Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 75

سورة الصافات

وَ لَقَدۡ نَادٰىنَا نُوۡحٌ فَلَنِعۡمَ الۡمُجِیۡبُوۡنَ ﴿۷۵﴾۫ ۖ

And Noah had certainly called Us, and [We are] the best of responders.

اور ہمیں نوح ( علیہ السلام ) نے پکارا تو ( دیکھ لو ) ہم کیسے اچھے دعا قبول کرنے والے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Nuh and His People When Allah tells us about how most of the early people went astray from the path of salvation, He starts the detailed explanation of that with the story of Nuh and the rejection of his people. Only a few of Nuh's people believed in him, despite the long period of time he spent among them. He stayed among them for one thousand years less fifty, and after he stayed among them for so long and their disbelief became too much for him to bear -- for every time he called them, they turned away from him even more -- he prayed to his Lord saying, "I have been overcome, so help (me)!" So Allah became angry because Nuh was angry with them. He says: وَلَقَدْ نَادَانَا نُوحٌ فَلَنِعْمَ الْمُجِيبُونَ And indeed Nuh invoked Us, and We are the best of those who answer. وَنَجَّيْنَاهُ وَأَهْلَهُ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيمِ

نیک لوگوں کے نام زندہ رہتے ہیں ۔ اوپر کی آیتوں میں پہلے لوگوں کی گمراہی کا اجمالاً ذکر تھا ۔ ان آیتوں میں تفصیلی بیان ہے ۔ حضرت نوح نبی علیہ السلام اپنی قوم میں ساڑھے نو سو سال تک رہے اور ہر وقت انہیں سمجھاتے بجھاتے رہے لیکن تاہم قوم گمراہی پر جمی رہی سوائے چند پاک باز لوگوں کے کوئی ایمان نہ لایا ۔ بلکہ ستاتے اور تکلیفیں دیتے رہے ، آخر کار اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تنگ آکر رب سے دعا کی کہ اللہ میں عاجز آگیا تو میری مدد کر ۔ اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا اور تمام کفار کو تہ آب اور غرق کردیا ۔ تو فرماتا ہے کہ نوح نے تنگ آکر ہمارے جناب میں دعا کی ۔ ہم تو ہیں ہی بہترین طور پر دعاؤں کے قبول کرنے والے فوراً ان کی دعا قبول فرما لی ۔ اور اس تکذیب وایذاء سے جو انہیں کفار سے روز مرہ پہنچ رہی تھی ہم نے بچالیا ۔ اور انہی کی اولاد سے پھر دنیا بسی ، کیونکہ وہی باقی بچے تھے ۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں تمام لوگ حضرت نوح کی اولاد میں سے ہیں ۔ ترمذی کی مرفوع حدیث میں اس آیت کی تفسیر میں ہے کہ سام حام اور یافث کی پھر اولاد پھیلی اور باقی رہی ۔ مسند میں یہ بھی ہے کہ سام سارے عرب کے باپ ہیں اور حام تمام حبش کے اور یافث تمام روم کے ۔ اس حدیث میں رومیوں سے مراد روم اول یعنی یونانی ہیں ۔ جو رومی بن لیطی بن یوناں بن یافث بن نوح کی طرف منسوب ہیں ۔ حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ حضرت نوح کے ایک لڑکے سام کی اولاد عرب ، فارس اور رومی ہیں اور یافث کی اولاد ترک ، صقالبہ اور یاجوج ماجوج ہیں اور حام کی اولاد قبطی ، سوڈانی اور بربری ہیں واللہ اعلم ۔ حضرت نوح کی بھلائی اور ان کا ذکر خیر ان کے بعد کے لوگوں میں اللہ کی طرف سے زندہ رہا ۔ تمام انبیاء کی حق گوئی کا نتیجہ یہی ہوتا ہے ہمیشہ ان پر لوگ سلام بھیجتے رہیں گے اور ان کی تعریفیں بیان کرتے رہیں گے ۔ حضرت نوح علیہ السلام پر سلام ہو ۔ یہ گویا اگلے جملے کی تفسیر ہے یعنی ان کا ذکر بھلائی سے باقی رہنے کے معنی یہ ہیں کہ ہر امت ان پر سلام بھیجتی رہتی ہے ۔ ہماری یہ عادت ہے کہ جو شخص خلوص کے ساتھ ہماری عبادت و اطاعت پر جم جائے ہم بھی اس کا ذکر جمیل بعد والوں میں ہمیشہ کے لیے باقی رکھتے ہیں ۔ حضرت نوح یقین و ایمان رکھنے والوں توحید پر جم جانے والوں میں سے تھے ۔ نوح اور نوح والوں کا تو یہ واقعہ ہوا ۔ لیکن نوح کے مخالفین غارت اور غرق کر دئیے گئے ۔ ایک آنکھ جھپکنے والی ان میں باقی نہ بچی ، ایک خبر رساں زندہ نہ رہا ، نشان تک باقی نہ بچا ۔ ہاں ان کی ہڈیاں اور برائیاں رہ گئیں جن کی وجہ سے مخلوق کی زبان پر ان کے یہ بدترین افسانے چڑھ گئے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

75۔ 1 یعنی ساڑھے نو سو سال کی تبلیغ کے باوجود جب قوم کی اکثریت نے ان کو جھٹلایا تو انہوں نے محسوس کرلیا کہ ایمان لانے کی کوئی امید نہیں ہے تو اپنے رب کو پکارا (فَدَعَا رَبَّهٗٓ اَنِّىْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ ) 54 ۔ القمر :10) یا اللہ میں مغلوب ہوں میری مدد فرما، چناچہ ہم نے نوح (علیہ السلام) کی دعا قبول کی اور ان کی قوم کو طوفان بھیج کر ہلاک کردیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٣] نوح کی بددعا اور اس کی قبولیت :۔ سیدنا نوح نے ساڑھے نو سو سال اپنی قوم سے سر کھپایا۔ ان کو دلائل سے سمجھایا اور مختلف پیرایوں میں سمجھانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ مگر ان لوگوں نے ان کی ایک نہ مانی۔ الٹا ان کا مذاق اڑاتے اور ایذائیں پہنچاتے رہے۔ اس طویل عرصہ میں معدودے چند آدمی آپ پر ایمان لائے۔ پھر جب آپ اپنی قوم سے قطعی طور پر مایوس ہوگئے کہ اب باقی لوگوں میں سے کوئی بھی ایمان لانے والا نظر نہیں آتا اور سب میرے اور میرے ساتھیوں کے درپے آزار ہیں تو اس وقت آپ نے اللہ کے حضور فریاد کی کہ یا اللہ ! مجھے ان لوگوں نے دبا لیا ہے اب تو ہی ان سے بدلہ لے اور مجھے ان ظالموں سے نجات دے۔ [٤٤] یعنی ہم نے سیدنا نوح کی فریاد سنی تو ان کی فریاد رسی کردی۔ ان کی مصیبت کا ازالہ کردیا، انہیں ظالموں سے نجات دے دی۔ کیونکہ یہ بات ہمارے ذمہ ہے کہ حق و باطل کے معرکہ میں ہم ایمانداروں کی فریاد رسی کیا کرتے ہیں۔ اور انہیں ظالموں سے بچا لیتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ نَادٰىنَا نُوْحٌ : پکارنے سے مراد وہ دعا ہے جو نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نوسو سال تک صبرو استقامت کے ساتھ دعوت دینے کے بعد اس وقت کی جب اللہ تعالیٰ نے انھیں آگاہ کیا کہ اب تمہاری قوم میں سے ان کے سوا کوئی ایمان نہیں لائے گا جو ایمان لا چکے۔ اس دعا کا ذکر سورة قمر (١٠) اور سورة نوح (٢٦) میں ہے۔ فَلَنِعْمَ الْمُجِيْبُوْنَ : یہاں اس کے بعد مخصوص بالمدح ” نَحْنُ “ محذوف ہے، یعنی یقیناً ہم اچھے دعا قبول کرنے والے ہیں۔ نوح (علیہ السلام) کی دعا کی قبولیت کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة ہود (٣٦ تا ٤٨) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary In the previous verses, it was said that Allah had sent messengers to warn the earlier communities as well, but most of the people did not listen to them, therefore, they met a very sad end. Now, from here details of that brief statement made earlier are being given. As a corollary, events relating to several noble prophets have been narrated. Mentioned first in these verses was Sayyidna Nuh (علیہ السلام) . The event relating to Sayyidna Nuh (علیہ السلام) has appeared in Surah Hud (11) with sufficient details. A few things connected with the explanation of these very verses particularly are being taken up here. In verse 75, it was said: وَلَقَدْ نَادَانَا نُوحٌ (And Nuh did call Us). According to most commentators, it means either the prayer of Sayyidna Nuh (علیہ السلام) mentioned in Surah Nuh: رَّ‌بِّ لَا تَذَرْ‌ عَلَى الْأَرْ‌ضِ مِنَ الْكَافِرِ‌ينَ دَيَّارً‌ا (My Lord, do not leave on earth even a single inhabitant (surviving) from the disbelievers - 71:26), or that which appears in Surah Al-Qamar: أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانتَصِرْ‌ (I am overpowered, so defend me - 54:10). Sayyidna Nuh , 4\1 had made this prayer at a time when his people had crossed all limits in being wicked and unruly to him and had gone as far as conspiring to kill him.

