Commentary The event relating to Sayyidna Ayyub (علیہ السلام) has been introduced here to comfort and prompt the Holy Prophet (علیہ السلام) ، so that he would also observe patience. This event has appeared with details in our commentary on Surah Al-Anbiya& (Ma’ ariful-Qur’ an, Volume V1). A few significant notes are being added here. In the opening verse (41), it was said: مَسَّنِيَ الشَّيْطَانُ بِنُصْبٍ وَعَذَابٍ : (The Shaitan has inflicted weariness and pain upon me). Some early commentators have given details as to how the Shaitan had caused this affliction and pain. They say that the disease from which Sayyidna (علیہ السلام) suffered had overtaken him under the influence of the Shaitan. What happened was that once the angels praised Sayyidna Ayyub (علیہ السلام) in a manner that made the Shaitan envy him. He prayed to Allah Ta’ ala that he be given such control over his body, wealth and children that allowed him to do whatever he liked with him. Allah Ta’ ala too intended to test Sayyidna Ayyub (علیہ السلام) ، therefore, the Shaitan was given this right, and he made him suffer from this disease. But, discerning commentators have refuted this story by saying that, in terms of the clear statement of the noble Qur&an, the Shaitan cannot gain control over the blessed prophets, therefore, it is not possible that he could have made him suffer from this disease. Some others have explained the Shaitan having afflicted pain by saying that the Shaitan used to plant all sorts of scruples in the heart of Sayyidna Ayyub (علیہ السلام) while he was very sick which hurt him all the more. This is what he has mentioned here. But, the best explanation of this verse is what Maulana Ashraf Thanavi (رح) has given in Bayan-ul-Qur&an. This is being reproduced here from the Khulasa-e-Tafsir in Ma’ ariful-Qur&an: &This affliction and pain, according to the saying of some commentators, is what Imam Ahmad has reported from Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) in his Kitabu-z-zuhd, in which it has been stated that the Shaitan had once met the wife of Sayyidna Ayyub (علیہ السلام) in the guise of a physician during the days of his sickness. Since he had posed himself as a physician, she requested him to treat her husband. He agreed subject to the condition that once he got cured, she would tell him that she was the one who cured him, and assured her that he wanted no more in return. She mentioned this to Sayyidna Ayyub (علیہ السلام) . He said, |"0 my simple wife, he was the Shaitan. Now, I solemnly resolve that, should Allah Ta’ ala make me get well again, I am going to beat you with one hundred sticks of branches.& So, he was particularly shocked that Shaitan had become so high-handed that he wanted to make his own wife say words that evidently amount to shirk, though they may not prove to be so if subjected to interpretation. Though, Sayyidna Ayyub (علیہ السلام) had made prayers for the removal of his affliction earlier as well, yet after this incident, he turned back to Him in plaint and prayer more fervently, and his prayer was answered: (Reported by Ahmad). The nature of the ailment of Sayyidna Ayyub (علیہ السلام) The Qur&an tells us only this much that Sayyidna Ayyub (علیہ السلام) was afflicted with a serious disease, but nothing was said about the nature of this disease. Even in Ahadith, no details about it have been reported from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Nevertheless, from some reports attributed to the Sahabah, it appears that blisters had erupted all over his body, and people had put him off on a dirt-heap out of nausea. But, some discerning commentators have refused to accept these attributed reports as correct. They say that diseases can afflict the blessed prophets, but they are not made to suffer from such diseases as would make people nauseated with it. Hence, this sort of disease cannot be attributed to Sayyidna Ayyub (علیہ السلام) . Instead, they say, it was some common disease. Therefore, reports in which blisters have been attributed to Sayyidna Ayyub (علیہ السلام) or in which it has been said that he was put off on a dirt-heap are not trustworthy, neither in terms of the authenticity of the report, nor rationally (abridged from Ruh-ul-Ma’ ani and Ahkam-ul-Qur’ an).
