Surat us Saaffaat
Surah: 37
Verse: 94
سورة الصافات
فَاَقۡبَلُوۡۤا اِلَیۡہِ یَزِفُّوۡنَ ﴿۹۴﴾
Then the people came toward him, hastening.
وہ ( بت پرست ) دوڑے بھاگے آپ کی طرف متوجہ ہوئے ۔
فَاَقۡبَلُوۡۤا اِلَیۡہِ یَزِفُّوۡنَ ﴿۹۴﴾
Then the people came toward him, hastening.
وہ ( بت پرست ) دوڑے بھاگے آپ کی طرف متوجہ ہوئے ۔
Then they came hastily towards him. Mujahid and others said, "This means, they came rushing." The story is told in brief here; in Surah Al-Anbiya', it is told in more detail. When they returned, they did not know at first who had done this, until they investigated and found out that Ibrahim, peace be upon him, was the one who had done it. When they came to rebuke him, he started rebuking and criticizing them and said: قَالَ أَتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُونَ
94۔ 1 یعنی جب میلے سے آئے تو دیکھا کہ ان کے معبود ٹوٹے پھوٹے پڑے ہیں تو فوراً ان کا ذہن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف گیا، کہ یہ کام اسی نے کیا ہوگا، جیسا کہ سورة انبیاء میں تفصیل گزر چکی ہے چناچہ انہیں پکڑ کر عوام کی عدالت میں لے آئے۔ وہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس بات کا موقع مل گیا کہ وہ ان پر ان کی بےعقلی اور ان کے معبودوں کی بےاختیاری واضح کریں۔
فَاَقْبَلُوْٓا اِلَيْهِ يَزِفُّوْنَ : ” زَفَّ یَزِفُّ زَفًّا وَ زُفُوْفًا وَ زَفِیْفًا “ (ض) تیزی سے جانا، دوڑنا۔ یعنی بتوں کا یہ حال دیکھ کر قوم کو یہ جاننے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی کہ ان کا یہ حال کس نے کیا ہے، کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) انھیں پہلے ہی اپنے ارادے سے آگاہ کرچکے تھے، اس لیے وہ سب دوڑتے ہوئے ان کے پاس آئے اور انھیں پکڑ کر مجمع میں لے آئے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة انبیاء (٥٩ تا ٦١) ۔
فَاَقْبَلُوْٓا اِلَيْہِ يَزِفُّوْنَ ٩٤ إِقْبَالُ التّوجّه نحو الْقُبُلِ ، كَالاسْتِقْبَالِ. قال تعالی: فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ [ الصافات/ 50] ، وَأَقْبَلُوا عَلَيْهِمْ [يوسف/ 71] ، فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُهُ [ الذاریات/ 29] اقبال اور استقبال کی طرح اقبال کے معنی بھی کسی کے رو برو اور اس کی طرف متوجہ ہو نیکے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ [ الصافات/ 50] پھر لگے ایک دوسرے کو رو ور ود ملا مت کرنے ۔ وَأَقْبَلُوا عَلَيْهِمْ [يوسف/ 71] ، اور وہ ان کی طرف متوجہ ہوکر زف زَفَّ الإبل يَزِفُّ زَفّاً وزَفِيفاً ، وأَزَفَّهَا سائقها، وقرئ : إِلَيْهِ يَزِفُّونَ [ الصافات/ 94] ، أي : يسرعون، ويَزِفُّونَ أي : يحملون أصحابهم علی الزَّفِيفِ. وأصل الزَّفِيفِ في هبوب الرّيح، وسرعة النّعام التي تخلط الطیران بالمشي . وزَفْزَفَ النّعام : أسرع، ومنه استعیر : زَفَّ العروس، واستعارة ما يقتضي السّرعة لا لأجل مشیتها، ولکن للذّهاب بها علی خفّة من السّرور . ( ز ف ف ) زف الابل یزف زفا وزفیفا کے معنی ہیں اونٹ کا تیز چلنا اور ازفھا ( افعال ) کے معنی تیز چلانے کے ہیں ۔ قراں میں ہے : ۔ إِلَيْهِ يَزِفُّونَ [ الصافات/ 94] وہ اسکی طرف دوڑتے آئے اور ایک قرآت میں یزفون ( بضمہ یاء ) ہے یعنی وہ اپنے ساتھیوں کو تیز روی پر بر انگحیۃ کرتے ہیں ۔ اصل میں زفیف کے معنی ہوا کے تیز چلنے یا شتر مرغ کے اس قدر تیز چلنے کے ہیں جس میں نیم پرواز پائی جائے ۔ کہا جاتا ہے زفرف النعام شتر مرغ چلا پھر اسی سے استعارہ کے طور زف العروس کہ جاتا ہے یعنی دلہن کو شوہر کے سامنے پیش کیا ۔ اس میں بھی معنی سرعت ملحوظ ہے مگر اس کا تعلق چلنے سے نہیں ہے بلکہ پیش کرنے والوں کے وفور شوق سے ہے ۔
(٩٤۔ ٩٨) پھر وہ لوگ اپنے میلہ سے واپسی پر یہ منظر دیکھ کر حضرت ابراہیم کے پاس دوڑے ہوئے آئے۔ حضرت ابراہیم نے فرمایا کیا تم ان چیزوں کو پوجتے ہو جن کو لکڑیوں اور پتھروں سے خود بناتے ہو اور اس اللہ تعالیٰ کی عبادت کو چھوڑتے ہو کہ جس نے تمہیں اور تمہاری سب بنائی ہوئی چیزوں کو پیدا کیا ہے قوم کہنے لگی ان کے لیے ایک آتش خانہ تعمیر کرو اور ان کو دہکتی ہوئی آگ میں ڈال دو ان لوگوں نے حضرت ابراہیم کو آگ میں جلانے کی تدبیر کی تھی۔ تو ہم نے اس تدبیر میں ان ہی کو نیچا دکھایا یا یہ کہ سزا کے اعتبار سے ان ہی کو ذلیل و خوار کیا۔
آیت ٩٤{ فَاَقْبَلُوْٓا اِلَیْہِ یَزِفُّوْنَ } ” تو وہ اس کی طرف آئے ‘ دوڑتے ہوئے۔ “ اس واقعہ کے بارے میں کچھ تفصیل سورة الانبیاء کے پانچویں رکوع میں بھی ہم پڑھ چکے ہیں۔ یہاں پر باقی تفصیل چھوڑ دی گئی ہے کہ آپ ( علیہ السلام) نے تمام بتوں کو توڑ پھوڑ کر چورا کردیا ‘ سوائے ایک بڑے بت کے۔ صورتِ حال انتہائی نازک اور تشویشناک تھی اور اس غیر معمولی واقعہ کے بعد شہر میں تو گویا قیامت برپا ہوگئی ہوگی۔ لیکن جب قوم کے بہت سے لوگ غیظ و غضب اور اشتعال کی کیفیت میں بھاگم بھاگ آپ ( علیہ السلام) تک پہنچے تو آپ ( علیہ السلام) نے نہ صرف بلا خوف ان کا سامنا کیا بلکہ ان کے ساتھ مدلل مناظرہ بھی کیا :
52 Here the story has been told in brief. According to the details given in Surah Ai-Anbiya`, when they returned and found all their idols broken to pieces in the temple, they started making investigations. Some people said that a young man, called Abraham, had been talking such and such things against idol-worship. At this the multitude demanded that he should be immediately seized and brought before them. Therefore, a group of the people went running to him and brought him before the multitude.
سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :52 یہاں قصہ مختصر کر کے بیان کیا گیا ہے ۔ سورہ انبیا میں اس کی جو تفصیل دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جب انہوں نے آ کر اپنے مندر میں دیکھا کہ سارے بت ٹوٹے پڑے ہیں تو پوچھ گچھ شروع کی ۔ کچھ لوگوں نے بتایا کہ ابراہیم نامی ایک نوجوان بت پرستی کے خلاف ایسی باتیں کرتا رہا ہے ۔ اس پر مجمع نے کہا کہ پکڑ لاؤ اسے ۔ چنانچہ ایک گروہ دوڑتا ہوا ان کے پاس پہنچا ، اور انہیں مجمع کے سامنے لے آیا ۔
(37:94) اقبلوا۔ ماضی جمع مذکر غائب۔ اقبال (افعال) مصدر۔ انہوں نے رخ کیا۔ وہ متوجہ ہوئے۔ یزقون۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ دوڑتے ہوئے۔ زف یزف (باب ضرب) زف وزفیف وزفون مصدر۔ یزفون حال ہے اقبلوا کی ضمیر مرفوع متصل ذوالحال ہے یہ زف النعام سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے : شتر مرغ تیزی سے چلا۔ فائدہ : معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس فعل کی خبر اس کے ہم قوموں کو ہوگئی اور وہ تیزی سے گھبرائے ہوئے اور غصہ سے بھرے ہوئے واپس اس کی طرف آتے ہیں اور ان سے دریافت کرتے ہیں۔ ان کے درمیان اس بارہ میں گفتگو کی تفصیل الانبیاء میں ملاحظہ ہو۔ یا جب واپسی پر انہوں نے بتوں کی حالت غیر دیکھی اور دریافت پر معلوم ہوا کہ یہ کام حضرت ابراہیم نے کیا ہے تو کہا کہ :۔ فاتوا بہ علی اعین الناس (21:61) ان کو لوگوں کے سامنے لائو۔
ف 1 اور اسے کر مجمع کے سامنے لے آئے۔ تفصیل سورة انبیاء میں گزر چکی ہے۔
فہم القرآن ربط کلام : قوم کا شدید ردعمل۔ قوم جب واپس پلٹی تو ان کی خوشی، غم اور پریشانی میں تبدیل ہوگئی زبردست اضطراب اور شدید ہنگامہ برپا ہوا۔ ہنگامی حالات کا اعلان ہوا اجلاس پہ اجلاس بلائے جا رہے ہیں۔ تاکہ عوام کو اپنی کارکردگی دکھا کر فوری طور پر مطمئن کیا جائے، چناچہ دفعتًا فیصلہ سنایا جاتا ہے۔ (قَالُوْا فَاْتُوْا بِہٖ عَلٰٓی اَعْیُنِ النَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَشْھَدُوْنَ )[ الانبیاء : ٦١] ” انھوں نے کہا کہ ابراہیم کو لوگوں کے سامنے لاؤ تاکہ لوگ گواہ ہوں۔ “ (فَأَقْبَلُوْا إِلَیْہِ یَزِفُّونَ ) [ الصّٰفٰت : ٩٤] ” وہ ابراہیم کی طرف دوڑتے ہوئے آئے۔ “ اللہ ہی کو معلوم ہے کہ لوگ کس غیظ وغضب کے ساتھ آپ (علیہ السلام) کو پکڑ کر لائے ہوں گے۔ کتنے آوازے کسے ہوں گے اور کتنی گستاخیاں کی ہوں گی ؟ لیکن ابراہیم ہجوم مشرکین کو زمین کے ذرات سے بھی حقیر تصور کرتے ہوئے ایسی جرأت اور مردانگی سے جواب دیتے ہیں کہ ان کی کئی کئی گز لمبی زبانیں اس طرح گنگ ہوگئیں، جیسے ان کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ ان میں نام نہاد دانشور، پڑھے لکھے اور ان پڑھ ہر قسم کے لوگ موجود ہیں لیکن کوئی بولنے کی جرأت نہیں کر پاتا۔ کیوں بولیں اور کس بنیاد پر بات بولیں۔ (وَمَنْ یَّدْعُ مَعَ اللّٰہِ اِِلٰہًا آخَرَ لاَ بُرْہَانَ لَہٗ بِہٖ فَاِِنَّمَا حِسَابُہُ عِنْدَ رَبِّہٖ اِِنَّہُ لاَ یُفْلِحُ الْکٰفِرُوْنَ ) [ المؤمنون : ١١٧] ” جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو پکارتے ہیں ان کے پاس ان کو پکارنے کی کوئی دلیل نہیں ان کا حساب رب کے ذمہ ہے۔ یقین جانئیی کافر کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔ “ اسی لیے تو ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا تھا کہ تم سب کو اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا ہے لہٰذا اسی کی عبادت کرو۔ لیکن قوم ایمان لانے کی بجائے ابراہیم (علیہ السلام) کو جلا دینے کا فیصلہ کرتی ہے۔
اب یہ منظر ختم ہوتا ہے اور دوسرا منظر سامنے آتا ہے۔ لوگ واپس ہوئے انہیں علم ہوا کہ ان کے بتوں کے سر پاؤں اور ہاتھ کٹے ہوئے ہیں۔ دوسری سورتوں میں تفصیلات آتی ہیں کہ انہوں نے تفتیش کی کہ کس نے یہ کام کیا ہے۔ آخر وہ اس نتیجے تک پہنچے کہ ابراہیم نام کا ایک شخص ان کے بارے میں بدگوئی کرتا ہے ، بہرحال یہاں اختصار کرکے فریقین کا آمنا سامنا دکھایا جاتا ہے۔ فاقبلوا الیہ یزفون (94) “۔ انہوں نے ایک دوسرے سے یہ خبر سن لی تھی۔ یہ بھی یقین ہوگیا تھا کہ کام کرنے والا کون ہے۔ لہٰذا سب لوگ دوڑ کر ابراہیم کے پاس پہنچے۔ سب اب کے اردگرد جمع ہوگئے۔ لوگوں کی بڑی تعداد بلکہ پورا میلہ اکٹھا ہوگیا۔ سب لوگ ایک طرف اور ایک مومن ایک طرف۔ ایک ایسا فرد جو کام کرنا چاہتا ہے۔ ایسا فرد جس کا تصور الٰہ واضح ہے جس کا عقیدہ ٹھوس اور متعین ہے۔ وہ اپنے نفس کے اندر اسے حقیقت کے طور پر پاتا ہے۔ وہ اپنے اردگرد پھیلی ہوئی کائنات میں اسے پاتا ہے۔ یہ ایک فرد ہے لیکن افراد کی اس بھیڑ اور جم غفیر سے وہ اپنے آپ کو قوی پاتا ہے۔ جن کا عقیدہ درست نہیں۔ جس کا تصور حیات ٹھوس نہیں۔ چناچہ وہ فطری سچائی کے ساتھ جرات مندانہ طریقے سے ان کو یوں خطاب کرتا ہے۔ اور ان کے کسی ردعمل کا کوئی خیال نہیں کرتا۔ حالانکہ یہ لوگ اس وقت استعمال کی حالت میں ہیں اور بڑی تعداد میں ہیں۔
41:۔ فاقبلوا الخ : اس سے پہلے اندماج ہے۔ جب مشرکین عید منا کر واپس ٹھاکر دوارے میں آئے تو ٹھاکروں کو پاش پاش دیکھ کر آپس میں کہنے لگے یہ ناشائستہ حرکت کس نے کی ہے۔ انہی میں سے بعض نے شبہ ظاہر کیا کہ یہ کام ابراہیم ہی کا ہوسکتا ہے۔ کیونکہ وہ ان معبودوں کو ہمیشہ برائی سے یاد کرتا ہے ؟ چناچہ وہ دوڑتے ہوئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئے اور کہنے لگے اے ابراہیم ! ہم تو ان ٹھاکروں کی پوجا پاٹ کرتے تھے تم نے یہ کیا حرکت کی کہ ان کو توڑ پھوڑ دیا۔ ثم قالوا باجمعہم نحن نعبدھا وانت تکسرھا (مدارک ج 4 ص 19) ۔