Commentary The sacrifice of a son Another event in the blessed life of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) has been described in the verses cited above. This is the event of the sacrifice of his first-born son in the way of Allah. Explanatory Notes on the verses The first verse (99) opens with the words:... وَقَالَ إِنِّي ذَاهِبٌ إِلَىٰ رَبِّي سَيَهْدِينِ (And he said, |"I am going to my Lord...). Sa... yyidna Ibrahim (علیہ السلام) said this at a time when he was totally disappointed by his countrymen, for nobody except Sayyidna Lut (علیہ السلام) ، his nephew, was willing to believe in him. The statement: دار الکفر (I am going to my Lord) means that he will leave the abode of disbelief and go to a place whereto Allah Ta’ ala has commanded him to go, a place where he will be able to worship his Lord in peace. So, he started on a journey accompanied by his blessed wife, Sayyidah Sarah (رض) and his nephew, Sayyidna Lut (علیہ السلام) . After having passed through different areas of Iraq, he finally reached Syria. Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) had no children until then, therefore, he made the prayer mentioned in the next verse (100). Show more
خلاصہ تفسیر اور ابراہیم (علیہ السلام جب ان لوگوں کے ایمان سے مایوس ہوگئے تو) کہنے لگے کہ میں تو (تم سے ہجرت کر کے) اپنے رب کی (راہ میں کسی) طرف چلا جاتا ہوں، وہ مجھ کو (اچھی جگہ) پہنچا ہی دے گا، (چنانچہ ملک شام میں جا پہنچے اور یہ دعا کی کہ) اے میرے رب مجھ کو ایک نیک فرزند دے، سو ہم نے ان کو ایک ح... لیم المزاج فرزند کی بشارت دی (اور وہ فرزند پیدا ہوا اور ہشیار ہوا) سو جب وہ لڑکا ایسی عمر کو پہنچا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ چلنے پھرنے لگا، تو ابراہیم (علیہ السلام) نے (ایک خواب دیکھا کہ میں اس فرزند کو خدا کے حکم سے ذبح کر رہا ہوں، اور یہ ثابت نہیں کہ حلقوم کٹا ہوا بھی دیکھا یا نہیں، غرض آنکھ کھلی تو اسے اللہ کا حکم سمجھے، کیونکہ انبیاء کا خواب بھی وحی ہوتا ہے اور اس حکم کی تعمیل پر آمادہ ہوگئے۔ پھر یہ سوچ کر کہ خدا جانے میرے فرزند کی اس بارے میں کیا رائے ہو، اس کو اطلاع کرنا ضروری سمجھا، اس لئے اس سے) فرمایا کہ برخوردار میں دیکھتا ہوں کہ میں تم کو (بامر الٰہی) ذبح کر رہا ہوں، سو تم بھی سوچ لو تمہاری کیا رائے ہے ؟ وہ بولے ابا جان (اس میں مجھ سے پوچھنے کی کیا بات ہے، جب آپ کو خدا کی طرف سے حکم کیا گیا ہے تو) آپ کو جو حکم ہوا ہے آپ (بلاتامل) کیجئے، انشاء اللہ تعالیٰ آپ مجھ کو سہار کرنے والوں میں سے دیکھیں گے، غرض جب دونوں نے (خدا کے حکم کو) تسلیم کرلیا، اور باپ نے بیٹے کو (ذبح کرنے کے لئے) کروٹ پر لٹایا اور (چاہتے تھے کہ گلا کاٹ ڈالیں اور اس وقت) ہم نے ان کو آواز دی کہ ابراہیم (شاباش ہے) تم نے خواب کو خوب سچ کر دکھایا (یعنی خواب میں جو حکم ہوا تھا اپنی طرف سے اس پر پورا عمل کیا اب ہم اس حکم کو منسوخ کرتے ہیں بس ان کو چھوڑ دو ۔ غرض ان کو چھوڑ دیا، جان کی جان بچ گئی، اور بلند درجات مزید برآں عطا ہوئے) ہم مخلصین کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں (کہ دونوں جہاں کی راحت انہیں عطا کرتے ہیں) حقیقت میں یہ تھا بھی بڑا امتحان (جس کو بجز مخلص کامل کے دوسرا برداشت نہیں کرسکتا تو ہم نے ایسے امتحان میں پورا اترنے پر صلہ بھی بڑا بھاری دیا، اور اس میں جیسا امتحان ابراہیم (علیہ السلام) کا تھا، اسی طرح اسماعیل (علیہ السلام) کا بھی تھا، تو وہ صلہ میں شریک ہوں گے) اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے عوض میں دیا (کہ ابراہیم (علیہ السلام) سے وہ ذبح کرایا گیا) اور ہم نے پیچھے آنے والوں میں یہ بات ان کے لئے رہنے دی کہ ابراہیم پر سلام ہو (چنانچہ ان کے نام کے ساتھ اب تک ” (علیہ السلام) “ کہا جا رہا ہے) ہم مخلصین کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں، (کہ انہیں لوگوں کی دعاؤں اور سلامتی کی بشارتوں کا مرکز بنا دیتے ہیں) بیشک وہ ہمارے ایمان دار بندوں میں سے تھے اور ہم نے (ایک انعام ان پر یہ کیا کہ) ان کو اسحاق (علیہ السلام) کی بشارت دی کہ نبی اور نیک بختوں میں ہوں گے اور ہم نے ابراہیم پر اور اسحاق پر برکتیں نازل کیں (ان برکتوں میں سے ایک یہ ہے کہ ان کی نسل بہت پھیلی اور اس نسل میں کثرت سے انبیاء پیدا ہوئے) اور (پھر آگے) ان دونوں کی نسل میں بعضے اچھے بھی ہیں اور بعضے ایسے بھی جو (بدیاں کر کے) صریح اپنا نقصان کر رہے ہیں۔ معارف ومسائل بیٹے کی قربانی کا واقعہ : ان آیات میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی حیات طیبہ کا ایک دوسرا اہم واقعہ بیان کیا گیا ہے، جس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کے لئے اپنے اکلوتے فرزند کی قربانی پیش کی، واقعہ کے بنیادی اجزاء خلاصہ تفسیر سے واضح ہوجاتے ہیں، بعض تاریخی تفصیلات آیتوں کی تفسیر کے ذیل میں آجائیں گی : وَقَالَ اِنِّىْ ذَاهِبٌ اِلٰى رَبِّيْ (اور ابراہیم (علیہ السلام) کہنے لگے کہ میں تو اپنے رب کی طرف چلا جاتا ہوں) یہ بات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس وقت ارشاد فرمائی جبکہ آپ اپنے اہل وطن سے بالکل مایوس ہوگئے، اور وہاں آپ کے بھانجے حضرت لوط (علیہ السلام) کے سوا کوئی آپ پر ایمان نہیں لایا۔ ” رب کی طرف چلے جانے “ سے مراد یہ ہے کہ میں دارالکفر کو چھوڑ کر کسی ایسی جگہ چلا جاؤں گا جہاں کا مجھے اپنے رب کی طرف سے حکم ہوا ہے، اور جہاں میں اپنے پروردگار کی عبادت کرسکوں گا، چناچہ آپ اپنی زوجہ مطہرہ حضرت سارہ اور اپنے بھانجے حضرت لوط (علیہ السلام) کو لے کر سفر پر روانہ ہوئے، اور عراق کے مختلف حصوں سے ہوتے ہوئے بالاخر شام تشریف لے آئے۔ اس تمام عرصہ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی، اس لئے آپ نے وہ دعا فرمائی جس کا اگلی آیت میں ذکر ہے Show more