Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 76

سورة الصافات

وَ نَجَّیۡنٰہُ وَ اَہۡلَہٗ مِنَ الۡکَرۡبِ الۡعَظِیۡمِ ﴿۷۶﴾۫ ۖ

And We saved him and his family from the great affliction.

ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو اس زبردست مصیبت سے بچا لیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And We rescued him and his family from the great distress. means, their disbelief and their insults. وَجَعَلْنَا ذُرِّيَّتَهُ هُمْ الْبَاقِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

76۔ 1 حضرت نوح پر ایمان لانے والے، جن میں ان کے گھر کے افراد بھی ہیں جو مومن تھے بعض مفسرین نے ان کی تعداد 80 بتلائی ہے۔ اس میں آپ کی بیوی اور ایک لڑکا شامل نہیں، جو مومن نہیں تھے، وہ بھی طوفان میں غرق ہوگئے۔ کرب عظیم (زبردست مصیبت) سے مراد وہی سیلاب عظیم ہے جس میں یہ قوم غرق ہوئی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَنَجَّيْنٰهُ وَاَهْلَهٗ : ” الْكَرْبِ الْعَظِيْمِ “ (بہت بڑی مصیبت) سے نجات سے مراد اس طوفان عظیم سے نجات ہے اور اس ہر وقت کی پریشانی سے بھی جو قوم کے جھٹلانے اور ستانے کی صورت میں سیکڑوں برس انھیں لاحق رہی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَنَجَّيْنٰہُ وَاَہْلَہٗ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيْمِ۝ ٧٦ۡۖ نجو أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] ( ن ج و ) اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔ وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] اور جو لوگ ایمان لائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو ہم نے نجات دی ۔ كرب الكَرْبُ : الغمّ الشّديد . قال تعالی: فَنَجَّيْناهُ وَأَهْلَهُ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيمِ [ الأنبیاء/ 76] . والکُرْبَةُ کا لغمّة، وأصل ذلک من : كَرْبِ الأرض، وهو قَلْبُها بالحفر، فالغمّ يثير النّفس إثارة ذلك، وقیل في مَثَلٍ : الكِرَابُ علی البقر «1» ، ولیس ذلک من قولهم : ( الکلاب علی البقر) في شيء . ويصحّ أن يكون الكَرْبُ من : كَرَبَتِ الشمس : إذا دنت للمغیب . وقولهم : إناء كَرْبَانُ ، أي : قریب . نحو : قَرْبانَ ، أي : قریب من الملء، أو من الكَرَبِ ، وهو عقد غلیظ في رشا الدّلو، وقد يوصف الغمّ بأنه عقدة علی القلب، يقال : أَكْرَبْتُ الدّلوَ.( ک ر ب ) الکرب ۔ کے ہم معنی سخت غم کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَنَجَّيْناهُ وَأَهْلَهُ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيمِ [ الأنبیاء/ 76] تو ان کو اور ان کے ساتھیوں کو بڑی گھبراہٹ سے نجات دی ۔ اور کر بۃ عمۃ کی طرح ہے یہ اصل میں کرب الارض سے مشتق ہے جس کے معنی زمین میں قلبہ رانی کے ہیں ۔ اور غم سے بھی چونکہ طبیعت الٹ پلٹ جاتی ہے ۔ اس لئے اسے کرب کہاجاتا ہے ۔ مثل مشہور ہے ۔ الکراب علی البقر یعنی ہر آدمی کو اس کا کام کرنے دو اور یہ الکلاب علی ا لبقر کے قبیل سے نہیں ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کر اب ( سخت غم ) کر بت الشمس سے ماخوذ ہو ۔ جس کے معنی ہیں سورج غروب ہونا کے قریب ہوگیا ۔ اور اناء کر بان میں کر بان بمعنی قربان ہے ۔ یعنی تقریبا بھرا ہوا برتن اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کرب ( غم ) الکرب سے مشتق ہو جس کے معنی سخت گرہ کے ہیں جو ڈول کے ساتھ رسی میں لگی رہتی ہے ۔ اور تم بھی دل پ ربمنزلہ گرہ کے بیٹھ جاتا ہے ۔ اس لئے اسے کرب کہاجاتا ہو ۔ اکربت الدلول ڈول کے دستہ میں چھوٹی سی رسی باندھنا ۔ عظیم وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] ، ( ع ظ م ) العظم عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٦{ وَنَجَّیْنٰہُ وَاَہْلَہٗ مِنَ الْکَرْبِ الْعَظِیْمِ } ” اور ہم نے نجات دی اس کو اور اس کے گھر والوں کو کرب عظیم سے۔ “ یہ ” کربِ عظیم “ کیا تھا ؟ اس کو سمجھنے کے لیے حضرت نوح کی قوم اور معاشرے کے حالات کی تصویر ذہن میں لائیے۔ چشم تصور سے دیکھئے کہ کس طرح اللہ کا ایک بندہ لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچا رہا ہے۔ اس کے لیے وہ دن دیکھتا ہے نہ رات۔ اجتماعی دعوت بھی دے رہا ہے ‘ انفرادی ملاقاتیں بھی کر رہا ہے ‘ ہر موقع آزما رہا ہے ‘ ہر ذریعہ اور ہر طریقہ بروئے کار لا رہا ہے ‘ جبکہ جواب میں اس کی اپنی قوم کے لوگ مسلسل اس سے استہزاء کر رہے ہیں ‘ اس کا تمسخر اڑا رہے ہیں اور اس پر پھبتیاں کس رہے ہیں۔ اس جان لیوا جدوجہد میں دس بیس یا پچاس برس تک نہیں ‘ پورے ساڑھے نو سو سال تک اپنی جان کو گھلاتے چلے جانا اور اس کے جواب میں قوم کے مخالفانہ رویے کا سامنا کرنا اور پھر اس مخالفت پر صبر کرنا کوئی معمولی کرب اور ضیق نہیں تھا۔ اسی طرح کے کرب اور ضیق کا سامنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکی دور میں اس وقت کرنا پڑا تھا جب مشرکین بار بار کسی معجزے کا مطالبہ کر کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر گویا اتمامِ حجت کر رہے تھے۔ ان کا اصرار تھا کہ اگر آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہمیں ایسے معجزات دکھائیں جیسے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) ٰ اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) ٰ نے اپنی قوموں کو دکھائے تھے۔ اس حوالے سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر عوام کا دبائو مسلسل بڑھتا جا رہا تھا ‘ جبکہ اللہ کا فیصلہ اس حوالے سے یہ تھا کہ اس طرح کا کوئی حسی ّمعجزہ نہیں دکھایا جائے گا۔ اس صورت حال میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گویا چکی ّکے دو پاٹوں کے درمیان آ چکے تھے۔ سورة الانعام کے مطالعے کے دوران حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس کرب عظیم کی کیفیت کے بارے میں ہم پڑھ چکے ہیں۔ سورة الانعام کی متعلقہ آیات اس موضوع پر گویا ذروہ سنام (climax) کا درجہ رکھتی ہیں۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ میں اہل ایمان کو گویا اشارۃً بتایا جا رہا ہے کہ تم لوگوں کو تو ابھی راہ حق میں سختیاں جھیلتے ہوئے صرف دس بارہ سال ہی ہوئے ہیں۔ اپنی تکلیفوں کے بارے میں سوچتے ہوئے ذرا ہمارے بندے نوح ( علیہ السلام) کے صبر و استقامت کو بھی مد ِنظر رکھو جو ساڑھے نو سو سال تک اس طرح کے ” کرب “ کا سامنا کرتے رہے۔ اس میں اس امر کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جس طرح نوح اور ان کے اہل ایمان ساتھیوں کو اس کرب عظیم سے بچایا گیا ‘ اسی طرح آخر کار محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ساتھیوں کو بھی ہم اس کرب عظیم سے نجات دلائیں گے جس میں اہل ِمکہ ّنے ان کو مبتلا کر رکھا ہے۔ پھر پانی کا عذاب بذات خود ایک ” کربِ عظیم “ تھا جو حضرت نوح کی قوم پر مسلط ہوا تھا۔ یعنی یوں تو نہیں ہوا ہوگا کہ سیلاب آیا اور حق کے مخالفین سب کے سب آنِ واحد میں غرق ہوگئے۔ آج بھی اگر ہم اس خوفناک صورت حال کی تصویر اپنے ذہنوں میں لا کر غور کریں تو ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس سیلابِ بلا کی انتہائی غیر معمولی صورت حال کو دیکھ کر وہ لوگ تشویش و تفکر ّکے کون کون سے مراحل سے گزرے ہوں گے ‘ کیسی کیسی حفاظتی تدابیر لڑائی گئی ہوں گی ‘ جانیں بچانے کے لیے کیا کیا بھگڈر اور ہلچل مچی ہوگی۔ گویا سیلاب کی وجہ سے اس قوم کے لیے قیامت صغریٰ کا منظر ہوگا۔ اور کسی نہ کسی درجے میں { اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْئٌ عَظِیْمٌ} (الح ج) کی سی کیفیت پیدا ہوگئی ہوگی۔ یہ سب کچھ بذات خود ایک ” کربِ عظیم “ تھا ‘ جس کا سامنا حضرت نوح (علیہ السلام) اور آپ ( علیہ السلام) کے ساتھیوں کو بھی تھا ‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل خاص سے انہیں اس ” کربِ عظیم “ سے محفوظ رکھا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

