Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 50

سورة الصافات

فَاَقۡبَلَ بَعۡضُہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ یَّتَسَآءَلُوۡنَ ﴿۵۰﴾

And they will approach one another, inquiring of each other.

۔ ( جنتی ) ایک دوسرے کی طرف رخ کرکے پوچھیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The gathering of the People of Paradise, and the exchange between One of Them and His Counterpart in Hell, and His Gratitude for the Blessings of Allah Allah says here: فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَسَاءلُونَ Then they will turn to one another, mutually questioning. Allah tells us how the people of Paradise will turn to one another, asking one another about their situation, how they were in this world and what they suffered. This is part of their conversation when they get together to converse and drink, sitting on their thrones, servants coming and going, bringing all kinds of good food, drink, clothes and other delights no eye has seen, no ear has heard, never having comprehend the mind of man. قَالَ قَايِلٌ مِّنْهُمْ إِنِّي كَانَ لِي قَرِينٌ

محسن مقروض ۔ جب جنتی موج مزے اڑاتے ہوئے ، بےفکری اور فارغ البالی کے ساتھ جنت کے بلند و بالا خاتون میں عیش وعشرت کے ساتھ آپس میں مل جل کر تختوں پر تکئے لگائے بیٹھے ہوں گے ہزارہا پری جمال خدام سلیقہ شعاری سے کمر بستہ خدمت پر مامور ہوں گے حکم احکام دے رہے ہوں گے قسم قسم کے کھانے پینے پہننے اوڑھنے اور طرح طرح کی لذتوں سے فائدہ مندی حاصل کرنے میں مصروف ہوں گے ۔ دور شراب ظہور چل رہا ہوگا وہاں باتوں ہی باتوں میں یہ ذکر نکل آئے گا کہ دنیا میں کیا کیا گذرے کیسے کیسے دن کٹے ۔ اس پر ایک شخض کہے گا میری سنو میرا شیطان میرا ایک مشرک ساتھی تھا جو مجھ سے اکثر کہا کرتا تھا کہ تعجب سا تعجب ہے کہ تو اس بات کو مانتا ہے کہ جب ہم مر کر مٹی میں مل کر مٹی ہوجائیں ہم کھوکھلی بوسیدہ سڑی گلی ہڈی بن جائیں اس کے بعد بھی ہم حساب کتاب جزا سزا کے لیے اٹھائے جائیں گے مجھے وہ شخض جنت میں تو نظر آتا نہیں کیا عجب کہ وہ جہنم میں گیا ہو تو اگر چاہو تو میرے ساتھ چل کر جھانک کر دیکھ لو جہنم میں اس کی کیا درگت ہو رہی ہے ۔ اب جو جھانکتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ وہ شخص سر تاپا جل رہا ہے خود وہ آگ بن رہا ہے جہنم کے درمیان میں کھڑا ہے اور بےبسی کے ساتھ جل بھن رہا ہے اور ایک اسے ہی کیا دیکھے گا کہ تمام بڑے بڑے لوگوں سے جہنم بھرا ہے ۔ کعب احبار فرماتے ہیں جنت میں اسے دیکھتے ہی کہے گا کہ حضرت آپ نے تو وہ پھندا ڈالا تھا کہ مجھے تباہ ہی کر ڈالتے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اس نے تمہارے پنجے سے چھڑا دیا ۔ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم میرے شامل حال نہ ہوتا تو بڑی بری درگت ہوتی اور میں بھی تیری ساتھ کھنچا کھنچا یہیں جہنم میں آجاتا اور جلتا رہتا ۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے تیری تیز کلامی چرب زبانی سے مجھے عافیت میں رکھا اور تیرے اثر سے مجھے محفوظ رکھا ۔ تو نے تو فتنے بپا کرنے میں کوئی کمی باقی نہیں رکھی تھی ۔ اب مومن اور ایک بات کہتا ہے جس میں اس کی اپنی تسکین اور کامیابی کی خبر ہے کہ وہ پہلی موت تو مرچکا ہے اب ہمیشہ کے گھر میں ہے نہ یہاں اس پر موت ہے نہ خوف ہے نہ عذاب ہے نہ وبال ہے اور یہی بہترین کامیابی فلاح ابدی ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ جنتیوں سے کہا جائے گا کہ اپنے اعمال کے بدلے اپنی پسند کا جتنا چاہے کھاؤ پیو اس میں اشارہ ہے اس امر کی طرف کہ جنتی جنت میں مریں گے نہیں تو وہ یہ سن کر سوال کریں گے کہ کیا اب ہمیں موت تو نہیں آنے کی ۔ کسی وقت عذاب تو نہیں ہوگا ؟ تو جواب ملے گا نہیں ہرگز نہیں ۔ چونکہ انہیں کھٹکا تھا کہ موت آکر یہ لذتیں فوت نہ کردے جب یہ دھڑکا ہی جاتا رہا تو وہ سکون کا سان لے کر کہیں گے شکر ہے یہ تو کھلی کامیابی ہے اور بڑی ہی مقصد یاوری ہے ۔ اس کے بعد فرمایا ایسے ہی بدلے کے لیے عاملوں کو عمل کرنا چاہیے قتادہ رضی اللہ عنہ تو فرماتے ہیں یہ اہل جنت کا مقولہ ہے ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں اللہ کا فرمان ہے مطلب یہ ہے کہ ان جیسی نعمتوں اور رحمتوں کے حاصل کرنے کے لیے لوگوں کو دنیا میں بھر پور رغبت کے ساتھ عمل کرنا چاہیے ، تاکہ انجام کاران نعمتوں کو حاصل کرسکیں ۔ اسی آیت کے مضمون سے ملتا جلتا ایک قصہ ہے اسے بھی سن لیجیے ۔ دو شخص آپس میں شریک تھے ان کے پاس آٹھ ہزار اشرفیاں جمع ہوگئیں ایک چونکہ پیشے حرفے سے واقف تھا اور دوسرا ناواقف تھا اس لیے اس واقف کار نے ناواقف سے کہا کہ اب ہمارا نباہ مشکل ہے آپ اپنا حق لے کر الگ ہو جائیے کیونکہ آپ کام کاج سے ناواقف ہیں ۔ چنانچہ دونوں نے اپنے اپنے حصے الگ الگ کرلیے اور جدا جدا ہوگئے ۔ پھر اس حرفے والے نے بادشاہ کے مرجانے کے بعد اس کا شاہی محل ایک ہزار دینار میں خریدا اور اپنے اس ساتھی کو بلا کر اسے دکھایا اور کہا بتاؤ میں نے کیسی چیز لی؟ اس نے بڑی تعریف کی اور یہاں سے باہر چلا اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور کہا اللہ اس میرے ساتھی نے تو ایک ہزار دینار کا قصر دنیاوی خرید کیا ہے اور میں تجھ سے جنت کا محل چاہتا ہوں میں تیرے نام پر تیرے مسکین بندوں پر ایک ہزار اشرفی خرچ کرتا ہوں چنانچہ اس نے ایک ہزار دینار اللہ کی راہ خرچ کردئیے ۔ پھر اس دنیا دار شخص نے ایک زمانہ کے بعد ایک ہزار دینار خرچ کرکے اپنا نکاح کیا دعوت میں اپنے اس پرانے شریک کو بھی بلایا اور اس سے ذکر کیا کہ میں نے ایک ہزار دینار خرچ کر کے اس عورت سے شادی کی ہے ۔ اس نے اس کی بھی تعریف کی باہر آکر اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک ہزار دینار دئیے اور اللہ تعالیٰ سے عرض کی کہ بار الہی میرے ساتھی نے اتنی ہی رقم خرچ کرکے یہاں ایک عورت حاصل کی ہے اور اس رقم سے تجھ سے میں عورعین کا طالب ہوں اور وہ رقم اللہ کی راہ میں صدقہ کردی ۔ پھر کچھ مدت کے بعد اسنے اسے بلا کر کہا کہ دو ہزار کے دو باغ میں نے خرید کئے ہیں دیکھ لو کیسے ہیں؟ اس نے دیکھ کر بہت تعریف کی اور باہر آکر اپنی عادت کے مطابق جناب باری تعالیٰ میں عرض کی کہ اللہ میرے ساتھی نے دو ہزار کے دو باغ یہاں کے خریدے ہیں میں تجھ سے جنت کے دو باغ چاہتا ہوں اور یہ دو ہزار دینار تیرے نام پر صدقہ ہیں چنانچہ اس رقم کو مستحقین میں تقسیم کردیا ۔ پھر فرشتہ ان دونوں کو فوت کرکے لے گیا اس صدقہ کرنے والے کو جنت کے ایک محل میں پہنچایا گیا جہاں پر ایک بہترین حسین عورت بھی اسے ملی اور اسے دو باغ بھی دئیے گئے اور وہ وہ نعمتیں ملیں جنہیں بجزاللہ کے اور کوئی نہیں جانتا تو اسے اس وقت اپنا وہ ساتھی یاد آگیا فرشتے نے بتایا کہ وہ تو جہنم میں ہے تم اگر چاہو تو جھانک کر اسے دیکھ سکتے ہو اس نے جب اسے بیچ جہنم میں جلتا دیکھا تو اس نے کہا کہ قریب تھا کہ تو مجھے بھی چکمہ دے جاتا اور یہ تو رب کی مہربانی ہوئی کہ میں بچ گیا ۔ ابن جریر فرماتے ہیں یہ تشدید والی قرأت کی مزید تائید کرتی ہے اور روایت میں ہے کہ تین تین ہزار دینار تھے ایک کافر تھا ایک مومن تھا جب یہ مومن اپنی کل رقم راہ اللہ خرچ کر چکا تو ٹوکری سر پر رکھ کر کدال پھاوڑا لے کر مزدوری کے لیے چلا اسے ایک شخص ملا اور کہا اگر تو میرے جانوروں کی سائیسی کرے اور گوبر اٹھائے تو میں تجھے کھانے پینے کو دے دوں گا اس نے منظور کرلیا اور کام شروع کردیا لیکن یہ شخص بڑا بےرحم بد گمان تھا جہاں اس نے کسی جانور کو بیمار یا دبلا پتلا دیکھا اس مسکین کی گردن توڑتا خوب مارتا پیٹتا اور کہتا کہ اس کا دانہ تو چرا لیتاہو گا ۔ اس مسلمان سے یہ سختی برداشت نہ کی گئی تو ایک دن اس نے اپنے دل میں خیال کیا کہ میں اپنے کافر شریک کے ہاں چلا جاؤں اس کی کھیتی ہے باغات ہیں وہاں کام کاج کردوں گا اور وہ مجھے روٹی ٹکڑا دے دیا کرے گا اور مجھے کیا لینا دینا ہے؟ وہاں جو پہنچا تو شاہی ٹھاٹھ دیکھ کر حیران ہوگیا ، ایک بلند بالا محل ہے دربان ڈیوڑھی اور پہرے دار کی چوکی دار غلام لونڈیاں سب موجود ہیں یہ ٹھٹکا اور دربانوں نے اسے روکا ۔ اس نے ہر چند کہا کہ تم اپنے مالک سے میرا ذکر تو کرو انہوں نے کہا اب وقت نہیں تم ایک کونے میں پڑے رہو صبح جب وہ نکلیں تو خود سلام کرلینا اگر تم سچے ہو تو وہ تمہیں پہچان ہی لیں گے ورنہ ہمارے ہاتھوں تمہاری پوری مرمت ہوجائے گی ، اس مسکین کو یہی کرناپڑا جو کمبل کا ٹکڑا یہ جسم سے لپیٹے ہوئے تھا اسی کو اس نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا اور ایک کونے میں دبک کر پڑ گیا صبح کے وقت اس کے راستے پر جا کھڑا ہوا جب وہ نکلا اور اس پر نگاہ پڑی تو تعجب ہو کر پوچھا کہ ہیں؟ یہ کیا حالت ہے مال کا کیا ہوا ؟ اس نے کہا وہ کچھ نہ پوچھ اس وقت تو میرا کام جو ہے اسے پورا کردو یعنی مجھے اجازت دو کہ میں تمہاری کھیتی باڑی کا کام مثل اور نوکروں کے کروں اور آپ مجھے صرف کھانا دے دیا کیجئے اور جب یہ کمبل پھٹ ٹوٹ جائے تو ایک کمبل اور خرید دینا ۔ اس نے کہا نہیں نہیں میں اس سے بہتر سلوک تمہارے ساتھ کرنے کے لیے تیار ہوں لیکن پہلے تم یہ بتاؤ کہ اس رقم کو تم نے کیا کیا ؟ کہا میں نے اسے ایک شخص کو قرض دی ہے ۔ کہا کسے ؟ کہا ایسے کو جو نہ لے کر مکرے نہ دینے سے انکار کرے کہا وہ کون ہے؟ اس نے جواب دیا وہ اللہ تعالیٰ ہے جو میرا اور تیرا رب ہے ۔ یہ سنتے ہی اس کافر نے اس مسلمان کے ہاتھ سے ہاتھ چھڑالیا اور اس سے کہا احمق ہوا ہے یہ ہو بھی سکتا ہے کہ ہم مر کر مٹی ہو کر پھر جئیں اور اللہ ہمیں بدلے دے؟ جا جب تو ایسا ہی بودا اور ایسے عقیدوں والا ہے تو مجھے تجھ سے کوئی سرو کار نہیں ۔ پس وہ کافر تو مزے اڑاتا رہا اور یہ مومن سختی سے دن گزارتا رہا یہاں تک کہ دونوں کو موت آگئی ۔ مسلمان کو جنت میں جو جو نعمتیں اور رحمتیں ملیں وہ انداز و شمار سے زیادہ تھیں اس نے جو دیکھا کہ حد نظر سے بلکہ ساری دنیا سے زیادہ تو زمین ہے اور بیشمار درخت اور باغات ہیں اور جا بجا نہریں اور چشمے ہیں تو پوچھا یہ سب کیا ہے؟ جواب ملا یہ سب آپ کا ہے ۔ کہا سبحان اللہ! اللہ کی یہ تو بڑی ہی مہربانی ہے ۔ اب جو آگے بڑھا تو اس قدر لونڈی غلام دیکھے کہ گنتی نہیں ہو سکتی ، پوچھا یہ کس کے ہیں؟ کہا گیا سب آپ کے ۔ اسے اور تعجب اور خوشی ہوئی ۔ پھر جو آگے بڑھا تو سرخ یاقوت کے محل نظر آئے ایک موتی کا محل ، ہر ہر محل میں کئی کئی حورعین ، ساتھ ہی اطلاع ہوئی کہ یہ سب بھی آپ کا ہے پھر تو اس کی باچھیں کھل گئیں ۔ کہنے لگا اللہ جانے میرا وہ کافر ساتھی کہاں ہوگا ؟ اللہ اسے دکھائے گا کہ وہ بیچ جہنم میں جل رہا ہے ۔ اب ان میں وہ باتیں ہوں گی جن کا ذکر یہاں ہوا ہے پس مومن پر دنیا میں جو بلائیں آئی تھیں انہیں وہ یاد کرے گا تو موت سے زیادہ بھاری بلا اسے کوئی نظر نہ آئے گی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

50۔ 1 جنتی، جنت میں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے ہوئے دنیا کے واقعات یاد کریں گے اور ایک دوسرے کو سنائیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰي بَعْضٍ يَّتَسَاۗءَلُوْنَ : جنتی جنت میں ایسی آراستہ مجلسوں میں بیٹھے ہوئے ایک دوسرے سے دنیا میں گزرے ہوئے حالات و واقعات پوچھیں گے اور سنائیں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

