Surat Suaad

Surah: 38

Verse: 48

سورة ص

وَ اذۡکُرۡ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ الۡیَسَعَ وَ ذَاالۡکِفۡلِ ؕ وَ کُلٌّ مِّنَ الۡاَخۡیَارِ ﴿ؕ۴۸﴾

And remember Ishmael, Elisha and Dhul-Kifl, and all are among the outstanding.

اسماعیل ، یسع اور ذوالکفل ( علیہم السلام ) کا بھی ذکر کر دیجئے ، یہ سب بہترین لوگ تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And remember Ismail, Al-Yasa`, and Dhul-Kifl, all are among the best. We have already discussed their characteristics and stories in detail in Surah Al-Anbiya', may peace be upon them, and there is no need to repeat it here.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

48۔ 1 یسع (علیہ السلام) کہتے ہیں، حضرت الیاس (علیہ السلام) کے جانشین تھے، ال تعریف کے لئے ہے اور عجمی نام ہے ذوالکفل کے لئے دیکھئے (وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِدْرِيْسَ وَذَا الْكِفْلِ ۭ كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِيْنَ ) 21 ۔ الانبیاء :85) کا حاشیہ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٤] الیسع اور ذوالکفل کا ذکر :۔ سیدنا اسماعیل تو معروف ہیں اور ان کا ذکر قرآن میں بہت جگہ آیا ہے۔ الیسع سیدنا الیاس کے نائب اور خلیفہ تھے ان کا سلسلہ نسب چوتھی پشت پر جاکر سیدنا یوسف سے جا ملتا ہے۔ بعد میں آپ کو نبوت بھی عطا ہوئی تھی۔ آپ کا حلقہ تبلیغ شام کا علاقہ تھا۔ اور ذوالکفل ان کے خلیفہ کا لقب ہے نام نہیں۔ اور ذوالکفل کا معنی صاحب نصیب ہے۔ آپ کا نام بشیر ہے اور سیدنا ایوب کے بیٹے تھے۔ آپ الیسع کے خلیفہ تھے بعد میں نبی ہوئے شام کا علاقہ ہی آپ کی تبلیغ کا مرکز رہا۔ عمالقہ شاہ وقت بنی اسرائیل کا سخت دشمن تھا۔ آپ نے اس سے بنی اسرائیل کو آزاد کرایا پھر وہ بادشاہ بھی مسلمان ہوگیا اور حکومت آپ کے سپرد کی جس کے نتیجہ میں شام کے علاقہ میں پھر ایک دفعہ اسلام خوب پھیلا۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے بہت سے انبیاء کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ سب ہی بہترین لوگ تھے۔ قرآن نے ان انبیاء کا اور بھی بہت سے مقامات پر ذکر فرمایا ہے اور ہر مقام پر قرآن انبیاء کی تعریف میں رطب اللسان نظر آتا ہے۔ جبکہ بائیبل نے بہت سے اولوالعزم انبیاء پر اتہام لگائے اور ان کی کردار کشی کی ہے۔ جن انبیاء پر بائیبل میں اتہام لگائے گئے ہیں وہ یہ ہیں : سیدنا نوح، سیدنا لوط، سیدنا یعقوب، سیدنا ہارون، سیدنا داؤد، سیدنا سلیمان اور سیدنا عیسیٰ (علیہم السلام) تفصیل کے لئے دیکھئے سورة انعام کی آیت نمبر ٨٦ پر حاشیہ نمبر ٨٧۔ الف)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Prophet: (al-Yasa`: Elisha) (علیہ السلام) In verse 48, it was said: وَالْيَسَعَ (and [ remember ] al-Yasa`). Sayyidna al-Yasa (علیہ السلام) is a prophet from among the prophets of Bani Isra&il, peace be upon them all. He has been mentioned in the Qur&an only at two places, once in Surah Al-An` am and then, here in Surah Sad. No details have been mentioned at any of the two places, rather his name appears there as part of a list of the blessed prophets. Historical chronicles report that he is a cousin of Sayyidna Ilyas (علیہ السلام) and was his deputy. He lived in his company and was made a prophet after him. Details about him appear in the Bible, the Book of Kings I, Chapter 19, and Kings II, Chapter 2, and elsewhere. There he has been mentioned by the name of اِلِیشَع بن سافط (Elisha son of Safit).

