Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 87

سورة الصافات

فَمَا ظَنُّکُمۡ بِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۸۷﴾

Then what is your thought about the Lord of the worlds?"

تو یہ ( بتلاؤ کہ ) تم نے رب العالمین کو کیا سمجھ رکھا ہے؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Is it a falsehood -- gods other than Allah -- that you desire. Then what think you about the Lord of the all that exists! Qatadah said, "This means, `what do you think He will do with you when you meet Him, given that you worshipped others alongside Him."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

87۔ 1 یعنی اتنی قبیح حرکت کرنے کے باوجود کیا تم پر ناراض نہیں ہوگا اور تمہیں سزا نہیں دے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٩] سیدنا ابراہیم کی ستارہ پرست قوم :۔ سیدنا ابراہیم کا اصل وطن عراق کا شہر بابل تھا۔ یہ لوگ ستارہ پرست تھے۔ اور بالخصوص سات مشہور سیاروں سورج، چاند، زہرہ، عطارد، مشتری، مریخ اور زحل کی چال سے خوب واقف تھے۔ علاوہ ازیں یہ لوگ ان سیاروں کے انسانی زندگی پر اثرات کے بھی سختی سے قائل تھے۔ انہیں سیاروں کے الگ الگ مندر تعمیر کر رکھے تھے۔ ، جن میں ان سیاروں کے خیالی مجسمے یا بت رکھے جاتے تھے۔ وہ خود ہی زائچے تیار کرتے اور اس کے مطابق ان سیاروں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ان کے مجسموں کے سامنے نذریں نیازیں پیش کی جاتی تھیں۔ انہیں زائچوں کے ذریعہ وہ آئندہ سے متعلق اپنی اپنی قسمت کا حال معلوم کرتے تھے۔۔ ان کے ستاروں کے اثرات پر اعتقاد کا یہ حال تھا کہ ان میں ہر شخص زائچہ تیار کرنے کے بغیر بھی سیاروں کی چال پر غور کرکے اپنا پروگرام بناتا تھا۔ اس قدر مشرک تھی یہ قوم جس میں سیدنا ابراہیم مبعوث ہوئے تھے۔ انہوں نے جب بالکل خالی الذہن ہو کر اور یکسو ہو کر اپنے آپ کو اپنے پروردگار کے حوالہ کردیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت عطا فرمائی۔ اور سیدنا ابراہیم کو اپنی مکمل فرمانروائی اور ان سیاروں اور ان کے مجسموں کے بالکل بےاختیار اور مجبور محض ہونے کی حقیقت واضح کردی۔ خ دعوت توحید کا آغاز اپنے باپ سے :۔ چناچہ آپ نے توحید کی دعوت کا آغاز اپنے گھر سے کیا۔ سب سے پہلے باپ کو اس حقیقت سے روشناس کرایا وہ خود شاہی مندر کا پروہت، بت تراش اور بت فروش تھا وہ آپ کی اس نصیحت پر بگڑ بیٹھا تو آپ اپنی قوم کی طرف متوجہ ہوئے۔ آپ کا اپنے باپ اور اپنی قوم سے سوال یہ تھا کہ تم یہ بت اپنے ہاتھوں سے بناتے ہو پھر خود ہی انہیں خدائی اختیارات بانٹ دیتے ہو کہ فلاں سیارہ کی روح یا مجسمہ اگر ہم سے خوش رہے تو ہمیں مال و دولت زیادہ ملے گا۔ فلاں کی عبادت کی جائے تو علم نصیب ہوگا۔ اور فلاں کو خوش کیا جائے تو فصل بہت اچھی ہوگی۔ یہ سب اختیارات تو تم نے ان میں تقسیم کردیئے۔ اب بتاؤ کہ جس ہستی نے اس کائنات اور ان سیاروں کو پیدا کیا ہے اور اس کا ان پر کنٹرول ہے اس کے پاس بھی کوئی اختیار تم نے چھوڑا ہے یا نہیں ؟ کیا اب وہ بالکل بےبس ہوچکا ہے ؟ آخر اس کے متعلق تم کیا سمجھتے ہو ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَمَا ظَنُّكُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : یعنی رب العالمین جو پوری کائنات کا مالک ہے اور تمام جہانوں کے ایک ایک ذرے کی پرورش کر رہا ہے، اس کے متعلق تمہارا کیا گمان ہے ؟ کیا تم نے اس میں کوئی نقص یا عیب پایا کہ اپنے گھڑے ہوئے معبودوں کی عبادت کرنے لگے اور اس کی گرفت سے بالکل بےخوف ہوگئے ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَمَا ظَنُّكُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝ ٨٧ ظن والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم/ 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن/ 7] ، ( ظ ن ن ) الظن اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ عالَمُ والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، وقیل : إنما جمع هذا الجمع لأنه عني به أصناف الخلائق من الملائكة والجنّ والإنس دون غيرها . وقد روي هذا عن ابن عبّاس «2» . وقال جعفر بن محمد : عني به النّاس وجعل کلّ واحد منهم عالما «3» ، وقال «4» : العَالَمُ عالمان الکبير وهو الفلک بما فيه، والصّغير وهو الإنسان لأنه مخلوق علی هيئة العالم، وقد أوجد اللہ تعالیٰ فيه كلّ ما هو موجود في العالم الکبير، قال تعالی: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة/ 1] ، وقوله تعالی: وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة/ 47] ، قيل : أراد عالمي زمانهم . وقیل : أراد فضلاء زمانهم الذین يجري كلّ واحد منهم مجری كلّ عالم لما أعطاهم ومكّنهم منه، وتسمیتهم بذلک کتسمية إبراهيم عليه السلام بأمّة في قوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل/ 120] ، وقوله : أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر/ 70] . العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ چونکہ لفظ عالم سے خلائق کی خاص قسم یعنی فرشتے جن اور انسان ہی مراد ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے ۔ اس لئے اس کی جمع واؤنون کے ساتھ لائی گئی ہے امام جعفر بن محمد کا قول ہے کہ عالیمین سے صرف انسان مراد ہیں اور ہر فرد بشر کو ایک عالم قرار دے کر اسے جمع لایا گیا ہے ۔ نیز انہوں نے کہا ہے کہ عالم دو قسم پر ہے ( 1 ) العالم الکبیر بمعنی فلک دمافیہ ( 2 ) العالم اصغیر یعنی انسان کیونکہ انسان کی تخلیق بھی ایک مستقل عالم کی حیثیت سے کی گئی ہے اور اس کے اندر قدرت کے وہ دلائل موجود ہیں جا عالم کبیر میں پائے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر/ 70] کیا ہم نے تم کو سارے جہاں ( کی حمایت وطر فداری سے ) منع نہیں کیا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة/ 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو تمام مخلوقات کو پروردگار ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة/ 47] کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ تم یعنی بنی اسرائیل کو ان کی ہمعصراز قوام پر فضیلت دی اور بعض نے اس دور کے فضلا مراد لئے ہیں جن میں سے ہر ایک نواز شات الہٰی کی بدولت بمنزلہ ایک عالم کے تھا اور ان کو عالم سے موسم کرنا ایسے ہی ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل/ 120] بیشک حضرت ابراہیم ایک امہ تھے میں حضرت ابراہیم کو امۃ کہا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٧{ فَمَا ظَنُّکُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ } ” تو تمہارا کیا گمان ہے ربّ العالمین کے بارے میں ؟ “ اس ہستی کے بارے میں تمہارا کیا گمان ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار اور مالک ہے ؟ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

46 That is, "Why have you formed such a wrong view of Allah? Do you think that the gods that you have yourselves carved out from wood and stone can be like Him, or can be His associates in his attributes and rights? And are you involved in the misunderstanding that you will somehow manage to escape His punishment after you have indulged in such blasphemy ?"

