Surat Suaad

Surah: 38

Verse: 41

سورة ص

وَ اذۡکُرۡ عَبۡدَنَاۤ اَیُّوۡبَ ۘ اِذۡ نَادٰی رَبَّہٗۤ اَنِّیۡ مَسَّنِیَ الشَّیۡطٰنُ بِنُصۡبٍ وَّ عَذَابٍ ﴿ؕ۴۱﴾

And remember Our servant Job, when he called to his Lord, "Indeed, Satan has touched me with hardship and torment."

اور ہمارے بندے ایوب ( علیہ السلام ) کا ( بھی ) ذکر کر ، جبکہ اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے شیطان نے رنج اور دکھ پہنچایا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ayub (The Prophet) Here Allah tells us about His servant and Messenger Ayub (Job) and how He tested him. These tests afflicted his body, his wealth and his children, until there was no part of his body that was healthy except his heart. Then he had nothing left in this world which he could use to help him deal with his sickness or the predicament he was in, besides his wife, who retained her devotion to him because of her faith in Allah and His Messenger. She used to work for people as a paid servant, and she fed and served him (Ayub) for nearly eighteen years. Before that, he was very rich and had many children, being well off in worldly terms. All of that had been taken away until he ended up being thrown into the city dump where he stayed all this time, shunned by relatives and strangers alike, with the exception of his wife -- may Allah be pleased with her. She did not leave him, morning and evening, except for when she was serving people, then she would come straight back to him. When this had gone on for a long time, and things had gotten very bad, and the time allotted by divine decree had come to an end, Ayub prayed to the Lord of the worlds, the God of the Messengers, and said: أَنِّى مَسَّنِىَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ Verily, distress has seized me, and You are the Most Merciful of all those who show mercy. (21:83) And according to this Ayah: وَاذْكُرْ عَبْدَنَا أَيُّوبَ إِذْ نَادَى رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الشَّيْطَانُ بِنُصْبٍ وَعَذَابٍ And remember Our servant Ayub, when he invoked his Lord (saying): "Verily, Shaytan has afflicted me with distress and torment!" It was said that "distress" referred to bodily afflictions and "torment" referred to the loss of his wealth and children. Then the Most Merciful of those who show mercy responded to him, telling him to stand up and strike the ground with his foot. He did this, and Allah caused a spring of water to flow. He commanded him to wash in it, and all the pain and affliction in his body disappeared. Then He commanded him to strike the ground in a different place, and Allah caused another spring to flow, and Ayub was commanded to drink from it. Then all his internal problems disappeared, and he became healthy again, inside and out. Allah says: ارْكُضْ بِرِجْلِكَ هَذَا مُغْتَسَلٌ بَارِدٌ وَشَرَابٌ

حضرت ایوب علیہ السلام اور ان کا صبر ۔ حضرت ایوب علیہ السلام کا ذکر ہو رہا ہے اور ان کے صبر اور امتحان میں پاس ہونے کی تعریف بیان ہو رہی ہے کہ مال برباد ہو گیا اولادیں مر گئیں جسم مریض ہو گیا یہاں تک کہ سوئی کے ناکے کے برابر سارے جسم میں ایسی جگہ نہ تھی جہاں بیماری نہ ہو صرف دل سلامت رہ گیا اور پھر فقیری اور مفلسی کا یہ حال تھا کہ ایک وقت کا کھانا پاس نہ تھا کوئی نہ تھا جو خبر گیر ہوتا سوائے ایک بیوی صاحبہ رضی اللہ عنہا کے جن کے دل میں خوف اللہ تھا اور اپنے خاوند اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت تھی ۔ لوگوں کا کام کاج کر کے اپنا اور اپنے میاں کا پیٹ پالتی تھیں آٹھ سال تک یہی حال رہا حالانکہ اس سے پہلے ان سے بڑھ کر مالدار کوئی نہ تھا ۔ اولاد بھی بکثرت تھی اور دنیا کی ہر راحت موجود تھی ۔ اب ہر چیز چھین لی گئی تھی اور شہر کا کوڑا کرکٹ جہاں ڈالا جاتا تھا وہں آپ کو لا بٹھایا تھا ۔ اسی حال میں ایک دو دن نہیں سال دو سال نہیں آٹھ سال کامل گذارے اپنے اور غیر سب نے منہ پھیر لیا تھا ۔ خیریت پوچھنے والا بھی کوئی نہ تھا ۔ صرف آپ کی یہی ایک بیوی صاحبہ تھیں جو ہر وقت دن اور رات آپ کی خدمت میں کمر بستہ تھیں ۔ ہاں پیٹ پالنے کے لئے محنت مزدوری کے وقت آپ کے پاس سے چلی جاتی تھیں یہاں تک کہ دن پھرے اور اچھا وقت آ گیا تو رب العالمین الہ المرسلین کی طرف تضرع و زاری کی اور کپکپاتے ہوئے کلیجے سے دل سے دعا کی کہ اے میرے پالنہار اللہ مجھے دکھ نے تڑپا دیا ہے اور تو ارحم الراحمین ہے یہاں جو دعا ہے اس میں جسمانی تکلیف اور مال و اولاد کے دکھ درد کا ذکر کیا ۔ اسی وقت رحیم و کریم اللہ نے اس دعا کو قبول فرمایا اور حکم ہوا کہ زمین پر اپنا پاؤں مارو ۔ پاؤں کے لگتے ہی وہاں ایک چشمہ ابلنے لگا حکم ہوا کہ اس پانی سے غسل کر لو ۔ غسل کرتے ہی بدن کی تمام بیماری اس طرح جاتی رہی گویا تھی ہی نہیں ۔ پھر حکم ہوا کہ اور جگہ ایڑی لگاؤ وہاں پاؤں مارتے ہی دوسرا چشمہ جاری ہو گیا حکم ہوا کہ اس کا پانی پی لو اس پانی کے پیتے ہی اندرونی بیماریاں بھی جاتی رہیں اور ظاہر و باطن کی عافیت اور کامل تندرستی حاصل ہو گئی ۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اٹھارہ سال تک اللہ کے یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم دکھ درد میں مبتلا رہے اپنے اور غیر سب نے چھوڑ دیا ہاں آپ کے مخلص دوست صبح شام خیریت خبر کے لئے آ جایا کرتے تھے ایک مرتبہ ایک نے دوسرے سے کہا میرا خیال یہ ہے کہ ایوب نے اللہ کی کوئی بڑی نافرمانی کی ہے کہ اٹھارہ سال سے اس بلا میں پڑا ہوا ہے اور اللہ اس پر رحم کرے اس دوسرے شخص نے شام کو حضرت ایوب علیہ السلام سے اس کی یہ بات ذکر کر دی ۔ آپ کو سخت رنج ہوا اور فرمایا میں نہیں جانتا کہ وہ ایسا کیوں کہتے ہیں ۔ اللہ خوب جانتا ہے میری یہ حالت تھی کہ جب دو شخصوں کو آپس میں جھگڑتے دیکھا اور دونوں اللہ کو بیچ میں لاتے تو مجھ سے یہ نہ دیکھا جاتا کہ اللہ تعالیٰ کے عزیز نام کی اس طرح یاد کی جائے کیونکہ دو میں سے ایک تو ضرور مجرم ہو گا اور دونوں اللہ کا نام لے رہے ہیں تو میں اپنے پاس سے دے دلا کر ان کے جھگڑے کو ختم کر دیتا کہ نام اللہ کی بے ادبی نہ ہو ۔ آپ سے اس وقت چلا بھرا بلکہ اٹھا بیٹھا بھی نہیں جاتا تھا پاخانے کے بعد آپ کی بیوی صاحبہ آپ کو اٹھا کر لاتی تھیں ۔ ایک مرتبہ وہ نہیں تھیں آپ کو بہت تکلیف ہوئی اور دعا کی اور اللہ کی طرف سے وحی ہوئی کہ زمین پر لات مار دو ۔ بہت دیر کے بعد جب آپ کی بیوی صاحبہ آئیں تو دیکھا کہ مریض تو ہے نہیں کوئی اور شخص تندرست نورانی چہرے والا بیٹھا ہوا ہے پہچان نہ سکیں اور دریافت کرنے لگیں کہ اے اللہ کے نیک بندے یہاں اللہ کے ایک نبی جو درد دکھ میں مبتلا تھے انہیں دیکھا ہے؟ واللہ کہ جب وہ تندرست تھے تو قریب قریب تم جیسے ہی تھے ، تب آپ نے فرمایا وہ میں ہی ہوں ۔ راوی کہتا ہے آپ کی دو کوٹھیاں تھیں ایک گیہوں کیلئے اور ایک جو کے لئے ۔ اللہ تعالیٰ نے دو ابر بھیجے ایک میں سونا برسا اور ایک کوٹھی اناج کی اس سے بھر گئی دوسرے میں سے بھی سونا برسا اور دوسری کوٹھی اس سے بھر گئی ( ابن جریر ) صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں حضرت ایوب علیہ السلام ننگے ہو کر نہا رہے تھے جو آسمان سے سونے کی ٹٹڈیاں برسنے لگیں آپ نے جلدی جلدی انہیں اپنے کپڑے میں سمیٹنی شروع کیں تو اللہ تعالیٰ نے آواز دی کہ اے ایوب کیا میں نے تمہیں غنی اور بےپرواہ نہیں کر رکھا ؟ آپ نے جواب دیا ہاں الٰہی بیشک تو نے مجھے بہت کچھ دے رکھا ہے میں سب سے غنی اور بےنیاز ہوں لیکن تیری رحمت سے بےنیاز نہیں ہوں بلکہ اس کا تو پورا محتاج ہوں ۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے اس صابر پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو نیک بدلہ اور بہتر جزائیں عطا فرمائیں ۔ اولاد بھی دی اور اسی کے مثل اور بھی دی بلکہ حضرت حسن اور قتادہ سے منقول ہے کہ مردہ اولاد اللہ نے زندہ کر دی اور اتنی ہی اور نئی دی ۔ یہ تھا اللہ کا رحم جو ان کے صبر و استقلال رجوع الی اللہ تواضع اور انکساری کے بدلے اللہ نے انہیں دیا اور عقلمندوں کے لئے نصیحت و عبرت ہے وہ جان لیتے ہیں کہ صبر کا انجام کشادگی ہے اور رحمت و راحت ہے ۔ بعض لوگوں کا بیان ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام اپنی بیوی کے کسی کام کی وجہ سے ان پر ناراض ہو گئے تھے بعض کہتے ہیں وہ اپنے بالوں کی ایک لٹ بیچ کر ان کے لئے کھانا لائی تھیں اس پر آپ ناراض ہوئے تھے اور قسم کھائی تھی کہ شفا کے بعد سو کوڑے ماریں گے دوسروں نے وجہ ناراضگی اور بیان کی ہے ۔ جبکہ آپ تندرست اور صحیح سالم ہوگئے تو ارادہ کیا کہ اپنی قسم کو پورا کریں لیکن ایسی نیک صفت عورت اس سزا کے لائق نہ تھیں جو حضرت ایوب نے طے کر رکھی تھی جس عورت نے اس وقت خدمت کی جبکہ کوئی ساتھ نہ تھا اسی لئے رب العالمین ارحم الراحمین نے ان پر رحم کیا اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ قسم پوری کرنے کے لئے کھجور کا ایک خوشہ لے لو جس میں ایک سو سیخیں ہوں اور ایک انہیں مار دو اس صورت میں قسم کا خلاف نہ ہو گا اور ایک ایسی صابرہ شاکرہ نیک بیوی پر سزا بھی نہ ہو گی ۔ یہی دستور الٰہی ہے کہ وہ اپنے نیک بندوں کو جو اس سے ڈرتے رہتے ہیں برائیوں اور بدیوں سے محفوظ رکھتا ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ حضرت ایوب کی ثناء و صفت بیان فرماتا ہے کہ ہم نے انہیں بڑا صابر و ضابط پایا وہ بڑا نیک اور اچھا بندہ ثابت ہوا ۔ اس کے دل میں ہماری سچی محبت تھی وہ ہماری ہی طرف جھکتا رہا اور ہمیں سے لو لگائے رہا ، اسی لئے فرمان اللہ ہے کہ جو اللہ سے ڈرتا رہتا ہے اللہ اس کے لئے چھٹکارے کی صورت نکال دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے روزی پہنچاتا ہے جو اس کے خیال میں بھی نہ ہو ۔ اللہ پر توکل رکھنے والوں کو اللہ کافی ہے ۔ اللہ اپنے کام میں پورا اترتا ہے اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے ۔ سمجھدار علماء کرام نے اس آیت سے بہت سے ایمانی مسائل اخذ کئے ہیں واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

41۔ 1 حضرت ایوب (علیہ السلام) کی بیماری اور اس میں ان کا صبر مشہور ہے جس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اہل و مال کی تباہی اور بیماری کے ذریعے سے ان کی آزمائش کی جس میں وہ کئی سال مبتلا رہے۔ حتٰی کہ صرف ایک بیوی ان کے ساتھ رہ گئی جو صبح شام ان کی خدمت کرتی اور ان کو کہیں کام کاج کرکے بقدر کفالت رزق کا انتظام بھی کرتی۔ اس کی نسبت شیطان کی طرف اس لئے کی گئی ہے درآں حالیکہ سب کچھ کرنے والا صرف اللہ ہی ہے، کہ ممکن ہے شیطان کے وسوسے ہی کسی ایسے عمل کا سبب بنے ہوں جس پر یہ آزمائش آئی یا پھر بطور ادب کے ہے کہ خیر کا اللہ تعالیٰ کی طرف اور شر کو اپنی یا شیطان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٧] برے ایمان کی نسبت شیطان کی طرف :۔ ہر مسلمان کے عقیدہ میں یہ بات شامل اور اس کے ایمان بالغیب کا ایک جزء ہے کہ رنج ہو یا راحت، برائی ہو یا بھلائی سب کچھ اللہ کی مشیئت کے تحت ہوتا ہے۔ لیکن اس مشیئت کا انحصار بھی بعض دفعہ انسان کے اپنے قصور یا شیطانی وساوس سے کسی نہ کسی درجہ میں ضرور ہوتا ہے۔ اور قرآن کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جن امور میں کوئی پہلو شر کا & یا ایذا یا کسی صحیح مقصد کے فوت ہوجانے کا ہو ان کو اللہ کے مقرب بندے ادب کے نقطہ نظر اور تواضع کی خاطر کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کرتے بلکہ اسے اپنے نفس یا شیطان کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ جیسے سیدنا ابراہیم نے اپنے مرض کو اپنی طرف منسوب کیا۔ سیدنا موسیٰ کے ساتھ یوشع بن نون نے مچھلی کے سمندر میں چلے جانے کی بات کو شیطان کی طرف منسوب کیا، اسی طرح ایوب نے بھی اپنی بیماری اور تکلیف کو شیطان کی طرف منسوب کیا ہے اور اس کا مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ سیدنا ایوب طویل بیماری اور تکلیف کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی صحیح طور پر عبادت گزاری سے قاصر رہے تھے تو اس قصور کا باعث شیطانی وساوس کو قرار دیا ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاذْكُرْ عَبْدَنَآ اَيُّوْبَ : اس کا عطف اس سے پہلے پر ہے۔ لفظ ” عَبْدَنَآ “ میں اللہ تعالیٰ کے ان سے تعلق کا اظہار ہو رہا ہے۔ اس سورت میں مذکور قصّوں میں سے یہ تیسرا قصّہ ہے کہ داؤد اور سلیمان (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اور دونوں کی آزمائش کا ذکر فرمایا اور ایوب (علیہ السلام) پر آنے والی مصیبتوں اور تکلیفوں کا اور انھیں دور کرنے کی نعمت کا ذکر فرمایا، مقصد سب سے عبرت دلانا ہے۔ اَنِّىْ مَسَّنِيَ الشَّيْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍ : ” نُصْبٌ“ تھکاوٹ اور مشقت کو کہتے ہیں اور ” وَّعَذَابٍ “ شدید بدنی تکلیف کو۔ یعنی مجھے دو قسم کی تکلیف پہنچی ہے، ایک شدید دکھ جو مال و اولاد اور عافیت نہ رہنے کی وجہ سے تھا اور دوسری جسمانی تکلیف جو بیماری کی وجہ سے تھی۔ اس دعا میں ایوب (علیہ السلام) کا حسن ادب دیکھیے کہ انھوں نے دکھ اور تکلیف کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں کی بلکہ شیطان کی طرف کی ہے۔ حالانکہ رنج ہو یا راحت، برائی ہو یا بھلائی، سب اللہ تعالیٰ کی مشیّت کے تحت ہے اور وہی سب کا خالق ہے، مگر چونکہ اکثر ان کا تعلق کسی قریب یا بعید وجہ سے شیطان کے ساتھ ہوتا ہے، اس لیے اللہ کے مقرّب بندے شر کی نسبت اپنی طرف کرتے ہیں یا شیطان کی طرف، اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں کرتے، جیسا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے مرض کی نسبت اپنی طرف اور شفا کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی، فرمایا : (وَاِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِ ) [ الشعرآء : ٨٠ ] ” اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔ “ اور موسیٰ اور خضر (علیہ السلام) کے قصے میں یوشع بن نون (علیہ السلام) نے بھلانے کی نسبت شیطان کی طرف کی، فرمایا : (وَمَآ اَنْسٰنِيْهُ اِلَّا الشَّيْطٰنُ اَنْ اَذْكُرَهٗ ) [ الکہف : ٦٣ ] ” اور مجھے وہ نہیں بھلائی مگر شیطان نے کہ میں اس کا ذکر کروں۔ “ صحیح مسلم میں نماز کے شروع میں پڑھی جانے والی ایک لمبی دعا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے، جو ” وَجَّہْتُ وَجْہِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضَ “ سے شروع ہوتی ہے، اس میں یہ الفاظ ہیں : ( لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ وَ الْخَیْرُ کُلُّہُ فِيْ یَدَیْکَ وَالشَّرُّ لَیْسَ إِلَیْکَ ) [ مسلم، صلاۃ المسافرین، باب الدعاء في صلاۃ اللیل و قیامہ : ٧٧١، عن علي بن أبي طالب (رض) ] ” حاضر ہوں اور حاضر ہوں اور خیر ساری تیرے ہاتھ میں ہے اور شر تیری طرف نہیں ہے۔ “ ایوب (علیہ السلام) کی اس دعا میں اور سورة انبیاء (٨٣) میں مذکور دعا : (اَنِّىْ مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ ) (بےشک میں، مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم والا ہے) میں ایوب (علیہ السلام) کے دعا کے سلیقے کا اظہار ہو رہا ہے کہ انھوں نے صریح لفظوں میں اپنے مقصد کے اظہار کے بجائے اپنی حالت زار اور رب تعالیٰ کی مہربانی کا ذکر ایسے لفظوں میں کیا کہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی ان پر رحم فرما کر شفا دے دی۔ ان چاروں آیات کی مفصّل تفسیر کے لیے دیکھیے سورة انبیاء کی آیت (٨٣، ٨٤) کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The event relating to Sayyidna Ayyub (علیہ السلام) has been introduced here to comfort and prompt the Holy Prophet (علیہ السلام) ، so that he would also observe patience. This event has appeared with details in our commentary on Surah Al-Anbiya& (Ma’ ariful-Qur’ an, Volume V1). A few significant notes are being added here. In the opening verse (41), it was said: مَسَّنِيَ الشَّيْطَانُ بِنُصْبٍ وَعَذَابٍ : (The Shaitan has inflicted weariness and pain upon me). Some early commentators have given details as to how the Shaitan had caused this affliction and pain. They say that the disease from which Sayyidna (علیہ السلام) suffered had overtaken him under the influence of the Shaitan. What happened was that once the angels praised Sayyidna Ayyub (علیہ السلام) in a manner that made the Shaitan envy him. He prayed to Allah Ta’ ala that he be given such control over his body, wealth and children that allowed him to do whatever he liked with him. Allah Ta’ ala too intended to test Sayyidna Ayyub (علیہ السلام) ، therefore, the Shaitan was given this right, and he made him suffer from this disease. But, discerning commentators have refuted this story by saying that, in terms of the clear statement of the noble Qur&an, the Shaitan cannot gain control over the blessed prophets, therefore, it is not possible that he could have made him suffer from this disease. Some others have explained the Shaitan having afflicted pain by saying that the Shaitan used to plant all sorts of scruples in the heart of Sayyidna Ayyub (علیہ السلام) while he was very sick which hurt him all the more. This is what he has mentioned here. But, the best explanation of this verse is what Maulana Ashraf Thanavi (رح) has given in Bayan-ul-Qur&an. This is being reproduced here from the Khulasa-e-Tafsir in Ma’ ariful-Qur&an: &This affliction and pain, according to the saying of some commentators, is what Imam Ahmad has reported from Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) in his Kitabu-z-zuhd, in which it has been stated that the Shaitan had once met the wife of Sayyidna Ayyub (علیہ السلام) in the guise of a physician during the days of his sickness. Since he had posed himself as a physician, she requested him to treat her husband. He agreed subject to the condition that once he got cured, she would tell him that she was the one who cured him, and assured her that he wanted no more in return. She mentioned this to Sayyidna Ayyub (علیہ السلام) . He said, |"0 my simple wife, he was the Shaitan. Now, I solemnly resolve that, should Allah Ta’ ala make me get well again, I am going to beat you with one hundred sticks of branches.& So, he was particularly shocked that Shaitan had become so high-handed that he wanted to make his own wife say words that evidently amount to shirk, though they may not prove to be so if subjected to interpretation. Though, Sayyidna Ayyub (علیہ السلام) had made prayers for the removal of his affliction earlier as well, yet after this incident, he turned back to Him in plaint and prayer more fervently, and his prayer was answered: (Reported by Ahmad). The nature of the ailment of Sayyidna Ayyub (علیہ السلام) The Qur&an tells us only this much that Sayyidna Ayyub (علیہ السلام) was afflicted with a serious disease, but nothing was said about the nature of this disease. Even in Ahadith, no details about it have been reported from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Nevertheless, from some reports attributed to the Sahabah, it appears that blisters had erupted all over his body, and people had put him off on a dirt-heap out of nausea. But, some discerning commentators have refused to accept these attributed reports as correct. They say that diseases can afflict the blessed prophets, but they are not made to suffer from such diseases as would make people nauseated with it. Hence, this sort of disease cannot be attributed to Sayyidna Ayyub (علیہ السلام) . Instead, they say, it was some common disease. Therefore, reports in which blisters have been attributed to Sayyidna Ayyub (علیہ السلام) or in which it has been said that he was put off on a dirt-heap are not trustworthy, neither in terms of the authenticity of the report, nor rationally (abridged from Ruh-ul-Ma’ ani and Ahkam-ul-Qur’ an).

خلاصہ تفسیر اور آپ ہمارے بندہ ایوب (علیہ السلام) کو یاد کیجئے جبکہ انہوں نے اپنے رب کو پکارا کہ شیطان نے مجھ کو رنج اور آزار پہنچایا ہے۔ اور یہ رنج و آزار بعض مفسرین کے مطابق وہ ہے جو امام احمد نے کتاب الزہد میں ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) کی بیماری کے زمانے میں ایک بار شیطان ایک طبیب کی شکل میں حضرت ایوب کی بیوی کو ملا تھا۔ اسے انہوں نے طبیب سمجھ کر علاج کی درخواست کی، اس نے کہا اس شرط سے کہ اگر ان کو شفا ہوجائے تو یوں کہہ دینا کہ تو نے ان کو شفا دی، میں اور کچھ نذرانہ نہیں چاہتا۔ انہوں نے ایوب (علیہ السلام) سے ذکر کیا، انہوں نے فرمایا کہ بھلی مانس وہ تو شیطان تھا۔ میں عہد کرتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھ کو شفا دے دے تو میں تجھ کو سو قمچیاں ماروں گا۔ پس آپ کو سخت رنج پہنچا اس سے کہ میری بیماری کی بدولت شیطان کا یہاں تک حوصلہ بڑھا کہ خاص میری بیوی سے ایسے کلمات کہلوانا چاہتا ہے۔ جو ظاہراً موجب شرک ہیں۔ گو تاویل سے شرک نہ ہوں اگرچہ حضرت ایوب ازالہ مرض کے لئے پہلے بھی دعا کرچکے تھے۔ مگر اس واقعہ سے اور زیادہ ابہال اور تضرع سے دعا کی، پس ہم نے ان کی دعا قبول کرلی اور حکم دیا کہ) اپنا پاؤں (زمین پر) مارو۔ (چنانچہ انہوں نے زمین پر پاؤں مارا تو وہاں سے ایک چشمہ پیدا ہوگیا۔ (رواہ احمد) پس ہم نے ان سے کہا کہ۔ یہ (تمہارے لئے) نہانے کا ٹھنڈا پانی ہے اور پینے کا۔ (یعنی اس میں غسل کرو اور پیو بھی۔ چناچہ نہائے اور پیا بھی، اور بالکل اچھے ہوگئے) اور ہم نے ان کو ان کا کنبہ عطا فرمایا اور ان کے ساتھ (گنتی میں) ان کے برابر اور بھی (دیئے) اپنی رحمت خاصہ کے سبب سے اور اہل عقل کے لئے یادگار رہنے کے سبب سے (یعنی اہل عقل یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ صابروں کو کیسی جزا دیتے ہیں اور اب ایوب (علیہ السلام) نے اپنی قسم پوری کرنے کا ارادہ کیا۔ مگر چونکہ ان کی بیوی نے ایوب (علیہ السلام) کی خدمت بہت کی تھی۔ اور ان سے کوئی گناہ بھی صادر نہ ہوا تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ان کے لئے ایک تخفیف فرمائی) اور (ارشاد فرمایا کہ اے ایوب) تم اپنے ہاتھ میں ایک مٹھا سینکوں کا لو ( جس میں سو سینکیں ہوں) اور (اپنی بیوی کو) اس سے مار لو اور (اپنی) قسم نہ توڑو (چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ آگے ایوب (علیہ السلام) کی تعریف کی ہے کہ) بیشک ہم نے ان کو (بڑا) صابر پایا، اچھے بندے تھے کہ (خدا کی طرف) بہت رجوع ہوتے تھے۔ معارف و مسائل حضرت ایوب (علیہ السلام) کا واقعہ یہاں آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر کی تلقین کرنے کے لئے لایا گیا ہے یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ سورة انبیاء میں گزر چکا ہے، یہاں چند باتیں قابل ذکر ہیں۔ مَسَّنِيَ الشَّيْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍ ۔ (شیطان نے مجھ کو رنج اور آزار پہنچایا ہے) بعض حضرات نے شیطان کے رنج و آزار پہنچانے کی تفصیل یہ بیان کی ہے کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) جس بیماری میں مبتلا ہوئے وہ شیطان کے تسلط کی وجہ سے آئی تھی۔ اور ہوا یہ تھا کہ ایک مرتبہ فرشتوں نے حضرت ایوب (علیہ السلام) کی بہت تعریف کی جس پر شیطان کو سخت حسد ہوا اور اس نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ مجھے ان کے جسم اور مال واولاد پر ایسا تسلط عطا کردیا جائے جس سے میں ان کے ساتھ جو چاہوں سو کروں، اللہ تعالیٰ کو بھی حضرت ایوب (علیہ السلام) کی آزمائش مقصود تھی، اس لئے شیطان کو یہ حق دے دیا گیا اور اس نے آپ کو اس بیماری میں مبتلا کردیا۔ لیکن محقق مفسرین نے اس قصے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ قرآن کریم کی تصریح کے مطابق انبیاء (علیہ السلام) پر شیطان کو تسلط حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ اس نے آپ کو بیمار ڈال دیا ہو۔ بعض حضرات نے شیطان کے رنج وآزار پہنچانے کی یہ تشریح کی ہے کہ بیماری کی حالت میں شیطان حضرت ایوب (علیہ السلام) کے دل میں طرح طرح کے وسوسے ڈالا کرتا تھا، اس سے آپ کو اور زیادہ تکلیف ہوتی تھی، یہاں آپ نے اسی کا ذکر فرمایا ہے۔ لیکن اس آیت کی سب سے بہتر تشریح وہ ہے جو حضرت تھانوی نے بیان القرآن میں اختیار کی ہے اور جو خلاصہ تفسیر میں اوپر لکھی گئی ہے۔ حضرت ایوب کے مرض کی نوعیت : قرآن کریم میں اتنا تو بتایا گیا ہے کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) کو ایک شدید قسم کا مرض لاحق ہوگیا تھا، لیکن اس مرض کی نوعیت نہیں بتائی گئی۔ احادیث میں بھی اس کی کوئی تفصیل آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول نہیں ہے۔ البتہ بعض آثار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے جسم کے ہر حصے پر پھوڑے نکل آئے تھے۔ یہاں تک کہ لوگوں نے گھن کی وجہ سے آپ کو ایک کوڑی پر ڈال دیا تھا۔ لیکن بعض محقق مفسرین نے ان آثار کو درست تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) پر بیماریاں تو آسکتی ہیں، لیکن انہیں ایسی بیماریوں میں مبتلا نہیں کیا جاتا جن سے لوگ گھن کرنے لگیں۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) کی بیماری بھی ایسی نہیں ہو سکتی، بلکہ یہ کوئی عام قسم کی بیماری تھی، لہٰذا وہ آثار جن میں حضرت ایوب (علیہ السلام) کی طرف پھوڑے پھنسیوں کی نسبت کی گئی ہے یا جن میں کہا گیا ہے کہ آپ کو کوڑی پر ڈال دیا گیا تھا، روایةً ودرایةً قابل اعتماد نہیں ہیں۔ (مخلص از روح المعانی و احکام القرآن)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاذْكُرْ عَبْدَنَآ اَيُّوْبَ۝ ٠ ۘ اِذْ نَادٰى رَبَّہٗٓ اَنِّىْ مَسَّنِيَ الشَّيْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍ۝ ٤١ۭ ذكر الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل : الذّكر ذکران : ذكر بالقلب . وذکر باللّسان . وكلّ واحد منهما ضربان : ذكر عن نسیان . وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ، ( ذک ر ) الذکر ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔ عبد والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب : الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] . الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] . والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة، والناس في هذا ضربان : عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] . العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے وہ دوقسم پر ہیں ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔ ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔ ندا النِّدَاءُ : رفْعُ الصَّوت وظُهُورُهُ ، وقد يقال ذلک للصَّوْت المجرَّد، وإيّاه قَصَدَ بقوله : وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] أي : لا يعرف إلّا الصَّوْت المجرَّد دون المعنی الذي يقتضيه تركيبُ الکلام . ويقال للمرکَّب الذي يُفْهَم منه المعنی ذلك، قال تعالی: وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء/ 10] وقوله : وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة/ 58] ، أي : دَعَوْتُمْ ، وکذلك : إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة/ 9] ونِدَاءُ الصلاة مخصوصٌ في الشَّرع بالألفاظ المعروفة، وقوله : أُولئِكَ يُنادَوْنَمِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] فاستعمال النّداء فيهم تنبيها علی بُعْدهم عن الحقّ في قوله : وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق/ 41] ، وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم/ 52] ، وقال : فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل/ 8] ، وقوله : إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم/ 3] فإنه أشار بِالنِّدَاء إلى اللہ تعالی، لأنّه تَصَوَّرَ نفسَهُ بعیدا منه بذنوبه، وأحواله السَّيِّئة كما يكون حال من يَخاف عذابَه، وقوله : رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران/ 193] فالإشارة بالمنادي إلى العقل، والکتاب المنزَّل، والرّسول المُرْسَل، وسائر الآیات الدَّالَّة علی وجوب الإيمان بالله تعالی. وجعله منادیا إلى الإيمان لظهوره ظهورَ النّداء، وحثّه علی ذلك كحثّ المنادي . وأصل النِّداء من النَّدَى. أي : الرُّطُوبة، يقال : صوت نَدِيٌّ رفیع، واستعارة النِّداء للصَّوْت من حيث إنّ من يَكْثُرُ رطوبةُ فَمِهِ حَسُنَ کلامُه، ولهذا يُوصَفُ الفصیح بکثرة الرِّيق، ويقال : نَدًى وأَنْدَاءٌ وأَنْدِيَةٌ ، ويسمّى الشَّجَر نَدًى لکونه منه، وذلک لتسمية المسبَّب باسم سببِهِ وقول الشاعر : 435- كَالْكَرْمِ إذ نَادَى مِنَ الكَافُورِ «1» أي : ظهر ظهورَ صوتِ المُنادي، وعُبِّرَ عن المجالسة بالنِّدَاء حتی قيل للمجلس : النَّادِي، والْمُنْتَدَى، والنَّدِيُّ ، وقیل ذلک للجلیس، قال تعالی: فَلْيَدْعُ نادِيَهُ [ العلق/ 17] ومنه سمّيت دار النَّدْوَة بمكَّةَ ، وهو المکان الذي کانوا يجتمعون فيه . ويُعَبَّر عن السَّخاء بالنَّدَى، فيقال : فلان أَنْدَى كفّاً من فلان، وهو يَتَنَدَّى علی أصحابه . أي : يَتَسَخَّى، وما نَدِيتُ بشیءٍ من فلان أي : ما نِلْتُ منه نَدًى، ومُنْدِيَاتُ الكَلِم : المُخْزِيَات التي تُعْرَف . ( ن د ی ) الندآ ء کے معنی آواز بلند کرنے کے ہیں اور کبھی نفس آواز پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] جو لوگ کافر ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ میں اندر سے مراد آواز و پکار ہے یعنی وہ چو پائے صرف آواز کو سنتے ہیں اور اس کلام سے جو مفہوم مستناد ہوتا ہے اسے ہر گز نہیں سمجھتے ۔ اور کبھی اس کلام کو جس سے کوئی معنی مفہوم ہوتا ہو اسے ندآء کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے ۔ وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء/ 10] اور جب تمہارے پروردگار نے موسیٰ کو پکارا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة/ 58] اور جب تم لوگ نماز کے لئے اذان دیتے ہو ۔ میں نماز کے لئے اذان دینا مراد ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة/ 9] جب جمعے کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے ۔ میں بھی نداء کے معنی نماز کی اذان دینے کے ہیں اور شریعت میں ند اء الصلوۃ ( اذان ) کے لئے مخصوص اور مشہور کلمات ہیں اور آیت کریمہ : ۔ أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] ان کو گویا دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے : ۔ میں ان کے متعلق نداء کا لفظ استعمال کر کے متنبہ کیا ہے کہ وہ حق سے بہت دور جا چکے ہیں ۔ نیز فرمایا ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق/ 41] اور سنو جس دن پکارنے والا نزدیک کی جگہ سے پکارے گا ۔ وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم/ 52] اور ہم نے ان کو طور کے ذہنی جانب سے پکارا فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل/ 8] جب موسیٰ ان ان کے پاس آئے تو ندار آئی ۔ ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم/ 3] جب انہوں نے اپنے پروردگار کو دبی آواز سے پکارا میں اللہ تعالیٰ کے متعلق نادی کا لفظ استعمال کرنے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے گناہ اور احوال سینہ کے باعث اس وقت اپنے آپ کو حق اللہ تعالیٰ سے تصور کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنے والے کی حالت ہوتی ہے اور آیت کریمہ ؛ ۔ رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران/ 193] اے پروردگار ہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا ۔ جو ایمان کے لئے پکاررہا تھا ۔ میں منادیٰ کا لفظ عقل کتاب منزل رسول مرسل اور ان آیات الہیہ کو شامل ہے جو ایمان باللہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں اور ان چیزوں کو منادی للا یمان اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ ندا کی طرح ظاہر ہوتی ہیں اور وہ پکارنے والے کی طرح ایمان لانے کی طرف دعوت دے رہی ہیں ۔ اصل میں نداء ندی سے ہے جس کے معنی رطوبت نمی کے ہیں اور صوت ندی کے معنی بلند آواز کے ہیں ۔ اور آواز کے لئے نداء کا استعارہ اس بنا پر ہے کہ جس کے منہ میں رطوبت زیادہ ہوگی اس کی آواز بھی بلند اور حسین ہوگی اسی سے فصیح شخص کو کثرت ریق کے ساتھ متصف کرتے ہیں اور ندی کے معنی مجلس کے بھی آتے ہیں اس کی جمع انداء واندید آتی ہے ۔ اور در خت کو بھی ندی کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ نمی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ تسمیۃ المسبب با سم السبب کے قبیل سے ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 420 ) کالکرم اذا نادٰی من الکافور جیسا کہ انگور کا خوشہ غلاف ( پردہ ) سے ظاہر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ منادی کرنے والے کی آواز ہوتی ہے ۔ کبھی نداء سے مراد مجالست بھی ہوتی ہے ۔ اس لئے مجلس کو النادی والمسدیوالندی کہا جاتا ہے اور نادیٰ کے معنی ہم مجلس کے بھی آتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلْيَدْعُ نادِيَهُ [ العلق/ 17] تو وہ اپنے یاران مجلس کو بلالے ۔ اور اسی سے شہر میں ایک مقام کا نام درا لندوۃ ہے ۔ کیونکہ اس میں مکہ کے لوگ جمع ہو کر باہم مشورہ کیا کرتے تھے ۔ اور کبھی ندی سے مراد مخاوت بھی ہوتی ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ فلان اندیٰ کفا من فلان وپ فلاں سے زیادہ سخی ہے ۔ ھو یتندٰی علیٰ اصحابہ ۔ وہ اپنے ساتھیوں پر بڑا فیاض ہے ۔ ما ندیت بشئی من فلان میں نے فلاں سے کچھ سخاوت حاصل نہ کی ۔ مندیات الکلم رسوا کن باتیں مشہور ہوجائیں ۔ مسس المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] ، ( م س س ) المس کے معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔ اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی شطن الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] ( ش ط ن ) الشیطان اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو نصب ( تعب) والنُّصْبُ والنَّصَبُ : التَّعَبُ ، وقرئ : بِنُصْبٍ وَعَذابٍ [ ص/ 41] و ( نَصَبٍ ) وذلک مثل : بُخْلٍ وبَخَلٍ. قال تعالی: لا يَمَسُّنا فِيها نَصَبٌ [ فاطر/ 35] والنَّصَبُ : التَّعَبُ. قال تعالی: لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] . وقد نَصِبَ فهو نَصِبٌ ونَاصِبٌ ، قال تعالی: عامِلَةٌ ناصِبَةٌ [ الغاشية/ 3] . ( ن ص ب ) نصب اور نصب ونصب کے معنی تکلیف ومشقت کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ لا يَمَسُّنا فِيها نَصَبٌ [ فاطر/ 35] ایذا اور تکلیف میں ایک قراءت نصب بھی ہے اور یہ بخل وبخل کی طرح ہے قرآن میں ہے : ۔ یہاں نہ ہم کو رنج پہنچے گا ۔ النصب کے معنی مشقت کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] اس سفر سے ہم کو بہت تھکان ہوگئی ہے ۔ اور نصب ( س ) فھو نصب وناصب کے معنی تھک جائے یا کسی کام میں سخت محنت کرنے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ عامِلَةٌ ناصِبَةٌ [ الغاشية/ 3] سخت محنت کرنے والے تھکے ماندے ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

آپ کفار مکہ کے سامنے ہمارے بندہ ایوب کا واقعہ بیان کیجیے کہ جس وقت انہوں نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ آپ نے مجھ پر شیطان مسلط کردیا ہے اس نے مجھے تکلیف اور بیماری میں مبتلا کردیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤١ { وَاذْکُرْ عَبْدَنَآ اَیُّوْبَ ٧ اِذْ نَادٰی رَبَّہٗٓ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الشَّیْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍ } ” اور ذرا یاد کیجیے ہمارے بندے ایوب ( علیہ السلام) کو ‘ جبکہ اس نے پکارا اپنے رب کو کہ مجھے شیطان نے شدید بیماری اور تکلیف میں مبتلا کردیا ہے۔ “ حضرت ایوب (علیہ السلام) کی بیماری اور ان کا صبر مشہور ہے۔ آپ ( علیہ السلام) کسی جلدی مرض میں مبتلا ہوگئے تھے جس کی وجہ سے آپ ( علیہ السلام) کا سارا جسم گل گیا تھا۔ مال و دولت بھی سب جاتا رہا ‘ اعزہ و اقرباء منہ موڑ گئے ‘ آل و اولاد میں سے کچھ فوت ہوگئے اور کچھ آپ کو چھوڑ کر چلے گئے۔ آخر کار ایک بیوی ساتھ رہ گئی تھی جو اس بیماری سے اکتانے لگی۔ (واضح رہے کہ شر یا ایذاوغیرہ کو شیطان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ یہ مراد نہیں کہ شیطان کو تکلیف پہنچانے کی قدرت حاصل ہے۔ ) آپ ( علیہ السلام) نے انتہائی کس مپرسی کی حالت میں مذکورہ بالا دعا کی تو جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

41 This is the fourth place in the Qur'an where the Prophet Job has been mentioned. Before this he has been mentioned in An-Nisa. 163, Al-An'am: 84 and AI-Anbiya': 83-84 above. For the details about him, please see E.N.'s 76 to 79 of Surah Al-Anbiya' 42 This does not mean that Satan has afflicted me with illness and brought distress upon me, but it means: "The affliction of the severities of illness, the loss of property and wealth, and the desertion of the near and dear ones, is not so great a torment and trouble for me as the temptation of Satan, who is exploiting my condition to despair me of my Lord and wants that I should turn ungrateful to Him and become desperate and impatient." This meaning of the lamentation of the Prophet Job is preferable for two reasons: (1) According to the Qur'an, Allah has granted Satan only the power of temptation: He has not given him the power to afflict with illness the worshippers of Allah and compel them to deviate from the way of service and obedience by causing them physical ailments. (2) In Surah AIAnbiya' when the Prophet Job puts before Allah his complaint about illness and disease, he does not mention Satan at all, but says only: "I have been afflicted with the disease and You are most Merciful."

