Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 59

سورة الصافات

اِلَّا مَوۡتَتَنَا الۡاُوۡلٰی وَ مَا نَحۡنُ بِمُعَذَّبِیۡنَ ﴿۵۹﴾

Except for our first death, and we will not be punished?"

بجز پہلی ایک موت کے ، اور نہ ہم عذاب کیے جانے والے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Are we then not to die (any more). Except our first death, and we shall not be punished. This is what the believers will say when they feel joy at what Allah has given them, and they realize that they are to remain in Paradise forever with no punishment and no death to come. Allah says: إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

59۔ 1 جو دنیا میں آچکی۔ اب ہمارے لئے موت ہے نہ عذاب۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِلَّا مَوْتَتَنَا الْاُوْلٰى وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِيْنَ۝ ٥٩ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٩{ اِلَّا مَوْتَتَنَا الْاُوْلٰی وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِیْنَ } ” سوائے ہماری اس پہلی موت کے ‘ اور اب ہمیں کوئی عذاب بھی نہیں دیا جائے گا۔ “ یہ اہل جنت کی آپس کی گفتگو کا حوالہ ہے۔ وہ ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہوں گے کہ کیا اس کے بعد ہماری کوئی پکڑ تو نہیں ہوگی ؟ کیا اب مزید کسی چھانٹی کے لیے کوئی چھلنی تو نہیں لگے گی ؟ اور کیا اب ہم مطمئن ہوجائیں کہ آئندہ ہمیں کسی قسم کے عذاب کا کوئی کھٹکا نہیں ہوگا ؟ اہل جنت کی ان باتوں سے ان کی سادہ لوحی ‘ تواضع اور انکساری کا اظہار ہوتا ہے۔ جنت میں ٹھکانہ ملنے پر وہ لوگ فخر و تعلی ّکا اظہار نہیں کریں گے اور یوں نہیں سمجھیں گے کہ ہم نے اپنی محنت کا پھل پایا ہے اور اب ہم یہاں ہمیشہ ہمیش دھڑلے سے رہیں گے ‘ بلکہ اپنی اس کامیابی کو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا نتیجہ قرار دیں گے اور اس حوالے سے بار بار اس کے حضور شکر کا اظہار کریں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

33 The style clearly shows that while speaking to his friend in Hell, the dweller of Paradise suddenly starts talking to himself. He speaks these three sentences in a way as if he found himself in a state much better than that he ever expected and imagined for himself, and now being beside himself with wonder and joy he is engaged in a sort of soliloquy. In such a state the speaker does not speak to an addressee, nor the questions he asks are meant to find out something from somebody, but in this state the man's own feelings fmd expression through his tongue. The dweller of Paradise, while speaking to the dweller of Hell, suddenly starts feeling how he has been favoured by good fortune: now there is neither death nor any torment: all troubles and distresses have come to an end and he has been blessed with immortality. Under this very feeling he exclaims: "Well arc we not to die any other than our first death ? Are we not to be punished?"

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :33 انداز کلام صاف بتا رہا ہے کہ اپنے اس دوزخی یار سے کلام کرتے کرتے یکایک یہ جنتی شخص اپنے آپ سے کلام کرنے لگتا ہے اور یہ تین فقرے اس کی زبان سے اس طرح ادا ہوتے ہیں جیسے کوئی شخص اپنے آپ کو ہر توقع اور ہر اندازے سے برتر حالت میں پا کر انتہائی حیرت و استعجاب اور وفور مسرت کے ساتھ آپ ہی آپ بول رہا ہو ۔ اس طرح کے کلام میں کوئی خاص شخص مخاطب نہیں ہوتا ، اور نہ اس کلام میں جو سوالات آدمی کرتا ہے ان سے درحقیقت کوئی بات کسی سے پوچھنا مقصود ہوتا ہے ۔ بلکہ اس میں آدمی کے اپنے ہی احساسات کا اظہار اس کی زبان سے ہونے لگتا ہے ۔ وہ جنتی شخص اس دوزخی سے کلام کرتے کرتے یکایک یہ محسوس کرتا ہے کہ میری خوش قسمتی مجھے کہاں لے آئی ہے ۔ اب نہ موت ہے نہ عذاب ہے ۔ ساری کلفتوں کا خاتمہ ہو چکا ہے اور مجھے حیات جاوداں نصیب ہو چکی ہے ۔ اسی احساس کی بنا پر وہ بے ساختہ بول اٹھتا ہے کیا اب ہم اس مرتبے کو پہنچ گئے ہیں ؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:59) الا موتتنا الاولی۔ الا استثناء مفرغ (جس کا مستثنیٰ منہ مذکور نہ ہو) اس کا مستثنیٰ منہ مصدر مقدر موتۃ ہے۔ ای افما نحن یمیتین موتۃ الا موتتنا الاولی کیا ہم (اب) موت نہیں مریں گے سوائے ہماری پہلی موت کے (جو ہم پر دنیا میں گذر چکی) ۔ موتتنا مضاف مضاف الیہ (ہماری موت ) الاولی موت کی صفت ہے ہماری پہلی موت۔ بمعذبین۔ ب حرف جار۔ معذبین اسم مفعول جمع مذکر مجرور ۔ عذاب دئیے گئے، عذاب یافتہ۔ آیات 58 ۔ 59 کا مطلب ہوگا : کیا ہم بجز پہلی بار مر چکنے کے پھر (کبھی) نہیں مرنے کے۔ اور نہ ہم کو کبھی عذاب ہوگا یہ استفہام تقریری ہے یعنی مخاطب کو اس کے اقرار پر آمادہ کیا گیا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(59) سوائے اس مرنے کے جو ہم اپنی پہلی بار کی موت سے مرچکے اور ہم کبھی عذاب دیئے جانے والے نہیں۔ یعنی دنیا میں پہلی مرتبہ جو ہم مرچکے اس کے سوائے نہ ہم کو اب موت آئے گی اور نہ ہم عذاب دیئے جائیں گے۔ بخلاف اہل جہنم کے وہ ہر وقت موت کے متوقع ہیں حالانکہ موت آئی نہیں۔