Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 57

سورة الصافات

وَ لَوۡ لَا نِعۡمَۃُ رَبِّیۡ لَکُنۡتُ مِنَ الۡمُحۡضَرِیۡنَ ﴿۵۷﴾

If not for the favor of my Lord, I would have been of those brought in [to Hell].

اگر میرے رب کا احسان نہ ہوتا تو میں بھی دوزخ میں حاضر کئے جانے والوں میں ہوتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Had it not been for the grace of my Lord, I would certainly have been among those brought forth (to Hell). means, `Were it not for the favor of my Lord towards me, I would have been like you in the middle of Hell where you are, brought forth with you for punishment. But He bestowed His grace upon me, had mercy upon me and guided me to faith and to belief in Him Alone.' وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِىَ لَوْلا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ and never could we have found guidance, were it not that Allah had guided us! (7:43) أَفَمَا نَحْنُ بِمَيِّتِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

57۔ 1 یعنی جھانکنے پر اسے جہنم کے وسط میں وہ شخص نظر آجائے گا اور اسے یہ جنتی کہے گا کہ مجھے بھی تو گمراہ کر کے ہلاکت میں ڈالنے لگا تھا، یہ تو مجھ پر اللہ کا احسان ہوا، ورنہ آج میں تیرے ساتھ جہنم میں ہوتا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٣] سرگزشت بیان کرنے والا جب دوزخ کی طرف جھانکے گا تو اسے اس کا ساتھی دوزخ کے عین وسط میں پڑا دکھائی دے گا۔ اس وقت وہ اس سے کہے گا : ارے کم بخت ! اگر میں تیری باتوں میں آجاتا تو تو مجھے بھی اپنے ساتھ لے ڈوبتا اور میرا بھی وہی حشر ہوتا جو تمہارا ہو رہا ہے۔ یہ تو مجھ پر اللہ کی خاص مہربانی ہوئی جو میں تیرے بہکاوے میں نہ آیا اور اس عذاب سے بچ گیا ورنہ تو نے تو مجھے گمراہ کرنے میں کسر نہ چھوڑی تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَوْلَا نِعْمَةُ رَبِّيْ لَكُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِيْنَ : اس کے ساتھ وہ اللہ تعالیٰ کا احسان یاد کر کے اس کا تذکرہ کرے گا کہ اگر میرے رب کا مجھ پر احسان نہ ہوتا تو میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوتا جنھیں گرفتار کر کے جہنم میں حاضر کیا گیا ہے۔ یہ اس کا احسان ہے کہ اس نے مجھے ایمان پر قائم رکھا، ورنہ میرے قدم بھی ڈگمگا جاتے۔ ان دونوں دوستوں کا قصہ سورة کہف میں مذکور دو باغوں کے مالک (جو آخرت کا منکر تھا) اور اس کے مومن دوست کے قصے سے مناسبت رکھتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَوْلَا نِعْمَۃُ رَبِّيْ لَكُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِيْنَ۝ ٥٧ نعم النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] ( ن ع م ) النعمۃ اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔ حضر الحَضَر : خلاف البدو، والحَضَارة والحِضَارَة : السکون بالحضر، کالبداوة والبداوة، ثمّ جعل ذلک اسما لشهادة مکان أو إنسان أو غيره، فقال تعالی: كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة/ 180] ، نحو : حَتَّى إِذا جاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ الأنعام/ 61] ، وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء/ 8] ، وقال تعالی: وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء/ 128] ، عَلِمَتْ نَفْسٌ ما أَحْضَرَتْ [ التکوير/ 14] ، وقال : وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ [ المؤمنون/ 98] ، وذلک من باب الکناية، أي : أن يحضرني الجن، وكني عن المجنون بالمحتضر وعمّن حضره الموت بذلک، وذلک لما نبّه عليه قوله عزّ وجل : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق/ 16] ، وقوله تعالی: يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آياتِ رَبِّكَ [ الأنعام/ 158] ، وقال تعالی: ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً [ آل عمران/ 30] ، أي : مشاهدا معاینا في حکم الحاضر عنده، وقوله عزّ وجلّ : وَسْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كانَتْ حاضِرَةَ الْبَحْرِ [ الأعراف/ 163] ، أي : قربه، وقوله : تِجارَةً حاضِرَةً [ البقرة/ 282] ، أي : نقدا، وقوله تعالی: وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنا مُحْضَرُونَ [يس/ 32] ، وفِي الْعَذابِ مُحْضَرُونَ [ سبأ/ 38] ، شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] ، أي : يحضره أصحابه، والحُضْر : خصّ بما يحضر به الفرس إذا طلب جريه، يقال : أَحْضَرَ الفرس، واستحضرته : طلبت ما عنده من الحضر، وحاضرته مُحَاضَرَة وحِضَارا : إذا حاججته، من الحضور، كأنه يحضر کلّ واحد حجّته، أو من الحضر کقولک : جاریته، والحضیرة : جماعة من الناس يحضر بهم الغزو، وعبّر به عن حضور الماء، والمَحْضَر يكون مصدر حضرت، وموضع الحضور . ( ح ض ر ) الحضر یہ البدو کی ضد ہے اور الحضارۃ حاد کو فتحہ اور کسرہ دونوں کے ساتھ آتا ہے جیسا کہ بداوۃ وبداوۃ اس کے اصل شہر میں اقامت کے ہیں ۔ پھر کسی جگہ پر یا انسان وگیرہ کے پاس موجود ہونے پر حضارۃ کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة/ 180] تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آجائے ۔ وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء/ 8] اور جب تم میراث کی تقسیم کے وقت ۔۔۔ آمو جود ہوں ۔ وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء/ 128] اور طبائع میں بخل ودیعت کردیا گیا ہے ۔ عَلِمَتْ نَفْسٌ ما أَحْضَرَتْ [ التکوير/ 14] تب ہر شخص معلوم کرلے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے اور آیت کریمہ : وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ [ المؤمنون/ 98] میں کنایہ کہ اے پروردگار میں پناہ مانگتا ہوں کہ جن و شیاطین میرے پاس آھاضر ہوں ۔ اور بطور کنایہ مجنون اور قریب المرگ شخص کو محتضر کہا جاتا ہے جیسا کہ آیت : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق/ 16] اور آیت کریمہ : یوم یاتی بعض ایات ربک میں اس معنی پر متنبہ کیا گیا ہے اور آیت کریمہ ۔ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً [ آل عمران/ 30] کے معنی یہ ہیں کہ انسان جو نیکی بھی کرے گا ۔ قیامت کے دن اس کا اس طرح مشاہدہ اور معاینہ کرلے گا جیسا کہ کوئی شخص سامنے آموجود ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَسْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كانَتْ حاضِرَةَ الْبَحْرِ [ الأعراف/ 163] اور ان سے اس گاؤں کا حال پوچھ جواب دریا پر واقع تھا ۔ میں حاضرۃ البحر کے معنی دریا کے قریب یعنی ساحل کے ہیں اور آیت کریمہ : تِجارَةً حاضِرَةً [ البقرة/ 282] میں حاضرۃ کے معنی نقد کے ہیں ۔ نیز فرمایا : وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنا مُحْضَرُونَ [يس/ 32] اور سب کے سب ہمارے روبرو حاضر کئے جائیں گے ۔ وفِي الْعَذابِ مُحْضَرُونَ [ سبأ/ 38] وی عذاب میں ڈالے جائیں گے ۔ اور آیت کریمہ : شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] ، ہر باری والے کو اپنی باری پر آنا چاہئے میں بانی کی باری کے محتضر ہونے کے معنی یہ ہیں کہ باڑی والے اس گھاٹ پر موجود ہوں ۔ الحضر ۔ خاص کر گھوڑے کی تیز دوڑے کو کہتے ہیں کہا جاتا ہے : احضر الفرس گھوڑا دوڑا استحضرتُ الفرس میں نے گھوڑے کو سرپٹ دوڑایا ۔ حاضرتہ محاضرۃ وحضارا باہم جھگڑنا ۔ مباحثہ کرنا ۔ یہ یا تو حضور سے ہے گویا ہر فریق اپنی دلیل حاضر کرتا ہے اور یا حضر سے ہے جس کے معنی تیز دوڑ کے ہوتے ہیں جیسا کہ ۔۔۔۔۔۔ جاریتہ کہا جاتا ہے ۔ الحضیرۃ ُ لوگوں کی جماعت جو جنگ میں حاضر کی جائے اور کبھی اس سے پانی پر حاضر ہونے والے لوگ بھی مراہ لئے جاتے ہیں ۔ المحضرُ ( اسم مکان ) حاضر ہونے کی جگہ اور حضرت ُ ( فعل ) کا مصدر بھی بن سکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٧{ وَلَوْلَا نِعْمَۃُ رَبِّیْ لَکُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِیْنَ } ” اور اگر میرے رب کی نعمت مجھ پر نہ ہوتی تو میں بھی لازماً پکڑے گئے لوگوں میں سے ہوتا۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