خلاصہ تفسیر اور ہم کو نوح (علیہ السلام) نے (نصرت کے لئے) پکارا (یعنی دعا کی) سو (ہم نے ان کی فریاد رسی کی اور) ہم خوب فریاد سننے والے ہیں اور ہم نے ان کو اور ان کے تابعین کو بڑے بھاری غم سے (جو کفار کی تکذیب اور ایذاء رسانی سے پیش آیا تھا) نجات دی (کہ طوفان سے کفار کو غرق کردیا اور ان کے تابعین کو بچا لیا) اور ہم نے باقی انہی کی اولاد کو رہنے دیا (اور کسی کی نسل نہیں چلی) اور ہم نے ان کے لئے پیچھے آنے والے لوگوں میں یہ بات (مدت دراز کے لئے) رہنے دی کہ نوح پر سلام ہو عالم والوں میں (یعنی خدا کرے اپنے تمام اہل عالم جن و انس و ملائکہ سلام بھیجا کریں) ہم مخلصین کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں بیشک وہ ہمارے ایمان دار بندوں میں تھے، پھر ہم نے دوسرے (طریق کے) لوگوں کو (یعنی کافروں کو) غرق کردیا۔ معارف و مسائل پچھلی آیت میں تذکرہ کیا گیا تھا کہ ہم نے پہلی امتوں کے پاس بھی ڈرانے والے پیغمبر بھیجے تھے، لیکن اکثر لوگوں نے ان کی بات نہیں مانی، اس لئے ان کا انجام بہت برا ہوا۔ اب یہاں سے اسی اجمال کی کچھ تفصیل بیان کی جا رہی ہے، اور اس ضمن میں کئی انبیاء (علیہم السلام) کے واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ سب سے پہلے ان آیات میں حضرت نوح (علیہ السلام) کا تذکرہ کیا گیا ہے، حضرت نوح (علیہ السلام) کا واقعہ تفصیل کے ساتھ سورة ہود میں گزر چکا ہے، یہاں چند باتیں جو خاص طور سے انہی آیات کی تفسیر سے متعلق ہیں درج ذیل کی جاتی ہیں : (آیت) ولقد نادانا نوح میں فرمایا گیا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ہمیں آواز دی تھی۔ اکثر مفسرین کے قول کے مطابق اس سے مراد حضرت نوح (علیہ السلام) کی وہ دعا ہے جو سورة نوح میں مذکور ہے یعنی (آیت) رب لا تذر علیٰ الارض من الکفرین دیاراً (اے میرے پروردگار ! زمین پر کافروں میں سے ایک باشندہ بھی مت چھوڑ) یا جو سورة قمر میں مذکور ہے یعنی (آیت) انی مغلوب فانتصر (میں مغلوب ہوں، میری مدد کیجئے) یہ دعا حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کی مسلسل سرکشی اور نافرمانی کے بعد اس وقت کی تھی جبکہ آپ کی قوم نے آپ کو جھٹلانے پر اکتفا کرنے کے بجائے الٹا آپ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ نَادٰىنَا نُوْحٌ فَلَنِعْمَ الْمُجِيْبُوْنَ۝ ٧٥ۡۖ ندا النِّدَاءُ : رفْعُ الصَّوت وظُهُورُهُ ، وقد يقال ذلک للصَّوْت المجرَّد، وإيّاه قَصَدَ بقوله : وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] أي : لا يعرف إلّا الصَّوْت المجرَّد دون المعنی الذي يقتضيه تركيبُ الکلام . ويقال للمرکَّب الذي يُفْهَم منه المعنی ذلك، قال تعالی: وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء/ 10] وقوله : وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة/ 58] ، أي : دَعَوْتُمْ ، وکذلك : إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة/ 9] ونِدَاءُ الصلاة مخصوصٌ في الشَّرع بالألفاظ المعروفة، وقوله : أُولئِكَ يُنادَوْنَمِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] فاستعمال النّداء فيهم تنبيها علی بُعْدهم عن الحقّ في قوله : وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق/ 41] ، وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم/ 52] ، وقال : فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل/ 8] ، وقوله : إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم/ 3] فإنه أشار بِالنِّدَاء إلى اللہ تعالی، لأنّه تَصَوَّرَ نفسَهُ بعیدا منه بذنوبه، وأحواله السَّيِّئة كما يكون حال من يَخاف عذابَه، وقوله : رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران/ 193] فالإشارة بالمنادي إلى العقل، والکتاب المنزَّل، والرّسول المُرْسَل، وسائر الآیات الدَّالَّة علی وجوب الإيمان بالله تعالی. وجعله منادیا إلى الإيمان لظهوره ظهورَ النّداء، وحثّه علی ذلك كحثّ المنادي . وأصل النِّداء من النَّدَى. أي : الرُّطُوبة، يقال : صوت نَدِيٌّ رفیع، واستعارة النِّداء للصَّوْت من حيث إنّ من يَكْثُرُ رطوبةُ فَمِهِ حَسُنَ کلامُه، ولهذا يُوصَفُ الفصیح بکثرة الرِّيق، ويقال : نَدًى وأَنْدَاءٌ وأَنْدِيَةٌ ، ويسمّى الشَّجَر نَدًى لکونه منه، وذلک لتسمية المسبَّب باسم سببِهِ وقول الشاعر : 435- كَالْكَرْمِ إذ نَادَى مِنَ الكَافُورِ «1» أي : ظهر ظهورَ صوتِ المُنادي، وعُبِّرَ عن المجالسة بالنِّدَاء حتی قيل للمجلس : النَّادِي، والْمُنْتَدَى، والنَّدِيُّ ، وقیل ذلک للجلیس، قال تعالی: فَلْيَدْعُ نادِيَهُ [ العلق/ 17] ومنه سمّيت دار النَّدْوَة بمكَّةَ ، وهو المکان الذي کانوا يجتمعون فيه . ويُعَبَّر عن السَّخاء بالنَّدَى، فيقال : فلان أَنْدَى كفّاً من فلان، وهو يَتَنَدَّى علی أصحابه . أي : يَتَسَخَّى، وما نَدِيتُ بشیءٍ من فلان أي : ما نِلْتُ منه نَدًى، ومُنْدِيَاتُ الكَلِم : المُخْزِيَات التي تُعْرَف . ( ن د ی ) الندآ ء کے معنی آواز بلند کرنے کے ہیں اور کبھی نفس آواز پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] جو لوگ کافر ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ میں اندر سے مراد آواز و پکار ہے یعنی وہ چو پائے صرف آواز کو سنتے ہیں اور اس کلام سے جو مفہوم مستناد ہوتا ہے اسے ہر گز نہیں سمجھتے ۔ اور کبھی اس کلام کو جس سے کوئی معنی مفہوم ہوتا ہو اسے ندآء کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے ۔ وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء/ 10] اور جب تمہارے پروردگار نے موسیٰ کو پکارا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة/ 58] اور جب تم لوگ نماز کے لئے اذان دیتے ہو ۔ میں نماز کے لئے اذان دینا مراد ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة/ 9] جب جمعے کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے ۔ میں بھی نداء کے معنی نماز کی اذان دینے کے ہیں اور شریعت میں ند اء الصلوۃ ( اذان ) کے لئے مخصوص اور مشہور کلمات ہیں اور آیت کریمہ : ۔ أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] ان کو گویا دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے : ۔ میں ان کے متعلق نداء کا لفظ استعمال کر کے متنبہ کیا ہے کہ وہ حق سے بہت دور جا چکے ہیں ۔ نیز فرمایا ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق/ 41] اور سنو جس دن پکارنے والا نزدیک کی جگہ سے پکارے گا ۔ وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم/ 52] اور ہم نے ان کو طور کے ذہنی جانب سے پکارا فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل/ 8] جب موسیٰ ان ان کے پاس آئے تو ندار آئی ۔ ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم/ 3] جب انہوں نے اپنے پروردگار کو دبی آواز سے پکارا میں اللہ تعالیٰ کے متعلق نادی کا لفظ استعمال کرنے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے گناہ اور احوال سینہ کے باعث اس وقت اپنے آپ کو حق اللہ تعالیٰ سے تصور کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنے والے کی حالت ہوتی ہے اور آیت کریمہ ؛ ۔ رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران/ 193] اے پروردگار ہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا ۔ جو ایمان کے لئے پکاررہا تھا ۔ میں منادیٰ کا لفظ عقل کتاب منزل رسول مرسل اور ان آیات الہیہ کو شامل ہے جو ایمان باللہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں اور ان چیزوں کو منادی للا یمان اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ ندا کی طرح ظاہر ہوتی ہیں اور وہ پکارنے والے کی طرح ایمان لانے کی طرف دعوت دے رہی ہیں ۔ اصل میں نداء ندی سے ہے جس کے معنی رطوبت نمی کے ہیں اور صوت ندی کے معنی بلند آواز کے ہیں ۔ اور آواز کے لئے نداء کا استعارہ اس بنا پر ہے کہ جس کے منہ میں رطوبت زیادہ ہوگی اس کی آواز بھی بلند اور حسین ہوگی اسی سے فصیح شخص کو کثرت ریق کے ساتھ متصف کرتے ہیں اور ندی کے معنی مجلس کے بھی آتے ہیں اس کی جمع انداء واندید آتی ہے ۔ اور در خت کو بھی ندی کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ نمی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ تسمیۃ المسبب با سم السبب کے قبیل سے ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 420 ) کالکرم اذا نادٰی من الکافور جیسا کہ انگور کا خوشہ غلاف ( پردہ ) سے ظاہر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ منادی کرنے والے کی آواز ہوتی ہے ۔ کبھی نداء سے مراد مجالست بھی ہوتی ہے ۔ اس لئے مجلس کو النادی والمسدیوالندی کہا جاتا ہے اور نادیٰ کے معنی ہم مجلس کے بھی آتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلْيَدْعُ نادِيَهُ [ العلق/ 17] تو وہ اپنے یاران مجلس کو بلالے ۔ اور اسی سے شہر میں ایک مقام کا نام درا لندوۃ ہے ۔ کیونکہ اس میں مکہ کے لوگ جمع ہو کر باہم مشورہ کیا کرتے تھے ۔ اور کبھی ندی سے مراد مخاوت بھی ہوتی ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ فلان اندیٰ کفا من فلان وپ فلاں سے زیادہ سخی ہے ۔ ھو یتندٰی علیٰ اصحابہ ۔ وہ اپنے ساتھیوں پر بڑا فیاض ہے ۔ ما ندیت بشئی من فلان میں نے فلاں سے کچھ سخاوت حاصل نہ کی ۔ مندیات الکلم رسوا کن باتیں مشہور ہوجائیں ۔ نوح نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس . ( ن و ح ) نوح ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔ نعم ( مدح) و «نِعْمَ» كلمةٌ تُسْتَعْمَلُ في المَدْحِ بإِزَاءِ بِئْسَ في الذَّمّ ، قال تعالی: نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ [ ص/ 44] ، فَنِعْمَ أَجْرُ الْعامِلِينَ [ الزمر/ 74] ، نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال/ 40] ( ن ع م ) النعمۃ نعم کلمہ مدح ہے جو بئس فعل ذم کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ [ ص/ 44] بہت خوب بندے تھے اور ( خدا کی طرف ) رجوع کرنے والے تھے ۔ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعامِلِينَ [ الزمر/ 74] اور اچھے کام کرنے والوں کا بدلہ بہت اچھا ہے ۔ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال/ 40] وہ خوب حمایتی اور خوب مدد گار ہے جوب والجواب يقال في مقابلة السؤال، والسؤال علی ضربین : طلب مقال، وجوابه المقال . وطلب نوال، وجوابه النّوال . فعلی الأول : أَجِيبُوا داعِيَ اللَّهِ [ الأحقاف/ 31] ، وعلی الثاني قوله : قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُما فَاسْتَقِيما [يونس/ 89] ، أي : أعطیتما ما سألتما . ( ج و ب ) الجوب جواب کا لفظ سوال کے مقابلہ میں بھی استعمال ہوتا ہے اور سوال دو قسم پر ہے ( 1) گفتگو کا طلب کرنا اس کا جواب گفتگو ہی ہوتی ہے (2) طلب عطا یعنی خیرات طلب کرنا اس کا جواب یہ ہے کہ اسے خیرات دے دی جائے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : أَجِيبُوا داعِيَ اللَّهِ [ الأحقاف/ 31] خدا کی طرف سے بلانے والے کی باٹ قبول کرو ۔ اور جو شخص خدا کی طرف بلانے والے کی باٹ قبول نہ کرے ۔ اور دوسرے معنی کے اعتبار سے فرمایا : : قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُما فَاسْتَقِيما [يونس/ 89] ، کہ تمہاری دعا قبول کرلی گئی تو ہم ثابت قدم رہنا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٥۔ ٧٩) نوح نے اپنی قوم کی ہلات کے لیے دعا کی کہ رب لا تذر علی الارض من الکافرین دیارا۔ ہم ان کی خوب فریاد سننے والے ہیں۔ چناچہ ہم نے ان کو اور ان کے پیروکاروں کو غرق ہونے سے بچا لیا اور قیامت تک ہم نے باقی ان ہی کی اولاد کو رہنے دیا، کیونکہ حضرت نوح کے تین لڑکے تھے، سام، حام، یافث سام تو ابو العرب ہیں اور تمام عربوں کے جزیروں میں رہنے والوں کے باپ ہیں اور حام حبش بر بر اور سندھ والوں کے باپ ہیں اور یافث تو تمام لوگوں کے باپ ہیں۔ اور ہم نے نوح کے لیے ان کے بعد والوں میں یہ بات رہنے دی کہ ہماری طرف سے نوح پر سلام ہو تمام جہانوں والوں میں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٥{ وَلَقَدْ نَادٰٹنَا نُوْحٌ فَلَنِعْمَ الْمُجِیْبُوْنَ } ” اور ہمیں پکارا تھا نوح ( علیہ السلام) نے ‘ تو ہم کیا ہی اچھے دعا قبول کرنے والے ہیں ! “ حضرت نوح کی اس دعا کا ذکر سورة القمر میں ان الفاظ میں ہوا ہے : { فَدَعَا رَبَّہٗٓ اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ } یعنی اس نے ربّ سے فریاد کی کہ میں مغلوب ہوگیا ہوں ‘ انہوں نے مجھے دبا لیا ہے ‘ اب ُ تو ہی میری مدد فرما اور تو ہی ان سے میرا بدلہ لے ! چناچہ اللہ کی مدد آگئی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

39 This theme is related with the preceding sentences. A study of them shows why these stories are being narrated here. 40 This refers to the prayer that the Prophet Noah had at last made to Allah Almighty, being disappointed with his people, after having preached the true Faith to them for a very long period of time, without much success. This prayer has been related in Surah All-Qamar, thus: "He called out to his Lord, saying: I am overcome: take now Thy vengeance." (v. 10).