حضرت الیسع (علیہ السلام) : والیسع (اور الیسع (علیہ السلام) کو یاد کرو) حضرت الیسع (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے انبیاء (علیہم السلام) میں سے ہیں اور قرآن کریم میں ان کا ذکر صرف دو جگہ آیا ہے۔ ایک سورة انعام میں اور دوسرے یہاں۔ دونوں میں سے کسی جگہ آپ کے تفصیلی حالات مذکور نہیں بلکہ انبیاء (علیہم السلام) کی فہرست میں صرف آپ کا اسم گرامی شمار کرایا گیا ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں منقول ہے کہ آپ حضرت الیاس (علیہ السلام) کے چچا زاد بھائی ہیں اور حضرت الیاس (علیہ السلام) کے نائب اور خلیفہ تھے، انہی کی رفاقت میں رہتے تھے، ان کے بعد آپ کو نبوت عطا کی گئی۔ بائبل کی کتاب سلاطین اول باب ٩١ اور سلاطین دوم باب ٢ وغیرہ میں آپ کے تفصیلی حالات بیان کئے گئے ہیں۔ وہاں آپ کا اسم گرامی الیشع بن ساقط مذکور ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاذْكُرْ اِسْمٰعِيْلَ وَالْيَسَعَ وَذَا الْكِفْلِ۝ ٠ ۭ وَكُلٌّ مِّنَ الْاَخْيَارِ۝ ٤٨ۭ ذو ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . والثاني في لفظ ذو : لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب ) یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔ كفل الْكَفَالَةُ : الضّمان، تقول : تَكَفَّلَتْ بکذا، وكَفَّلْتُهُ فلانا، وقرئ : وَكَفَّلَها زَكَرِيَّا [ آل عمران/ 37] «3» أي : كفّلها اللہ تعالی، ومن خفّف «4» جعل الفعل لزکريّا، المعنی: تضمّنها . قال تعالی: وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا[ النحل/ 91] ، والْكَفِيلُ : الحظّ الذي فيه الکفاية، كأنّه تَكَفَّلَ بأمره . نحو قوله تعالی: فَقالَ أَكْفِلْنِيها[ ص/ 23] أي : اجعلني کفلا لها، والکِفْلُ : الكفيل، قال : يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ [ الحدید/ 28] أي : كفيلين من نعمته في الدّنيا والآخرة، وهما المرغوب إلى اللہ تعالیٰ فيهما بقوله : رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً [ البقرة/ 201] ( ک ف ل ) الکفالۃ ضمانت کو کہتے ہیں اور تکفلت بکذا کے معنی کسی چیز کا ضامن بننے کے ہیں ۔ اور کفلتہ فلانا کے معنی ہیں میں نے اسے فلاں کی کفالت میں دے دیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَّلَها زَكَرِيَّا[ آل عمران/ 37] اور زکریا کو اس کا متکفل بنایا ۔ بعض نے کفل تخفیف فاء کے ساتھ پڑھا ہے اس صورت میں اس کا فاعل زکریا (علیہ السلام) ہوں گے یعنی حضرت زکریا (علیہ السلام) نے ان کو پانی کفالت میں لے لیا ۔ اکفلھا زیدا اسے زید کی کفالت میں دیدیا ) قرآن میں ہے : ۔ أَكْفِلْنِيها[ ص/ 23] یہ بھی میری کفالت مٰن دے دو میرے سپرد کر دو الکفیل اصل میں بقدر ضرورت حصہ کو کہتے ہیں ۔ گویا وہ انسان کی ضرورت کا ضامن ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا[ النحل/ 91] اور تم خدا کو اپنا کفیل بنا چکے ہو ۔ اور الکفل کے معنی بھی الکفیل یعنی حصہ کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ [ الحدید/ 28] وہ تمہیں اپنی رحمت سے اجر کے دو حصے عطا فرمائیگا ۔ یعنی دنیا اور عقبیی دونون جہانوں میں تمہیں اپنے انعامات سے نوزے گا ۔ اور یہی دوقسم کی نعمیتں ہیں جن کے لئے آیت رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً [ البقرة/ 201

