Surat us Saaffaat
Surah: 37
Verse: 49
سورة الصافات
کَاَنَّہُنَّ بَیۡضٌ مَّکۡنُوۡنٌ ﴿۴۹﴾
As if they were [delicate] eggs, well-protected.
ایسی جیسے چھپائے ہوئے انڈے ۔
کَاَنَّہُنَّ بَیۡضٌ مَّکۡنُوۡنٌ ﴿۴۹﴾
As if they were [delicate] eggs, well-protected.
ایسی جیسے چھپائے ہوئے انڈے ۔
as if they were Bayd Maknun. Their bodies are described as having the most perfect color. Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas, may Allah be pleased with him: كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَّكْنُونٌ (as if they were Bayd Maknun), means, as if they were hidden pearls. Al-Hasan said: كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَّكْنُونٌ (as if they were Bayd Maknun), means, "protected, never touched by any hands." As-Suddi said, "The well preserved egg in its nest." Sa`id bin Jubayr said: كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَّكْنُونٌ (as if they were Bayd Maknun), means, "The inside of the egg." Ata' Al-Khurasani said, "It is the membrane which is between its outer shell and its inner contents." As-Suddi said: كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَّكْنُونٌ (as if they were Bayd Maknun) means, "The white of the egg when its shell is removed." Ibn Jarir's view concerning the meaning of Maknun (well preserved) is, "the outer shell is touched by the wing of the bird and the nest, and by people's hands, unlike the interior of the egg. And Allah knows best."
49۔ 1 یعنی شتر مرغ اپنے پروں کے نیچے چھپائے ہوئے ہوں، جس کی وجہ سے وہ ہوا اور گردو غبار سے محفوظ ہوں گے۔
[٢٨] بیض کی مختلف تعبیریں :۔ اس آیت کی کئی تعبیریں کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ ان کی رنگت سفید ہوگی یعنی گورے رنگ کی ہوں گی اور جلد بالکل بےداغ ہوگی۔ دوسری یہ کہ یہاں انڈوں سے مراد شتر مرغ کے انڈے ہیں جو نہایت خوش رنگ ہوتے ہیں۔ اور اس تعبیر کی تائید اس آیت سے بھی ہوجاتی ہے (کَأنَّھُنَّ الْیَاقُوْتُ وَالْمَرْجَانُ ) (٥٥: ٥٨) (یعنی اہل جنت کی عورتیں یاقوت اور مرجان کی طرح ہوں گی) اور تیسری تعبیر وہ ہے جو ماثور ہے۔ چناچہ سیدہ ام سلمہ (رض) نے جب اسی آیت کی تفسیر رسول اللہ سے پوچھی تو آپ نے فرمایا : کہ ان کی نرمی و نزاکت اس جھلیّ جیسی ہوگی جو انڈے کے چھلکے اور اس کے گودے کے درمیان ہوتی ہے (ابن جریر) اسی تعبیر کو معتبر سمجھ کر ترجمہ اس کے مطابق درج کیا گیا ہے۔ یہ اہل جنت کی عورتوں کی تیسری صفت ہوئی۔
كَاَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَّكْنُوْنٌ: ” بَيْضٌ“ ” بَیْضَۃٌ“ کی جمع ہے، انڈے۔ انڈے کا رنگ عموماً سفید سرخی مائل ہوتا ہے، جس میں کچھ زردی کی آمیزش ہوتی ہے۔ یہ رنگ چھپا کر رکھنے سے قائم رہتا ہے، ورنہ اڑجاتا ہے۔ خصوصاً شتر مرغ کے انڈے اس رنگ کے ہوتے ہیں اور شتر مرغ انھیں اپنے ملائم اور نرم پروں کے ریشوں کے فرش پر رکھ کر انھی کے ساتھ ڈھانپ دیتا ہے۔ عرب لوگ عورتوں کے ایسے رنگ کو بہت پسند کرتے ہیں اور انھیں چھپائے ہوئے انڈوں کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں۔ اشرف الحواشی میں ہے : ” بعض مفسرین نے ” بَيْضٌ مَّكْنُوْنٌ“ کی تفسیر ” انڈے کے چھلکے کے نیچے چھپی ہوئی جھلی “ سے کی ہے اور اس کی یہی تفسیر ام سلمہ (رض) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کی ہے، اس لیے اس کی یہی تفسیر صحیح ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ” بَيْضٌ مَّكْنُوْنٌ“ کا مطلب دریافت کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ان کی (یعنی جنت کی حوروں کی) نرمی اور نزاکت اس جھلی جیسی ہوگی جو انڈے کے چھلکے سے چپکی ہوتی ہے اور اسے ” غِرْقِیٌّ“ کہا جاتا ہے۔ “ (ابن کثیر، ابن جریر ) قاموس میں ہے : ” غَرْقَأَتِ الدَّجَاجَۃُ بَیْضَتَھَا “ ” مرغی نے سخت چھلکے کے بغیر انڈا دیا۔ “ مگر تفسیر ابن کثیر کے محقق حکمت بن بشیر نے اس روایت کے متعلق لکھا ہے : ” اسے طبری اور طبرانی نے ایک ہی سند اور متن کے ساتھ روایت کیا ہے اور اس کی سند سلیمان بن ابی کریمہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔ اسے عقیلی اور ابن عدی نے ضعیف کہا ہے۔ “ علاوہ ازیں قرآن میں ان عورتوں کو ” الولوا المکنون “ بھی کہا گیا ہے، اس لیے ” بَيْضٌ مَّكْنُوْنٌ“ اور ” الولوا المکنون “ کی مناسبت مدنظر رہنی چاہیے۔ (واللہ اعلم)
8. In verse 49: كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَّكْنُونٌ (as if they were hidden eggs). As obvious, the hurs of Jannah have been likened to hidden eggs in this verse. The simile was popularly recognized among the people of Arabia. The egg hidden under feathers remains safe from the pollution, therefore it is always neat and clean. Moreover, its color is yellowish white, which was deemed by the Arabs as the most attractive color for women. Then there are other commentators who say that this simile does not relate to eggs as such, instead, the simile relates to the membrane hidden in the egg, and the sense is that the skin of those women will be as soft as the membrane of the eggs. (Ruh-ul-Ma ani) Allah knows best.
(٨) کانھن بیض مکنون، اس آیت میں جنت کی حوروں کو ” چھپے ہوئے انڈوں “ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اہل عرب کے یہاں یہ تشبیہ مشہور و معروف تھی جو انڈا پروں میں چھپا ہوا ہو اس پر بیرونی گرد و غبار کا اثر نہیں پہنچتا۔ اس لئے وہ نہایت صاف ستھرا ہوتا ہے، اس کے علاوہ اس کا رنگ زردی مائل سفید ہوتا ہے جو اہل عرب کے یہاں عورتوں کے لئے دلکش ترین رنگ شمار ہوتا تھا، اس لئے اس سے تشبیہ دی گئی۔ اور بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ یہاں انڈوں سے تشبیہ نہیں ہے، بلکہ انڈوں کی اس جھلی سے ہے جو چھلکے کے اندر پوشیدہ ہوتی ہے اور مطلب یہ ہے کہ وہ عورتیں اس جھلی کی طرح نرم و نازک اور گداز ہوں گی۔ (روح المعانی) واللہ سبحانہ اعلم۔
كَاَنَّہُنَّ بَيْضٌ مَّكْنُوْنٌ ٤٩ بيض البَيَاضُ في الألوان : ضدّ السواد، يقال : ابْيَضَّ يَبْيَضُّ ابْيِضَاضاً وبَيَاضاً ، فهو مُبْيَضٌّ وأَبْيَضُ. قال عزّ وجل : يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذابَ بِما كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَتِ اللَّهِ [ آل عمران/ 106- 107] . والأَبْيَض : عرق سمّي به لکونه أبيض، ولمّا کان البیاض أفضل لون عندهم كما قيل : البیاض أفضل، والسواد أهول، والحمرة أجمل، والصفرة أشكل، عبّر به عن الفضل والکرم