تھوڑی چپز پر صبر کرنا ۔ اقتصرت الشاۃ بوڑھا ہونے کی وجہ سے بکری کے دانتوں کا کوتاہ ہوجانا ۔ اقصرت المرءۃ چھوٹی قد اولاد جننا تقصار چھوٹا سا رہا ۔ القوصرہ کھجور ڈالنے زنبیل جو کھجور پتوں یا نرکل کی بنئی ہوئی ہوتی ہے ۔ طرف طَرَفُ الشیءِ : جانبُهُ ، ويستعمل في الأجسام والأوقات وغیرهما . قال تعالی: فَسَبِّحْ وَأَطْرافَ النَّهارِ [ طه/ 130] ، أَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهارِ [هود/ 114] ( ط رف ) الطرف کے معنی کسی چیز کا کنارہ اور سرا کے ہیں اور یہ اجسام اور اوقات دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَسَبِّحْ وَأَطْرافَ النَّهارِ [ طه/ 130] اور اس کی بیان کرو اور دن کے اطراف میں ۔ أَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهارِ [هود/ 114] اور دن ۔ کے دونوں سروں ( یعنی صبح اور شام کے اوقات میں ) نماز پڑھا کرو ۔ عين ويقال لذي العَيْنِ : عَيْنٌ «3» ، وللمراعي للشیء عَيْنٌ ، وفلان بِعَيْنِي، أي : أحفظه وأراعيه، کقولک : هو بمرأى منّي ومسمع، قال : فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور/ 48] ، وقال : تَجْرِي بِأَعْيُنِنا [ القمر/ 14] ، وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنا[هود/ 37] ، أي : بحیث نریونحفظ . وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه/ 39] ، أي : بکلاء تي وحفظي . ومنه : عَيْنُ اللہ عليك أي : كنت في حفظ اللہ ورعایته، وقیل : جعل ذلک حفظته وجنوده الذین يحفظونه، وجمعه : أَعْيُنٌ وعُيُونٌ. قال تعالی: وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود/ 31] ، رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان/ 74] . ويستعار الْعَيْنُ لمعان هي موجودة في الجارحة بنظرات مختلفة، واستعیر للثّقب في المزادة تشبيها بها في الهيئة، وفي سيلان الماء منها فاشتقّ منها : سقاء عَيِّنٌ ومُتَعَيِّنٌ: إذا سال منها الماء، وقولهم : عَيِّنْ قربتک «1» ، أي : صبّ فيها ما ينسدّ بسیلانه آثار خرزه، وقیل للمتجسّس : عَيْنٌ تشبيها بها في نظرها، وذلک کما تسمّى المرأة فرجا، والمرکوب ظهرا، فيقال : فلان يملك كذا فرجا وکذا ظهرا لمّا کان المقصود منهما العضوین، وقیل للذّهب : عَيْنٌ تشبيها بها في كونها أفضل الجواهر، كما أنّ هذه الجارحة أفضل الجوارح ومنه قيل : أَعْيَانُ القوم لأفاضلهم، وأَعْيَانُ الإخوة : لنبي أب وأمّ ، قال بعضهم : الْعَيْنُ إذا استعمل في معنی ذات الشیء فيقال : كلّ ماله عَيْنٌ ، فکاستعمال الرّقبة في المماليك، وتسمية النّساء بالفرج من حيث إنه هو المقصود منهنّ ، ويقال لمنبع الماء : عَيْنٌ تشبيها بها لما فيها من الماء، ومن عَيْنِ الماء اشتقّ : ماء مَعِينٌ. أي : ظاهر للعیون، وعَيِّنٌ أي : سائل . قال تعالی: عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان/ 18] ، وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] ، فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن/ 50] ، يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن/ 66] ، وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ/ 12] ، فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر/ 45] ، مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء/ 57] ، وجَنَّاتٍ وَعُيُونٍ وَزُرُوعٍ [ الدخان/ 25- 26] . وعِنْتُ الرّجل : أصبت عَيْنَهُ ، نحو : رأسته وفأدته، وعِنْتُهُ : أصبته بعیني نحو سفته : أصبته بسیفي، وذلک أنه يجعل تارة من الجارحة المضروبة نحو : رأسته وفأدته، وتارة من الجارحة التي هي آلة في الضّرب فيجري مجری سفته ورمحته، وعلی نحوه في المعنيين قولهم : يديت، فإنه يقال : إذا أصبت يده، وإذا أصبته بيدك، وتقول : عِنْتُ البئر أثرت عَيْنَ مائها، قال :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون/ 50] ، فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک/ 30] . وقیل : المیم فيه أصليّة، وإنما هو من : معنت «2» . وتستعار العَيْنُ للمیل في المیزان ويقال لبقر الوحش : أَعْيَنُ وعَيْنَاءُ لحسن عينه، وجمعها : عِينٌ ، وبها شبّه النّساء . قال تعالی: قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات/ 48] ، وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] . ( ع ی ن ) العین اور عین کے معنی شخص اور کسی چیز کا محافظ کے بھی آتے ہیں اور فلان بعینی کے معنی ہیں ۔ فلاں میری حفاظت اور نگہبانی میں ہے جیسا کہ ھو بمر ا ئ منی ومسمع کا محاورہ ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور/ 48] تم تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو ۔ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے چلتی تھی ۔ وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه/ 39] اور اس لئے کہ تم میرے سامنے پر دریش پاؤ ۔ اور اسی سے عین اللہ علیک ہے جس کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت اور نگہداشت فرمائے یا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے نگہبان فرشتے مقرر کرے جو تمہاری حفاظت کریں اور اعین وعیون دونوں عین کی جمع ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود/ 31] ، اور نہ ان کی نسبت جن کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو یہ کہتا ہوں کہ ۔ رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان/ 74] اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے آ نکھ کی ٹھنڈک عطا فرما ۔ اور استعارہ کے طور پر عین کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جو مختلف اعتبارات سے آنکھ میں پائے جاتے ہیں ۔ مشکیزہ کے سوراخ کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ہیئت اور اس سے پانی بہنے کے اعتبار سے آنکھ کے مشابہ ہوتا ہے ۔ پھر اس سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے ۔ سقاء عین ومعین پانی کی مشک جس سے پانی ٹپکتا ہو عین قر بتک اپنی نئی مشک میں پانی ڈالواتا کہ تر ہو کر اس میں سلائی کے سوراخ بھر جائیں ، جاسوس کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ دشمن پر آنکھ لگائے رہتا ہے جس طرح کو عورت کو فرج اور سواری کو ظھر کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں سے مقصود یہی دو چیزیں ہوتی ہیں چناچنہ محاورہ ہے فلان یملک کذا فرجا وکذا ظھرا ( فلاں کے پاس اس قدر لونڈ یاں اور اتنی سواریاں ہیں ۔ (3) عین بمعنی سونا بھی آتا ہے کیونکہ جو جواہر میں افضل سمجھا جاتا ہے جیسا کہ اعضاء میں آنکھ سب سے افضل ہوتی ہے اور ماں باپ دونوں کی طرف سے حقیقی بھائیوں کو اعیان الاخوۃ کہاجاتا ہے ۔ (4) بعض نے کہا ہے کہ عین کا لفظ جب ذات شے کے معنی میں استعمال ہوجی سے کل مالہ عین تو یہ معنی مجاز ہی ہوگا جیسا کہ غلام کو رقبۃ ( گردن ) کہہ دیا جاتا ہے اور عورت کو فرج ( شرمگاہ ) کہہ دیتے ہیں کیونکہ عورت سے مقصود ہی یہی جگہ ہوتی ہے ۔ (5) پانی کے چشمہ کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ اس سے پانی ابلتا ہے جس طرح کہ آنکھ سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور عین الماء سے ماء معین کا محاورہ لیا گیا ہے جس کے معنی جاری پانی کے میں جو صاف طور پر چلتا ہوا دکھائی دے ۔ اور عین کے معنی جاری چشمہ کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان/ 18] یہ بہشت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن/ 50] ان میں دو چشمے بہ رہے ہیں ۔ يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن/ 66] دو چشمے ابل رہے ہیں ۔ وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ/ 12] اور ان کیلئے ہم نے تانبے کا چشمہ بہا دیا تھا ۔ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر/ 45] باغ اور چشموں میں ۔ مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء/ 57] باغ اور چشمے اور کھیتیاں ۔ عنت الرجل کے معنی ہیں میں نے اس کی آنکھ پر مارا جیسے راستہ کے معنی ہوتے ہیں میں نے اس کے سر پر مارا فادتہ میں نے اس کے دل پر مارا نیز عنتہ کے معنی ہیں میں نے اسے نظر بد لگادی جیسے سفتہ کے معنی ہیں میں نے اسے تلوار سے مارا یہ اس لئے کہ اہل عرب کبھی تو اس عضو سے فعل مشتق کرتے ہیں جس پر مارا جاتا ہے اور کبھی اس چیز سے جو مار نے کا آلہ ہوتی ہے جیسے سفتہ ورمحتہ چناچہ یدیتہ کا لفظ ان ہر دومعنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی میں نے اسے ہاتھ سے مارا یا اس کے ہاتھ پر مارا اور عنت البئر کے معنی ہیں کنواں کھودتے کھودتے اس کے چشمہ تک پہنچ گیا قرآن پاک میں ہے :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون/ 50] ایک اونچی جگہ پر جو رہنے کے لائق تھی اور ہوا پانی جاری تھا ۔ فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک/ 30] تو ( سوائے خدا کے ) کون ہے جو تمہارے لئے شیریں پال کا چشمہ بہالائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ معین میں لفظ میم حروف اصلیہ سے ہے اور یہ معنت سے مشتق ہے جسکے معنی ہیں کسی چیز کا سہولت سے چلنا یا بہنا اور پر بھی بولا جاتا ہے اور وحشی گائے کو آنکھ کی خوب صورتی کہ وجہ سے اعین دعیناء کہاجاتا ہے اس کی جمع عین سے پھر گاواں وحشی کے ساتھ تشبیہ دے کر خوبصورت عورتوں کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات/ 48] جو نگاہیں نیچی رکھتی ہوں ( اور ) آنکھیں بڑی بڑی ۔ وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور جنت میں ان کے پاس ان کی بیویوں کے علاوہ اور نیچی نگاہ والی بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ہوں گی جو اپنے خاوندوں پر قناعت کرنے والی ہوں گی اور حسین ہوں گی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٨{ وَعِنْدَہُمْ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ عِیْنٌ} ” اور ان کے پاس ہوں گی نیچی نگاہوں والی بڑی بڑی آنکھوں والی (بیویاں) ۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

27 That is, the wide of Paradise will be free from both the evils which are found in the wine of the world. The wine of the world, first of All, afflicts man with its stink; then it embitters his taste, upsets his stomach, affects his mind and causes giddiness; then it affects the liver and spoils the health generally. Then, when the intoxication is gone, it leaves behind other ill-effects on the body. Its other evil is that man gets drunk with it, talks nonsense and brawls. This is how the wine affects man's mind and reason. Man suffers both these evil effects of the wine only for the sake of delight and pleasure. AIlah says that the wine of Paradise will certainly afford and give full pleasure and delight, but it will be free from the kinds of the evils that go with the worldly wine. 28 Probably these will be the girls who died before attaining the age of discretion in the world, and whose parents did not deserve to enter Paradise. This can be said on the basis of analogy that just as the boys similarly placed will be appointed for the service of the dwellers of Paradise, and they will ever remain hoes, so will the girls be made the houris and they will ever remain young and beautiful. The correct knowledge, however, is with Allah.