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :46 یعنی اللہ تعالیٰ کو آخر تم نے کیا سمجھ رکھا ہے ۔ کیا تمہارا خیال یہ ہے کہ یہ لکڑی پتھر کے معبود اس کے ہم جنس ہو سکتے ہیں ؟ یا اس کی صفات اور اس کے اختیارات میں شریک ہو سکتے ہیں ؟ اور کیا تم اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کہ اس کے ساتھ اتنی بڑی گستاخی کر کے تم اس کی پکڑ سے بچے رہ جاؤ گے ؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:87) فما ظنکم برب العلمین۔ ما استفہام کے لئے ہے۔ ظنکم۔ مضاف مضاف الیہ۔ تمہارا گمان ۔ تمہارا خیال۔ امام راغب (رح) لکھتے ہیں :۔ الظن۔ کسی چیز کے علامات سے جو نتیجہ حاصل ہوتا ہے اسے ظن کہتے ہیں ۔ جب یہ علامات قوی ہوں تو اس سے علم کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے مگر جب کمزور ہو تو یہ نتیجہ وہم کی حد سے آگے تجاوز نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ نتیجہ قوی ہوجائے اور علم کا درجہ حاصل کرلے یا اسے علم کے درجہ میں فرض کرلیا جائے تو اس کے بعد ان یا ان کا استعمال ہوتا ہے ۔ مگر جب وہ ظن کمزور ہو اور وہم کے درجہ سے آگے نہ بڑھے تو پھر اس کے ساتھ (صرف) ان استعمال ہوتا ہے جو کسی قول یا فعل کے ساتھ مختص ہے ۔ چناچہ آیت یظنون انہم ملقوا اللہ (2: 249) جو لوگ یقین رکھتے ہیں کہ ان کو خدا کے روبرو حاضر ہوتا ہے ۔ میں ظن کا لفظ علم و یقین کے معنی میں استعمال ہوا ہے ! اور آیت کریمہ وذا النون اذ ذھب مغاضبا فظن ان لن نقدر علیہ (21:87) اور ذوالنون (کو یاد کرو) جب وہ (اپنی قوم سے ناراض ہو کر) غصے کی حالت میں چل دئیے اور خیال کیا کہ ہم اس پر گرفت نہ کریں گے۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں ظن بمعنی وہم لینا بہتر ہے یعنی ان کے دل میں یہ وہم گزرا کہ ہم اس پر گرفت نہ کریں گے ہم اس پر قابو نہیں پاسکیں گے۔۔ فما ظنکم برب العلمین۔ آخر اللہ رب العالمین کے بارے میں تمہارے کیا گمان ہے ؟ لغات القرآن (شائع کردہ ندوۃ المصنفین) میں ہے حسب تصریح امام راغب (رح) یہاں بھی ظن اس اعتقاد ہی کے معنی میں ہے جو یقین کا حکم رکھتا ہے :

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 یعنی کیا تم اس کے غضب سے نہیں ڈرتے کہ تم چاہے دوسروں کو اس کے ساتھ شریک قرار دے لو وہ تمہیں کوئی سزا نہ دے گا ؟

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(87) آخر تم نے عالموں کے مالک اور پروردگار کے متعلق کیا خیال کررکھا ہے۔ یعنی رب العالمین کے متعلق تو بتائو تم نے کیا خیال قائم کیا ہے اور اس کو عبادت کے قابل جانتے ہو یا نہیں اور اس کو معبود حقیقی سمجھتے ہو یا نہیں سمجھتے۔ اتفاقاً انہی دنوں ان کا ایک میلہ ہونے والا تھا جس میں شریک ہونے کے لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ان لوگوں نے دعوت دی اور یہ سمجھے کہ ہمارے بتوں کے میلے کی شان و شوکت کو دیکھ کر شاید ابراہیم کے خیالات کی اصلاح ہوجائیگی اس پر حضرت ابراہیم نے تاروں کی طرف دیکھ کر اپنے بیمار ہونے کا عذر کیا اور دعوت اور میلے کی شرکت کو ٹلا دیاچنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