بالبیاض، حتی قيل لمن لم يتدنس بمعاب : هو أبيض اللون . وقوله تعالی: يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ [ آل عمران/ 106] ، فابیضاض الوجوه عبارة عن المسرّة، واسودادها عن الغم، وعلی ذلک وَإِذا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا [ النحل/ 58] ، وعلی نحو الابیضاض قوله تعالی: وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ ناضِرَةٌ [ القیامة/ 22] ، وقوله : وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُسْفِرَةٌ ضاحِكَةٌ مُسْتَبْشِرَةٌ [ عبس/ 38- 39] . وقیل : أمّك بيضاء من قضاعة«1» وعلی ذلک قوله تعالی: بَيْضاءَ لَذَّةٍ لِلشَّارِبِينَ [ الصافات/ 46] ، وسمّي البَيْض لبیاضه، الواحدة : بَيْضَة، وكنّي عن المرأة بالبیضة تشبيها بها في اللون، وکونها مصونة تحت الجناح . وبیضة البلد يقال في المدح والذم، أمّا المدح فلمن کان مصونا من بين أهل البلد ورئيسا فيهم، وعلی ذلک قول الشاعر : کانت قریش بيضة فتفلّقت ... فالمحّ خالصه لعبد مناف وأمّا الذم فلمن کان ذلیلا معرّضا لمن يتناوله كبيضة متروکة بالبلد، أي : العراء والمفازة . وبَيْضَتَا الرجل سمّيتا بذلک تشبيها بها في الهيئة والبیاض، يقال : بَاضَتِ الدجاجة، وباض کذا، أي : تمكّن . قال الشاعر : بداء من ذوات الضغن يأوي ... صدورهم فعشش ثمّ باض وبَاضَ الحَرُّ : تمكّن، وبَاضَتْ يد المرأة : إذا ورمت ورما علی هيئة البیض، ويقال : دجاجة بَيُوض، ودجاج بُيُض ( ب ی ض ) البیاض سفیدی ۔ یہ سواد کی ضد ہے ۔ کہا جاتا ہے ابیض ، ، ابیضاضا وبیاض فھو مبیض ۔ قرآن میں ہے ؛۔ يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ جسدن بہت سے منہ سفید ہونگے اور بہت سے منہ سیاہ ۔ وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَتِ اللَّهِ [ آل عمران/ 106- 107] . اور جن کے منہ سفید ہوں گے ۔ اور ابیض ایک رگ کا نام بھی ہے جو سفید رنگ ہونے کی وجہ سے ابیض کہلاتی ہے ۔۔ اہل عرب کے ہاں چونکہ سفید رنگ تمام رنگوں میں بہتر خیال کیا جاتا ہے جیسے کہا گیا ہے البیاض افضل والسواد اھول والحمرۃ اجمل والصفرۃ اشکل اس لئے بیاض بول کر فضل وکرم مراد لیا جاتا ہے اور جو شخص ہر قسم کے عیب سے پاک ہو اسے ابیض الوجہ کہا جاتا ہے اس بنا پر آیت مذکورہ میں ابیاض الوجوہ سے مسرت اور اسود الوجوہ سے تم مراد ہوگا جیسے دوسری جگہ فرمایا ؛۔ وَإِذا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا [ النحل/ 58] حالانکہ جب ان میں سے کسی کو بیٹی ( کے پیدا ہونے ) کی خبر ملتی ہے تو اس کا منہ ( غم کے سبب ) کالا پڑجاتا ہے ۔ اور جیسے ابیاض الوجوہ خوشی سے کنایہ ہوتا ہے اسی طرح آیت ؛۔ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ ناضِرَةٌ [ القیامة/ 22] اس روز بہت سے منہ رونق وار ہوں گے اور آیت ؛۔ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُسْفِرَةٌ ضاحِكَةٌ مُسْتَبْشِرَةٌ [ عبس/ 38- 39] اور کتنے منہ اس روز چمک رہے ہونگے خوش اور مسرور نظر آئیں گے ۔ میں بھی نضرۃ اور اسفار سے مراد مسرت ہی ہوگی ۔ شاعر نے کہا ہے ( منسرح ) (72) امت بیضاء من قضاعۃ یعنی تم عفیف اور سخٰ سردار ہو ۔ اسی معنی میں فرمایا ؛۔ بَيْضاءَ لَذَّةٍ لِلشَّارِبِينَ [ الصافات/ 46] جو رنگ کی سفید اور پینے والوں کے لئے سراسر ) لذت ہوگئی ۔ البیض یہ بیضۃ کی جمع ہے اور انڈے کے سفید ہونے کی وجہ اسے بیضۃ کہا جاتا ہے ۔ انڈا سفید اور پروں کے نیچے محفوظ رہتا ہے اس لئے تشبیہ کے طور بیضۃ بول کر خوبصورت عورت مراد لی جاتی ہے۔ بیضۃ البلد یہ لفظ تعریف اور مذمت کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب کلمہ تعریفی ہو تو اس سے رئیس شہر مراد ہوتا ہے ۔ اسی بناپر شاعر نے کہا ہے :۔ ( کامل ) (73) کانت قریش بیضۃ فتفلقت فالمخ خالصہ لعبدمناف قریش ایک انڈے کی مثل تھے ۔ جو ٹوٹا تو عبد مناف کے حصہ میں خالص مخ آئی ۔ اور جب مذمت کے لئے استعمال ہو تو اس سے ذلیل آدمی مراد لیا جاتا ہے جسے جنگل میں پڑے ہوئے انڈے کی طرح ہر ایک توڑ سکتا ہے اور شکل ورنگ میں مشابہت کی وجہ سے خصیتین کو بیضا الرجل کہا جاتا ہے ۔ باضت الدجاجۃ مرغی کا انڈے دینا ۔ باض کذا کسی جگہ پر متمکن ہونا ۔ شاعر نے کہا ہے (74) بدامن ذوات الضغن یآوی صدورھم فعش ثم باضا باض الحر گرمی سخت ہونا ۔ باضت یدا لمرءۃ عورت کے ہاتھ پر انڈے کی طرح درم ہونا ۔ دجاجۃ بیوض انڈے دینے والی مرغی ج بیض ۔ مكن المَكَان عند أهل اللّغة : الموضع الحاوي للشیء، قال : وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ [ الأعراف/ 10] ( م ک ن ) المکان اہل لغت کے نزدیک مکان اس جگہ کو کہتے ہیں جو کسی جسم پر حاوی ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ [ الأعراف/ 10] اور ہم نے زمین میں تمہارا ٹھکانا بنایا ۔
(٤٩۔ ٥٠) گویا کہ انڈوں کی طرح صاف ہیں جو پروں کے نیچے سردی و گرمی سے چھپے ہوئے رکھے ہیں پھر جنتی ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر بات چیت کریں گے۔
آیت ٤٩{ کَاَنَّہُنَّ بَیْضٌ مَّکْنُوْنٌ} ” گویا وہ انڈے ہوں چھپا کر رکھے گئے۔ “
29 "Restraining their looks": Restraining their looks from everyone except their husbands. 30 The words of the Text actually mean this: "As if they were the hidden or well preserved eggs." The commentators have given different interpretations of these words, but the correct commentary is the one which Hadrat Umm Salamah has related from the Holy Prophet. She says that when she asked the meaning of this verse from the Holy Prophet, he said: "Their delicacy and elegance and tenderness will be like the thin skin which is there between the shell of the egg and its fleshy part." (Ibn Jarir).
سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :30 اصل الفاظ ہیں کَاَنَّھُنَّ بَیْضٌ مَّکْنُوْنٌ ۔ گویا وہ چھپے ہوئے یا محفوظ رکھے ہوئے انڈے ہیں ان الفاظ کی مختلف تعبیرات اہل تفسیر نے بیان کی ہیں ۔ مگر صحیح تفسیر وہی ہے جو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی ہے ۔ وہ فرماتی ہیں کہ میں نے اس آیت کا مطلب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کی نرمی و نزاکت اس جھلی جیسی ہو گی جو انڈے کے چھلکے اور اس کے گودے کے درمیان ہوتی ہے ( ابن جریر ) ۔
