Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 99

سورة الصافات

وَ قَالَ اِنِّیۡ ذَاہِبٌ اِلٰی رَبِّیۡ سَیَہۡدِیۡنِ ﴿۹۹﴾

And [then] he said, "Indeed, I will go to [where I am ordered by] my Lord; He will guide me.

اور اس ( ابراہیم علیہ السلام ) نے کہا میں تو ہجر ت کر کے اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں وہ ضرور میری رہنمائی کرے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ibrahim's Emigration, the Test of the Sacrifice of Isma`il, and how Allah blessed Him Allah tells us that after He helped His close friend Ibrahim, peace be upon him, against his people, and after Ibrahim gave up hoping that they would ever believe despite all the mighty signs that they had witnessed, he emigrated away from them, and said: وَقَالَ إِنِّي ذَاهِبٌ إِلَى رَبِّي سَيَهْ... دِينِ رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ   Show more

" ذبیح اللہ کی بحث اور یہودی روایات ۔ خلیل اللہ جب اپنی قوم کی ہدایت سے مایوس ہو گئے ۔ بڑی بڑی قدرتی نشانیاں دیکھ کر بھی جب انہیں ایمان نصیب نہ ہوا تو آپ نے ان سے ہٹ جانا پسند فرمایا اور اعلان کردیا کہ میں اب تم میں سے ہجرت کرجاؤں گا میرا رہنما میرا رب ہے ۔ ساتھ ہی اپنے رب سے اپنے ہاں اولاد ہون... ے کی دعا مانگی تاکہ وہی توحید میں آپ کا ساتھ دے ۔ اسی وقت دعا قبول ہوتی ہے اور ایک بردبار بچے کی بشارت دی جاتی ۔ یہ حضرت اسماعیل علیہ السلام تھے یہی آپ کے لیے صاحبزادے تھے اور حضرت اسحاق سے بڑے تھے ۔ اسے تو اہل کتاب بھی مانتے ہیں بلکہ ان کی کتب میں موجود ہے کہ حضرت اسماعیل کی پیدائش کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر چھیاسی سال کی تھی اور جس وقت حضرت اسحاق علیہ السلام تولد ہوتے ہیں اس وقت آپ کی عمر ننانوے برس کی تھی ۔ بلکہ ان کی اپنی کتاب میں تو یہ بھی ہے کہ جناب ابراہیم کو اپنے اکلوتے فرزند کو ذبح کرنے کا حکم ہوا تھا ۔ لیکن صرف اس لیے کہ یہ لوگ خود تو نبی اللہ حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور نبی اللہ و ذبیح اللہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے عرب ہیں ۔ انہیں نے واقعہ کی اصلیت بدل دی اور اس فضیلت کو حضرت اسماعیل علیہ السلام سے ہٹاکر حضرت اسحاق کو دے دیا اور بےجاتاویلیں کرتے اللہ کے کلام کو بدل ڈالا ۔ اور کہا ہماری کتاب میں لفظ وحیدک ہے اس سے مراد اکلوتا نہیں بلکہ جو تیرے پاس اس وقت اکیلا ہے وہ ہے ۔ یہ اس لیے کہ حضرت اسماعیل تو اپنی والدہ کے ساتھ مکے میں تھے یہاں خلیل اللہ کے ساتھ صرف حضرت اسحاق تھے ۔ لیکن یہ بالکل غلط ہے ۔ وحید اسی کو کہا جاتا ہے جو اکلوتا ہو اس کا اور کوئی بھائی نہ ہو ۔ پھر یہاں ایک بات اور بھی ہے کہ اکلوتے اور پہلوٹھی کے بچے کے ساتھ جو محبت ہوتی اور اس کے جو لاڈ پیار ہوتے ہیں عموماً دوسری اولاد کے ہونے پر پھر وہ باقی نہیں رہتے ۔ اس لیے اس کے ذبیحہ کا حکم امتحان اور آزمائش کی زبردست کڑی ہے ۔ ہم اسے مانتے ہیں کہ بعض سلف بھی اس کے قائل ہوئے ہیں کہ ذبیح اللہ حضرت اسحاق تھے یہاں تک کہ بعض صحابہ سے بھی یہ مروی ہے لیکن یہ چیز کتاب و سنت سے ثابت نہیں ہوتی ۔ بلکہ خیال یہ ہے کہ بنو اسرائیل کی ایک شہرت دی ہوئی بات کو ان حضرات نے بھی بےدلیل اپنے ہاں لے لیا دور کیوں جائیں کتاب اللہ کے الفاظ میں ہی غور کر لیجیے کہ حضرت اسمٰعیل کی بشارت کا غلام حلیم کہہ کر ذکر ہوا اور پھر اللہ کی راہ میں ذبح کے لیے تیار ہونے کا ذکر ہوا ۔ اس تمام بیان کو ختم کرکے پھر نبی صالح حضرت اسحاق کے تولد کی بشارت کا بیان ہوا ۔ اور فرشتوں نے بشارت اسحاق کے موقع پر غلام علیم فرمایا تھا ۔ اسی طرح قرآن میں ہے بشارت اسحاق کے ساتھ ہی ہے ( وَمِنْ وَّرَاۗءِ اِسْحٰقَ يَعْقُوْبَ 71؀ ) 11-ھود:71 ) یعنی حضرت ابراہیم کی حیات میں ہی حضرت اسحاق کے ہاں حضرت یعقوب پیدا ہوں گے یعنی ان کی تو نسل جاری رہنے کا پہلے ہی علم کرایا جاچکا تھا اب انہیں ذبح کرنے کا حکم کیسے دیا جاتا ؟ اسے ہم پہلے بھی بیان کر چکے ۔ البتہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کا وصف یہاں پر بردباری کا بیان کیا گیا ہے ۔ جو ذبیح کے لیے نہایت مناسب ہے ۔ اب حضرت اسماعیل بڑے ہو گئے اپنے والد کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے ۔ آپ اس وقت مع اپنی والدہ محترمہ کے فاران میں تھے حضرت ابراہیم عموماً وہاں جاتے آتے رہتے تھے یہ مذکور ہے کہ براق پر جاتے تھے اور اس جملے کے یہ معنی بھی ہیں کہ جوانی کے لگ بھگ ہوگئے لڑکپن کا زمانہ نکل گیا اور باپ کی طرح چلنے پھرنے کام کاج کرنے کے قابل بن گئے تو حضرت ابراہیم نے خواب دیکھا کہ گویا آپ اپنے پیارے بچے کو ذبح کررہے ہیں انبیاء کے خواب وحی ہوتے ہیں اور اس کی دلیل یہی آیت ہے ۔ ایک مرفوع روایت میں بھی یہ ہے ۔ پس اللہ کے رسول نے اپنے لخت جگر کی آزمائش کے لیے کہ اچانک وہ گھبرانہ اٹھے ، اپنا ارادہ ان کے سامنے ظاہر کیا ۔ وہاں کیا تھا ۔ وہ بھی اسی درخت کے پھل تھے نبی ابن نبی تھے جواب دیتے ہیں اب پھر دیر کیوں لگا رہے ہو یہ باتیں بھی پوچھنے کی ہوتی ہیں جو حکم ہوا ہے اسے فوراً کر ڈالیے اور اگر میری نسبت کھٹکا ہو تو زبانی اطمینانی کیا کروں چھری رکھئے خود معلوم ہو جائے گا کہ میں کیسا کچھ صابر ہوں ۔ ان شاء اللہ میرا صبر آپ کا جی خوش کردے گا ۔ سبحان اللہ جو کہا تھا وہی کرکے دکھایا اور صادق الوعد ہونے کا سرٹیفیکیٹ اللہ کی طرف سے حاصل کر ہی لیا ۔ آخر باپ بیٹا دونوں حکم اللہ کی اطاعت کے لیے جان بکف تیار ہوجاتے ہیں باپ بچے کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے ۔ اور باپ اپنے نور چشم لخت جگر کو منہ کے بل زمین پر گراتے ہیں تاکہ ذبح کے وقت منہ دیکھ کر محبت نہ آجائے اور ہاتھ سست نہ پڑ جائے ۔ مسند احمد میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی نور نظر کو ذبح کرنے کے لیے بحکم اللہ لے چلے تو سعی کے وقت شیطان سامنے آیا لیکن حضرت ابراہیم اس سے آگے بڑھ گئے ، پھر حضرت جبرائیل کے ساتھ آپ جمرہ عقبہ پر پہنچے تو پھر شیطان سامنے آیا آپ نے اسے سات کنکریاں ماریں ۔ پھر جمرہ وسطی پاس آیا پھر وہاں سات کنکریاں ماریں ۔ پھر آگے بڑھ کر اپنے پیارے بچے کو اللہ کے نام پر ذبح کرنے کے لیے نیچے پچھاڑا ، ذبیح اللہ کے پاک جسم پر اس وقت سفید چادر تھی کہنے لگے ابا جی اسے اتار لیجیے تاکہ اس میں آپ مجھے کفنا سکیں ۔ اس وقت بیٹے کو ننگا کرتے وقت باپ کا عجب حال تھا کہ آواز آئی بس ابراہیم خواب کو سچا کر چکے ۔ مڑ کر دیکھا تو ایک مینڈا سفید رنگ کا بڑے بڑے سینگوں اور صاف آنکھوں والا نظر پڑا ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اسی لیے ہم اس قسم کے مینڈے ( چھترے ) چن چن کر قربانی کے لیے لیتے تھے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ ہی سے دوسری روایت میں حضرت اسحاق کا نام مروی ہے ۔ تو گو دونوں نام آپ سے مروی ہیں لیکن اول ہی اولیٰ ہے اور اسکی دلیلیں آرہی ہیں ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ اس کے بدلے بڑا ذبیحہ اللہ نے عطا فرمایا اس کی بابت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ جنتی چھترا تھا جو وہاں چالیس سال سے کھاپی رہا تھا ۔ اسے دیکھ کر آپ اپنے بچے کو چھوڑ کر اس کے پیچھے ہولیے ۔ جمرہ اولی پر آکر سات کنکریاں پھنکیں پھر وہ بھاگ کر جمرہ وسطی پر آگیا ۔ سات کنکریاں ماریں اور وہاں سے ملخر میں لاکر ذبح کیا اس کے سینگ سر سمیت ابتداء اسلام کے زمانہ تک کعبے کے پرنالے کے پاس لٹکتے رہے تھے پھر سوکھ گئے ۔ ایک مرتبہ حضرت کعب رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے باتیں کررہے تھے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ تو حدیثیں بیان کررہے تھے اور حضرت کعب کتاب کے قصے بیان کررہے تھے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ہر نبی کے لیے ایک دعا قبول شدہ ہے اور میں نے اپنی اس مقبول دعا کو پوشیدہ کرکے رکھ چھوڑا ہے اپنی امت کی شفاعت کے ۔ اور فرمانے لگے تم پر میرے ماں باپ فدا ہوں یا فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے ماں باپ صدقے جائیں پھر حضرت کعب نے حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام کا قصہ سنایا کہ جب آپ اپنے لڑکے حضرت اسمٰعیل کو ذبح کرنے کے لیے مستعد ہوگئے تو شیطان نے کہا اگر میں اس وقت انہیں نہ بہکا سکا تو مجھے ان سے عمر بھر کے لیے مایوس ہوجانا چاہیے ۔ پہلے تو یہ حضرت سارہ کے پاس آیا اور پوچھا کہ ابراہیم تمہارے لڑکے کو کہاں لے گئے ہیں؟ مائی صاحبہ نے جواب دیا اپنے کسی کام پر لے گئے ہیں اس نے کہا نہیں بلکہ وہ ذبح کرنے کے لیے لے گئے ہیں مائی صاحبہ نے فرمایا وہ اسے کیوں ذبح کرنے لگے؟ لعین نے کہا وہ کہتے ہیں اللہ کی طرف سے یہی حکم ہے جواب ملا پھر تو یہی بہتر ہے کہ وہ جلدی سے اللہ کے حکم کی بجا آوری سے فارغ ہو لیں ۔ یہاں سے نامراد ہو کر بچے کے پاس آیا اور کہا تمہارے ابا تمہیں کہا لے جاتے ہیں ۔ ؟ فرمایا اپنے کام کے لیے کہا نہیں بلکہ وہ تجھے ذبح کرنے کے لیے لے جا رہے ہیں ، فرمایا یہ کیوں؟ کہا اس لیے کہ وہ سمجھتے ہیں اللہ کا انہیں حکم ہے ۔ کہا پھر تو واللہ انہیں اس کام میں بہت جلدی کرنی چاہیے ۔ ان سے بھی مایوس ہو کر یہ ملعون خلیل اللہ کے پاس پہنچا ۔ ان سے کہا بچے کو کہاں لے جا رہے ہو؟ جواب دیا اپنے کام کے لیے ملعون نے کہا نہیں بلکہ تم تو اسے ذبح کرنے کے لیے جا رہے ہو؟ آپ نے فرمایا یہ کیوں؟ بولا اس لیے کہ تمہارا خیال ہے کہ اللہ کا حکم تمہیں یونہی ہے ، آپ نے فرمایا اللہ کی قسم پھر تو میں ضرور ہی اسے ذبح کر ڈالوں گا ۔ اب ابلیس مایوس ہو گیا ۔ دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ اس تمام واقعے کے بعد جناب باری تعالیٰ نے حضرت اسحاق سے فرمایا کہ ایک دعا تم مجھ سے مانگو جو مانگو گے ملے گا حضرت اسحاق نے کہا پھر میری دعا یہ ہے کہ جس نے تیرے ساتھ شریک نہ کیا ہو اسے تو ضرور جنت میں لے جانا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا کہ میں دو باتوں میں سے ایک کو اختیار کرلوں یا تو یہ کہ میری آدھوں آدھ امت بخشی جائے یا یہ کہ میں شفاعت کروں اور اسے اللہ تعالیٰ قبول فرما لے تو میں نے شفاعت کرنے کو ترجیح دی اس پر کہ وہ عام ہوگی ہاں ایک دعا تھی کہ میں وہی کرتا لیکن اللہ کا ایک نیک بندہ مجھ سے پہلے اس دعا کو مانگ چکا تھا ۔ واقعہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت اسحاق سے ذبح ہونے کی تکلیف دور کردی تو ان سے فرمایا گیا کہ تو مانگ جو مانگے گا دیا جائے گا ۔ تو حضرت اسحاق نے فرمایا واللہ شیطان کے بہکانے سے پہلے ہی میں اسے مانگ لوں گا اللہ جو شخص اس حالت میں مرا ہو کہ اس نے تیرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو تو اسے بخش دے اور جنت میں پہنچا دے یہ حدیث ابن ابی حاتم میں ہے لیکن سند اً غریب اور منکر ہے اور اس کے ایک راوی عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم ضعیف ہیں اور مجھے تو یہ بھی ڈر ہے کہ یہ الفاظ کہ ( جب اللہ تعالیٰ نے حضرت اسحاق سے ) آخر تک راوی اپنے نہ ہوں جنہیں انہوں نے حدیث میں داخل کردئیے ہیں ۔ ذبیح اللہ تو حضرت اسماعیل علیہ السلام ہیں ، محل ذبح منیٰ ہے اور وہ مکے میں ہے اور حضرت اسماعیل یہیں تھے نہ کہ حضرت اسحاق وہ تو شہر کنعان میں تھے جو شام ہے ۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے پیارے بچے کو ذبح کرنے کے لیے لٹا دیتے ہیں جناب باری سے ندا آتی ہے کہ بس ابراہیم تم اپنے خواب کو پورا کرچکے ۔ سدی سے روایت ہے کہ جب خلیل اللہ نے ذبیح اللہ کے حلق پر چھری پھیری تو گردن تانبے کی ہوگئے اور نہ کٹی اور یہ آواز آئی ۔ ہم اسی طرح نیک کاروں کو بدلہ دیتے ہیں ۔ یعنی سختیوں سے بچالیتے ہیں اور چھٹکارا کردیتے ہیں ۔ جیسے فرمایا اللہ سے ڈرتے رہنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ چھٹکارے کی صورت نکال ہی دیتا ہے اور اسے ایسی طرح روزی پہنچاتا ہے کہ اس کے گمان و وہم میں بھی نہ ہو ۔ اللہ پر بھروسہ کرنے والوں کو اللہ ہی کافی ہے اللہ اپنے کاموں کو مکمل کرکے چھوڑتا ہے ہر چیز کا اس نے ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے ۔ اس آیت سے اس پر استدلال کیا گیا ہے کہ فعل پر قدرت پانے سے پہلے ہی حکم منسوخ ہو سکتا ہے ہاں معتزلہ اسے نہیں مانتے ۔ وجہ استدلال بہت ظاہر ہے اس لیے کہ خلیل اللہ کو اپنے بیٹے کے ذبح کرنے کا حکم ہوتا ہے اور پھر ذبح سے پہلے ہی فدئیے کے ساتھ منسوخ کردیا جاتا ہے ۔ مقصود اس سے یہ تھا کہ صبر کا اور بجا آوری حکم پر مستعدی کا ثواب مرحمت فرما دیا جائے ۔ اسی لیے ارشاد ہوا یہ تو صرف ایک آزمائش تھی کھلا امتحان تھا کہ ادھر حکم ہوا ادھر تیاری ہوئی ۔ اسی لیے جناب خلیل اللہ علیہ السلام کی تعریف میں قرآن میں ہے ابراہیم بڑا ہی وفادار تھا ۔ بڑے ذبیح کے ساتھ ان کا فدیہ ہم نے دیا ۔ سفید رنگ بڑی آنکھوں اور بڑے سینگوں والا عمدہ خوراک سے پلا ہوا منیڈھا فدئیے میں دیا گیا جو ژیر ببول کے درخت سے بندھا ہوا ملا ۔ جو جنت میں چالیس سال چرتا رہا ۔ منیٰ میں ژیر کے پاس جو چٹان ہے اس پر یہ جانور ذبح کیا گیا یہ چیختا ہوا اوپر سے اترا تھا ۔ یہی وہ مینڈھا ہے جسے ہابیل نے اللہ کی راہ میں قربان کیا تھا ۔ اس کی اون قدرے سرخی مائل تھی اسکا نام جریر تھا ۔ بعض کہتے ہیں مقام ابراہیم پر اسے ذبح کیا ۔ کوئی کہتا ہے مٹی میں نحر پر ۔ ایک شخص نے اپنے تئیں راہ اللہ میں ذبح کرنے کی منت مانی تھی تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اسے ایک سو اونٹ ذبح کرنے کا فتویٰ دیا تھا لیکن پھر فرماتے تھے کہ اگر میں اسے ایک بھیڑ ذبح کرنے کو کہتا تب بھی کافی تھا کیونکہ کتاب اللہ میں ہے کہ حضرت ذبیح اللہ کا فدیہ اسی سے دیا گیا تھا ۔ اکثر لوگوں کا یہی قول ہے بعض کہتے ہیں یہ پہاڑی بکرا تھا ۔ کوئی کہتا ہے نر ہرن تھا ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بلا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے بھیڑ کے سینگ بیت اللہ شریف میں داخلے کے وقت اندر دیکھے تھے اور مجھے یاد نہ رہا کہ میں تجھے ان کے ڈھانک دینے کا حکم دوں جاؤ اسے ڈھک دو بیت اللہ میں کوئی ایسی چیز نہ ہونی چاہئے جو نمازی کو اپنی طرف متوجہ کر لے ۔ حضرت سفیان فرماتے ہیں اس بھیڑ کے سینگ بیت اللہ میں ہی رہے یہاں تک کہ ایک مرتبہ بیت اللہ میں آگ لگی اس میں وہ جل گئے ، یہ واقعہ بھی اس امر کی دلیل ہے کہ ذبیح اللہ حضرت اسماعیل تھے اسی وجہ سے ان کی اولاد قریش تک یہ سینگ برابر اور مسلسل چلے آئے یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے مبعوث فرمایا ۔ واللہ اعلم ۔ ان آثار کا بیان جن میں ذبیح اللہ کا نام ہے ابو میسرہ فرماتے ہیں حضرت یوسف علیہ السلام نے بادشاہ سے فرمایا کیا تو میرے ساتھ کھانا چاتا ہے میں یوسف بن یعقوب نبی اللہ بن اسحاق ذبیح اللہ بن ابراہیم خلیل اللہ ہوں ( عبید بن عمیر ) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جناب باری میں عرض کی کہ اے اللہ کیا وجہ ہے جو لوگوں کی زبانوں پر یہ چڑھا ہوا ہے کہ ابراہیم اسمعیل اور یعقوب کے اللہ کی قسم ، تو جواب ملا اس لئے ابراہیم نے تو ہر ہر چیز پر مجھی کو ترجیح دی اور اسحاق علیہ السلام نے اپنے تئیں میری راہ میں ذبح ہونے کے لئے سپرد کر دیا پھر بھلا اور چیزیں اسے پیش کر دینا کیا مشکل تھیں اور یعقوب کو میں جوں جوں بلاؤں میں ڈالتا گیا اس کے حسن ظنی میرے ساتھ بڑھتی ہی رہی ۔ ابن مسعود کے سامنے ایک مرتبہ کسی نے فخراً اپنے باپ دادوں کا نام لیا تو آپ نے فرمایا قابل فخر باپ دادا تو حضرت یوسف کے تھے جو یعقوب بن اسحاق اور ذبیح اللہ بن ابراہیم خلیل اللہ تھے ۔ عکرمہ ، ابن عباس ، خود عباس ، علی سعید بن جبیر ، مجاہد ، شعبی ، عبید بن عمر ، ابو میسرہ ، زید بن اسلم ، عبداللہ بن شفیق ، زہری ، قاسم بن ابو برزہ ، محکول ، عثمان بن ابی عاص ، سدی ، حسن ، قتادہ ، ابو الہذیل ، ابن سابط ، کعب احبار رحمہم اللہ اجمعین ، ان سب کا یہی قول ہے اور ابن جریر بھی اسی کو اختیار کرتے ہیں کہ ذبیح اللہ حضرت اسحاق علیہ السلام تھے ۔ صحیح علم تو اللہ کو ہی ہے مگر بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان سب بزرگوں کے استاد حضرت کعب احبار ہیں ۔ یہ خلافت فاروقی میں مسلمان ہوئے تھے اور کبھی کبھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو قدیمی کتابوں کی باتیں سناتے تھے ، لوگوں نے اسے رخصت سمجھ کر پھر ان سے ہر ایک بات بیان کرنی شروع کر دی اور صحیح غلط کی تمیز اٹھ گئی حق تو یہ ہے کہ اس امت کو اگلی کتابوں کی ایک بات کی بھی حاجت نہیں ۔ بغوی نے کچھ اور نام بھی صحابہ تابعین کے بتلائے ہیں جنہوں نے کہا ہے کہ ذبیح اللہ حضرت اسحاق ہیں ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی یہ آیا ہے اگر وہ حدیث صحیح ہوتی تو جھگڑے کا فیصلہ تھا مگر وہ حدیث صحیح نہیں اس میں دو راوی ضعیف ہیں ۔ حسن بن دینار متروک ہیں اور علی بن زید بن جدعان منکر الحدیث ہیں اور زیادہ صحیح یہ ہے کہ ہے یہ بھی موقف ، چنانچہ ایک سند سے یہ مقولہ حضرت ابن عباس کا مروی ہے اور یہی زیادہ ٹھیک ہے ۔ واللہ اعلم ۔ اب ان آثار کو سنئے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ذبیح اللہ حضرت اسماعیل ہی تھے اور یہی ٹھیک اور بالکل درست بھی ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ یہی فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہودی حضرت اسحاق کا نام جھوٹ موٹ لیتے ہیں ابن عمر مجاہد شعبی حسن بصری محمد بن کعب قرظی ، خلیفہ المسلمین حضرت عمر ابن عبدالعزیز رحمتہ اللہ کے سامنے جب محمد بن قرظی نے یہ فرمایا اور ساتھ ہی اس کی دلیل بھی دی کہ ذبح کے ذکر کے بعد قرآن میں خلیل اللہ کو حضرت اسحاق کے پیدا ہونے کی بشارت کا ذکر ہے اور ساتھ ہی بیان ہے کہ ان کے ہاں بھی لڑکا ہو گا یعقوب نامی جب ان کے ہاں لڑکا ہونے کی بشارت دی گی تھی پھر باوجود ان کے ہاں لڑکا نہ ہوں کے اس سے پہلے ہی ان کے ذبح کرنے کا حکم کیسے دیا جاتا ہے؟ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ بہت صاف دلیل ہے میرا ذہن یہاں نہیں پہنچا تھا گو یہ میں بھی جانتا تھا کہ ذبیح اللہ حضرت اسماعیل ہی ہیں پھر شاہ اسلام نے شام کے ایک یہودی عالم سے پوچھا جو مسلمان ہوگئے تھے کہ تم اس بارے میں کیا علم رکھتے ہو انہوں نے فرمایا امیر المسلمین سچ تو یہی ہے کہ جن کے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا وہ حضرت اسماعیل ہی تھے لیکن چونکہ عرب ان کی اولاد میں سے ہیں تو یہ بزرگی ان کی طرف لوٹتی ہے اس حسد کے بارے میں یہودیوں نے اسے بدل دیا اور حضرت اسحاق کا نام لے دیا ۔ حقیقی علم اللہ ہی کو ہے ہمارا ایمان ہے کہ حضرت اسماعیل حضرت اسحاق دونوں ہی طاہر و طیب اور اللہ کے سچے فرمانبردار تھے ۔ کتاب الزہد میں ہے کہ حضرت امام احمد بن حنبل کے صاحبزادے حضرت عبداللہ نے اپنے والد سے جب یہ مسئلہ پوچھا تو آپ نے جواب دیا کہ ذبح ہونے والے حضرت اسماعیل ہی تھے ۔ حضرت علی حضرت ابن عمر ابو الطفیل ، سعید بن مسیب ، سعید بن جبیر ، حسن ، مجاہد ، شعبی ، محمد بن کعب ، ابو جعفر محمد بن علی ابو صالح رضی اللہ عنہم سے بھی یہی مروی ہے ۔ امام بغوی نے اور بھی صحابہ اور تابعین کے نام گنوائے ہیں ۔ ایک غریب حدیث بھی اسی کی تائید میں مروی ہے اس میں ہے کہ شام میں امیر معاویہ کے سامنے یہ بحث چھڑی کہ ذبیح اللہ کون ہیں؟ تو آپ نے فرمایا خوب ہوا جو یہ معاملہ مجھ جیسے باخبر شخص کے پاس آیا سنو ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے جب ایک شخص آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا اے اللہ کی راہ میں دو ذبح ہونے والوں کی نسل کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بھی مال غنیمت میں سے کچھ دلوایئے اس پر آپ ہنس دیئے ۔ ایک تو ذبح اللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والد عبداللہ تھے دوسرے حضرت اسمعیل جن کی نسل میں سے آپ ہیں ۔ عبداللہ کے ذبیح اللہ ہونے کا واقعہ یہ ہے کہ آپ کے دادا عبدالمطلب نے جب چاہ زمزم کھودا تو نذر مانی تھی کی اگر یہ کام آسانی سے پورا ہو گیا تو اپنے ایک لڑکے کو راہ اللہ میں ذبح کروں گا جب کام ہو گیا اور قرعہ اندازی کی گئی کہ کس بیٹے کو اللہ کے نام پر ذبح کریں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والد عبداللہ کا نام نکلا ۔ ان کے ننھیال والوں نے کہا آپ ان کی طرف سے ایک سو اونٹ راہ اللہ ذبح کر دیں چنانچہ وہ ذبح کر دیئے گئے اور اسماعیل کے ذبیح اللہ ہونے کا واقعہ تو مشہور ہی ہے ابن جریر میں یہ روایت موجود ہے اور مغازی امویہ میں بھی امام ابن جریر نے حضرت اسحاق کے ذبیح اللہ ہونے کی ایک دلیل تو یہ پیش کی یہ کہ جس علیم بچے کی بشارت کا ذکر ہے اس سے مراد حضرت اسحاق ہیں قرآن میں اور جگہ ہے وبشر و بغلام علیم اور حضرت یعقوب کی بشارت کا یہ جواب دیا ہے کہ وہ آپ کے ساتھ چلنے پھرنے کی عمر کو پہنچ گئے تھے اور ممکن ہے کہ یعقوب کے ساتھ ہی کوئی اور اولاد بھی ہوئی ہو اور کعبتہ اللہ میں سینگوں کی موجودگی کے بارے میں فرماتے ہیں بہت ممکن ہے کہ یہ بلادکنعان سے لا کر یہاں رکھے گئے ہوں اور بعض لوگں سے حضرت اسحاق کے نام کی صراحت بھی آئی ہے ، لیکن یہ سب باتیں حقیقت سے بہت دور ہیں ۔ ہاں حضرت اسماعیل کے ذبیح اللہ ہونے پر محمد بن کعب قرظی کا استدلال بہت صاف اور قوی ہے ۔ واللہ اعلم ۔ پہلے ذبیح اللہ حضرت اسمعیل علیہ السلام کے تولد ہونے کی بشارت دی گئی تھی یہاں اس کے بعد ان کے بھائی حضرت اسحاق کی بشارت دی جا رہی ہے ۔ سورہ ہود اور سورہ حجر میں بھی اس کا ذکر گذر چکا ہے ۔ نبیاً حال مقدرہ ہے یعنی وہ نبی صالح ہو گا ۔ ابن عباس فرماتے ہیں ذبیح اللہ اسحاق تھے اور یہاں نبوت حضرت اسحاق کو بشارت ہے ۔ جیسے حضرت موسیٰ کے بارے میں فرمان ہے کہ ہم نے انہیں اپنی رحمت سے ان کے بھائی ہارون کو نبی بنا دیا ۔ حالانکہ حضرت ہارون حضرت موسیٰ سے بڑے تھے تو یہاں بھی ان کی نبوت کی بشارت ہے ۔ پس یہ بشارت اس وقت دی گئی جبکہ امتحان ذبح میں وہ صابر ثابت ہوئے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ یہ بشارت دو مرتبہ دی گئی پیدائش سے کچھ قبل اور نبوت سے کچھ قبل ۔ حضرت قتادہ سے بھی یہی مروی ہے ۔ ان پر اور اسحاق پر ہماری برکتیں ہم نے نازل فرمائیں ، ان کی اولاد میں ہر قسم کے لوگ ہیں نیک بھی بد بھی ۔ جیسے حضرت نوح علیہ السلام سے فرمان ہوا تھا کہ اے نوح ہماری سلام اور برکت کے ساتھ تواتر ۔ تو بھی اور تیرے ساتھ والے بھی اور ایسے بھی لوگ ہیں جنہیں ہم فائدے پہنچائیں گے پھر انہیں ہماری طرف سے درد ناک عذاب پہنچیں گے ۔ "   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