32 This shows how powerful will be man's hearing, seeing and speaking powers in the Hereafter. Sitting in Paradise he bends his head a little and is able to see a person, who is undergoing torment thousands of miles away in Hell, without the agency of a television set. Then, they not only just see each other, but also commune with each other directly without the medium of the telephone or radio and they speak and hear each other over vast distances.

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :32 اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آخرت میں انسان کی سماعت اور بینائی اور گویائی کس پیمانے کی ہو گی ۔ جنت میں بیٹھا ہوا ایک آدمی جب چاہتا ہے کسی ٹیلی ویژن کے آلے کے بغیر بس یونہی جھک کر ایک ایسے شخص کو دیکھ لیتا ہے جو اس سے نہ معلوم کتنے ہزار میل کے فاصلے پر جہنم میں مبتلائے عذاب ہے ۔ پھر یہی نہیں کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں ، بلکہ ان کے درمیان کسی ٹیلی فون یا ریڈیو کے توسط کے بغیر براہ راست کلام بھی ہوتا ہے ۔ وہ اتنے طویل فاصلے سے بات کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی بات سنتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:57) المحضرین۔ اسم مفعول ، جمع مذکر منصوب وہ لوگ جن کو (عذاب کے لئے ) حاضر کیا جائے گا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یہاں اس جتنی کی اپنے جہنمی دوسرے سے گفتگو ختم ہوگئی۔ اس کے بعد وہ اپنے جتنی ساتھیوں سے خطاب کر کے خوشی اور تعجب بھرے لہجے میں کہے گا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(57) اور اگر میرے پروردگار کا مجھ پر فضل اور احسان نہ ہوتا تو میں بھی آج گرفتار شدگان میں سے ہوتا اور ماخوذ ہوکر حاضر کیا جاتا۔ یعنی اگر خدانخواستہ میں تیری باتوں میں آکر بعثت سے بداعتقاد ہوجاتا تو ہلاک اور تباہ ہوکر تیری طرح جہنم میں پڑا ہوا ہوتا اور میں ماخوذ ہوکر حاضر کیا جاتا وہ اللہ نے مجھ پر اپنا فضل کیا کہ میں قیامت کے اعتقاد سے ہٹا نہیں اور خدا نے جو کچھ فرمایا تھا اور وقوع قیامت کی جو خبردی تھی اس پرجمارہا۔