An inmate of Jannah and his disbelieving acquaintance After having described the general condition of the people of Jannah, one of them has been mentioned particularly. Once he has settled down with other inmates of Jannah, he will recall a disbelieving acquaintance who denied the possibility of the Hereafter during his mortal life. Then, with the permission of Allah Ta’ ala, he will be given an opportunity to talk to him by peeping into the Jahannam. The identity of this man has not been given in the Qur&an. Therefore, it cannot be said with any degree of certainty as to who this person could be. Still, some commentators have opined that the name of the believer was Yahudah and the name of his disbelieving acquaintance was Matrus, and they were the same two comrades mentioned earlier in the verse of Surah al-Kahf:... وَاضْرِ‌بْ لَهُم مَّثَلًا رَّ‌جُلَيْنِ (And give them an example. There were two men... - 18:32). (Tafsir Mazhari) And to determine the identity of this person, ` Allamah as-Suyuti has reported yet another event from. several tabi&in that there were two partners in a business. They earned eight thousand dinars out of it, and took four thousand dinars each. One partner spent one thousand dinars from his share to buy a land. The other partner was a pious man. He prayed: &0 Allah, this person has bought a plot of land for one thousand dinars. I buy a plot of land from You in Jannah against one thousand dinars& - and gave away one thousand dinars in Sadaqah (charity). Then, his partner-friend spent another one thousand dinars and made a house for himself. Then, the pious man said, &0 Allah, this man has made a house for himself by spending one thousand dinars. I buy a house in Jannah against one thousand dinars& - and, having said that, he gave away another one thousand dinars in Sadaqah. After that, his partner-friend married a woman and spent one thousand dinars over her. Then, he said: &0 Allah, this man has married a woman, and has spent one thousand dinars over her. I propose to one of the women in Jannah and offer this modest sum of one thousand dinars& - and, having said that, he gave away yet another one thousand dinars in Sadaqah. Finally, when his partner-friend bought some attendants and things by spending one thousand dinars, the pious partner, once again, gave out one thousand dinars in Sadaqah and prayed to Allah that he be blessed with attendants and things of Jannah against it. After that, this believing servant of Allah was caught in some dire need, and he thought of his former partner hoping that he would be good enough to help him. So, he told him about his need. His former partner asked him, &What became of your share of money?& In answer, he told him the whole story. Wondering thereupon, he asked, &Do you really believe it as true that, once we die and become dust, we shall get another life and, in that life, we shall be given the return for our deeds? Get lost. I am not going to give you anything.& After that, both of them died. The man of Jannah referred to in the cited verses is the servant of Allah who had given all his wealth in Sadaqah for the sake of &Akhirah (life in the Hereafter), and his acquaintance in Jahannam is the same partner who had chided him on his confirmation of the life to come, the &Akhirah. (Tafsir ad-Durr-ul-Manthur with reference to Ibn Jarir and others, p. 165, v. 5) An advice to avoid bad company Anyhow, whoever this person may be - it does not matter. This event has been mentioned with a purpose. The noble Qur&an is really alerting people towards a beneficial rule operative in human relations. Let everyone make a careful survey of his or her circle of friends, and try to find out whether or nor there is someone included therein who may actually be dragging them towards the sad end of the Jahannam. The destruction bad company can bring about can only be discovered fully and truly in the Hereafter - and that will be a time when there will be no escape from such destruction. Therefore, it is better to take one&s guard right here in this world in matters concerning the taking of friends and promoting of relationships, something that must be done with due caution and judgment. There are occasions and circumstances when one does not foresee what would happen after having inculcated relationships with someone who disbelieves or disobeys. What ultimately happens is that one starts becoming affected by his ideas, thoughts and way of life without having any sense of that which is happening to him. This attitude proves lethal for one who is so affected in terms of the end he would have in the Hereafter.

