Surat Suaad

Surah: 38

Verse: 2

سورة ص

بَلِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فِیۡ عِزَّۃٍ وَّ شِقَاقٍ ﴿۲﴾

But those who disbelieve are in pride and dissension.

بلکہ کفار غرور و مخالفت میں پڑے ہوئے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Nay, those who disbelieve are in false pride and opposition. means, in this Qur'an there is a reminder for those who will be reminded and a lesson for those who will learn a lesson, but the disbelievers will not benefit from it because they فِي عِزَّةٍ (are in false pride) meaning, arrogance and tribalism, وَشِقَاقٍ (and opposition), means, they are stubbornly opposed to it and go against it. Then Allah scares them with news of how the nations who came before them were destroyed because of their opposition to the Messengers and their disbelief in the Scriptures that were revealed from heaven. Allah says:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2۔ 1 یعنی یہ قرآن تو یقینا شک سے پاک اور ان کے لئے نصیحت ہے جو اس سے عبرت حاصل کریں البتہ ان کافروں کو اس سے فائدہ اس لئے نہیں پہنچ رہا ہے ان کے دماغوں میں استکبار اور غرور ہے اور دلوں میں مخالفت وعناد۔ عزت کے معنی ہوتے ہیں۔ حق کے مقابلے میں اکڑنا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١] نصیحت والے قرآن کی قسم اٹھانے کے بعد بل کے لفظ سے معلوم ہو رہا ہے کہ یہاں کچھ عبارت محذوف ہے جسے پڑھنے اور سننے والے کی فہم و بصیرت پر چھوڑ دیا گیا ہے اور یہ عبارت یوں بنتی ہے کہ اس سراسر نصیحت والے قرآن کی قسم کہ اس کی عبارت میں کوئی پیچیدگی نہیں، اس کے دلائل بھی عام فہم ہیں اور اس کے مطالب سمجھنے میں بھی کسی کو کوئی دشواری نہیں مگر کافر پھر بھی اس پر طرح طرح کے اعتراض کر رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ انہیں سمجھ نہیں آرہی بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ اس کی تعلیمات کو تسلیم کرنے میں اپنی، اپنے آباء واجداد کی اور اپنے معبودوں کی ہتک محسوس کرتے ہیں۔ لہذا چڑ کر اس کی مخالفت پر اتر آئے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

بَلِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فِيْ عِزَّةٍ وَّشِقَاقٍ :” عِزَّةٍ “ سے مراد خود ساختہ عزت، یعنی تکبّر ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَاِذَا قِيْلَ لَهُ اتَّقِ اللّٰهَ اَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بالْاِثْمِ ) [ البقرۃ : ٢٠٦ ] ” اور جب اس سے کہا جاتا ہے اللہ سے ڈر تو اس کی عزت اسے گناہ میں پکڑے رکھتی ہے۔ “ ” وَّشِقَاقٍ “ ” شَقٌّ“ سے باب مفاعلہ کا مصدر ہے، کسی کا دوسرے کے مقابلے میں اس طرح آنا کہ یہ ایک شق (طرف) میں ہو اور وہ دوسری شق میں، یعنی شدید مخالفت اور عداوت۔ اس جملے سے ” وَالْقُرْاٰنِ ذِي الذِّكْرِ “ کا جواب قسم ظاہر ہو رہا ہے : ” أَيْ إِنَّ کُفْرَھُمْ لَیْسَ بِبُرْھَانٍ بَلْ ھُوَ بِسَبَبِ عِزَّۃٍ وَّ شِقَاقٍ “ کہ اس عزّو شرف والے، نصیحت سے بھرپور اور نجات کے لیے ضروری ہر بات پر مشتمل قرآن کی قسم ہے کہ کفار کا کفر کسی دلیل یا معقول وجہ سے نہیں، بلکہ محض تکبرّ اور شدید مخالفت کی وجہ سے ہے۔ قسم عموماً جواب قسم کی دلیل ہوتی ہے، مطلب یہ کہ ان اوصاف والا (ذِي الذِّكْرِ ) قرآن شاہد اور دلیل ہے کہ اسے نہ ماننے والوں کے کفر کا باعث کوئی دلیل یا معقول وجہ نہیں بلکہ اس کی وجہ محض عزت و شقاق ہے۔ ” عِزَّةٍ “ اور ” وَّشِقَاقٍ “ پر تنوین تکبرّ اور مخالفت کی شدت کے اظہار کے لیے ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

بَلِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فِيْ عِزَّۃٍ وَّشِقَاقٍ۝ ٢ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ عز العِزَّةُ : حالةٌ مانعة للإنسان من أن يغلب . من قولهم : أرضٌ عَزَازٌ. أي : صُلْبةٌ. قال تعالی: أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعاً [ النساء/ 139] ( ع ز ز ) العزۃ اس حالت کو کہتے ہیں جو انسان کو مغلوب ہونے سے محفوظ رکھے یہ ارض عزاز سے ماخوذ ہے جس کے معنی سخت زمین کے ہیں۔ قرآن میں ہے : ۔ أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعاً [ النساء/ 139] کیا یہ ان کے ہاں عزت حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ عزت تو سب خدا ہی کی ہے ۔ شقاق والشِّقَاقُ : المخالفة، وکونک في شِقٍّ غير شِقِ صاحبک، أو مَن : شَقَّ العصا بينک وبینه . قال تعالی: وَإِنْ خِفْتُمْ شِقاقَ بَيْنِهِما[ النساء/ 35] ، فَإِنَّما هُمْ فِي شِقاقٍ [ البقرة/ 137] ، أي : مخالفة، لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي [هود/ 89] ، وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتابِ لَفِي شِقاقٍ بَعِيدٍ [ البقرة/ 176] ، مَنْ يُشاقِقِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ الأنفال/ 13] ، أي : صار في شقّ غير شقّ أولیائه، نحو : مَنْ يُحادِدِ اللَّهَ [ التوبة/ 63] ، ونحوه : وَمَنْ يُشاقِقِ الرَّسُولَ [ النساء/ 115] ، ويقال : المال بينهما شقّ الشّعرة، وشَقَّ الإبلمة «1» ، أي : مقسوم کقسمتهما، وفلان شِقُّ نفسي، وشَقِيقُ نفسي، أي : كأنه شقّ منّي لمشابهة بعضنا بعضا، وشَقَائِقُ النّعمان : نبت معروف . وشَقِيقَةُ الرّمل : ما يُشَقَّقُ ، والشَّقْشَقَةُ : لهاة البعیر لما فيه من الشّقّ ، وبیده شُقُوقٌ ، وبحافر الدّابّة شِقَاقٌ ، وفرس أَشَقُّ : إذا مال إلى أحد شِقَّيْهِ ، والشُّقَّةُ في الأصل نصف ثوب وإن کان قد يسمّى الثّوب کما هو شُقَّةً. ( ش ق ق ) الشق الشقاق ( مفاعلہ ) کے معنی مخالفت کے ہیں گویا ہر فریق جانب مخالف کو اختیار کرلیتا ہے ۔ اور یا یہ شق العصابینک وبینہ کے محاورہ سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی باہم افتراق پیدا کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِنْ خِفْتُمْ شِقاقَ بَيْنِهِما[ النساء/ 35] اگر تم کو معلوم ہو کہ میاں بیوی میں ان بن ہے ۔ فَإِنَّما هُمْ فِي شِقاقٍ [ البقرة/ 137] تو وہ تمہارے مخالف ہیں ۔ لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي [هود/ 89] میری مخالفت تم سے کوئی ایسا کام نہ کرادے ۔ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتابِ لَفِي شِقاقٍ بَعِيدٍ [ البقرة/ 176] وہ ضد میں ( آکر نیگی سے ) دور ہوگئے ) ہیں ۔ مَنْ يُشاقِقِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ الأنفال/ 13] اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے ۔ یعنی اس کے اولیاء کی صف کو چھوڑ کر ان کے مخالفین کے ساتھ مل جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : مَنْ يُحادِدِ اللَّهَ [ التوبة/ 63] یعنی جو شخص خدا اور رسول کا مقابلہ کرتا ہے ۔ وَمَنْ يُشاقِقِ الرَّسُولَ [ النساء/ 115] اور جو شخص پیغمبر کی مخالفت کرے ۔ المال بیننا شق الشعرۃ اوشق الابلمۃ یعنی مال ہمارے درمیان برابر برابر ہے ۔ فلان شق نفسی اوشقیق نفسی یعنی وہ میرا بھائی ہے میرے ساتھ اسے گونہ مشابہت ہے ۔ شقائق النعمان گل لالہ یا اس کا پودا ۔ شقیقۃ الرمل ریت کا ٹکڑا ۔ الشقشقۃ اونٹ کا ریہ جو مستی کے وقت باہر نکالتا ہے اس میں چونکہ شگاف ہوتا ہے ۔ اس لئے اسے شقثقۃ کہتے ہیں ۔ بیدہ شقوق اس کے ہاتھ میں شگاف پڑگئے ہیں شقاق سم کا شگاف فوس اشق راستہ سے ایک جانب مائل ہوکر چلنے والا گھوڑا ۔ الشقۃ اصل میں کپڑے کے نصف حصہ کو کہتے ہیں ۔ اور مطلق کپڑے کو بھی شقۃ کہا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢ { بَلِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ عِزَّۃٍ وَّشِقَاقٍ } ” لیکن جن لوگوں نے کفر کی روش اختیار کی ہے وہ غرور اور ضد میں مبتلا ہیں۔ “ ان لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلے میں ضدم ّضدا ایک موقف اختیار کرلیا ہے اور اب غرور اور جھوٹی اَنا کی وجہ سے اس پر اڑے ہوئے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