(37:49) کانہن۔ کان حرف مشابہ بفعل ہن ضمیر جمع مؤنث غائب کان کا اسم ۔ گویا وہ سب۔ بیض مکنون۔ موصوف وصفت بیض بیضۃ کی جمع ہے بمعنی انڈے بیضہ کو بیضہ اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں بیاض (سفیدی) مکمل طور پر پائی جاتی ہے۔ الحسن کے قول کے مطابق بیض بمعنی شتر مرغ کے انڈے کے ہیں۔ شتر مرغ اپنے انڈوں کو ہوا اور غبار سے بچانے کے لئے پروں میں چھپا لیتا ہے اور شتر مرغ کے انڈوں کا رنگ سفید مائل بزردی ہوتا ہے اہل عرب کے نزدیک عورتون کا یہ رنگ حسین ترین رنگ ہے اسی لئے عورتوں کو شتر مرغ کے انڈوں سے تشبیہ دی ہے ۔ مکنون اسم مفعول واحد مذکر ہے۔ کن وکنون (باب نصر) مصدر سے ۔ چھپایا ہوا۔ محفوظ ۔ گویا کہ وہ سب شتر مرغ کے انڈوں کی مانند گردوغبار سے محفوظ ہوں گی۔ مکنون بمعنی مصئون عن الکسر۔ شکست سے محفوظ، بےداغ (بالکل صحیح و سالم بہمہ وجوہ ) والعرب تقول لکل مصئون مکنون : عرب ہر محفوظ چیز کو مکنون کہتے ہیں۔
ف 2” قصرات الطرف “ یعنی اپنے شوہروں کے علاوہ کسی اور کی طرف نگاہ نہ اٹھانے والی اور ” عین “ خوبصورت بڑی آنکھوں والی، جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا ” حور مقصورات فی الخیا “ ( سورة الرحمن : 72) 3 کہتے ہیں کہ شتر مرغ کے انڈے جو احتیاط سے ڈھانک کر رکھے جاتے ہیں وہ زردی مائل ہونے کی وجہ سے نہایت خوش رنگ ہوتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے جنت کی حوروں کو ان سے تشبیہ دی۔ بعض مفسرین نے ” بیض فیکنون “ کی تفسیر ” انڈے کے چھلکے کے نیچے چھپی ہوئی جھلی “ سے کی ہے اور اس کی یہی تفسیر حضرت ام سلمہ (رض) نتے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کی ہے اس لئے اس کی یہی تفسیر صحیح ہے۔ حضرت ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ” بیص مکنون “ کا مطلب دریافت کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ان کی ( یعنی جنت کی حوروں کی) نرمی اور نزاکت اس جھلی جیسی ہوگی جو انڈے کے چھلکے سے چپکی ہوتی ہے اور اسے ” فرقی “ کہا جاتا ہے۔ (ابن کثیر، ابن جریر) ۔
کانھن بیض مکنون (37: 49) ” جیسے انڈے کے چھلکے کے نیچے چھپی ہوئی جھلی “ یہ جھلی ایسی ہوتی ہے کہ نہ اس کو کسی کا ہاتھ لگ سکتا ہے اور نہ آنکھ دیکھ سکتی ہے اور ہوتی بھی نرم ونازک ہے ۔ یہ تصویر کشی ابھی جاری ہے ۔ اللہ کے یہ مخلص اور نیک بندے جو جنت کے متاع اور عیش و عشرت میں ڈوبے ہوئے ہیں ؛ نہایت ہی خوشگوار موذ میں باہم گفتگو بھی کرتے ہیں ۔ اس گفتگو میں اپنے ماضی اور حال پر بحث کرتے ہیں جبکہ اس سے قبل ہم پڑھ آئے ہیں کہ مجرمین بھی باہم لعن طعن کرتے تھے ۔ چنانچہ جنتیوں میں ایک شخص دوسروں کے سامنے اپنے حالات رکھتا ہے ۔
25:۔ کانہن الخ :۔ اس میں حور جنت کے رنگ روپ کا ذکر ہے۔ بیض، بیضۃ کی جمع ہے۔ اور اس سے شتر مرغ کا انڈا مراد ہے، جس کا رنگ سفید زردی مائل ہوتا ہے۔ مادہ شتر مرغ اپنے انڈوں کو بال و پر سے ڈھانک کر رکھتی ہے تاکہ وہ گرد و غبار سے محفوظ رہیں۔ حورانِ جنت کا رنگ بیض نعام (شتر مرغ) کی مانند سفید زردی مائل ہوگا۔ اور ان کے چہروں کا رنگ نکھرا ہوا صاف شفاف ہوگا۔ عورتوں کا یہی رنگ مرغوب ومحمود شمار ہوتا ہے۔ شبہہن ببیض النعام المصئون عن الغبار و نحوہ فی الصفاء والبیاض المخلوط بادنی صفرۃ فانہ احسن الوان والابدان (بیضاوی) ۔ والبیاض المشوب بقلیل صفرۃ فی النساء مرغوب فیہ جدا (روح ج 23 ص 89) ۔
(49) وہ حوریں صفائی میں ایسی ہونگی گویا وہ انڈے ہیں جو پروں کے نیچے چھپے رکھے ہیں۔ نیچی نگاہ والی یعنی پاک دامن اور عفت مآب بڑی بڑی آنکھوں والی یعنی خوش نما اور رنگت کی صفائی میں ایسی جیسے انڈے پروں میں چھپے رکھے ہیں۔ سورة رحمن میں یا قوت اور مرجان سے تشبیہ دی ہے یہاں شاید صفائی میں تشبیہ دی ہو۔ رنگ خواہ کیسا ہی ہو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی کہتے ہیں مراد ہیں شتر مرغ کے انڈے بہت خوش رنگ ہوتے ہیں۔