خلاصہ تفسیر اور آپ ہمارے بندہ ایوب (علیہ السلام) کو یاد کیجئے جبکہ انہوں نے اپنے رب کو پکارا کہ شیطان نے مجھ کو رنج اور آزار پہنچایا ہے۔ اور یہ رنج و آزار بعض مفسرین کے مطابق وہ ہے جو امام احمد نے کتاب الزہد میں ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) کی بیماری کے زمانے میں ایک بار شیطان ایک طبیب کی شکل میں حضرت ایوب کی بیوی کو ملا تھا۔ اسے انہوں نے طبیب سمجھ کر علاج کی درخواست کی، اس نے کہا اس شرط سے کہ اگر ان کو شفا ہوجائے تو یوں کہہ دینا کہ تو نے ان کو شفا دی، میں اور کچھ نذرانہ نہیں چاہتا۔ انہوں نے ایوب (علیہ السلام) سے ذکر کیا، انہوں نے فرمایا کہ بھلی مانس وہ تو شیطان تھا۔ میں عہد کرتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھ کو شفا دے دے تو میں تجھ کو سو قمچیاں ماروں گا۔ پس آپ کو سخت رنج پہنچا اس سے کہ میری بیماری کی بدولت شیطان کا یہاں تک حوصلہ بڑھا کہ خاص میری بیوی سے ایسے کلمات کہلوانا چاہتا ہے۔ جو ظاہراً موجب شرک ہیں۔ گو تاویل سے شرک نہ ہوں اگرچہ حضرت ایوب ازالہ مرض کے لئے پہلے بھی دعا کرچکے تھے۔ مگر اس واقعہ سے اور زیادہ ابہال اور تضرع سے دعا کی، پس ہم نے ان کی دعا قبول کرلی اور حکم دیا کہ) اپنا پاؤں (زمین پر) مارو۔ (چنانچہ انہوں نے زمین پر پاؤں مارا تو وہاں سے ایک چشمہ پیدا ہوگیا۔ (رواہ احمد) پس ہم نے ان سے کہا کہ۔ یہ (تمہارے لئے) نہانے کا ٹھنڈا پانی ہے اور پینے کا۔ (یعنی اس میں غسل کرو اور پیو بھی۔ چناچہ نہائے اور پیا بھی، اور بالکل اچھے ہوگئے) اور ہم نے ان کو ان کا کنبہ عطا فرمایا اور ان کے ساتھ (گنتی میں) ان کے برابر اور بھی (دیئے) اپنی رحمت خاصہ کے سبب سے اور اہل عقل کے لئے یادگار رہنے کے سبب سے (یعنی اہل عقل یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ صابروں کو کیسی جزا دیتے ہیں اور اب ایوب (علیہ السلام) نے اپنی قسم پوری کرنے کا ارادہ کیا۔ مگر چونکہ ان کی بیوی نے ایوب (علیہ السلام) کی خدمت بہت کی تھی۔ اور ان سے کوئی گناہ بھی صادر نہ ہوا تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ان کے لئے ایک تخفیف فرمائی) اور (ارشاد فرمایا کہ اے ایوب) تم اپنے ہاتھ میں ایک مٹھا سینکوں کا لو ( جس میں سو سینکیں ہوں) اور (اپنی بیوی کو) اس سے مار لو اور (اپنی) قسم نہ توڑو (چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ آگے ایوب (علیہ السلام) کی تعریف کی ہے کہ) بیشک ہم نے ان کو (بڑا) صابر پایا، اچھے بندے تھے کہ (خدا کی طرف) بہت رجوع ہوتے تھے۔ معارف و مسائل حضرت ایوب (علیہ السلام) کا واقعہ یہاں آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر کی تلقین کرنے کے لئے لایا گیا ہے یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ سورة انبیاء میں گزر چکا ہے، یہاں چند باتیں قابل ذکر ہیں۔ مَسَّنِيَ الشَّيْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍ ۔ (شیطان نے مجھ کو رنج اور آزار پہنچایا ہے) بعض حضرات نے شیطان کے رنج و آزار پہنچانے کی تفصیل یہ بیان کی ہے کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) جس بیماری میں مبتلا ہوئے وہ شیطان کے تسلط کی وجہ سے آئی تھی۔ اور ہوا یہ تھا کہ ایک مرتبہ فرشتوں نے حضرت ایوب (علیہ السلام) کی بہت تعریف کی جس پر شیطان کو سخت حسد ہوا اور اس نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ مجھے ان کے جسم اور مال واولاد پر ایسا تسلط عطا کردیا جائے جس سے میں ان کے ساتھ جو چاہوں سو کروں، اللہ تعالیٰ کو بھی حضرت ایوب (علیہ السلام) کی آزمائش مقصود تھی، اس لئے شیطان کو یہ حق دے دیا گیا اور اس نے آپ کو اس بیماری میں مبتلا کردیا۔ لیکن محقق مفسرین نے اس قصے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ قرآن کریم کی تصریح کے مطابق انبیاء (علیہ السلام) پر شیطان کو تسلط حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ اس نے آپ کو بیمار ڈال دیا ہو۔ بعض حضرات نے شیطان کے رنج وآزار پہنچانے کی یہ تشریح کی ہے کہ بیماری کی حالت میں شیطان حضرت ایوب (علیہ السلام) کے دل میں طرح طرح کے وسوسے ڈالا کرتا تھا، اس سے آپ کو اور زیادہ تکلیف ہوتی تھی، یہاں آپ نے اسی کا ذکر فرمایا ہے۔ لیکن اس آیت کی سب سے بہتر تشریح وہ ہے جو حضرت تھانوی نے بیان القرآن میں اختیار کی ہے اور جو خلاصہ تفسیر میں اوپر لکھی گئی ہے۔ حضرت ایوب کے مرض کی نوعیت : قرآن کریم میں اتنا تو بتایا گیا ہے کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) کو ایک شدید قسم کا مرض لاحق ہوگیا تھا، لیکن اس مرض کی نوعیت نہیں بتائی گئی۔ احادیث میں بھی اس کی کوئی تفصیل آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول نہیں ہے۔ البتہ بعض آثار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے جسم کے ہر حصے پر پھوڑے نکل آئے تھے۔ یہاں تک کہ لوگوں نے گھن کی وجہ سے آپ کو ایک کوڑی پر ڈال دیا تھا۔ لیکن بعض محقق مفسرین نے ان آثار کو درست تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) پر بیماریاں تو آسکتی ہیں، لیکن انہیں ایسی بیماریوں میں مبتلا نہیں کیا جاتا جن سے لوگ گھن کرنے لگیں۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) کی بیماری بھی ایسی نہیں ہو سکتی، بلکہ یہ کوئی عام قسم کی بیماری تھی، لہٰذا وہ آثار جن میں حضرت ایوب (علیہ السلام) کی طرف پھوڑے پھنسیوں کی نسبت کی گئی ہے یا جن میں کہا گیا ہے کہ آپ کو کوڑی پر ڈال دیا گیا تھا، روایةً ودرایةً قابل اعتماد نہیں ہیں۔ (مخلص از روح المعانی و احکام القرآن)