Surat Suaad

Surah: 38

Verse: 23

سورة ص

اِنَّ ہٰذَاۤ اَخِیۡ ۟ لَہٗ تِسۡعٌ وَّ تِسۡعُوۡنَ نَعۡجَۃً وَّ لِیَ نَعۡجَۃٌ وَّاحِدَۃٌ ۟ فَقَالَ اَکۡفِلۡنِیۡہَا وَ عَزَّنِیۡ فِی الۡخِطَابِ ﴿۲۳﴾

Indeed this, my brother, has ninety-nine ewes, and I have one ewe; so he said, 'Entrust her to me,' and he overpowered me in speech."

۔ ( سنیئے ) یہ میرا بھائی ہے اس کے پاس نناوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک ہی دنبی ہے لیکن یہ مجھ سے کہہ رہا ہے کہ اپنی یہ ایک بھی مجھ ہی کو دے دے اور مجھ پر بات میں بڑی سختی برتتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِنَّ هَذَا أَخِي لَهُ تِسْعٌ وَتِسْعُونَ نَعْجَةً وَلِيَ نَعْجَةٌ وَاحِدَةٌ فَقَالَ أَكْفِلْنِيهَا ... They said: "Fear not! (We are) two litigants, one of us has wronged the other, therefore judge between us with truth, and treat us not with injustice, and guide us to the right way. Verily, this my brother (in religion) has ninety-nine ewes, while I have (only) one ewe, and he says: "Ha... nd it over to me, ... وَعَزَّنِي فِي الْخِطَابِ and he overpowered me in speech. means, `he defeated me.'   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