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٨۔ ٥١) اور اسماعیل اور الیسع اور ذوالکفل کو بھی یاد کیجیے ذوالکفل ان کو اس لیے کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک قوم کی ذمہ داری اور ضمانت لے لی تھی پھر اس کو پورا کیا یا یہ کہ اللہ تعالیٰ سے ایک چیز کا عہد کرلیا تھا پھر اس کو پورا کیا اور کہا گیا ہے کہ انہوں نے سو انبیاء کرام کی ذمہ داری لے لی تھی ان کو کھانا کھلایا کرتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو قتل سے نجات دی اور یہ نیک آدمی تھے نبی نہیں تھے یہ سب اللہ کے نزدیک پسندیدہ لوگوں میں سے تھے نیک لوگوں کا تذکرہ تو ہوچکا یا یہ مطلب ہے کہ اس قرآن کریم میں اولین و آخرین کا ذکر ہے اور کفر و شرک اور برائیوں سے بچنے والوں کے لیے آخرت میں اچھا ٹھکانا ہے۔ اب ان کے ٹھکانے کی کیفیت بیان فرماتے ہیں کہ انبیاء اور صالحین کے لیے ہمیشہ رہنے کے باغات ہیں جن کے دروازے قیامت کے دن ان کے لیے کھلے ہوں گے اور وہ جنت کے ان باغوں میں خوشی کے ساتھ مسہریوں پر تکیہ لگائے ہوئے بیٹھے ہوں گے اور وہ جنت میں قسم قسم کے میوے اور پینے کی چیزیں منگوائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٨ { وَاذْکُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَالْیَسَعَ وَذَا الْکِفْلِط وَکُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِ } ” اور ذکرکیجیے اسماعیل (علیہ السلام) الیسع (علیہ السلام) اور ذوالکفل (علیہ السلام) کا ‘ یہ سب بھی بہت عمدہ لوگوں میں سے تھے۔ “ حضرت الیسع اور حضرت ذوالکفل (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں آج ہمیں یقینی معلومات میسر نہیں۔ سورة الانبیاء (آیت ٨٥) کی تشریح کے ذیل میں مولانا مناظر احسن گیلانی (رح) کا یہ خیال نقل کیا گیا تھا (اور مجھے اس سے کسی حد تک اتفاق ہے) کہ قرآن میں ذو الکفل (علیہ السلام) کے نام سے جس پیغمبر کا ذکر ہوا ہے وہ دراصل گوتم بدھ تھے۔ ان کا اصل نام سدھارتا تھا۔ ” گوتم بدھ “ یا ” گو تمابدھا “ ان کا لقب تھا جو بعد میں مشہور ہوا۔ آپ ریاست ” کپل وستو “ کے ولی عہد تھے۔ چناچہ جن محققین کا خیال ہے کہ قرآن میں ذوالکفل کے نام سے گوتم بدھ ہی کا ذکر ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ ” کفل “ دراصل ” کپل “ ہی کی بدلی ہوئی شکل ہے۔ یعنی ہندی ” پ “ کی جگہ عربی کی ” ف “ نے لے لی ہے اور اس طرح گویا ذوالکفل کے معنی ہیں ” کپل (ریاست) والا۔ “ ٭

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

50 The Prophet AI-Yas`a has been mentioned only twice in the Qur'an, in Surah Al-An'am: 86 and here, without any detail about him; only his name appears in the chain of the Prophets. He was one of the major Prophets of Israel, belonged to Abel Meholah, a place on the river Jordan, and is well known as Elisha among the Jews and Christians. When the Prophet Elijah (peace be upon him) had taken refuge in the Sinai peninsula, he was commanded to return to Syria and Palestine for some important works, one of which was to prepare the Prophet Elisha for his successorship. Accordingly, when the Prophet Elijah came to his town, he found Elisha ploughing with twelve yoke of oxen before him, and he with the twelfth. The Prophet Elijah passed by him and cast his mantle upon him, and he left the oxen and followed him. (I Kings, 19:15-21). He remained under training with him for 10 to 12 years. Then, when Allah recalled Elijah, he was appointed Prophet in his place. (2 Kings, oh.2). The Second Book of the Kings gives a detailed account of the Prophet Elisha (chs., 2 to 13), which shows that when the Israeli state of northern Palestine got lost in polytheism and idol-worship and moral evils, Elisha a pointed Jehu, the son of Jehoshaphat, the son of Nimshi, king of Israel against the royal dynasty due to whose misdeeds those evils had spread in Israel. Jehu not only put an end to Baal-worship, but also condemned to death every member of the wicked family, including its children. But in spite of this reformist revolution the evils that had taken root in Israel could not be completely eradicated, and after the death of the Prophet Elisha they assumed enormous propertions; so much so that the Assyrians begn to invade Samaria whenever they pleased. (For further details, see E.N. 7 of Surah Bani-Isra'il and E. N .'s 70, 71 of Surah As-Saaffat). 51 Dhul-Kifi also has been mentioned only twice in the Qur'an, in AlAnbiya': 85 and here. For our research about him see E.N. 81 of Al-Anbiya`.