3 If the interpretation given of suad by Ibn 'Abbas and Dahhak is accepted, the sentence would mean this: "By this noble Qur'an, or by this Qur'an which is full of admonition, Muhammad (upon whom be Allah's peace) is presenting the Truth, but the people who persist in their denial, are in fact, involved in arrogance and stubbornness." And if suad is taken as one of those enigmatic letters whose meaning cannot be determined, then the answer to the oath is omitted, which is indicated by "but" and the sentence following it. The meaning then would be: "The reason for the denial of these disbelievers is not that the religion which is being presented before them is unsound, or that Muhammad (upon whom be Allah's peace) has shown some slackness in the matter of presenting the Truth before them, but their own boasting and bragging, their haughtiness and stubbornness, and this is borne out by this Qur'an itself, which is full of admonition. Every unbiased person who studies it will admit that fill justice has been done in it to the task of making the people understand the Truth. "

سورة صٓ حاشیہ نمبر :3 اگر ص کی وہ تاویل قبول کی جائے جو ابن عباس اور ضحاک نے بیان کی ہے تو اس جملے کا مطلب یہ ہو گا کہ قسم ہے اس قرآن بزرگ ، یا اس نصیحت سے لبریز قرآن کی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچی بات پیش کر رہے ہیں ، مگر جو لوگ انکار پر جمے ہوئے ہیں وہ دراصل ضد اور تکبر میں مبتلا ہیں ۔ اور اگر ص کو ان حروف مقطعات میں سے سمجھا جائے جن کا مفہوم متعین نہیں کیا جا سکتا ، تو پھر قسم کا جواب محذوف ہے جس پر بلکہ اور اس کے بعد کا فقرہ خود روشنی ڈالتا ہے ۔ یعنی پوری عبارت پھر یوں ہو گی کہ ان منکرین کے انکار کی وجہ یہ نہیں ہے کہ جو دین ان کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے اس میں کوئی خلل ہے ۔ یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے اظہار حق میں کوئی کوتاہی کی ہے ، بلکہ اس کی وجہ صرف ان کی جھوٹی شیخی ، ان کی جاہلانہ نحوست اور ان کی ہٹ دھرمی ہے ، اور اس پر یہ نصیحت بھرا قرآن شاہد ہے جسے دیکھ کر ہر غیر متعصب آدمی تسلیم کرے گا کہ اس میں فہمائش کا حق پوری طرح ادا کر دیا گیا ہے

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

2: یہ ترجمہ اس جملے کی اس ترکیب پر مبنی ہے جو علامہ آلوسی نے ’’ اظھر‘‘ کہہ کر نقل کی ہے (روح المعانی ج :23 ص 217)

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(38:2) بل الذین کفروا فی عزۃ وشقاق : بل حرف اضراب ہے۔ عزۃ۔ عزت ۔ غلبہ۔ زور۔ بزرگی۔ اقبال۔ عز یعز کا مصدر ہے بطور اسم بھی استعمال ہوتا ہے۔ کبھی عزت کے ذریعہ مدح کیا جاتی ہے جیسے رب العزۃ (37:180) صاحب عزت و قدرت یا فان العزۃ للّٰۃ جمیعا (4:139) سو عزت تو ساری کی ساری اللہ ہی کی ہے کبھی اس کے ذریعہ مذمت بھی ہوتی ہے مثلاً آیہ ہذا۔ جہاں عزت بطور گھمنڈ و تکبر مراد ہے۔ اسی طرح ملاحظہ ہو۔ واذا قیل لہ اتق اللّٰہ اخذتہ العزۃ بالاثم (2:206) اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈرو تو اسے نخوت گناہ پر (اور زیادہ) آمادہ کردیتی ہے۔ شقاق۔ ضد۔ مخالفت۔ باب مفاعلہ کا مصدر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ :۔ قسم ہے قرآن نصیحت والے کی (بات یوں نہیں جیسا یہ کفار کہہ رہے ہیں) بلکہ (خود) یہ کافر تعصب اور مخالفت میں پڑے ہوئے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی یہ جو قرآن کو حق تسلیم نہیں کررہے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ یہ سخت تکبر اور ضد میں مبتلا ہیں ورنہ اگر ذرا انصاف سے کام لیں تو قرآن کو سراسر ہایت کا سر چشمہ پائیں گے اوصاف معلوم کرلیں گے یہ خدائی کلام ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