23۔ 1 بھائی سے مراد دینی بھائی یا شریک کاروبار یا دوست ہے۔ سب پر بھائی کا اطلاق صحیح ہے۔ 23۔ 2 یعنی ایک دنبی بھی میری دنبیوں میں شامل کر دے تاکہ میں ہی اس کا بھی ضامن اور کفیل ہوجاؤں۔ 23۔ 3 دوسرا ترجمہ ہے ' اور یہ گفتگو میں بھی مجھ پر غالب آگیا ' یعنی جس طرح اس کے پاس مال زیادہ ہے، زبان کا بھی مج... ھ سے زیادہ تیز ہے اور اس تیزی و طراری کی وجہ سے لوگوں کو قائل کرلیتا ہے۔   Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٧] اس تمہیدی مشترکہ بیان کے بعد مدعی نے اپنا مقدمہ پیش کیا کہ یہ (مدعا علیہ) میرا بھائی ہے (بھائی سے مراد یہ نہیں کہ وہ رشتے سے بھائی ہو، بلکہ دینی بھائی بھی مراد ہوسکتا ہے اور کسی کاروباری اشتراک کی بنا پر بھی) اس کے پاس ننانوے دنبیاں تو پہلے ہی موجود ہیں اور میرے پاس صرف ایک ہے۔ اب یہ کہتا ہے ک... ہ وہ بھی مجھے دے دے اور مجھے اس سے اپنے حق کی حفاظت کے لئے بات کرنے کی بھی ہمت نہیں۔ مجھے ایسی بات کرنے ہی نہیں دیتا اور دبا جاتا ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ ھٰذَآ اَخِيْ ۣ لَهٗ تِسْعٌ وَّتِسْعُوْنَ نَعْجَةً : یہ میرا حقیقی یا دینی بھائی ہے، اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک دنبی ہے۔ تو اس نے مجھے کہا ہے کہ وہ ایک بھی میں اس کے سپرد کر دوں اور بات کرنے میں اس نے مجھ پر بہت سختی کی اور مجھے دبا لیا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ ھٰذَآ اَخِيْ۝ ٠ ۣ لَہٗ تِسْعٌ وَّتِسْعُوْنَ نَعْجَۃً وَّلِيَ نَعْجَۃٌ وَّاحِدَۃٌ۝ ٠ ۣ فَقَالَ اَكْفِلْنِيْہَا وَعَزَّنِيْ فِي الْخِطَابِ۝ ٢٣ هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، ف... يقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ أخ أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران/ 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف/ 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 85] ، ( اخ و ) اخ ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ { لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ } ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔{ أَخَا عَادٍ } ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ { وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا } ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ { وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ } ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ { وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا } ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔ نعج النَّعْجَةُ : الأُنْثَى من الضَّأْنِ ، والبَقَر الوَحْش، والشَّاةِ الجَبَلِيِّ ، وجمْعها : نِعَاجٌ. قال تعالی: إِنَّ هذا أَخِي لَهُ تِسْعٌ وَتِسْعُونَ نَعْجَةً وَلِيَ نَعْجَةٌ واحِدَةٌ [ ص/ 23] ، ونَعَجَ الرَّجُلُ : إذا أَكَلَ لَحْمَ ضَأْنٍ فَأَتْخَمَ منه، وأَنْعَجَ الرَّجُلُ : سَمِنَتْ نِعَاجُهُ ، والنَّعْجُ : الابْيِضَاضُ ، وأَرْضٌ نَاعِجَةٌ: سَهْلَةٌ. ( ن ع ج ) النعجۃ کی جمع نعاج آتی ہے اور اس کا اطلاق بھیڑ نیل گاؤ اور پہاڑی بکریوں میں سے مادینہ پر ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے ۔ إِنَّ هذا أَخِي لَهُ تِسْعٌ وَتِسْعُونَ نَعْجَةً وَلِيَ نَعْجَةٌ واحِدَةٌ [ ص/ 23] یہ میرا بھائی ہے اس اس کے ہاں ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک دینی ہے ۔ نعج الرجل : موٹی بھیڑ کا گوشت کھانے سے بد ہضمی ہونا ۔ انعج الرجل ۔ موٹی بھیڑوں کا مالک ہونا ۔ النعج کے معنی سپیدی یا سپید ہونے کے ہیں اور ارض ناعجۃ نرم زمین کو کہتے ہیں ۔ كفل الْكَفَالَةُ : الضّمان، تقول : تَكَفَّلَتْ بکذا، وكَفَّلْتُهُ فلانا، وقرئ : وَكَفَّلَها زَكَرِيَّا [ آل عمران/ 37] «3» أي : كفّلها اللہ تعالی، ومن خفّف «4» جعل الفعل لزکريّا، المعنی: تضمّنها . قال تعالی: وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا[ النحل/ 91] ، والْكَفِيلُ : الحظّ الذي فيه الکفاية، كأنّه تَكَفَّلَ بأمره . نحو قوله تعالی: فَقالَ أَكْفِلْنِيها[ ص/ 23] أي : اجعلني کفلا لها، والکِفْلُ : الكفيل، قال : يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ [ الحدید/ 28] أي : كفيلين من نعمته في الدّنيا والآخرة، وهما المرغوب إلى اللہ تعالیٰ فيهما بقوله : رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً [ البقرة/ 201] ( ک ف ل ) الکفالۃ ضمانت کو کہتے ہیں اور تکفلت بکذا کے معنی کسی چیز کا ضامن بننے کے ہیں ۔ اور کفلتہ فلانا کے معنی ہیں میں نے اسے فلاں کی کفالت میں دے دیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَّلَها زَكَرِيَّا[ آل عمران/ 37] اور زکریا کو اس کا متکفل بنایا ۔ بعض نے کفل تخفیف فاء کے ساتھ پڑھا ہے اس صورت میں اس کا فاعل زکریا (علیہ السلام) ہوں گے یعنی حضرت زکریا (علیہ السلام) نے ان کو پانی کفالت میں لے لیا ۔ اکفلھا زیدا اسے زید کی کفالت میں دیدیا ) قرآن میں ہے : ۔ أَكْفِلْنِيها[ ص/ 23] یہ بھی میری کفالت مٰن دے دو میرے سپرد کر دو الکفیل اصل میں بقدر ضرورت حصہ کو کہتے ہیں ۔ گویا وہ انسان کی ضرورت کا ضامن ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا[ النحل/ 91] اور تم خدا کو اپنا کفیل بنا چکے ہو ۔ اور الکفل کے معنی بھی الکفیل یعنی حصہ کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ [ الحدید/ 28] وہ تمہیں اپنی رحمت سے اجر کے دو حصے عطا فرمائیگا ۔ یعنی دنیا اور عقبیی دونون جہانوں میں تمہیں اپنے انعامات سے نوزے گا ۔ اور یہی دوقسم کی نعمیتں ہیں جن کے لئے آیت رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً [ البقرة/ 201 خطب الخَطْبُ «2» والمُخَاطَبَة والتَّخَاطُب : المراجعة في الکلام، ومنه : الخُطْبَة والخِطْبَة لکن الخطبة تختصّ بالموعظة، والخطبة بطلب المرأة قال تعالی: وَلا جُناحَ عَلَيْكُمْ فِيما عَرَّضْتُمْ بِهِ مِنْ خِطْبَةِ النِّساءِ [ البقرة/ 235] ، وأصل الخطبة : الحالة التي عليها الإنسان إذا خطب نحو الجلسة والقعدة، ويقال من الخُطْبَة : خاطب وخطیب، ومن الخِطْبَة خاطب لا غير، والفعل منهما خَطَبَ. والخَطْبُ : الأمر العظیم الذي يكثر فيه التخاطب، قال تعالی: فَما خَطْبُكَ يا سامِرِيُّ [ طه/ 95] ، فَما خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ [ الذاریات/ 31] ، وفصل الخِطَاب : ما ينفصل به الأمر من الخطاب . ( خ ط ب ) الخطب والمخاطبۃ والتخاطب ۔ باہم گفتگو کرنا ۔ ایک دوسرے کی طرف بات لوٹانا اسی سے خطبۃ اور خطبۃ کا لفظ ہے لیکن خطبۃ وعظ و نصیحت کے معنی میں آتا ہے اور خطبۃ کے معنی ہیں نکاح کا پیغام ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلا جُناحَ عَلَيْكُمْ فِيما عَرَّضْتُمْ بِهِ مِنْ خِطْبَةِ النِّساءِ [ البقرة/ 235] اگر تم کنایہ کہ باتوں میں عورتوں کو نکاح کا پیغام بھیجو ۔۔ ۔ تم تم پر کچھ گناہ نہیں ۔ اصل میں خطبۃ اسی حالت کو کہتے ہیں جو بات کرتے وقت ہوتی ہے جیسا کہ جلسۃ اور قعدۃ پھر خطبۃ سے تو خاطب اور خطیب ( دونوں لفظ استعمال ہوتے ہیں مگر خطبۃ سے صرف خاطب کا لفظ ہی بولا جاتا ہے ۔ اور خطب فعل دونوں معنی کے لئے آتا ہے ۔ الخطب ۔ اہم معاملہ جس کے بارے میں کثرت سے تخاطب ہو ۔ قرآن میں ہے :۔ فَما خَطْبُكَ يا سامِرِيُّ [ طه/ 95] پھر سامری سے کہنے لگے ) سامری تیرا کیا حال ہے ۔ فَما خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ [ الذاریات/ 31] کہ فرشتوں تمہارا مدعا کیا ہے ۔ فصل الخطاب دو ٹوک بات ، فیصلہ کن بات جس سے نزاع ختم ہوجائے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