سورة صٓ حاشیہ نمبر :50 قرآن مجید میں ان کا ذکر صرف دو جگہ آیا ہے ۔ ایک سورہ انعام آیت 86 میں ۔ دوسرے اس جگہ ۔ اور دونوں مقامات پر کوئی تفصیل نہیں ہے بلکہ صرف انبیائے کرام کے سلسلے میں ان کا نام لیا گیا ہے ۔ وہ بنی اسرائیل کے اکابر انبیاء میں سے تھے ۔ دریائے اُردُن کے کنارے ایک مقام ایبل محولہ ( Abel Meholah ) کے رہنے والے تھے ۔ یہودی اور عیسائی ان کو اِلِیشَع ( Elisha ) کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ حضرت الیاس علیہ السلام جس زمانے میں جزیرہ نمائے سینا میں پناہ گزیں تھے ، ان کو چند اہم کاموں کے لیے شام و فلسطین کی طرف واپس آنے کا حکم دیا گیا ، جن میں سے ایک کام یہ تھا یہ حضرت الیسع کو اپنی جانشینی کے لیے تیار کریں ۔ اس فرمان کے مطابق جب حضرت الیاس ان کی بستی پر پہنچے تو دیکھا کہ یہ بارہ جوڑی بیل آگے لیے زمین جوت رہے ہیں اور خود بارہویں جوڑی کے ساتھ ہیں ۔ انہوں نے ان کے پاس سے گزرتے ہوئے ان پر اپنی چادر ڈال دی اور یہ کھیتی باڑی چھوڑ کر ساتھ ہولیے ( سلاطین ، باب 19 ، فقرات 15 ۔ تا ۔ 21 ) ۔ تقریباً دس بارہ سال یہ ان کے زیر تربیت رہے پھر جب اللہ تعالیٰ نے ان کو اٹھا لیا تو یہ انکی جگہ مقرر ہوئے ۔ ( 2 سلاطین ، باب 2 ) ۔ بائیبل کی کتاب 2 سلاطین میں باب 2 سے 13 تک ان کا تذکرہ بڑی تفصیل کے ساتھ درج ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شمالی فلسطین کی اسرائیلی سلطنت جب شرک و بت پرستی اور اخلاقی نجاستوں میں غرق ہوتی چلی گئی تو آخر کار انہوں نے یاہو بن یہوسفط بن نمسی کو اس خانوادہ شاہی کے خلاف کھڑا کیا جس کے کرتوتوں سے اسرائیل میں یہ برائیاں پھیلی تھیں ، اور اس نے نہ صرف بعل پرستی کا خاتمہ کیا ، بلکہ اس بدکردار خاندان کے بچے بچے کو قتل کر دیا ۔ لیکن اس اصلاحی انقلاب سے بھی وہ برائیاں پوری طرح نہ مٹ سکیں جو اسرائیل کی رگ رگ میں اتر چکی تھیں ، اور حضرت الیسع کی وفات کے بعد تو انہوں نے طوفانی شکل اختیار کر لی ، یہاں تک کہ سامریہ پر اشوریوں کے پے در پے حملے شروع ہو گئے ( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، ص 597 ۔ اور تفسیر سورہ صافات ، حاشیہ نمبر 70 ۔ 71 ) سورة صٓ حاشیہ نمبر :51 حضرت ذوالکفل کا ذکر بھی قرآن مجید میں دو ہی جگہ آیا ہے ۔ ایک سورہ انبیاء ۔ دوسرے یہ مقام ۔ ان کے متعلق ہم اپنی تحقیق سورہ انبیاء میں بیان کر چکے ہیں ۔ ( تفہیم القرآن : جلد سوم ، ص 181 ، 182 )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

