Surat us Saaffaat
Surah: 37
Verse: 63
سورة الصافات
اِنَّا جَعَلۡنٰہَا فِتۡنَۃً لِّلظّٰلِمِیۡنَ ﴿۶۳﴾
Indeed, We have made it a torment for the wrongdoers.
جسے ہم نے ظالموں کے لئے سخت آزمائش بنا رکھا ہے ۔
اِنَّا جَعَلۡنٰہَا فِتۡنَۃً لِّلظّٰلِمِیۡنَ ﴿۶۳﴾
Indeed, We have made it a torment for the wrongdoers.
جسے ہم نے ظالموں کے لئے سخت آزمائش بنا رکھا ہے ۔
Truly, We have made it (as) a trial for the wrongdoers. Qatadah said, "The tree of Zaqqum is mentioned as a test for those who are misguided. They said, `Your companion tells you that in the Fire there is a tree, but fire consumes trees.' Then Allah revealed the words: إِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُجُ فِي أَصْلِ الْجَحِيمِ
63۔ 1 آزمائش اس لئے کہ اس کا پھل کھانا بجائے خود ایک بہت بڑی آزمائش ہے۔ بعض نے اسے اس اعتبار سے آزمائش کہا کہ اس کے وجود کا انہوں نے انکار کیا کہ جہنم میں جب ہر طرف آگ ہی آگ ہوگی تو وہاں درخت کس طرح موجود رہ سکتا ہے ؟ یہاں ظالمین سے مراد اہل جہنم ہیں جن پر جہنم واجب ہوگی۔
اِنَّا جَعَلْنٰهَا فِتْنَةً لِّلظّٰلِمِيْنَ : یہاں ” اَلظَّالِمِیْنَ “ سے مراد کفارو مشرکین ہیں اور ” زقوم “ انھی کے لیے آزمائش ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سنایا : (اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوْمِ ۔ طَعَامُ الْاَثِيْمِ ۔ كَالْمُهْلِ ڔ يَغْلِيْ فِي الْبُطُوْنِ ۔ كَغَلْيِ الْحَمِيْمِ ) [ الدخان : ٤٣ تا ٤٦ ] ” بیشک زقوم کا درخت گناہ گار کا کھانا ہے۔ پگھلے ہوئے تانبے کی طرح، پیٹوں میں کھولتا ہے۔ گرم پانی کے کھولنے کی طرح۔ “ اور یہ فرمان : (ثُمَّ اِنَّكُمْ اَيُّهَا الضَّاۗلُّوْنَ الْمُكَذِّبُوْنَ ۔ لَاٰكِلُوْنَ مِنْ شَجَرٍ مِّنْ زَقُّوْمٍ ) [ الواقعۃ : ٥١، ٥٢ ] ” پھر بیشک تم اے گمراہو ! جھٹلانے والو ! یقیناً تھوہر کے پودے میں سے کھانے والے ہو۔ “ تو ایمان والوں کو اسے ماننے میں کوئی الجھن نہیں ہوئی، کیونکہ انھیں یقین تھا کہ اللہ اور اس کا رسول جو فرماتے ہیں وہ حق ہے۔ وہ کفار ہی تھے جنھوں نے کہا، آگ میں درخت کیسے ہوسکتا ہے ؟ مزید دیکھیے سورة بنی اسرائیل (٦٠) ۔
In verse 63, it was said: إِنَّا جَعَلْنَاهَا فِتْنَةً لِّلظَّالِمِينَ (We have made it [ the tree of zaqqum ] a test [&fitnah&] for the unjust). Here, according to some commentators, فِتْنَةً (fitnah) means punishment, that is, &have turned this tree into a source of punishment.& But, most commentators say that it is more appropriate to translate &fitnah& at this place as &trial& or &test&. The purpose here is to say that Allah wishes to test as to who believes in it, and who ridicules it. Consequently, what happened was that the disbelievers of Arabia failed this test. Rather than fear this punishment and believe, they opted for the method of confrontation and ridicule. According to Hadith narrations, when the verses of the Qur&an in which it has been mentioned that the disbelievers will be made to eat the fruit of zaqqum, Abu Jahl said to his accomplices: |"Your friend (Sayyidna Muhammad al-Mustafa (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) says that there is a tree in the Fire - although, fire eats the tree - while we, by God, do know this much that zaqqum is the name of butter-topped dates. So, come and eat this date and butter|" (ad-Durr-ul-Manthur, p. 277, v. 5). In fact, in the language of the Berbers, dates topped with butter or cream were known as zaqqum, therefore, Abu Jahl made use of this opportunity to ridicule the prophet of Islam. To the two things he said,