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :28 یعنی اپنے شوہر کے سوا کسی اور کی طرف نگاہ نہ کرنے والی ۔ سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :29 بعید نہیں ہے کہ یہ وہ لڑکیاں ہوں جو دنیا میں سن رشد کو پہنچنے سے پہلے مر گئی ہوں اور جن کے والدین جنت میں جانے کے مستحق نہ ہوئے ہوں ۔ یہ بات اس قیاس کی بنا پر کہی جا سکتی ہے کہ جس طرح ایسے لڑکے اہل جنت کی خدمت کے لیے مقرر کر دیے جائیں گے اور وہ ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے ، اسی طرح ایسی لڑکیاں بھی اہل جنت کے لیے حوریں بنا دی جائیں گی اور وہ ہمیشہ نو خیز لڑکیاں ہی رہیں گی ۔ واللہ اعلم با لصواب ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

9: یہ حوریں ہوں گی جو اپنے شوہروں کے سوا کسی اور کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھیں گی۔ اور اس آیت کا ایک مطلب بعض مفسرین نے یہ بتایا ہے کہ وہ اپنے شوہروں کی نگاہوں ٰں اتنی حسین ہوں گی کہ وہ ان کو دوسری عورتوں کی طرف مائل نہیں ہونے دیں گی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:48) قصرت الطرف۔ مضاف مضاف الیہ (یہ حوروں کی صفت ہے ) اسم فاعل جمع مؤنث ۔ قصرۃ واحد۔ قصر یقصر (باب نصر) قصور۔۔ عن الشیء کسی چیز سے رک جانا۔ اور قصر یقصر (ضرب) فی بیتہ گھر میں روکے رکھنا۔ قصر نفسہ علی کذا۔ کسی چیز پر قناعت کرلینا اور دوسری چیز کی طرف نگاہ نہ اٹھانا۔ الطرف۔ نظر۔ نگاہ۔ قصرت الطرف۔ اپنی نگاہ کو روک رکھنے والیاں۔ نگاہوں کو نیچا رکھنے والیاں۔ جن کی نگاہیں غایت عفت کے سبب اوپر کو نہ اٹھیں، جو اپنے شوہروں کے بغیر کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھتی ہوں۔ وعندہم قصرت الطرف۔ یہ جملہ معطوف ہے جس کا عطف جملہ ماقبل پر ہے یا یہ موضع الحال میں ہے۔ یعنی شراب سے لبریز پیالے ان کے درمیان گردش کر رہے ہوں گے درآں حالیکہ ان کے حضور ایسی حوریں ہوں گی جو اپنی نگاہیں انہی پر مرکوز رکھیں گی اور کسی دوسری طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھیں گی۔ عین بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں والیاں، زنان فراخ چشم۔ اعین۔ عیناء سے عین جمع مذکر ومؤنث۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جنتیوں کی ازواج مطہرات کا ذکر۔ دنیا میں شراب اور شباب کا لفظ جب استعمال کیا جاتا ہے تو اس میں بےحیائی کا عنصر پایا جاتا ہے۔ اس لیے کوئی شریف آدمی اپنے لیے ان الفاظ کو پسند نہیں کرتا۔ لیکن جنت میں شراب اور شباب اپنی کامل اور اکمل پاکیزگی کے ساتھ جنتیوں کی خدمت میں پیش کی جائیں گی۔ شراب کے بارے میں پچھلی آیت میں ذکر ہوا کہ اس میں کسی قسم کی غنودگی اور تلخی نہیں پائی جائے گی۔ جنت کی ازواج کا تعارف ان الفاظ میں کروایا جارہا ہے کہ وہ اس قدر پاکباز اور شرم و حیا کا پیکر ہوں گی کہ اپنے خاوندوں کے سوا کسی دوسرے جنتی کی طرف نگاہ اٹھانے کا تصور بھی نہ کر پائیں گی۔ ان کے حسن و جمال کا عالم یہ ہوگا کہ پُر جمال چہرے، بہترین نقش ونگار اور حیا سے بھری موٹی موٹی آنکھیں گویا کہ وہ چمکتے ہوئے محفوظ انڈے ہیں جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہوگا اور نہ کسی ہاتھ نے چھوا ہوگا۔ خوبصورت چہرے اور حسن و جمال کے پیکر کو ہر زبان میں انڈے کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے اور انڈوں میں سب سے خوبصورت انڈہ شتر مرغ کا سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے بعض مفسرین نے جنتیوں کی ازواج مطہرات کو شترمرغ کے انڈوں کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ اس کا یہ معنٰی نہیں کہ ان تشبیہات سے جنت کی عورتوں کے حسن کا تصور انسان کے احاطہ خیال میں سما سکتا ہے۔ یہ تشبیہ تو محض انسان کے تصور کو جلا بخشنے کے لیے دی گئی ہے ورنہ جنت کی بیویوں کا حسن دنیا کی عورتوں سے ہزاروں گنا بڑھ کر ہوگا۔ (وَلَوْ اَنَّ اِمْرَاَۃً مِّنْ نِّسَآءِ أَھْلِ الْجَنَّۃِ اطَّلَعَتْ اِلَی الْاَرْضِ لَاَضَآءَ تْ مَا بَیْنَھُمَا وَلَمَلَاَتْ مَا بَیْنَھُمَا رِیْحًا وَلَنَصِیْفُھَا یَعْنِی الْخِمَارَ خَیْرٌ مِّنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا) [ رواہ البخاری : باب صفۃ الجنۃ والنار ] ” اگر اہل جنت کی عورتوں سے کوئی زمین کی طرف جھانک لے تو مشرق و مغرب اور جو کچھ اس میں ہے روشن اور معطر ہوجائے۔ نیز اس کے سر کا دوپٹہ دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے اس سے قیمتی ہے۔ “ (وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ اَوَّلَ زُمْرَۃٍ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ عَلٰی صُوْرَۃِ الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ کَاَشَدِّ کَوْکَبٍ دُرِّیٍٍٍٍّ فِیْ السَّمَاءِ اِضَاءَ ۃً قُلُوْبُھُمْ عَلٰی قَلْبِ رَجُلٍ وَّاحِدٍ لَا اخْتِلَافَ بَیْنَھُمْ وَلَا تَبَاغُضَ لِکُلِّ امْرِیئ مِّنْھُمْ زَوْجَتَانِ مِنَ الْحُوْرِ الْعِیْنِ یُرٰی مُخُّ سُوْ قِھِنَّ مِنْ وَّرَاءِ الْعَظْمِ وَاللَّحْمِ مِنَ الْحُسْنِ یُسَبِّحُوْنَ اللّٰہَ بُکْرَۃً وَّعَشِیًّا لَایَسْقَمُوْنَ وَلَا یَبُوْلُوْنَ وَلَا یَتَغَوَّطُوْنَ وَلَایَتْفُلُوْنَ وَلَا یَمْتَخِطُوْنَ اٰنِیَتُھُمُ الذَّھَبُ وَالْفِضَّۃُ وَاَمْشَاطُھُمُ الذَّھَبُ وَوُقُوْدُ مَجَامِرِھِمُ الْاُلُوَّۃُ وَرَشْحُھُمُ الْمِسْکُ عَلٰی خَلْقِ رَجُلٍ وَّاحِدٍ عَلٰی صُوْرَۃِ اَبِیْھِمْ اٰدَمَ سِتُّوْنَ ذِرَاعًا فِیْ السَّمَاءِ ) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی (وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَءِکَۃِ إِنِّی جَاعِلٌ فِی الأَرْضِ خَلِیفَۃً )] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جنت میں سب سے پہلے داخل ہونے والے چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوں گے۔ ان کے بعد داخل ہونے والے، آسمان پر بہت تیز چمکنے والے ستارے کی طرح ہوں گے۔ تمام جنتیوں کے دل ایک جیسے ہوں گے نہ ان کے درمیان اختلاف ہوگا اور نہ ہی ایک دوسرے سے بغض رکھیں گے۔ ان میں سے ہر شخص کے لیے حوروں میں سے دو بیویاں ہوں گی۔ جن کے حسن کی وجہ سے ان کی پنڈ لیوں کا گودا ‘ ہڈی اور گوشت کے پیچھے دکھائی دے گا۔ اہل جنت صبح شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کریں گے نہ وہ بیمار ہوں گے اور نہ ہی پیشاب کریں گے ‘ نہ رفع حا جت کریں گے اور نہ ہی تھوکیں گے اور نہ ہی ناک سے رطوبت بہائیں گے ان کے برتن سونے چاندی کے ہوں گے۔ اور ان کی کنگھیاں سونے کی ہوں گی۔ ان کی انگیٹھیوں کا ایندھن عود ہندی ہوگا اور ان کا پسینہ کستوری کی طرح ہوگا۔ سب کا اخلاق ایک جیسا ہوگا نیز وہ سب شکل و صورت میں اپنے باپ آدم (علیہ السلام) کی طرح ہوں گے آدم کا قد ساٹھ ہاتھ لمبا تھا۔ “ تفسیر بالقرآن جنت کی بیویوں کے حسن و جمال کی ایک جھلک : ا۔ حوریں نوجوان، کنواریاں اور ہم عمر ہوں گی۔ (الواقعہ : ٢٥ تا ٣٨) ٢۔ یا قوت و مرجان کی مانند ہوں گی۔ (الرّحمن : ٥٨) ٣۔ خوبصورت اور خوب سیرت ہوں گی۔ (الرّحمن : ٧٠) ٤۔ جنت کی حوریں خیموں میں چھپی ہوئی ہوں گی۔ (الرّحمن : ٧٢) ٥۔ شرم و حیا کی پیکر اور انہیں کسی نے چھوا نہیں ہوگا۔ (الرّحمن : ٥٦) ٦۔ جنت کی حوریں ایسی دیکھائی دیں گی جیسے چھپائے ہوئے موتی ہوں۔ (الواقعہ : ٢٣) ٧۔ جنتیوں کو خوبصورت بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں عطا کی جائیں گی۔ (الصّٰفٰت : ٤٨، ٤٩) ٨۔ جنتیوں بیویاں ان کی ہم عمر ہوں گی۔ (صٓ: ٥٢) ٩۔ جنتیوں کے لیے پاک صاف بیویاں ہوں گی۔ (البقرۃ : ٢٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وعندھم قصرت الطرف عین (37: 48) ” اور ان کے پاس نکا ہیں بچا بےوالی خوبصورت آنکھوں والی عورتیں ہوں گی “۔ نہایت حیادار ، نظریں اپنے خاوندوں کے سوا کسی پر نہ ڈالیں گی بوجہ حیادصفت ۔ اور ان کی آنکھیں بہت ہی خوبصورت ہوں گی ۔ وہ نہایت محفوظ ، نرم ونازک اور پتلی ہوں گی ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

23:۔ و عندھم الخ :۔ سامانِ خوردو نوش کے علاوہ جنت میں جنسی جذبات کی تسکین کا بھی سامان موجود ہوگا۔ قصرات الطرف، موصوف مقدر کی صفت ہے ای ازواج (مظہری) اہل جنت کو جنت میں جو بیویاں (حوریں) ملیں گی وہ اپنی نگاہیں اپنے خاوندوں ہی پر مرکوز رکھیں گی۔ ان خاوندوں کو ایسا حسن و جمال عطا ہوگا کہ حوریں ان میں محو ہوں گی۔ اور ان کے سوا کسی کی طرف نگاہ اٹھا کر نہ دیکھیں گی۔ یہ ان کی عفت اور پاکدامنی کی علامت ہے۔ نساء عفیفات قصرن ابصارھن علی ازواجہن لا ینظرن الی غیرہم (جامع البیان ص 384) حابسات الا عین علی ازواجہن لا ینظرن الی غیرھم لحسنہم عندھن (جلالین) ۔ 24:۔ عین یہ عیناء کی جمع ہے اور مبتدا مقدر کی خبر ہے ای ھن عین (مظہری) ، یعنی موٹی آنکھوں والی، موٹی آنکھیں حسن و جمال کی علامت ہیں۔ اس لیے بعض مفسرین نے اس کا معنی ہی خوبصورت آنکھوں والی کیا ہے۔ عظام العیون الواحدۃ عیناء وقالہ السدی و مجاھد (عین) حسان العیون (قرطبی ج 15 ص 80) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(48) اور ان اہل جنت کے پاس نیچی نظروں والی بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ہوں گی۔