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :39 اس مضمون کا تعلق پچھلے رکوع کے آخری فقروں سے ہے ۔ ان پر غور کرنے سے سمجھ میں آ جاتا ہے کہ یہ قصے یہاں کسی غرض سے سنائے جا رہے ہیں ۔ سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :40 اس سے مراد وہ فریاد ہے جو حضرت نوح علیہ السلام نے مدتہائے دراز تک اپنی قوم کو دعوت دین حق دینے کے بعد آخر کار مایوس ہو کر اللہ تعالیٰ سے کی تھی ۔ اس فریاد کے الفاظ سورہ قمر میں اس طرح آئے ہیں فَدَعَا رَبَّہ اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ ، اس نے اپنے رب کو پکارا کہ میں مغلوب ہو گیا ہوں ، اب تو میری مدد کو پہنچ ( آیت 10 )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧٥۔ ٨٢۔ اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ جس طرح قریش اللہ کے رسول کی نصیحت نہیں مانتے اور شیطان کے پھندے میں پھنسے ہوتے ہیں۔ اسی طرح قریش سے پہلے بھی بہت قومیں بہک چکی ہیں۔ اور اللہ کے رسولوں کی نصیحت کے نہ ماننے وہ قومیں ہلاک ہوچکی ہیں۔ اب اس آیت سے آخر سورة تک اس ارشاد کی تائید میں حضرت نوح حضرت ابراہیم حضرت اسمعیل حضرت موسیٰ حضرت ہارون حضرت الیاس ‘ حضرت لوط حضرت یونس کے سات قصے ذکر فرمائے۔ ان میں سے یہ پہلا قصہ حضرت نوح سب سے پہلے صاحب شریعت نبی کا ہے مدت تک حضرت نوح نے اپنی قوم کو سمجھایا۔ جب ان لوگوں نے حضرت نوح کی نصیحت کو نہ مانا۔ اس وقت حضرت نوح نے اکتا کر رب انی مغلوب فانتصر اور رب لا تذر علی الارض من الکافرین دیارا یہ دعائیں مانگی۔ جن دعاؤں کا مطلب یہ ہے۔ کہ یا اللہ اب میں قوم کے لوگوں کی سرکشی سے عاجز آگیا۔ اس لئے ان سے ایسا بدلہ لے کہ ان کا ایک گھر بھی زمین پر باقی نہ رہے۔ آخر اللہ کے رسول کی بد دعا کے اثر سے وہ قوم غرق ہو کر ہلاک ہوگئی۔ حضرت نوح کی اسی بد دعا کرنے کا اور اللہ تعالیٰ کا اس میں اثر دینے کا ذکر اس آیت میں ہے۔ قریش کو اور ساری امت کو گویا یہ نصیحت اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے۔ کہ اللہ کے رسول کی بددعا انجام اچھا نہیں۔ اللہ کے رسول کی ناخوشی اور اللہ کے رسول کی بددعا سے امت کے ہر شخص کو بچنا چاہئے۔ معتبر سند سے مسند امام احمدمسند بزار مسند ابی یعلے اور مستدرک حاکم میں ابو سعید (رض) خدری سے روایت ١ ؎ ہے۔ جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ یا تو اس کے مقصد کو پورا کردیتا ہے اور اگر علم الٰہی میں وہ مقصد پورا ہونے کے قابل نہ ہو تو اس شخص کے سر سے کوئی بلا ٹل جاتی ہے یا عقبے میں اس دعا کا اجر اس کو مل جاوے گا۔ یہ حدیث فلنعم المجیبون کی گویا تفسیر ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے۔ کہ بارگاہ الٰہی میں کسی کی دعا رائیگاں نہیں جاتی۔ صحیح سند سے مسند امام احمد ترمذی ٢ ؎ طبرانی مستدرک حاکم میں سمرہ (رض) بن جنب سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ طوفان کے بعد سام حام اور یافث نوح (علیہ السلام) کے تین بیٹے جو طوفان سے بچے۔ ان کی نسل سے تمام دنیا چلی ‘ یہ حدیث وجعلنا ذریتہ ھم البقین کی گویا تفسیر ہے نوح (علیہ السلام) کے بعد جو آسمانی کتابیں نازل ہوئیں ان میں نوح (علیہ السلام) کا ذکرخیر سے وہی وترکنا علیہ فی الاخرین کی گویا تفسیر ہے۔ اب آگے اس ذکر خیر کی یہ تفسیر فرمائی کہ ہر ایماندار شخص ان کے نام کے ساتھ (علیہ السلام) کا لفظ بولتا ہے۔ صحیح بخاری ٣ ؎ میں ابوہریرہ (رض) کی روایت سے حدیث قدسی ہے کہ جو شخص فرض عبادت کے بعد نفل عبادت میں لگا رہتا ہے اس کو بارگاہ الٰہی میں ایک قربت حاصل ہوجاتی ہے۔ صحیح بخاری ٤ ؎ میں ابوہریرہ (رض) کی دوسری حدیث میں ہے کہ جس شخص کو بارگاہ الٰہی میں قربت حاصل ہوجاتی ہے۔ تو اللہ کے حکم سے جبرئیل (علیہ السلام) اس خبر کو آسمان و زمین میں پکار کر کہہ دیتے ہیں جس سے آسمان و زمین میں اس شخص کا ذکر خیر جاری ہوجاتا ہے۔ ان حدیثوں سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ نیک لوگوں کا ذکر خیر کیونکر اور کن باتوں سے ہر جگہ پھیل جاتا ہے۔ پھر فرمایا۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھ کے ایمان دار لوگوں کو طوفان کی آفت سے بچا کر ان کے مخالفوں کو طوفان کے عذاب سے ہلاک کردیا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ حضرت نوح کی طرح کامل الایمان اور خالص دل سے عبادت کرنے والے بندہ کو اس کی نیکیوں کا بدلہ دیتا ہے۔ صحیح بخاری ٥ ؎ و مسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ (رض) اشعری کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے۔ کہ پہلے تو اللہ تعالیٰ نافرمان لوگوں کو مہلت دیتا ہے جب مہلت کے زمانہ میں وہ لوگ اپنی نافرمانی سے باز نہیں آتے تو ان کو ایسے سخت عذاب میں پکڑ لیتا ہے۔ جس سے وہ بچ نہیں سکتے۔ اس حدیث کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے۔ کہ قوم نوح کے نافرمان لوگوں کو ساڑھے نو سو برس تک مہلت دی گئی۔ اور اس مہلت کے زمانہ میں اللہ کے رسول نوح (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے ہر طرح ان لوگوں سمجھاتے رہے۔ لیکن یہ لوگ اپنی نافرمانی سے باز نہ آئے۔ اور اللہ کے رسول کو یہاں تک تنگ کیا کہ آخر اللہ کے رسول نے ان لوگوں کے حق میں بددعا کی جس کا نتیجہ یہ ہوا۔ کہ طوفان کے عذاب سے یہ سب نافرمان ہلاک ہوگئے۔ ان آیتوں میں محسنین کا لفظ جو آیا ہے۔ اس کی تفسیر صحیح مسلم ١ ؎ کی حضرت عمر (رض) کی حدیث کے حوالہ سے ایک جگہ گزر چکی ہے۔ کہ احسان اس طرح کے خالص دل کی عبادت کو کہنے ہیں۔ کہ عبادت کے وقت آدمی یہ سمجھے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔ اگر یہ مرتبہ آدمی کو مسیر نہ آوے تو اتنا ضرور سمجھے کہ اللہ تعالیٰ اس کو دیکھ رہا ہے۔ (١ ؎ بحوالہ مشکوٰۃ شریف کتاب الدعوات الفصل الثالث ص ١٩٦۔ ) (٢ ؎ جامع ترمذی تفسیر سورة صافات ص ١٧٧ ج ٢) (٣ ؎ بحوالہ مشکوٰۃ شریف کتاب الدعوات فی الذکرو التقرب الیہ۔ ص ١٩٧۔ ) (٤ ؎ بخاری شریف باب کلام الرب مع جبرئیل الخ۔ ص ١١١٥ ج ٢۔ ) (٥ ؎ بخاری شریف با قولہ و کذلک اخذربک اذا اجذ القریٰ ص ٦٧٨ ج ٢۔ ) (١ ؎ صحیح مسلم مع شرح نودی کتاب الایمان ص ٢٧ ج ١۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:75) یہاں بعض قصص کا تفصیلاً بیان شروع ہوتا ہے جن کا مجملاً پہلے بیان ہوچکا ہے۔ مولانا ثناء اللہ پانی پتی (رح) فرماتے ہیں :۔ سابق آیت میں فرمایا تھا :۔ ولقد ارسلنا فیہم منذرین۔ اس میں عموما سارے پیغمبروں کا ذکر ہوگیا۔ اب خصوصیت کے ساتھ حضرت نوع (علیہ السلام) کا ذکر شروع فرمایا۔ مطلب یہ ہے کہ ان سے پہلے ایک زمانہ میں قوم نوح گمراہ ہوگئی تھی۔ ہم نے ان کی ہدایت کے لئے حضرت نوح (علیہ السلام ) کو بھیجا۔ نوح (علیہ السلام) نے ان کو اسلام کی دعوت دی۔ قوم نے دعوت نہ مانی۔ اور (حضرت ) نوح (علیہ السلام) کو بذریعہ وحی معلوم ہوگیا کہ جو لوگ ایمان لانے والے تھے وہ لا چکے۔ آئندہ قوم کا کوئی فرد ایمان نہیں لائے گا۔ (حضرت) نوح (علیہ السلام) جب مایوس ہوگئے تو انہوں نے ہم کو پکارا۔ ہم سے دعا کی۔ کہ ان کی قوم کو تباہ کردیا جائے۔ ہم نے ان کی دعا قبول کی اور ہم (اپنے خاص بندون کی دعا) اچھے قبول کرنے والے ہیں۔ (37:75) ولقد نادنا نوح فلنعم المجیبون وائو عاطفہ ہے جس کا عطف مضمون رفتہ پر ہے لام قسم محذوف کے جواب میں ہے الفاء للفصیحۃ ای وت اللہ لقد دعانا نوح حین ایس من ایمان قومہ بعد ان دعاہم احقابا ودھورا فلم یزدہم دعاء ہ الافرارا ونفورا فاجبنا احسن الاجابۃ فو اللہ لنعم المجیبون نحن۔ خدا کی قسم جب مدتون اپنی قوم کو دعوت الی الحق دینے کے بعد اس قوم میں نفرت اور فرار ہی کا اضافہ ہوا تو حضرت نوح (علیہ السلام) نے قوم کے ایمان لانے سے مایوس ہو کر ہمیں پگارا۔ اور ہم نے بطریق احسن اس کی فریاد رسی کی بخدا ہم خوب فریاد سننے والے ہیں (اور ضرورت کو پورا کرنے والے ہیں) ملاحظہ ہو 71:5 ۔ 6 ۔ و 26، 27 نادنا۔ نادی ینادی مناداۃ (مفاعلۃ) سے ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب نا ضمیر جمع متکلم۔ اس نے ہم کو پکارا۔ باب مفاعلہ کے خواص میں سے موافقت مجرد (مجرد کے ہم معنی ہونا) بھی ہے۔ لہٰذا نادی اشتراک کی بجائے مجرد کے معنی میں ہوگا۔ ” اس نے پکارا “ جیسے سافر زید بمعنی سفر زید۔ زید نے سفر کیا۔ المجیبون۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ المجیب واحد اجابۃ مصدر۔ دعا قبول کرنے والے۔ دینے والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 3 ۔ آیات 75 تا 113: اسرار و معارف : یہ نہ سمجھا جائے کہ اہل حق کو صرف آخرت ہی میں کامیابی ہوگی اور دنیا پہ کافر ہی موج کرے گا ہرگز نہیں ۔ اگر وقتی طور پر کفر کو غلبہ مل جائے تو آخر تباہ ہو کر درس عبرت بن جاتا ہے اور اللہ ہمیشہ حق کو ہی غالب رکھتے ہیں۔ جیسے نوح (علیہ السلام) کے واقعہ میں غور کرو کہ صدیوں کفر اور کفار نے ان کا مذاق اڑایا انہیں ایذا دی پھر آخر انہوں نے ہمیں پکارا اور دعا کی کہ یا اللہ ان کے مقابلے میں میری مدد کر تو ہم ہی دعاؤں کو سننے والے ہیں۔ ہم نے ایسی سنی کہ اس ساری مصیبت سے بھی انہیں نجات دی اور ان سب لوگوں کو بھی جو ان کے پیروکار تھے اور انہیں عذاب سے بھی محفوظ رکھا جبکہ روئے زمین پر کوئی کافر باقی نہ چھوڑا سب طوفان نوح (علیہ السلام) کے واقعہ میں غور کرو کہ صدیوں کفر اور کفار نے ان کا مذاق اڑایا انہیں ایذا دی پھر آخر انہوں نے ہمیں پکارا اور دعا کی کہ یا اللہ ان کے مقابلے میں میری مدد کر تو ہم ہی دعاؤں کو سننے والے ہیں۔ ہم نے ایسی سنی کہ اس ساری مصیبت سے بھی انہیں نجات دی اور ان سب لوگوں کو بھی جو ان کے پیرو کار تھے اور انہیں عذاب سے بھی محفوظ رکھا جبکہ روئے زمین پر کوئی کافر باقی نہ چھوڑا سب طوفان میں غرق ہوگئے اور آئندہ کے لیے ان کا نام و نشان تک مٹا دیا کہ روئے زمین پر اس کے بعد صرف نوح (علیہ السلام) کی نسل باقی رہی اور مدتوں کے لیے نوح (علیہ السلام) کی عظمت و نیک نامی کا سکہ لوگوں کے دلوں میں بٹھا دیا کہ جہان بھر کے لوگ ان پر سلام بھیجتے رہتے ہیں اور بھیجتے رہیں گے نہ صرف اس عالم کے لوگ بلکہ ہر عالم کی مخلوق۔ ہم احسان یعنی خلوص دل سے اطاعت کرنے والوں کو اسی طرح نوازا کرتے ہیں اور وہ تو ہمارے بہت ہی پر خلوص بندے تھے۔ اور ان سب کو جو ان کا انکار اور مخالفت کرتے تھے غرق کرکے نابود کردیا۔ پھر ان ہی جیسا حال ابراہیم (علیہ السلام) کو پیش آیا کہ جب انہوں نے دل کی گہرائی سے صرف اللہ ہی کی عبادت کا ارادہ ظاہر فرمایا اور غیر اللہ سے روکا۔ یہاں لفظ و من شیعتہ استعمال فرمایا گیا ہے جبکہ پہلے بارہا گزر چکا ہے اور قرآن حکیم کی کی روش سے یہ واضح ہے کہ گمراہ گروہوں پر شیعہ کا اطلاق فرمایا گیا ہے اور یہاں اکثر مفسرین کرام نے اصول دین اور ورع تقوی میں نوح (علیہ السلام) کے اتباع کی وجہ سے ابراہیم (علیہ السلام) کو شیعہ کہا جانا تحریر فرمایا ہے یہ ان کی رائے ہے مگر یہاں بات یہ چل رہی تھی کہ حق کو صرف آخرت ہی میں کامیابی نہیں ہوتی دنیا میں بھی حق ہی غالب آتا ہے خواہ کفر کو وقتی طور پر چندے مہلت مل بھی جائے اس کی مثال نوح (علیہ السلام) کے حالات سے دی گئی اور پھر ابراہیم (علیہ السلام) کفار کے ہاتھوں اسی حال سے گزرے تو یہاں کفار کے سلوک کے باعث جو ان پر بیتی اس کی مشابہت کو اور اس مصیبت کو شیعت فرمایا گیا ہے کہ شیعہ مشایعیت سے ہے جس کا معنی چلنا یا روش ہے چناچہ انہوں نے بھی اپنے باپ سے ابتدا کی جبکہ باپ ہی بچے اور بیٹے کی سب سے پہلی پناہ گاہ ہوتا ہے مگر ان کو حق کی خاطر گھر سے ہی مخالفت کی ابتدا برداشت کرنا پڑی اور والد سے صاف فرما دیا نیز ان کے ساتھ ساری قوم کو بھی کہ تم کس چیز کی عبادت کرتے ہو کہ یہ بت کوئی فرد یا ہستی تو ہو نہیں سکتے کیا تم جھوٹ گھڑ کے انہیں اللہ کے بجائے صاحب اختیار مان لیتے ہو تو کیا تمہیں اللہ کی ذات میں یا اس کی عظمت اور الوہیت میں کوئی شبہ ہے یا ماننے سے کیا عذر مانع ہے یہ باتیں چلتی رہتی تھیں کہ کفار کا تہوار آگیا جس میں وہ کھانا وغیرہ بنا کر بتوں کے اگے رکھ جاتے اور باہر جا کر رسومات ادا کرتے اور واپس آ کر اسے بابرکت جان کرلے جاتے تھے تو انہوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو بطور خاص دعوت دی کہ ان پر ہمارے مذہب کی بڑائی واضح ہو تو انہوں نے ستاروں میں نگاہ فرمانے کا مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی قوم نجوم کے علم میں بہت یقین رکھتی تھی تو گویا انہیں اعتبار آجائے کہ واقعی ستاروں کی چال دیکھ کر بیماری کا بتا رہے ہیں جو درست ہی ہوسکتا ہے یہ بات پہلے بھی گزر چکی ہے کہ علم نجوم کیا ہے یہ ایک فن ہے جیسے دست شناسی کہ بعض خاص لکیریں خاص باتوں کی غماض ہوتی ہیں اسی طرح ستاروں کی روش بھی بعض باتوں کو ظاہر کرتی ہے جیسے نبض کی حرکت حکیم کو مرض کے بارے اندازہ کرنے میں مدد دیتی ہے اگر یہاں تک بات رہے تو حرج نہیں ہاں اگر اسی پر بھروسہ کرنے لگے اور اسے موثر بالذات ماننے لگے تو یہ خیال مشرکانہ ہے۔ اللہ اس سے پناہ میں رکھے چناچہ یہ بات سن کر کفار تو چلے گئے اور ابراہیم (علیہ السلام) بت خانے تشریف لے گئے جہاں بتوں کے آگے کھانے چنے ہوئے تھے تو فرمایا کیا ہوا کھاتے کیوں نہیں ہو اور تمہیں کیا ہوگیا کہ بولتے بھی نہیں جواب تک نہیں دیتے ہو مراد بتوں کی بےبسی کا اطہار تھا اور پھر انہیں توڑ پھوڑ دیا کہ کفار پر واضح ہوجائے کہ یہ بےبس پتھر تو اپنا دفاع بھی نہیں کرسکتے جب لوگوں کو پتہ چلا تو گھبرا گئے کہ کیا غضب ہوگیا اور پھر ان کے پاس دوڑے آئے کہ یہ زیادتی آپ نے کی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تم بھی تو پتھر کو توڑ پھوڑ کر گھڑ کر ہی بت بناتے ہو تب وہ کچھ نہیں کرسکتا جب بت بن جائے تو اسے صاحب اختیار مان کر اس کی پوجا کرنے لگتے ہو۔ میں نے بتوں کو صرف اس لیے توڑا ہے کہ تم جان لو یہ جیسے پہلے پتھر تھے ویسے ہی اب بھی ہیں اور کچھ نہیں کرسکتے بلکہ تمہیں اللہ نے پیدا فرمایا اور ان سب چیزوں کا خالق بھی وہی ہے بلکہ ان کے استعمال کی قوت بھی تمہیں اسی نے دی ہے۔ وہ بہت بگڑے اور کہنے لگے اونچی سی عمارت بنا کر نیچے بہت بڑی آگ جلائی جائے اور وہاں سے انہیں اس آگ میں پھینک دیا جائے تو اس طرح انہوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو سزا دینا چاہی مگر ہم نے خود انہیں کو نیچا دکھایا اور رسوا کردیا جبکہ ابراہیم (علیہ السلام) کا بال بھی بیکا نہ کرسکے۔ نبی کی ہجرت : چنانچہ ابراہیم (علیہ السلام) نے وہاں سے ہجرت فرمائی اور نبی کا ہجرت کر جانا بھی وہاں کے مکینوں سے ایک نعمت عظمی کا چھن جانا ہے یہی وجہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ مکرمہ سے ہجرت فرمائی ورنہ تو جو شہر بعد میں فتح ہوسکتا ہے اللہ اسے پہلے بھی آپ کے قبضہ میں دے سکتا تھا مگر آپ کے تشریف لے جانے مشرکین پر غضب الہی ٹوٹ پڑا اور تباہ و رسوا ہوگئے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی ملک چھوڑ دیا کہ ایس جگہ جا رہوں گا جہاں اپنے رب کو یاد کروں اور اس کی عبادت میں کوئی رکاوٹ نہ بن سکے نیز وہی ذات مجھے سیدھی راہ دکھائے گی اور پھر جب عرصہ بیت گیا آپ کے کوئی اولاد نہ تھی تو دعا کی اے اللہ مجھے نیک بیٹا عطا فرما۔ آپ نے جب ہجرت فرمائی تو آپ کی اہلیہ حضرت سارہ اور بھانجے حضرت لوط ہمراہ تھے صرف یہی ایمان بھی لائے تھے راستے میں فرعون مصر سے پالا پڑا آخر اس نے حضرت سارہ کو خدمت کے لیے ایک خاتون عطا کی جس کا نام حاجرہ تھا ان کے بطن سے اللہ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو بیٹا دیا جس کا نام نامی حضرت اسمعیل رکھا گیا پھر ان ماں بیٹے کو بیت اللہ کی جگہ پر چھوڑنے کا حکم ہوا جہاں زمزم بر آمد ہوا۔ اس سب واقع کے بعد جب بیٹا اس عمر کو پہنچا کہ ساتھ دوڑتا پھرتا ہو تو آپ نے خواب دیکھا کہ اسے اللہ کی راہ میں ذبح کر رہا ہوں چناچہ آپ وہاں تشریف لے گئے۔ بیٹے کو تیار کرکے ساتھ لیا اور باہر جا کر بتایا کہ بیٹا میں نے خواب دیکھا ہے کہ تمہیں ذبح کر رہا ہوں تو انہوں نے جواب دیا یہ تو وحی ہے آپ کو حکم دیا گیا ہے تو بجا آوری کے بغیر چارہ نہیں ضرور عمل کیجیے۔ اگر پوچھنے سے آپ کی مراد میری رائے لینے سے ہے تو انشاء اللہ مجھے آپ صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ آپ نے اس عظیم اور بلند ہمت خاتون حضرت حاجرہ جن کے قدموں پہ اک جہاں دوڑتا اور سعی کرتا ہے سے بات نہ کی یہ خواب نبی کا تھا اور اس کو سمجھنا بھی نبی ہی کا کام تھا چناچہ حضرت اسمعیل نے خواب کی بجائے حکم کی اور تعمیل ارشاد کی بات کی اور یہ بھی عرض کردیا کہ میں بھی تو نبی ہوں آپ کو ذبح کرنے کا حکم ملا ہے تو مجھے ہوجانے کا نیز وحی غیر متلو بھی ثابت ہوگئی کہ یہ حکم کسی کتاب میں تو نازل نہ ہوا تھا۔ چنانچہ جب آپ نے سر تسلیم خم کردیا اور بیٹے کو لٹا کر ذبح کردیا آنکھ کھولی تو دنبہ ذبح کیا ہوا پڑا تھا اور اسمعیل (علیہ السلام) کھڑے مسکرا رہے تھے تو حیران ہوگئے۔ یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ غیب کا جاننا اللہ کا خاصہ ہے اور دوسرے اتنا جانتے ہیں جتنا اللہ بتا دے اور بتلایا ہوا اطلاع عن الغیب یعنی غیب پر اطلاع تو ہوتا ہے علم غیب نہیں یہاں ابراہیم (علیہ السلام) کو اور اسمعیل (علیہ السلام) کو دنبہ ذبح ہوجانے تک پتہ نہ چلا اگر یہ مانا جائے کہ آپ جانتے تھے تو خصوصیت کس بات کی یہ تو کوئی بھی کرسکتا ہے کہ ذبح تو دنبہ ہوگا بس آپ بیٹے کو لٹا دیجیے۔ ایسا نہیں ہوا آپ نے ذبح کردیا مگر سلامت دیکھ کر حیران رہ گئے تو آواز آئی اے ابراہیم آپ نے اپنا خواب سچ کر دکھایا اور اکلوتا عزیز ترین بیٹا ذبح کردیا یہ بہت ہی بڑا امتحان تھا یہ ہماری مرضی کہ ہم نے اسے باقی رکھا اور ایک بہت عظمت والا جانور خاص اپنی طرف سے اور جنت سے بھیج کر ذبح کرادیا چناچہ ہم نے ان کی یہ یاد بعد والوں میں بھی باقی رکھی کہ ظہور اسلام تک اہل مکہ قربانی دیتے تھے اسلام نے بھی اس کا حکم دیا اور یوں اس قربانی کی یاد ہر سال تازہ ہوتی رہتی ہے اور سلامتی ہو ابراہیم پر کہ ہم خلوص سے نیکی کرنے والوں کو یہی ابدی سلامی ہی کا صلہ دیا کرتے ہیں اور وہ تو ہمارے بہت ہی کھرے بندے تھے ہم نے انہیں اور بیٹے کی بشارت بھی دی اسحاق (علیہ السلام) اور اسے نبی بھی بنا بلکہ ایسی برکت ڈال دی تھی کہ پشتوں ان میں نبوت چلتی رہی اور ان کی اولاد میں بہت سے نیک اور صالح بندے پیدا ہوئے اگرچہ بعد میں کچھ بڑے بدکار بھی اور اپنے آپ پر ظلم کرنے والے بھی ہوئے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن (آیت نمبر 75 تا 82) نادی (اس نے پکارا) نعم ( بہترین) مجیبون (قبول کرنے والے) کرب (مصیبت، مشکل) المحسینین (نیک کام کرنے والے) اغرقنا (ہم نے ڈبو دیا ، غرق کردیا) تشریح : آیت نمبر 75 تا 82 :۔ ان آیات سے پہلے فرمایا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر زمانہ اور ہر قوم کی ہدایت و رہنمائی اور برے اعمال کے برے نتائج سے آگاہ کرنے اور ڈرانے والے پیغمبروں کو بھیجا تھا ۔ جن لوگوں نے ان کے بتائے ہوئے راستے کو اپنایا اور اس پر پورے خلوص سے چلے تو اللہ نے ان کی دنیا اور آخرت دونوں کو ان کی نجات کا ذریعہ بنا دیا لیکن جن بد نصیبوں نے ان کی اطاعت و فرماں برداری نہیں کی ان کی نہ صرف دنیا اجاڑدی گئی بلکہ وہ آخرت میں بھی سخت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوں گے۔ اسی بات کو ذہن نشین کرانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے کچھ پیغمبروں کا ذکر خیر فرمایا ہے۔ سب سے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ماننے والوں کا تذکرہ فرمایا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) جو اپنی قوم اور کئی نسلوں کو ساڑھے نو سو سال تک یہ سمجھاتے رہے کہ وہ اپنے غلط رسم و رواج اور بےحقیقت اور جھوٹے معبودوں کی عبادت چھوڑ کر ایک اللہ کی عبادت و بندگی کریں لیکن ان کی قوم میں سے کچھ لوگوں کے سوا کسی نے ان کی باتوں پر دھیان نہیں دیا اور مسلسل نا فرمانیوں میں لگے رہے آخر کار حضرت نوح (علیہ السلام) نے ایک دن اللہ کی بارگاہ میں یہ درخواست پیش کی کردی کہ الٰہی ! میں نے ان کو ہر طرح سمجھایا ، دن رات جدوجہد اور کوشش کی مگر سوائے چند لوگوں کے سب نے نافرمانیوں پر کمر باندھ رکھی ہے ( اب یہ اس گلے سڑے عضو کی طرح ہوچکے ہیں جس کا آپریشن کرنا ضروری ہوتا ہے تا کہ پورا جسم بچ سکے) الٰہی ! اب آپ ان کے لئے فیصلہ فرما دیجئے اور روئے زمین پر ان کا کوئی ٹھکانہ باقی نہ رہنے دیجئے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعا کو قبول کرتے ہوئے ایک ایسی کشتی بنانے کا حکم دیا جس میں اللہ کے فرماں برداروں اور جانوروں میں سے ہر ایک کا ایک ایک جوڑا رکھا جاسکے۔ جب حضرت نوح (علیہ السلام) اور آپ کے ماننے والے کشتی بنا رہے تے تو کفار و مشرکین نے ان کا مذاق اڑایا ۔ ایک وقت مقررہ پر پانی کا طوفان شروع ہوا ۔ زمین نے اپنے سوتے اور آسمان نے اپنے دھانے کھول دیئے۔ اتنا شدیدطوفان آیا کہ پہاڑوں کی چوٹیوں سے بھی پانی بلند ہوگیا اور کشتی میں سوار اہل ایمان کے سوا روئے زمین پر کوئی نہ بچ سکا اور اس طرح اللہ کے نافرمانوں کو پانی کے طوفان میں غرق کردیا گیا اور اللہ نے حضرت نوح (علیہ السلام) ، ان کے مومن اہل خانہ اور ان کے ماننے والے صاحبان ایمان کو اس ” کرب عظیم “ سے نجات عطاء فرمائی اور پھر حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد سام حام اور یافث اور تمام باقی رہنے والے اہل ایمان کے ذریعہ نسل انسانی کو باقی رکھا اور انسانوں کی طرح اللہ نے جانوروں کی نسلوں کو بھی باقی رکھا ۔ وہ نافرمان لوگ جنہوں نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی کسی بات پر کان نہیں دھرا تھا وہ تو دنیا سے اس طرح مٹ گئے کہ آج ان کا کوئی نام لیوا بھی نہیں ہے لیکن آج حضرت نوح (علیہ السلام) کا نام دنیا کی ہر قوم عزت و احترام سے لیتی ہے۔ وہ ساری دنیا کے لئے اس طرح لائق احترام ٹھہرے کہ قیامت تک حضرت نوح (علیہ السلام) کے لئے سلامتی کی دعائیں کی جاتی رہیں گی ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی غالب مذہبی اکثریت مسلمان ، عیسائی ، یہودی اور بہت سی قومیں ان کا یکساں احترام کرتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے نا فرمانیوں کو مٹا کر حضرت نوح (علیہ السلام) کے ماننے والوں کو ان کا وارث بنا دیا ۔ حضرت نوح (علیہ السلام) ، ان کی اولاد اور محسنین یعنی حسن عمل کرنے والوں کا نام بھی باقی ہے اور ان کے نام لیوا بھی موجود ہیں اور قیامت تک رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کے ذریعہ کفار مکہ کو اس حقیقت کی طرف لانے کی کوشش کی ہے کہ وہ اس آئینہ میں جھانک کر دیکھ لیں کہ کہیں اس میں ان کو اپنی صورت تو نظر نہیں آرہی ہے ؟ اگر ایسا ہے تو وہ فوراً توبہ کر کے ایمان لے آئیں اور نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دامن رحمت تھام لیں ورنہ قوم نوح (علیہ السلام) کی طرح ان کو مٹنے میں بھی دیر نہ لگے گی ۔ اور جس طرح قوم نوح (علیہ السلام) کو پانی کے طوفان سے غرق کردیا گیا تھا کہیں ایسا نہ ہو کہ کفار مکہ بھی ایمان نہ لا کر اپنی شرارتوں اور نا فرمانیوں کے سمندر میں غرق کردیئے جائیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں کے مقابلے میں مخلص بندوں کا انجام ان میں حضرت نوح (علیہ السلام) بھی شامل ہیں لہٰذا ان کا واقعہ سماعت فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ نے بڑی بڑی اقوام میں انبیائے کرام (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا۔ مگر لوگوں نے ان کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کیا جس کے نتیجے میں دنیا میں ذلیل ہوئے اور آخرت میں جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے اخلاص کے ساتھ اللہ اور اس کے رسولوں کی اطاعت کی انہیں دنیا کے عذاب سے بچا لیا گیا اور آخرت میں وہ کامیاب ٹھہریں گے۔ ان مخلصین میں حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے رفقائے کرام سر فہرست ہیں۔ جب نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم نے یکسر طور پر ٹھکرادیا اور باربار ان سے عذاب لانے کا مطالبہ کیا تو حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے رب کے حضور ان الفاظ میں فریاد کی۔ بارِالٰہا میں اپنی قوم کے سامنے بےبس ہوگیا ہوں اس لیے میری مدد فرما۔ (المومنون : ٢٦) اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی فریاد کو قبول فرمایا جس کے نتیجے میں آسمان کے دروازے کھول دیئے گئے اور زمین سے پانی کے چشمے ابل پڑے۔ پانی پہاڑوں کی چوٹیوں کے اوپر سے بہنے لگا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کے سوا سب لوگوں کو غرقاب کردیا گیا۔ جس کا تذکرہ سورة ہود، سورة شعراء، سورة قمر اور سورة نوح میں موجود ہے۔ یہاں اختصار کے ساتھ صرف اتنا بیان کیا گیا ہے کہ ہم نے نوح (علیہ السلام) اور اس کے اہل کو کرب عظیم سے نجات دی اور ان کی اولاد کو باقی رکھا اور رہتی دنیا تک ان کا ذکر خیر جاری فرمایا۔ نوح (علیہ السلام) پر ہمیشہ اللہ کی رحمتوں کا نزول ہوتا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اللہ کے برگزیدہ بندوں میں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں نجات بخشی اور ان کے مخالفوں کو ڈبکیاں دے دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یہ بحث سورة ہود میں گزر چکی ہے کہ طوفان نوح پوری دنیا میں آیا تھا یا کہ زمین کے اس حصہ پر جہاں نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم آباد تھی۔ البتہ یہ وضاحت کردی گئی کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی بیوی اور ان کا بیٹا غرق ہونے والوں میں شامل تھے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے باقی بیٹے ان پر ایمان لائے جن کی نسل کو اللہ تعالیٰ نے بڑی افزائش سے نوازا جس کا ذکر یہاں خصوصی طور پر کیا گیا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو کرب عظیم سے بچا لیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی حضرت نوح (علیہ السلام) پر ہمیشہ رحمتیں ہوتیں رہیں گی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد کو ہر قسم کی برکات سے سرفراز فرمایا۔ ٤۔ نوح (علیہ السلام) کے مخالفوں کو غرق کردیا گیا۔ تفسیر بالقرآن طوفان نوح (علیہ السلام) کا ایک منظر : ١۔ قوم نوح طوفان کے ذریعے ہلاک ہوئی۔ (الاعراف : ١٣٦) ٢۔ حضرت نوح نے اپنے بیٹے کو فرمایا آج کے دن اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں۔ (ہود : ٤٣) ٣۔ عذاب کے وقت تندور نے ابلنا شروع کردیا۔ ( ہود : ٤٠) ٤۔ قوم نوح پر عذاب کی صورت میں آسمان سے پانی برسا اور جگہ جگہ زمین پھٹ پڑی۔ (ہود : ٤٤) ٥۔ قوم نوح کو تباہ کرنے کے لیے آسمان سے موسلاد ھار بارش کے دھانے کھول دئیے گئے۔ ( القمر : ١١) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی تکذیب کرنے والوں کو تباہ و برباد کردیا۔ (الشعراء : ١٢٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولقد نادنا نوح۔۔۔۔ اغرقنا الاخرین (75 –82) ” ۔ ۔ ۔ اس میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی اس دعا کی طرف اشارہ ہے جو انہوں نے رب تعالیٰ سے کی تھی۔ اور اللہ نے ان کی دعا کو پوری طرح قبول فرمایا تھا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ۔۔۔ جواب دینے والا ہے۔ فلنعم المجیبون (37: 75) ” ہم کسے اچھے جواب دینے والے تھے “۔ اور اللہ نے ان کو اور ان کے اہل و عیال کو کرب عظیم سے نجات دی تھی۔ یعنی وہ کرب عظیم دراصل وہ طوفان تھا جس سے صرف وہی لوگ بچے جن کے بچانے کا اللہ نے ارادہ کرلیا تھا۔ اور جن کی زندگی ابھی باقی تھی اور اللہ کی تقدیر میں جن لوگوں کے بارے میں لکھا تھا کہ اللہ نوح کی اولاد سے ایسے لوگوں کو اٹھائے گا جنہوں نے اس دین پر بطور خلیفۃ اللہ کام کرنا تھا اور اس زمین کو آباد رکھنا تھا تاکہ حضرت نوح کا ذکر آنے والی نسلوں میں باقی رہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت نوح (علیہ السلام) کا دعا کرنا اور ان کی قوم کا ہلاک ہونا اور ان کی ذریت کا نجات پانا حضرت نوح اپنی قوم میں ساڑھے نو سو برس رہے، انہیں سمجھایا، توحید کی دعوت دی غیر اللہ کی پرستش چھوڑنے کی تلقین کی، لیکن ان لوگوں نے نہ مانا بس تھوڑے سے ہی آدمی مسلمان ہوئے۔ اہل ایمان کی مختصر تعداد کے علاوہ جو دوسرے لوگ تھے وہ ضد پر اڑے رہے اور حضرت نوح (علیہ السلام) کی مخالفت کرتے رہے، حضرت نوح (علیہ السلام) نے تنگ آکر ان کے لیے بد دعا کردی (لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنِ دَیَّارًا) (کہ اے رب زمین میں ایک بھی کافر باشندہ مت چھوڑ) اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ کشتی بنالو، انہوں نے ایک کشتی بنالی، اللہ پاک کی طرف سے پہلے خبر دے دی گئی تھی کہ پانی کا طوفان آئے گا، طوفان آیا، حضرت نوح (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے اپنے گھر والوں اور دوسرے اہل ایمان کے ساتھ کشتی میں سوار ہوگئے، یہ حضرات غرق ہونے سے بچ گئے، اللہ تعالیٰ نے ان سب کو نجات دے دی اور اہل کفر سب غرق ہوگئے، ان غرق ہونے والوں میں حضرت نوح (علیہ السلام) کا ایک بیٹا بھی تھا اور ایک بیوی بھی تھی۔ ارشاد فرمایا (وَلَقَدْ نَادٰنَا نُوْحٌ فَلَنِعْمَ الْمُجِیْبُوْنَ ) (اور واقعی یہ بات ہے کہ نوح نے ہمیں پکارا، سو ہم کیا ہی خوب دعا قبول کرنے والے ہیں) یعنی ان کی دعا قبول فرمائی (وَنَجَّیْنٰہُ وَاَھْلَہٗ مِنَ الْکَرْبِ الْعَظِیْمِ ) (ہم نے نوح کو ان کے گھر والوں کو بڑے غم سے یعنی ڈوبنے کی مصیبت سے نجات دے دی) (وَجَعَلْنَا ذُرِّیَّتَہٗ ھُمُ الْبٰقِیْنَ ) (اور ہم نے ان کی ذریت کو باقی رکھا) (وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْاٰخِرِیْنَ سَلٰمٌ عَلٰی نُوْحٍ فِی الْعٰلَمِیْنَ ) (اور بعد کے آنے والوں میں ان کے لیے ہم نے یہ بات رہنے دی کہ نوح پر سلام ہو جہانوں میں) اللہ تعالیٰ نے ان پر کئی طرح سے انعام فرمایا، اول تو انہیں اور ان کے اہل و عیال کو غرق ہونے سے بچالیا۔ دوسرے ان کی نسل کو دنیا میں باقی رکھا جو آج تک چل رہی ہے۔ اور تیسرے یہ انعام فرمایا کہ بعد کے آنے والوں میں ان کا ذکر جاری رکھا، ان کے بعد جو انبیائے کرام (علیہ السلام) تشریف لائے اور ان کی امتیں وجود میں آئیں سب نے آپ پر سلام بھیجا، اور سلام میں بھی عموم ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ نوح (علیہ السلام) جہاں بھی ہوں جس عالم میں بھی ہوں ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی ہو۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

33:۔ ولقد ناانا الخ :۔ زجر و شکوی اور تبشیر و تخویف کے بعد سات انبیاء (علیہم السلام) کے قصے ذکر کیے گئے جو اس پر دلالت کرتے ہیں کہ انبیاء (علیہم السلام) بھی خدا کے یہاں شفیع غالب نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ وہ تو خود اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی عاجزی اور نیاز مندی کا اعتراف کر رہے ہیں۔ اور مصائب و بلیات میں اللہ تعالیٰ کو پکار رہے ہیں۔ پہلا قصہ حضرت نوح (علیہ السلام) کا ہے۔ دیکھو ! نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کی ہلاکت اور اپنی نجات کے لیے ہمیں پکارا۔ ہم کیسے ہی اچھے قبول کرنے والے ہیں چناچہ ہم نے اس کو اور اس کے متبعین کو بہت بڑی مصیبت (غرق) سے بچا لیا۔ اور تمام مشرکین کو طوفان میں غرق کردیا۔ اور صرف نوح (علی نبینا وعلیہ السلام) کی اولاد ہی سے آئندہ کے لیے سلسلہ نسل باقی رکھا۔ کشتی میں جو دوسرے مومنین سوار تھے ان کی اولاد کا سلسلہ آگے نہیں بڑھا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے جو تین بیٹے (حام، سام اور یافث) ساتھ تھے۔ انہی کی نسل سے دنیا پھر سے آباد ہوئی۔ والاکثرون علی ان الناس کلہم فی مشارق الارض و مغاربہا من ذریۃ نوح علیہ السلام، ولذا قیل لہ ادم الثانی (روح ج 23 ص 98) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(75) چونکہ اوپر ڈرانے والے اور ڈرائے گئے لوگوں کا ذکر آیا تھا اس لئے چند انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کا ذکر فرماتے ہیں تاکہ توحید اور رسالت کا اثبات ہوجائے۔ اگرچہ تفصیل نہیں ہے تفصیل دوسری جگہ مذکور ہے مگر جس قدر یہاں مذکور ہے اس سے مدعاثابت ہے یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے مرسل تھے اور توحید اور اخلاق عالیہ کی تعلیم دیتے تھے اور اسی بنا پر دین حق کے منکر ان کی مخالفت کرتے تھے اور بالآخر مستوجب سزا اقرار پاتے تھے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ اور بلا شبہ ہم کو نوح نے پکارا اور ہم نے دعا کی سو ہم کیا خوب پکار پر پہنچنے اور دعا قبول کرنے والے ہیں دعا کرنے والوں کی دعا کو قبول کرتے ہیں اور پکارنے والوں کی پکار پر پہنچتے ہیں یعنی مدد فرماتے ہیں۔