پھر ان میں سے ایک کہنے لگا کہ صورت مقدمہ یہ ہے کہ یہ شخص میرا بھائی ہے اور اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک دنبی ہے۔ سو یہ کہتا ہے وہ بھی مجھے دے دے اور بات چیت میں دباتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٣ { اِنَّ ہٰذَآ اَخِیْقف لَہٗ تِسْعٌ وَّتِسْعُوْنَ نَعْجَۃً وَّلِیَ نَعْجَۃٌ وَّاحِدَۃٌقف } ” یہ میرا بھائی ہے ‘ اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میری ایک ہی دنبی ہے۔ “ اگر ہم اس کی توجیہہ تورات کے مطابق کریں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ مدعی نے کنائے کے انداز میں بات کی۔ وہ دراصل یہ کہنا چاہتا تھ... ا کہ میری ایک ہی بیوی ہے جبکہ میرے مخالف کی ننانوے بیویاں ہیں۔ { فَقَالَ اَکْفِلْنِیْہَا وَعَزَّنِیْ فِی الْْخِطَابِ } ” اب یہ کہتا ہے کہ وہ بھی میرے حوالے کر دو ‘ اور گفتگو میں اس نے مجھے دبا لیا ہے۔ “  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

23 "Brother" dces not mean a real brother but a brother-in-faith and a member of one's own clan. 24 To understand what follows one should note that the complainant did not say that the other person had taken away his only ewe and added it to his own ewes, but said that he was asking for it, and since he was a powerful person he had prevailed over him in the matter and he could not reject his dema... nd, being a weak and poor man.  Show more

سورة صٓ حاشیہ نمبر :24 آگے کی بات سمجھنے کے لیے یہ بات نگاہ میں رہنی ضروری ہے کہ استغاثہ کا یہ فریق یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ اس شخص نے میری وہ ایک دنبی چھین لی اور اپنی دنبیوں میں ملا لی ، بلکہ یہ کہہ رہا ہے کہ یہ مجھ سے میری دنبی مانگ رہا ہے ، اور اس نے گفتگو میں مجھے دبا لیا ہے ، کیونکہ یہ بڑی ... شخصیت کا آدمی ہے اور میں ایک غریب آدمی ہوں ، میں اپنے اندر اتنی سکت نہیں پاتا کہ اس کا مطالبہ رد کر دوں ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(38:23) نعجۃ واحد نعاج جمع۔ ونبیاں ۔ واحد دنبی۔ اکفلنیھا ۔ اکفل امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ اکفال (افعال) مصدر سے جس کے معنی کفیل بنانا۔ دوسرے کا حصہ قرار دینا کے ہیں۔ یعنی اس کو میرا حصہ قرار دیدے۔ مجھے اس کا کفیل بنا دے۔ ن وقایہ ی متکلم کی ہے۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب نعجۃ کی طرف راجع ہے اس دنبی ک... و میرا حصہ قرار دیدے یا اس دنبی کو مجھے کفیل بنا دے۔ عزنی عز ماضی واحد مذکر غائب عز باب ضرب سے مصدر ۔ غلبہ کرنا۔ زبردستی کرنا ن وقایہ اور ی ضمیر واحد متکلم کی اس نے مجھ سے زبردستی کی۔ اس نے مجھ سے زبردستی کی۔ اس نے مجھ پر دباؤ ڈالا۔ عزنی فی الخطاب۔ اس نے مجھ پر گفتگو میں دباؤ ڈالا۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 15 یعنی دینی بھائی یا ساتھ رہنے والا بھائی۔ 1 یعنی وہ مجھ سے زیادہ چرب زبان ہے اس لئے لوگ اس کی طرف داری کرتے ہیں اور میری کوئی نہیں سنتا۔ (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ان ھذا۔۔۔۔۔ الخطاب (38: 23) ” یہ میرا بھائی ہے ، اس کے پاس 99 دنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک ہی دنبی ہے۔ اس نے مجھ سے کہا ہے کہ یہ ایک دنبی میرے حوالے کردے اور اس نے گفتگو میں مجھے دبالیا “۔ اکفلنی کے معنی ہیں مجھے دے دے ، میری ملکیت میں دے دے اور میری کفالت میں دے دے اور عزنی کے معنی ہیں مجھ میں غالب ... ہوگیا۔ جہاں تک مقدمے کا تعلق ہے خود بیان دعویٰ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایسا ظالمانہ فعل ہے جس کی کوئی تاویل نہیں کی جاسکتی ۔ چناچہ حضرت داؤد نے بھی جواب دعویٰ سننے سے پہلے ہی فیصلہ کرنا شروع کردیا ۔ کیونکہ بادی النظر میں اس بھائی کا فعل ظالمانہ تھا۔ اس لیے حضرت داؤد نے دوسرے فریق سے بات ہی نہ کی ۔ نہ جواب دعویٰ سنا نہ اس سے کوئی عذر طلب کیا ۔ بس دعویٰ سن کر ہی فیصلہ کردیا ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