24: حضرت الیسع (علیہ السلام) کا ذکر قرآن کریم میں صرف دو جگہ آیا ہے، ایک یہاں اور ایک سورۂ انعام : 86 میں۔ دونوں جگہ آپ کا صرف نام مذکور ہے، کوئی مفصل واقعہ بیان نہیں فرمایا گیا۔ تاریخی روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ بنو اسرائیل کے انبیاء میں سے تھے، اور حضرت الیاس (علیہ السلام) کے چچا زاد بھائی تھے۔ بائبل کی کتاب سلاطین اول باب 19 میں آپ کا واقعہ مذکور ہے۔ اسی طرح حضرت ذوالکفل (علیہ السلام) کا بھی دو جگہ صرف ذکر آیا ہے، ایک یہاں اور دوسرے سورۂ انبیاء : 85 میں۔ بعض مفسرین نے انہیں حضرت الیسع کا خلیفہ قرار دیا ہے، اور بعض نے کہا ہے کہ یہ نبی نہیں تھے، ولی اللہ تھے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٨۔ بعضے مفسروں نے لکھا ہے کہ الیسع حضرت الیاس کو کہتے ہیں لیکن یہ قول صحیح نہیں ہے کس لئے کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے حضرت الیاس اور الیسع کا الگ الگ ذکر فرمایا ہے۔ اور بعضے مفسروں نے یہ لکھا کہ الیسع خضر کو کہتے ہیں یہ قول بھی کسی معتبر روایت سے ثابت نہیں ہوتا صحیح قول یہی معلوم ہوتا ہے جس کو شاہ عبد القادر صاحب نے اپنے فائدہ میں بیان کیا ہے کہ الیسع حضرت الیاس کے خلفیہ تھے یہ قول حضرت عبد اللہ (رض) بن عباس اور وہب بن منبہ تابعی کا ہے یہ وہب بن منبہ حسن بصری کے رتبہ کے ثقہ تابعیون میں ہیں ذوالکفل کے نبی ہونے اور نہ ہونے میں صحابہ کے زمانہ سے اختلاف ہے یہاں تک کہ حضرت ابوموسیٰ ٣ ؎ اشعری منبر پر وعظ کی طرح بیان کیا کرتے تھے کہ بنی اسرائیل میں ذوالکفل ایک نیک شخص تھے نبی نہیں تھے مسند امام احمد ٤ ؎ میں حضرت عبداللہ بن عمر کی حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ بنی اسرائیل میں کفل ایک شخص بڑا گناہ گار تھا ایک روز اس نے ایک عورت کو ساٹھ اشرفیاں بدکاری کرنے کے وعدہ پر دیں جب الکفل نے اس عورت سے بدکاری کرنی چاہی تو وہ عورت رونے لگی۔ الکفل نے اس عورت سے رونے کا سبب پوچھا تو اس نے بیان کیا کہ ایسا برا کام کبھی عمر بھر میں نے نہیں کیا۔ اس پر ذو الکفل نے بھی اللہ تعالیٰ سے عہد کرلیا کہ کبھی عمر بھر گناہ نہ کرے گا اور اسی رات کو ذا الکفل کا انتقال ہوگیا۔ صبح کو بنی اسرائیل کے لوگوں نے دیکھا کہ ذو الکفل کے دروازہ پر یہ لکھا ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ذو الکفل کی مغفرت فرما دی حافظ ابن کثیر نے مسند امام احمد کی اس روایت کو نقل کر کے یہ کہا ہے کہ صحاح ستہ کے کسی مصنف نے اس حدیث کو نہیں لیا لیکن ترمذی کے ابواب صفۃ القیمۃ میں یہ روایت موجودہ ٣ ؎ ہے اور ترمذی نے۔ (٤ ؎ ایضاً ) اس حدیث کو حسن کہا ٥ ؎ ہے۔ مسند امام احمد اور ترمذی کے لفظوں میں کسی قدر فرق ہے (٥ ؎ ایضاً ) ۔ اس لئے شاید حافظ ابن کثیرکا مطلب یہ ہے کہ مسند امام احمد کے لفظوں سے یہ حدیث صحاح ستہ کی کسی کتاب میں نہیں سورة الانبیا میں اللہ تعالیٰ نے ذو الکفل کا ذکر انبیا کے ساتھ فرمایا ہے اس واسطے مفسرین نے لکھا ہے کہ بنی اسرائیل میں کے ذو الکفل اور شخص ہیں اور یہ ذو الکفل قرآن شریف کے مضمون کے موافق بنی ہیں۔ صحیح بخاری ١ ؎ میں حضرت عبد (رض) اللہ بن عباس کی ایک بہت بڑی حدیث ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے۔ کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے اسماعیل (علیہ السلام) اور ان کی ماں ہاجرہ کو مکہ کے میدان میں چھوڑ گئے۔ اس وقت اسماعیل (علیہ السلام) دودھ پیتے تھے۔ ابراہیم (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے اسماعیل (علیہ السلام) اور ان کی ماں ہاجرہ کو مکہ کے میدان میں چھوڑ گئے۔ اس وقت اسماعیل (علیہ السلام) دودھ پیتے تھے۔ ابراہیم (علیہ السلام) ہاجرہ کو یہاں چھوڑتے وقت ایک مشک میں پانی جو رکھ گئے تھے جب وہ پانی ختم ہوچکا اور ہاجرہ اپنے دودھ پیتے بچہ کی پیاس سے بہت پریشاں ہوئیں تو آخر جبرئیل (علیہ السلام) نے زمزم کے مقام پر اپنا پر مارا جس سے زمزم کا چشمہ نکلا۔ اور اس پانی کے سبب سے قبیلہ جرہم کے لوگ اس مکہ کے میدان میں آباد ہوئے۔ اور جوان ہوجانے کے بعد اس قبیلہ میں ایک عورت سے اسماعیل (علیہ السلام) کا نکاح ہوا۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس جرہم قبیلہ کے لوگوں کی بولی بگڑی ہوئی عربی زبان میں تھی اسماعیل (علیہ السلام) نے اس قبیلہ کے لوگوں سے عربی زبان سیکھی۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے اسماعیل (علیہ السلام) کی بولی فصیح عربی میں کردی۔ یہ جرہم بن قحطان قبیلہ سام بن نوح کی نسل میں سے ہے حاصل کلام یہ ہے کہ اس قبیلہ جرہم کے اسماعیل (علیہ السلام) نبی تھے اور اسماعیل (علیہ السلام) کی ہدایت کے موافق عمرو بن لحی کے زمانہ تک یہ لوگ ملت ابراہیمی پر قائم تھے پہلے پہل عمرو بن لحی نے ملت ابراہمی ٢ ؎ کو بگاڑا اور مکہ میں بت پرستی پھیلائی۔ عمرو بن لحی کا قصہ اوپر گزر چکا ہے اور صحیح روایتوں کے حوالہ سے یہ بھی گزر چکا ہے۔ کہ اس عمرو بن لحی نے پہلے پہل مکہ سے ملت ابراہیم کو مٹایا ہے قریش یہ جو کہتے تھے۔ کہ یہ بت پرستی ہمارے بڑوں کا طریقہ ہے اسماعیل (علیہ السلام) کا نام لے کر قریش کو یوں قائل کیا ہے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو بنی اسماعیل کہتے ہیں۔ حالانکہ عمرو بن لحی سے پہلے اصل بنی اسماعیل کا طریقہ یہ نہیں تھا۔ بلکہ وہ تو ملت ابراہیم پر تھے پھر جس طریقہ پر خود اسماعیل (علیہ السلام) اور کئی پشت تک کے بنی اسماعیل نہیں تھے۔ وہ طریقہ بنی اسماعیل کا کیونکر ہوسکتا ہے۔ ھذا ذکر اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ قرآن شریف میں پہلے انبیا اور پہلی امتوں کے قصے ہیں۔ ان سے لوگوں کو نصیحت کرنی چاہئے تاکہ نیکی اور بدی کا انجام لوگوں کی سمجھ میں آوے۔ اور خاص کر قریش کو اسماعیل (علیہ السلام) کے قصہ سے یہ نصیحت پکڑنی چاہئے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو بنی اسماعیل کہتے ہیں۔ اور انہوں نے حضرت اسماعیل اور پہلے کے بنی اسماعیل کے طریقہ کو چھوڑ رکھا ہے۔ (٣ ؎ ایضاً و الترغیب و الترہیب کتاب التوبۃ والزھد ص ١٧٧ ج ٤) (٤ ؎ جامع ترمذی ابواب صفۃ القیمۃ ص ٨٥ ج ٢) (١ ؎ صحیح بخاری باب قول اللہ عز و جل و اتخذاللہ ابراھیم خلیلا ص ٤٧ ج ١) (٢ ؎ تفسیرہذا جلد ہذا ٤٢)