سورة صٓ حاشیہ نمبر :41 یہ چوتھا مقام ہے جہاں حضرت ایوب علیہ السلام کا ذکر قرآن میں آیا ہے ۔ اس سے پہلے سورہ نساء آیت 163 ، سورہ انعام آیت 84 ، سورہ انبیاء آیات 83 ۔ 84 میں ان کا ذکر گزر چکا ہے اور ہم تفسیر سورہ انبیاء میں ان کے حالات کی تفصیل بیان کر چکے ہیں ۔ ( تفہیم القرآن ، جلد سوم ، صفحات 178 تا 181 ) سورة صٓ حاشیہ نمبر :42 اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ شیطان نے مجھے بیماری میں مبتلا کر دیا ہے اور میرے اوپر مصائب نازل کر دیے ہیں ، بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ بیماری کی شدت ، مال و دولت کے ضیاع ، اور اعزہ و اقربا کے منہ موڑ لینے سے میں جس تکلیف اور عذاب میں مبتلا ہوں اس سے بڑھ کر تکلیف اور عذاب میرے لیے یہ ہے کہ شیطان اپنے وسوسوں سے مجھے تنگ کر رہا ہے ، وہ ان حالات میں مجھے اپنے رب سے مایوس کرنے کی کوشش کرتا ہے ، مجھے اپنے رب کا ناشکرا بنانا چاہتا ہے ، اور اس بات کے درپے ہے کہ میں دامن صبر ہاتھ سے چھوڑ بیٹھوں ۔ حضرت ایوب کی فریاد کا یہ مطلب ہمارے نزدیک دو وجوہ سے قابل ترجیح ہے ، ایک یہ کہ قرآن مجید کی رو سے اللہ تعالیٰ نے شیطان کو صرف وسوسہ اندازی ہی کی طاقت عطا فرمائی ہے ، یہ اختیارات اس کو نہیں دیے ہیں کہ اللہ کی بندگی کرنے والوں کو بیمار ڈال دے اور انہیں جسمانی اذیتیں دے کر بندگی کی راہ سے ہٹنے پر مجبور کرے ۔ دوسرے یہ کہ سورہ انبیاء میں جہاں حضرت ایوب علی السلام اپنی بیماری کی شکایت اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرتے ہیں وہاں شیطان کا کوئی ذکر نہیں کرتے بلکہ صرف یہ عرض کرتے ہیں کہ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ ، مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو ارحم الراحمین ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

21: جیسا کہ سورۃ انبیاء میں گذر چکا ہے، حضرت ایوب (علیہ السلام) کو ایک طویل بیماری لاحق ہوگئی تھی۔ وہ صبر کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہے جس کے بعد انہیں شفا حاصل ہوئی۔ آیت نمبر 42 میں شفا کا واقعہ بیان فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ہدایت فرمائی کہ وہ اپنا پاؤں زمین پر ماریں۔ انہوں نے زمین پر پاؤں مارا تو وہاں سے ایک چشمہ پھوٹ نکلا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ اس پانی سے نہائیں، اور اسی کو پئیں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا تو ان کی بیماری جاتی رہی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤١۔ ٤٣۔ بعضے علما کا قول ہے کہ ایوب (علیہ السلام) انبیا بنی اسرائیل میں سلیمان (علیہ السلام) کے بعد نبی آئے ہیں۔ قرآن شریف کی اس سورة میں اور سورة الانبیاء میں ایوب (علیہ السلام) کا قصہ سلیمان (علیہ السلام) کے بعد ہے۔ اس سے اس قول کی تائید بھی ہوتی ہے۔ لیکن ابن عساکر میں ہے کہ ایوب (علیہ السلام) لوط (علیہ السلام) کے نواسے اور موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے کے انبیا میں ہیں۔ ایوب (علیہ السلام) بہت صاحب اولاد اور صاحب مال تھے۔ ترمذی ١ ؎ اور ابن ماجہ میں سعد بن ابی وقاص کی صحیح روایت ہے۔ جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ دنیا میں سب سے زیادہ آزمائش انبیاء کی ہوا کرتی ہے۔ اس عادت الٰہی کے موافق ایوب (علیہ السلام) کی یہ آمازئش ہوئی کہ ان کی اولاد سب مرگئی سارا مال برباد ہوگیا۔ خود ایسے بیمار ہوئے کہ تمام بدن میں کیڑے پڑگئے۔ بستی کے لوگوں نے بستی سے باہر ایک کونے میں ان کو ڈال دیا۔ سو ان کی بی بی کے اور کوئی ان کا ساتھ دینے والا نہ رہا۔ تیرہ یا اٹھارہ برس تک یہی حال رہا۔ ایوب (علیہ السلام) کا صبر اس لئے مشہور ہے کہ وہ اس سخت آزمائش میں گھبرائے نہیں۔ علماء نے لکھا ہے کہ ان کی بی بی کا نام رحمت ٢ ؎ تھا۔ اور وہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی بیٹی یا پوتی تھیں۔ صحیح سند سے مسند بزار مستدرک حاکم صحیح ابن حبان ٣ ؎ میں انس بن مالک سے روایت ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ ایوب (علیہ السلام) کے ایک دوست کی زبان سے ایک دن جب یہ کلمہ نکلا کہ ایوب (علیہ السلام) سے کوئی ایسا بڑا گناہ ہوا ہے جو تیرہ یا اٹھارہ برس کی تکلیف میں بھی معاف نہیں ہوا تو یہ کلمہ سن کر ایوب (علیہ السلام) نے وہ دعا کی۔ جس کا ذکر ان آیتوں میں ہے اس کے بعد ایوب (علیہ السلام) کو خواب میں یہ حکم ہوا کہ زمین میں لات مارو انہوں نے جب لات ماری تو زمین میں دو چشمے پیدا ہوگئے۔ انہوں نے ایک چشمہ کا پانی پیا اور دوسرے چشمہ کے پانی سے نہا لئے اور فوراً اچھے ہوگئے۔ ایوب ٤ ؎ (علیہ السلام) کی بی بی بستی میں جا کر محنت مزوری کیا کرتی تھیں اور کچھ کھانا لے کر خود بھی کھاتی تھیں۔ ایوب (علیہ السلام) کو بھی کھلایا کرتی تھیں جس دن ایوب (علیہ السلام) اچھے ہوگئے۔ اس دن جب وہ کھانا لے کر آئیں تو انہوں نے ایوب (علیہ السلام) کو نہیں پہچانا اور ایوب (علیہ السلام) سے پوچھا کہ یہاں ایک بیمار شخص جو پڑا رہتا تھا۔ اس کا کچھ حال تم کو معلوم ہے کیا اس کو بھیڑیا تو نہیں لے گیا۔ ایوب (علیہ السلام) نے جواب دیا وہ بیمار میں ہی ہوں اللہ تعالیٰ نے میرے صبر کا اجر مجھ دیا کہ مجھے بالکل تندرست کردیا تفسیر ضحاک ٥ ؎ میں حضرت عبد اللہ بن عباس کا قول ہے کہ اسکے بعد اللہ تعالیٰ نے ایوب (علیہ السلام) کی بیوی کو جوان کردیا اور ان سے ٢٣ بچے ہوئے صحیح بخاری ٦ ؎ اور صحیح ابن حبان میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایوب (علیہ السلام) کے اچھے ہوجانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان پر سونے کی ٹڈیوں کا مینہ برسایا جس سے ایوب (علیہ السلام) مال دار ہوگئے۔ آخر کو فرمایا امت محمدیہ کے ایماندار عقل مند لوگوں کو مشرکین مکہ کے ستانے پر صفر کرنا اور صبر کے اجر کی امید اس قصہ سے پیدا کرنی چاہئے۔ اگرچہ ایوب (علیہ السلام) کی مدت میں سلف کا اختلاف ہے لیکن تیرہ برس کی مدت کی انس (رض) بن مالک کی روایت کو ابن حبان اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔ مسند امام احمد وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس کا قول ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایوب (علیہ السلام) کے نیک عملوں کی کثرت دیکھ کر شیطان کو ایوب (علیہ السلام) سے ایک طرح کی دشمنی ہوگئی تھی اس لئے شیطان نے اللہ تعالیٰ سے التجا کی کہ مجھ کو ایوب (علیہ السلام) کی اولاد کی ہلاکت اور مال کی بربادی اور صحت جسمانی کی خرابی پر مسلط کیا جاوے تو میں دیکھوں کہ اس آزمائش کے بعد بھی ایوب (علیہ السلام) اپنے نیک عملوں پر قائم رہتے ہیں یا نہیں۔ اللہ تعالیٰ کو آزمائش کے سبب سے ایوب (علیہ السلام) کا درجہ بڑھانا منظور تھا۔ اس واسطے ایوب (علیہ السلام) نے انی مسنی الشیطن کہا۔ لیکن حافظ ابن کثیر وغیرہ نے اس قول کو ضعیف ٹھہرایا ہے اور کہا ہے کہ انبیا پر شیطان کا اس طرح کا تسلط اللہ کی شان سے بعید ہے۔ سورة بنی اسرائیل کی آیت ان عبادی لیس لک علیھم سلٰطن سے حافظ ابن کثیر کے اعتراض کی پوری تائید ہوتی ہے۔ کیونکہ اس آیت کا مطلب بھی وہی ہے جو حافظ ابن کثیر کے اعتراض کا مطلب ہے اس واسطے آیت کی تفسیر ان ہی علمائے سلف کے قول کے موافق صحیح معلوم ہوتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ مال داری کے زمانہ میں شیطانی وسوسہ سے ایوب (علیہ السلام) مال داری کی حالت کو ذرا اچھا جاننے لگے تھے اس پر ان کو یہ تکلیف پہنچی اور اسی شیطانی وسوسہ کو انہوں نے تکلیف کا سبب ٹھہرا کر انی مسنی الشیطن بنصب و عذاب کہا صحیح بخاری ٢ ؎ اور موطا میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس کسی کو اللہ تعالیٰ عقبے میں بڑا درجہ دینا چاہتا ہے۔ اس کو دنیا میں طرح طرح کی مصیبتوں میں مبتلا کرکے ان مصیبتوں پر صبر کی توفیق عطا فرماتا ہے۔ جس سے اس صبر کے اجر میں وہ شخص عقبے میں بڑا درجہ پانے کا مستحق ہوجاتا ہے۔ اس حدیث کو ایوب (علیہ السلام) کے قصہ کی تفسیر میں بڑا دخل ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ ایوب (علیہ السلام) کے حال پر اللہ تعالیٰ کی بڑی مہربانی تھی کہ اس نے دنیا میں ان کو طرح طرح کی مصیبتوں میں مبتلا کر کے صبر کی توفیق دی۔ جس سے ان کے عقبے میں رتبہ بڑھا اب کسی دیندار آدمی پر کوئی دنیوی تکلیف گزرے تو اسے توفیق صبر کی دعا مانگنی چاہئے اور ثابت قدم رہ کر اس تکلیف سے گھبرانا نہیں چاہئے۔ بلکہ یہ سمجھنا چاہئے کہ اس تکلیف کی حالت پر صبر کرنے سے عقبے میں بڑا ثواب ملے گا۔ چناچہ طبرانی کبیر کے حوالہ ٣ ؎ سے حضرت عبد اللہ (رض) بن عباس کی صحیح حدیث ایک جگہ سے گزر چکی ہے۔ جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن جب مصیبتوں پر صبر کرنے والے لوگوں کو صبر کا اجر امید سے بڑھ کر ملے گا تو بےصبرے لوگ یہ کہیں گے کہ دنیا میں کوئی ہماری بوٹیاں قینچی سے کترتا اور ہم اس تکلیف پر صبر کرتے تو اچھا ہوتا کہ آج ہم بھی بڑے اجر کے مستحق ٹھہرتے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 قرآن نے عموماً ایسے۔ امور کی نسبت شیطان کی طرف کی ہے جن میں شر یا ایذا کا کوئی پہلو پایا جاتا ہو۔ کیونکہ کسی نہ کسی قریب یا بعید وجہ میں ایسے امور کا تعلق شیطان ہی سے ہوتا ہے۔ اس معنی میں حضرت ایوب ( علیہ السلام) نے اپنی جسمانی بیماری یا مالی تکلیف کی نسبت شیطان کی طرف کردی ہے ورنہ انبیاء ( علیہ السلام) کے جسم و قلب پر شیطان کو تسلط نہیں ہوسکتا۔ جیسا کہ اس مقام پر تفسیروں میں اسرائیلی قصہ درج کیا گیا اور دعا ظ مبالغہ آمیزی کے ساتھ عوام کی دلچسپی کے لئے داستان گوئی کرتے رہتے ہیں۔ ( ابن حزم)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 4 ۔ آیات 41 ۔ تا۔ 64: اسرار و معارف : اور ہمارے بندے ایوب (علیہ السلام) کا واقعہ یاد کرلیجیے کہ جب انہوں نے پروردگار سے دعا کی کہ بار الہا اب تو شیطان بھی مجھے ایذا اور تکلیف پہنچانے لگا ہے کہ بیماری نے اس قدر بےبس کردیا ہے یہاں بہت عجیب و غریب قصے بیان کیے گئے ہیں جن کی تائید قرآن و سنت سے نہیں ہوتی۔ اتنی بات سب کا حاصل ہے کہ ایوب (علیہ السلام) بہت خوشحال تھے کہ اللہ کی آزمائش آئی خاندان تک موت کی وادی میں اتر گیا ، کاروبار ٹھپ ہوگیا۔ ایک بیوی باقی بچی اور خود بھی بیماری سے کام کرنے کے قابل نہ رہے تو ایک روز شیطان کسی طبیب کے روپ میں ان کی اہلیہ سے ملا اور علاج کے لیے کچھ کلمات سکھانا چاہے۔ انہوں نے آ کر ایوب (علیہ السلام) سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا یہ تو ابلیس تھا اور اس کی یہ جرات کہ اب مجھ پر داؤ آزمانے چلا ہے آپ کو بہت دکھ ہوا خوب الحاح وزاری سے دعا کی کہ اے اللہ مجھے صحت دے کہ میں اس کی چالوں سے تیرے بندوں کو بچانے کا کام کروں اور بیوی سے ناراض ہو کر قسم کھائی کہ صحت ہوگئی تو تجھے سو کوڑے ماروں گا۔ ارشاد ہوا کہ زمین پر پاؤں مارو جیسے ہی مرا چشمہ پھوٹ پڑا فرمایا اس سے غسل بھی کیجیے اور یہی آپ کے پینے کے لیے بھی ہے چناچہ آپ نے غسل فرمایا اور پانی پیا تو صحت یا ب ہوگئے ہم نے ان کا خاندان پھر سے بڑھا کر انہیں عطا کردیا اور مال و دولت بھی بلکہ پہلے سے دو چند کہ یہ ہماری رحمت و عطا تھی تاکہ دانشمندوں کے لیے باعث نصیحت بن جائے چونکہ ان کی اہلیہ نے ان کی بہت خدمت کی تھی اور وہ بےقصور تھیں چناچہ ہم نے انہیں یہ حیلہ تعلیم فرمایا کہ آپ تیلیوں کا مٹھہ جس میں سو تیلیاں ہوں ہاتھ میں لے کر انہیں ایک ہی بار مار دیں کہ آپ کی قسم بھی پوری ہوجائے اور انہیں تکلیف بھی نہ ہو اور اپنی قسم نہ توڑیں۔ حیلہ اور قسم : یہاں سے علماء نے ثابت فرمایا ہے کہ تکمیل عہد ووغیرہ کے لیے ایسا حیلہ کرنا کہ اس کے الفاظ کی تعمیل ہوجائے درست ہے مگر ایسا حیلہ جو احکام شرعی کو بےاثر کرتا ہو یا روکتا ہو جائز نہیں ہوگا۔ نیز قسم اگر غلط کام پر بھی لی تو ہوگئی اب اگر وہ نہیں کرنا چاہتا تو چھوڑ دے کہ پتہ چل گیا یہ ٹھیک نہیں مگر قسم کا کفارہ دے گا۔ ہم نے ایوب (علیہ السلام) کو بہت صبر کرنے والا پایا کہ دوسرے لوگوں کے لیے مثال بن گئے اور خوب بندے تھے ہمارے کہ ہر حال میں حق بندگی ادا کرتے رہے۔ آپ ابراہیم ، اسحقا اور یعقوب (علیہما السلام) کو یاد کیجیے کہ انہوں نے اپنی ساری توانائیاں عملی عقلی مالی بصری اللہ کی راہ میں صرف کردیں اور ہم نے انہیں یہ امتیاز بخشا کہ ہر کام ہی انہوں نے اپنے اصلی گھر یعنی آخرت کے گھر کے لیے کیا اور کبھی اسے بھولے نہیں یہ وہ لوگ تھے جو ہماری بارگاہ کے پسندیدہ اور منتخب تھے۔ اسی طرح اسمعیل (علیہ السلام) اور الیسع اور ذالکفل یہ کہ سب اللہ کے محبوب بندے تھے ان سب کے واقعات کا حاصل یہ ہے کہ واقعی اللہ کی اطاعت کرنے والوں کے لیے بالآخربہترین ٹھکانہ ہے یعنی ہمیشہ اور دائم آباد رہنے ولای جنت کہ جو ان کی راہ دیکھ رہی ہے جہاں وہ گاؤ تکیے لگا کر بیٹھے ہوں گے اور طرح طرح کے پھل اور شاندار مشروب انہیں پیش کیے جا رہے ہوں گے نیز حد درجہ حسین با حیا اور نوعمر بیویاں ان کے پاس ہوں گی اور ارشاد ہوگا لو یہ وہ انعامات ہیں جن کا وعدہ روز حشر کا کیا گیا تھا اور یہ ہماری عطا ہے اب یہ کبھی کم نہ ہوگی نعمتیں بڑھیں گی کمی کا اندیشہ نہ رہے گا یہ حال تو ان لوگوں کا ہے مگر سرکشی اور نافرمانی کرنے والوں کا بھی سن لیں کہ بہت برا حال ہوگا ان کو دوزخ میں پھینکا جائے گا جو بہت ہی تکلیف دہ جگہ ہے اور کہا جائے گا کہ موج کرو اب کھولتا ہوا جہنم کا پانی اور دوزخیوں کے زخموں کی پیپ تمہاری غذا ہے یا اسی طرح کی دوسری اشیا۔ پھر پہلے والے پیچھے آنے والوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے لو اور ادیکھو ان پر اللہ کی مار ہو یہ اور ایک لشکر گھسا آ رہا ہے وہ کہیں گے اللہ کی مار ہو تم پر کہ تم ہی آگے چلے اور ہمیں بھی اس حال کو پہنچایا کہ تباہ کردیا یہ بہت ہی بری جگہ ہے پھر بعد والے دعا کریں گے کہ یا اللہ جو ہماری گمراہی کا سبب بنے اور ہمیں جہنم میں لے آئے انہیں دو گنا عذاب فرما۔ پھر سب کہیں گے یار وہ مسلمان جنہیں ہم دنیا میں بہت برا اور آج کی زبان میں دہشت گرد کہا کرتے تھے وہ کہیں نظر نہیں آ رہے کیا ہماری آنکھیں انہیں دیکھنے سے چکرا رہی ہیں یا پھر ہم مذاق اڑاتے رہے اور وہ اس مصیبت سے بچ گئے اور اہل دوزخ کے لیے دوزخ کے عذابوں کے علاوہ یہ بھی بہت بڑا عذاب ہوگا کہ مسلمانوں کے بچ جانے کا رنج اور ایک دوسرے پر الزام تراشی اور جھگڑا۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 41 تا 44 :۔ نصب ( بیماری ، تکلیف ، مشقت) ارکض (ہلا کر زور سے مارو) رجل ( پاؤں) مغتسل ( نہانے کا پانی) شراب ( پینے کی چیز ، مشروب) اول الالباب ( عقل و فہم والے) ضغثا (تیلیوں یا سینکوں کا مٹھا) لاتحنث (قسم نہ توڑ) تشریح : آیت نمبر 41 تا 44 :۔ نبی کریم حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا گیا ہے کہ ” واصبر علی مایقولون “ یعنی جو کچھ لوگ باتیں بناتے ہیں ان پر صبر کیجئے۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) جو بنی اسرائیل کے ایک نبی تھے ان کی مثال بیان کی گئی ہے کہ انہوں نے خوش حالی کے زمانہ میں شکر اور شدید مشکلات اور بیماریوں میں صبر کا دامن تھا مے رکھا ۔ شیطان نے ہر طرح وسوسے ڈالنے اور ان کی خدمت گزار بیوی کو گمراہ کرنے کی کوششیں کیں لیکن اللہ نے اپنی رحمت خاص سے ان کو شیطان کی گمراہیوں سے محفوظ رکھا۔ اسرائیلی روایات سے قطع نظر قرآن کریم میں اس جگہ کے علاوہ تین اور مقامات پر حضرت ایوب (علیہ السلام) اور ان کے صبر و شکر کا ذکر فرمایا گیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) کو اللہ نے خوش حالی ، گھر کا سکون ، بچوں کی رونق اور مال و دولت سے نواز رکھا تھا لیکن اچانک میں ایسی زبردست تبدیلی آئی کہ ان کا گھر بار ، مال و دولت ( اور ان کی بیوی کے سوا) ساری اولاد ختم ہوگئی ۔ اس کے بعد وہ شدید بیماریوں میں مبتلا ہوگئے ۔ تمام رشتہ داروں اور دوستوں نے ان سے ملنا جلنا چھوڑ دیا اور وہ شہر سے باہر کسی جھونپڑی میں رہنے پر مجبور ہوگئے سوائے ان کی بیوی جن کا نام رحمت تھا وہ ان کے ساتھ رہ گئیں اور انہوں نے دن رات بےمثال خدمات سر انجام دیں ۔ ایک دن شیطان نے انسانی شکل میں آ کر ان کی بیوی سے یہ کہا کہ میں ایک طبیعت ہوں تمہارے شوہر کو شفاء حاصل کرنے کی دادا دے سکتا ہوں اس پر میں تم سے کوئی اجرت نہیں لیتا بس اتنا چاہتا ہوں کہ جب تمہارے شوہر کو شفاء مل جائے تو یوں کہہ دینا کہ تو نے ان کو شفا دی ، چونکہ سخت تنگی اور بد حالی کے زمانہ میں آدمی کے ذہن میں صرف ایک ہی بات رہتی ہے کہ بیماری کو شفاء مل جائے۔ جب اس بات کا ذکر انہوں نے حضرت ایوب (علیہ السلام) سے کیا تو انہیں اس سے سخت رنج اور تکلیف اور انہوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ جب مجھے شفاء مل جائے گی تو تمہاری اس حرکت پر تمہیں سو لکڑیاں ماروں گا ۔ ادھر شیطان نے حضرت ایوب (علیہ السلام) کے دل میں طرح طرح کے وسوسے پیدا کرنے شروع کردیئے۔ اگرچہ حضرت ایوب (علیہ السلام) صبر و شکر کے پیکر تھے مگر ان تمام حالات کے بعد انہوں نے اللہ کی بارگاہ میں درخواست کی کہ الٰہی اب تو شیطان نے بھی مجھے تکلیف اور رنج و غم دینا شروع کردیا ہے مجھے ان حالات سے نکالئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جہاں آپ موجود ہیں وہاں زمین پر زور سے پاؤں ماریئے آپ دیکھیں گے کہ وہاں سے پانی کا ایک چشمہ ابلنے لگے کا وہ ٹھنڈا اور میٹھا پانی ہوگا اس سے غسل کیجئے اور بیجئے۔ چنانچہ حضرت ایوب (علیہ السلام) نے ایسا ہی کیا جب ٹھنڈے میٹھے پانی کا چشمہ بہہ نکلا تو آپ نے اس سے پیا اور غسل کیا جس سے تمام بیماریاں ختم ہوگئیں اور وہ مکمل طور پر صحت مند ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے دوسرا کرم یہ کیا کہ صحت و شفاء حاصل ہونے کے بعد ان کے تمام گھر والے جو مر گئے تھے نہ صرف ان کو زندہ کردیا بلکہ اس سے زیادہ ان کو اولاد اور دولت و حشمت عطاء فرما دی جس سے پہلے جیسی چہل پہل شروع ہوگئی۔ بیماری کے دوران حضرت ایوب (علیہ السلام) نے جو اپنی بیوی کو سو لکڑیوں سے مارنے کی قسم کھائی تھی اس کے لئے فرمایا کہ آپ اپنی قسم پوری کریں اور اپنی قسم کو نہ توڑیں لیکن ان کی بیوی کی عظیم خدمات تھیں اس لئے فرمایا کہ سو سینکوں کا ایک گٹھا بنا لیں یا کھجور کی ایک ایسی شاخ لے لیں جس میں سو لکڑیاں ہوں ان کی ایک ہی دفعہ ماریں تو اس سے تمہاری قسم پوری ہوجائے گی ، چناچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور ان کی قسم پوری ہوگئی۔ اس مرحلہ پر فقہاء کرام (رح) نے فرمایا ہے کہ اب ہر شخص کو اس طرح کرنے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ یہ حضرت ایوب (علیہ السلام) کے ساتھ خصوصی طور پر معاملہ کیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان تمام حالات میں حضرت ایوب (علیہ السلام) نے جس طرح صبر اور برداشت کا دامن تھامے رکھا وہ اپنی جگہ ایک بہترین مثال ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام (رض) سے فرمایا جا رہا ہے کہ دیکھو حضرت ایوب (علیہ السلام) نے شدید حالات میں بھی صبر ، برداشت اور اللہ کا شکر ادا کیا اور اللہ کی بارگاہ میں جھگ کر مانگا تو ان کو پہلے سے زیادہ عطاء کیا گیا ۔ ہر شخص جو اللہ کے دین کی سر بلندی اور اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے صبر و شکر کرتا رہے گا اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو دنیا اور آخرت میں ہر طرح کی کامیابی اور عظمتوں سے ہم کنار کرتا جائے گا لیکن جو بےصبری اور نا شکری کا طریقہ اختیار کرے گا اور شیطان کے بہکائے میں آ کر غلط سلط راستہ اختیار کرے گا اس کو دنیا میں اور آخرت میں تو خاص طور پر ذلتوں کا سامنا کرنا پڑے گا ۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا شان و شکوہ بیان کرنے کے بعد حضرت ایوب (علیہ السلام) کی بےبسی اور تکلیف کا تذکرہ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ایوب ہمارا پسندیدہ بندہ تھا۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان کی بیماری اور کمزوری کا لوگوں کے سامنے تذکرہ کریں کہ انتہا درجہ کی بیماری اور کمزوری کے باوجود اس نے اپنے رب کو یاد رکھا اور اس کی رضا پر راضی رہا۔ واقعہ یہ ہے کہ ایوب (علیہ السلام) اس قدر بیمار ہوئے کہ چلنے پھرنے سے بھی عاجز آگئے۔ مفسرین نے لکھا کہ اس دوران ان کا مال بھی تباہ ہوا اور ایک بیوی کے سوا باقی بیویاں ان سے الگ ہوگئیں۔ شدید بیماری اور شدید ترین آزمائشوں کے باوجود ایوب (علیہ السلام) کی زبان پر کوئی حرف شکایت نہ آیا جب بھی ہونٹ ہلے تو اپنے رب کے حضور فریاد کی کہ میرے رب ! مجھے شیطان نے سخت تکلیف میں مبتلا کردیا ہے۔ صبر اور ادب کا انذازہ کیجیے کہ بیماری کی نسبت اپنے رب کی طرف کرنے کی بجائے شیطان کی طرف کی ہے کیونکہ ہر تکلیف اور نقصان کا بنیادی سبب شیطان کی شیطنت کا نتیجہ ہوتا ہے اگر کسی بد پرہیزی کی وجہ سے انسان بیمار ہو تو اس بدپرہیزی کے پیچھے بھی شیطان ہی ہوتا ہے۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) کی دعا مستجاب ہوئی اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم فرمایا کہ اپنا پاؤں زمین پر مارو جونہی انہوں نے اپنا پاؤں زمین پر مارا تو اللہ تعالیٰ نے ٹھنڈے اور میٹھے پانی کا چشمہ جاری کیا اور حکم فرمایا کہ اے ایوب (علیہ السلام) اس میں غسل کرو جس سے اللہ تعالیٰ نے انہیں شفا کاملہ عطا فرمائی۔ ایک طرف حضرت ایوب (علیہ السلام) صحت یاب ہوئے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے انہیں نیک اہل و عیال عطا فرمائے اور ان کے ساتھ اور بہت کچھ دیا۔ کچھ اہل علم نے لکھا ہے کہ سخت بیماری کی وجہ سے جو بیویاں چھوڑ گئی تھیں وہ بھی بچوں سمیت واپس آگئیں جن سے اللہ تعالیٰ نے مزید اولاد عنایت فرمائی اور تباہ ہونیوالے مال کے بدلے بہت سا مال بھی عطا فرمایا۔ اس میں بہت سی نصیحتیں ہیں ان لوگوں کے لیے جو صاحب عقل ہیں۔ اسرئیلی روایات کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ بیماری کے دوران حضرت ایوب (علیہ السلام) کی بیوی کے پاس انسان کی شکل میں شیطان آیا اور اس نے کہا کہ میں آپ کے خاوند کا اس شرط پر علاج کرتا ہوں کہ اگر وہ صحت یاب ہوجائے۔ تو پھر تو نے یہ الفاظ کہنا ہوں گے یہی میرے علاج کا معاوضہ ہے۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) کی بیوی نے آپ ( علیہ السلام) کی خاطر وہ الفاظ کہنے کا وعدہ کرلیا بعد ازاں اس کا ذکر حضرت ایوب (علیہ السلام) سے کیا تو وہ اس بات پر سخت نالاں ہوئے اور فرمایا کہ یہ انسان نہیں بلکہ شیطان تھا جس نے تجھ سے ایسے الفاظ کہلوانے کا وعدہ لیا ہے۔ جن میں شرک پایا جاتا ہے جن مفسرین نے اس روایت کو تسلیم نہیں کیا ان کا خیال ہے کہ حضرت ایوب کسی اور بات سے اپنی بیوی پر خفا ہوئے تھے۔ اس پر ایوب (علیہ السلام) نے قسم اٹھائی کہ جب میں صحت مند ہوں گا تو تجھے سو کوڑے ماروں گا جب ایوب (علیہ السلام) چشمہ سے غسل کرنے کے بعد صحت یاب ہوگئے تو انہوں نے اپنی قسم پوری کرنے کا عزم کیا جس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ قسم توڑنے کی بجائے اسے اس طرح پورا کرو کہ سو تنکے کا جھاڑو لے کر اپنی بیوی کو ایک ضرب لگاؤ جس سے ہمارے ہاں تمہاری قسم پوری ہوجائے گی۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) کو خراج تحسین سے نوازتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے اسے بڑے حوصلے والا پایا وہ بہت ہی اچھا انسان اور ہر حال میں ہماری طرف رجوع کرنے والا تھا۔ اس واقعہ میں ایک طرف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شکر ادا کرنے کا اشارہ دیا گیا ہے اور دوسری طرف آپ کو سمجھایا ہے کہ آپ کے رب نے آپ کو مثالی صحت سے ہمکنار فرمایا ہے لہٰذا خدمت دین کا کام کرتے رہیں اور مشکلات پر صبر کرتے جائیں۔ امت مسلمہ کو یہ سبق دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر نعمت دینے والا ہے اور وہی اس سے محروم کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اللہ کا بندہ وہ ہے جو مشکل کے وقت صبر سے کام لے اور آسانی کے وقت اس کا شکر ادا کرے۔ گویا کہ ہر حال میں اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والاہی اس کا پسندیدہ بندہ ہوتا ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ بَیْنَمَا أَیُّوبُ یَغْتَسِلُ عُرْیَانًا خَرَّ عَلَیْہِ رِجْلُ جَرَادٍ مِنْ ذَہَبٍ ، فَجَعَلَ یَحْثِی فِی ثَوْبِہِ ، فَنَادَی رَبُّہُ یَا أَیُّوبُ ، أَلَمْ أَکُنْ أَغْنَیْتُکَ عَمَّا تَرَی قَالَ بَلَی یَا رَبِّ ، وَلَکِنْ لاَ غِنَی لِی عَنْ بَرَکَتِکَ ) [ رواہ البخاری : کتاب الانبیاء ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا حضرت ایوب غسل فرما رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے سونے کی ٹڈیاں آسمان سے برسائیں۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) انہیں پکڑ پکڑ کر کپڑے میں ڈالنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے ایوب (علیہ السلام) سے استفسار فرمایا کہ ایوب ! کیا ہم نے سب کچھ دے کر تجھے غنی نہیں کردیا ؟ ایوب (علیہ السلام) کہنے لگے کیوں نہیں لیکن میں آپ کی رحمت سے لا پروا نہیں ہوسکتا۔ “ قسم کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان : ” حضرت زھدم (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم ابو موسیٰ اشعری (رض) کے پاس تھے وہ فرماتے ہیں میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اشعری قبیلہ کے کچھ افراد کے ہمراہ اس وقت حاضر ہوا جب آپ غصہ میں تھے۔ ہم نے سواری کا مطالبہ کیا تو آپ نے قسم اٹھائی کہ میں تمہیں کچھ نہیں دوں گا۔ پھر آپ نے فرمایا : اللہ کی قسم ! اگر اللہ کی مشیّت شامل حال ہو تو جس کام پر میں قسم کھاتا ہوں اگر میں اس کے بجائے دوسرے کام کو بہتر سمجھوں تو میں افضل کام کرنا پسند کرتا ہوں اور قسم کا کفارہ ادا کردیتا ہوں۔ “ [ رواہ البخاری : باب الیمین فیما لایملک الخ ] (وَعَنْ عُقْبَۃَ ابْنِ عَامِرٍ (رض) عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ کَفَّارَۃُ النَّذْرِ کَفَّارَۃُ الْیَمِیْنِ )[ رواہ مسلم : باب فِی کَفَّارَۃِ النَّذْرِ ] حضرت عقبہ بن عامر (رض) رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نذر کا کفارہ وہی ہے ‘ جو قسم کا کفارہ ہے۔ “ مسائل ١۔ ایوب (علیہ السلام) نے بیماری کو شیطان کی طرف منسوب فرمایا۔ ٢۔ ایوب (علیہ السلام) نے صرف اپنے رب سے شفا طلب کی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب (علیہ السلام) کو دوبارہ اہل و عیال عطا کیے اور بہت سی نعمتوں سے نوازا۔ ٤۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) اپنے رب کے بہترین بندے اور ہر حال میں اس کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی مشکلات دور کرنے والا ہے : ١۔ اللہ ہی کو پکارو وہی تکلیف دور کرتا ہے۔ (الانعام : ٤١) ٢۔ اللہ کے سوا کوئی تکلیف دور کرنے والا نہیں۔ (الاسراء : ٥٦) ٣۔ اگر آپ کو کوئی تکلیف ہوجائے تو سوائے اللہ کے اسے کوئی نہیں دور کرسکتا۔ (یونس : ١٠٧) ٤۔ کون ہے جو اللہ کے سوا مجبور کی دعا سننے والا اور مصیبت دور کرنے والا ہے ؟ (النمل : ٦٢) ٥۔ کہہ دیجیے اگر اللہ تعالیٰ نقصان پہچانے پر آئے کیا تو اس نقصان سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ (الفتح : ١١) ٦۔ کیا تم ایسے لوگوں کو معبود مانتے ہو جو نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں۔ (الرعد : ١٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 41 تا 44 حضرت ایوب کے صبر کا قصہ تو ایک مثال بن گیا ہے۔ اور بہت ہی معروف ومشہور ہے۔ صبر ایوبی ایک محاورہ ہے۔ لیکن اس قصے کے اوپر اسرائیلی روایات کی تہہ جم گئی ہے۔ اور حقیقت خرافات میں کھوگئی ہے۔ اصل حقیقت وہ ہے جس طرح قرآن کریم تصریح کرتا ہے کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) بندۂ صالح اور اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ اللہ کی آزمائش ان پر آئی اور اس میں انہوں نے خوب صبر فرمایا۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کی آزمائش اس طرح تھی کہ مال چلا گیا ، صحت چلی گئی اور بیوی بھی ساتھ چھوڑ گئی۔ لیکن ان تمام جان لیوا تکالیف میں انہوں نے رب تعالیٰ کا دامن تھامے رکھا۔ اللہ پر ان کا بھروسہ رہا اور وہ راضی برضائے الہٰی رہے۔ شیطان ان لوگوں کے دل میں وسوسے ڈالتا رہا جو تعداد میں تھوڑے تھے مگر ان کے ساتھ وابستہ رہے ۔ ان میں سے ان کی بیوی بھی تھی۔ شیطان ان کے دلوں میں یہ وسوسے ڈالتا کہ اگر ایوب اللہ کا برگزیدہ بندہ ہوتا تو اللہ ہرگز ان کو اس آزمائش میں نہ ڈالتا۔ جب یہ لوگ حضرت ایوب کو یہ باتیں بتاتے تو مالی جسمانی مصیبت سے بھی زیادہ اذیت ان کو ان شیطانی وسوسہ اندازیوں سے ہوتی ۔ جب ان کی بیوی نے ان کے سامنے ایسی باتیں کیں تو آپ نے حلف اٹھایا کہ اگر اللہ نے اس مصیبت سے نجات دی اور وہ تندرست ہوگئے تو بیوی کو کوڑے ماریں گے۔ بعض نے سو کوڑے کہا ہے۔ انہی آزمائشوں پر جب شیطان کی جانب سے ایذارسانی بھی شروع ہوگئ اور اس کا اثر ان کے مخلصین پر بھی ہوتا شروع ہوگیا اور خود ان کے دل پر اثر ہوگیا تو وہ درست بدعا ہوئے۔ انی مسنی ۔۔۔ و عذاب (38: 41) ” کہ شیطان نے مجھے تکالیف اور عذاب میں ڈال دیا ہے “۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت ایوب (علیہ السلام) کی بیماری اور دعا اور شفایابی کا تذکرہ ان آیات میں حضرت ایوب (علیہ السلام) کے ابتلاء اور امتحان میں ان کے کامیاب ہونے کا ذکر ہے سورة الانبیاء رکوع نمبر ٦ میں بھی ان کا یہ تذکرہ گزر چکا ہے قرآن مجید میں ان کے واقعہ کا اجمالی ذکر ہے تفصیلی حالات جاننے کا کوئی راستہ نہیں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد سے صرف اتنا ثابت ہے کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) غسل فرما رہے تھے سونے کی ٹڈیاں گریں تو انہیں جمع کرنے لگے (جیسا کہ ہم عنقریب ہی پوری حدیث ذکر کریں گے انشاء اللہ تعالیٰ ) حضرت ایوب (علیہ السلام) کے دکھ تکلیف کے تفصیلی حالات اور مدت ابتلاء اور دیگر امور سے متعلق بعض چیزیں حضرت ابن عباس (رض) سے اور بعض حضرت قتادہ (تابعی (رض) اور بعض حضرت حسن (تابعی (رض) سے منقول ہیں جنہیں حافظ جلال الدین سیوطی (رض) نے درمنثور میں لکھا ہے لیکن یہ چیزیں اسرائیلی روایات ہیں جن پر اعتماد کرنے کا کوئی راستہ نہیں۔ ١ ؂ قرآن مجید کی تصریحات سے جو باتیں معلوم ہوتی ہیں وہ یہ ہیں : (١) حضرت ایوب (علیہ السلام) سخت تکلیف میں مبتلا کیے گئے۔ ١ ؂ وأما النبی فلم یصح عنہ أنہٗ ذکرہ بحرف واحد الاقولہ بینا ایوب یغتسل اذخر علیہ رجلٌ من جراد من ذھب (الحدیث) واذ الم یصح عنہ فیہ قراٰن وسنۃ الا ما ذکرناہ فمن الذی یوصل السامع الی أیوب خبر لہ، ام علی أی لسان سمعہ ؟ والاسرائیلیات مرفوضۃ عند العلماء علی البینات، فاعرض عن سطورھا بصرک وأصمم علی سماعھا أذنیک فانھا لا تعطی فکرک الاخیالا، ولا تزید فؤادک الاخبالا۔ (القرطبی ص ٢١٠: ج ١٥) (لیکن حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی روایت نہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حرف بھی اس بارے میں فرمایا ہو مگر صرف اتنا کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) نہا رہے تھے تو ان پر ٹڈی کی ایک سونے کی ٹانگ آپڑی پس جب اس بارے میں نہ قرآن سے کوئی ثبوت ہے اور نہ صحیح حدیث سے تو پھر اس بات کی سند حضرت ایوب (علیہ السلام) تک کیسے پہنچ سکتی ہے یا کون ہے جس نے یہ بات حضرت ایوب (علیہ السلام) سے سنی ہو۔ اسرائیلی روایات علماء کے نزدیک دلائل کی محتاج ہیں لہٰذا تم اس قسم کے واقعات کو پڑھنے سے آنکھیں بند کرلو اور ان کے سننے سے کان بھی بند کرلو تو ان روایات سے بس ذہن میں خیال ہی آئیں گے اور دل میں واہیات باتیں پیدا ہوں گی۔ ) (٢) شیطان نے انہیں تکلیف پہنچائی۔ (٣) تکلیف جانی بھی تھی اور مالی بھی۔ (٤) ان کے اہل و عیال بھی ختم کردئیے گئے تھے۔ (٥) اس پر انہوں نے بہت صبر کیا جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف فرمائی کہ (اِِنَّا وَجَدْنَاہُ صَابِرًا) بیشک ہم نے ان کو صابر پایا (نِعْمَ الْعَبْدُ ) اچھے بندے تھے ایوب (اِِنَّہٗ اَوَّابٌ) بیشک بہت رجوع کرنے والے تھے۔ اسرائیلی روایات میں ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) سات سال اور چند ماہ سخت تکلیف میں مبتلا رہے (فتح الباری میں ٣ سال اور ١٣ سال اور ٧ سال ذکر کیا ہے اور قول ثانی کو صحیح بتایا ہے (ج ٦ ص ٤٢٢) مال اور اہل و عیال کچھ بھی پاس نہ رہا تھا جبکہ پہلے طرح طرح کی نعمتوں سے مالا مال تھے صرف ان کی بیوی ان کے پاس رہ گئی تھی جو ان کی خدمت کرتی رہتی تھی اس وفادار بیوی کا نام رحمت تھا، انہوں نے جو دعاء کی تھی اس کے الفاظ سورة الانبیاء میں یوں ہیں (اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ ) (بیشک مجھے تکلیف پہنچ گئی اور آپ ارحم الراحمین ہیں۔ ) اور سورة ص میں یوں ہے (اِِذْ نَادٰی رَبَّہٗ اَنِّی مَسَّنِی الشَّیْطَانُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍ ) (کہ شیطان نے مجھے دکھ پہنچا دیا اور تکلیف پہنچا دی) صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ نصب مشقت کے معنی میں آتا ہے اور زیادہ تر کام کاج کی وجہ سے جو تھکن ہوجائے اس کے لیے استعمال ہوتا ہے اور عذاب سے الم مراد ہے جسے سورة الانبیاء میں الضر سے تعبیر فرمایا ہے۔ اور بعض حضرات کا یہ قول نقل کیا ہے کہ النصب اور الضر سے جسمانی تکلیف اور عذاب سے اہل اور مال ضائع ہونے کی تکلیف مراد ہے۔ جب اللہ تعالیٰ شانہٗ نے حضرت ایوب (علیہ السلام) کی دعاء قبول فرمائی تو فرمایا (ارْکُضْ بِرِجْلِکَ ) کہ زمین میں اپنا پاؤں مارو، انہوں نے پاؤں مارا تو وہاں سے چشمہ جاری ہوگیا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا (ھٰذَا مُغْتَسَلٌ بَارِدٌ وَشَرَابٌ) (یہ غسل کرنے کی چیز ہے جو ٹھنڈی ہے اور پینے کی چیز ہے) چناچہ انہوں نے غسل کیا اور پانی پیا جسم درست ہوگیا شفاء کامل حاصل ہوگئی ظاہری اور باطنی طور پر بالکل صحت اور عافیت اور سلامتی والی زندگی مل گئی۔ ان کے اہل و اولاد جو ادھر ادھر منتشر ہوگئے تھے، اللہ تعالیٰ نے واپس ان کے پاس پہنچا دئیے اور سب کو عیش و عشرت والی زندگی عطا فرما دی۔ پھر ان لوگوں سے آگے نسل چلی اور اتنی زیادہ نسل پھیلی پھولی کہ جس قدر ان کی پہلی نسل کے افراد تھے اسی قدر اللہ تعالیٰ نے مزید افراد پیدا فرما دئیے (وَوَھَبْنَا لَہٗ اَھْلَہُ وَمِثْلَہُمْ مَعَہُمْ ) کا ایک مطلب یہی بیان کیا گیا ہے صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ میرا میلان بھی اسی طرف ہے اور دوسرا قول یہ ہے کہ ان کی اولاد لقمہ اجل بن گئی تھی سب مرگئے تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ اتنی ہی اولاد دے دی اور اس کے علاوہ مزید اتنی ہی اولاد اور دے دی سنن ابن ماجہ میں ہے کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) کو جس دن تکلیف پہنچی وہ بدھ کا دن تھا اور جس دن انہیں عافیت ملی وہ منگل کا دن تھا (باب فی أی الایام یحتجم) (رَحْمَۃً مِّنَّا وَذِکْرٰی لِاُوْلِی الْاَلْبَابِ ) یہ ہماری طرف سے رحمت خاصہ کے طور پر تھا اور عقل والوں کے لیے ایک یادگار تھی (تاکہ اہل عقل یہ سمجھیں اور یاد رکھیں کہ صابرین کو اللہ تعالیٰ کیسی اچھی اچھی جزا عطاء فرماتا ہے) (وَخُذْ بِیَدِکَ ضِغْثًا) (الآیۃ) حضرت ایوب (علیہ السلام) اپنی بیماری کے زمانہ میں اپنی بیوی سے ناراض ہوگئے تھے۔ ناراضگی کا کیا سبب تھا اس کے بارے میں تفسیر کی کتابوں میں کئی باتیں لکھی ہوئی ہیں اور ہیں سب اسرائیلی روایات۔ ان میں سے ایک روایت یہ ہے جو حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ شیطان معالج کی صورت بنائے ہوئے جا رہا تھا ان کی بیوی نے اس سے کہا کہ میرے شوہر کا علاج کردے، شیطان نے کہا کہ میں علاج تو کردوں گا مجھے کوئی فیس اور دواء کی قیمت کی ضرورت نہیں ہاں جب تیرا شوہر اچھا ہوجائے تو صرف اتنا کہہ دینا تو نے شفا دی، حضرت ایوب (علیہ السلام) کی بیوی نے اس کو مان لیا پھر ان سے تذکرہ کیا انہیں یہ بات ناگوار ہوئی اور فرمایا کہ تو نے شیطان سے یہ وعدہ کرلیا کہ اس کے بارے میں یوں کہہ دیا جائے کہ تو نے شفا دی ؟ میں اچھا ہوگیا تو تجھے سو قمچیاں ماروں گا جب اللہ تعالیٰ نے انہیں شفا دے دی تو قسم پورا کرنے کا خیال آیا اللہ تعالیٰ شانہٗ نے ارشاد فرمایا کہ تم اپنے ہاتھ میں سینکوں کا ایک مٹھا لے لو اور اس کو ایک مرتبہ اپنی بیوی کے جسم پر مارو جب ایسا کرلو گے تو تمہاری قسم پوری ہوجائے گی اور حانث ہونے سے بچ جاؤ گے چناچہ انہوں نے ایسا ہی کیا چونکہ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے خود ہی انہیں یہ عمل بتایا اور فرما دیا کہ تم قسم توڑنے والے نہ بنو اور اس عمل کو قسم پورا ہونے کی جگہ قبول فرما لیا اس لیے ایسا نہیں کہا جاسکتا کہ کوئی شخص سو کوڑے یا سو قمچیاں مارنے کی قسم کھالے اور اکٹھی سو سینکیں مار کر قسم پوری کرنے والوں میں شمار ہوجائے اور قسم توڑنے کے گناہ سے بچ جائے جو چیزیں خاص ہوتی ہیں ان پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ اس سے قسم پورا کرنے کی ضرورت اور اہمیت معلوم ہوتی ہے اللہ تعالیٰ چاہتا تو ان کی قسم کے ٹوٹ جانے کو بالکل ہی معاف فرما دیتا لیکن بالکل معاف نہیں فرمایا کچھ نہ کچھ ایسا عمل کروا ہی دیا جس سے قسم پر پورا اترنے کی شرعی حیثیت باقی رہے اسی طرح کا ایک واقعہ سنن ابی داؤد شریف میں مذکور ہے جو حضرت ابو امامہ بن سہل بن حنیف (رض) سے مروی ہے کہ ایک شخص جو بہت ہی زیادہ ضعیف ہوچکا تھا وہ ایک باندی کے ساتھ زنا کر بیٹھا پھر اسے احساس ہوا تو انصار کے جو لوگ اس کی عیادت کرنے گئے انہیں صورت حال بتادی اور کہا کہ میرے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فتویٰ طلب کرو ان حضرات نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے واقعہ پیش کیا اور ساتھ ہی یہ بھی بیان کردیا کہ وہ شخص اتنا زیادہ نحیف اور ضعیف ہے کہ ہڈیوں پر صرف کھال رہ گئی ہے اگر ہم اسے آپ کی خدمت میں لے کر آئیں تو اس کی ہڈیاں ٹوٹ پھوٹ کر رہ جائیں گی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ کھجور کی ایک ٹہنی کے سو اجزاء لے لو اور ایک ساتھ سب کو ایک مرتبہ مار دو ۔ (سنن ابی داؤد ج ٢ : ص ٢٥٨) اس سے بھی وہی بات سمجھ آرہی ہے کہ وہ شخص زنا کرنے کی وجہ سے سو کوڑوں کی سزا کا مستحق تھا لیکن موت کی سزا کا مستحق نہ تھا اب اسے سو کوڑے مارے جاتے تو مرجاتا اور جان سے مار دینا مقصود نہ تھا اور حد کو بالکل ہی ختم کردینا بھی شریعت کے مزاج کے خلاف تھا کیونکہ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا (وَّلاَ تَاْخُذْکُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ ) (اور اللہ کے دین میں تمہیں رحم نہ پکڑے کہ تم زانی اور زانیہ پر رحم کھا جاؤ) لہٰذا حد کو معطل نہیں فرمایا بلکہ کچھ نہ کچھ سز دلوا ہی دی تاکہ امت ہوشیار اور بیدار رہے اور حد جاری کرنے میں کسی طرح کی ڈھیل کو برداشت نہ کرے۔ فائدہ : دعا کی قبولیت اور برکات یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے، کیا حضرت ایوب (علیہ السلام) نے اپنی سخت بیماری کے دنوں میں صحت و عافیت کے لیے دعا نہیں کی ! اور اگر کی تھی تو کیوں قبول نہ ہوئی، بات یہ ہے کہ بظاہر حضرت ایوب (علیہ السلام) دعا سے غافل تو نہ رہے ہوں گے لیکن اللہ جل شانہٗ کی قضا و قدر میں جب تک انہیں مبتلا رکھنا تھا اس قت تک ابتلاء باقی رہا اور دعا کا ثواب انہیں ملتا رہا اور آخرت میں درجات کی بلندی کے لیے یہ دعائیں ذخیرہ بنتی رہیں، مومن بندہ کی کوئی دعا ضائع نہیں جاتی۔ حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جو بھی کوئی مسلمان کوئی دعا کرتا ہے جو گناہ کی یا قطع رحمی کی دعا نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور تین چیزوں میں سے ایک عطاء فرما دیتا ہے۔ (١) جو دعا کی اس کے مطابق اس دنیا میں جلدی مقصد پورا کردیا جاتا ہے۔ (٢) یا اس دعا کو اس کے لیے آخرت کا ذخیرہ بنا دیا جاتا ہے۔ (٣) یا اس جیسی آنے والے مصیبت اس سے پھیر دی جاتی ہے (یعنی آنے سے رک جاتی ہے) صحابہ (رض) نے عرض کیا بس تو ہم پھر خوب زیادہ دعائیں کریں گے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ (بھی) بہت زیادہ دینے والا ہے۔ (رواہ احمد کما فی المشکوٰۃ ص ١٩٦) سب کچھ اللہ تعالیٰ کے قضاء و قدر کے موافق ہوتا ہے اور حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ جب حضرت ایوب (علیہ السلام) کو تکلیف پہنچی تھی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں دعا کرنا بھلا دیا تھا، گو اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت زیادہ کرتے تھے لیکن دعا نہ کرتے تھے اور چونکہ دکھ تکلیف کو اللہ کی رضا سمجھتے تھے۔ اس لیے ان کی رغبت اسی میں تھی کہ تکلیف میں رہوں (بعض اسرائیلی روایات میں ہے کہ ایک مرتبہ جب حضرت ایوب (علیہ السلام) کی اہلیہ نے عافیت کی دعاء کرنے کی بات کہی تو فرمایا ہم ستر سال عیش و آرام میں رہے اب صبر کرو جب ستر سال تکلیف میں گزر جائیں گے اس کے بعد دعاء کریں گے۔ ) (روح المعانی ص ٢٠٧: ج ٢٣) پھر جب اللہ تعالیٰ کو ان کی تکلیف دور کرنا منظور ہوا، تو انہیں دعا کرنے کی توفیق دے دی اور انہیں دعا کرنا یاد آگیا جب دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے دعاء قبول فرمالی اور مال و دولت آل و اولاد جو کچھ جاتا رہا تھا اس کا دو گنا عطا فرما دیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف فرمائی کہ (اِِنَّا وَجَدْنَاہُ صَابِرًا نِعْمَ الْعَبْدُ اِِنَّہٗ اَوَّابٌ) (ذکرہ فی الدر المنثور ص ٣٢٨: ج ٤) بات یہ ہے کہ پورے عالم میں جو کچھ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر کے موافق ہوتا ہے دعا بھی اسی وقت مقبول ہوتی ہے جب کامیابی کا وقت آجاتا ہے اور دوا بھی جب ہی اثر کرتی ہے جب اللہ تعالیٰ کی رضا اور قدر میں شفا دینا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کو پورا پورا اختیار ہے کہ جسے چاہے جتنا آرام دے اور جسے چاہے تکلیف کے ذریعہ آزمائے اور مومن بندوں کے لیے چونکہ تکلیف میں بھی خیر ہی خیر ہے (اس پر ثواب ملتا ہے اور آخرت میں درجات بلند ہوتے ہیں) اس لیے ان کے لیے تکلیف میں مبتلا ہونا بھی خیر ہی خیر ہے کوئی شخص یوں نہ سمجھے کہ فلاں شخص دیکھنے میں تو اتنا نیک ہے پھر یہ اتنی بڑی تکلیف میں مبتلا ہوا ہے تو ضرور کسی بڑے گناہ میں مبتلا ہوا ہوگا۔ ١ ؂ حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن جب مصیبت والوں کو ثواب دیا جائے گا تو آرام و عافیت والے تمنا کریں گے کہ کاش ہماری کھالیں قینچیوں سے کاٹی جاتیں۔ (رواہ الترمذی کما فی المشکوٰۃ ص ١٣٧) حضرت ابن عباس (رض) نے جو یہ فرمایا کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) نے اپنے تکلیف کے دنوں میں دعا کو بھولے رہے اس کی تائید میں حضرت ابان بن عثمان (رض) کی ایک بات سنئیے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد حضرت عثمان (رض) سے سنا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جو بھی کوئی بندہ روزانہ صبح و شام تین مرتبہ (بسم اللّٰہ الذی لایضرمع اسمہ شئ فی الارض ولا فی السماء وھو السمیع العلیم) پڑھ لیا کرے تو اسے کوئی چیز بھی ضرر نہ پہنچا سکے گی حضرت ابان نے حدیث تو بیان کردی لیکن ان کے جسم پر ایک جگہ فالج کا اثر تھا جس شخص سے انہوں نے حدیث بیان کی وہ ان کی طرف (تعجب کی نظروں سے) دیکھنے لگا حضرت ابان نے اس کی نظروں کو بھانپ لیا اور فرمایا تم مجھے کیا دیکھ رہے ہو ؟ خوب سمجھ لو بلاشک وشبہ حدیث اسی طرح ہے جیسا کہ میں نے بیان کی لیکن بات یہ ہے کہ جس دن مجھے یہ تکلیف پہنچی ہے میں نے اس دعا کو نہیں پڑھا تھا (یعنی بھول گیا تھا) تاکہ اللہ اپنی تقدیر کے فیصلے کو نافذ فرما دے۔ (رواہ الترمذی و ابن ماجہ و ابو داؤد کما فی المشکوٰۃ ص ٢٠٩) تکمیل تذکرہ حضرت ایوب (علیہ السلام) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اس درمیان میں کہ ایوب (علیہ السلام) (تنہائی میں) ننگے غسل کر رہے تھے ان کے اوپر سونے کی ٹڈیاں گرگئیں وہ انہیں اپنے کپڑوں میں سمیٹنے لگے اللہ تعالیٰ نے انہیں پکارا کہ اے ایوب کیا میں نے تمہیں غنی نہیں بنا ١ ؂ (قال العینی فی عمدۃ القاری ج ٥: ص ٢٨٢ فان قلت فلم لم یدع اول ما نزل بہ البلاء قلت لانہ علم امر اللّٰہ فیہ ولا تصرف للعبد مع ملاہ اواراد مضاعفۃ الثواب فلم یسال کشف البلاء) (حضرت علامہ عینی عمدۃ القاری میں فرماتے ہیں اگر تم کہو کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) نے بیماری کے شروع ہی میں دعاء کیوں نہیں مانگی تو میں کہتا ہوں اس لیے کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) نے خیال کیا کہ اس آزمائش میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم میں بندہ کا کوئی تصرف نہیں ہے یا یہ کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) نے زیادہ ثواب حاصل کرنے کے لیے شروع ہی میں تکلیف دور ہونے کی دعاء نہیں مانگی۔ ) دیا تمہارے سامنے جو کچھ ہے اس کی ضرورت نہیں عرض کیا آپ کی عزت کی قسم آپ نے مجھے غنی بنا دیا ہے لیکن میں آپ کی برکت سے بےنیاز نہیں ہوں۔ فتح الباری ٤٢٠ جلد ٦ میں بحوالہ احمد وابن حبان حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ایوب (علیہ السلام) کو عافیت دے دی یعنی ان کا مرض دور فرما دیا تو ان پر سونے کی ٹڈیاں برسا دیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ٹڈیوں کا برسنا مرض سے شفا یاب ہونے کے بعد کی بات ہے۔ فتح الباری میں یہ بھی لکھا ہے کہ جب حضرت ایوب (علیہ السلام) دکھ و تکلیف میں مبتلا ہوئے تو ہر شخص نے انہیں چھوڑ دیا البتہ ان کے دوستوں میں دو شخص ان کے پاس صبح و شام آنا جانا رکھتے تھے ایک دن ان دونوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا کہ ضرور ایوب نے کوئی بڑا گناہ کیا ہے ایسی بات نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ ان کی اس مصیبت کو ضرور دور فرما دیتا جس شخص سے یہ بات کہی گئی تھی اس نے ایوب (علیہ السلام) سے اس کا تذکرہ کردیا اس پر وہ رنجیدہ ہوئے اور اللہ تعالیٰ سے اسی وقت دعا کی پھر قضاء حاجت کے لیے چلے گئے اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی کہ اپنا پاؤں زمین پر مارو انہوں نے زمین پر پاؤں مارا تو ایک چشمہ جاری ہوگیا جس میں انہوں نے غسل کیا اور بالکل صحیح اور تندرست ہوگئے اب جو ان کی بیوی آئی تو انہیں پہچان نہ سکی اور خود انہی سے دریافت کیا کہ یہاں جو مریض تھا وہ کہاں گیا ایسا تو نہیں کہ اسے بھیڑیا کھا گیا ہو حضرت ایوب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ وہ میں ہی ہوں، اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی تندرستی دے دی اور ان کی بیوی پر بھی جوانی لوٹا دی یہاں تک کہ اس کے بعد ان سے ٢٦ لڑکے پیدا ہوئے۔ فتح الباری میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) کے دو کھلیان تھے (جن میں کھیتی کاٹنے کے بعد غلہ جمع کیا جاتا ہے) ایک کھلیان گیہوں کا دوسرا کھلیان جو کا تھا اللہ تعالیٰ نے ایک بادل بھیجا جس نے گیہوں والے کھلیان میں اتنا سونا برسایا کہ بہنے لگا اور جو کے کھلیان میں اتنی چاندی برسائی کہ وہ بھی بہہ پڑی۔ (فللّٰہ الحمد علی انعامہ)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

35:۔ ” واذکر الخ “۔ یہ تیسری نقلی دلیل ہے حضرت ایوب (علیہ السلام) کی قوم مسئلہ توحید کی وجہ سے ان کی مخالف ہوگئی اور اللہ کی طرف سے ایک شدید بیماری کی شکل میں ان پر ابتلاء آیا جس کی وجہ سے شہر والوں نے ان کو شہر سے نکال دیا آخر انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو اللہ نے ان کو اس بیماری سے شفا عطا فرمائی۔ جس کا اپنا یہ حال ہو وہ کسی طرح شفیع غالب نہیں بن سکتا۔ ” انی مسنی الشیطان الخ “ ” نصب “ شدت، تکلیف۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) کی بیماری طول پکڑ گئی اور وہ اٹھارہ سال اس میں مبتلا رہے اس بیماری کی وجہ سے انہوں نے سخت تکلیف اٹھائی۔ ایک دن ان کی بیوی کسی کام سے جا رہی تھیں۔ راستے میں ایک طبیب دیکھا جو حقیقت میں شیطان تھا اور انسانی شکل میں متمثل ہو کر سامنے آیا اس سے اپنے خاوند کی بیماری کا ذکر کیا تو شیطان (بصورت طبیب) نے کہا کہ میں اس شرط پر علاج کروں گا کہ جب تمہارا خاوند میرے علاج سے تندرست ہوجائے تو تم غیر اللہ کے نام کی قربانی دو گی۔ بیوی صاحبہ چونکہ حضرت ایوب (علیہ السلام) کی بیماری کی وجہ سے نہایت غمزدہ اور دلگیر تھیں اس لیے ان کے دل میں شیطان کے قول کی طرف کچھ میلان ہوگیا انہوں نے یہ واقعہ حضرت ایوب (علیہ السلام) سے ذکر کیا تو وہ فورًا سمجھ گئے کہ وہ شیطان ہے اور اس سے انہیں نہایت ہی شدید روحانی تکلیف پہنچی اور نہایت عاجزی اور زاری سے اللہ کی بارگاہ میں دعا کی بارے الٰہا ! میری طویل مصیبت کی وجہ سے اب تو شیطان کو بھی یہ توقع ہوچلی ہے کہ ہم شرک کرنے پر آمادہ ہوجائیں گے۔ میرے پروردگار ! شیطان نے اپنے اس بول سے مجھے سخت اذیت دی ہے اب مجھ پر مہربانی فرما اور اس مصیبت سے نجات عطا کر۔ ان الشیطان تعرض لامرتہ بصورۃ طبیب۔ فقالت لہ ان ھھنا مبتلی فھل لک ان تداویہ۔ ان الشیطان طلب منہا ان تذبح لغیر اللہ تعالیٰ اذا عالجہ و برا فمالت لذالک، فعظم علیہ، (علیہ السلام) الامر فنادی الخ (روح ج 23 ص 206) ۔ اشار بقولہ ” مَسَّنِیَ الشَّیْطٰنُ “ الی تعریضہ لامرتہ و طلبہ ان تشرک باللہ وکانہ یتش کی ھذا الامر۔ کان علیہ اشد من مرضہ۔ (بحر ج 7 ص 400) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(41) اور اے پیغمبر آپ ہمارے بندے ایوب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یاد کیجئے جبکہ اس نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ مجھ کو شیطان نے درد اور تکلیف پہنچا رکھی ہے یوں تو حضرت ایوب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرصہ سے بیمار تھے لیکن شیطان نے ان کی بیوی کو پریشان دیکھ کر کہا کہ ایک طبیب بہت اچھا ہے وہ اس کے ہمراہ چلی گئیں وہ ایک طبیب کے پاس لے گیا انہوں نے اس سے اپنی خاوند کی بیماری کا ذکر کیا۔ اس طبیب نے کہا اگر تو ایوب کو تھوڑی سی شرات پلادے تو اس کو آرام ہوجائے گا اور جب آرام ہوجائے تو یوں کہیو فلاں طبیب نے شفا دی ہے یہ نہ کہیو خدا نے شفادی ہے۔ یہ سن کر یہ بیوی جن کا نام رحمت تھا واپس گھر آئیں اور انہوں نے حضرت ایوب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس طبیب کا تمام قصہ سنایا وہ یہ قصہ سن کر بہت ناراض ہوئے اور انہوں نے قسم کھائی کہ اگر میں اچھا ہوگیا تو تیرے ایک سو قمچیاں ماروں گا۔ وہ شیطان تھا تو اس کے پاس کیوں گئی۔ بعض نے کہا کہ اس طبیب نے کہا مجھ کو سجدہ کرے تو تیرا خاوند اچھا ہوجائے گا بعض نے کہا بیوی کے تاخیر سے پہنچنے پر قسم کھائی۔ بہر تقدیر انہوں نے حضرت حق تعالیٰ سے عرض کی۔ ربہ انی مسنی الشیطان بنصب و عذاب۔ پہلے بھی دعا کرتے رہتے تھے جیسا کہ سورة انبیاء میں گزر چکا ہے جب وہ امتحان اور آزمائش کا دور ختم ہوا تو حضرت حق نے حکم فرمایا۔