99۔ 1 حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ واقعہ بابل (عراق) میں پیش آیا، بالآخر یہاں سے ہجرت کی اور شام چلے گئے اور وہاں جا کر اولاد کے لئے دعا کی (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٤] شام کی طرف ہجرت :۔ جب آپ کا باپ اور آپ کی ساری قوم آپ کی جانی دشمن بن گئی تو آپ نے ترک وطن کا فیصلہ کرلیا کہ اب یہاں سے نکل جانا ہی بہتر ہے۔ نکلتے وقت یہ بھی معلوم نہ تھا کہ کہاں جانا ہے۔ فقط اتنا کہا کہ میں اللہ کی خاطر ہجرت پر روانہ ہوا ہوں۔ مجھے کہاں جانا چاہئے یہ بات میرا پروردگار مجھے خود...  ہی بتائے گا اور میری رہنمائی فرمائے گا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو شام کی طرف جانے کا حکم ہوا اور آپ اپنی بیوی اور بھتیجا یا چچا زاد بھائی سیدنا لوط سمیت شام کی طرف چلے گئے اس وقت تک صرف سیدنا لوط ہی آپ پر ایمان لائے تھے۔ اور آپ کی اس وقت تک کوئی اولاد بھی نہ تھی۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَالَ اِنِّىْ ذَاهِبٌ اِلٰى رَبِّيْ : قرطبی نے فرمایا : ” یہ آیت ہجرت اور کفار سے علیحدگی اختیار کرنے میں اصل ہے۔ “ آگ سے سلامتی کے ساتھ نکلنے کے عظیم معجزے کے بعد بھی جب لوط (علیہ السلام) کے سوا کوئی شخص ایمان نہ لایا تو ابراہیم (علیہ السلام) نے وہاں سے ہجرت کا فیصلہ فرمایا اور کہنے لگے، میں اپنی...  قوم اور اپنے وطن سے، جہاں کفر کا تسلط ہے، اپنے رب کی طرف جاتا ہوں، جہاں آزادی سے اپنے رب کی عبادت کرسکوں اور اس کے دین کی دعوت دے سکوں۔ ان کے ساتھ ان کی بیوی سارہ اور بھتیجے لوط (علیہ السلام) تھے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ آدمی جب کسی جگہ اپنے دین پر پوری طرح عمل نہ کرسکے تو اسے وہاں سے ہجرت کرنی چاہیے۔ سَيَهْدِيْنِ : یہ اصل میں ” سَیَھْدِیْنِيْ “ ہے، یہاں ” سین “ تاکید کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ” وہ مجھے ضرور راستہ دکھائے گا “ کیا گیا ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) جب اپنے وطن سے نکلے تو انھیں معلوم نہ تھا کہ کہاں جانا ہے، مگر انھیں اپنے رب پر بھروسے کی وجہ سے یقین تھا کہ وہ ضرور ان کی راہ نمائی فرمائے گا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اِحْفَظِ اللّٰہَ یَحْفَظْکَ ) [ ترمذي، صفۃ القیامۃ والرقائق، باب : ٢٥١٦ ] ” تو اللہ تعالیٰ کا دھیان رکھ وہ تیرا دھیان رکھے گا۔ “ اور یہ بات یقینی ہے کہ جو شخص اللہ کی خاطر کوئی چیز چھوڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس سے بہتر چیز عطا فرماتا ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی راہ نمائی مبارک سرزمین شام کی طرف فرمائی۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The sacrifice of a son Another event in the blessed life of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) has been described in the verses cited above. This is the event of the sacrifice of his first-born son in the way of Allah. Explanatory Notes on the verses The first verse (99) opens with the words:... وَقَالَ إِنِّي ذَاهِبٌ إِلَىٰ رَ‌بِّي سَيَهْدِينِ (And he said, |"I am going to my Lord...). Sa... yyidna Ibrahim (علیہ السلام) said this at a time when he was totally disappointed by his countrymen, for nobody except Sayyidna Lut (علیہ السلام) ، his nephew, was willing to believe in him. The statement: دار الکفر (I am going to my Lord) means that he will leave the abode of disbelief and go to a place whereto Allah Ta’ ala has commanded him to go, a place where he will be able to worship his Lord in peace. So, he started on a journey accompanied by his blessed wife, Sayyidah Sarah (رض) and his nephew, Sayyidna Lut (علیہ السلام) . After having passed through different areas of Iraq, he finally reached Syria. Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) had no children until then, therefore, he made the prayer mentioned in the next verse (100).  Show more

خلاصہ تفسیر اور ابراہیم (علیہ السلام جب ان لوگوں کے ایمان سے مایوس ہوگئے تو) کہنے لگے کہ میں تو (تم سے ہجرت کر کے) اپنے رب کی (راہ میں کسی) طرف چلا جاتا ہوں، وہ مجھ کو (اچھی جگہ) پہنچا ہی دے گا، (چنانچہ ملک شام میں جا پہنچے اور یہ دعا کی کہ) اے میرے رب مجھ کو ایک نیک فرزند دے، سو ہم نے ان کو ایک ح... لیم المزاج فرزند کی بشارت دی (اور وہ فرزند پیدا ہوا اور ہشیار ہوا) سو جب وہ لڑکا ایسی عمر کو پہنچا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ چلنے پھرنے لگا، تو ابراہیم (علیہ السلام) نے (ایک خواب دیکھا کہ میں اس فرزند کو خدا کے حکم سے ذبح کر رہا ہوں، اور یہ ثابت نہیں کہ حلقوم کٹا ہوا بھی دیکھا یا نہیں، غرض آنکھ کھلی تو اسے اللہ کا حکم سمجھے، کیونکہ انبیاء کا خواب بھی وحی ہوتا ہے اور اس حکم کی تعمیل پر آمادہ ہوگئے۔ پھر یہ سوچ کر کہ خدا جانے میرے فرزند کی اس بارے میں کیا رائے ہو، اس کو اطلاع کرنا ضروری سمجھا، اس لئے اس سے) فرمایا کہ برخوردار میں دیکھتا ہوں کہ میں تم کو (بامر الٰہی) ذبح کر رہا ہوں، سو تم بھی سوچ لو تمہاری کیا رائے ہے ؟ وہ بولے ابا جان (اس میں مجھ سے پوچھنے کی کیا بات ہے، جب آپ کو خدا کی طرف سے حکم کیا گیا ہے تو) آپ کو جو حکم ہوا ہے آپ (بلاتامل) کیجئے، انشاء اللہ تعالیٰ آپ مجھ کو سہار کرنے والوں میں سے دیکھیں گے، غرض جب دونوں نے (خدا کے حکم کو) تسلیم کرلیا، اور باپ نے بیٹے کو (ذبح کرنے کے لئے) کروٹ پر لٹایا اور (چاہتے تھے کہ گلا کاٹ ڈالیں اور اس وقت) ہم نے ان کو آواز دی کہ ابراہیم (شاباش ہے) تم نے خواب کو خوب سچ کر دکھایا (یعنی خواب میں جو حکم ہوا تھا اپنی طرف سے اس پر پورا عمل کیا اب ہم اس حکم کو منسوخ کرتے ہیں بس ان کو چھوڑ دو ۔ غرض ان کو چھوڑ دیا، جان کی جان بچ گئی، اور بلند درجات مزید برآں عطا ہوئے) ہم مخلصین کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں (کہ دونوں جہاں کی راحت انہیں عطا کرتے ہیں) حقیقت میں یہ تھا بھی بڑا امتحان (جس کو بجز مخلص کامل کے دوسرا برداشت نہیں کرسکتا تو ہم نے ایسے امتحان میں پورا اترنے پر صلہ بھی بڑا بھاری دیا، اور اس میں جیسا امتحان ابراہیم (علیہ السلام) کا تھا، اسی طرح اسماعیل (علیہ السلام) کا بھی تھا، تو وہ صلہ میں شریک ہوں گے) اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے عوض میں دیا (کہ ابراہیم (علیہ السلام) سے وہ ذبح کرایا گیا) اور ہم نے پیچھے آنے والوں میں یہ بات ان کے لئے رہنے دی کہ ابراہیم پر سلام ہو (چنانچہ ان کے نام کے ساتھ اب تک ” (علیہ السلام) “ کہا جا رہا ہے) ہم مخلصین کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں، (کہ انہیں لوگوں کی دعاؤں اور سلامتی کی بشارتوں کا مرکز بنا دیتے ہیں) بیشک وہ ہمارے ایمان دار بندوں میں سے تھے اور ہم نے (ایک انعام ان پر یہ کیا کہ) ان کو اسحاق (علیہ السلام) کی بشارت دی کہ نبی اور نیک بختوں میں ہوں گے اور ہم نے ابراہیم پر اور اسحاق پر برکتیں نازل کیں (ان برکتوں میں سے ایک یہ ہے کہ ان کی نسل بہت پھیلی اور اس نسل میں کثرت سے انبیاء پیدا ہوئے) اور (پھر آگے) ان دونوں کی نسل میں بعضے اچھے بھی ہیں اور بعضے ایسے بھی جو (بدیاں کر کے) صریح اپنا نقصان کر رہے ہیں۔ معارف ومسائل بیٹے کی قربانی کا واقعہ : ان آیات میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی حیات طیبہ کا ایک دوسرا اہم واقعہ بیان کیا گیا ہے، جس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کے لئے اپنے اکلوتے فرزند کی قربانی پیش کی، واقعہ کے بنیادی اجزاء خلاصہ تفسیر سے واضح ہوجاتے ہیں، بعض تاریخی تفصیلات آیتوں کی تفسیر کے ذیل میں آجائیں گی : وَقَالَ اِنِّىْ ذَاهِبٌ اِلٰى رَبِّيْ (اور ابراہیم (علیہ السلام) کہنے لگے کہ میں تو اپنے رب کی طرف چلا جاتا ہوں) یہ بات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس وقت ارشاد فرمائی جبکہ آپ اپنے اہل وطن سے بالکل مایوس ہوگئے، اور وہاں آپ کے بھانجے حضرت لوط (علیہ السلام) کے سوا کوئی آپ پر ایمان نہیں لایا۔ ” رب کی طرف چلے جانے “ سے مراد یہ ہے کہ میں دارالکفر کو چھوڑ کر کسی ایسی جگہ چلا جاؤں گا جہاں کا مجھے اپنے رب کی طرف سے حکم ہوا ہے، اور جہاں میں اپنے پروردگار کی عبادت کرسکوں گا، چناچہ آپ اپنی زوجہ مطہرہ حضرت سارہ اور اپنے بھانجے حضرت لوط (علیہ السلام) کو لے کر سفر پر روانہ ہوئے، اور عراق کے مختلف حصوں سے ہوتے ہوئے بالاخر شام تشریف لے آئے۔ اس تمام عرصہ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی، اس لئے آپ نے وہ دعا فرمائی جس کا اگلی آیت میں ذکر ہے   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ اِنِّىْ ذَاہِبٌ اِلٰى رَبِّيْ سَيَہْدِيْنِ۝ ٩٩ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہ... وسکتا ہے ۔ ذهب الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات/ 99] ، ( ذ ھ ب ) الذھب ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات/ 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

حضرت ابراہیم نے ان لوگوں سے مایوس ہو کر لوط سے فرمایا کہ میں اپنے پروردگار کی عبادت کے لیے کسی طرف چلا جاتا ہوں وہ مجھے اچھی جگہ پہنچا ہی دے گ اور ان لوگوں سے نجات دے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٩{ وَقَالَ اِنِّیْ ذَاہِبٌ اِلٰی رَبِّیْ سَیَہْدِیْنِ } ” اور اب اس نے کہا کہ میں اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں ‘ وہ ضرور میری راہنمائی کرے گا۔ “ یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ہجرت کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ جب کوئی قوم اپنے نبی یا رسول کے قتل پر آمادہ ہوجائے تو پھر وہ نبی ... یا رسول مزید اس قوم کے درمیان نہیں رہتے۔ آپ ( علیہ السلام) کی قوم نے تو آپ ( علیہ السلام) کے قتل کی صرف منصوبہ بندی ہی نہیں کی تھی بلکہ آپ ( علیہ السلام) کو بالفعل آگ میں ڈال دیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اللہ نے آپ ( علیہ السلام) کو معجزانہ طور پر بچا لیا۔ اسی طرح یہودیوں نے بھی اپنے طور پر حضرت مسیح (علیہ السلام) کو سولی پر چڑھا دیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی تدبیر کو ناکام بنایا اور آپ ( علیہ السلام) کو اپنی طرف اٹھا لیا۔ اسی طرح مشرکین مکہ نے بھی جب محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کا ارادہ کیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے کے لیے جمع ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مدینہ منورہ پہنچا دیا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ کے اس قانون کے تحت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے عراق سے ہجرت کا ارادہ فرمایا۔ اس وقت تک آپ ( علیہ السلام) کو شاید ہجرت کی منزل کے بارے میں معلوم نہیں تھا ‘ اس لیے آپ ( علیہ السلام) نے فرمایا کہ میرا پروردگار خود میری راہنمائی فرمائے گا کہ مجھے کدھر جانا ہے۔ چناچہ آپ ( علیہ السلام) نے عراق سے فلسطین کی طرف ہجرت کی ‘ جس کے لیے آپ ( علیہ السلام) کو بہت لمبا راستہ اختیار کرنا پڑا۔ عراق ‘ شام اور فلسطین کے درمیان شرق اردن کا پورا علاقہ لق و دق صحرا پر مشتمل ہے ‘ جسے عبور کرنا بالکل ناممکن تھا۔ چناچہ آپ ( علیہ السلام) دریائے فرات کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے اوپر شام کے شمالی علاقے ” باران “ پہنچے اور وہاں سے نیچے فلسطین کے علاقے میں داخل ہوئے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

54 The Prophet Abraham said these words on his departure after he had been delivered safe from the fire and had decided to leave the country. 55 It mean: "I am leaving my home and country for the sake of Allah, for my people have turned hostile to me only because of my turning to Him exclusively; otherwise there was no worldly dispute between them and me because of which I might have had to Leave...  my country. Moreover. I have no place of refuge in the world, to which I may turn. I am leaving my home with full faith and trust only in AIlah: I shall go wherever He leads me. "  Show more

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :54 یعنی آگ سے بسلامت نکل آنے کے بعد جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ملک سے نکل جانے کا فیصلہ کیا تو چلتے وقت یہ الفاظ کہے ۔ سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :55 اس کا مطلب یہ ہے کہ میں اللہ کی خاطر نکل رہا ہوں کیونکہ اسی کا ہو جانے کی وجہ سے میری قوم میری دشمن ہو گئی ہے ور... نہ کوئی دنیوی جھگڑا میرے اور اس کے درمیان نہ تھا کہ اس کی بنا پر مجھے اپنا وطن چھوڑنا پڑ رہا ہو ۔ نیز یہ کہ میرا دنیا میں کوئی ٹھکانا نہیں ہے جس کا رخ کروں ۔ تن بتقدیر بس اللہ کے بھروسے پر نکل رہا ہوں ۔ جدھر وہ لے جائے گا اسی طرف چلا چاؤں گا ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

18: حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اصل وطن عراق تھا، اس واقعے کے بعد آپ شام کی طرف ہجرت فرما گئے تھے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:99) قال۔ ای قال ابراہیم۔ سیھدین۔ اس میں س تاکید وقوع کے لئے ہے۔ اور فعل کو مستقبل میں وقوع پذیر ہونے کو ظاہر کرتا ہے والسین لتاکید الوقوع فی المستقبل (روح المعانی) ۔ یھدین مضارع واحد مذکر غائب نون وقایہ ی متکلم کی محذوف ۔ وہ میری ضرور رہنمائی کرے گا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی کافروں کے ملک سے ہجرت کرتا ہوں۔ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم کو سب سے پہلے ملک شام پہنچنے کا حکم دیا۔ ( فتح القدیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 99 تا 113 :۔ ذاھب ( جانے والا) ھب (عطاء کر) غلام ( بیٹا ، لڑکا) حلیم ( برداشت کرنے والا ، حلیم الطبع) المنام ( نیند ، خواب) اسلما (دونوں نے گردن جھکادی) تلہ (اس کو لٹا دیا ، گرایا) جبین ( پیشانی) الرء یا ( خواب) ذبح عظیم (بڑا ذبیحہ (مینڈھا) محسن ( نیکیاں کرنے والا) تشریح : آیت...  نمبر 99 تا 113 :۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کی سب سے بڑی آزمائش یہی تھی کہ جب آپ نے پوری قوم کے سامنے ان کے بتوں کی بےبسی اور حقیقت کھول کر رکھ دی تب ان کو اس زبردست آگ میں پھینکا گیا جس کے شعلوں کی بلندی کا یہ حال تھا کہ اگر اس آگ پر سے کوئی پر نہ بھی گزر جاتا تو وہ جل بھن کر کباب ہوجاتا ۔ جب کسی طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس آگ میں پھینکا گیا تو اللہ کے حکم سے یہ آگ ان پر گل و گلزار ہوگئی ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی جرأت و ہمت اور مزاج کے استقلال کا یہ حال تھا کہ آپ نے آگ میں جل جانا گوارا کیا مگر اپنی طویل دعوتی جدوجہد کو ترک نہیں کیا ۔ اسی زبردست ایثار و قربانی کی وجہ سے اللہ نے ان کو ساری دنیا کو امام و پیشوا بنا دیا ۔ اللہ نے فرما دیا کہ جو بھی ان کے راستے پر چلے گا اس کو بھی اسی طرح عزت و عظمت سے نوازا جائے گا ۔ آگ سے صحیح سلامت نکلنے کے بعد آپ نے اللہ کے بھروسے پر وطن چھوڑنے اور ایک نامعلوم منزل کی طرف ہجرت کرنے کا فیصلہ فرما لیا اور کہا میں تو اللہ کی رضا و خوشنودی کی خاطر وطن سے نکلا ہوں جس ذات پر بھروسہ ہے وہی مجھے صحیح راستہ دکھائے گا ۔ وہ مجھے جہاں بھی پہنچائے گا میں وہیں پہنچ جاؤں گا ۔ چناچہ آپ اپنی بیوی حضرت سارہ اور اپنے بھیجتے حضرت لوط (علیہ السلام) جو ان پر ایمان لا چکے تھے عراق سے نکل کھڑے ہوئے۔ اللہ نے آپ کا رخ شام و فلسطین کی طرف کردیا ۔ حضرت سارہ نے جب یہ سمجھ لیا کہ ان کے بطن سے اولاد پیدا ہونے کے کوئی آثار نہیں ہیں تو انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے درخواست کی کہ وہ حضرت ہاجرہ سے نکاح کرلیں شاید ان سے اولاد پیدا ہونے کے کوئی آثار نہیں ہیں تو انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے درخواست کی کہ وہ حضرت ہاجرہ سے نکاح کرلیں شاید ان سے اولاد پیدا ہوجائے اور آپ جس مشن اور مقصد کو لے کر چل رہے ہیں وہ پروان چڑھے ۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے اسباب پیدا کردیئے کہ آپ کا نکاح حضرت ہاجرہ سے ہوگیا ۔ اس وقت انہوں نے اللہ کی بارگاہ میں یہ عاجزانہ درخواست پیش کی الٰہی ! مجھے ایک صالح اور نیک بیٹا عطاء فرما ۔ مقصد یہ تھا کہ الٰہی میں جس عظیم مقصد کے لئے قربانیاں دے رہا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ ساری دنیا میں دین اسلام کا سچا پیغام پہنچ جائے اس کے لئے مجھے صالح بیٹا عطاء فرماتا کہ اس کے ذریعہ اس مقصد کی تکمیل ہوجائے ۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو قبول کرتے ہوئے ایک ایسے بیٹے کی خوش خبری سنائی جو حلیم الطبع حلم و برداشت والا اور نبی بھی ہوگا ۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) جیسا حلیم الطبع بیٹا عطاء فرمایا ۔ قرآن کریم میں یہ تفصیل بیان کی گئی کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حضرت ہاجرہ اور اپنے شیر خوار بچے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو حجاز یعنی مکہ مکرمہ میں آباد کیا ۔ حضرت اسماعیل کی عمر مبارک تیرہ سال کی ہوگئی یعنی جو عمر ماں باپ کے ساتھ بھاگ دوڑ کی ہوتی ہے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے اس بیٹے کو جو بڑی دعاؤں اور ارمانوں سے ملا ہے اس کو ذبح کر رہے ہیں ۔ آپ نے یہ خواب مسلسل تین راتوں تک دیکھا چونکہ انبیاء کرام کے خواب بھی وحی کی ایک کیفیت کا نام ہے اس لئے آپ کو یقین ہوگیا کہ اللہ کی طرف سے انہیں حکم دیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے جگر کے ٹکڑے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو اللہ کے حکم پر قربانی کردیں ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس خواب کا ذکر اپنے بیٹے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) سے کیا کہ میں نے یہ خواب دیکھا ہے اس کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے ؟ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) جانتے تھے کہ اللہ نے ان کے والد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو نبوت و رسالت کا اعلیٰ مقام عطاء فرمایا ہے۔ عرض کیا ابا جان جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے تو آپ اللہ کے حکم کی تعمیل کیجئے۔ انشاء اللہ مجھے آپ انتہائی برداشت کرنے والا اور صبر کرنے والا پائیں گے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے بیٹے کو مکہ مکرمہ سے ذرا فاصلے پر منیٰ کے مقام کی طرف لے گئے۔ راستہ میں تین جگہ شیطان نے مختلف روپ بدل کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) و اسماعیل (علیہ السلام) کو خیر خواہی کے انداز میں بہکانے کی کوشش کی ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یا حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نے ہر مرتبہ سات سات کنکریاں اٹھا کر شیطان کو ماریں جس سے وہ ہر مرتبہ زمین میں دھنس جاتا تھا ۔ حجاج کرام جب حج کرتے ہیں تو وہ شیطان کو کنکریاں مارتے ہیں یہ اسی کی یادگار ہے اور شیطان سے نفرت کا اظہار ہے اور اس بات کا اعلان ہے کہ الٰہی ہمیں بھی شیطان کے فریب اور بہکائے سے محفوظ فرما جس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) و اسماعیل (علیہ السلام) کو محفوظ فرمایا تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کے لئے اس طرح زمین پر لٹایا کہ پیشانی کا ایک کنارہ زمین کو چھونے لگا یعنی کروٹ پر لٹا دیا۔ شاید اس لئے کہ کہیں بیٹے کے معصوم چہرے پر نظر پڑجائے اور محبت کا ایسا غلبہ ہوجائے کہ ان سے حکم کی تعمیل میں کسی طرح کی کمی رہ جائے ۔ چھری تیز کر کے ان کے گلے پر چلانا شروع کی ۔ چونکہ ابراہیم (علیہ السلام) نے خواب میں یہی دیکھا تھا کہ وہ ذبح کر رہے ہیں لیکن یہ نہیں تھا کہ انہوں نے ذبح کردیا ہے اور سر کو تن سے جدا کردیا ہے۔ اللہ کی طرف سے آواز آئی کہ اے ابراہیم (علیہ السلام) تمہارا بیٹا ذبح کرانا نہیں چاہتے تھے ہم تو صرف تمہاری محبت کا امتحان لے رہے تھے تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا یہ تمہاری بہت بڑی آزمائش تھی جس پر تم پورے اترے ہو اور اللہ نے اپنے انعامات کی بارش کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم اپنے نیک اور پرہیز گار بندوں کو ان کا بہترین اجر اسی طرح دیا کرتے ہیں ۔ اللہ نے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی جگہ ایک مینڈھا عطاء فرمایا جس کو حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بدلے ذبح کیا گیا ۔ اللہ نے اس کو ” ذبح عظیم “ اس لئے فرمایا کہ یہ مینڈھا جنت سے اللہ کے حکم سے لایا گیا تھا۔ اب اس سنت کو زندہ رکھنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے اور یہ قربانی کرنا منیٰ یا حجاج کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ جہاں بھی اہل ایمان موجود ہیں وہ ہر سال جانور ذبح کر کے سنت ابراہیمی کو زندہ کرتے ہیں ، چناچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں ہر سال جانوروں کی قربانی دی ہے اور صحابہ کرام (علیہ السلام) نے بھی اسی سنت کو زندہ کیا جس پر آج ساری امت اسی سنت کو زندہ کرنے کی سعادت حاصل کر رہی ہے اور قیامت تک کرتی رہے گی۔ اس موقع پر یہودیوں کی اس سازش کو بےنقاب کرنا ضروری ہے جس میں انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جس بیٹے کی قربانی منیٰ کے مقام پر پیش کی تھی وہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نہیں بلکہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) تھے یہ ایک ایسی غلط بات تھی کہ جس کو تردید خود توریت ہی میں کی گئی ہے۔ لیکن یہودی آج بھی اسی بات پر اڑے ہوئے ہیں کہ وہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) تھے حالانکہ حجاز میں تو حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو آباد کیا گیا تھا اور فلسطین میں حضرت اسحاق (علیہ السلام) ، حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور ان کی اولادوں کو آباد کیا گیا تھا جن کو بنی اسرائیل کہا جاتا تھا۔ حضرت اسحاق (علیہ السلام) تو حجاز میں آئے ہی نہیں تھے جب کہ اعلان نبوت سے پہلے بھی تمام یہود و نصاریٰ اور مشرکین حج کرتے تھے اور منیٰ میں قربانیاں کرتے تھے۔ بعض صحابہ اور اکابرین نے جو اس سے اختلاف کیا ہے وہ اسرائیل روایات کی بنیاد پر کیا ہے کیونکہ حضرت کعب احبار (رض) جو نہایت مخلص مسلمان تھے انہوں نے یہودیت کو چھوڑ کر اسلام قبول کیا تھا اور وہ اسرائیلی روایات بیان کرتے تھے ۔ یہی اس کے راوی ہیں اس لئے بعض بزرگوں کی یہ رائے ہوگئی کہ ” ذبح عظیم “ حضرت اسحاق (علیہ السلام) تھے لیکن توریت کی شہادت اور حج کی روایات سے یہی کہنا صحیح ہے کہ وہ ذبح عظیم حضرت اسماعیل (علیہ السلام) تھے ۔ رہی بات یہودیوں کی رائے کی تو وہ صرف ایک تعصب اور جھوٹ کی بات ہے جس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ توریت کی روایت کے مطابق حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے چودہ ( یا اٹھارہ) سال بعد حضرت سارہ کے بطن سے حضرت اسحاق پیدا ہوئے اور اللہ نے ان کی پیدائش اور ان کے ذریعہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل میں برکت کی خوش خبری عطاء فرمائی ہے۔ اس آیت میں اللہ نے صاف اور واضح طریقے پر بتا دیا کہ بیشک حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں بہت سے نیک اور پرہیز گارہوں گے لیکن بعض وہ بھی ہوں گے جن کو یہ ناز اور گھمنڈ تو ہوگا کہ ہم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں اور ہمارے اعمال کیسے بھی ہوں آخر ہم انبیاء کی اولاد ہیں ۔ ان کی اولاد میں ہونا کافی ہے۔ فرمایا کہ نیک اور پرہیز گار لوگوں کے مقابلے میں ان کی کوئی حیثیت اور مقام نہیں ہے۔ اللہ کے ہاں اعمال کو دیکھا جاتا ہے نسب کو نہیں ۔ انسان کی نجات کا دارومدار اس کے سچے عقیدے ، حسن عمل اور احکام الٰہی پر پوری طرح سے عمل کرنے میں ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ چناچہ ملک شام میں جا پہنچے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : آگ سے نکلنے کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ہجرت کرنے کا فیصلہ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ پہلے سے آپ کو معلوم نہ تھا کہ مجھے کدھر جانا ہے وطن چھوڑتے وقت آپ نے کہا۔ بس میں اللہ کے بھروسے پر نکل رہا ہوں وہ جدھر رہنمائی کرے گا میں چلا جاؤں گا۔ صاحب ... قصص القرآن نے لکھا ہے کہ آپ ( علیہ السلام) نے دوران ہجرت پہلا قیام کلدانین میں فرمایا۔ کچھ عرصہ جہاں قیام کرنے کے بعد آپ ( علیہ السلام) بمعہ حضرت سارہ اور لوط (علیہ السلام) کے حاران نامی بستی میں قیام پذیر ہوئے۔ کچھ عرصہ تک حاران نامی بستی میں ٹھہرے۔ یہاں بھی دین حنیف کی دعوت کا کام جاری رکھا۔ بالآخر آپ اپنی رفیقہ حیات اور بھتیجے کے ساتھ ارض فلسطین میں تشریف لے گئے۔ (وَنَجَّیْنَاہُ وَلُوْطًا إِلَی الْأَرْضِ الَّتِی بَارَکْنَا فِیْہَا لِلْعَالَمِیْنَ ) [ الانبیاء : ٧١] ” پھر ہم لوط (علیہ السلام) اور ابراہیم (علیہ السلام) کو ظالموں سے نکال کر ارض مقدس کی طرف لے گئے جو اس دنیا کے لیے برکت والی ہے۔ “ فلسطین میں قیام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے بھتیجے لوط (علیہ السلام) کو شرق اردن میں تبلیغ کے لئے مقرر فرمایا اور فلسطین کے مغربی اطراف میں خود سکونت پذیر ہوئے۔ اس زمانے میں یہ علاقہ کنعانیوں کے زیر اقتدار تھا۔ یہاں کچھ عرصہ قیام فرمانے کے بعد آپ مصر کی طرف چلے گئے۔ (از قصص القرآن) نازک ترین آزمائش : حضرت امام بخاری (رح) نے تفصیل کے ساتھ ایک حدیث صحیح بخاری میں نقل فرمائی ہے۔ جس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ایک ایسی آزمائش کا ذکر ہے کہ ایسے موقعہ پر بڑے بڑے لوگوں کے اوسان خطا ہوجایا کرتے ہیں لیکن جناب خلیل (علیہ السلام) بڑے حوصلہ کے ساتھ اپنی رفیقہ حیات کو ایک تجویز سمجھاتے ہیں۔ ” جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور بی بی سارہ ایک ظالم حکمران کے ملک سے گزرے تو اسکے نوکر چاکروں نے بادشاہ کو کہا کہ ہمارے شہر میں ایک مسافر آیا ہے جس کی عورت بہت ہی خوبصورت ہے۔ ظالم بادشاہ نے حکم دیا، ابراہیم کو فوراً میرے سامنے پیش کرو۔ آپ سے پوچھا گیا کہ یہ عورت کون ہے ؟ ابراہیم نے کہا یہ میری بہن ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بادشاہ سے فارغ ہو کر حضرت سارہ کے پاس آئے اور کہا اے سارہ ! اس سرزمین میں میرے اور تیرے سوا کوئی مومن نہیں اور ظالم بادشاہ نے مجھے پوچھا ہے کہ تیرے ساتھ عورت کون ہے ؟ میں نے تجھے اپنی بہن کہا ہے۔ تو بھی اس کے سامنے بہن بتلانا۔ ایسا نہ ہو میں جھوٹا ہوجاؤں۔ اس ظالم بادشاہ نے حضرت بی بی سارہ کو جبرا منگوایا۔ جب وہ اس کے پاس پہنچائی گئیں تو ظالم نے دست اندازی کی کوشش کی لیکن دھڑام نیچے گرا۔ فریاد کرنے لگا اے نیک خاتون اپنے رب سے میری عافیت کی دعا کر میں تجھے کچھ نہیں کہوں گا۔ آپ کی دعا سے وہ اچھا ہوگیا پھر دوسری مرتبہ زیادتی کی کوشش کی۔ دوبارہ پھر پہلے کی طرح یا اس سے بھی زیادہ اللہ کی گرفت میں آیا۔ التجا کی۔ اے نیک عورت۔ اب پھر دعا کر میں اچھا ہوجاؤں تو تجھے کچھ نہیں کہوں گا۔ حضرت سارہ ( علیہ السلام) نے دعا کی۔ اللہ کے فضل وکرم سے وہ پھر تندرست ہوا۔ اس بار اس نے اپنے نوکر کو بلا کر کہا تم اچھی عورت میرے پاس لائے ہو یہ عورت ہے یا شیطان ؟ ( بےشرم اپنی بےشرمی کو مٹانے کے لیے ایسا کہہ رہا تھا حالانکہ شیطان لعین وہ خود تھا اس نے ہاجرہ[ کو سارہ (علیہ السلام) کی خدمت میں دے دیا۔ جب سارہ [ جناب ابراہیم (علیہ السلام) کی خدمت میں آئیں تو آپ اللہ کے حضور نماز میں مصروف تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نماز کی حالت میں اشارہ کرتے ہیں کیا کہ معاملہ ہوا ؟ حضرت سارہ (علیہ السلام) نے عرض کیا، اللہ ذوالجلال نے کافر وفاجر کی شرارت کو اس کے اوپر الٹ دیا ہے۔ سارا ماجرا ذکر کیا اور کہا بالآخر اس نے اپنی اس لڑکی کو خادمہ کے طور پر میرے حوالے کردیا ہے۔ جناب ابوہریرہ (رض) نے یہ حدیث مبارکہ ذکر کرنے کے بعد فرمایا۔ اے بارش پر پلنے والو۔ یعنی اے عرب قوم یہی تو تمہاری والدہ ہاجرہ[ ہیں۔ “ [ رواہ البخاری : باب قول اللہ تعالیٰ واتخذ اللہ ابراہیم خلیلا ] تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی راہنمائی کرنے والا ہے اسی سے راہنمائی طلب کرنی چاہیے : ١۔ اللہ کی راہنمائی کے بغیر کوئی ہدایت نہیں پاسکتا۔ (الاعراف : ٤٣) ٢۔ اللہ مومنوں کی صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ (الانعام : ١٦١) ٣۔ ” اللہ “ صراط مستقیم کی راہنمائی کرنے والا۔ ( الحج : ٥٤) ٤۔ ہم نے قوم ثمود کی راہنمائی کی مگر انہوں نے ہدایت کے بدلے جہالت کو پسند کیا۔ (حٰآ السجدۃ : ١٧) ٥۔ ہدایت وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ ہدایت قرار دے۔ (البقرۃ : ١٢٠) ٦۔ ہدایت اللہ کے اختیار میں ہے۔ (القصص : ٥٦) ٧۔ وہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ (البقرۃ : ٢١٣) ٨۔ ہدایت جبری نہیں اختیاری چیز ہے۔ (الدھر : ٣) ٩۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی کسی کو ہدایت نہیں دے سکتے تھے۔ (القصص : ٥٦)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وقال انی۔۔۔۔ سیھدین (99) ” “ میں رب کی طرف ہجرت کر کے جا رہا ہوں۔ یعنی مسافاتی ہجرت سے قبل یہ نفسیاتی اور نظریاتی ہجرت ہے۔ ایک ایسی ہجرت جس میں وہ اپنی تمام ماضی اور آبائی مقام کو خیر آبار کہہ رہے ہیں۔ اپنے باپ اور قوم کو چھوڑ رہے ہیں۔ اپنے گھر اور وطن کو چھوڑ رہے ہیں۔ ان تمام روابط کو کاٹ رہے ہیں ج... و انسان کو اس زمین سے وابستہ کردیتے ہیں۔ ان لوگوں سے وابستہ کردیتے ہیں ، تمام رکاوٹوں کو عبور کرکے آگے بڑھ رہے ہیں۔ تمام مصروفیتوں کو ختم کر رہے ہیں۔ تمام بوجھ ہلکے کرکے اپنے رب کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔ تمام چیزوں کو پش پشت ڈال رہے ہیں۔ اپنی پوری ذات کو رب کے سپرد کر رہے ہیں۔ اور اپنی ذات کا کوئی حصہ اپنے لیے نہیں رکھ رہے ہیں انہیں یقین ہے کہ ان کا رب ضرور انہیں ہدایت دے گا۔ ان کی مدد کرے گا اور سیدھی راہ سجھائے گا۔ یہ ایک مکمل ہجرت ہے بلکہ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف مکمل انتقال ہے۔ تمام روابط کو کاٹ کر صرف ایک رب سے جڑنا ، یہ گویا نہایت ہی یکسوئی ، تجرد ، خلوص اور سرتسلیم خم کردینے کا اقدام ہے۔ پورے اطمینان اور پورے یقین کے ساتھ۔ حضرت ابراہیم اس وقت تک اکیلے تھے۔ ان کی کوئی اولاد نہ تھی۔ پیچھے وہ جو کچھ چھوڑ رہے تھے وہ اقرباء اور رشتہ داری کے تعلقات تھے۔ ہر قسم کی دوستی اور آشنائی کو ترک کر رہے تھے ۔ ماضی کے تمام مالوفات اور عادات کو ترک کر رہے تھے۔ ان تمام روابط کو کاٹ رہے تھے جو جنم بھوی سے قائم ہوجایا کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیم اور ان کے اہل کے درمیان پائے جانے والے تمام روابط کٹ گئے جنہوں نے ان کو آگ میں ڈالنے کا اقدام کیا۔ اس لیے آپ نے اس عزم کا ارادہ کرلیا کہ اب میں اللہ کی طرف جا رہا ہوں اور چونکہ اہل و ابالی رہ گئی اس لیے رشتہ داروں کی جگہ اولاد اور جانشیں کے طلبگار ہوئے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنے علاقہ سے ہجرت کرنا پھر بیٹے کے ذبح کرنے کا حکم ملنا اور فرمانبرداری میں کامیاب ہونا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا وطن بابل کے قریب تھا انہوں نے وہاں کے مشرکین کو شرک سے باز آنے اور خالق کائنات وحدہٗ لا شریک کی عبادت کی دعوت دی، یہ لوگ شرک سے باز نہ آئے، آپ نے ہجرت...  کا اعلان کردیا اور فرمایا کہ میں اپنے رب کی طرف جاتا ہوں یعنی کسی ایسی جگہ جاکر آباد ہوتا ہوں جہاں اپنے رب کے احکام ادا کرسکوں اور دوسروں کو بھی راہ حق دکھا سکوں، میرا رب میری رہبری فرمائے گا اور مجھے ایسی جگہ پہنچا دے گا جہاں رہنے سے اس کی رضا مندی حاصل ہوگی، چناچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) شام کو ہجرت کر گئے اور وہاں جاکر آباد ہوگئے، حضرت لوط (علیہ السلام) بھی آپ کے ساتھ تھے، دونوں نے سرزمین شام کے لیے ہجرت کی اور فلسطین کے علاقے میں جاکر آباد ہوگئے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ایک بیوی تو سفر ہی میں ان کے ساتھ تھیں جن کا نام سارہ (رض) تھا اور دوسری بیوی ایک بادشاہ نے پیش کردی تھی جن کا نام ہاجرہ (رض) تھا، جس بادشاہ نے حضرت سارہ (رض) کو پکڑوا کر بلایا تھا اسی نے حضرت ہاجرہ کو بطور خادمہ آپ کی خدمت میں پیش کردیا تھا (جس کا قصہ سورة الانبیاء میں گزر چکا ہے) حضرت سارہ (رض) اسحاق (رض) کی والدہ تھیں اور حضرت ہاجرہ (رض) ، حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی والدہ تھیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ مجھے ایک ایسا فرزند عطا فرمائیے جو صالحین میں سے ہو۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے بیٹا عطا فرمایا۔ مفسر ابن کثیر (رض) لکھتے ہیں کہ سب علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ یہاں جس بیٹے کی بشارت کا ذکر ہے اس سے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہی مراد ہیں۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) پیدا ہوئے، کچھ بڑے ہوئے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے انہیں اور ان کی والدہ کو اللہ کے حکم سے مکہ معظمہ کی سرزمین میں چھوڑ دیا، پھر بنی جرہم کا قبیلہ بھی وہاں آکر آباد ہوگیا، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) فلسطین سے اپنی بیوی اور بیٹے کی خبر لینے مکہ معظمہ جایا کرتے تھے، ایک مرتبہ تشریف لائے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں خواب میں دکھایا گیا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں، انبیاء کرام (علیہ السلام) کا خواب سچا ہوتا تھا اور اللہ کی جانب سے ہوتا تھا، ایسی بات اللہ تعالیٰ کی جانب سے حکم دئیے جانے کے مترادف سمجھی جاتی تھی اس لیے انہوں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ میں نے ایسا خواب دیکھا ہے تمہاری کیا رائے ہے ؟ بیٹے نے جواب دیا : (یَااَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْ اِِنْ شَآء اللّٰہُ مِنْ الصَّابِرِیْنَ ) (یعنی اے ابا جان آپ کو جو حکم ہوا ہے اس پر عمل کرلیجیے آپ مجھے انشاء اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ ) چنانچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے بیٹے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو مکہ مکرمہ سے لے کر چلے اور منیٰ میں جاکر ذبح کرنے کی نیت سے ایک چھری ساتھ لی (منیٰ مکہ معظمہ سے تین میل دور دو پہاڑوں کے درمیان بہت لمبا میدان ہے) جب منیٰ میں داخل ہوئے تو ان کے بیٹے کو شیطان بہکانے لگا، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو پتہ چلا تو اللہ اکبر کہہ کر سات کنکریاں ماریں جس کی وجہ سے وہ زمین میں دھنس گیا، دونوں باپ بیٹے آگے بڑھے تو زمین نے شیطان کو چھوڑ دیا، پھر قریب آکر ورغلانے لگا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پھر اللہ اکبر کہہ کر سات کنکریاں ماریں، وہ پھر زمین میں دھنس گیا، یہ دونوں آگے بڑھے تو پھر زمین نے اس کو چھوڑ دیا، پھر قریب آکر ورغلانے لگا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پھر اللہ اکبر کہہ کر اسے سات کنکریاں ماریں، پھر وہ زمین میں دھنس گیا اور اس کے بعد آگے بڑھ کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کو پیشانی کے بل زمین پر لٹا دیا۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

44:۔ وقال انی الخ : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب اپنی قوم کی طرف سے انتہائی ضد وعناد کا مشاہدہ کرلیا اور ان کے ایمان سے مایوس ہوگئے تو اللہ نے آپ کو ملک شام اور بیت المقدس کی جانب ہجرت کرنے کا حکم دے دیا۔ اس ہجرت میں آپ کے ہمراہ صرف حضرت لوط اور حضرت بی بی سارہ تھے الی ربی الی حیث امرنی (روح) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(99) ابراہیم نے کہا میں اپنے پروردگار کی طرف یقینا جانے والا ہوں وہ میری ضرور رہنمائی فرمائے گا۔ یعنی آگ سے سلامت نکلنے کے بعد انہوں نے دارالکفر سے ہجرت کا ارادہ کیا اور فرمایا کہ میں اپنے پروردگار کی راہ میں کسی طرف ہجرت کرکے چلا جاتا ہوں وہ مجھ کو کسی بہتر مقام کے لئے راہ بتائے گا اور میں وہاں پہن... چ جائوں گا۔ جب حضرت ابراہیم تشریف لے گئے تو راستے میں حضرت ہاجرہ حضرت سارہ کو مل گئیں جو انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کودے دی۔  Show more