41 That is, from the severe distress that was being caused to him on account of the continuous opposition and antagonism of a wicked and cruel people. This also contains a subtle allusion that just as the Prophet Noah and his companions were saved from the great distress, so also shall We ultimately save the Prophet Muhammad (upon whom be Allah's peace) and his Companions from the great distress that is being caused to them by the people of Makkah.

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :41 یعنی اس شدید اذیت سے جو ایک بد کردار اور ظالم قوم کی مسلسل مخالفت سے ان کو پہنچ رہی تھی ۔ اس میں ایک لطیف اشارہ اس امر کی طرف بھی ہے کہ جس طرح نوح علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو اس کرب عظیم سے بچایا گیا ، اسی طرح آخر کار ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو بھی اس کرب عظیم سے بچا لیں گے جس میں اہل مکہ نے ان کو مبتلا کر رکھا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:76) اہلہ مضاف مضاف الیہ۔ اس کے گھر والے۔ اس کے گھرانے کے۔ یہاں اھل سے مراد حضرت نوح (علیہ السلام) کے خاندان والے نہیں ہیں بلکہ ہم عقیدہ اور ایمان والے مرد لئے گئے ہیں۔ جیسا کہ اور جگہ قرآن مجید میں ارشاد ہے :۔ قال ینوح انہ لیس من اھلک انہ عمل غیر صالح (11:46) خدا نے فرمایا اے نوح وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے وہ تو ناشائستہ افعال ہے ۔ الکرب۔ اسم مصدر معرفہ۔ بڑی مصیبت، کرب سخت غم۔ دم گھونٹنے والا غم الکرب العظیم بہت بڑی مصیبت، اس سے مراد حضرت نوح (علیہ السلام) کو قوم کے ہاتھوں پہنچنے والی تکلیفیں اور ایذا رسانی ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 حضرت نوح ( علیہ السلام) کے اپل ( گھر والوں) سے مراد وہ لوگ ہیں جو ان پر ایمان لائے اور ’ ’ کرب عظیم “ ( بڑی مصیبت) سے مراد طوفان میں غرق ہونا بھی ہوسکتا ہے اور قوم کو جھٹلانا اور ستانا بھی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ کہ طوفان سے کفار کو غرق کردیا اور ان کو اور ان کے تابعین کو بچا لیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(76) اور ہم نے نوح کو اور اس کے متعلقین اور متبعین کو بڑے غم سے نجات دی یعنی غرق کے عذاب سے مومنین کو جن کی تعداد تھوڑی تھی بچا لیا۔ کہتے ہیں کہ کشتی میں کل اسی یا تراسی آدمی تھے وہی محفوظ رہے۔