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 حضرت بسع ( علیہ السلام) کا ذکر سورة ٔ انعام ( آیت 86) میں اور حضرت ذوالکفل ( علیہ السلام) کا ذکر سورة انبیاء ( آیت 85) میں گزر چکا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت اسماعیل حضرت الیسع اور ذوالکفل کا تذکرہ ان کے بعد حضرت اسماعیل اور حضرت الیسع اور حضرت ذوالکفل کا تذکرہ کرنے کا حکم فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ یہ سب اچھے بندے تھے، ان حضرات کا تذکرہ سورة الانبیاء میں گزر چکا ہے نیز سورة الانعام کے رکوع (وَتِلْکَ حُجَّتُنَآ اٰتَیْنٰھَآ اِبْرٰھِیْمَ عَلٰی قَوْمِہٖ ) کی تفسیر بھی دیکھ لی جائے۔ (ھٰذَا ذِکْرٌ) یعنی یہ جو کچھ بیان ہوا ایک نصیحت کی چیز ہے جس کو یاد رکھنا چاہیے اور اس کے مقتضاء پر عمل کرنا چاہیے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

39:۔ ” وَ اذْکُرْ اِسْمٰعِیْلَ الخ “۔ یہ پانچویں نقلی دلیل ہے۔ ہمارے بندوں اسمعیل، الیسع، اور ذوالکفل کا ذکر بھی کرو یہ سب نیک اور برگزیدہ بندے تھے۔ ” ھٰذَا ذِکْرُ “ انبیاء (علیہم السلام) کا ذکر خیر سراپا عبرت و نصیحت ہے دنیا میں اگر ان پر خیر سراپا عبرت و نصیحت ہے دنیا میں اگر ان پر کوئی تکلیف آتی ہے تو محض آزمائش کے لیے ورنہ آخرت میں تو ان کا مرتبہ بہت بلند ہوگا۔ ” وَاِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ ۔ تا۔ مِنْہُ مِنْ نَّفَاد “۔ یہ بشارت اخروی ہے عام متقی اور پرہیز گار لوگوں کے لیے۔ اس سے انبیاء (علیہم السلام) کی شان کا اندازہ لگا لینا چاہئے کہ ان کو تو اس سے بھی زیادہ نعمتیں میسر ہوں گی۔ اللہ کے احکام کی اطاعت کرنے والوں اور اس کی نافرمانی سے بچنے والوں کا انجام اچھا ہوگا۔ آخرت میں ان کو دائمی نعمتوں کے باغات (جنات عدن) عطا ہوں گے جن کے دروازے ان کی آمد سے پہلے ہی کھول دئیے جائیں گے۔ وہ ان میں کوچوں پر تکیہ لگائے آرام کریں گے۔ اور قسم قسم کے میوے اور مشروبات سے ان کی تواضع ہوگی۔ وہاں انہیں پاکدامن، عفیف اور ہم عمر بیویاں ملیں گی۔ اور ان سے کہا جائے گا، یہ تمام نعمتیں وہی ہیں جن کا تم سے دنیا میں وعدہ کیا گیا تھا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(48) اور اے پیغمبر آپ اسماعیل اور الیسع اور ذوالکفل کو بھی یاد کیجئے اور یہ سب بھی اچھے اور بہترین لوگوں میں سے تھے حضرت الیسع (علیہ السلام) حضرت الیاس (علیہ السلام) کے خلیفہ اور نائب ہیں پھر بعد کو نبی ہوئے اور حضرت الیسع کے چچا زاد بھائی ذوالکفل ہیں ان کی نبوت میں اہل علم کو اختلاف ہے۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) مشہور اور اولوالعزم نبی ہیں ان سب کو اس لئے یاد دلایا کہ یہ سب بڑے صابر اور ضابط تھے اور اصبر علی مایقولون کی مناسبت سے ان کا ذکر کیا گیا، یا دوسری مصلحتوں کی بنا پر ان کا ذکر فرمایا ہو کہ اس قدر بڑے مرتبے والے بھی دارآخرت کی یاد میں منہمک تھے تو عرب کے منکر اس سے کیوں غفلت برت رہے ہیں۔