شرکاء مالیات کا عام طریقہ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے دو شخصوں کے درمیان جو فیصلہ فرمایا صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کے ساتھ ہی عام شرکاء کی ایک حالت بھی بتادی جنہیں خلطاء سے تعبیر فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ اس دنیا میں بسنے والے لوگ جو آپس میں مل جل کر رہتے ہیں جن میں وہ لوگ بھی ہیں جن کا تجا... رت میں یا کسب اموال کے دوسرے طریقوں میں ساجھا رہتا ہے عام طور سے یہ لوگ ایک دوسرے پر زیادتی کرتے رہتے ہیں جو خیانت وغیرہ کی صورت میں ہوتی ہے عام طور سے لوگوں کا یہی حال ہے ہاں اللہ تعالیٰ کے کچھ ایسے بندے بھی ہیں جو اہل ایمان اور اعمال صالحہ والے ہیں یہ لوگ اپنے شرکاء پر زیادتی نہیں کرتے لیکن ایسے لوگ زیادہ نہیں ہیں، یہ لوگ کمی کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے بہت کام کی بات بتائی اور شرکاء کا ایک مزاج بتادیا اور درحقیقت شرکت میں کوئی دھندا کرنا بہت بڑے امتحان میں پڑنے کا ذریعہ ہے بات بات میں جھگڑے بھی اٹھتے رہتے ہیں اور خیانت کے مواقع بھی سامنے آتے رہتے ہیں، جو شخص خیانت سے بچ گیا بہت ہی مبارک ہے، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ جل شانہٗ کا ارشاد ہے کہ میں دو شریکوں میں تیسرا ہوں (یعنی میری طرف سے ان کی مدد ہوتی رہتی ہے) جب تک کہ ان میں سے کوئی ایک خیانت نہ کرے پھر جب دونوں میں سے کوئی شریک خیانت کرلیتا ہے تو میں درمیان سے نکل جاتا ہوں۔ (رواہ ابو داؤد) یعنی اللہ تعالیٰ کی مدد ختم ہوجاتی ہے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی ایک دعاء حضرت داؤد (علیہ السلام) بہت بڑے ذاکر و عابد تھے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب داؤد (علیہ السلام) کی نماز تھی اور روزوں میں سب سے زیادہ محبوب داؤد (علیہ السلام) کے روزے تھے وہ آدھی رات سوتے تھے اور تہائی رات نماز میں کھڑے رہتے تھے اور آخری چھٹے حصہ میں سو جاتے تھے اور ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن بغیر روزہ کے رہتے تھے (رواہ البخاری ص ٤٨٦: ج ١) اور ایک روایت میں ہے کہ داؤد (علیہ السلام) ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن بےروزہ رہتے تھے اور جب دشمن سے بھڑ جاتے تھے تو پشت نہیں پھیرتے تھے۔ (ایضاً ) حضرت ابو دردا (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ داؤد (علیہ السلام) کی دعاؤں میں سے ایک یہ دعاء بھی تھی اللھم انی اسألک حبک وحب من یحبک والعمل الذی یبلغنی حبک اللھم اجعل حبک احب الی من نفسی ومالی واھلی ومن المآء البادر (اے اللہ میں آپ سے آپ کی محبت کا اور ان لوگوں کی محبت کا جو آپ سے محبت کرتے ہیں اور اس عمل کی محبت کا سوال کرتا ہوں جو مجھے آپ کی محبت تک پہنچا دے اے اللہ آپ اپنی محبت کو مجھے اتنی زیادہ محبوب بنا دیجیے جو میری جان سے اور میرے مال سے اور میرے اہل و عیال سے اور ٹھنڈے پانی سے بڑھ کر مجھے محبوب ہو۔ (رواہ الترمذی و حسنہ کما فی المشکوٰۃ ص ٢٢٠) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب داؤد (علیہ السلام) کا ذکر کرتے تھے تو یہ بات بیان فرمایا کرتے تھے کہ وہ انسانوں میں سب سے بڑھ کر عبادت گزار تھے۔ (ایضاً ) حضرت داؤد (علیہ السلام) اپنے ہاتھ کے ہنر سے کسب کرتے تھے، اسی میں سے کھاتے تھے (رواہ البخاری مرفوعاً ) اور ان کا ذریعہ کسب یہ تھا کہ لوہے کی زرہیں بناتے تھے انہیں فروخت کرکے اپنا خرچہ بھی چلاتے تھے اور فقراء مساکین پر بھی خرچ کرتے تھے۔ سورۂ صٓ کا سجدہ سورة ص میں شوافع کے نزدیک سجدہ تلاوت نہیں ہے حنفیہ کے نزدیک یہاں سجدہ تلاوت ہے، حضرت ابن عباس (رض) نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة ص میں سجدۂ تلاوت ادا کیا اور فرمایا کہ داؤد نے توبہ کے طور پر سجدہ کیا تھا، اور ہم اس سجدہ کو بطور شکر ادا کرتے ہیں۔ (رواہ النسائی کما فی المشکوٰۃ ص ٤٩) ایک مشہور قصہ کی تردید حضرت داؤد (علیہ السلام) کے پاس جو دو شخص فیصلہ لے کر آئے تھے جن کا یہ فیصلہ ان کے امتحان کا سبب بنا اس کے بارے میں بعض کتابوں میں ایک ایسا قصہ لکھ دیا گیا ہے جو حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کی شان کے خلاف ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک عورت پر ان کی نظر پڑگئی تھی جس سے نکاح کرنے کا خیال پیدا ہوگیا اور اس خیال کے پیچھے ایسے پڑے کہ اس کے شوہر کو جہاد میں بھیج کر شہید کروانے کا راستہ نکالا اور جب وہ شہید ہوگیا تو آپ نے اس عورت سے نکاح کرلیا، یہ قصہ جھوٹا ہے جسے اسرائیلی روایات سے لیا گیا ہے حد یہ ہے کہ محدث حاکم نے بھی مستدرک (مستدرک ص ٥٨٦، ص ٥٨٧: ج ٢) میں لکھ دیا اور تعجب ہے کہ حافظ ذہبی نے بھی تلخیص مستدرک میں اسے ذکر کرکے سکوت اختیار کیا حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص داؤد (علیہ السلام) کے بارے میں ایسی بات کہے گا اور اس کا عقیدہ رکھے گا تو میں اس پر حد قذف کی دوہری سزا جاری کروں گا یعنی ایک سو ساٹھ (١٦٠) کوڑے لگاؤں گا۔ (روح المعانی ص ١٥٨: ج ٢٣) اور صاحب جلالین نے یوں لکھ دیا ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی ننانوے بیویاں تھیں اور اس شخص کی ایک بیوی تھی جس نے شکایت کی تھی۔ یہ قصہ بھی اسرائیلی روایات سے لیا گیا ہے حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کی شان کے خلاف بھی ہے اور کسی صحیح سند سے ثابت بھی نہیں ہے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(23) جھگڑایہ ہے کہ یہ میرا بھائی ہے اس کے پاس نینانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک دنبی ہے۔ پس یہ کہتا ہے وہ ایک دنبی اپنی بھی میرے سپرد کردے اور میرے حوالے کردے اور زبردستی اور سختی کرتا ہے میرے ساتھ بات کرنے اور گفتگو کرنے میں مجھ کو دبا لیتا ہے۔ یعنی یہ میرا بھائی ہے دین میں یا ملاقاتی بھائی ہ... ے، بہرحال ! اس کے پاس نینانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک ہے یہ چاہتا ہے کہ وہ ایک دنبی بھی میں اس کے حوالے کردوں اور گفتگو میں اپنی منہ زوری سے مجھ کو دبا لیتا ہے۔ حضرت دائود کی عبادت میں جو خلل واقع ہوا اور توجہ بٹ گئی پھر ان لوگوں کا اس طرح بےموقع آنا اس پریشانی میں مقدمہ کی طرح نہ کرسکے اور پریشانی کی حالت میں ایک فریق مظلوم کی بات سن کر فرمانے لگے۔  Show more