(آیت) انا جعلنا ھافتنةً للظلمین، یعنی ” ہم نے اس (زقوم کے درخت) کو ان ظالموں کے لئے فتنہ بنایا ہے “ اس میں فتنہ سے بعض مفسرین کے نزدیک عذاب مراد ہے، یعنی اس درخت کو عذاب کا ذریعہ بنادیا ہے۔ لیکن اکثر حضرات کا کہنا یہ ہے کہ یہاں ” فتنہ “ کا ترجمہ ” آزمائش “ اور ” امتحان “ کرنا زیادہ موزوں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس درخت کا تذکرہ کر کے ہم یہ امتحان لینا چاہتے ہیں کہ کون اس پر ایمان لاتا ہے ؟ اور کون اس کا مذاق اڑاتا ہے ؟ چناچہ کفار عرب اس امتحان میں ناکام رہے، انہوں نے بجائے اس کے کہ اس عذاب سے ڈر کر ایمان لاتے تمسخر و استہزاء کا طریقہ اختیار کیا۔ روایات میں ہے کہ جب قرآن کریم کی وہ آیات نازل ہوئیں جن میں کافروں کو زقوم کھلانے کا تذکرہ ہے، تو ابوجہل نے اپنے ساتھیوں سے کہا : ” تمہارا دوست (حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہتا ہے کہ آگ میں ایک درخت ہے، حالانکہ آگ تو درخت کو کھاتی ہے، اور خدا کی قسم ! ہم تو یہ جانتے ہیں کہ زقوم کھجور اور مکھن کو کہتے ہیں، تو آؤ اور یہ کھجور مکھن کھاؤ۔ “ (درمنثور، ص ٧٧٢، ج ٥) دراصل زقوم بربری زبان میں کھجور اور مکھن کو کہتے تھے، اس لئے اس نے استہزاء کا یہ طریقہ اختیار کیا۔ باری تعالیٰ نے ایک ہی جملے میں اس کی دونوں باتوں کا جواب دے دیا کہ :
اِنَّا جَعَلْنٰہَا فِتْنَۃً لِّلظّٰلِمِيْنَ ٦٣ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ فتن أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] ( ف ت ن ) الفتن دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں
آیت ٦٣{ اِنَّا جَعَلْنٰہَا فِتْنَۃً لِّلظّٰلِمِیْنَ } ” ہم نے اس (درخت) کو فتنہ بنا دیا ہے ظالموں کے لیے۔ “
35 That is, "On hearing this the disbelievers get a new opportunity to taunt the Qur'an and mock the Holy Prophet. They ridicule it saying, `Listen another strange thing: a tree will grow in the blazing fire of Hell'!"
سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :35 یعنی منکرین یہ بات سن کر قرآن پر طعن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر استہزاء کا ایک نیا موقع پالیتے ہیں ۔ وہ اس پر ٹھٹھا مار کر کہتے ہیں ، لو اب نئی سنو ، جہنم کی دہکتی ہوئی آگ میں درخت اگے گا ۔
10: جب قرآن کریم نے یہ بتایا کہ دوزخ میں زقوم کا درخت ہوگا جو دوزخیوں کی خوراک بنے گا، تو کافروں نے مذاق اڑایا کہ بھلا آگ میں کوئی درخت کیسے ہوسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ زقوم کا ذکر کرکے ان کافروں کو ایک اور آزمائش میں ڈالا گیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی بات کی تصدیق کرتے ہیں، یا اس کا انکار کرتے ہیں۔
(37:63) جعلنھا۔ میں ھا ضمیر واحد مؤنث غائب شجرۃ کی طرف راجع ہے۔ فتنۃ۔ قرآن مجید میں یہ لفظ اور اس کے مشتقات کو مختلف معانی میں استعمال کیا گیا ہے مثلاً آزمائش یا آزمائش کرنا۔ مصیبت ، ایذا، فساد۔ تختہ مشق، عبرت، وغیرہ یہاں آخرت کی نسبت سے اس کا معنی عذاب آئے گا۔
ف 8 اس سے دنیا و آخرت دونوں میں ان کی آزمائش ہوگی۔ اس کی آخرت میں آزمائش ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جب دوزخ میں کھانے کیلئے کوئی چیز نہ ملے گی۔ تو وہ اسی کو کھا کر اپنی بھوک مٹانے کی کوشش کریں گے لیکن اسے منہ میں ڈالنا اور حلق سے اتارنا سخت تکلیف دہ بلکہ مستقل عذاب کا باعث ہوگا۔ وہ اسے کھائیں تو مشکل اور نہ کھائیں تو مشکل یہی ان کی آزمائش ہوگی۔ دنیا میں آزمائش ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جب کافر سنیں گے کہ دوزخ کی آگ میں درخت پیدا ہوتا ہے تو وہ قرآن اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذاق اڑا کر اور زیادہ گمراہ ہونگے، چناچہ جب ابو جہل نے یہ آیا سنیں تو اس نے اپنے ساتھیوں کو جمع کیا اور انہیں کھجور اور پنیر پیش کرتے ہوئے کہنے لگا “۔ یہ ہے وہ زقوم جس کی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں دھمکی دے رہا ہے لیکن تم اسے مزے لے لے کر کھائو “۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ( ثم ان لھم علیھا لشوبا من حمیم) تک اگلی آیات نازل فرمائیں۔ ( شوکانی)
(63) بے شک ہم نے اس درخت کو علاوہ عذاب کے دنیا میں ان ظالموں کے لئے موجب امتحان بنایا ہے۔ یعنی آخرت میں تو وہ عذاب ہے ہی لیککن دنیا میں بھی ان کے لئے اس درخت کا ذکر آزمائش ہے کہ یہ اس میں الجھ رہے ہیں اور ان کو یقین نہیں آتا کہ آگ میں ہرا درخت کیسے ہوسکتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی آخرت میں اس کو کھادیں گے اور گلے میں پھنسے گا ایک یہ بھی عذاب ہوگا یا خراب کرنا دنیا میں یہ کہ سن کر گمراہ ہوتے ہیں کہ سبز درخت دوزخ میں کیونکر اگا وہ ایک درخت ہے کہ نکلتا ہے دوزخ کی جڑ سے۔