ایک جنتی اور اس کا کافر ملاقاتی : ابتدائی دس آیتوں میں اہل جنت کے عمومی حالات بیان فرمانے کے بعد ایک جنتی کا خاص طور پر تذکرہ کیا گیا ہے، کہ وہ جنت کی مجلس میں پہنچنے کے بعد اپنے ایک کافر دوست کو یاد کرے گا جو دنیا میں آخرت کا منکر تھا اور پھر اللہ تعالیٰ کی اجازت سے اسے جہنم کے اندر جھانک کر اس سے باتیں کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ قرآن کریم میں اس شخص کا کچھ نام و پتہ نہیں بتایا گیا۔ اس لئے یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ کون ہوگا ؟ تاہم بعض مفسرین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اس مومن شخص کا نام یہو واہ اور اس کے کافر ملاقاتی کا نام مطروس ہے۔ اور یہ وہی دو ساتھی ہیں جن کا ذکر سورة کہف کی آیت واضرب لہم مثلاً رجلین الخ میں گزر چکا ہے۔ (تفسیر مظہری) اور علامہ سیوطی نے متعدد تابعین سے اس شخص کی تعیین کے لئے ایک اور واقعہ نقل کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ دو آدمی کاروبار میں شریک تھے، ان کو آٹھ ہزار دینار کی آمدنی ہوئی، اور دونوں نے چار چار ہزار دینار آپس میں بانٹ لئے۔ ایک شریک نے اپنی رقم میں سے ایک ہزار دینار خرچ کر کے ایک زمین خریدی۔ دوسرا ساتھی بہت نیک تھا، اس نے یہ دعا کی کہ ” یا اللہ فلاں شخص نے ایک ہزار دینار میں ایک زمین خریدی ہے، میں آپ سے ایک ہزار دینار کے عوض جنت میں زمین خریدتا ہوں ”۔ اور ایک ہزار دینار کا صدقہ کردیا۔ پھر اس کے ساتھی نے ایک ہزار دینار خرچ کر کے ایک گھر بنوایا، تو اس شخص نے کہا ” یا اللہ فلاں شخص نے ایک ہزار دینار میں ایک گھر تعمیر کیا ہے، میں ایک ہزار دینار میں آپ سے جنت کا ایک گھر خریدتا ہوں “ یہ کہہ کر اس نے مزید ایک ہزار دینار صدقہ کردیئے۔ اس کے بعد اس کے ساتھی نے ایک عورت سے شادی کی اور اس پر ایک ہزار دینار خرچ کردیئے، تو اس نے کہا ” یا اللہ فلاں نے ایک عورت سے شادی کر کے اس پر ایک ہزار دینار خرچ کردیئے ہیں اور میں جنت کی عورتوں میں سے کسی کو پیغام دیتا ہوں اور یہ ایک ہزار دینار نذر کرتا ہوں۔ “ یہ کہہ کر وہ ایک ہزار بھی صدقہ کردیئے۔ پھر اس کے ساتھی نے ایک ہزار دینار میں کچھ غلام اور سامان خریدا تو اس نے پھر ایک ہزار صدقہ کر کے اللہ تعالیٰ سے اس کے عوض جنت کے غلام اور جنت کا سامان طلب کیا۔ اس کے بعد اتفاق سے اس مومن بندے کو کوئی شدید حاجت پیش آئی، اسے خیال ہوا کہ میں اپنے سابق شریک کے پاس جاؤں تو شاید وہ نیکی کا ارادہ کرے۔ چناچہ اس نے اپنے ساتھی سے اپنی ضرورت کا ذکر کیا، ساتھی نے پوچھا، تمہارا مال کیا ہوا ؟ اس کے جواب میں اس نے پورا قصہ سنا دیا۔ اس پر اس نے حیران ہو کر کہا کہ ” کیا واقعی تم اس بات کو سچا سمجھتے ہو کہ ہم جب مر کر خاک ہوجائیں گے تو ہمیں دوسری زندگی ملے گی، اور وہاں ہم کو ہمارے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا، جاؤ، میں تمہیں کچھ نہیں دوں گا “ اس کے بعد دونوں کا انتقال ہوگیا۔ مذکورہ آیات میں جنتی سے مراد وہ بندہ ہے جس نے آخرت کی خاطر اپنا سارا مال صدقہ کردیا تھا اور اس کا جہنمی ملاقاتی وہی شریک کاروبار ہے جس نے آخرت کی تصدیق کرنے پر اس کا مذاق اڑایا تھا (تفسیر الدر المنثور بحوالہ ابن جریر وغیرہ، ص ٥٦١ ج ٥) بری صحبت سے بچنے کی تعلیم : بہرکیف، اس سے مراد خواہ کوئی ہو یہاں اس واقعہ کو ذکر کرنے سے قرآن کریم کا اصل منشاء لوگوں کو اس بات پر متنبہ کرنا ہے کہ وہ اپنے حلقہ احباب کا پوری احتیاط کے ساتھ جائزہ لے کر یہ دیکھیں کہ اس میں کوئی ایسا شخص تو نہیں ہے جو انہیں کشاں کشاں دوزخ کے انجام کی طرف لے جا رہا ہو۔ بری صحبت سے جو تباہی آسکتی ہے اس کا صحیح اندازہ آخرت ہی میں ہوگا، اور اس وقت اس تباہی سے بچنے کا کوئی راستہ نہ ہوگا، اس لئے دنیا ہی میں دوستیاں اور تعلقات بہت دیکھ بھال کر قائم کرنے چاہئیں۔ بسا اوقات کسی کافر یا نافرمان شخص سے تعلقات قائم کرنے کے بعد انسان غیر محسوس طریقے پر اس کے افکار و نظریات اور طرز زندگی سے متاثر ہوتا چلا جاتا ہے، اور یہ چیز آخرت کے انجام کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہوتی ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلٰي بَعْضٍ يَّتَسَاۗءَلُوْنَ۝ ٥٠ إِقْبَالُ التّوجّه نحو الْقُبُلِ ، كَالاسْتِقْبَالِ. قال تعالی: فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ [ الصافات/ 50] ، وَأَقْبَلُوا عَلَيْهِمْ [يوسف/ 71] ، فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُهُ [ الذاریات/ 29] اقبال اور استقبال کی طرح اقبال کے معنی بھی کسی کے رو برو اور اس کی طرف متوجہ ہو نیکے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ [ الصافات/ 50] پھر لگے ایک دوسرے کو رو ور ود ملا مت کرنے ۔ وَأَقْبَلُوا عَلَيْهِمْ [يوسف/ 71] ، اور وہ ان کی طرف متوجہ ہوکر بعض بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] ( ب ع ض ) بعض الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٠{ فَاَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَّتَسَآئَ لُوْنَ } ” پھر وہ ایک دوسرے کی طرف رخ کر کے سوال کریں گے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:50) ملاحظہ ہو (37:27) جہاں گمراہ کرنے والے پیشوائوں اور ان کے پیروئوں کے درمیان سوال و جواب کا ذکر ہے۔ یہاں اہل جنت کے درمیان مکالمہ ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی آپس میں ایک دوسرے سے حالات دریافت کرینگے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن ( آیت نمبر 50 تا 74) قرین ( دوست ، ساتھی ، ملاقاتی) یدینون ( جزا یا سزا دیئے جائیں گے) مطلعون ( جھانکنے والے) ان کدت ( اگرچہ قریب تھا) لتردین ( تردی) البتہ تو مجھے ہلاک کردیتا) اصل ( جڑ ، بنیاد) طلع ( پھل ، گابھا) تشریح : آیت نمبر 50 تا 74 :۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے جنتیوں اور جہنمیوں پر گزرنے والے حالات اور کیفیات کو بیان کر کے ہر شخص کو غور و فکر کی دعوت دی ہے کہ ان میں سے کون سی حالت بہتر ہے۔ جب اہل جنت اللہ کی بیشمار نعمتوں کا لطف اٹھا رہے ہوں گے تو اس وقت دنیا کے متعلق بھی کچھ باتیں شروع ہوجائیں گی ۔ ان میں سے ایک شخص کہے گا کہ دنیا میں میرا ایک دوست تھا جو میرے آخرت پر یقین رکھنے کی وجہ سے بحث کیا کرتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ بھلا بتائو جب ہم مر کھپ جائیں گے ، ہمارا بدن گل سڑ جائے گا ، ہماری ہڈیوں کے ذرات بکھر کر اپناوجود کھو دیں گے اور زمین میں رل مل جائیں گے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ میں زندہ کر کے اٹھایا جائے گا اور ہمارے باپ دادا جن کی قبروں تک کا پتہ نہیں ہے وہ کیسے زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے ؟ لیکن آج ساری سچائی ہمارے سامنے ہے۔ نجانے وہ آخرت کی زندگی اور دوبارہ پیدا کئے جانے کا منکر کس حال میں ہوگا ؟ یقینا وہ اپنے عقیدے کی وجہ سے جہنم میں پہنچ چکا ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے یا اس کے دل میں آئے گا کہ اس شخص کو جہنم میں جھانک کر دیکھنا چاہتے ہو ؟ چناچہ جب وہ اس شخص کو دیکھے گا کہ جہنم کے بیچ میں سخت عذاب میں گرفتار ہے تو وہ شخص اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہے گا الٰہی ! آپ کا شکر ہے کہ میں اس کے فریب سے بچ گیا ورنہ آج میرا بھی یہی انجام ہوتا ۔ یہ تو اللہ نے مجھ پر خاص رحم و کرم فرمایا کہ اس عذاب جہنم سے بچ گیا ۔ میرا عقیدہ اور ذہن و فکر صحیح رہا ورنہ جس طرح آج مجرموں اور گناہ گاروں کو پکڑ پکڑ کر جہنم میں جھونکا جا رہا ہے میں بھی ان ہی لوگوں میں سے ہوتا ۔ پھر وہ جنتی شخص اپنی خوشی اور مسرت سے بےقرار ہو کر کہے گا کہ موت جو ہمیں آ چکی ہے اب دوبارہ نہیں آئے گی اور ہم اس جنت میں عیش و آرام اور سکون سے ہمیشہ رہیں گے اور یہاں سے نکالے نہ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ جنت میں جو بھی لذتیں ، راحتیں اور امن و سکون ہے وہ اہل جنت کی زبردست اور بہت بڑی کامیابی ہے۔ در حقیقت دنیا کے کامیاب ترین لوگ وہی ہیں جنہوں نے اللہ و رسول پر ایمان اور عمل صالح کی زندگی اختیار کی ۔ اسی جنت کے لئے ہر شخص کی کوشش اور جدوجہد کرنا چاہیے۔ ایک طرف تو یہ خوش نصیب جنت والے ہوں گے جو حقیقی کامیابیوں سے ہم کنار ہوچکے ہوں گے لیکن دوسری طرف اہل جہنم ہوں گے جن کو آگ میں جھونک دیا جائے گا اور جب وہ بھوک سے بےقرار ہوجائیں گے تو ان کو کھانے کے لئے ’ ’ زقوم “ کا درخت یا پودا دیا جائے گا جو نہایت کڑوا ، کسیلا اور بد ذائقہ ہوگا جو جہنم کی آگ سے پیدا کیا گیا ہوگا ۔ یہ اتنا سخت اور کڑوا ہوگا کہ اس کو حلق سے نیچے اتارنا اور نگلنا مشکل ہوگا ۔ جب پیاس کی طلب ہوگی تو ان کو کھولتا ہوا گرم پانی دیا جائے گا ۔ جب وہ اس کو پئیں گے تو ان کے چہروں کی کھالیں تک جھلس کر رہ جائیں گی ۔ ان کی زندگی موت سے بد تر نظر آئے گی ۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے گمراہ باپ داد کے راستے کو اپنا کر ان کی طرح زندگی گزارنے کی کوشش کی ہوگی ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت کے لئے اپنے پیغمبربھیجے تھے جو ان کے اپنوں میں سے تھے لیکن انہوں نے کسی پیغمبر کی بات پر توجہ نہ کی تھی جس کے نتیجے میں وہ گمراہ ہوگئے تھے اور اسی راستے پر ان کی اولادیں بھی چلیں اور ان سب نے جہنم کا راستہ اختیار کرلیا تھا ۔ ہاں البتہ ان ہی گمراہیوں میں ایسے مخلص بندے بھی تھے جن کو توبہ کی توفیق نصیب ہوئی اور وہ جہنم کی آگ سے بچ گئے۔ ان ہی آیات سے متعلق چند باتیں۔ ٭گزشتہ آیات میں فرمایا گیا تھا کہ اہل جنت کو ” رزق معلوم “ دیا جائے گا جو بہترین اور راحت و آرام کا ذریعہ ہوگا لیکن اس کے بر خلاف اہل جہنم کو جہنم کی تہہ میں آگ سے پیدا ہونے والا درخت ” زقوم “ کھانے کے لئے دیا جائے گا جو اتنا کڑوا اور بد ذائقہ ہوگا کہ اس کو حلق سے نیچے اتارنا مشکل ہوگا اور ان کو پینے کے لئے گرم کھولتا ہوا پانی دیا جائے گا جو ان کو جھلسا کر رکھ دے گا ۔ جب قرآن کریم میں ” زقوم “ کا ذکر آیا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتایا کہ وہ کیسا زہریلا اور کڑوا ہوگا جو جہنم کی تہہ میں سے پیدا ہوگا تو کفار نے مذاق اڑانا شروع کیا ۔ ابو جہل نے اپنے ساتھیوں کو جمع کر کے کہا کہ یہ شخص کہتا ہے کہ آگ میں بھی درخت اگائے جائیں گے حالانکہ آگ تو درخت کو بھی کھا جاتی ہے یہ کیسی عقل سے بعید بات کہی گئی ہے۔ اس نے کہا کہ ہم نے یہ جانتے ہیں کہ زقوم کھجور اور مکھن کو کہتے ہیں ۔ اس نے کھجوریں اور مکھن منگوا کر سب سے کہا کہ آئو کھائو ہمارا زقوم تو یہی ہے۔ ٭اس درخت کے خوشے شیطانوں کے سرجی سے ہوں گے ۔ انسان نے تو شیطان کو نہیں دیکھا اس لئے یہ ماننا پڑے گا کہ یہ ایک تشبیہ یہ ہے کہ اس کے پتے اور خوشے بھی بہت بڑے بڑے ہوں گے۔ ٭اللہ نے ہر زمانہ میں گمراہ لوگوں کی اصلاح کے لئے اپنے پیغمبر بھیجے تا کہ زندگی کی راہوں میں بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھا دیا جاسکتے۔ جن لوگوں نے ان کی بات مانی وہی کامیاب و بامراد ہوئے اور جنہوں نے ان کی تعلیمات سے منہ موڑا وہی ناکام و نامراد ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) سے حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک ہزاروں پیغمبر بھیجے اور آخر میں حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آخری نبی اور آخری رسول بنا کر بھیجا جن کی نبوت و رسالت قیامت تک جاری رہے گی اور آپ کے بعد اگر کوئی شخص نبوت کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹا اور فریبی ہے جو خود اور اس کے ماننے والے جہنم کا ایندھن بنیں گے ۔ اگر کچھ لوگ ایسے جھوٹے شخص کے دھوکے میں آگئے ہوں تو ان کی موت کے فرشتے نظر آنے سے پہلے تو بہ کرلینی چاہیے ورنہ ان کا انجام ان لوگوں سے مختلف نہ ہوگا جنہوں نے کفر و شرک کو اپنی زندگی بنا رکھا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جنت میں بیٹھے ہوئے جنتیوں کا جہنمیوں کے ساتھ ہم کلام ہونا۔ جنتی حضرات جنت میں کھانے پینے اور خوش گپیوں میں مصروف ہوں گے۔ اس ماحول میں اچانک ایک جنتی دوسرے سے کہے گا کہ دنیا میں میرا ایک ساتھی تھا جو مجھے کہا کرتا تھا کہ کیا تو بھی اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ جب ہماری ہڈیاں مٹی کے ساتھ مٹی ہوجائیں گی تو ہمیں اٹھا کر سزا یا جزا دی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی اپنے ساتھیوں سے کہے گا کیا اسے دیکھنا چاہتے ہو ؟ یہ کہنے کے بعد وہ نظر اٹھائے گا تو اسے اس کا ساتھی جہنم میں جلتا ہوا دکھائی دے گا۔ کچھ اہل علم نے لکھا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے کہ کیا اپنے ساتھی کو دیکھنا چاہتے ہو تب جنتی اس جہنّمی کو مخاطب کرتے ہوئے کہے گا کہ اللہ کی قسم۔ اگر مجھ پر میرے رب کا کرم نہ ہوتا تو تو مجھے بھی ہلاک کرچکا ہوتا۔ جس طرح تم سزا پا رہے ہو اس طرح میں بھی تیرے ساتھ اس عذاب میں مبتلا ہوتا۔ اس کے ساتھ ہی وہ کہے گا کہ ہم نے ایک دفعہ مرنا تھا سو مرچکے اب ہمیں نہ موت آئے گی اور نہ ہی کسی قسم کی تکلیف پہنچے گی۔ یہ ہم پر اللہ کا عظیم فضل ہوا ہے جو بہت بڑی کامیابی ہے۔ یہ فضل اور کامیابی پانے کے لیے ہر کسی کو اس جیسے اعمال کرنے چاہییں۔ قرآن مجید نے یہ بات دو ٹوک انداز میں بتلائی ہے کہ جنتی جنت میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے اور جہنمی جہنم میں ابدی سزا پائیں گے۔ کیونکہ موت کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا۔ جہاں تک کہ آخری آیت کے مفہوم کا تعلق ہے یہ جنتی کی زبان میں ایک پیغام ہے جو لوگوں کو دیا گیا ہے تاکہ لوگ جنت کے لیے صحیح عقیدہ اور صالح اعمال اختیار کریں۔ (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُجَاٗٗءُ بالْمَوْتِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کَأَنَّہُ کَبْشٌ أَمْلَح۔۔ یَا أَہْلَ الْجَنَّۃِ ہَلْ تَعْرِفُوْنَ ہَذَا فَیَشْرَءِبُّوْنَ وَیَنْظُرُوْنَ وَیَقُوْلُوْنَ نَعَمْ ہَذَا الْمَوْتُ قَالَ وَیُقَالُ یَا أَہْلَ النَّارِ ہَلْ تَعْرِفُوْنَ ہَذَا قَالَ فَیَشْرَءِبُّوْنَ وَیَنْظُرُوْنَ وَیَقُوْلُوْنَ نَعَمْ ہَذَا الْمَوْتُ قَالَ فَیُؤْمَرُ بِہِ فَیُذْبَحُ قَالَ ثُمَّ یُقَالُ یَا أَہْلَ الْجَنَّۃِ خُلُوْدٌ فَلاَ مَوْتَ وَیَا أَہْلَ النَّارِ خُلُوْدٌ فَلاَ مَوْتَ ) [ رواہ مسلم : کتاب الجنۃ ] ” حضرت ابو سعید (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ نے فرمایا موت قیامت کے دن مینڈھے کی شکل میں لائی جائے گی۔ ابو کریب نے کچھ الفاظ زیادہ بیان کیے ہیں کہ اسے جنت اور جہنم کے درمیان روک لیا جائے گا۔ پھر جنتیوں سے کہا جائے گا کیا تم اسے پہچانتے ہو تو وہ اسے پہچاننے کی کوشش کریں گے۔ اس کی طرف دیکھیں گے اور کہیں گے ہاں یہ موت ہے۔ جہنمیوں سے کہا جائے گا کیا تم بھی اسے پہچانتے ہو وہ بھی پہچاننے کی کوشش کریں گے غور سے دیکھ کر کہیں گے ہاں یہ موت ہے پھر حکم ہوگا۔ اسے ذبح کردیا جائے گا پھر کہا جائے گا اے جنتیوتم جنت میں ہمیشہ رہو تمہیں موت نہیں آئے گی۔ اے جہنمیو ! تم بھی جہنم میں ہمیشہ رہو تمہیں بھی موت نہیں آئے گی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت کی انہیں حسرتوں والے دن سے ڈرائیں جب فیصلہ کیا جائے گا جس کے بارے میں وہ غفلت میں ہیں اور یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ “ اس میں کوئی شک نہیں کہ جہنم طول و عرض، گہرائی اور بالا خانوں کے اعتبار سے لا محدود ہوگی لیکن جونہی جنتی کسی جہنمی سے ہم کلام ہونے کی خواہش کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی یہ خواہش بھی پوری فرما دے گا تاکہ جنتی کو اللہ کی رحمت اور اس کے انعامات کا احساس ہو اور جہنمی کی اذیت میں اضافہ ہوجائے جہنمی کہے گا کاش ! میں ” لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ “ پڑھتا اور اس کے تقاضے پورے کرتا تو آج اپنے ساتھی کی طرح جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتا اور جہنم کے عذاب سے محفوظ رہتا۔ جنتیوں کی جہنمیوں کے ساتھ گفتگو : ” جنتی باغوں میں ہوں گے مجرموں سے پوچھیں گے کہ تم جہنم میں کس وجہ سے داخل ہوئے ؟ وہ کہیں گے ہم نماز ادا نہیں کرتے تھے اور ہم مسا کین کو کھانا نہ کھلاتے تھے اور کاموں میں لگے رہتے تھے اور ہم یوم جزا کا انکار کرتے تھے یہاں تک کہ ہمیں اس کا یقین ہوگیا۔ “ (المدثر : ٤٠ تا ٤٨) مسائل ١۔ جنتیوں کو جہنمیوں سے ہم کلام ہونے کا موقع دیا جائے گا۔ ٢۔ جنتیوں کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے گی۔ ٣۔ جنت میں داخلہ نصیب ہونا سب سے بڑی کامیابی ہے۔ ٤۔ سب لوگوں کو جنتیوں والے اعمال کرنے چاہییں۔ ٥۔ قیامت کو زندہ ہونے کے بعد موت نہیں آئے گی۔ تفسیر بالقرآن سب سے بڑی کامیابی : ١۔ ” اللہ “ کا انسان کو ہمیشگی والی جنت میں داخل فرمانابڑی کامیابی ہے۔ (التوبۃ : ٨٩) ٢۔ اللہ تعالیٰ کا مومنین کو باغات عطا کرنا اور اپنی رضا مندی کا سر ٹیفکیٹ عطا فرمانابڑی کامیابی ہے۔ (التوبۃ : ٧٢) ٣۔ اللہ تعالیٰ کا مومنین کے ساتھ ان کی جانوں اور مالوں کے بدلے جنت کا سودا فرمانا۔ (التوبۃ : ١١١) ٤۔ اللہ تعالیٰ پہ ایمان لانا اور اسی سے ڈرنا اور اللہ تعالیٰ کا انھیں بشارت سے نوازنا۔ (یونس : ٦٣ تا ٦٤) ٥۔ اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی سے برائی سے بچ جانا کامیابی ہے۔ (المومن : ٩) ٦۔ ہمیشہ رہنے والے باغات اور رہائش گاہوں کا وعدہ فرمانا۔ (الصف : ١٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فاقبل بعضھم ۔۔۔۔۔۔۔ انا لمدینون (50-53) ” اس جتنی کا یہ دوست وقوع قیامت اور حسان و کتاب کا منکر تھا اور وہ اس جتنی کو ملا مت کرتا تھا کیا تم اس بات کو تسلیم کرتے ہو کہ لوگ قیامت میں دوبارہ اٹھائے جائیں گے اور ان کا حساب و کتاب ہوگا۔ اس کے بعد کہ وہ مٹی ہوجائیں اور محض ہڈیاں رہ جائیں گی ۔ یہ جتنی اپنے ساتھیوں کے ساتھ محو گفتگو ہے کہ اچانک اس کے دل میں خیال آتا ہے کہ ذرا تلاش تو کرے کہ اس کے دوست کا انجام کیا ہوا ہے ۔ اسے یقین ہے کہ جنت میں تو وہ ہو نہیں سکتا لازما جہنم میں ہوگا۔ وہ خود بھی تلاش کرتا ہے اور دوستوں سے بھی کہتا ہے کہ اسے تلاش کیا جائے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ایک جنتی اور ایک دوزخی کا مکالمہ اہل جنت، جنت کی نعمتوں میں مشغول ہوں گے، آمنے سامنے تختوں پر بیٹھے ہوں گے آپس میں باتیں بھی ہوں گی، دل لگی کے طور پر چھینا جھپٹی بھی ہوگی، جیسا کہ سورة الطور میں (یَتَنَازَعُوْنَ فِیْہَا کَاْسًا) فرمایا۔ انہی باتوں میں سے ایک بات یہ بھی ہوگی کہ جنتیوں میں سے ایک جنتی یوں کہے گا کہ دنیا میں میرا ایک ساتھی تھا جس سے ملاقات ہوتی رہتی تھی وہ خود مومن نہ تھا مجھے بھی سرزنش کرتا تھا اور قیامت پر ایمان لانے کو بیوقوفی سمجھتا تھا اور مجھ سے کہتا تھا کیا تو بھی اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ قیامت قائم ہوگی اور مردے زندہ ہو کر قبروں سے اٹھیں گے، تو ہی بتا کہ جب ہم مرجائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں ہوجائیں گے تو کیا زندہ کرکے اٹھائے جائیں گے اور اپنے اپنے اعمال کی جزا و سزا پائیں گے، میری سمجھ میں تو یہ بات نہیں آتی۔ بات کرتے کرتے وہ شخص کہے گا میں تو جنت میں آگیا اور وہ ساتھی جو جزا سزا کی تصدیق نہیں کرتا تھا اور مجھے بھی اس سے روکتا تھا وہ دوزخ میں چلا گیا، آؤ ذرا دوزخ میں جھانک کر دیکھیں تو سہی اس کا کیا حال ہے ؟ یہ بات کہہ کر جب وہ شخص دوزخ میں جھانکے گا تو اسی ساتھی کو جو ایمان سے روکتا تھا اور خود کافر تھا دوزخ کے درمیان دیکھ لے گا، جب وہ نظر آئے گا تو اس سے کہے گا کہ تو نے اپنا انجام دیکھ لیا، تو تو مجھے بھی ایمان لانے سے روکتا تھا، قریب تھا کہ تو میرا بھی ناس کھو دیتا، اگر میں تیری مان لیتا تو آج میں بھی دوزخ میں ہوتا، اللہ تعالیٰ ہی نے مجھ پر فضل فرمایا کہ اس نے مجھے ایمان کی توفیق دی اور کفر سے بچایا، اللہ کی توفیق اور فضل و کرم نہ ہوتا تو آج میں بھی انہیں لوگوں میں ہوتا جو عذاب کے لیے دوزخ میں حاضر کردئیے گئے۔ جنت میں ہوتے ہوئے دوزخ میں کیسے نظر آجائے گا اور جنتی آدمی کو اپنا دنیا والا ساتھی جو منکر بعث تھا کیسے نظر آجائے گا ؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ شانہٗ اہل جنت کی نظر کو تیز پیدا فرما دے اور انہیں ایسی قوت دے دے جس کے ذریعے جس کو چاہیں دیکھ سکیں۔ اور دوسرا جواب یہ دیا ہے کہ جب جنتی حضرات دوزخ میں نظر ڈالنا چاہیں گے تو اعراف پر کھڑے کردئیے جائیں گے۔ اور بعض حضرات سے نقل کرتے ہوئے تیسرا جواب یہ دیا ہے کہ جنت میں کچھ طاقچے ہوں گے ان سے دوزخ والوں کو دیکھ لیں گے، یہ جواب پرانے زمانے کے اعتبار سے ہیں، اب تو دیکھنے، سننے اور بات کرنے کے لیے ایسے نئے آلات نظروں کے سامنے آگئے ہیں کہ احتمالات بعیدہ نکالنے کی ضرورت ہی نہیں رہی، پہلا جواب احوال حاضرہ کے مناسب ہے۔ (وَیَخْلُقُ اللّٰہُ مَا یَشَآءُ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

26:۔ فاقبل الخ :۔ اہل جنت جب کھانے پینے میں مصروف ہوں گے تو ان کے درمیان مختلف موضوعات پر گفتگو ہوگی۔ دنیا کے احوال پر بھی تبصرہ ہوگا۔ چناچہ ان میں سے ایک دیگر شرکاء محفل سے کہے گا دنیا میں ایک منکر قیامت میرا ساتھی اور ہمنشین تھا جو مجھے ایمان بالاخرۃ کے عقیدے پر ڈانٹا کرتا تھا اور کہا کرتا تھا کیا تو مانتا ہے کہ قیامت آئے گی ؟ اور جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں گے اور ہماری ہڈیاں تک گل سڑ جائیں گی کیا اس کے باوجود بھی ہم دوبارہ زندہ کیے جائیں گے اور جزاء وسزا کا معاملہ ہوگا ؟ کیا تو ان باتوں پر یقین رکھتا ہے ؟ قال ھل انتم مطلعون، آؤ ذرا دوزخ میں جھانک کر دیکھیں تو سہی کہ اس کا کیا حال ہے ؟ والمراد من الاستفہام العرض الخ (روح) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(50) وہ اہل جنت ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوکر باہم حالات دریافت کریں گے۔ یعنی ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہوں گے اور آپس میں ایک دوسرے کے حالات دریافت کرتے ہوں گے۔