بل الذین کفروافی عزۃ وشقاق (38: 2) ” بلکہ یہی لوگ جنہوں نے ماننے سے انکار کیا ہے سخت تکبر اور ضد میں مبتلا ہیں “۔ یہاں کلام میں اضراب اور اچانک موضوع سخن کی تبدیلی نظر آتی ہے۔ پہلے قرآن کا موضوع تھا اب مشرکین پر تبصرہ شروع ہوگیا کہ وہ تکبروغرور میں ڈوبے ہوئے ہیں اور سخت ضد اور دشمنی میں مبتلا ہیں۔ لیکن یہ موضوع سخن کی تبدیلی فقط ظاہری ہے ظاہری ہے اور اس ظاہری تبدیلی سے غرض یہ ہے کہ قاری مسئلے پر ذرا سنجیدگی سے غور کرے ۔ یہاں ص اور قرآن ذی ذکر قسم اٹھائی گئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس بات کا ذکر ہورہا ہے وہ بہت بڑی بات ہے۔ اسی لیے اللہ نے اس پر قسم اٹھائی ہے۔ اس کے بعد مشرکین کے غرور اور ہٹ دھرمی کا ذکر کیا گیا ۔ مسئلہ ” بل “ حرف اضراب سے قبل اور بعد ایک ہی ہے۔ ان کی توجہ اس طرف مبذول کرائی جاتی ہے کہ اللہ قرآن کو کس قدر اہمیت دیتا ہے اور مشرکین ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے کس طرح قرآن کو نظر انداز کرتے ہیں ۔ اسکے بعد یہ بتایا گیا اس سے قبل انسانی تاریخ میں جن جن اقوام نے غرور وتکبر کیا اور اسکی وجہ سے ضد اور ہٹ دھرمی میں مبتلا ہوئے وہ صفحہ ہستی سے مٹا دیئے گئے۔ کیونکہ انہوں نے بہت بڑا تکبر کیا اور دعوت اسلامی سے شدید دشمنی اختیار کی ۔ ذرا تاریخ میں ان کا منظر دیکھو کہ چیخ و پکار کررہے ہیں اور کوئی سنتا نہیں ۔ اب تو انکے دماغ سے وہ سب کچھ نکل گیا ہے۔ اب تو وہ بچھے جا رہے ہیں ۔ دشمنی انہوں نے ترک کردی اور اب تو وہ بہت ہی برخوردار بنے جا رہے ہیں۔ لیکن اس وقت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت !

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(بَلِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ عِزَّۃٍ وَّشِقَاقٍ ) (بلکہ بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے کفر کیا وہ خود ہی تعصب میں اور حق کی مخالفت میں پڑے ہوئے ہیں) (کَمْ اَھْلَکْنَا مِنْ قَبْلِہِمْ مِّنْ قَرْنٍ ) (ان سے پہلے کتنی ہی امتوں کو ہم نے ہلاک کردیا) (فَنَادَوْا وَّلاَتَ حِیْنَ مَنَاصٍ ) سو ان لوگوں نے پکارا یعنی جب عذاب آیا تو بلند آواز سے توبہ کرنے لگے تاکہ عذاب سے نجات مل جائے اور وہ وقت چھٹکارہ کا نہ تھا (کیونکہ جب عذاب آجاتا ہے تو اس وقت توبہ قبول نہیں ہوتی۔ ) فائدہ : مصاحف قرآنیہ میں (وَّلاَتَ حِیْنَ مَنَاصٍ ) لکھا ہوا ہے اور محققین کے نزدیک اسی طرح صحیح ہے قدیم اور جدید مصاحف میں (لاَتَ بقطع التاء) لکھا ہے جو تواتر سے ثابت ہے۔ ١ ؂ لیکن حضرت ابو عبید قاسم بن سلام کا ارشاد ہے کہ (لا تحین وصل التاء) کے ساتھ رسم قرآنی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ مصحف عثمانی میں، میں نے خود موصولاً لکھا ہوا دیکھا ہے لیکن امام شاطبی (رض) نے قصیدہ رائیہ میں فرمایا ہے (ابو عبیدٍ عزاولا تحین الامام والکل فیہ اعظم النکرا) (یعنی ابو عبید نے ” ولا تحین “ کو مصحف عثمانی کی طرف منسوب کیا ہے اور تمام علماء نے اس بارے میں بڑی نکیر کی ہے) حضرت ابوعبید بھی رسم قرآنی کے امام ہیں لیکن چونکہ یہ نقل خبر واحد کے درجہ میں ہے جس کا تواتر ثابت نہیں ہوا اس لیے ائمہ کرام نے اس کو تسلیم نہیں کیا، حضرت امام جزری نے بھی نام لیے بغیر اپنے مقدمہ میں حضرت ابو عبید کا قول نقل کیا ہے اور آخر میں ووھلا فرمایا یعنی یہ قول ضعیف قرار دیا گیا ہے۔ لات حین کے مذکورہ وصل و قطع کے اختلاف کی وجہ سے وقف اور ابتداء میں بھی اختلاف ہوگیا، چناچہ جملہ علماء و قراء فرماتے ہیں کہ ” لا “ پر وقف کرکے تحین سے ابتداء کرنا درست نہیں ہے کیونکہ لا پر تا زائدہ آتی ہے اور دونوں کلمہ واحدہ کے حکم میں ہیں لہٰذا وقف کریں تو لات پر کریں ١ ؂ اور المناص کا معنی ہے نجات کی جگہ اور بچنا، چوکنا، کہا جاتا ہے ناصہ، ینوصہ جب کوئی چیز فوت ہوجائے اور فراء کہتے ہیں النوص کا معنی ہے پیچھے رہ جانا اور حضرت مجاہد (رح) نے اس کی تفسیر فرار کے ساتھ کی ہے اور حضرت ابن عباس (رض) سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ (ولات ” ھی لا “ المشبھۃ بلیس عند سیبویۃ زیدت علیھا تاء التأنیث لتا کید معناھا وھو النفی لان زیادۃ البناء تدل علی زیادۃ المعنی أولان التاء تکون للمبالغۃ فی علامۃ أو لتاکید شبھھا بلیس بجعلھا علی ثلاثۃ أحرف ساکنۃ الوسط۔ (روح المعانی ص ١٦٣: ج ٢٣) والمناص المنجا والفوت یقال ناصہٗ ینوصہ، اذا فاتہ وقال الفراء النوص التأخرو عن مجاھد تفسیرہ بالفرار وکذا روی عن ابن عباس۔ (روح المعانی ص ١٦٥: ج ٢٣) ” سیبویہ کے نزدیک ” لات “ کا لامشبہ بلیس ہے اور اس کے ساتھ تائے تانیث معنی نفی کی تاکید کے لیے بڑھائی گئی ہے کیونکہ بناء کی زیادتی معنی کی زیادتی پر دلالت کرتی ہے یا تاء اس لیے بڑھائی گئی کہ وہ مبالغہ کے لیے ہے جیسے علامۃ کی یا تاء لیس کے ساتھ مشابہت کی تاکید کے لیے بڑھائی گئی ہے تاء نے ” لا “ کے تین حرف بنا دئیے جن کا درمیان والا ساکن ہے اور لیس بھی اسی طرح ہے۔ “ لیکن ابو عبید (رح) اپنے اختیار کردہ رسم الحظ کی بناء پر کہتے ہیں کہ لا پر وقف کرکے تحین سے ابتداء کرسکتے ہیں۔ ملا علی قاری (رض) فرماتے ہیں کہ یہ قرأت شاذ ہے کیونکہ مبنی اور معنی کے اعتبار سے قواعد عربیہ کے خلاف ہے۔ اگر ضرورت کی بناء پر لات پر حسب مذہب جمہور قراء عمل کیا جائے تو تا کو ہا سے بدل کر وقف کریں یا تا کو ت ہی رہنے دیں ؟ اس کے بارے میں ملا علی قاری (رض) فرماتے ہیں کہ کسائی وقف بالھاء کرتے ہیں اور باقی قراء کرام رسم کے تابع کرتے ہوئے وقف بالتا کرتے ہیں۔ (کیونکہ تا لمبی لکھی ہوئی ہے۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(2) بلکہ یہ کفار اپنے گھمنڈ تعصب اور دین حق کی مخالفت میں پڑے ہوئے ہیں ۔ عزت کے معنی ہیں تکبر کے اور شقاق کے معنی ہیں خلاف کے مطلب یہ ہے کہ اپنی طاقت گھمنڈ اور تکبر میں اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی مخالفت میں مبتلا ہیں بعض قرات میں غرۃ بھی پڑھ گیا ہے جس کے معنی غفلت کے ہیں۔